گردن کے مسح کا استحباب ،حصاروی صاحب کی زبانی
مفتی رب نواز صاحب حفظہ اللہ ، مدیر اعلیٰ مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
چھیڑنے کو جی
چاہتا ہے
مولانا عبد القادر حصاروی
غیرمقلد نے ’’ مولانا کھنڈیلوی سے خطاب ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا:
’’مسئلہ مسح گردن
جی چاہتا ہے
چھیڑ کے ہوں ان سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی
دیر سوال و جواب میں
صحیفہ اہلِ حدیث مطبوعہ یکم و
۵؍ذو الحجہ سنہ : ۷۴ھ میں مسئلہ گردن کے متعلق جناب حضرت مولانا المحترم عبد
الجبار صاحب محدث کھنڈیلوی مدظلہ العالی حال مقیم اوکاڑہ شیخ الحدیث کا ایک مضمون
شائع ہوا ۔ ‘‘(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۱۹، ناشر :عبد اللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث
اردو بازار لاہور )
مسح گردن کو بدعت کہنے کی جسارت کرنے والے
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’جس میں حضرت والا نے حنفیہ کے
مسح گردن مروجہ کو بدعت قرار دیا ہے اور آپ اس میں منفرد نہیں۔ دیگر علماء اہلِ
حدیث کا بھی یہی خیال ہے۔ چنانچہ جماعت اہلِ حدیث کے مفتی اعظم حضرت فاضل اجل
مولانا الحاج حافظ عبد اللہ صاحب محدث روپڑی ادام اللہ فیوضہم و برکاتہم کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ آپ نے
نماز کے بارے میں ایک کتاب ’’ کتاب الصلوۃ ‘‘ کے نام سے شائع فرمائی ہے ،اس کے حصہ
اول میں وضو کا بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گردن کا مروجہ مسح بدعت ہے لیکن
کمترین خادم العلماء کو اس کے بدعت ہونے میں تامل ہے کیوں کہ اس بارے میں بعض
روایات وارد ہیں جو اِس کے بدعت ہونے سے مانع ہیں ۔‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۰)
گردن کے مسح کا استحباب ملاعلی قاری رحمہ اللہ کے حوالہ
سے
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’مولانا الفقیہ رئیس الاحناف حضرت ملا علی قاری موضوعات ِ
کبیر ص ۶۳ میں امام نووی پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ مسح گردن
کی حدیث کو ابو عبید قاسم نے قاسم بن عبد الرحمن سے روایت کیا اور انہوں نے حضرت
موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے اپنی گردن کا مسح سر کے ہمراہ کیا، وہ
گردن میں طوق پڑنے سے محفوظ رہے گا۔ یہ حدیث گو موقوف ہے لیکن حکم مرفوع میں ہے
کیوں کہ ایسی بات قیاس سے نہیں کہی جا سکتی اور اس کواس روایت سے بھی تقویت حاصل
ہے جو مسند الفردوس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ لیکن اس کی
سند ضعیف ہے اورضعیف احادیث پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف
بالاتفاق قابل عمل ہے۔ اسی لیے ہمارے اماموں نے کہا ہے کہ گردن کا مسح مستحب یا
سنت ہے۔ ‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۰)
منتقی الاخبارمیں گردن کے
مسح کا باب
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ملاعلی قاری کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ منتقی الاخبار میں
ایک باب منعقد کیا گیا ہے ’’باب مسح العنق ‘‘یعنی یہ باب گردن کے مسح کے بیان میں
ہے۔ پھر اس کے تحت وہی حدیث ذِکر کی ہے جو حضرت مولانا نے امام احمد کی روایت سے
ذِکر کی ہے یمسح راسہ حتی بلغ الی القفا
وما یلیہ من مقدم العنق، یعنی سر کا مسح کرتے تو گدی اور اس کے ماحول اور گردن کے
شروع تک کرتے۔ اس سے گدی اور گردن کا مسح ظاہر ہے ۔ ‘‘(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۰)
گردن کے مسح کو بدعت کہنا بے تکی بات ہے (علامہ شوکانی)
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ان تمام روایا ت کو نقل کرنے
کے بعد علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وبجمیع ھذا تعلم ان قول النووی مسح الرقبہ بدعۃ وان
حدیثہ موضوع مجازفۃ یعنی ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ امام نووی کا یہ کہنا
کہ گردن کا مسح بدعت ہے اور اس بارہ میں جو حدیث وہ موضوع ہے، محض اٹکل اور بے تکی
بات ہے ۔‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۱)
ابن الرفعۃ اور حافظ ابن حجر کا حوالہ
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’پھر علامہ شوکانی نے امام نووی کی اس بات پر بھی بڑا تعجب
ظاہر کیا ہے کہ وہ امام شافعی اور اصحاب شافعیہ سے اس مسح کا عدم ذِکر نقل کرتے
ہیں۔ حالاں کہ امام رؤیانی نے جو اَصحاب شافعی میں سے مشہو ر ہیں، اپنی کتاب
المعروف بالبحرمیں لکھا ہے : قال اصحابنا ھو سنۃ کہ ہمارے اصحاب شافعیہ نے مسح
گردن کا سنت قرار دیا ہے۔ پھر امام نووی کا ابن الرفعہ نے بھی تعاقب کیا ہے کہ
امام بغوی جو ائمہ حدیث میں سے وہ اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ اور پھر یہ کہا
ہے کہ استحباب کا ماخذ حدیث یا کسی صحابی کا قول ہی ہو سکتاہے قیاس کو تو اس مسئلے
میں مجال نہیں ہے۔ پھر علامہ حافظ ابن حجر سے نقل کیا ہے کہ حافظ صاحب نے فرمایا
ہے بغوی کی استحباب مسح میں وہی حدیث دلیل ہے جو امام احمد اور ابوداود نے روایت
کی ہے جس کو ابن سید الناس نے شرح ترمذی میں بیہقی کی طرف نسبت کیا ہے اور کہا ہے وفیہ زیادۃ حسنۃ وھی مسح العنق یعنی بیہقی
کی روایت میں مسح عنق کی زیادتی اچھی ہے ۔ ‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۱)
گردن کے مسح کی زیادتی معتبر ہے
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’پھر علامہ شوکانی فرماتے ہیں : فانظر کیف صرح ھذا الحافظ بان ھذہ الزیادۃ المتضمنۃ لمسح
العنق حسنۃ یعنی ( اے
مولوی عبد الجبار !)آپ غور کرلیں کہ حافظ ابن حجر نے کیسے تصریح کی ہے کہ اس روایت
میں مسح عنق کی زیادتی اچھی ہے۔ ‘‘ پھر علماء ہادیؒ قاسم گردن کا مسح سر کے بقیہ
پانی سے کرنے کے قائل ہیں اور موید باللہ اور منصور باللہ تازہ پانی کے ساتھ مسح
کرنے کے قائل ہیں۔ ‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۱)
o
قوسین کے الفاظ ’’اے مولوی عبد الجبار !‘‘ بھی
فتاویٰ حصاریہ کے ہیں۔
شوکانی کی تحقیق کو روپڑی اور کھنڈیلوی پر ترجیح حاصل ہے
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’یہ امام شوکانی کی تحقیق ہے جو ہر دو فاضلوں (مولانا
کھنڈیلوی و حافظ روپڑی ) کے خلاف ہے۔اگر مجتمع العلماء میں ہر دو فریق کی تحقیقات
پیش کی جائیں تو میرا خیال یہ ہے کہ علامہ شوکانی کی تحقیق کو ترجیح دی جائے گی
کیوں کہ علمی پایہ ان کا بہت بلند ہے۔ اور وہ محقق اہلِ حدیث ہیں جن کی قابلیت
مسلّم ہے۔ پس مؤلف منتقی و امام بغوی
و حافظ ابن حجر و علامہ شوکانی بہ ہمراہ فقہاء حنفیہ و بعض اصحاب شافعیہ مسح گردن
کے استحباب کے قائل ہیں لہذا بدعت کا قول مجازفت ہے۔ پس مخاصمت و مجاحفت سے محاذرت
فرما کر جرم بدعت سے مجاوزت فرمائیں۔‘‘(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۲)
گردن کے مسح کو بدعت کہنے والے اپنے فتوے پہ نظرثانی
کریں
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’جب مقلدین سے ہماری مجاورت ہے تو مجاملت چاہیے۔ ہمارے
علماء محاسبہ میں مجاہدہ کریں گے تو مقلدین محاسفہ سے کام لے کر مجادلہ کریں گے۔
جس سے خوامخواہ کا محاربہ پیدا ہو جائے گا۔اس لیے نظر ثانی فرماکر تحقیقی مکالمہ
فرمائیں جس سے مکاشفہ ہو جائے۔ ‘‘(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۲)
گردن کے مسح کی روایات احادیث صحیحہ کے خلاف نہیں
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’اور یہ جو ظاہر کیا گیا ہے کہ روایات احادیث ِصحیحہ کے
خلاف ہیں، قابل ِ نظر ہے۔ کیوں کہ کسی صحیح حدیث میں مسح گردن کی نفی وارد نہیں
بلکہ وہ ثبوت اور نفی سے ساکت ہیں۔ ساکت اور ناطق میں تعارض نہیں ہوتا، بلکہ ناطق
مقدم ہوتا ہے۔ محلی ابن حزم میں ہے واخذالزیادۃ واجب۔ ( ج ۴ص۹۳) یعنی جس روایت میں کوئی زائد بات مذکور ہو
اس کا لینا واجب ہے۔ نیز لکھا ہے واخذالزیادۃ فرض لایجوز ترکہ لان الزیادۃ حکم قائم بنفسہ
رواہ من علمہ ولا یغیرہ سکوت من لم یروہ عن روایتہ کسائر احکام کلھا ولا فرق یعنی جن
روایتوں میں کسی چیز کی زیادتی ہے، ان کا لینا واجب ہے اور ان کا چھوڑنا جائز نہیں
ہے کیوں کہ زیادت کا حکم مستقل ہے، جس کو جس نے جان لیا اس نے روایت کر دیا۔ اور
جن لوگوں نے سکوت کیا ہے، وہ غیروں کو مضر نہیں ہے جیسے تمام احکام کا یہی حال ہے کما لا یخفی علی العلماء۔ ‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۲)
o
تنبیہ:’’لا یغیرہ ‘‘کاترجمہ فتاویٰ حصاریہ میں
یوں ہی ’’وہ غیروں کو مضر نہیں ‘‘ ہے ۔اسے کوئی نقل کی غلطی نہ سمجھے۔
مسح گردن کے استحباب کی روایات
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’مسح گردن کا احادیث ِصحیحہ میں نہیں ہے تو اس عدم ِذکر سے
عدم ِشے لازم نہیں ہے۔ اب دیگر روایات سے ثبوت ہو گیا، تو اس زیادت کو تسلیم کیا
جائے گا۔ باقی رہا ان کا ضعاف ہونا، سو وہ استحباب کومضر نہیں ہے ۔ کیوں کہ فضائل
اعمال میں ضعیف روایت معتبر ہے۔ احکام میں معتبر نہیں کما لا یخفی علی اھل العلم
باصول الحدیث ۔حضرت
مولانا المحترم کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ اس مسئلہ پر نظر ثانی فرمائیں ۔
‘‘(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۳)
مسح گردن میں کیفیت کا غیر منصوص ہونا، مضر نہیں
حصاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’باقی رہا یہ امر کہ ہیئت مروجہ بدعت ہے، سو عرض ہے کہ مسح
گردن کا جب مستحب ہوا تو اس کے کرنے کی کیفیت منصوص نہیں ہے۔ جس طرح کوئی کر لے
مسح کا اطلاق اس پر صحیح ہوگا۔ ظاہر کفین سے مسح اس لیے کیا جاتا ہے کہ باطن کفین
پر تری ختم ہو جاتی ہے اور ظاہر کفین پر پانی کی تری موجود ہوتی ہے۔ اس لیے ظاہر
کفین سے مسح کر لیا جاتا ہے ، جس میں کوئی قباحت نہیں آتی۔ ہاں بندہ نے خود کبھی
مسح گردن کا نہیں کیا۔ البتہ کرنے والوں کومنع کرنے اور بدعت کہنے سے پرہیز ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
والیہ المرجع والمآب۔عبدالقادر حصاروی ۔ ‘‘
(فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۳)
o تنبیہ:حصاروی صاحب کا یہ فتویٰ پہلے
صحیفہ اہل حدیث کراچی جلد ۳۶شمارہ : ۱ مورخہ یکم محرم الحرام سنہ : ۱۳۷۵ھ میں شائع
ہوا ہے ۔ (فتاویٰ حصاریہ ۳؍۲۳)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں