فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع(
جلددوم )
اعتراض:۱۳۹... اکابر دیوبند مقدس ہستیاں نہیں، اس لیے
اُن کا وسیلہ جائز نہیں
مفتی رب نواز، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمدپور شرقیہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
حضرت مولانا محمداحتشام الحسن رحمہ اللہ ’’
علماء دیوبند ‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ حق تعالیٰ شانہ اپنے فضل و کرم سے
میری بد اعمالیوں اور سیہ کاریوں کی پردہ پوشی فرما دیں اور مجھے اور آپ کو ان
مقدس ہستیوں کے طفیل سے اچھے کردار نصیب فرمائیں۔ ‘‘
(مسلمانوں کی موجودہ پستی کا
واحد علاج صفحہ ۲ ، فضائل اعمال صفحہ۷۰۲)
محمد طارق
خان غیرمقلدنے مذکورہ عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ہم پوچھتے ہیں کہ کیا احتشام پر وحی
آئی ہے کہ ان کے اکابرین مقدس ہستیاں ہیں ... جب ہم غیر نبی کے بارے میں جانتے ہی
نہیں کہ اس کا اپنے رب کے یہاں کیا مقام ہے تو پھر اس سے وسیلہ پکڑنا کیا معنی
رکھتا ہے حالاں کہ قارئین دیکھ ہی رہے ہیں کہ ان کے اکابرین نے کیسے کیسے غلط
عقیدے پھیلا کر امت کو گمرا ہ کیا یعنی خلاصہ یہ کہ بزرگوں کا وسیلہ اختیار کرنا
شرک ہے اور اہلِ سنت والجماعت کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ‘‘
(تبلیغی جماعت عقائد افکار ،
نظریات اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۹۹)
الجواب:
(۱)کسی کے مقدس ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ اس کی تقدیس پر
وحی نازل ہوئی ہو ۔ بلکہ دوسرے زرائع مثلاً علمائے حق کی گواہیوں سے بھی کس کا
مقدس ہستی ہونا معلوم ہو سکتا ہے۔ماشاء اللہ علمائے دیوبند کا مقدس ہستیاں ہونا اس
قدر مسلّمہ حقیقت ہے کہ علمائے حق تو جہاں رہے خود غیرمقلدین نے بھی اُن کی تقدیس
کے گیت گائے ہیں، ثبوت کے لیے بندہ کی کتاب ’’ غیرمقلدین کا علمائے دیوبند کا
خراجِ تحسین ‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔
(۲)طارق خان نے اکابرین دیوبند کومقدس ہستیاں ماننے سے اس
لیے انکار کر دیا کہ اُن کے مقدس ہونے پر وحی نہیں اُتری۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا
کسی کے صاحب ِ کمال ہونے پر جب تک وحی نازل نہ ہو تب تک اس کا کمال نہیں مانا جا
سکتا ؟ صحابہ کرام میں سے کتنے افراد ہیں جن کے صحابی ہونے کی گواہی وحی نے نہیں
دی بلکہ اہلِ تاریخ نے اُن کے صحابی ہونے کو بیان کیا۔ حدیث کے راویوں کے ثقہ ہونے
پر بھی وحی نہیں اُتری بلکہ اُن کا ثقہ ہونا محدثین نے بیان کیا۔تو کیا اُن صحابہ
کرام کی صحابیت اور رواۃ کی ثقاہت کا انکار کر دو گے ؟
طارق صاحب کی کتاب کے مقدمہ نگار نے
خود کو ’’ غیرمقلد ‘‘ کہا جیسا کہ آگے ’’تبلیغی جماعت عقائد افکار ، نظریات اور
مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۱۷‘‘ کے حوالہ سے آ رہا ہے ان شاء اللہ۔ طارق صاحب کے
اصول کے پیش ِ نظر سوال ہے کہ اُن کے غیرمقلدہونے پر وحی اُتری ہے؟
طارق صاحب کی کتابیں ’’تبلیغی جماعت
عقائد افکار ، نظریات اور مقاصد کے آئینے میں ‘‘ وغیرہ معتبر و مستند ہیں ؟ اگر
جواب ہاں میں ہے تو سوال اُٹھے گا کہ ان کے معتبر و مستند ہونے پر وحی اُتری ؟
طارق
خان نے بزرگوں کے وسیلہ کو شرک قرار دیا مگر اس کے شرک ہونے پر کوئی دلیل نہیں دی۔
سب سے پہلے طارق صاحب کو چاہیے کہ شرک کی تعریف کریں اور پھر اس تعریف کے مطابق
وسیلہ کو شرک ثابت کریں مگر یاد رہے ایسی بات نہ لکھنا جس کے جواب میں کوئی یوں
کہہ دے کہ شرک کی اس تعریف اور وسیلہ کو شرک قرار دینے کے حوالہ سے آپ پر وحی
اُتری؟
یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ طارق
خان نے وسیلہ کو شرک تو کہہ دیا مگر اس کے شرک ہونے پر نہ تو خود کوئی ثبوت پیش
کیا ، اورنہ ہی اسلاف کے حوالے نقل کر سکے ۔
(۳)طارق صاحب
کہتے ہیں:
’’جب ہم غیر نبی کے بارے میں جانتے ہی
نہیں کہ اس کا اپنے رب کے یہاں کیا مقام ہے تو پھر اس سے وسیلہ پکڑنا کیا معنی
رکھتا ہے ‘‘
عرض ہے کہ
صحابہ کرام بھی غیر نبی ہیں مگر اُن کا مقدس ہستیاں ہونا وحی ؍ قرآن سے ثابت ہے،
اُن کا وسیلہ تو آپ کے اصول کی رُو سے جائز ہونا چاہیے۔
(۴)ہم نے اعتراض
: ۱۳۸ کے جواب میں وسیلہ کے جواز پر مدعیان اہلِ حدیث کے حوالے نقل کر دئیے۔ آپ
انہیں مشرک کہنے کی ہمت رکھتے ہیں یا یوں گلو خلاصی کریں گے کہ اُن کی بات ہم پر
حجت نہیں؟ اُن کی بات کا حجت نہ ہونا اُن سے شرک کے الزام کو رفع کر لے گا؟
(۵)طارق صاحب علمائے دیوبند پر الزام لگار ہے کہ انہوں نے
غلط عقیدے پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کیا۔ عرض ہے کہ جن عقیدوں کو مخالف نے غلط قرار
دینے کی جسارت کی۔ان کے جواب میں ہماری کتاب ’’ فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘
میں موجود ہے۔ طارق خان سمیت پوری غیرمقلدیت میں کوئی دم خم ہے تو اس کا جواب
لکھیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے بہ شمول طارق خاں کوئی بھی غیرمقلد ہماری اس کتاب کا
جواب لکھنے کی ہمت نہیں کر پائے گا ان شاء اللہ ۔ اگر کسی نے خانہ پوری کرنے کے
لیے کچھ لکھا تو اللہ کے فضل سے منہ توڑ جواب الجواب دینے کی ہم بھر پور تیاری
رکھتے ہیں،اللہ اکبر ولہ الحمد۔
یاد رہے کہ علمائے دیوبند کے جن عقائد
کو بعض غیرمقلدین نے غلط قرار دیا بعینہ وہی عقائد ہم نے ’’فضائل اعمال کا عادلانہ
دفاع ‘‘ میں غیرمقلدین کی کتابوں سے جمع کر دئیے ہیں۔ طارق صاحب اور ان کے استاد
مولانا عطاء اللہ ڈیروی کی طرف سے بزعم خوداُن کامعتبر ترین جواب صرف یہی ہو گا :
’’ ہم غیرمقلدہونے کی وجہ سے اپنے یا
کسی دوسرے عالم کے کسی غلط فتوی کے ہرگز پابند نہیں بلکہ ہمارے لئے قرآن و حدیث
حجت ہے ۔‘‘
(تبلیغی جماعت عقائد افکار ،
نظریات اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۱۷)
حالاں کہ یہ جواب نہیں، بلکہ اپنے بزرگوں
پر وارد الزامات سے کنارہ کشی ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ تاثر دینا ہے کہ ان کے بڑوں
نے واقعۃًقرآن و حدیث کے خلاف لکھا ہے ۔
مزید عرض ہے کہ خود غیرمقلدین نے
علمائے دیوبند کو صحیح العقیدہ اہلِ سنت تسلیم کیا ہے ۔ہماری کتاب ’’غیرمقلدین کا علمائے دیوبند کو خراج تحسین ‘‘
دیکھئے ۔
حاصل یہ کہ طارق خان اپنے حواریوں
سمیت علمائے دیوبند کو غلط عقیدہ والا ثابت کرنے میں نہ صرف سو فیصد ناکام ہیں
بلکہ ان کے دعوے کے برعکس اُن کے اپنے ہی غیرمقلدین نے علمائے دیوبند کو صحیح
العقیدہ تسلیم کر رکھا ہے ۔مزید یہ کہ طارق خان وسیلہ کو شرک ثابت نہیں کر سکے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں