نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حافظ ابویحییٰ نورپوری غیرمقلد اہل حدیث کی کتاب " نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ" پر ایک علمی نظر

 

مولانا عبد الرحمٰن عابد صاحب حفظہ اللہ                                                              

حافظ ابویحییٰ نورپوری  غیرمقلد کی کتاب
" نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ" پر ایک علمی نظر

مولانا عبد الرحمٰن عابد صاحب حفظہ اللہ (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

بسم اللہ والحمدللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد

            جیساکہ عام نمازوں(صلوۃِ مطلقہ) میں فاتحہ پڑھنا یا نہ پڑھنا دورِ اول سے اختلافی چلا آرہا ہے ایسا ہی جنازہ میں بھی یہ مسئلہ اختلافی اور معرکۃ الآراء مسئلہ ہیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس مسئلے کی وجہ سے ایک دوسرے کی نماز کو باطل و کالعدم کہا گیا ہو۔ جیسا جیسا زمانہ قریبِ قیامت ہوا اور فتنوں نے زور شروع کیا تو کچھ عناصر نے مسلمانوں کی صف میں گھس کر ان کی اتفاق و اتحاد کو تس نس کیا اور اپنی پوری توانائی کو اسی مقصد میں خرچ کیا۔اس فتنوں میں ایک فتنہ غیرمقلدیت بھی ہے جو کہ اس لادینیت دور میں بھی سادہ مسلمانوں کو ان مسائل میں الجھا کرنے کی کوشش میں مصروف و مشغول ہیں اور مسلمانوں میں انتشار کی فضا قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ۔ان مسائل میں ان لوگوں نے اپنے خاص نظریے کے مطابق "قرأۃ فی الجنازۃ" مسئلہ کو بھی کھڑا کردیا اور خواہ مخواہ ان مسائل میں الجھنے کی کوشش کی۔

            غیرمقلدین کی کتب پر طائرانہ نظر نہ رکھنے والے حضرات یوں سمجھیں گے کہ غیرمقلدین حضرات بھی ان اہلِ مذاہب کی طرح برحق ہونگے جو مسئلہ فاتحہ فی الجنازہ کے قائل ہیں کیونکہ یہ مسئلہ تو سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین کے دور سے اختلافی چلا آرہا ہیں حالانکہ یہ سوچ بالکل نرالی اور خام خیالی ہے اور حقیقت سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں۔فرقہ اہلحدیث (فی زماننا) اور سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین کے مابین اس مسئلہ اور نظریہ و موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے جس کا بطورِ ثبوت مشت نمونہ از خروارے چند حوالے آپ کے سامنے لاتا ہوں بعونہ تعالی!

 نظریہ سلف صالحین اور غیرمقلدین میں فرق:

1_ سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین اس کو اختلافی مسئلہ جانتے تھے

(شرح صحیح البخاری لابن بطال جلد ۳ صفحہ ۳۱۷)

جبکہ اس کے برعکس غیرمقلدین حضرات اس کو منصوصی غیر متعارضہ مسائل میں سے مانتے ہیں(کما لایخفی علی أھل العلم)

2_ سلفِ صالحین تارکین فاتحہ کی نماز کو باطل نہیں کہتے تھے(المغنی لابن قدامہ جلد ۲ صفحہ ۲۲۶، کتاب القرأت جلد ۲ صفحہ ۱۱۸)

جِبکہ اس کے برعکس غیرمقلدین حضرات برملا یہ اعلان کرتے چلے آرہے ہیں کہ اس کے بغیر نماز باطل ہیں(التحقیقات صفحہ ۶۰۱)

3_ سلفِ صالحین اس(فاتحہ) کو فرض سمجھتے ہوئے نہیں کہتے(صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۷۸، مجموع الفتاوی ج ۱۳ صفحہ ۲۴)

جبکہ غیرمقلدین حضرات اس کو فرض سمجھتے ہوئے پڑھتے ہیں (التحقیقات لابی یزید عبدالقاہر صفحہ ۵۹۹)

4_ بعض سلف صالحین زیادہ سے زیادہ صرف سورۃ الفاتحہ پڑھتے (عمدۃ القاری ج ۸ ص ۱۴۰، الشرح الکبیر مع المغنی جلد ۲ صفحہ ۳۴۶، مجموع الفتاوی لابن تیمیہ جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۸)

جبکہ غیرمقلدین حضرات سورۃ الفاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھنے کے بھی قائل ہیں (نمازِ جنازہ اور اس کے مسائل صفحہ ۱۳۳ رئیس ندوی)

 5_ سلف صالحین بطورِ قرأت کے منکر تھیں مثلاً سفیان ثوری قرأت نہیں کرتے تھے (فقہ سفیان ثوری ۵۸۵) اور ابوبردہ(المتوفی: ۱۰۴ ھ) قرأت نہ کرنے کے فتوے دیتے(مسندالشامین جلد ۳ صفحہ ۲۸۴) خود صحابہ کرام بھی فتوے دیتے تھے کہ قرأت نہیں کرنی چاہیے (دیکھے مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۳ صفحہ ۱۸۲ وغیرہ)

جبکہ غیرمقلدین حضرات تو قرأت کے قائل کیا تارکین القرأۃ کے نمازوں کو باطل کہہ دیتے ہیں اور پھر ان کے نزدیک تارک الصلاۃ کافر ہیں(حکمۃ القرآن لامین اللہ البشاوری) تو بات کہاں سے کہاں تک پہنچتی ہے؟

6_ غیرمقلدین حضرات عام صلوٰۃ مطلقہ اور جنازہ میں فاتحہ پڑھنا یکساں جانتے ہیں(التحقیقات صفحہ ۶۰۱)

جبکہ سلفِ صالحین اس میں فرق کرتے تھے مثلاً

ابوالعالیہ الرباحی البصری(رفیع بن مہران) [المتوفّی ۹۰ ھ یا ۹۳ ھ] رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ فاتحہ تو پڑھنا چاہیے لیکن صرف رکوع و سجود والی نماز میں، نہ کہ بغیر رکوع و سجود والی نماز(یعنی جنازے)میں

"ماکنت احسب ان فاتحة الکتاب تقرأ الا فی صلاۃ فیھا رکوع و سجود "

(دیکھے مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ۲ صفحہ ۳۲۴)

یا بعض سلف عام نمازوں کے لئے تو وضو کے قائل تھے لیکن جنازے میں وضو کے قائل نہ تھے،

مثلاً امام شعبی و امام طبری رحمہما اللہ کا یہ اجتھاد تھا کہ جنازہ بغیر طہارت کے بھی ہو سکتا ہے(دیکھے المجموع شرح المھذب للنووی ج ۵ ص ۲۲۳، باب الصلوۃ علی المیت،بدایۃ المجتھد جلد ۱ صفحہ ۲۵۷ الفصل الخامس فی شروط الصلوۃ علی الجنازۃ، الحاوی الکبیر جلد ۳ ص ۵۲، حلیۃ العلماء فی معرفۃ مذاھب الفقہاء لأبی بکر الشاشی جلد ۲ صفحہ ۲۹۲)

اس تقسیم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالحین عام نماز اور جنازہ کی نماز میں فرق کے قائل تھے۔

            خیر۔۔۔ بات لمبی ہوتی جارہی ہے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غیرمقلدین اور سلف صالحین کی نظریہ میں مشرق و مغرب جتنا فرق ہے۔

غیرمقلدین حضرات کا اصلی دعویٰ:

            غیرمقلدین حضرات کی درجنوں کتب ہم نے کھنگال لیے ان میں جو مشترک بات ہمارے سامنے آئی وہ یوں ہے کہ

" ہمارا (غیرمقلدین کا) دعویٰ یہ ہے کہ جنازے میں سورۃ الفاتحہ اور اس کے ساتھ زائد سورت ملانا بطورِ قرأۃ فرض ہے اس کے بغیر نماز جنازہ باطل یعنی جنازہ نہیں ہوتی"

اس دعویٰ بالا کی روشنی میں غیرمقلدین وہ دلیل پیش کرے گا جس میں مندرجہ ذیل شرائط ہو

1_ جنازہ کا تذکرہ ہو

2_ فرضیت کا تذکرہ ہو

3_ قرأتِ کاملہ کا تذکرہ ہو (یاد رہے صرف سورت الفاتحہ سے دعویٰ مکمل نہیں ہوتا بلکہ فاتحہ و ما زاد علی الفاتحہ(یعنی اس کے ساتھ اضافی سورۃ) دکھانا ہوگا)

4_ اور اس کے بغیر نماز باطل و کالعدم بلکہ عین العدم ہو اور یہ مذکورہ بالا شقیں خود اللہ اور اس کے رسولﷺ سے مصرّح ہو۔

 

ابویحییٰ غیرمقلد کی کتاب کے ٹائٹل  پر ایک نظر :

            اصل مبحث کو جاننے سے پہلے ابویحییٰ نورپوری صاحب غیرمقلد کی کتاب کے ٹائٹل پر ایک عارضی نظر ڈالتے ہیں تاکہ مضمون کے ساتھ ساتھ اس کی ٹائٹل کا بھی پوسٹ مارٹم ہو جائے اور اس کی حقیقت معلوم ہو جائے۔موصوف نے کتاب کا نام رکھا ہے

" نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ فرض، مستحب یا مکروہ تحریمی ؟ "

اولاً: قارئین کرام خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ غیرمقلدین کا اصل مؤقف کیا ہے اور مصنف(نورپوری صاحب) نے کیا ظاہر کیا ہے؟مسئلہ یہ نہیں کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا چاہئے یا نہیں۔کیونکہ نفسِ سورۃ الفاتحہ پر تو بحث ہی نہیں اگر کوئی اس کو بطورِ ثناء پڑھے تو اس پر ہمارا بھی اتفاق ہے اس میں اختلاف کس کا ہے؟ (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ان شاءاللہ الرحمن)

مصنف کو چاہیے تھا کہ سورت الفاتحہ کو بطورِ قرأت ثابت کریں۔نیز صرف سورۃ الفاتحہ ہی بطورِ قرأت نہیں بلکہ قرأت کاملہ دکھائیں گے۔ یعنی سورۃ الفاتحہ اور اس کے ساتھ زائد سورۃ بھی دکھائیں گے اور مزید مذکورہ شرائط بھی دکھائیں گے جو اوپر ہم نے باحوالہ قلمبند کیا ہے۔

ثانیاً:  موصوف نے سوالیہ انداز میں کہا ہے کہ فرض، مستحب یا مکروہ تحریمی ؟

تو سب سے اول عرض ہے کہ اب تک تو آپ حضرات اس اصطلاحات کو بدعت کہتے تھے(دیکھے اختصاراً تحفہ حنفیہ ص ۱۲۵ ، مقالاتِ زبیر علی زئی ج ۱ ص ۱۹۵، حنفیوں کے ۳۵۰ سوالات اور ان کے مدلل جوابات ص ۱۲۵) کبھی زندیقیت کہتے ہیں (دیکھے تحفۃ المناظر لامین اللہ البشاوری صفحہ ۱۶۱ پشتو) یہ بدعت اور تزندق کب آپ کے لئے دوبارہ حلال ہوگئے جناب؟

 ثالثاً : آپ نے کتاب میں شاید اس عمل کو فرض ہی قرار دیا ہوگا۔ تو آپ کو اپنا اصول ہی یاد رکھنا چاہیے کہ آپ ہی کے مسلک کے مناظر اور مفتی عبدالقادر حصاری صاحب لکھتے ہیں:

"فرض کا حکم قطعی الثبوت و قطعی الدلالت سے ثابت ہوتی ہے"

(فتاوی حصاریہ جلد ۲ صفحہ ۲۱۳ )

تو آپ اس وصفِ مذکورہ کے ساتھ دلیل لائیں گے جب کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ زمیں تو اوپر

 جاسکتی ہے اور آسمان نیچے آسکتی ہے زمین پھٹ سکتی ہے لیکن غیرمقلدین قیامت تک ایسی دلیل سے عاجز ہے  اور رہیں گے ان شاء اللہ۔آئندہ خود غیرمقلدین حضرات بھی دیکھ لیں گے ان شاء اللہ الرحمن۔

رابعاً : وہ حکم بھی دیکھنا ہوگا کہ اللہ نے لگایا ہے یا رسول اللہ ﷺ نے لگایا ہے یا خود اپنے آپ سے شارع بن کر اس پر حکم لگایا ہے ویسے بھی یہ حضرات تو فقہاء کے اصطلاحات کے منکر ہیں۔

خامساً: جن جن حضرات نے اس کو فرض کے علاوہ یعنی مستحب یا مکروہ تحریمی کہا ہے اس کی شرعی حیثیت اور انکی نماز کی شرعی حیثیت کیا رہ گئی ہے؟

 سادساً: جنہوں نے اس کو مستحب و سنت کہا ہے(جیسے ابن تیمیہ، شمس الحق عظیم آبادی وغیرہ) اور پھر بھی بعض الناس اس کو فرض کہتے ھوئے تھکتے نہیں تو ان کو اپنے ہی مسلک کے معتبر عالمِ دین کا یہ قول تو معلوم ہوگا کہ

"کسی مباح یا مستحب کام کو لازم یا واجب کرلینا شیطان کا اغواء ہے"

(تیسیر الباری جلد ۱ صفحہ ۸۵۲)

سابعاً: وہ دلائل بھی دیکھنے کے قابل ہوں گے کہ کیا واقعی وہ سورت الفاتحہ(باوجود دعویٰ ناقصہ کے) نماز جنازہ ہی میں فرض کہا گیا ہے یا اس قید سے خالی ہے؟

ثامناً: وہ دلیل بھی دیکھنا ہوگا کہ اس میں اللہ یا رسول اللہﷺ کا حکم ہے یا رسول اللہ ﷺ کا نفسِ فعل ہے، خود غیرمقلدین ہی کا اصول ہے کہ فعل وجوب و فرضیت ثابت نہیں کرتا(الحق الصریح جلد ۲ صفحہ ۳۳۴ و ۳۳۵ لأمین اللہ البشاوری )

تاسعاً: بعض غیرمقلدین(البانی صاحب اور انکے مقلدین وغیرہم) جہری نماز میں مقتدی کے لیے قرأت کو منسوخ قرار دیتے ہیں ۔تو کیا یہ تقسیم(فرض، مستحب یا مکروہ تحریمی) ان حضرات کی وجہ سے تو نہیں کی گئی؟

عاشراً: یہی تقسیم(واجب/فرض، مستحب اور مکروہ) حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ذکر کی ہے (دیکھے مجموع الفتاوی جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۸، و جلد ۱۲ صفحہ ۱۳ باب صلوۃ الجمعۃ)

تو کیا آپ نے تو حافظ صاحب کی تقلید میں تو ایسا نہیں کیا؟ ویسے عنایت اللہ اثری صاحب غیرمقلد کا قول یاد آیا، جو لکھا ہے کہ بعض اہلحدیث ابن تیمیہ کے عملاً تقلید کررہے ہیں (الجسر البلیغ)

        تلک عشرۃ کاملۃ

            آخر میں یہ بات بھی بطورِ ضیافت ملاحظہ کیجیے کہ آپ کی کتاب کے مقرّظ(تقریظ لکھنے والا یعنی زبیر علی زئی

 صاحب غیر مقلد) تو وہی ہے نا جو یزید کو بُرا بھلا بلکہ حدیث کی رُو سے ہی یزید کو برا بھلا کہنے کا مدّعی ہے ۔اور آپ تو ماشاء اللہ یزید کو امیر المومنین  کہنے کے مدّعی ہو سبحان اللہ۔

نوٹ: چونکہ غیرمقلدین جنازے کو حقیقی نماز کہتے ہیں اور نماز کے متعلق غیرمقلدین کے مناظر و محقق رئیس ندوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

"نماز کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ادائیگی سنت نبوی کے مطابق ہو اور اس مطابقت کے لئے قرآن کریم اور حدیث صحیح کے علاوہ کسی اور چیز سے استدلال نہ کیا جائے"

( رسولِ اکرم ﷺ کا صحیح طریقہ نماز صفحہ ۱۵)

فلہٰذا دلیل میں (محض) اپنے دعوے کے مطابق صرف اور صرف قرآن کریم کی آیت مبارکہ یا حدیث مرفوع ہو( وہ مرفوع جو خالص من جانب اللہ ہو یعنی حدیثِ قدسی ہو نہ کہ رسول اللہ ﷺ کا اجتہاد و رائے ہو، کیونکہ غیرمقلدین کے نزدیک نبی کا اجتہاد بھی حجت نہیں(طریقِ محمدی صفحہ۴۰,۴۱، مقدمہ نور العینین صفحہ ۲۱)

   اللہ جل شانہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں غلط عقائد سےبچاکر اہل السنۃ والجماعۃ علماء دیوبند(کثراللہ سوادھم) کےساتھ متعلَّق کیا ہے۔ اہل السنۃ والجماعۃ کی تعریف تو عام اور معروف ہے تعریف ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ دیوبندی کون ہے ؟ تو وہ ہی ملاحظہ کیجیے:

خود ہی فریقِ مخالف کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب[المتوفی:۱۹۴۸ء] "دیوبندی حنفی" کی تعریف یہ کرتے ہیں:

"دیوبندی حنفی کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ جو شخص مسائلِ فقہیہ میں امامِ ابوحنیفہ کا پیرو ہو، کتبِ فقہ کےعلاوہ کسی قسم کےرسم و رواج کو داخل نہ سمجھے"

(مظالم روپڑی ص ۵۶)

نیز دیکھیے (فتاوی حصاریہ ج ۲ ص ۱۴)

اور وکیلِ سلفیت رئیس ندوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:

"فرقہ دیوبندیہ مقلدہ امام ابوحنیفہ کی تیارکردہ مذہبی کتابوں کا مقلد ہے"

(مجموعہ مقالات پرسلفی تحقیقی جائزہ ص ۶۲۵)

اور

 "دیوبندی اصلی حنفی ہیں"

(فتاوی حصاریہ ج ۲ ص ۱۲۹)

            اور یہ تو ظاہر ہے کہ امامِ ابوحنیفہ ؒ کے پیروکار کو "حنفی المسلک" کہا جاتاہے اور حنفی المسلک"مذاہبِ اربعہ" میں ایک مذہب و مسلک کانام ہے اور مذاہبِ اربعہ کے متعلق غیرمقلدین کے محسنِ عظیم مولوی حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں

"مذاہبِ اربعہ ان مجموعہ مسائل کانام ہےجو کتاب اللہ وحدیثِ رسول اجماع و قیاس سےماخوذ ہے"

(تاریخِ اہلحدیث ج ۱ ص ۲۰۳ مؤلفہ ڈاکٹربہاؤالدین صاحب غیرمقلد)

            تو الحمدللہ ہمارا اپنا ایک علمی جماعت سےوابستگی ہے جس کی دنیا معترف و قائل ہیں بلکہ خود خصم نےبھی اقرار کیا ہے کہ واقعی علماء دیوبند ؒ ایک علمی پوزیشن رکھتا ہے جیسا کہ قاضی محمد اسلم سیف صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

 " دوسرا بڑا گروہ علماء دیوبند کاہے جو علمی طورپرواقعی اپنی مضبوط پوزیشن کےحامل ہیں" (تحریکِ ا  تاریخ اہلحدیث کے آئینے میں صفحہ ۵۲۵)

اور مولانا اسماعیل سلفی صاحب مرحوم نےبھی یوں اعتراف کیا ہے کہ

"علماء دیوبند کو ان کی علمی خدمات نےاتنا ہی اونچاکردیا ہے جتنا مناظرات نے ہم کو نیچا دکھایا اور ذہنی طورپر جماعت کوقلاش (کنگال،ناقل)کردیا"

(نتائج التقلید صفحہ:ق)

            الحمدللہ یہ ساری باتیں واقعی حقائق پرمشتمل ہیں کوئی جذباتی باتیں نہیں اور نہ مسلکی دیوانگی ہے کہ محض جذبات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں حاشاوکلا۔

خود یہی سلفی صاحب مرحوم لکھتے ہیں

 "حضرات علماء دیوبند کا مقام اس سےبالکل مختلف ہے ان میں محقق اہل نظرہیں دلائل پر ان کی نظر ہےاپنےمسلک کی حمایت میں ان کا مدار جذبات پرنہیں ہوتا"

(مسئلہ حیات النبی ﷺ ص ۴۹)

حق بات جانتے ہو مگر مانتے نہیں

ضدہےجناب شیخ تقدس مآب میں

            اگر اس طرح مخالفین کے گھر سے شہادتیں عرض کرتا چلوں تو بات بہت لمبی ہوتی جائیگی جبکہ میں نے قلم اٹھانے سےپہلےہی یہ ارادہ کیاہے کہ بات جتنی مختصر ہوسکےتو مختصر ذکر کرونگا ان شاء اللہ کیونکہ ایک تو اللہ کو معلوم کہ گزشتہ کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی شائع ہوگی یا نہیں۔۔۔؟ اگر کوئی صاحبِ استطاعت اپنے لئے شائع

 بھی کرالیں تو کتاب اختصار کے ساتھ ہو تاکہ اُن پر اور خریدار پر کوئی ثقل نہ ہو،

اور دوسری بات یہ کہ میری اپنی دیگر علمی و دنیاوی مصروفیات بھی ہے تاکہ سب کیساتھ وابستہ رہوں بفضلہ تعالی۔

            خیر۔۔ بات کرنی یہ تھی کہ الحمدللہ ہمارا تعلق علماء دیوبند(کثراللہ سوادھم) جیسی علمی جماعت کےساتھ ہے تو لامحالہ ہمارا موقف(جنازہ میں عدمِ قرأۃ) بھی علمی دلائل سے لبریز ہی ہوگی اور حقیقت بھی یہی ہے الحمدللہ علی ذالک۔اور پھر علماء دیوبند میں "نوجوانانِ احناف طلباء دیوبند(بارک اللہ فی جماعتھم) جماعت تو وہ چمکتادمکتا ستارے کی مانند ہے جو تحقیقی میدان میں وہ گرانقدر علمی و مسلکی خدمات کرنےوالے محققین و مناظرین ہیں جس کی خدماتِ عالیہ پر پورا صوبہ خیبرپختونخواہ عینی شاہدین ہیں جو اہلِ حق کی ترجمانی کرتے ہوئے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل احسن انداز اور منصفانہ انداز میں کرتے رہتے ہیں فللہ الحمدوالمنۃ و تقبل اللہ مساعیھم الجمیلۃ، جس کی سرپرست اور قائد"استاذالمناظرین،عمدۃ المحققین، شہنشاہِ خطابت، جبلِ استقامت حضرت مفتی محمد ندیم المحمودی حفظہ اللہ" ہے۔چونکہ "نوجوانانِ احناف طلباء دیوبند" جماعت اہل باطل کےساتھ علمی مسائل میں بحث و گفتگو کے مہارتِ تامہ اور یدِ طولی رکھتے ہیں الحمدللہ، اور کئی سالوں سے خصم کےساتھ ان موضوعات پربیٹھنے کی خواہش کا اظہار بھی کرچکےہیں بلکہ ہم نے اکثر میدان آزماکر میدان خالی بھی دیکھ پاچکے ہیں لیکن اب تک دلّی تمنا پوری نہیں ہوئی۔

اے پہول تو کب کھلےگا تجھ سے پیار کروں گا

تونہ کھلا توقیامت تک تیرا انتظار کروں گا

            چونکہ ہم نے غیرمقلدین کی بیسیوں کتب و مضامین کو اس موضوع پر کنگال کرمطالعہ کیا ہے ارادہ تھا کہ اس موضوع پر کچھ لکھیں گے لیکن اب تازہ مارکیٹ میں ایک کتاب بنام" نماز جنازہ میں فاتحہ فرض،مستحب یا مکروہِ تحریمی" دیکھی جس کا مؤلف "حافظ ابویحیی نورپوری صاحب" ہے چونکہ یہ کتاب انکی دیگر کتابوں سے کچھ ممتاز اور منفرد طریقے پر لکھی گئی ہے (اور کیوں نہ منفرد ہوگی کہ اس کتاب پر کئی سالوں سے کام کیا ہے بقول و باحوال اُن کے۔.) تو ہماری کتاب کا زیادہ ترحصہ اور پیش نظر یہی کتاب ہوگی اگرچہ دیگر کتب کا بھی خبر لیں گے ان شاء اللہ، تو قارئین کرام کو اس موضوع پر ہماری یہ جامع و مانع مفصّل و مدلل مضمون دیگر مضامین سے مستغنی کردیگا ان شاء اللہ۔

انصاف کیجئےگا خوب دیکھ بال کے

کاغذ پہ رکھ دیاہےکلیجہ نکال کے

            یاد رہے جب تک اصل دعوی سامنےنہ رکھا جائے تو اُس وقت تک دلائل پیش کرنا مفید ہی نہیں، نفسِ دلیل پیش کرنا کمال نہیں بلکہ دلیل دعوے کے مطابق پیش کرنا اور اس سے استدلالِ تام کرنا کمال ہے یہی بات خود غیرمقلدین کی ایک تحریر سےبھی معلوم ہوتی ہے چنانچہ خود غیرمقلدین نے لکھا ہے کہ

" حق کےلئےاگردلائل ہی کو بنیاد بنایاجائے تو دلائل قادیانی بھی دیتے ہیں بُت پرستی کوثابت کرنے کےلئے بھی دلائل دئےجاسکتے ہیں جولوگ دہریہ اور ملحدہیں وہ بھی دلائل کاانبار لگادیتے ہیں تو نفس دلیلوں کاہونا کسی بات کےحق ہوجانے کےلئے کافی نہیں ہے"

( مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی اور اُن کا خاندان صفحہ ۲۸۶)

نوٹ:حوالہ بالا سے کلی اتفاق ضروری نہیں۔

            معلوم ہوا کہ نفسِ دلیل دعوے کی حقانیت کےلئےکافی نہیں بلکہ دعوےکی تمام اجزاء پر فٹ ہونے والی دلیل معتبرہوگی یہی وجہ ہے کہ غیرمقلدین حضرات اپنےلئے بہت سی دلائل پیش کرتے ہیں جو ان کی دعویٰ سے مطابقت نہیں رکھتی جس کی مشاہدہ خود قارئینِ کرام بھی اپنی موقعہ پر ملاحظہ فرمائیں گے ان شاء اللہ

 غیرمقلدین کا عمل و نظریہ :

            غیرمقلدین کا اس موضوع کے متعلق کیا موقف و نظریہ ہے تو ملاحظہ کیجئے :

1:امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

 " سورۃِ فاتحہ پڑھنا ضروری اور لازم ہے اس کےبغیرنماز نہیں ہوتی"

( الحق الصریح ج ۶ ص ۵۱۱)

اور دو صفحےبعد لکھتے ہیں

 "(سورۃ فاتحہ) نہ پڑھنا اپنی نماز کو برباد کرنا ہے"

(ایضاً)

2:  عبدالعزیز النورستانی صاحب لکھتے ہیں

 "اور جو اس کاحکم ہے تویہ فرض اور رکن ہے"

( د پیغمبرمونز ص ۶۳۹)

3: عبدالقادر حصاری صاحب لکھتے ہیں

 "مذہبِ اہلحدیث میں سورۃ فاتحہ کےبغیرنمازجنازہ نہیں ہوتی"

(فتاوی حصاریہ ج ۴ ص ۵۵۶)

مزیدلکھتے ہیں:

 "پس جس قدر حنفیہ نےبغیرسورت فاتحہ کے جنازےپڑہےہیں وہ سب باطل ہیں"

(ایضاً ص ۵۷۵)

4: غیرمقلدین کےفتاوی میں یوں فتویٰ بھی قلمبند ہے:

 "اگرامام یا مقتدی نےنمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو نماز باطل ہوگی"

( فتاوی علمائےحدیث ج ۵ ص ۱۸۵)

5:  حافظ محمد عبداللہ غازی پوری صاحب [المتوفی:۱۹۱۸ ء] قاضی شوکانی صاحب سےنقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

 "پس یہ حدیث نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ کےفرض بلکہ اس کےشرط ہونےکےواسطےجوعدمِ فاتحہ سےعدمِ صلوۃ کو مستلزم ہوکافی ہے"

(مجموعہ فتاوی ص ۳۲۱)

ان پانچ حوالوں سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک:

(1) جنازہ میں (2) سورۃ فاتحہ کی قرأت کرنا(3) فرض ہے (4) اور اس کےبغیر جنازہ باطل اور نہیں ہوتی۔

 یادرہے یہ سورۃ فاتحہ بطورِ قرأت ہےجیساکہ مشہور غیرمقلد مفتی عبدالقادر حصاری صاحب لکھتے ہیں:

"نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ بطورِ قرأتِ قرآن پڑھنا حق اور مشروع ہے"

(فتاوی حصاریہ ج ۴ ص ۵۶۶)

اور ابویحیی نورپوری صاحب غیرمقلد بھی ایسے مفہوم میں لکھتے ہیں کہ

"نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قرأت فرض ہے"

(نمازِجنازہ میں سورۃ فاتحہ ص ۲۳)

اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ سورۃِ فاتحہ امام اور مقتدی دونوں کےلئے ہیں(فتاوی علمائےحدیث ج5ص185)

سورۃِ فاتحہ کےساتھ مزید سورۃ:

            یہاں تک تو صرف سورۃ الفاتحہ کی تصریح کےحوالے سےبات ہوگئی جبکہ غیرمقلدین حضرات صرف سورۃ فاتحہ پڑھنےکےقائل نہیں بلکہ سورۃ الفاتحہ کےبعد ایک اور سورت کی قرأت کرنےکےبھی قائل ہیں اختصاراً ایک دو حوالہ جات ملاحظہ کیجیے:

غیرمقلدین کے محقق اور مناظر رئیس ندوی صاحب لکھتے ہیں:

"نمازِ جنازہ میں عام نمازوں کی طرح سورۃ فاتحہ اور اس کےساتھ دوسری سورت کا ملاکرپڑھنا متواترالمعنی حدیث سےثابت ہے"

(نمازِ جنازہ اور اس کےمسائل ص ۱۳۳، ناشر:جامعہ سلفیہ بنارس ھند)

            غیرمقلدین کی دوسری کئی کتابوں میں بھی یہی موقف لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد ایک اور سورت کی قرأت بھی ہے، مثلا دیکھیے اختصاراً بمع قیدِ صفحات و جلد:

[ فتاوی علمائے حدیث ج ۵ ص ۱۵۸، عون المعبود ج ۳ ص ۱۹۱، صحیح نمازِ نبوی از زبیر علی زئی ص ۳۰، مکمل نماز ص ۲۷۰از مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی ، نمازِ نبوی از ڈاکٹرشفیق الرحمن ص ۳۶۴، نمازِ نبوی مترجم ص ۱۴۵ از البانی صاحب، سفرِ آخرت ص ۱۶۶ از مفتی عبیداللہ عفیف صاحب، دَ پیغمبر مونز ص ۶۴۴ از عبدالعزیز نورستانی صاحب،غائبانہ نماز جنازہ ص ۱۵ از کرم الدین سلفی صاحب، نمازِ مصطفیﷺ ص ۱۸۷ از محمدخالدسیف صاحب، صراط مستقیم اور اختلاف امت ص ۲۸۳ از مولاناصغیراحمدصاحب،فتاوی علمائےحدیث ج ۵ ص  ۱۵۱ و ۱۸۵، تیسیرالباری ج1ص ۷۷۶ از وحیدالزمان صاحب، صلاۃ الرسول  ﷺ ص ۱۳۰ از صادق اللہ صافی، صلاۃ النبی ﷺ ص ۶۸ از عبدالرحمن، مسائلِ جنازہ پر ایک تحقیقی نظر ص ۱۲۵ از عبدالولی عبدالقوی، نماز جنازہ ص ۳۰ از صادق سیالکوٹی، صلوۃ الجنازہ کا مسنون طریقہ ص ۵ از ڈاکٹرابوجابر عبداللہ دامانوی، د جنازی احکام او مسائل ص ۲۸۸ از مولانا ابوصہیب محمد بن عبدالرحمن،فقہ الصلاۃ ج ۳ ص ۳۶۶، مجموعہ فتاوی عبداللہ غازی پوری ص ۳۲۱وغیرھم)

            معلوم ہوا کہ غیرمقلدین حضرات صرف سورة الفاتحہ کی قرأت کرنے کے قائل ہیں  بلکہ اس کے ساتھ

 مزید سورت کی قرأت کرنے کے بھی قائل ہیں، فلہٰذا غیرمقلدین حضرات وه دلیل پیش کرنے کا پابند ہوگا جس میں سورة فاتحہ+اور مزید سورت کا تذکره بھی ہو ورنہ صرف سورةِ فاتحہ کی حدیث پیش کرنےسےوه دلیلِ تام متصوّر

 نہ ہوگی ان کی دعویٰ کی  روشنی میں۔

            یاد رہے کہ مازاد علی الفاتحہ (فاتحہ کے بعد مزید اور سورت) قرأت ان کےنزدیک صرف امام ہی پڑھیں گے کیونکہ جنازه میں تو عام لوگ بھی ہونگے اور امام صاحب جو قرأت کرے گا ظاہر سی بات ہے سب مقتدی کو اس کا جاننا تو ضروری نہیں  ضرور ان میں اُمّی(ان پڑھ) بھی ہونگے اور بقولِ غیرمقلدین "قرأت میں فاتحہ کےساتھ پورا قرآن شامل ہے"(مجموعہ مقالات پرسلفی تحقیقی جائزہ ص ۴۸۰) تو پورا قرآن عوام کےہرفرد کو کیسے یاد ہوسکتاہے؟    فلہٰذا ضرور یہ صرف امام صاحب ہی کا وظیفہ ہے ۔

            اس حوالےسےبھی اس بات کو تقویت ملتی ہے جو غیرمقلدین کےمناظر شیخ الحدیث کرم الدین السلفی صاحب نےاپنی کتاب میں جنازے کا طریقہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں  کہ

 ”الله اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور پھر ثناء،سورة الفاتحہ (امام فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت)پڑھیں...الخ “

 نوٹ : قوسین میں خود مصنف ہی کی بات ہے ۔

تو لفظ ”امام“ کے قید سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ لوگ فاتحہ کےبعد کوئی اور سورت صرف امام کے لئے مانتے ہیں۔

 غیرمقلدین کا دعوی :

            اب ہم بحث کو سمیٹتے  ہیں غیرمقلدین کی سابقہ تفصیلی موقف کےبعد ان کا اصلی دعوی یوں بنتا ہے اور ان سے ہم یوں دلیل کا مطالبہ کریں گے کہ:

۱ـ ایک ایسی صحیح صریح مرفوع متصل حدیث پیش کریں جس میں حضورﷺکا حکم ہو۔

۲ـ کہ امام کےلۓ جنازےمیں سورةِ فاتحہ اور اس کےساتھ کوئی اور سورۃ کی  قرأت فرض ہے۔

۳ـ اور مقتدی کے لئے  صرف سورة فاتحہ بطورِ قرأت فرض ہے۔

۴ـ اس کےبغیر نمازِجنازہ باطل و کالعدم ہے۔

              فلہٰذا غیرمقلدین حضرات کے لئے  وه دلیل کافی اور معتبر ہوگی جس میں مندرجہ بالا چارشقیں موجود ہو ورنہ اس میں ایک شق بھی معدوم ہونے کی صورت میں وه دلیلِ تام متصوّر نہ ہوگی۔

 غیرمقلد کی کتاب پر سرسری تبصره

            حضراتِ گرامی! آپ لوگ یہ سُن کرحیران ہوجائینگے کہ موصوف نے اپنی کتاب میں اپنی زعم و خیال کےمطابق جنازےمیں فاتحہ(؟) پڑھنےپر رسولِ کریمﷺکےعمل کےصرف چار(۴)روایات پیش کی ہے..!!  جی ہاں  صرف چار روایات، سوال بنتا ہے کہ پھر اتنی ضخیم کتاب میں کیا ہے؟ تو عرض ہے کہ اس میں کچھ تو مرفوع روایات کےنام پر خارج عن الموضوع روایات پیش کی ہے اور کچھ صحابہ کرامؓ کے اقوال و اعمال لانے کی کوشش کی ہے اور کچھ تابعین کے اقوال اورافعال(جوکہ ان کےنزدیک نہ تو صحابہ کرام ؓ کےاقوال حجت ہے اور نہ تابعینؒ وغیره کے) او باقی ویسے قیل و قال اور لایعنی ابحاث لکھ کرکے کتاب کو اس نیت سےضخیم بنانے کی کوشش کی ہے کہ یہ کتاب انسائیوکلوپیڈیا بن جائے!! (ص۲۱)

            اور وه چار روایات بھی محلِ نکتہ سے خارج اور ناقص دلیل پیش کی ہے جو سرے سے اُن کی دعوے کے مطابق ہے ہی نہیں ، کبھی ضعیف روایات سے استدلال کیا ہے اور کبھی صلوةِ مطلقہ کی دلیل صلوةِ مقیده پر منطبق کیا ہے وغیره وغیره جس کی حیثیت  خود آپ حضرات آگے ملاحظہ  فرمائیں گے ان شاء الله

٭        کتاب میں کبھی تو فاتحہ کوˮ”واجب “ کہہ دیتے ہیں (دیکھیے ص۲۰) کبھی ”فرض“ قرار دیتے ہیں (دیکھیے ص۲۳)کبھی ”سنت “لکھ دیتے ہیں (دیکھیے ص ۷۰)

٭        زیاده ترابحاث لایعنی اور فضول قسم کےطوالت پرمشتمل ہے لہٰذا ہم کوشش کرینگے کہ اختصاراً اور خاص خاص باتوں کی جوابات ذکر کریں۔

نوٹ: ہم غیرمقلدین کی بات کو”غیرمقلد“ سے تعبیر کریں گے اور اپنی بات کو”حنفی“ سے تعبیر کرینگے ان شاء الله۔

 غیرمقلدین کے اول چار روایات پر تحقیقی نظر:

            حافظ ابویحیی نورپوری صاحب غیرمقلد نے نمازِ جنازہ میں ”سورة فاتحہ کی فرضیت کےدلائل“ کےعنوان دے کر مندرجہ ذیل چار(۴) وه دلائل پیش کئے ہیں جو بالکل موضوع سے متعلّق ہی نہیں وه دلائل مندرجہ ذیل

 ہیں:

(۱) حدیثِ عباده بن صامتؓ: لاصلوة لمن لم یقرأ بفاتحةالکتاب۔

(۲) حدیثِ ابوہریرةؓ: من صلّی صلاةً لم یقرأ فیہا بأم القرآن فهی خداج۔

(۳) حدیثِ عبدالله بن عمرؓ: کل صلاة لایقرأ فیہا بفاتحة الکتاب فهی خداج۔

(۴) حدیثِ ابوہریرةؓ: لاصلوة الا بقرأة

 حنفی :  ہر شخص اس مسکینی اور بےچارگی کوخوب سمجھ لیا ہوگا کہ دعویٰ اور دلیل میں کتنی بُعد اور دُوری ہےاور پھر حیران کن بات یہ ہے کہ ان چار دلائل کو لکھ کر فضول قسم اور بےجا تاویلات کرکے کئی صفحات سیاه کئے  ہیں یعنی صفحہ نمبر ۳۲  تک یہ ابحاث حاوی اور شامل ہے(!!)

قارئین کرام خود سوچ لیں کہ کتاب کتنی لایعنی ابحاث پر مشتمل ہوگی....!

ان چارروایاتِ مذکورہ جو موضوع سےخارج  بھی ہے ان کی علمی حیثیت و پوزیشن ملاحظہ کیجئے  بعونہ تعالی!

( 1 ) ان چار احادیث کا تعلّق صلوةِ مطلقہ کاملہ کےساتھ ہیں جبکہ جنازے کی نمازِ صلوةِ مقیدہ ہے تو اس حدیث سےجنازے کےلیےاستدلال درست نہیں۔

( 2 )  ان احادیث کا تعلق حقیقی نماز کےساتھ ہے جبکہ جنازے کی نماز حقیقی نہیں بلکہ مجازی نماز ہے(جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ان شاء اللہ)

( 3 ) اگر ایسی عمومی احادیث جنازے کے لئے درست ہوسکتی ہے تو پھر یہ حدیث بھی درست ہوگی عن ابي سعيد قال: کان رسول اللهﷺاذا  افتتح الصلاة قال: سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا اله غیرک” (سنن النسائی ج۱ص۱۴۳،مصنف ابن ابی شیبه ج۱ص۲۰۹)

یعنی نبی کریمﷺ جب نماز شروع کرتےتو سبحانک اللھم..الخ پڑھتے ۔

            تو پھر آپ حضرات جنازے میں ثناء کیوں نہیں پڑھتے بلکہ آپ میں سے بعض حضرات تو اس کو بدعت کہتےہیں!

اور اسی طرح امین الله پشاوری صاحب لکھتے ہیں

”مالکیہ نماز میں دعائے استفتاح(سبحانک اللھم)کےمنکر ہیں جبکہ یہ احادیث میں نقل ہے “ (تقلید کی حقیقت اور اس کی اقسام ص۲۶۰)

اور دوسری کتاب میں یوں لکھا ہے

”اس بات پر اتفاق ہے کہ دعائے استفتاح تو سب نمازوں کےلئے ہیں“

(زینة الصلاة ص۱۰۷)

            جب آپ حضرات کےنزدیک صلوةمطلقہ(عام نمازوں) کی احادیث سےصلوة مقیده(خاص جنازے کی نماز)پر  کلی استدلال جائز ہے تو پھر عام نمازوں میں دعاۓاستفتاح مشروع ہونے کی وجہ سے جنازے میں کیوں نہیں پڑھتے بلکہ اسےبدعت کیوں کہتے ہیں؟

( 4 )  عام نمازوں کے لئے جب اذان دی جاتی ہے تو پھر جنازے کے لئے بھی دیا کرو

( 5 ) عام جنازوں کےلئے جب اقامت کی جاتی ہے تو وہی حدیث پھرجنازے کی نماز پر بھی منطبق ہوگی یا نہیں اور کیوں۔۔؟

اسی طرح اگرمثالیں دیتاچلوں تو بات لمبی ہوتی جائیگی لیکن اتنی سی بات ماننے کےلئے کافی ہوگی ۔

( 6  )تاہم مزید اسلاف سے عام نمازیں اور جنازیں کی نمازوں میں فرق کی ثبوت ملاحظہ فرمائیں

حضرت رفیع بن مہران ابوالعالیہ الرباحی البصری (المتوفی:۹۰ یا ۹۳ ھ) رکوع اور سجود والی نماز(یعنی عام نماز) میں تو قرأت کرنےکےقائل تھے لیکن جنازےمیں قرأت کےقائل نہیں تھے:

عن أبی المنھال قال سألت ابالعالیہ عن القرأۃ فی الصّلاۃ علی الجنازۃ بفاتحۃ الکتاب فقال ماکنت أحسب أن فاتحۃ الکتاب تقرأ الا فی صلوۃ فیھا رکوع و سجود"

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۱۸۳)

            معلوم ہوا کہ اسلاف ان دونوں کی نمازوں میں فرق کرتے تھے فلہٰذا غیرمقلدین کا ذکر کردہ حدیث ان کیلئے معتبر نہیں ۔اسی طرح امام شعبی اور امام طبری  کا یہ اجتھاد تھا کہ جنازے کی نماز بغیر طہارت کےبھی ہوتی ہیں :

"وقال الشعبی و محمد بن جریر الطبری والشیعۃ تجوز صلاۃ الجنازۃ بغیرطہارۃ مع امکان  الوضوء والتیمم لأنھا دعاء" (المجموع شرح المھذب للنووی ج ۵ ص ۲۲۳، بدایۃ المجتھد ج ۱ ص ۲۵۷، قلحاوی الکبیر ج ۳ ص ۵۲، حِلیۃ العلماءفی معرفۃ مذاھب الفقہاء لأبی بکر الشاشی ج ۲ ص ۲۹۲)

            اس سے بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ مطلقہ اور صلاۃ مقیدہ میں فرق ضرور ہے۔تو ان کی صلاۃ مطلقہ والی روایت

 سے استدلال صلاۃ مقیدہ پر درست نہیں۔

فائدہ: ویسے بھی غیرمقلدین حضرات ابن جریر کو "اولئک کالأنعام بل ہو أضل"کا مصداق قراردیتے ہیں العیاذباللہ  دیکھیے (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ ص ۵۱۰ مؤلفہ وکیلِ سلفیت علّامہ محمدرئیس ندوی) بلکہ ابویزید عبدالقاہر غیرمقلد نے "ا بنِ جریر کو اسرائیلی قصو والا اور صاحب خرافات لکھا ہے (دیکھیے تنبیہ المسلمین من الاحادیث النوضوعۃ ص ۲۳و ۲۴و غیرہ)

( 7 ) غیرمقلدین تو صلاۃِ کاملہ و حقیقیہ میں رفع الیدین کو فرض و واجب کہتے ہیں۔

 (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ ص  ۲۴۶)

اور اس کے بغیر نماز کو باطل و کالعدم قرار دیتے ہو(ایضاً) اور کہتے ہیں کہ رفع یدین کےچارسو احادیث ہیں

(فتاوی نذیریہ ج1ص ۴۴۲، اثباتِ رفع الیدین ص ۴ از خالدگرجاکھی)

            جبکہ آپ لوگ جنازے میں رفع الیدین عن النبی ﷺسے ثابت نہیں مانتے دیکھیے (د مونز طریقہ للشیخ ابی عمار سمیع اللہ ص ۱۵۰، فتاوی ثنائیہ مدنیہ للشیخ ثناء اللہ المدنی ج ۱ ص ۴۸۹، سفرِ آخرت از مفتی عبیدااللہ عفیف ص ۱۱۶، کتاب الجنائز للمبارکفوری ص ۵۵، فتاوی علمائے حدیث ج ۵ ص ۱۵۶، حاشیہ فتاوی ثنائیہ للامرتسری ج ۲ ص ۵۰، احکام الجنائز ص ۱۷۹، الحق الصریح للشیخ امین اللہ البشاوری ج ۶ ص ۵۰۴، التحقیقات لابی یزید عبدالقاہر ص ۵۸۱وغیرھم)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عام نماز اور جنازے کی نماز میں فرق ضرور ہے لیکن صرف غیرمقلدین حضرات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یا جان بوجھ کر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔

( 8 ) آپ کے ذکر کردہ حدیث سےآپ ہی نے سورۃِ فاتحہ کو "فرض" قرار دیا ہے جب کہ آپ ہی کے مسلک کے محدّث شمس الحق عظیم آبادی صاحب حافظ ابن قیم ؒ کے حوالے سے حافظ ابن تیمیہ ؒ کا موقف نقل کرتے ہیں کہ جنازے میں قرأت واجب نہیں بلکہ سنت ہے

 ( دیکھیے ابن قیم ؒ کی کتاب: زاد المعاد ج1ص ۵۰۵،خود ابنِ تیمیہ ؒ کی کتاب مجموع الفتاوی ج ۱ ۱ص ۲۹)

اس سے بھی روزِ روش کی طرح عیاں ہوچکا کہ عام نمازوں میں اور جنازیں کی نماز میں فرق موجود ہے۔

 فائدہ : ہاں جن جن اعمال کو فقہاء کرام نے مشترک سمجھا ہے وہ مشترک ہی ہوگا۔

( 9 ) جو صحابہ، تابعین واسلاف رضی اللہ عنہم أجمعین جنازے میں قرأت نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے منع بھی

 کرتے تھے (جس کی تفصیل آگےآنےوالی ہے ان شاء اللہ الرحمٰن) توکیا اس حدیث سےان کی نمازبھی نہیں ہوئی؟

( 10 ) اور سب سے اہم بات یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ آپ نے خود اپنے استادمحترم غلام مصطفی ظہیر امن ہوری صاحب سےانٹریو لیاتھا، دورانِ انٹریو امن پوری صاحب کیاکہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:

"میں تویہاں تک کہدیتاہوں حافظ صاحب، کہ اگر مجھے کوئی قرآن مقدّس کی ایک ہزار آیاتِ بینات    پیش کریں اور وہ اپنی مطلب میں بالکل واضح ہو یا اُس کےخلاف مسئلہ ثابت کیا ہو تو میں کہونگا کہ قرآن تو حق ہے لیکن میرا فہم صحیح نہیں ہے    فہم سلفِ صالحین یا ائمہ دین کا صحیح ہے"

            آپ نے تو حدیث پیش کیا جبکہ امن پوری صاحب نے تو قرآن کی آیت بتائی ہے اور وہ بھی ایک ہزار آیات، اور وہ بھی آیاتِ بینات (واضح آیات) تو عرض ہے کہ بالفرض آپ کی واضح حدیث ہوتے ہوئےبھی آپ سلفِ صالحین میں کسی ایک صحابی یا تابعی سے پیش کردیں کہ انہوں نے اس حدیث سے جنازے میں قرأت کی فرض ہونے پر استدلال کیا ہو ۔۔۔ دیدہ باید۔ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین فان لّم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ

            یاد رہے غیرمقلدین کے نزدیک سلفِ صالحین صحابہ اور تابعین کو کہا جاتا ہے (دیکھیے الحق الصریح ج ۶ ص ۵۷۸)  اور محدثین کا ذکر میں نے اس لئے نہیں کیا(دیگر جوابات کے علاوہ) کہ غیرمقلدین کا یہ نظریہ ہے کہ

"اکثرمحدثین سلف صالحین کی مخالفت کرنےکی وجہ سےگمراہ ہوئے ہیں "

(فتاوی حصاریہ ج ۲ ص ۳۱۷و ۳۱۸، ناشر: مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)

( 11 ) یہ دلیل آپ کی دعوے کی مطابق نہیں فلہٰذا دعوی اور دلیل میں عدم مطابقت کیوجہ سے آپ کےلئے یہ دلیل معتبر نہیں ۔کیونکہ اس میں صرف سورۃِ فاتحہ کا ذکر ہے جبکہ آپ کےہاں صرف سورۃِ فاتحہ نہیں بلکہ قرأت کاملہ ہے کما مرّ تفصیلہ، تو آپ کی دعوی میں چار شقیں ہیں تو یہاں مفقود ہونے کیوجہ سے آپ کی ذکر کردہ حدیث آپ کے لئے معتبر نہیں۔

( 12 ) صرف ایک جزءِ ناقص یعنی سورۃ الفاتحہ کا جو تذکرہ ہے تو اس میں اختلاف کہاں، نفسِ فاتحہ میں اختلاف نہیں بلکہ اختلاف بطورِ قرأت میں ہے تو یہاں "قرأت" کی تصریح دکھاکر منہ مانگا انعام حاصل کریں۔

( 13  ) آپ تو اس حدیث سے فرضیت ثابت کرتے ہو جبکہ محدثین ؒ تو فرماتے ہیں کہ عمر بن الخطاب،علی،  ابن عمر، ابوھریرۃ، طاؤس ، عطاء، سعید بن المسیب، سعید بن بشیر، ابن سیرین، شعبی اور حکم رضی اللہ تعالی عنہم أجمعین قرأت کے منکر تھے (دیکھیے عمدۃ القاری ج ۸ ص ۱۳۹، شرح صحیح البخاری لابن بطال ج ۳ ص ۳۱۷، الجوھرالنقی علی البیہقی ج ۴ ص ۳۹وغیرھم)

تو عرض ہے کہ فرض کا منکر کا کیا حکم ہوگا۔۔۔؟

( 14 ) خود امام بخاری ؒ نے اس روایت(لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب) کو ذکر کیا ہے۔

(دیکھیے: بخاری ج ۱ ص ۱۹۲)

             لیکن آخر اس عظیم محدث کو یہ کیوں سمجھ میں نہ آئی کہ اس حدیث سے تو جنازےمیں قرأت کا استدلال بھی جائز ہے؟ اگر یہ استدلال جائز ہوتی تو ضرور"کتاب الجنائز"میں ذکر کرتے ، لیکن امام  بخاری ؒ کی سمجھ میں نہ آئی اور آج کل دو تین کلمات جاننے کیوجہ سے اپنے آپ کو مجتہد کہلانے والے کی سمجھ میں وہ بات آئی؟

 فائدہ: غیرمقلدین کے مسلک میں ہر عالم مجتہد ہے، جیسا کہ امین اللہ پشاوری صاحب لکھتے ہیں

 "اہل السنۃ والجماعۃ اہل حدیث کاہرعالم مجتہد ہے"

 (دیکھیے حقیقۃ التقلید و اقسام المقلدین پشتو ص ۲۸۵، اردو ص ۲۴۷مع التحریف)

اور اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کو مجتہد ماننے کےلئے تیار نہیں۔۔۔!! (دیکھیے فتاوی حصاریہ ج ۲ ص ۵۶۲)

( 15 ) اس حدیث سے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص سورت فاتحہ نہ پڑہے تو وہ بے نماز ہے جبکہ آپ ہی کے مسلک کے محقق عالمِ دین حافظ محمد گوندلوی صاحب کی کتاب کے ابتداء میں " عطاء اللہ حنیف بہوجیانی صاحب" لکھتے ہیں

 " ساری بنیاد اس پرکھڑی کی گئی ہے کہ اہل حدیث امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھنےوالے کو "بےنماز"سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دعوی بلادلیل امام بخاری سےلیکرمحققین علماء اہل حدیث تک کسی تصنیف میں یہ دعوی نہیں کیا گیا"

(خیرالکلام فی وجوب فاتحۃ خلف الامام ص ۱۴،مکتبہ نعمانیہ گوجرانوالہ پاکستان)

اور غیرمقلدین کا ایک اور محققِ عالمِ دین مولانا ارشاد الحق اثری صاحب بھی لکھتے ہیں کہ

 "امام بخاری سے لےکر دورِ قریب کےمحققین علمائےاہل حدیث تک کسی کی تصنیف میں یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ دیانت دارانہ تحقیق کےبعد فاتحہ نہ پڑھنےوالےکی نماز باطل ہے اور وہ بےنماز ہےوغیرہ، اس لئے اگرآج بعض حضرات نےجو قدم اٹھایا ہےاسےپیش قدمی نہیں کہاجاسکتا پھرجماعت کےنامور اور ذمہ دار حضرات میں بھی ان کا شمار نہیں ہوتا "

(توضیح الکلام ص ۷۱، ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد)

            اس کے علاوہ الحق الصریح لامین اللہ البشاوری اور رحمۃ الباری وغیرہ میں بھی ایسا مضمون موجود ہے۔

            تو معلوم ہوا کہ خود آپ ہی کا اس حدیث پر عمل نہیں تو کسی اور پر حجت کرانا چہ معنی دارد۔۔۔؟

    فیہ کفایۃ لمن لہ ھدایہ

 تابوت پر آخری کیل:

            اور آخر میں یہ بات حضرت شیخ الحدیث ؒ  کے ایک حوالے سے ختم کرادیتا ہوں، کونسا شیخ الحدیث۔۔؟ وہ شیخ الحدیث جس کے متعلق خود غیرمقلدین نے لکھا ہے کہ:

 "بقیۃ السلف،حجۃ الخلف، الشیخ محمد زکریا الکاندھلوی شیخ الحدیث "

( امام بخاری پراعتراضات کا علمی جائزہ ص ۱۰، مؤلفہ ارشادالحق اثری صاحب )

مولانااسحاق گبرالی کالامی صاحب، تلمیذِ شیخ عبدالسلام رستمی  صاحب ان الفاظ کےساتھ حضرت شیخ ؒ کو یاد کرتے  ہیں

 " ائمہ حدیث، علامہ زکریا اور دیگر کو کافر قرار دینےوالے متبع سنت ہونے کےحقدار نہیں "

(اھداء المذکر ص ۳۲۱)

"تبلیغی جماعت کے بزرگ اور قرآن و حدیث کےماہر علّامہ محمد زکریا سہارنپوری رحمہ اللہ۔۔۔"

(ایضا ص ۳۱۲)

"محدّثِ کبیر،حافظ الحدیث، شیخ الحدیث علامہ محمد زکریا سہارنپوری رحمہ اللہ"

(ایضا ص ۳۱۴)

تو یہی شیخ صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں

 "وقولہ علیہ السلام لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب لایتناول صلوۃ الجنازۃ "

(أوجزالمسالک ج ۴ ص ۲۳۱)

کہ نبی کریم ﷺ کا یہ قول (لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب) جنازہ کو شامل نہیں ہے۔

کردیا تقدیر نےباطل فسانہ شوق کا

درہم برہم ہوگیا کارخانہ شوق کا

            اللہ ہمیں بدعات و الحاد سے بچاکر اعتدال والا مسلک اہل السنۃ والجماعۃ علماء دیوبند کے نقش قدم پر استقامت نصیب فرمائیں اور ان کے ساتھ اللہ ہمارا حشر فرمائیں آمین یا رب العالمین

حافظ نورپوری صاحب غیرمقلد نےاپنا مدّعٰی ثابت کرنےکےلئے دوسری بےبنیاد اور خالی از دعوی تامّہ ایک حدیث پیش کی ہے جس کی الفاظ اور ترجمہ خود انہی کےقلم سےملاحظہ کیجئے

چنانچہ نورپوری صاحب "نماز جنازہ کانبوی طریقہ حدیثِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما"کا عنوان دےکر یوں حدیث کےالفاظ بمع ترجمہ لکھتے ہیں:

" صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ"

(صحیح البخاری:1335)

میں(طلحہ بن عبداللہ بن عفو تابعی) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداء میں ایک نماز جنازہ ادا کی آپ نے سورہ فاتحہ کی قرأت کی۔ (جب پوچھا گیا کہ ایساکیوں کیا ہےتو) فرمایا: اس لئےتاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت(محمدرسول اللہﷺکاطریقہ)ہے۔

اور پھر تشریح میں لکھتے ہیں:

 "اس حدیث میں واضح طور پر صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما" نے جنازہ میںں سورۃ فاتحہ کی قرأت کو سنت نبوی قرار دیا ہے"(نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ ص33)

 مختصر اور اصولی جواب:

            اولاً: عرض ہے کہ موصوف نے جو عنوان قائم کیا ہے "نمازِ جنازہ کا نبوی طریقہ حدیثِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے" تو اس حدیث میں جنازہ کا طریقہ کہاں ہے اس میں تو جنازے کا آدھا طریقہ بھی نہیں ہے اس میں تو صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا تذکرہ ہے لہٰذا حدیث سمجھ کر عنوان قائم کیا کریں کیونکہ باب اور عنوان کسی کے فقاہت اور سمجھ داری کا عکس اور ثبوت کا پتہ دیتی ہے ۔

             ثانیاً : قارئینِ کرام! گزشتہ پچھلی قسط میں غیرمقلدین کے دعوےکو بغور دیکھنےسے خوب واقف ہوچکے ہیں کہ غیرمقلدین کا اس موضوع کی مناسبت سے کیا دعویٰ ہے اور دلیل کونسی لائی ہے ہر شخص دعویٰ اور دلیل میں تطابق اور وزن دیکھ کرفیصلہ  کرسکتا ہے ان شاء اللہ ۔

تاہم اگر کسی نے غیرمقلدین کا وہ دعویٰ نہ پڑھا ہو یا غیرمقلدین  اپنا دعویٰ بھول گئے ہیں تو یاد دہانی  کے لئے  ایک بار پھر یہاں ذکر کرتے ہیں تاکہ سب پڑھنے والے حضرات جان لیں کہ دعویٰ اور دلیل میں کتنی مطابقت اور کتنی وزن ہے۔چنانچہ ہم نے گزشتہ صفحات(مجلّہ راہِ ہدایت شمارہ نمبر 11 صفحہ نمبر 65) میں ان کا دعویٰ ان کے کتابوں کی روشنی میں یوں لکھا تھا کہ ان کی دعویٰ کی چار اجزاء بنتی ہیں لہذا ہم ان سے انہی کی کےکتب کی روشنی میں  یوں دلیل کا مطالبہ کریں گے کہ:

۱: ایک ایسی صحیح صریح مرفوع متصل حدیث پیش کریں جس میں حضورﷺکا حکم ہو۔

۲: کہ امام کےلۓ جنازےمیں سورةِ فاتحہ اور اس کےساتھ کوئی اور سورۃ کی قرأت فرض ہے۔

۳   : اور مقتدی کےلۓ صرف سورة فاتحہ بطورِ قرأت فرض ہے

۴: اس کےبغیر نماز باطل و کالعدم ہے،

  پس غیر مقلدین حضرات کے لیے وه دلیل کافی اور معتبر ہوگی جس میں مندرجہ بالا چارشقیں موجود ہو ورنہ اس میں ایک شق بھی معدوم ہونے کی صورت میں وه دلیل تام متصوّر نہ ہوگی ۔

(مجلّہ راہِ ہدایت شمارہ نمبر 11 صفحہ 65)

اب غور کریں کیا اس حدیث  میں غیرمقلدین کی دعویٰ کے یہ چار اجزء مل سکتی ہیں ؟

۱:  اس میں پہلی جزء یعنی نبی کریمﷺ کا صریح "حکم" کہاں ہے؟ ("حکم"کی تخصیص اس لئے کہ غیرمقلدین کےنزدیک "فعل"سے وجوب ثابت نہیں ہوتی سیأتی التفصیل فی موضعہ ان شاء اللہ الرحمن)

۲: اس میں امام کےلئے"قرأۃ کاملہ" کہاں ہے(یعنی سورتِ فاتحہ کی قرأت اور اس کےساتھ مزید کوئی اور سورۃ) یہاں تو صرف سورۃ الفاتحہ کا تذکرہ ہے۔

۳:  یہاں مقتدی کےلئے فاتحہ اور وہ بھی بطور"قرأت" کا تذکرہ کہاں ہے؟ ہمارا اختلاف نفسِ فاتحہ میں ہے یا فاتحہ بطورِ قرأت پڑھنے میں ہے؟ خدارا کچھ انصاف سے کام لیاکریں۔

۴: اس میں فرضیت اور اس کے بغیر نماز کے باطل اور کالعدم ہونے کا ذکر کہاں ہے ؟

آخر اپنی باطل افکار اور بدعی مذہب کو خواہ مخواہ ثابت کرنے کے لئے غیر متعلق حدیث کو مستدل بنانے اور عوام کو ناخبری میں مبتلاء کرنا، کیا اسی کا نام عمل بالحدیث ہے؟ عوام کو آپ لوگ تو ورغلائینگے لیکن اللہ رب العالمین کی دربار میں کیا جواب دیں گے ؟

 تفصیلی و تحقیقی جواب :

یہ حدیث چند وجوہات کی بنا پر کسی طرح بھی غیرمقلدین کا دلیل نہیں بن سکتا ۔

۱: دعوی اور دلیل میں مطابقت نہیں

۲: آپ حضرات اس کو فرض کہتے ہو(دیکھئے آپ(نورپوری صاحب) کی کتاب صفحہ ۲۳ وغیرہ) جبکہ آپ ہی کےمسلک کےمحقق،مفتی و مناظر عبدالقادر حصاری صاحب لکھتے ہیں

"فرض دلیل قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت سےثابت ہوا کرتا ہے"

(فتاوی حصاریہ ج2ص213)

قطعی الثبوت قرآنی آیت یا حدیث متواتر کوکہتے ہیں اور قطعی الدلالت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے پر جو دلیل پیش کی ہے وہ حدیث اور دلیل اپنےمدلول پر پوری دلالت کرنے والی ہو۔

توعرض ہے کہ آپ ابنِ عباس ؓ کی حدیث مذکورہ صفت کےساتھ متصف ثابت کریں دیدہ باید۔۔۔۔!

۳ :  یہی مکمل روایت نسائی شریف میں ہے جب اس حدیث کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ جنازہ میں فاتحہ پڑھنا اُس وقت عام رواج نہیں تھا جب ابنِ عباس ؓ نے سورۃ فاتحہ پڑھی تو اس کےشاگرد طلحہ بن عبداللہ ؒ نے ان کو بازو سےپکڑ کر تعجب انداز میں پوچھا کہ یہ کیا کیا؟

تو دیکھے اگرفاتحہ پڑھنا اس وقت عام معمول تھا اور غیرمعروف طریقہ نہ تھا تو اتنی تعجب انداز میں صحابہ کرام ؓ کی دور میں زندگی گزارنے والےشخص سےاتنی عام مسئلہ کیسےمخفی رہ جاتا۔۔۔؟ جبکہ وہ زمانہ جہادی دور بھی تھا جنازوں کی کثرت ہوتی تھی ۔معلوم ہوا کہ یہ ناآشنا اور غیرمعروف طریقہ تھا تو ابن عباس ؓ نے اسے گویا سمجھایا کہ بیٹا یہ طریقہ بھی درست اور حق ہے یعنی ثناء صرف سبحانک اللہم ۔۔ الخ الفاظ کےساتھ مخصوص نہیں اور نہ صرف"الہم باعد بینی و بین خطایای۔۔الخ کےساتھ مخصوص ہے بلکہ سورۃ الفاتحہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور سورت فاتحہ کا پڑھنا غیرمعمول بہا مسئلہ ہونا اس سےبھی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ امام مالک ؒ (المتوفی : 179ھ) جیسے مفتی المدینہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

"لیس ذالک بمعمول بہ ببلدنا انما ھوالدعاء، أدرکت أھل بلدنا علی ذالک"

(المدونۃ الکبری ج1ص174، عمدۃا لقاری وغیرہ)

یعنی جنازہ میں فاتحہ پڑھنے پر ہمارے شہر(مدینہ) میں عمل نہیں ہے کیونکہ یہ تو دعا ہے(کوئی حقیقی نماز تو نہیں ہے کہ اس میں قرأت کی جائے،ناقل)اور میں نے مدینہ کےلوگ اسی عمل پہ پایا ہے۔

            اور مکہ مکرّمہ کےمفتی اعظم اور بقول غیرمقلدین کےدوسو صحابہ کرام ؓ  سےملاقات کا شرف پانے والا(فتاوی اصحاب الحدیث ج2ص120) عطاء بن ابی رباح ؒ (المتوفی: 115ھ)سےجب سورۃ فاتحہ کےبارے میں دریافت کیا گیا توآپ حیران ہوکر فرمایا"ماسمعنا بھذا"(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص299) کہ ہم نےجنازہ میں فاتحہ پڑھنا کبھی سنا ہی نہیں ۔

معلوم ہوا کہ خیرالقرون میں کوئی فاتحہ کی قرأت کی فرضیت کا قائل ہی نہیں تھا لہذا غیرمقلدین کو اس حدیث سےغلط فہمی لگی ہوئی ہے۔

۴:  صحابہ ؓ یا تابعین ؒ میں سے کسی نے ابن عباس ؓ کی اس حدیث سے جنازہ میں فاتحہ کی قرأت کی فرضیت پر استدلال نہیں کیا ہے ۔کیا غیرمقلدین  صحابہ ؓ و تابعین ؒ سے زیادہ عاملین بالحدیث  ہیں؟

            خود آپ ہی کی زبانی پچھلے صفحات میں بھی ہم عرض کر آئے ہیں کہ آپ کو آپ ہی کے استاذ امن پوری صاحب نے انٹریو کے دوران یہ بات کہی تھی کہ

 " میں تویہاں تک کہہ دیتا ہوں حافظ صاحب، کہ اگرمجھےکوئی قرآن مقدّس کی ایک ہزار آیاتِ بینات بھی پیش کریں اور وہ اپنی مطلب میں بالکل واضح ہو لیکن سلف صالحین نے اُس کےخلاف مسئلہ ثابت کیا ہو تو میں کہونگا کہ قرآن تو حق ہے لیکن میرا فہم صحیح نہیں ہے فہم سلفِ صالحین یا ائمہ دین کا صحیح ہے"

اور اسی طرح امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

"فہم کتاب وسنت کی واجب ہے علی فہم السلف"

(الحق الصریح ج1ص510 ط: قدیم، ص484 ط: جدید)

تو عرض ہے کہ وہ اسلاف ( آپ کے نزدیک سلف صالحین سےمراد صحابہ ؓ و تابعین ہے،دیکھے الحق الصریح ج3ص212 و 491 و ج6ص578) ذکر کریں جنہوں نے اس حدیث سے سورۃ فاتحہ کی فرضیت پر استدلال کیا ہو ورنہ اپنی دعویٰ کو بےدلیل ہونے کی وجہ سے ردی کےٹھوکری میں پھینک دے۔ہے کوئی مائی کا لعل غیرمقلد جو خیرالقرون میں ایک ہی اپنا ہمنوا تلاش کرکے ایک من کھجور انعام میں حاصل کرلے!

۵ :  اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کا حکم و امر تو کجا اس میں فعلِ نبوی ﷺ بھی نہیں ہے بلکہ اس میں تو فعلِ صحابی ؓ

 کا ذکر ہے اور صحابی ؓ کا قول غیرمقلدین کےنزدیک بالاتفاق حجت نہیں اگرچہ وہ قولِ صحابی ؓشریعت کےخلاف نہ ہو  تب بھی غیرمقلدین کے مذہب میں قولِ صحابی ؓحجت نہیں ہے تفصیل آگے آرہی ہے ان شاء اللہ!

البتہ "من السنۃ" سے مراد حکمِ نبویﷺ کی تحقیقی جائزہ آگے ملاحظہ فرمائیں ان شاء اللہ!

۶: البتہ آپ نے جو"من السنۃ" کہہ کر یہ کہا ہے کہ محدثین کے نزدیک اس سے حدیث مرفوع مراد ہے تو آپ کےعلم میں یہ ہونا چاہیے کہ یہ اتفاقی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اختلافی مسئلہ ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہیں ان شاء اللہ !

جب یہ مسئلہ اختلافی ہوا تو احتمالی ہوا جب اس میں احتمال آیا تو غیرمقلدین کےنزدیک اس سے استدلال باطل ہے ، غیرمقلدین کےچندحوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

۱: غیرمقلدین کےمحقق مولانا ابوعدنان منیرقمرصاحب لکھتے ہیں

"اور معروف قاعدہ ہے کہ احتمال کےوجودسےاستدلال ساقط ہو جاتا ہے"

(نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات ص53)

۲:غیرمقلدین کے مشہور شارح مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب (المتوفی:1353ھ) نے بھی یہ قاعدہ لکھی ہے

 "پس اس حدیث سے غسلِ لِحیہ مسترسلہ کےوجوب پراستدلال ہرگز صحیح نہیں لانہ اذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال "(فتاوی عبدالرحمن مبارکپوری ص131)

۳:  دوسری کتاب میں بھی یہی قاعدہ مرقوم ہے(دیکھے مقالات محدث مبارکپوری ص182)

۴:  ایک اور مشہور شارح شمس الحق عظیم آبادی صاحب(المتوفی:1329ھ) لکھتے ہیں

            ” لہذا اس حدیث پراحتمالِ ضعف موجبِ کلیہ مسلّمہ"اذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال" ہوگیا“

(مجموعہ مقالات و فتاوی علامہ شمس الحق عظیم آبادی ص330)

۵: امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد ایک بحث کےدوران لکھتے ہیں

"فلااستدلال مع الاحتمال"

(فتاوی الدین الخالص ج1ص69)

خلاصہ یہ کہ اس میں احتمال آنےکیوجہ سے غیرمقلدین کی اُصول کی روشنی میں استدلال باطل ہے۔

۷: سب روایات پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو اس سے یہ بات خلاصۃً نکلتی ہے کہ اس سے سنتِ اصطلاحی مراد نہیں(خود نورپوری صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے دیکھئے صفحہ37 الحمدللہ) اور نہ یہ سورتِ فاتحہ بطورِ قرأت ہے بلکہ اس سےمراد یہ ہے کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد جس طرح مخصوص الفاظ کے ساتھ (سبحانک اللہم۔۔۔الخ یا اللہم باعد بینی۔۔۔ الخ) پڑھ سکتے ہیں اسی طرح اس مشہورثناء کے الفاظ کےبجائے سورۃ الفاتحہ بھی پڑھ سکتے ہیں تو یہ بھی ایک طریقہ ہے صرف یہی ثناء مخصوص و متعین نہیں ہے کیونکہ امام بخاری ؒ کے استاذگرامی امام ابوبکر ابن شیبہ ؒ (المتوفی:235ھ) حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے

"عَنِ ابْنِ عَبَّاس أَنَّہُ کَانَ یَجْمَعُ النَّاسَ بِالْحَمْدِ وَیُکَبِّرُ عَلَی الْجَنَازَۃِ ثَلَاثاً "

(مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص183)

ابن عباس ؓ لوگوں کو جنازےپر حمد و ثناء اور تین تکبیر(بغیر تکبیرِ تحریمہ)پر جمع کئے تھے۔

دیکھئے جناب! یہاں قرأت ذکر نہیں کیا بلکہ حمد و ثناء ذکرکیا معلوم ہوا کہ ابن عباس ؓ قرأت کے قائل نہیں تھے۔ اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ابنِ عباس ؓ کا اجتھاد تھا کہ کعبہ معظّمہ میں جو نماز پڑھی جاتی ہے تو وہ صرف تکبیر و تحمید ہر مشتمل ہوگی اس میں رکوع وغیرہ نہ ہوگی، ابنِ عباس ؓ جب اپنے شاگردِ رشیدابوحمزہ ؒ کو کعبہ میں نماز پڑھنےکاطریقہ بتلا رہا ہے تو اسکو فرماتے ہیں کہ جیسا کہ جنازےکی نماز پڑھتے ہو اسی طرح کعبہ میں نماز بھی پڑھو، روایت یوں ہے:

"عن أبی حمزۃ عن ابن عباس قال قلت لہ کیف أصلی فی الکعبۃ قال کماتصلی فی الجنازۃ تسبح وتکبر ولاترکع ولاتسجد"(فتح الباری ج3ص592)

امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد اس روایت کےمتعلق لکھتے ہیں

"وسندہ صحیح"(الحق الصریح ج6ص512)

تو ابن عباس ؓ کے اجتھاد کےمطابق کعبہ کی نماز پڑھنے میں "قرأت" رکوع اور سجدہ نہیں ہے تو اسی طرح جنازہ میں بھی "قرأت" رکوع اور سجدہ نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ ابن عباس ؓ یہاں سورتِ فاتحہ بطور قرأت نہیں بلکہ ثناء کی ایک طریقہ کے طور پر بتلا رہا ہے

۸:  جب خود ابنِ عباس ؓ کے عمل کی روشنی میں ثابت ہوچکا کہ جنازہ میں قرأت نہیں ہے تو یہاں ابن عباس ؓ اپنی روایت کےخلاف عمل کیا تو یہ کیسی حجت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ مسلّم قاعدہ ہے کہ راوی جب اپنی روایت کےخلاف عمل کریں تو یہ حجت نہیں ہوگی۔

(دیکھے فتح الباری ج1ص223 و 669،عمدۃ القاری ج7ص51،شرح السنۃ ج5ص654)

بلکہ خود غیرمقلدین کو بھی یہ قاعدہ مسلّم ہے مختصراً صرف دو حوالے موقعہ کی مناسبت سے ملاحظہ کیجئے:

۱:  شیخ محمدحیات سندھی ؒ کو غیرمقلدین اپنا ہم مسلک اور پکا اہلحدیث قراردیتے ہیں اور موصوف کو اپنی کتب میں خوب خراجِ تحسین پیش کیا ہے اختصارًا دیکھے(تحریکِ اہلحدیث ص157 از قاضی محمداسلم غیرمقلد، تنقیدِسدید ص39 از بدیع الدین راشدی صاحب ،پاک و ہند میں علماء اہلحدیث کی خدماتِ حدیث ص19 از مولانا ارشادالحق اثری صاحب،اہل حدیث ایک صفاتی نام ص128 از زبیر علی زئی غیرمقلد،آثارِحنیف ج4ص251، خطباتِ راشدیہ ص76 وغیرہ)

تواسی شیخ محمدحیات سندھی ؒ سے ابویزید عبدالقاہر غیرمقلد ایک حوالہ نقل کرتےہیں کہ

"وأصل علمائنا اذاخالف الصحابی مرویہ فھویدل علی نسخہ"

(التحقیقات فی ردّ الھفوات ص159)

کہ ہمارے علماء کے یہ اصول ہے کہ راوی جب اپنی روایت کےخلاف عمل کریں تو یہ نسخ پر دلالت کرتی ہے۔

۲: اور امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد بھی ایسا قاعدہ لکھتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں

 "والراوی اذا فعل بخلاف ماروی بیقین سقط العمل بہ"

(فتاوی الدین الخالص ج7ص166)

جب راوی کا یہ روایت اپنی عمل کے خلاف ہے(یعنی خود قرأت نہ کرنےکا عامل ہو)تو یہ غیرمقلدین کےاُصول کےمطابق بھی کالعدم ہوگیا۔ پس یہ دلیل بھی غیرمقلدین کےلئے قابلِ استدلال نہ ہوئی الحمدللہ۔

۹: غیرمقلدین کے محقق ابویزید عبدالقاہرصاحب ایک حوالےکےمتعلّق لکھتے ہیں

 "امام سیوطی نے جس موقوف کی بات کی ہے کہ وہ مرفوع کےحکم میں ہوتا ہے وہ صحابی کا یہ قول "امرنا و نھینا" اور دوسری قسم وہ موقوف جو مرفوع کےحکم میں نہیں ہے یہ وہ ہے جو اضافت نہ کریں رسول اللہ ﷺ کےفعل یا قول یا زمانےکو تو اس موقوف میں حجت نہیں ہے"

(التحقیقات ص519)

ابویزید غیرمقلد کےاس حوالے سےمعلوم ہوا کہ صحابی کےقول میں جب تک رسول اللہ ﷺ کی طرف اضافت نہ ہوئی ہو تو وہ حجت نہیں ۔تو اس حدیث میں بھی اضافت موجود نہیں ہے تو غیرمقلدین ہی کےقول کےمطابق یہ روایت غیرمقلدین کیلئے قابلِ استدلال ہے ہی نہیں فللّہ الحمد والمنّۃ

۱۰:  اس میں تو صرف سورۃ الفاتحہ کا ذکر ہے یہ تو آپ حضرات کے بھی خلاف ہے آپ لوگ تو فاتحہ کےساتھ مزید سورت پڑھنےکےبھی قائل ہیں۔

۱۱:  اس میں فرضیت کا حکم کہاں ہے؟

آپ ہی کے مسلّم اور آپ کی کتاب پر تقریظ لکھنے والا زبیر علی زئی صاحب غیرمقلد ایک روایت پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

 "یہ ثابت کریں کہ یہ لوگ بیس رکعتیں " سنت مؤکدہ" سمجھ کرپڑھتے تھے"

(تعدادِ رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ ص78)

تو ہم بھی آپ سے آپ ہی کے اصول کےمطابق سوال کرتے ہیں کہ یہ ثابت کریں کہ ابنِ عباس ؓ " فرض" سمجھ کر پڑھتے تھے دیدہ باید۔۔۔

اسی طرح امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد نے لکھا ہے کہ

"(جمعہ کی نماز سےپہلے چار رکعات)ابنِ مسعود کی حدیث صحیح ہے جو ترمذی،طبرانی وغیرہما نےنقل کی ہے۔۔۔(لیکن) ابن مسعود نے تو یہ نہیں کہا ہے کہ میں یہ سنت سمجھ کرپڑھ رہا ہوں۔۔۔بلکہ ”نفل“ کےطور پر کر رہے تھے"

(نماز جمعہ سےپہلے سنت کی حیثیت ص7، نیز دیکھے ص12 پشتو)

تو یہاں بھی آپ سے مطالبہ ہے کہ ابنِ عباس ؓسے یہ بطور" فرض "اور نہ پڑھنے والے کی نماز کو " باطل " تصوّر کرتے ہوئے ثابت کرے۔ ہے کسی غیرمقلد میں ہمت۔۔۔؟

۱۲:  یہ صحابی ؓکا قول ہے اور صحابی ؓہی نے "سنۃ"کہا ہے جبکہ امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد اپنی کتاب میں جابجا لکھا ہے کہ

"موقوف حدیث پر کبھی بھی سنت ثابت نہیں ہوسکتی"

 (دیکھے نماز جمعہ سےپہلے سنت کی حیثیت ص 7 و 8 و 12، الحق الصریح ج5ص209)

تو صحابی کی قول(خواہ وہ "من السنۃ" کہے یا جو بھی بدون الاضافۃ قول و فعل کہے) غیرمقلدین کےلئے حجت نہیں ، اگر غیرمقلدین کےساتھ جناب نبی کریم ﷺ کے قول، حکم و امر ہو تو پیش کریں ورنہ اپنے عوام سے"واہ واہ" حاصل کرنے کی ناکام کوشش مت کیجیئے۔

۱۳: اس میں جنازے کی نماز"باطل و کالعدم"کی تو کوئی تصریح بلکہ اشارہ تک نہیں ہے لہذا یہ آپ روایت آپ کی دلیل نہیں بن سکتی ۔

۱۴:  اس میں سورۃ الفاتحہ بطورِ قرأت ہے یا بطورِ ثناء۔۔۔؟ اس میں تو اس کی تعیین بھی نہیں ہے اور نفسِ فاتحہ میں جھگڑا اور اختلاف نہیں،  پس اس میں احتمال آیا کہ یہ بطورِ قرأت ہے یا بطورِ ثناء۔۔ تو آپ ہی کےاصول سے اس سے استدلال باطل ہوا  کما مر بالتفصیل

۱۵:  اگر یہ حدیث غیرمقلدین کے حق میں تسلیم بھی کیا جائےبالفرض، تو اس میں فاتحہ کو تو " سنت " کہا گیا ہے فرض و واجب تو نہیں کہاگیا غیرمقلدین اس کو فرض کیسے کہتے ہیں ؟

۱۶:  غیرمقلدین کے نزدیک تو سنت چھوڑنے والا گنہگار نہیں اور عنداللہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں جیسا کہ مولانا محمود احمدمیرپوری صاحب غیرمقلد کی فتاویٰ میں یوں عنوان قائم ہے

"سنن مؤکدہ کی حیثیت کیا ہے؟ "

پھر اس کےتحت یوں سوال درج ہے سائل کا،

سوال: تارک سنتِ مؤکدہ گناہ کا مرتکب ہوگا یا نہیں ؟

تو میر پوری صاحب نےجواب تو بہت تفصیلی دیا ہے لیکن آخر میں (بزعمہ) دلائل پیش کرنےکےبعد لکھتے ہیں

"ظاہر ہےاگرسنتیں لازم ہوتیں تو ان کےترک سے گناہ لازم آتا تو آپ سے موقع پر اس کی وضاحت ضرور فرماتے ۔۔۔سنن کےتارک کو گنہگار یا معصیت کا مرتکب قرار نہیں دیاجاسکتا"

(فتاوی صراط مستقیم ص181 تا 183 مکتبہ قدوسیہ لاہور)

اور اسی طرح غیرمقلدین کےشیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں

 "سنتوں کی وضع رفع درجات کےلئے ہے ترکِ سنن سےرفع درجات میں کمی رہتی ہے مواخذہ نہیں ہوگا"

(فتاوی ثنائیہ ج1ص626)

تو اب عرض یہ ہے کہ جب اس حدیث میں "سنت" کا تذکرہ ہے اور سنت کےتارکین پر آپ کے مذہب میں کوئی مؤاخذہ نہیں تو جنازہ میں قرأت نہ کرنے والوں کی نمازوں کو باطل و کالعدم پھر کیوں کہتےہو، اپنی عاقبت کی بھی کچھ سوچ لیا کریں یہ دنیا فانی ہے اپنی عزت کی خاطر آخرت کو تباہ نہ کریں ۔

۱۷:  اس روایت میں سفیان ثوری ؒ(المتوفی:161ھ) راوی بھی موجود ہے اور اس کا اپنا عمل اس روایت کےخلاف ہے یعنی خود سفیان ثوری ؒبھی جنازہ میں قرأت نہیں کرتے:

أن الثوری کان یری ان لایقرأ فی الصلوۃ علی الجنازۃ شئ من القرآن انما ھو ثناء علی اللہ تعالی و دعاء"

(فقہ سفیان الثوری ص585)

سفیان ثوری ؒجنازے کی نماز میں قرأت کرنےکےقائل نہیں تھے (بلکہ وہ کہتے) کہ یہ تو ثناء ہے اوردعا ہے(کوئی حقیقی نماز تو نہیں کہ اس میں قرأت کی جائے)

اور حافظ ابن عبدالبر ؒ(المتوفی:563ھ) فرماتے ہیں:

"وقال الثوری یستحب أن یقول فی اوّل تکبیرۃ سبحانک اللہم وبحمدک

(الاستذکار ج3ص566)

سفیان ثوری ؒفرماتے کہ پہلی تکبیر میں(قرأت کےبجائے)سبحانک اللہم وبحمدک کہنا مستحب ہے۔

اور امام ترمذی ؒ(المتوفی:279ھ) فرماتے ہیں

"وقال بعض اھل العلم لایقرأ فی الصلوۃ علی الجنازۃ انما ھو ثناء علی اللہ والصلاۃ علی النبیوالدعاء للمیت و ھو قول الثوری وغیرہ من أھل الکوفۃ"(ترمذی ج1ص122)

بعض اہلِ علم(محدثین و مجتہدین ؒ )فرماتے ہیں کہ جنازے کی نماز میں قرأت نہیں کی جائیگی کیونکہ اس میں تو اللہ کی ثناء(پڑھی جاتی)ہے اور نبی کریمﷺپر درود(پڑھی جاتی) ہے اور میت کےلئے دعاء ہے یہ اہلِ کوفہ(کے محدثین و مجتہدین) اور(خصوصاً عظیم المرتبت محدّث) سفیان ثوری (جیسے اہلِ علم)کا قول ہیں۔

تو یہاں امام ترمذی ؒ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ واقعی سفیان ثوری ؒ قرأت کے قائل نہیں تھے۔ اور کوفہ کے اہلِ علم کا بھی یہ قول ہے  بحوالہ مولانا عبدالرؤف صاحب غیرمقلد بقولِ امامِ بخاری ؒ کوفہ میں اہل علم واہل فضل جمع تھے اور اشاعتِ حدیث کے بڑا مرکزتھا"(نصرۃ الباری فی بیان صحۃ البخاری ص48) اور ابن بطال،علامہ عینی رحمہما اللہ وغیرہ بھی کہتے ہیں کہ واقعی سفیان ثوریؒ قرأت کے قائل نہیں تھے ۔بلکہ خود غیرمقلدین کی کتابوں میں بھی موجود ہے جیسا کہ غیرمقلدین کے"فضیلۃ الشیخ مولانا ابوصہیب محمد بن عبدالرحمن صاحب" لکھتے ہیں

 " جنازہ میں سورت الفاتحہ نہ پڑھنی چاہیے او نہ قرآن کریم پڑھی جائیگی بلکہ جنازہ ثناء اور دعاء ہے یہ قول" امام سفیان ثوری "،اوزاعی ابوحنیفہ مالک رحمہم اللہ کا ہیں اور اس پر عبداللہ بن عمر،عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہم نے قول کیاہے"

(د جنازی احکام او مسائل ص282)

جب راوی کا اپنی روایت کےخلاف عمل ثابت ہوا تو گزشتہ قاعدےکےمطابق یہ روایت غیرمقلدین کےلئے قابلِ استدلال نہ ٹہرا  ، فافھم و تدبّر

۱۸:  اسلاف ؒ نے بہت سے چیزوں کو سنت کہا ہے لیکن غیرمقلدین اسکو قولاً یا عملاً سنت کہنے کے لئے تیار نہیں مثلاً

۱: سفیان الثوری ؒ نے اول تکبیر میں سبحانک اللہم کو مستحب(سنت غیرمؤکدہ) کہا ہے:

 "وقال الثوری یستحب أن یقول فی اوّل تکبیرۃ سبحانک اللہم وبحمدک"

 (الاستذکار ج3ص566)

غیرمقلدین اس کو سنت تو کجا بلکہ ظلم کی انتہاء اس کو بدعت کہتے ہیں العیاذباللہ!

۲:  ڈاکٹرشفیق الرحمن صاحب غیرمقلد نے ایک حدیث نقل کیا ہے جس کا ترجمہ یوں نقل کیا ہے

"سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورتِ فاتحہ اور دعائیں آہستہ پڑھی جائیں"(سنن النسائی ج1ص281)

 (دیکھے نماز نبوی ص367)

اسکی تخریج میں زبیر علی زئی غیرمقلد نے اس حدیث کو "صحیح" کہا ہے (ایضا)

اور عبدالرحمن مبارکپوری صاحب نے بھی اس حدیث کو نقل کرنےکےبعد لکھا ہے

"اسناد اس حدیث کی صحیح ہے"(کتاب الجنائز ص53)

 اور امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد نےبھی یہ حدیث نقل کرکے آخر میں لکھا

 "فھذا الحدیث یدل علی مسئلتین: أن الاسرار سنۃ...الخ"

(فتاوی الدین الخالص ج7ص167)

کہ یہ حدیث دو مسائل پر دلالت کرتی ہے ایک یہ کہ جنازہ آہستہ پڑھنا سنت ہے۔

اور مبشرربانی صاحب نے بھی آہستہ پڑھنے کو مسنون قرار دیا ہے ۔

(دیکھے آپ کےسوال قرآن و سنت کی روشنی میں ص 223 و 224)

تو جب آہستہ کو سنت کہا گیا ہے اور جہر کو بالکل ایک حدیث میں بھی سنت نہیں کہاگیا تو پھر اس سنت کےخلاف ورزی کرتے ہوئے کیوں خواہ مخواہ جہر کو مسنون کیوں کہتے ہو ؟

فی الحال وقت کی قلّت کی بناء ہر دیگر امثلہ سے گُریز کرتے ہیں۔

۱۹:  اگر اس حدیث سے فرضیت اور اسکے تارک کی نماز باطل ہونے کا ثبوت ہوتا تو صحابہ و دیگر اسلاف قرأت کےمنکرین نہ ہوتے بلکہ یہی اسلاف دوسروں کو قرأت سےمنع بھی کرواتے ہیں، آخر یہ کیوں ۔۔۔؟

آپ حضرات کے فہم صحیح یا صحابہ و تابعین یعنی اسلاف کے فہم صحیح۔۔۔؟

جبکہ امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد نے تو یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ جولوگ ایسے معنی بیان کرتے ہیں جو صحابہ کرام نےبیان نہیں کیےتواس سےخارجی بن جاتاہے(الحق الصریح ج1ص694 طبع قدیم، و جدید ایڈیشن ص661)

کہیں اپنےاُصول سے خارجی نہ بنے۔

۲۰:  اگر اس حدیث سے فرضیت ثابت ہوتی تو حافظ ابن تیمیہ ؒ (المتوفی: 728ھ) نے یہ کیسے کہا کہ:

 "والأشبہ أنھا مستحبۃ لاتکرہ ولاتجب فانّہ لیس فیھا قرآن غیرالفاتحۃ فلوکانت الفاتحۃ واجبۃ فیھا کماتجب فی الصلاۃ التّامّۃ لشرع فیھا قراءۃ زائدۃ علی الفاتحۃ"(مجموع الفتاوی ج11ص298)

یعنی نص کےساتھ زیادہ مشابھ بات یہ ہے کہ یہ مستحب ہے نا تو مکروہ ہے اور نا واجب ہے کیونکہ اس میں سوائےسورت فاتحہ کے قرآن کےکوئی اور سورت نہیں ہےپس اگر اس(جنازہ) میں فاتحہ واجب ہوتی جیسا کامل نماز میں واجب ہے تو فاتحہ کےعلاوہ اور سورت بھی مشروع ہوتی۔

 اس سے صرف حافظ ابن تیمیہ ؒ نہیں بلکہ حافظ ابن القیم  ؒ  بھی عدم وجوب مراد لیتا ہے بلکہ خود غیرمقلدین کے محقق علی الاطلاق اور شارح الحدیث مولانا شمس الحق عظیم آبادی صاحب(المتوفی:1329ھ) نے بھی یوں اعتراف کرکے خود بھی انکے ساتھ موافقت کرتےہیں چنانچہ لکھتے ہیں: 

"قال ابن القیم قال شیخنا ابن تیمیۃ لایجب قرأۃ الفاتحۃ فی صلاۃ الجنازۃ بل ہی سنۃ انتھی

قلت الحق مع الشیخ ابن تیمیۃ واللہ أعلم"(عون المعبود ج8ص351)

ابنِ قیم فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ ابن تیمیہ نے فرمایا ہے کہ جنازےمیں سورت فاتحہ کی قرأت فرض و واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے

 میں کہہ رہا ہوں کہ حق ابن تیمیہ کےساتھ ہے واللہ أعلم۔

۲۱: امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتےہیں کہ خاص عبادت کےلئے عمومات سے استدلال کرنے سے بہت  بدعات پیدا ہوتی ہیں"(الحق الصریح ج4ص178)

تو آپ خاص عمل(جنازہ میں قرأۃ) کےلئے بھی عام دلیل(لاصلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب)لاکر خود اپنے ہی اصول سے بدعی بن گئے(!!)

آخر میں یہ حوالہ ملاحظہ کیجیے اور اسی پر اکتفاء کرتےہیں، آپ کے زبیر علی زئی صاحب زبانی اور شیخ ابوالاشبال احمدشاغف صاحب اپنی کتاب میں لکھتےہیں کہ شیخ البانی صاحب نےصحیحین کی احادیث کو بھی ضعیف کہا ہے(دیکھے: مقالاتِ شاغف ص93)

تو کیا یہ روایت ان ضعیف روایات میں تو نہیں ہے تحقیق کیجئے۔

 خلاصۃ التحقیق:

             ان ساری تحقیق سے معلوم ھوا کہ غیرمقلدین کا اس حدیث سے اپنے دعوی ثابت کرنا گویا سفید کو سیاہ اور دن سے رات کو ثابت کرنے کی کوشش میں ہے عوام اور ماننے والے کو تو ایک ہی جواب بھی کافی ہے لیکن ہم نے صرف اس فن کے اہلِ تحقیق کے ذوق کےلئے کئی جوابات عرض کئے ورنہ مزید اور جوابات بھی موجود ہے لیکن قلّت وقت کی بناء پر اسی پر اکتفاء کرتےہیں اللہ اس میں ہم سب کےلئے خیروبرکت مقدرفرمائیں۔

غیر مقلدین عمومًا متعصّب اور حق نہ ماننے والے ہوتے ہیں تو اگر اس کو پچاس جوابات ودلائل بھی ذکر کریں تب بھی نہیں مانتے کیونکہ خود انہوں نےاعتراف و اقرار کیا ہے کہ ہم غیرمقلدین خواہشاتِ نفس وانانیت کےشکار ہیں اس لئےسمجھنےکی توفیق سےمحروم ہیں(مقالات شاغف ص276) تو میں نے یہ جوابات صرف حق ماننے والے  کے لئے تحریر کیے،بعونہ تعالی، تقبل اللہ منا

اسی وجہ سے جماعت غرباء اہلحدیث کےامیرعبدالوہاب محدث دہلوی صاحب کےمتعلق شرف الدین دہلوی  صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:

"ایسے ملا مولوی نفس کے بندے خواہش نفسانی کے لئے گھڑگھڑ کے مسئلے بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ قرآن وحدیث کا مسئلہ ہے اور یہ خدا رسول اللہﷺ کاحکم ہے"

(خلافت محمدی ص30)

اگرچہ اس حوالےمیں مخصوص غیرمقلد کی حالت خود ایک غیرمقلد نےلکھی ہے لیکن یقین جانیں یہ صرف ایک غیرمقلد کا معاملہ نہیں بلکہ پوری ٹبر غیرمقلدین کا یہ معاملہ ہے الّا ماشاء اللّہ۔

بہرکیف! یہ غیرمقلدین کا مرکزی دلیل تھا جس کی حیثیت آپ حضرات نے دیکھی کہ بالکل ان کی دعوی کےمطابق ہےہی نہیں لیکن نورپوری صاحب کی چالاکی دیکھیں کہ یہاں بھی گزشتہ حدیث کی طرح صرف یہی ایک حدیث ذکر کرکے صفحہ 33 سے لیکر صفحہ 65 تک طویل لایعنی بحث کرکے کتاب کو ویسے ضخیم کرنےکی کوشش کی ہے(!!)ہم تو ایک بات ذکرکرکے دوسری بات کو حذف کرنے کی سوچ میں ہوتے ہیں تاکہ بحث لمبی نہ ہو جائے اور یہ آج کل مجتہدین حضرات خواہ مخواہ بحث کو لمبی کرکے اپنی کتاب کو انسائیکلوپیڈیا بنانے کی سوچ میں پڑے  ہوئے ہیں۔موصوف نے اس 32 صفحات میں کیا کیا فرمودات بکھرے ہیں وہ تو کتاب پڑھنے والے حضرات پر پوشیدہ نہیں لیکن ہم ساری باتوں کی مؤاخذہ اور گرفت نہیں کرتے صرف چند ضروری اور موقعہ کی مناسبت سے اہم باتوں کی جوابات دیتے ہیں باقی انکو واپس ہدیہ اور گفٹ کردیتے ہیں۔

نورپوری صاحب نے حدیثِ ابنِ عباس ؓ ذکرکرنےکےبعدلکھتےہیں: "

آئیے اب اس حدیث پرفقہاء کرام کی فقہی آراء ملاحظہ فرمائیں کہ۔۔۔الخ

 جواب: 

"فقہی آراء" ۔۔؟؟؟  لوگوں نے تو آپ کی ذکرکردہ دلیل دیکھ لی اور آپ کے دعویٰ کو اس پر پرکھ لی شکست کھانے کےبعد اب امتیوں کے آراء کےپیچھے جانے کی ضرورت محسوس کی؟

 قارئین کرام ! کیا یہ ان کی واضح شکست نہیں کہ ان کو حدیث پر تسلی نہیں ہوئی تو اب آراء کےپیچھے لگ گئے جبکہ یہ لوگ تو اب تک ہمیں اہل الرائے کہتے تھے(اور نورپوری صاحب نےبھی یہ جرأت کی ہے دیکھے ان کی کتاب کےص 29وغیرہ) اور اب خود آراء کےپیچھے لگ گئے معلوم ہوا  کہ یہ خود بھی اپنی ہی زبانی و اُصول کےمطابق اہل الرائے ہیں لیکن کہنے سے انکو شرم آتی ہے!!

ثانیاً: امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتےہیں کہ

"کسی کی رائےپرچلنےکا نام تقلید ہے"

(حقیقۃ التقلید ص246 اردو، پشتو ص204، التحقیق السدید ص39پشتو، الحق الصریح ج2ص655)

تو  اب آپ چھپ چھپ کسی کی تقلید کی طرف دعوت دیتے ہو جو آپ کےمسلک میں شرک ہے۔

(التحقیق السدید ص69)

ثالثاً: آپ کےمسلک میں تو صحابہ ؓکے رائےحجت نہیں (الحق الصریح ج1ص656 طبع جدید للشیخ امین اللہ البشاوری)  اور نہ صحابہ ؓ کی فہم حجت ہے معاذاللہ(دیکھے فتاوی نذیریہ ج1ص622) تو دیگر فقہاء کرام کی آراء کی کیا حیثیت؟ا

آخر میں آپ کو تنبیہ کےلئے عرض کروں کہ آپ نے جو "آراء" پیش کی ہے تو امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلدسے اس کی حیثیت اور محبت نامہ وصول کیجئے، لکھتےہیں کہ

 جو لوگ رائے پر قول کردیتےہیں تو اس نے اپنےآپ کوبھی گمراہ کیا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا"

(التحقیق السدید ص156)

الہی دیدہ تحقیق وہ غیرمقلد را

جو عینک تابکی برسوبچشم دیگراں ہند

 نورپوری: امام بخاری کی اس حدیث پر تبویب یوں ہے۔(ص33)

 الجواب : اپنی دعویٰ کے مطابق مرفوع حدیث پیش کریں اب امتیوں کے آراء کے محتاج ہوگئے؟

 ثانیاً : غیرمقلدین تو امام بخاری کی رائے کو حجت نہیں مانتے(التحقیق السدید ص83، د تقلید حقیقت پشتو ص244، حقیقۃ التقلید ص76)تو یہاں  دورُخی کیوں اختیار کرلی گئی ؟

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

 ثالثاً : غیرمقلدین تو امام بخاری کو مرفوع القلم(مجنون) سمجھتےہیں العیاذباللہ (دیکھے صدیقہ کائنات ص113 از فیض عالم صدیقی غیرمقلد۔تو یہاں کیوں احتیاج پڑگئی؟

رابعاً: بقولِ احمدشاغف صاحب غیرمقلد بعض غیرمقلدین تو اہانتِ صحیحین(بخاری و مسلم کی بی عزتی اور توہین، ناقل)کا ارتکاب  کرتے ہیں (مقالاتِ شاغف ص73)آج وہ کونسی مجبوری درپیش آئی کہ تقلید سے کام لیتے ہوئے امام بخاری علیہ الرحمۃ کی رائے پر عمل کرنےکی فکر میں پڑگئےہو؟

خامسًا : آپ ہی کےمسلک کےمحقق ابوالاشبال احمدشاغف صاحب لکھتےہیں کہ امام بخاری کی وہ روایات جو "الادب المفرد"میں درج ہے وہ سب کےسب قابل عمل نہیں ہے(مقالات شاغف ص57)آج امام بخاری کی روایات تو   کجا ان کی رائے کےپیچھےلگ گئے ہو؟

یاد رہے احمدشاغف صاحب کی بات کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی جرأت نہ کرنا کیونکہ احمدشاغف صاحب چیخ چیخ کرکہتےہیں کہ

"حق وہی ہے جو میں کہہ رہاہوں"

(مقالاتِ شاغف ص82)

 اور آگےلکھتےہیں کہ

"اگرمیری یہ باتیں آپ کو پسند نہ آئیں تواپنی بربادی اور تباہی کےلئے تیار رہیں"

(مقالاتِ شاغف ص287)

کر دیا تقدیر نےباطل کا فسانہ شوق کا

درہم برہم ہوگیا کارخانہ شوق کا

 نور پوری : امام ترمذی۔۔۔ الخ

 جواب : جب آپ کےہاں امام بخاری کی رائےحجت نہیں تو امام ترمذی کی رائےکب اور کیوں حجت ہوئی؟ جبکہ امام ترمذی کی رائے ہم نے اوپر نقل بھی کی ہے اگرمانتے ہو تو سب اقوال کو مان لیا جائے ۔

 نور پوری : امام ابوداؤد۔۔۔ الخ

 جواب : اللہ سے کچھ شرم و حیا کریں  آپ لوگوں کےوہ بلند دعوے کہاں گئے۔۔۔؟ دلائل ختم تو اب امتیوں کی اقوال پر سہارا؟

یاد رہے آپ ہی کے مسلک کےمحقق و مفتی عبدالقادر حصاری صاحب لکھتے ہیں

 "کسی محدث کی محض تبویب سےدھوکہ نہ کھاناچاہیے"

(فتاوی حصاریہ ج3ص28)

تو بقول حصاری صاحب دھوکہ دینا چھوڑدیں مرفوع حدیث ہی پیش کردیں۔

 نور پوری: امام دارقطنی۔۔۔ امام بیہقی۔۔۔(ص35)

جواب: مشہورغیرمقلد ابوالاشبال احمدشاغف صاحب ان دونوں محدثین کےبارےمیں لکھتے ہیں

"لیکن بیہقی اور دارقطنی وغیرہ جو امام شافعی کےمقلدین شمارہوتےہیں ان کی تصانیف میں اپنے مقلد امام کی ترجمانی کومقدم رکھاگیاہےلہذا ان سےفائدہ اٹھانا آسان نہیں ہے"

(مقالاتِ شاغف ص162)

لہذا ان دونوں مقلدین کی کتابوں کا حوالہ دیکر اپنے آپ کو مزید شرمندہ نہ کریں ۔

 نور پوری : امام نووی۔۔الخ

جواب: اللہ کے بندے! امام نووی کو تو آپ لوگ محدث ہی شمار نہیں کرتے(دیکھے مقالات شاغف ص162)

آخر آپ حضرات کو کیا مجبوری پیش آئی ہے کہ قدم بقدم محدثین، شوافع و امتیوں کےدروازےپردستک دیتے رہتے ہو اور ان سے اپنی حمایت کی بھیگ مانگنا پڑی لیکن وہ بھی خالی ہاتھ واپس ہوتے چلے آرہے ہو،اللہ کی خاطرکیجیے اپنے عوام کو رسول اللہﷺ کی احادیث پیش کیجیے اگر آپ کےپاس ہو بھی تو۔۔۔ ورنہ صاف اقرار کیجیے کہ ہماری دامن اس سےخالی ہے اس میں شرم کی کیابات ہے؟

 نور پوری: سنت سے یہاں مراد وہ اصطلاحی لفظ سنت نہیں جو فرض کےمقابلےمیں بولا جاتا ہے بلکہ یہاں طریقہ نبوی مراد ہے اور طریقہ نبوی کبھی امت کےلئے فرض کادرجہ رکھتا ہے کبھی نفل کا"(ص7)

جواب: بات ہی ختم، جب اس سے وہ سنت مراد نہیں جو فرض کےمقابلہ میں بولاجاتاہے، کیا آپ کومعلوم ہے کہ وہ سنت کیا ہے؟ خود ہی امین اللہ پشاوری سےتعریف ملاحظہ کیجیے، موصوف لکھتےہیں:

 "سنت اس طریقے کو کہتےہیں جو رسول اللہﷺ نےکیا ہو یا اُس پرامرکیا ہوا ہو"

(جمعہ کی نمازسےپہلے سنت کی حیثیت ص18)

اور دوسری کتاب میں لکھتے ہیں

 "(اگر ایک فعل کا)ترک منع نہ ہو تو اگر اُس پر نبی کریم ﷺ یا اس کےبعد خلفاء راشدین نے ہمیشگی اختیار کی ہو تو وہ سنت۔۔۔ الخ

(الحق الصریح ج5ص202)

معلوم ہوا کہ یہ نبی کریم ﷺ کا طریقہ نہیں خود آپ نےہی معاملہ حل فرمایا ۔

مصوّر کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ صفائی ہو

ادھر فرمان محمدﷺ ہو ادھر گردن جھکائی ہو

باقی آپ کا یہ کہنا کہ

"بلکہ یہاں طریقہ نبوی مراد ہے اور طریقہ نبوی کبھی امت کےلئے فرض کادرجہ رکھتا ہے کبھی نفل کا"

تو طریقہ تو مراد ہوسکتا ہے کہ ثناء کی مشہور الفاظ(سبحانک اللھم ) کے بجائے اگرسورۃ فاتحہ پڑھی جائے تو یہ طریقہ بھی درست ہے لیکن لفظ"نبوی" ایک تو آپ کا سراسر حقیقت کےخلاف ہے آخر "نبوی"کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ کیوں خواہ مخواہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہو یا کہ یہ صحابی رسول حضرت معاویہ کےساتھ آپ لوگوں کی گستاخی کانتیجہ ہے کہ آپ لوگوں نے امیرمعاویہ کو جھوٹ کہنے والا کہا ہے(دیکھے تیسیرالباری) اب آپ کی فرقہ کی جھوٹ کہنے کی عادت بن گئی ہے اللھم احفظنا۔ اور مزید برآں کہ آپ کی اپنی تحریرِبالا کے خلاف بھی ہے۔

اور نبی کا طریقہ کبھی فرض کادرجہ رکھتا ہے کبھی نفل کا۔۔ تو یہ بھی سراسر آپ کی مسلک سےناواقیت کی دلیل ہے کیونکہ امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد نے اپنی کتاب میں جابجا یہ لکھا ہے کہ نبی ﷺ کا نفس فعل وجوب(فرضیت) پر دلیل نہیں بن سکتی،چنانچہ ایک جگہ لکھتےہیں کہ

"ان روایات میں نبی کریمﷺ کےافعال کا ذکر ہےاور افعال وجوب پیدا نہیں کرتی تو ماتحب ہوا"

(الحق الصریح ج2ص334 335)

اور دوسری جگہ بھی لکھتےہیں کہ

 "یہ فعل نبیﷺ کا ہے اور مجرد فعل وجوب اور تحریم پردلالت نہیں کرتی جیساکہ ابن حجر فرماتےہیں:وفعلہ المجرد لایدل علی الوجوب ولاالتحریم"

(فتح الباری ج1ص362 و ج9ص14، توجیہ القاری ص89)

(الحق الصریح ج2ص108 و 111)

نیز دیکھے الحق الصریح جلد4صفحہ43، فتاوی الدین الخالص جلد1صفحہ421پشتو، فتاوی الدین الخالص جلد1صفحہ 432 عربی،  ارواء الغلیل جلد1صفحہ148 الرقم 111 للألبانی)

تو اگر آپ کی استدلال ٹھیک بھی ہو جائے تو اس سے وجوب کہاں ثابت ہوتی ہے؟

پھر نورپوری صاحب غیرمقلد نے"سیدنا عبداللہ بن مسعود اور لفظِ سنت"کا عنوان دےکر ایک حدیث نقل کی ہے کہ

 فإنّ اللهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُم ﷺسُنَنَ الهُدى وإنّهنَّ مِن سُنَنِ الهُدى،ولوأنکم صَلَّيْتم في بُيوتِكم کمایصلی ھذا المتخلف فی بیتہ، لَتَرَكْتم سُنَّةَ نبيِّكم ، ولو تَرَكْتم سُنَّةَ نبيِّكم لَضَلَلْتم..(مسلم)

(پھرنورپوری صاحب لکھتےہیں) سیدنا ابن مسعود نےاپنےاس فرمان میں فرض نمازوں کوسنن قراردیاہے"

(ص38)

جواب: اللہ آپ کو بصیرت عطاء فرمائیں یہاں نزاع اس بات میں ہے کہ جب "سنت" مطلق بولا جائے (بدون الاضافۃ الی النبیﷺ)کیا اس سےمراد "سنت نبویﷺ" ہی ہے؟

 نور پوری     : "نیز نبی اکرم ﷺ کی سنت کو چھوڑنا گمراہی کا سبب بتایا ہے"(ص38)

 جواب: اسی وجہ سے ہمارا تو یہ نعرہ ہے کہ غیرمقلدین صحابہ کے پھر بھی نہیں مانتے کچھ دیر پہلے غیرمقلدین کےحوالہ جات ذکر ہوئے کہ انہوں نے کہا ہے کہ سنت کےچھوڑنےپرکوئی مواخذہ نہیں۔

نیز۔۔۔ جیسے آپ نے لفظِ سنت کے ساتھ "نبی اکرم ﷺ" کی قید لگایا تو ایسا ہی میں آپ سے جنازہ میں سورۃ فاتحہ سنتِ نبی اکرم ﷺ کی قید کا مطالبہ کررہا ہوں جو آپ  کے بس میں نہیں ہے فللہ الحمد والمنۃ

 نور پوری : محدّثین کرام کےنزدیک یہ اصول مسلّم ہےکہ جب صحابی لفظِ سنت بولے تو اس سےمراد نبی اکرم ﷺ کاطریقہ ہی ہوتا ہے۔

 جواب : جب یہ محدثین کا قول اور اصول ہوا تو آپ کا اس سے کیا تعلّق؟ ابھی تک تو آپ لوگ کہتے کہ اہلحدیث کے دو (۲) اصول اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول باقی سب فضول، اور اب محدثین کی کی در و دیوار کو چاٹ

 رہےہو؟

دلیلِ شرعی(بقولِ آپ کے) صرف اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کا قول پیش کریں ہیر پھیر  کی ضرورت نہیں۔

نور پوری:امام حاکم فرماتے ہیں اہل علم کا اجماع ہے کہ صحابی"سنت" کہے تواس سےمراد مرفوع حدیث ہوتی ہے۔

  جواب : کیوں اللہ یا اس کا محبوب پیغمبر پاک ﷺ کا قول ختم ہوکر اب امتیوں کےدر پرحاضری لگایا؟اپنا دعویٰ بھول گئے ہو؟اگر تقلیدًا پھر بھی ناکامی کی صورت میں اجماع ہی سے ناکام استدلال کرتے ہو تو یاد رکھے بقول امین اللہ پشاوری صاحب اجماع کا ماخذ دکھائیں اجماع کی تاریخ بتائیں اجماع کن کن لوگوں نے کی؟ وغیرہ وغیرہ

  غیرمقلدین کےنزدیک اجماع حجت نہیں 

            اگر اجماع ثابت بھی ہو جائے تب بھی غیرمقلدین اسکو حجت نہیں مانتے چندحوالہ جات اختصارا ملاحظہ کیجئے ۔غیرمقلدین کےشیخ الحدیث عبدالمنان نورپوری صاحب کی اشاعتِ خاص میں اجماع کی نفی پر خوب لکھا گیا ہے مثلاً

"یہ(مقلدین) جتنی بھی دلیلیں اجماع کی پیش کرتےہیں بنتی ان میں سےکوئی بھی نہیں"

اور مزید لکھتے ہیں

 "یہ بھی اجماع کی نفی ہےکہ اجماع ھونا ہی نہیں ہے اور یہ بنائےبیٹھےہیں"

مزید لکھتے ہیں

 "تو یہ(بھی)اجماع کی نفی ہےاس حدیث نےتواجماع کےپرخچےاڑادئیےہیں اور یہ دلیل بنائے   بیٹھے ہیں"

(سہ ماہی مجلّہ المکرم اشاعتِ خاص عبدالمنان نورپوری ص40 و 41)

اور نورپوری صاحب کی دوسری کتاب میں بھی ایک غیرمقلد کا یہ قول موجود ہے کہ

"اجماع صحابہ اور اجماع ائمہ مجتہدین  کادین میں حجت ہونا قرآن وحدیث سےثابت نہیں"

(مکالمات نورپوریص85)

نواب وحیدالزمان صاحب نےبھی اجماع کی عدم حجیت ہونے پر قول کیا ہے دیکھے اختصارًا(عرف الجادی ص3)

ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں

"بہت سے اہلحدیث ایسےہیں جواجماع کےقائل نہیں بلکہ بعض قیاس کے بھی نہیں

(اخبار اہلحدیث امرتسر 11جون 1915ء)

نواب صدیق حسن خان صاحب نےبھی اجماع کی عدم حجیت کا قول کیا ہے اختصاراً دیکھے(افادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ فارسی ص121 مطبع مکتبہ محمدیہ لاہور)

احمدشاغف صاحب نےبھی اجماع کاانکار کیا ہے دیکھے (مقالات شاغف ص 206 تا 208)وغیرہ وغیرہ

جب غیرمقلدین کےنزدیک اجماع حجت نہیں تو آج کیوں امتیوں کے اقوال کو محتاج ہوگئے؟

ثانیاً: اس تقلیدی مقولے پر کوئی اجماع نہیں ۔

شمس الائمہ سرخسی (جس کی علمیت اور فضیلت کیلئے امین اللہ پشاوری صاحب کی کتاب دیکھے الحق الصریح جلد 1 صفحہ5) نے اس پر لمبی بحث کی ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ واقعی اس میں اختلاف موجود ہے اور پھر امام شافعی کا قولِ جدید بھی پیش کی ہے کہ اس سے مراد سنتِ نبوی ﷺ نہیں ہے،

خلاصۃً علّامہ سرخسی نے فرمایا ہے کہ ہر جگہ مطلقا لفظ سنت سے "سنت نبوی" خاص نہیں بلکہ سنتِ صحابہ بھی مراد ہوتی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "علیکم بسنتی و سنۃ الخفاء الراشدین" (سنن ابی داود) تو دیکھے خود نبی کریم ﷺ نے بھی تقسیم فرمایا ہے کہ میرابھی سنت ہوسکتی ہے اور میرےصحابہ کے بھی سنت ہوسکتی ہے تفصیلاً دیکھے (اصول سرخسی جلد1صفحہ 380 و  381)

صحابہ کرام جب سنت سے مراد سنت نبوی مراد لیتے تو مضاف الیہ استعمال کرتے یعنی تصریح کرتے جیساکہ صبی بن معبد جب نصرانیت سےتوبہ تائب ہوکر اسلام میں داخل ہوا تو حضرت عمر فاروق نے اسے فرمایا کہ

 "ھُدِیْتَ لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ"

(مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص289)

کہ آپ کو آپکی نبیﷺ کی سنت کی راستہ دکھایاگیا۔

دیکھے جناب یہاں صرف سنت لفظ پراکتفاء نہیں کیاگیا بلکہ "سنت نبی" کہہ کر ابہام کو رفع کیا۔

مزید تفصیلی و تحقیقی جواب کےلئے حضرت اقدس مفتی ابویوسف درویش رحمہ اللہ و نوراللہ مرقدہ و کثراللہ امثالہ کی کتاب"کیا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے؟" کی صفحہ 2 تا 15 اور میری نوٹس بک(جو اکابرینِ دیوبند رحمہم اللہ کی تحقیقات ہی ہے میں نےصرف جمع کیا ہے)بنام "التحقیقات النافعہ فی مسائل الجنازہ" دیکھ سکتے ہیں یہاں تو وقت کی اتنی قلّت ہے کہ واللہ مجھےنظرثانی کا موقعہ بھی نہیں ملتا اور رسالہ(مجلّہ راہِ ہدایت ) بھی صرف میری مضمون کی وجہ سے اب تک موقوف ہے(میری کمزوری کی بناء پر۔۔ اللھم ارحمنا)

بہر کیف۔۔۔ یہ مسئلہ اختلافی ہی ہے اجماعی نہیں ہے اور یہ بات محدثین اور غیرمقلدین نے بھی مانی ہے موقعہ کی مناسبت سے صرف مختصراً دو تین حوالہ جات پیشِ خدمت ہے۔

حافظ ابن حجر الشافعی(852ھ) اس کو اختلافی کہتے ہوئے لکھتے ہیں

 "مع أن الخلاف عندأھل الحدیث وعند الأصولین شھیر"

(فتح الباری ج3ص203 نیز دیکھے تدریب الراوی ص314)

کہ اس اصول میں محدثین اور اصولیین کا مشہوراختلاف موجودہے

اور غیرمقلدین کے محقق و فضیلۃ الشیخ مولانا ابوصہیب محمد بن عبدالرحمن صاحب بھی اس کو اختلافی مسئلہ کہتے ہوئے رقمطراز ہیں

 "اگرچہ اس میں اہلِ حدیث اور اہلِ اصول کےاختلاف موجود ہے"

( د جنازی احکام او مسائل ص285 پشتو)

بنتے ہو وفادار وفاکرکےدکھاؤ

کہنےکی وفا اور ہے کرنے کی  وفا اور

  نوٹ  : "من السّنۃ" سے مراد کیا ہے؟ اس میں تحقیقی قول کےلئے دیگر علماء دیوبند کی کتب کی طرف رجوع کریں یہاں تحقیقی قول ذکر کرنا ناتو مقصود ہے اور نہ یہاں اس کی کوئی حاجت ہے ۔


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...