نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مولانا عبد الحی لکھنویؒ کے تفردات اور ترکِ تقلید: ایک جائزہ


مولانا عبد الحی لکھنویؒ کے تفردات اور ترکِ تقلید: ایک جائزہ

 مولانا عصمت اللہ نظامانی صاحب حفظہ اللہ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی(ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)

            مولانا عبد الحی لکھنویؒ برِصغیر کے جلیل القدر محدث، بلند پایہ فقیہ اور مضبوط علمی استعداد کے مالک تھے۔ ان کو علوم عقلیہ ونقلیہ دونوں میں کامل مہارت حاصل تھی۔ وقت کے بڑے بڑے علماء ومشائخ بھی ان سے استفادہ کرتے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو تصنیف وتالیف کا ذوق اور فنِ تحریر کا ملکہ بھی خوب عطا کیا تھا، چنانچہ حدیث، فقہ، اصول،صرف ونحو اور دیگر علوم وفنون میں ایک سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں(۱)، جن میں سے بعض ضخیم اور کئی مجلدات پر مشتمل ہیں۔

            تاہم جیساکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض جلیل القدر اہل علم سے تفردات کا صدور ہوتا ہے، اور وہ اپنی تحقیق کی بنا پر جمہور سے ہٹ کر رائے رکھتے ہیں ۔ اسی طرح مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے بھی کچھ آراء، خصوصاً بعض فقہی مسائل میں جمہور احناف سے ہٹ کر رائے اختیار کی ہے، اور چند مسائل میں دیگر مذاہب مثلاً مالکیہ وشافعیہ وغیرہ کو راجح قرار دیا ہے۔

            مولانا عبد الحی لکھنوی کے ان تفردات کو لےکر بعض حضرات ان پر ترکِ تقلید کا الزام لگاتے ہیں، اور انہیں غیر مقلدین کی طرف مائل گردانتے ہیں۔ درجِ ذیل تحریر سے معلوم ہوگا کہ مولانا عبد الحی لکھنویؒ حنفی تھے، تارکِ تقلید نہیں تھے، اور یہ کہ ان کے تفردات سے ان پر کسی قسم کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

مولانا عبد الحی لکھنوی کے تفردات:

            مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے متعدد فقہی مسائل میں تفرد وشذوذ اختیار کیا، ان میں سے بعض حسبِ ذیل ہیں۔

1۔۔۔علامہ عبد الحی لکھنوی کے نزدیک وضو سے قبل تسمیہ یعنی بسم اللہ پڑھنا واجب ہے(۲)۔ جبکہ جمہور احناف کے نزدیک مستحب، اور زیادہ سے زیادہ مسنون ہے۔(۳)

2۔۔۔ علامہ لکھنویؒ کے تفردات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے(۴)۔ جبکہ جمہور احناف کے نزدیک اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔(۵)

3۔۔۔اکثر احناف کے نزدیک بالغ مرد کے لیے نابالغ بچہ  کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں، نہ فرض نماز اور نہ ہی تراویح وغیرہ(۶) جبکہ مولانا عبد الحی لکھنویؒ کے نزدیک تراویح میں نابالغ بچہ مرد حضرات کی امامت کراسکتا ہے۔(۷)

4۔۔۔ مولانا عبد الحی لکھنویؒ کے تفردات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک اکیلی خواتین کی جماعت بلا کراہت جائز ہے۔(۸) حالانکہ جمہور احناف کے نزدیک صرف خواتین کی جماعت مکروہ تحریمی ہے۔(۹)

5۔۔۔ جمہور احناف کے نزدیک امام کے پیچھے مقتدی حضرات کے لیے سورت فاتحہ یا کسی دوسری سورت کی قرائت کرنا جائز نہیں، خواہ نماز جہری قرائت والی ہو یا سرّی قرائت والی ہو۔(۱۰) مولانا عبد الحی لکھنویؒ اس مسئلہ میں بھی متفرد ہیں، ان کے نزدیک سرّی نمازوں میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنا مستحب ہے۔(۱۱)اسی طرح اور بھی کئی مسائل ہیں جن میں مولانا عبد الحی لکھنویؒ جمہور احناف سے ہٹ کر الگ رائے رکھتے ہیں۔

تفردات وشذوذات کا اجمالی جائزہ:

            سب پہلے یہ بات ملحوظ رہے کہ فقہی تفردات کے سلسلے میں مولانا عبد الحی لکھنوی اکیلے نہیں، ان سے قبل دیگر فقہائے احناف، بلکہ حضرات صحابہ نے بھی بعض مسائل میں جمہور سے ہٹ الگ موقف اختیار کیا ہے،چنانچہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا سونا وچاندی جمع کرنے کو ناجائز قرار دینا، ان کا شذوذ تھا، جس سے دیگر صحابہ کرام متفق نہیں تھے۔(۱۲)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بالغ مرد کو دودہ پلانے پر حرمت ِرضاعت کے ثبوت کا کہنا بھی ان کا تفرد تھا۔(۱۳)

            نیز قربانی صرف دسویں ذوالحجہ کو صحیح قرار دینا داؤد ظاہری کے تفردات میں سے ہے۔(۱۴) کھجور سے افطاری واجب قرار دینا علامہ ابنِ حزم کا شذوذ ہے،  چنانچہ حافظ ابن ِحجر فرماتے ہیں: " وقد شذ ابن حزم فأوجب الفطر على التمر" (۱۵) یعنی علامہ ابن حزم نے شذوذ اختیار کیا ہے اور کھجور پر افطار کو واجب قرار دی ہے۔

            اسی طرح کئی فقہائے کرام اور اہل علم سے فقہی مسائل میں تفردات کا صدور ہوا ہے اور انہوں نے جمہور سے ہٹ کر موقف اختیار کیا ہے۔ان تفردات کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی تنقید یا الزام نہیں لگایا گیا؛ کیونکہ ان فقہی شذوذات کا صدور علمی دلائل کی وجہ سے ہوا ہے۔ زیغ وضلال، فکری کجروی یا علمی ناپختگی کی بناپر نہیں ہوا۔یہ الگ بات ہے کہ جمہور کا مسلک قوی دلائل سے ثابت ہونے کی وجہ سے ان تفردات پر عمل نہیں ہوسکتا۔اسی طرح مولانا عبد الحی لکھنوی پر بھی ان کے فقہی تفردات کی وجہ سے کسی قسم کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

            دوسری بات یہ کہ مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے جن مسائل میں تفرّد اختیار کیا ہے، ان میں سے اکثر ایسے ہیں جنہیں احناف میں سے کسی فقیہ وغیرہ نے اختیار کیا ہے، ایسے تفردات بہت کم ہیں جن میں وہ بالکل متفرد ہوں، اور ان سے قبل احناف میں سے کسی فقیہ نے وہ قول اختیار نہ کیا ہو۔

چنانچہ وضو سے پہلے تسمیہ کے وجوب کا قول فقہائے احناف میں سے علامہ ابنِ ہمام نے اختیار کیا ہے۔(۱۶)

تروایح میں نابالغ کی اقتداء کا جواز احناف میں سے مشائخِ بلخ سے منقول ہے۔(۱۷)

صرف خواتین کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے جواز کی طرف علامہ ابن ہمام مائل ہیں۔(۱۸)

سرّی نماز میں فاتحہ خلف الامام کے استحباب کی جانب امام ابو حفص کا میلان ہے، اسی طرح امام محمد سے بھی اس سے متعلق ایک روایت منقول ہے۔(۱۹)

            اسی طرح دیگر تفردات میں بھی فقہائے احناف میں سے کسی نہ کسی فقیہ وغیرہ کا قول موجود ہے۔ مولانا عبد الحی لکھنوی کے ایسے بہت ہی کم تفردات ہوں گے جن میں احناف میں سے کسی کا قول نہ ہو۔

غیر مقلد حضرات پر نقد وتنقید:

             مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے ادب واخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے غیرمقلد حضرات کے متعدد بڑے علماء سے تحریری مباحثے ومناظرے کیے، اور ان پر علمی نقد وتنقید کی۔ذیل میں بعض علماء کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1۔۔۔ نواب صدیق حسن خان قنوجی (ت:۱۳۳۷ھ): اپنے دور کے مشہور اہلِ حدیث عالم اور ترکِ تقلید کی طرف داعی تھے۔ ان سے مولانا عبدالحی لکھنویؒ کے مباحثے اور رد وتنقید ہوتی رہتی تھے۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب "اتحاف النبلاء" میں علامہ ابنِ ہمامؒ کو "متعصب حنفی" قرار دیا تو مولانا لکھنویؒ نے اس پر نقد کرتے ہوئے تحریر فرمایا: "وهو كذب وزور، فإنه من المحقيقين"(۲۰) یعنی یہ قول سراسر جھوٹ ہے؛ کیونکہ ابن ہمام محققین میں سے ہیں۔

اور نواب صدیق حسن خان کی کتاب "الحطۃ" میں موجود غلطی پر نشاندھی کرتے ہوتے تحریر فرماتے ہیں:

ومن عجائب زلة القدم وطغيان القلم ما وقع في الحطة في ذكر الصحاح الستة۔ ۔ ۔ إلخ (۲۱)

ترجمہ: قدم کی لغزش اور قلم کی سرکشی کے عجائب میں سے ایک وہ ہے جو "الحطة فی ذکر الصحاح الستة"نامی کتاب میں ہے۔۔إلخ

ایک جگہ نواب صدیق حسن خان کی تصانیف پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

يعلم من طالعها أن مؤلفها لم يقصد إلا جمع الرطب واليابس کجمع الغافل والناعس، لا تنقيح الأمور التي يجب تنقيحها، ولا تحقيق الأمور التي يجب تحقيقها، وفيها مسائل بشعة شاذة، ودلائل مطروحة ومخدوشة وأغلاط فاحشة. (۲۲)

ترجمہ: جس شخص نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا، اس کو معلوم ہوگا کہ ان کےمؤلف نے محض رطب ویابس جمع کرنے کا ہی قصد کیا ہے، غافل اور اونگھنے والے آدمی کے جمع کرنے کی طرح۔ جن امور کی تنقیح واجب ہے، ان کی تنقیح نہیں۔ جن کی تحقیق لازم ہے، ان کی تحقیق نہیں۔ ان میں متعدد نامناسب مسائل وتفردات ہیں، اور کمزور و غیر مضبوط دلائل ہیں، اور بہت سی فاحش غلطیاں ہیں۔

            مولانا عبد الحی لکھنویؒ کی یہ تنقید وغیرہ خالص نیک نیتی پر مبنی تھی، لیکن نواب صدیق حسن خان نےاسے تعصب پر محمول کیا، جیسا علامہ لکھنوی فرماتے ہیں:

وقد كنت أردت أن أترك التعقبات عليه لما سمعت أنه يحزن منها، ويحملها علی التعصب والعناد. (۲۳)

ترجمہ: میں نے ارادہ کیا تھا کہ ان (نواب صدیق حسن) پر تعقّبات واعتراضات کرنا ترک کردوں گا؛ کیونکہ میں نے سنا تھا کہ ان سے وہ غمگین ہوتے ہیں اور انہیں تعصب وعناد پر محمول کرتے ہیں۔

            لیکن جب نواب صاحب کے متعلقین میں سے بعض حضرات نے علامہ لکھنوی کی بیان کردہ اغلاط اور تنقید کا جواب لکھاتو مولانا لکھنویؒ نے بھی "إبراز الغی الواقع فی شفاء العی" لکھ کر اس کا بہترین انداز میں جواب دیا۔

            پھر جب نواب صاحب کی طرف سے ان کے ایک متعلق نے علامہ لکھنوی کی اس کتاب کا جواب لکھاجس کا نام "تبصرة الناقد في رد كيد الحاسد" رکھا۔علامہ لکھنوی نے اس کا بھی رد اور جواب لکھا، اور "تبصرة الراشد برد تبصرة الناقد" نامی کتاب تصنیف فرمائی۔

2۔۔۔ علامہ محمد بشیر سہوانی (تَ۱۳۲۳ھ): ابتدا میں حنفی تھے، لیکن بعد میں غیر مقلد ہوگئے تھے، محدث نذیر حسین دہلوی سے خصوصی استفادہ کیا تھا۔ نواب صدیق حسن خان بھی ان کا انتہائی احترام کرتے تھے۔چنانچہ صاحبِ نزھۃ الخواطر تحریر فرماتے ہیں: "وكان السيد صديق حسن القنوجي يحترمه غاية الاحترام"(۲۴)

            سن ۱۲۸۸ھ میں انہوں حج کیا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی زیارت نہیں کی، بعض اہلِ علم نے ان پر اس کی وجہ سے کچھ تنقید کی تو انہوں نے "القول المحقق المحكم في زيارة قبر الحبيب الأكرم" نامی کتاب لکھی، اور اس میں ثابت کیاکہ حضورﷺ کی قبر ِاطہر کی زیارت ایک مستحب امر ہے، لازم نہیں ہے۔چنانچہ اس کے جواب میں علامہ لکھنوی نے "الكلام المبرم في نقض القول المحقق المحكم" لکھ کر ثابت کیاکہ روضۂ اقدس کی زیارت لازم وواجب ہے۔

            پھر اس کے رد میں علامہ سہوانی نے "القول المنصور في زياره سيد القبور" نامی رسالہ لکھا تو علامہ لکھنویؒ نے اس کا جواب بھی تحریر فرمایا، جس کا نام "الكلام المبرور في رد القول المنصور" رکھا۔

            بعدازاں کافی عرصے کے بعد اس سلسلے میں تیسرا رسالہ "المذهب المأثور في زيارة سيد القبور" تحریر کیا تو علامہ لکھنویؒ نے اس کا جواب بھی لکھا، جس کا نام "السعي المشكور في رد المذهب المأثور" رکھا۔(۲۵)

الغرض غالی قسم کے غیر مقلد حضرات حضور ﷺ کی قبرِ اطہر کی زیارت کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتے، بلکہ بعض حضرات اس کے لیے مستقل سفر کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، لیکن علامہ لکھنویؒ کا موقف اس سلسلے غیرمقلدین کے قطعی خلاف تھا، اور وہ روضہ اطہرکی زیارت کو لازم قرار دیتے تھے۔جیساکہ علامہ سہوانی کے رسائل کے جواب اور جواب الجواب سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔

3۔۔۔محمد حسین بٹالوی (ت:۱۳۳۸ھ)، مشہور غیرمقلد عالم ہیں، ابتداءمیں ائمہ اربعہ کے مقلدین، خصوصاً احناف پر سخت تنقید کرتے تھے، لیکن بعد میں اعتدال کی طرف مائل ہونے لگے۔انہوں نے بھی علامہ لکھنویؒ سے استفادہ کیا ہے، اور اصولِ حدیث وغیرہ سے متعلق چند سوالات علامہ لکھنوی کی خدمت میں پیش کیے جن کا مفصل جواب علامہ لکھنوی نے دیا، اور اس کا نام "الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة" رکھا۔(۲۶)

 

مولانا عبد الحی لکھنوی اور امام ابوحنیفہ کا دفاع:

            علامہ عبد الحی لکھنویؒ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بہت محبت وعقیدت رکھتے تھے، اور ان کا دفاع کرتے اور مخالفین کی طرف سے لگائے گئے الزامات واعتراضات کا دندان شکن جواب دیتے تھے، بلکہ اس سلسلے میں بسااوقات ان کے قلم سے کچھ سخت الفاظ کا صدور بھی ہوتا تھا، چنانچہ امام صاحب کے دفاع سے متعلق علامہ لکھنویؒ کی بعض عبارات حسبِ ذیل ہیں۔

1۔۔ مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے علامہ ابنِ خلدون کی طرف منسوب قول(امام ابوحنیفہؒ کو صرف سترہ احادیث یاد تھیں) عمدہ طریقے اور جاندار اسلوب میں رد کیا اور پھر تحریر فرمایا:

ولعمري ليس هذا القول إلا كالقول بأن البخاري لم تكن له مهارة في الحديث، وأن مسلماً لم يكن معتبراً في رواية الحديث، وغير ذالك من الأقوال التي تشهد ببطلانها شهادة العيان، وإقامة البرهان وحذاقة الوجدان. (۲۷)

ترجمہ: یہ قول ایسا ہی کہ جیساکہ امام بخاری کے متعلق یہ کہا جائے کہ انہیں حدیث میں مہارت نہیں تھی، یا امام مسلم روایتِ حدیث میں قابلِ اعتبار نہیں، اور اس قسم کے دیگر اقوال جن کے باطل ہونے پر مشاہدہ، دلیل اور وجدان سب گواہ ہیں۔

2۔۔ مولانا لکھنویؒ نے ایک جگہ یہ بیان کیا ہے کہ بعض حضرات نے حدیث قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ راوی اسے کتاب کے بجائے حفظ بیان کرے،اور ان میں امام ابوحنیفہ بھی ہیں۔ بعدازاں علامہ لکھنویؒ لکھتے ہیں:

ومن ثَم قلت روايات الإمام أبي حنيفة بالنسبة إلی غيره من المحدثين، وهذا ينبیء عن شدة ورعه وغاية احتياطه، وقد خبط جمع من علماء زماننا فعدوه من ماعيبه. (۲۸)

ترجمہ: اسی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ کی روایات دیگر محدثین کی بنسبت کم ہیں، اور یہ بات ان کی انتہائی تقوی واحتیاط کی خبر دیتی ہے۔ ہمارے زمانے کے علماء کی ایک جماعت خبط میں مبتلیٰ ہوئی ہے اور اسے (قلتِ روایات کو) امام صاحب کے عیوب میں شمار کیا ہے۔

3۔۔ اور ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

 "فكون أبي حنيفة ثقة ظاهر، لم ينكره إلا متعصب أو غافل جائر"(۲۹) یعنی امام ابوحنیفہ کا ثقہ ہونا ظاہر ہے۔ صرف متعصب یا غافل وظالم شخص ہی اس کا انکار کرسکتا ہے۔

4۔۔ نواب صدیق حسن خان نے امام ابوحنیفہ ؒپر زبانِ طعن دراز کی تھی، اور ان پر مختلف قسم کے  اعتراضات کیے تھے، چنانچہ اس سلسلے میں علامہ لکھنویؒ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

ومن العجائب المزخرفة قول بعض أفاضل عصرنا، وهو النواب المعزول البهوفالي السيد القنوجي في تصانيفه۔ ۔ ۔ أن أبا حنيفة بضاعته في الحديث مزجاة، وأنه لم ير أحداً من الصحابة ۔ ۔ ۔ ولعمري يجب علی جميع المسلمين الرد عليها وإبطالها، ولقد جوزي بها قائلها بالعزل والذلة. (۳۰)

ترجمہ: عجیب ومزخرف (ملمع سازی کی ہوئی) باتوں میں سے ہمارے زمانے کے ایک فاضل کا قول ہے، اور وہ معزول بھوپالی نواب سید قنوجی ہے۔۔۔ وہ یہ کہ امام ابوحنیفہ کی حدیث میں پونجی کھوٹی تھی، اور یہ کہ انہوں نے کسی ایک صحابی کی زیارت بھی نہیں کی۔۔إلخ، بخدا! تمام مسلمون پر ان کا رد وابطال لازم ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے قائل (نواب صاحب) کو معزولی اور رسوائی کے ساتھ ان باتوں کا بدلہ بھی دیا گیا۔

            اسی طرح مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے اپنی تصانیف میں کئی مقامات پر امام ابوحنیفہؒ کا دفاع کیا، اور ان کے مخالفین پر سخت قسم کی تنقید کی۔ لہٰذا علامہ لکھنوی کو غیرمقلد قرار دینا یا ترک تقلید کی طرف مائل سمجھنا درست نہیں۔

            خلاصہ کلام یہ ہے کہ علامہ عبد الحی لکھنویؒ سے تفردات کا صدور ہواہے، اور متعدد فقہی مسائل میں انہوں نے جمہور احناف سے ہٹ کر الگ رائے اختیار کی ہے، جس پر عمل کرنا ضروری نہیں، لیکن اس کی وجہ سے ان پر کسی قسم کا الزام نہیں لگایا جاسکتا، اور نہ ہی ترکِ تقلید کی طرف انہیں منسوب کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان کی تصانیف کا بغائر مطالعہ کیا جائے تو علامہ لکھنوی ایک معتدل اور غیر متعصب حنفی نظر آئیں گے، اور انہیں ترکِ تقلید کی طرف منسوب کرنایقینی طور پر  ایک خلافِ واقع امر معلوم ہوگا۔

حواشی وحوالہ جات

(۱)  الرفع والتكميل فی الجرح والتعديل للكنوي، (ص:۲۱)، تحقيق: عبد الفتاح أبوغدة، الناشر: المكتبة الوحيدية

(۲) إحكام القنطرة في  أحكام البسملة للكنوي، (ص:۳۳)، ضمن مجموعة رسائل اللكنوي،( ۶۵/۱)، الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي

(۳)  المحيط البرهاني في الفقه النعماني لابن مازه، (۴۲/۱)، الناشر: دار الكتب العلمية- بيروت، ط:۱۴۲۴ه- ۲۰۰۴م

(۴)  التعليق الممجد علی مؤطا محمد للكنوي، (۲۳۸/۱)، الناشر: دار القلم، دمشق

(۵)  المبسوط للسرخسي، (۸۰/۱)، الناشر: دار المعرفة- بيروت، ط:۱۴۱۴ه- ۱۹۹۳م

(۶)  البحر الرائق شرح كنز الدقائق لابن نجيم، (۳۸۱/۱)، الناشر: دار الكتاب الإسلامي

(۷)  نفع المفتي والسائل للكنوي، (ص:۱۲۳)، ضمن مجموعة رسائل اللكنوي، (۲۵۶/۴)

(۸)  تحفة النبلاء فيما يتعلق بجماعة النساء للكنوي، (ص:۲۳)، ضمن مجموعة رسائل اللكنوي (۲۳۳/۵)

(۹) البحر الرائق شرح كنز الدقائق لابن نجيم، (۳۷۲/۱)

(۱۰)  الهداية شرح بداية المبتدي للمرغيناني، (۵۶/۱)، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت

(۱۱)  إمام الكلام مع غيث الغمام للكنوي، (ص:۲۶۷)، ضمن مجموعة رسائل اللكنوي (۲۶۷/۳)

(۱۲)  عمدة القاري شرح صحيح البخاري للعيني، (۲۴۸/۸)، الناشر: دار إحياء التراث العربي- بيروت

(۱۳)  سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب في من حرم به }إرضاع الكبير{، (۱۸۰/۲)، رقم الحديث: ۲۰۶۳، الناشر: دار الغرب الإسلامي- بيروت

(۱۴) فتح الباري لابن حجر، (۸/۱۰)، الناشر: دار المعرفة، بيروت

(۱۵)  المصدر السابق، (۱۹۸/۴)

(۱۶)  فتح القدير لابن الهمام، (۲۴/۱)، الناشر: دار الفكر

(۱۷المحيط البرهاني فی الفقه النعماني لابن مازه، (۴۰۷/۱)

(۱۸)  فتح القدير لابن الهمام، (۳۵۴/۱)

(۱۹)  المحيط البرهاني فی الفقه النعماني لابن مازه، (۳۰۵/۱)

(۲۰)  حاشية النافع الكبير للكنوي، (ص:۱۵)، ضمن مجوعة رسائل اللكنوي، (۲۹۵/۳)

(۲۱)  التعليقات السنية علی الفوائد البهية للكنوي، (۲۸۳-۲۸۴)، الناشر: المكتبة الحقانية

(۲۲)  إبراز الغي الواقع في شفاء العي للكنوي، (ص:۳)، ضمن مجوعة رسائل اللكنوي، (۳/۶)

(۲۳)  المصدر السابق، (ص:۵)

(۲۴)  نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر، عبد الحي الحسني، (۱۳۵۳/۸)، الناشر: دار ابن حزم- بيروت، ط:۱۴۲۰ه- ۱۹۹۹م

(۲۵)  الإمام عبد الحي اللكنوي علامة الهند وإمام المحدثين والفقهاء، ولي الدين الندوي، (ص:۳۱۲)، الناشر: دار القلم- دمشق، ط:۱۴۱۵ه- ۱۹۹۵م

(۲۶)  الأجوبة الفاضلة للأسئلة الكاملة للكنوي، (ص:۱۵)، الناشر: دار الكتب للنشر والتوزيع، ط:۱۴۳۹ه- ۲۰۱۸م

(۲۷)  غيث الغمام علی حواشي إمام الكلا، (ص:۱۷۵)، ضمن مجموعة رسائل اللكنوي (۱۷۵/۳)

(۲۸)  ظفر الأماني بشرح مختصر السيد الشريف الجرجاني للكنوي، (ص:۵۲۵)، الناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية- بيروت، ۱۳۱۶ه

(۲۹)  غيث الغمام علی حواشي إمام الكلا، (ص:۱۷۲)

(۳۰)  المصدر السابق، (ص:۱۷۷)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...