سجدوں کے رفع
الیدین کا اثبات ،مولانا محب اللہ شاہ راشدی کی زبانی
رفع
یدین عند السجود اور محدثین ِ کرام
مفتی رب نواز صاحب حفظہ اللہ مدیر اعلیٰ مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مولانا محب
اللہ شاہ راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ رفع الیدین فی السجود کی حدیث کو
حافظ ابن حجر صحیح کہتے ہیں... رفع الیدین فی السجود کو کئی متقدم محدثین کرام نے
صحیح کہا ہے جیسا کہ ابن حزم وغیرہ ۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۶۰، المکتبۃ الراشدیۃ نیو سعید آباد سندھ)
اثبات اور ترک کی روایتیں مختلف اوقات پہ محمول ہیں
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
’’رفع الیدین فی السجود والی احادیث
اور جن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدوں میں رفع الیدین نہیں کیا۔ ان
دونوں کو بھی مختلف الاوقات پر محمول کرکے جمع کیا جا سکتا ہے۔ کمالا یخفی علی اولی النھی۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۶۰)
راشدی صاحب
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ چوں کہ
سجدے میں جاتے وقت اور دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کا ذِکر ہے اور حضرت عبد
اللہ بن عمر کی روایت (جو کہ بخاری شریف و دیگر کتب میں ہے ) سے بین السجدتین رفع
الیدین کی نفی معلوم ہو دونوں احادیث کو جمع کیا جائے تو تطبیق آسانی سے معلوم ہو
سکتی ہے یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مختلف اوقات پر محمول کئے جائیں
یعنی کبھی بین السجدتین رفع الیدین کرتے تھے، کبھی نہیں کرتے تھے۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۱۷۵)
راشدی صاحب
مزید لکھتے ہیں:
’’ ان میں
جمع کی صورت صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ صحابی نے آپ کو کبھی اس موضع پر رفع
الیدین کرتے دیکھا اور کبھی نہ دیکھا۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۱۷۶)
سجدوں کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت ہے
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ سجدوں میں
رفع الیدین کرنا صحیح سند سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۶۲)
سجدوں کے رفع یدین کا انکار محض مکابرہ اور ضد ہے
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ علاوہ
ازیں یہ کہنا کہ یہ فعل یعنی رفع الیدین فی السجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے
بر خلاف ہے ،وہ بھی مسلّم نہیں ہے بلکہ صحیح احادیث وارد ہیں جن میں رفع الیدین فی السجود وارد ہے
جیسا کہ نیچے معلوم ہوگا۔ مقصد (یہ ہے) کہ سجدے کی طرف جاتے وقت خواہ دونوں سجدوں
کے درمیان بھی رفع الیدین کرنا سنت ہے۔اس کے انکار کو محض مکابرہ اور ضد سے تعبیر
کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۱۷۵)
سجدوں کے رفع یدین کی پہلی حدیث
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ حدیث اول
: ہیثمی مجمع الزوائد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ
ان النبی صلی
اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند التکبیر للرکوع و عند التکبیر حین یھوی ساجدا
رواہ الطبرانی فی الاوسط وھو فی الصحیح الا التکبیر للسجود۔بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم ہاتھ مبارک اُٹھاتے تھے جس وقت تکبیر کہتے رکوع کے لیے اور جس وقت تکبیر کہہ
کر سجدے کے لئے جھکتے تھے۔ یہ روایت طبرانی اوسط میں لائے ہیں اور صحیح (بخاری
وغیرہ ) میں یہی روایت ہے لیکن اس میں سجدہ کے وقت رفع الیدین کا ذِکر نہیں ہے اور
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ لہذا خود عبد اللہ بن عمر سے بھی روایت کی نفی بھی ہے ان
میں جمع کی صورت صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ صحابی نے آپ کو کبھی اس موضع پر رفع
الیدین کرتے دیکھا اور کبھی نہ دیکھا۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۱۷۶)
سجدوں کے رفع یدین کی دوسری حدیث
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ (۲) بیہقی
اپنی سنن کبری میں لاتے ہیں کہ اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ ثنا علی بن حمشاد قال و اخبرنی
ابو سعید احمد بن یعقوب الثقفی قال انبانا محمد بن ایوب انبانا مسدد بن خالد بن
عبد اللہ ثنا عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ
علیہ وسلم قال الی الصلوۃ فذکر الحدیث وفیہ فلما رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ فلما
سجد رفع یدیہ فسجد بینھما الحدیث ‘‘ اور خبر دی ہمیں ابو عبد اللہ الحافظ نے،اس نے حدیث
لی علی بن حمشاد سے ۔کہا ( ابو عبد اللہ نے ) اور خبر دی مجھے ابو سعید احمد بن
یعقوب ثقفی نے۔ دونوں نے کہا ہمیں بتایا محمد بن ایوب نے ( اس نے کہا ) خبر دی
ہمیں مسدد نے ( اس نے کہا خبر دی خالد بن عبد اللہ نے ) اس نے کہا کہ حدیث بیان کی
ہمیں عاصم بن کلیب نے اس نے اپنے والد سے اور اس نے حضرت وائل بن حجر سے کہ بے شک
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے پھر حدیث بیان کی۔اس میں اس
طرح ہے کہ پھر جب آپ نے سر مبارک رکوع سے اُٹھایا تو ہاتھ اُٹھائے اور پھر جب سجدے
کے لیے جھکے تو بھی ہاتھ اُٹھائے، پھر دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدہ کیا۔ اس حدیث
کی سند بھی حسن ہے اس میں سجدہ کے لیے جاتے وقت رفع کا ذِکر ہے ۔ حضرت وائل رضی
اللہ عنہ بن حجر سے ہے۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍۱۷۶)
سجدوں کے رفع یدین کی تیسری حدیث
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ تیسری
حدیث نسائی شریف میں وارد ہے اس کی سند اس طرح ہے اخبرنا محمد بن المثنی حدثنا ابن
عدی عن شعبۃ عن قتادۃ عن نصر بن عاصم عن مالک بن الحویرث انہ رای النبی صلی اللہ
علیہ وسلم رفع یدیہ فی صلوتہ واذا رکع واذا رفع راسہ من الرکوع واذا سجد واذا رفع
رأسہ من السجود حتی یحاذی بھما فروع اذنیہ، خبر دی ہمیں محمد بن المثنی نے (اس نے کہا کہ ) حدیث
بیان کی ہمیں ابن عدی نے، اس شعبۃ سے شعبہ نے قتادہ سے ، وہ نصر بن عاصم سے وہ
مالک بن حویرث سے کہ بے شک اس نے دیکھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے شروع نماز میں ہاتھ اُٹھائے، اور جس وقت رکوع سے سر مبارک
اُٹھایا اور جب سجدہ کے لئے جھکے اور جب سجدہ سے سر مبارک اُٹھایا تو کانوں کی لَو
تک اُٹھائے۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۹ ؍
۱۷۶،۱۷۷)
سند میں شعبہ کو تصحیف قرار دینے کا اعتراض
راشدی صاحب
نے نسائی کی مذکورہ حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے لکھا :
’’ یہ حدیث
بالکل صحیح سند سے ہے اس میں صاف صاف سجدے کے لیے جاتے وقت اور دو سجدوں کے درمیان
ہاتھ اُٹھانے کا ذِکر ہے لیکن ان جگہوں پر رفع الیدین سے منع کرنے والے کہتے ہیں
کہ اس کی سند میں جو ابن عدی کے بعد شعبہ کا ذِکر ہے وہ غلط اور تصحیف ہے ۔ بلکہ
اس کی جگہ پر سعید (یعنی ابن ابی عروبۃہے ) اس لیے چوں کہ قتادہ کی تدلیس کا خطرہ
ہے لہٰذا حدیث کی سند صحیح نہ ہوئی۔ اس وجہ سے کہ جو روایت قتادہ کی امام شعبہ سے
ہو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ قتادہ سے کوئی بھی روایت اس وقت تک نہ لے گا جب تک
سماع کی تصریح نہ کرے۔ اس وجہ سے شعبہ کے واسطہ والی روایت میں قتادہ چاہے عن سے
روایت کرے لیکن وہ سماع پر محمول ہوتی ہے ۔لیکن شعبہ کے علاوہ کوئی دوسرا راوی ہے
جو قتادہ سے آخد ہے تو اس صورت میں اگر قتادہ سے روایت کرے تو اس میں تدلیس کا
خطرہ رہتا ہے اور اس کی تدلیس تیسرے درجے کی ہے۔تیسرے درجے کی تدلیس والوں کی حدیث
تصریح سماع کے بغیر مقبول نہیں ہو سکتی۔ بہرحال اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث
کی سند میں امام شعبہ جو قتادہ کا شاگر ہے اور اس سے لینے والا اس کا نام غلطی سے آگیا
ہے ۔ ورنہ اصل میں سعید (بن ابی عروبۃ ) ہے اور اس لیے چوں کہ قتادہ عن سے روایت
کرتا ہے لہذا اس کی روایت جس (میں ) تدلیس کا شبہ ہے لہذا یہ حدیث صحیح نہ رہی۔ یہ
حضرات اپنے دعویٰ میں درج ذیل دلیل پیش کرتے ہیں۔(۱)کہ نسائی سے حافظ ابن حزم اپنی
محلی میں وہی روایت لائے ہیں ( یعنی مالک بن حویرث کی) اور سند بھی وہی ہے لیکن
ابن حزم ابن عدی کے بعد سعید بن ابی عروبۃ ذِکر کرتے ہیں کہ شعبہ ۔حالاں کہ شعبہ
کا واسطہ ابن ابی عروبہ کی نسبت زیادہ قوی ہے۔ پھر قوی کو چھوڑ کر کمزور کو ذِکر
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شعبہ کا وہاں واسطہ ہے ہی نہیں۔ ( ۲) ابن ابی عرویۃ عن قتادۃ الخ والی روایت
کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اصح ما وقفت علیہ یعنی سجود میں رفع الیدین کرنے
والی روایات میں یہی زیادہ صحیح حدیث ہے جس سے میں آگاہ ہوا ہوں۔ پھر اگر اس روایت
میں قتادہ سے آخذ شعبہ ہوتا تو اس کے بارے میں کہتا اصح ما وقفت علیہ نہ کہ ابن
ابی عروبۃ والی روایت کے بارے میں اس سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں شعبہ کا
واسطہ نہیں ہے۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ :۹؍۱۷۷،۱۷۸)
مذکورہ اعتراض کا جواب
راشدی صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’اس دلیل پر
کلام کرنے سے قبل شعبہ کے واسطہ کے صحیح ہونے پر دلیل پیش کرتے ہیں ملاحظہ کریں۔
(۱)کہ مالک بن حویرث کی روایت امام شعبہ کے واسطہ سے خودد ابو داود میں موجود ہے
گویا شعبہ کا شاگرد یہ نہیں ہے جو کہ نسائی میں ہے اور گویا کہ سجدہ میں جاتے وقت
اور دونوں سجدوں کے درمیان رفع کا ذِکر نہیں ہے لیکن یہ زیادتی ثقہ ( ابن ابی عدی
) کی ہے جو مقبول ہے۔ اسی طرح بیہقی بھی سنن کبریٰ میں فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن
الحویرث کی روایت امام شعبہ سے بھی آئی ہوئی ہے۔ بہرحال یہ بات تو پایہ ثبوت کو
پہنچی کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قتادہ سے آخذ شعبہ بھی ہے ۔باقی
رہی یہ بات کہ نسائی شریف میں جس زیادتی سے روایت ہے اس میں بھی شعبہ کا واسطہ ہے
یا نہیں اس کے لیے دلیل نمبر ۲ ملاحظہ کریں۔ ( ۲) حافظ مزی نے تحفۃ الاشراف میں
حضرت مالک بن الحویرث کی سند اس طرح روایت (یعنی شعبہ عن قتادۃ )کی نسبت
نسائی شریف کی طرف کی ہے یعنی نسائی شریف والی زیر بحث روایت میں امام شعبہ کا
واسطہ ہے۔ ( ۳) نسائی شریف کا کوئی بھی ایسا نسخہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا جس سے
شعبہ کے واسطے کے بجائے سعید بن ابی عروبہ کا واسطہ ہو۔ بلکہ ہندی خواہ مصری نسخوں
میں شعبہ کا ہی ذِکر ہے۔ البتہ اگر نسخوں میں اختلاف ہوتا تو پھر شک کی گنجائش ہو
سکتی تھی۔ باقی حافظ ابن حزم کے متعلق اوپر جو کہا گیا ہے۔ اس محلی میں نسائی سے
یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس نے سعید بن ابی عروبہ کا واسطہ ذِکر کیا ہے نہ کہ شعبہ
کا ۔ لہٰذا اس کے متعلق گذارش ہے کہ حافظ ابن حزم محلی میں جو امام نسائی سے روایت
لائے ہیں اس میں یہ تصریح نہیں کی کہ یہ روایت نسائی کی سنن صغریٰ المعروف مجتبیٰ
سے نقل کی ہے یا سنن کبریٰ سے۔ کیوں کہ عام طور پر حافظ موصوف صرف امام نسائی کا
نام احمد بن شعبہ [ شعیب ( ناقل )]ذِکر کرتا ہے اور محلی کا تتبع کرنے سے معلوم
ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر جو روایات امام نسائی سے لاتے ہیں وہ سنن صغریٰ (متداول
نسائی ) میں موجود نہیں ہے دیکھئے جلد ۶ صفحہ ۸۳پر ۔ دونوں سندیں حدیث کی موجود
ہیں اگر امام نسائی سے لائی گئی ہیں لیکن ان کے بارے میں محشی صاحب لکھتے ہیں: ’’
ھذہ الاسانید الثلاثۃ لحدیث ابی المطوس لم اجدھا فی النسائی و لعلھا فی السنن
الکبری ‘‘ یعنی حدیث ابی المطوس کی یہ سندیں مجھے نسائی شریف میں نہیں ملیں شاید
کہ سنن کبریٰ میں ہوں۔مطلب کہ حافظ صاحب موصوف نے محلی میں امام نسائی سے روایات
نقل کرنے میں کوئی بھی تفریق ( صغری اور کبری ) کے درمیان میں نہیں کی۔ پھر ہو
سکتا ہے کہ اس زیر ِ بحث حدیث میں بھی جو اسناد ذِکر کی ہیں وہ بھی کبری سے لی گئی
ہوں، نہ کہ موجودہ سنن نسائی سے۔ اگر کہا جائے کہ ابن حزم نے سعید بن ابی عروبہ سے
بھی آخذ ہے تو پھر ابن ابی سعید بھی آخذ ہونا چاہیے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کوئی
ضروری نہیں کہ ایک کتاب سے نقل کردہ اسناد میں سے کسی سند سے توافق ہے تو خوامخواہ
اس دوسری کتاب باقی سندیں بھی اس پہلی کتاب سے بالکل موافق ہوں۔ لہٰذا اگر سنن
کبری سے نقل کردہ سندوں میں سے کوئی ایک سند سنن صغری سے متفق ہے تو اس کا یہ مطلب
کہاں سے نکلتا ہے کہ باقی سندیں بھی متفق ہیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ حافظ ابن حزم
نے شعبہ کے واسطے والی روایت کیوں نقل نہیں کی؟ حالاں کہ یہ ابن ابی عروبہ والی
روایت سے اصح تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ صاحب موصوف کے نزدیک تیسرے درجے کے
مدلسین کا کوئی مسئلہ نہیں ہے یہی سبب ہے کہ اس ( باب رفع الیدین ) میں دیگر بھی کئی ابواب میں مدلس رواۃ کی روایات نقل
کرتے ہیں اور ان پر صحت کا حکم لگاتے ہیں۔ اگرچہ سماع کی تصریح انہوں نے بھی نہ کی
ہو۔ محلی کا تتبع کرکے دیکھیں تو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے حضرت انس سے
جو روایت سجدہ میں رفع الیدین کے بارے میں لائے ہیں اس پر محشی (حافظ صاحب موصوف
کے طریقہ پر ) حکم لگاتے ہیں کہ ’’ھذا اسناد صحیح جدا ‘ ‘ یعنی یہ
بالکل صحیح اسناد ہے ۔ حالاں کہ اس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راوی حمید ہے جو
کہ تیسرے درجہ کا مدلس ہے اور روایت عن سے کرتا ہے ۔ بہرحال اگرچہ قتادہ پر تدلیس
حافظ صاحب کے نزدیک قادح علت نہیں تھی تو پھر سعید کے واسطہ والی روایت ذِکر کی تو
کیا یہ شعبہ کے واسطہ والی ذِکر کرتا تو کیا دونوں صورتوں میں حدیث (حافظ صاحب کے
نزدیک ) صحیح ہے۔ خلاصہ کلام کہ حافظ ابن حزم کا شعبہ کے واسطے کو ذِکر کرنا نہ
کرنا اس پر قاطع دلیل نہیں ہے کہ واقعی اس روایت میں اس کا واسطہ ہے یا نہیں۔ رہا
حافظ ابن حجر کا سعید والی روایت کے بارے میں کہنا کہ ’’ اصح ما وفقت علیہ الخ ‘‘ لہٰذا وہ
بھی کوئی شعبہ کے واسطہ کی نفی کے لیے دلیل قطعی نہیں ہے کیوں کہ حافظ صاحب سے
سہواً اس طرح لکھ دیا گیا ہوگا کیوں کہ ہر وقت ہر بات انسان کے ذہن میں رہے مشکل
ہے لیکن محال ہے اور پہلے لکھ چکے ہیں کہ حافظ ابو الحجاج مزی نے شعبہ کے واسطہ
والی روایت کی نسبت امام نسائی کی طرف کی ہے اور حافظ مزی حافظ ابن حجر سے اقدم ہے
اور حافظ ابن حجر کا شعبہ کے واسطے کے متعلق انکار نظر سے نہیں گذرااور نہ ہی
انکار کی کوئی دلیل مذکور ہے۔علاوہ ازیں اگر شعبہ کے واسطہ والی روایت سے قطع نظر
بھی کی جائے تب بھی صرف سعید والی روایت کو اصح کہنا محل نظر ہے کیوں کہ حافظ ابن
حزم نے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت تحریر کی ہے وہ بھی اس کے ہم پلہ ہے
کیوں کہ اس میں صرف حمید کی تدلیس کا خطرہ ہے باقی دوسری سند میں کوئی بھی علت
نہیں ہے جس طرح اس سعید والی روایت میں صرف قتادہ کی تدلیس کا شبہ ہے پھر صرف
قتادہ کی تدلیس کا شبہ ہے پھر صرف سعید والی روایت اصح نہ رہی بلکہ اس کے ساتھ
حمید والی روایت بھی اس میں مشارک ہے۔ بہرحال اگر حافظ صاحب نے فرمایاتو ان سے سہو
ہو گیا ہے۔ بہرحال زیر بحث حدیث کی سند سے شعبہ کے واسطہ کی نفی کرنے کے لیے کوئی
بھی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی گئی اور ادہر جمیع نسخوں میں یہ واسطہ موجود ہے اور
حافظ مزی نے نسائی شریف میں اس کے وجود پر صادر کیا ہے۔ بہرحال صحیح یہی بات ہے کہ
یہ روایت شعبہ کے واسطہ سے ہے۔ بہرحال یہ بالکل صحیح حدیث ہے جو سجدہ میں رفع
الیدین کے بارے میں وارد ہے۔ یہ بحث ضمناً آ گئی ۔ اصل مقصد یہ تھا کہ اگر اس
روایت کی صحت پر زور دیا جائے تو اس میں سجدے میں رفع کا ذِکر ہے اس کا بھی قائل
ہونا چاہیے ورنہ حدیث کو صحیح قرار دینا اور اس کے محتویات کو ناقابل ِ عمل قرار ٹھہرانا
بالکل بے اصولی ذہنی انتشار ہے ۔‘‘
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں