﷽
نقض النقض
تمہید:
مولانا
ظفر احمد عثمانی ؒ نے "قواعد
في علوم الحدیث" میں فصل اول کے تحت یہ مدعا پیش کیا ہے کہ احادیث ورجال
پر لگائے جانے والے احکام اجتہادی ہیں ۔ توثیق وتضعیف، ثقاہت و ضعف ایسے امور میں محدثین نے اجتہاد و آراء سے کام لیا ہے ۔
چنانچہ اس بارے میں انہوں نے امام ترمذی ، امام طبری ، علامہ ابن تیمیہ،حافظ ذہبی اور
حافظ ابن حجر کی صریح نقول پیش کی ہیں، جن میں امور مذکورہ کے اجتہادی ہونے کی تصریح ہے۔ اسی طرح دوسرے مرحلہ پر انہوں نے
ابن الصلاح، امام نووی اور علامہ سیوطی کی ایسی عبارات پیش کی ہیں جن سے اقتضاء
النص کے طور پر یہی مدعا ثابت ہوتا ہے۔ مولانا عثمانی کا یہ موقف (7) صفحات میں
ہے۔
مولانا
بدیع الدین راشدی ؒ نے اپنی تحریر"نقض
قواعد في علوم الحديث" میں
مولانا عثمانی ؒ کے موقف سے کلی
اختلاف کیا ہے۔ مولانا راشدی ؒ کا یہ
موقف مسلسل عبارات میں اگر دیا جائے، تو ان کا حجم (2) صفحات
بنتے ہیں،لیکن محشی شیخ صلاح الدین کے طویل
حواشی نے ان کا حجم بڑھا دیا ہے۔
ذیل میں ہم اولاً
"نقض"
کےمندرجات لائیں گے، اور اس کے بعد
"نقض النقض" میں ان کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا ۔ والله الموفق.
نقض :
(1) حدیث کی شروط واحکام میں محدثین کا کوئی اختلاف نہیں ۔
اور اگر بظاہرا ختلاف ہو بھی، تو محدثین کے قائم کردہ "اصول" کی طرف
مراجعت کرنے سے یہ ختم ہو جاتا ہے ۔
(2) علم حدیث واسناد کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں
اجتہاد،ظن وتخمین کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ سب مشاہدات اور مسموعات کے قبیل سے ہیں۔ رواۃ پر لگائے جانے والے احکام میں رائے
وقیاس کو دخل نہیں۔ "أخطا فلان" وغیرہ
احکام یقینی ہیں، احتمالی نہیں ۔
(3)
احادیث پر لگائے جانے والے احکام کی قطعیت کی وجہ سے اہل علم نے تصریح کی ہے، کہ
احادیث صحیحہ پر عمل واجب ہے، اور وجوب عمل، قطعیت صحتِ اسناد کی بنیاد پر ہے۔
(4) محدثین
کے احکام دربارہ حدیث ور جال تسلیم کرنا، معاذ اللہ تقلید نہیں۔ کیوں کہ اگر یہ اتفاقی
ہیں تو ان کی پیردی تقلید نہیں۔ اور اگر اختلافی ہیں، تو دلائل وقرائن کی بنیاد پر
کوئی قول اختیار کرنا تقلید نہیں ۔
(5) خبر
واحد کو "کتاب اللہ" اور "سنت" پر پیش کرنا غلط
ہے، کہ وہ خود ہی سنت ہے۔ اور چونکہ خبر واحد صحیح کتاب اللہ وسنت کے مخالف نہیں ہو سکتی، لہذا پیش کرنا
درست نہیں۔
نقض النقض:
مولانا راشدی
ؒ کے اس نقض کا حاصل یہ ہے کہ احادیت آحادقطعی ہیں۔ ان پر عمل کا وجوب اسی
وجہ سے ہے۔ ہر حدیث قابل قبول ہے، واجب العمل
ہے۔ علوم حدیث میں محدثین کی آراء قطعی ہیں، اور ان کو تسلیم کرنا تقلید نہیں۔ ذیل میں ہماری گفتگو انہی نکات پر مرتکز ہو گی۔
(1) خطیب بغدادی نے "الکفاية في علوم
الرواية"
میں ایک باب کا عنوان اس طرح دیا ہے : "باب
الرد على من قال: يجب القطع على الخبر الواحد."([1])
اس طرح ایک باب میں انہوں نے ان لوگوں کی تردید
کی ہے، جن کے بقول خبر واحد علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے، ان کے الفاظ ہیں: ذکر شبهة من زعم أن الخبر الواحد یوجب العلم وإبطالها.([2])
راشدی صاحب کو یہ تسامح ہوا ہے کہ خبر واحد کے موجب للعمل ہونے کی بنیاد اس کا موجب للعلم
ہونا ہے حالانکہ وجوب عملی دراصل غلبہ ظن
کی بنیاد پر ہے۔ شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: یجب العمل بظني الدلالة
فی الأحکام الشرعية وكذلك الوعيد.([3]) ابن حجر لکھتے ہیں: لأن الأحکام لا یشترط فيها القطعیات.([4])
(2)
محدثین تصریح کرتے ہیں کہ کسی حدیث پر صحت وضعف کا حکم ظاہری ہوتا ہے، قطعی نہیں۔
چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: وإذا
قیل: صحیح، فهذا معناه: لا أنه مقطوع به. وإذا قیل: غیر صحیح، فهذا معناه: لم یصح إسناده. سیوطی
اس کی تشریح کرتے ہیں: "عملا بظاهرالإسناد؛ لجواز الخطأ والنسيان على الثقة، خلافا
لمن قال: أن الخبر الواحد يوجب القطع."([5])
امام سخاوی
فرماتے ہیں: (وبالصحیح والضعیف قصدوا فی ظاهر لا
القطع) بصحة أو ضعف، إذا القطع إنما يستفاد من التواتر أو القرائن المحتف بها الخبر
ولو کان أحادا.([6])
یہی قول ابن صلاح، ابن وزیر یمانى، امیر صنعانى وغیرہ متعدد اصولیین اہل
علم کے ہاں بالتصریح ملتا ہے۔([7])بالخصوص
مؤخر الذکر نے اس مسلک پر ادلہ بھی پیش کی ہیں۔
(3)
احادیث کی صحت کی یہ ظنیت ، ان کی صحت کی اجتہادی واختلافی حیثیت ظاہر کرتی ہے۔
اسی وجہ سے فقہاء اسلام کےاختلافات ان مسائل میں ہیں، جن مسائل کی ادلہ ثبوت ومعنی
کے لحاظ سے ظنی ہیں ۔ امور قطعیہ میں ان کے ہاں معتد بہ اختلاف نہیں۔ کبار اہل اسلام
کے اختلافی مسائل میں ان کا برحق ہونا اور ان کی پیشوائیت احادیث کی ظنیت کو
مستلزم ہے۔ یہ بات ان کےمقام عالی سے فروتر ہے کہ وہ قطعیات میں اختلاف سے کام
لیں،کیونکہ ان اختلافی مسائل میں ان کے پاس مختلف ادلہ موجود ہیں۔ پس اگر احکام کی
قطعیت کا قول اختیار کیا جائے تو لازم آئے گا کہ ہر فریق کے پاس قطعی دلیل موجود
ہے، اور یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم ﷺ سےقطعیات متعارضہ ثابت ہیں، ظاہر ہے کہ کوئی
عاقل اس قول کو اختیار نہیں کرسکتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: "والقطعیات لا يجوز تعارضها، فلو تعارضت لزم الجمع بین
النقیضین."([8]) ابن قیم
نے لکھا ہے کہ: لا یشک فيه أحد من العقلاء.([9]) حافظ ابن حجر
نےبھی ایک بحث میں قطعی کے غیر متعارض ہونے پر تصریح کی ہے۔ وفيها المتعارض، والقطعی لا تعارض فيه.([10])
نیز
قطعیت احکامِ محدثین تسلیم کرنے سے فقہاء اسلام کے مذاہب کا بطلان لازم آئے گا ۔ اور یہ قول صرف روافض
کا اختیار کردہ ہے،کہ مذاہب اربعہ باطل ہیں۔ جیسا کہ منہاج السنۃ میں تصریح ہے۔
(4)
احادیث کی صحت و تضعیف کی بنیاد رجال سند
پر لگایا گیا حکم اور رجال پر لگائے جانے والے احکام در اصل وه اقوال ہیں، جو
جارحین، معدلین کے مشاہدات، تاثرات اور خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ جن میں داخلی و
خارجی عوامل، سامع و متکلم، متکلم فیہ کا مقام و مرتبہ، علم وفہم اثر انداز ہوتاہے۔
نیز اس میں مجلسی امور، سیاق وسباق، صحت و عدالت، تفاوت فہم وادراک غرضیکہ متعدد ا
مور کا ر فر ماہوتے ہیں، اسی وجہ سے جارحین و معدلین اور جرح وتعدیل کی شرائط اور
ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اور چوں کہ یہ سب امور ظنی ہیں، تو ان پر موقوف بھی
یقینا ظنی ہو گا۔ موقوف علیہ کی ظنیت موقوف
کی قطعیت سے مانع ہے۔
(5) محدثین کے
احکام مختلفہ متعارضہ کو قطعی تسلیم کرنے سے یہ صورت
لازم آئے گی کہ ایک ہی حدیث ایک عرصہ
قطعی، ایک عرصہ ظنی پھر قطعی وظنی .......... وهلم جرّا، اس طرح ایک کے ہاں قطعی، دوسرے کے ہاں ظنی رہے گی، اور یہ یقینا تلاعب بالشرع
ہے۔
(6)
رواۃ میں اوصاف ملاحظہ کرنے کے بعد ان پر حکم لگانا، اسی طرح جارح و معدل کی شہادت
کو قبول کرنا یقینا امر شرعی ہے، لیکن کسی امر کے شرعی ہونے کا مطلب اس کا قطعی ہونا نہیں ہے،
کیونکہ اس میں بھی غلطی وخطا کا امکان رہتا ہے۔ اسی وجہ سے شریعت میں گواہوں کے
منحرف ہونے کی صورت میں مستقل احکام موجود ہیں۔ ان احکام کی موجودگی اس معاملہ
شہادت کی ظنیت کا اعتراف ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد گرامی ہے: ولعل بعضکم ألحن بحجته من بعض، فمن قضیت له بحق شیئ فإنی أقطع
له قطعة من النار. اس کی تشریح میں ابن حجر لکھتے ہیں: وفيه أنه ربما أداه اجتهاده إلی أمر فیحکم به، ویکون في
الباطن بخلاف ذلک.([11]) جب
شارع کا اجتہاد خلاف واقعہ ہوسکتا ہے، تو کسی اور کے اجتہاد کی قطعیت کیسے ممکن ہے؟
اور اسی وجہ سے محدثین نے جرح مبین ضروری قرار دی ہے، تا کہ کسی جارح کے ظن فاسد
کی بنیاد پر راوی مجروح قرار نہ پائے۔ظاہر ہے کہ اگر کسی جارح کا قول ہر حال میں
درست ہوتا، محتمل الخطا نہ ہوتا، تو جرح
مبین کی شرط بھی نہ لگائی جاتی۔
(7)
مولانا مبارکپوری نے ایک حدیث کے دو مختلف طرق ہونے کی وجہ سے احکام میں اختلاف کے
ہونے پر جواب دینے کی کوشش کی ہے، کہ احکام میں اختلاف کی بنیاد طرق مختلفہ ہیں،
لیکن سوال بحالہ باقی ہے کہ جب دونوں فریق شواہد وقرائن کی بنیا دپر حکم لگاتے ہیں
، تو یہ حکم قطعی ماننے کی صورت میں قطعیات میں اختلاف لازم آئے گا۔ وهو لا یجوز
عند العقلاء.
(8)
محدثین کے ہاں اصول حدیث میں متعدد ایسی مباحث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے
ہاں اصول حدیث کی مباحث ا جتہادی ہیں۔ ان میں اختلاف ناصرف عقلا ممکن ہے، بلکہ
واقع بھی ہوا ہے۔
ذیل میں
ان مباحث کی فہرست ملاحظہ ہو۔
صحت سند کی بحث، مراتب رجال میں اختلاف، حتی کہ وضاع وکذاب
میں بھی اختلاف ہے (شرح علل الترمذی ملاحظہ ہو)۔ جواز الروایۃ بالمعنی، ادراج کے
تعین میں اختلاف، احادیث کی درجہ بندی، تقسیم در اصل تفاوت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اگر احادیث کا درجہ ایک ہوتا تو تقسیم نہ ہوتی۔ صحت سند سے صحت متن لازم نہ آنا
وبالعکس، ضعف سند سے ضعف متن لازم نہ آنا وبالعکس، ضعیف کا حسن لعینہ تک ارتقاء
اور حسن لذاتہ تک ارتقاء، صحت کی شرائط میں عدم شذوذہونا، کیونکہ شذوذ کا تعین
دیگر متون واسانید کے ساتھ تقابل کرنے سے
ہو گا۔اور یہی دلیل ہے کہ کسی متن کا تعین اور اس کی صحت کے لیے اسے دیگر متون پر
پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا نام ظنیت ہے۔ یہ معاملہ احاد میں ہوتا ہے، اور اسی
وجہ سے متواترات کی صحت کو قرآن وحدیث پر پیش کرنا ممکن نہیں کہ ان میں تعارض
واختلاف نہیں ہوتا۔
حدیث کی تعریف میں رجحان الصدق، رجحان الکذب کے الفاظ اس کی
ظنیت کو بتاتے ہیں، احادیث معللّہ ومضطربہ کی امثلہ میں اہل علم کا اختلاف، ایک
دوسرے کی امثلہ پر نقد وجرح کرنا متون کی ظنیت کو بتاتا ہے۔
اگر تمام احادیث کی ظنیت کو مان لیا جائے، تو پھر خود محدثین کے اقوال میں تعارض وتناقض لازم
آئے گا۔نیز اس صورت میں صحیحین کو دیگر کتب پر کوئی فوقیت نہیں رہتی۔
قارئین
کرام! سطور بالا سے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہےکہ مسائل مبحوثہ ظنی واجتہادی
ہیں۔نقل وعقل اس کے بیّن شاہد ہیں۔ اور حیرانی ہے کہ مولانا راشدی نے مولانا
عثمانی کے بارے میں کس دیده دلیری سے لکھ دیا: "أقول: هذا مبني على قلة الاطلاع على أصولهم.([12]) یعنی مولانا عثمانی کو محدثین کے اصولوں پر زیادہ
واقفیت نہیں۔
آپ
کاحسن کرشمہ ساز ہے جو چاہے کرے
حافظ
ابن حجر ؒ تصحیح المتاخرین کی بحث میں لکھتے ہیں: فليس بد لیل ناهض علی رد ما اختاره ابن الصلاح؛ لأنه مجتهد،
وهم مجتهدون، فكيف ينقض الاجتهاد بالاجتهاد.([13]) علامہ شوکانی ؒ نے بھی
جرح وتعدیل کو اجتہادی مباحث کے تناظر میں لیا ہے: والحق الحقیق بالقبول أن ذلك محل اجتهاد المجتهد.([14]) ابن حجر نے "النکت" میں
متعدد مواضع پر اصول حدیث کی مباحث میں اجتہادی ہونے کی تصریح کی ہے۔([15])
خود
امام ذہبی ؒ جن کا حوالہ رفع تعارض
میں راشدی صاحب نے دیا ہے، فرماتے ہیں: بل الحافظ الواحد یتغیر
اجتهاده فی الحديث الواحد.([16])
(9)
راشدی صاحب نے ایک موقف یہ اختیار کیا کہ
محدثین کے احکام کو تسلیم کرنا تقلید نہیں۔
ذیل میں اہل علم محدثین کی عبارات ملاحظہ ہوں، جن میں انہوں نے اسے تقلیدہی قرار دیا ہے۔
حافظ ؒ لکھتے ہیں: ولولا أن جماعة من المصنفين كالمجد بن الأثير في مقدمة جامع
الأصول تلقوا كلامه فيها بالقبول؛ لقلة اهتمامهم بمعرفة هذا الشأن واسترواحهم إلى
تقليد المتقدم دون البحث والنظر لأعرضت عن تعقب كلامه.([17]) ایک جگہ علامہ عراقی کے بارے میں لکھا: وکان شیخنا کان قلد في هذا غیره.([18]) ا مام حاکم سے نقل کرتے ہیں: فهولاء الذين ذكرتهم: وقد ظهر عندي جرحهم؛ لأن الجرح لا استحله
تقليدا.([19]) ایک جگہ غیر ماہر کے بارے میں یوں
کہتے ہیں: وإن کان غیر متأهّل لدرک
ذلك...فسبيله...أن يقلد فی ذلك.([20]) متقدمین کی شدتِ تفحص،
قوتِ مدارك اور صحت نظرکے موجب ان کے احکام کے بارے میں لکھتے ہیں: یوجب المصیر إلی تقلیدهم في ذلک والتسلیم لهم فيه.([21])
تقلید
کے اس مفہوم کو ابن حجر نے اتباع سے بھی تعبیر کیا ہے: الأولی اتباع في ذلک، کما نتبعه في تصحیح الحدیث إذا صححه.([22]) اور ظاہر
ہے کہ تقلید واتباع ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔ ان جملہ عبارات محولہ سےثابت ہواکہ
محدثین کے احکامات تسلیم کرنا تقلید ہی کا نام ہے۔ معلوم نہیں، کہ مولانا راشدی کے علمی وارثین ان کے "استعاذہ"
سے استفادہ کریں گے یا اعتراف حق؟ وإنها لكبيرة
إلا على الخاشعین.
(10)
جہاں تک خبر واحد کو دیگر نصوص پر پیش کرنے کا معاملہ ہے تو مولانا عثمانی کے
موافق درجنوں محدثین کے اقوال موجود ہیں، جن کا مفاد یہ ہے کہ خبر واحد کو قرآن
ومتواتر روایات اورسنت پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔ بغدادی "الکفاية" میں لکھتے ہیں: لا يقبل خبر الواحد في منافات حکم العقل، وحكم القرآن الثابت
المحكم، والسنة المعلومة، والفعل الجاري مجری السنة، وکل دليل مقطوع به، وإنما
یقبل به فیما لا یقطع به مما یجوز ورود التعبد فيه.([23]) علامہ شوکانیؒ لکھتے ہیں: کل خبر استلزم باطلا، ولم يقبل التأويل، ومن ذلك الخبر
الآحادي إذا خالف القطعي کالمتواتر. وقد یترجح صدقه ولا یقطع بصدقه، وذلك كخبر العادل،
وقد يترجح کذبه ولا یقطع بکذبه کخبر الفاسق.([24])
خود
علامہ ابن القیم نے خبر واحد کو صدق وکذب کے مابین
دائر قرار دیا ہے، اور لکھا: فلیس کل
خبر واحد یفید العلم والظن.([25]) اور ظاہر ہے کہ تعیین أحد الأمرین کے لیے اس خبر کو دیگر نصوص پر پیش کرنا ہی ہو گا اور یہ بات "الكفاية" میں بغدادی نے بھی لی ہے۔ ابن القیم
نے "المنار المنیف" میں
تکذیب خبر کی علامات میں اس کا سنت صریح کے مخالف ومناقض ہونا،مخالف قرآن ہونا اور
شواہد صحیحہ کے خلاف ہونا قرار دیا ہے۔([26]) احادیث الاحکام کا مطالعہ کرنے والے اہل علم
جانتے ہیں کہ شراح حدیث کے ہاں یہ نقد جا بجا ملتا ہے کہ فلاں روایت قرآن وسنت کے
خلاف ہونے کی وجہ سے قابل توقف ہے، دور صحابہ وتابعین میں اس کی متعدد امثلہ ملتی
ہیں۔
نیز
محدثین کا خبر واحد کو سنت کے معارض نہ
ہونے پر قبول کرنااس بات کی واضح غمازی
کرتا ہےکہ ان کے ہاں سنت وحدیث میں فرق ہے۔ اور یہی بات درست ہے۔ شیخ الاسلام ابن الصلاح لکھتے ہیں: وقد یکون الإنسان من أهل الحدیث، وهو مبتدع.([27]) اور ظاہر ہے
کہ سنت پر کاربند شخص بدعتی نہیں ہو سکتا۔
حدیث وسنت کے مابین متعدد فروق ہیں:
·
حدیث کے درجا ت میں تفاوت ہے۔ سنت کے درجات میں تفاوت نہیں۔
·
سنت حدیث میں مذکور ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر سنت حدیث سےثابت ہو، تعامل
سے اس کا ثبوت ہو سکتا ہے۔
·
اہل الحدیث اور اہل السنۃ کا اطلاق اس وقت مختلف ہو گا جب دونوں ایک ہی سیاقِ
عبارت میں ہوں گے۔ اور اگر دونوں الگ الگ
استعمال ہوں تو ان کا اتحاد ممکن ہے۔
·
اہل حدیث کے معتقدات صحابہ کے برخلاف ہو سکتے ہیں، جبکہ اہل السنۃ کے معتقدات
جمہور امت کے موافق ہوں گے۔ چنانچہ ابن
شاہین کی شرح مذاہب اہل السنۃ اور دیگر متعدد اہل علم کی اس موضوع پر کتب کے
مندرجات بتاتے ہیں کہ "سنت" کے مفہوم میں سلف صالحین کے معتقدات مراد
لیے گئے ہیں، احادیث نہیں۔
·
حدیث غیر معمول بہ ہو سکتی ہے، جبکہ سنت معمول بہ ہو گی۔ ا س تناظر میں عبد
اللہ بن وھب کا مقولہ ہے: لولا مالک واللیث لضللت، کنت أظن أن کل ما جاء عن النبی ﷺ یعمل به.([28])
نکات بالا یہ واضح کرتے ہیں کہ حدیث وسنت کے مابین متعدد فرق ہیں، چنانچہ اس
وجہ سے خبر واحد کو سنت پر پیش کرنا ضروری
ہے۔ اور مولانا راشدی سے یہاں بھی ذہول ہوا کہ انہوں نے حدیث وسنت کو ایک قرار
دیااور پھر عرض الشیئ علی نفسه کا اعتراض لازم قرار دیا۔
نقض :
(1) فقہ الحدیث صرف محدثین کاخاصہ
ہے۔ انہی کاحظّ وافر ہے، جیسا کہ حاکم نے "معرفة علوم الحدیث" میں ایک مستقل باب اس پر قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فقہ الرائ والقیاس سے
محدثین کو مستثنیٰ کر دیا ہے۔
(2)
حنفیہ کے ہاں یہ بڑی جسارت ہے کہ وہ اپنے مستحدث اصول وقیاسات کی بنیاد پر بہت سی
احادیث کو رد کر دیتے ہیں۔حنفیہ خواہش نفس سے کام لے کر رد وقبول کرتے ہیں۔
(3) چنانچہ ایک حنفی عالم نے ایک بھری محفل میں
حدیث مصرّاۃ کو خلاف قیاس کہہ کر رد کر دیا تو ایک سانپ عذاب الٰہی بن کر اس پر
ٹوٹ پڑا، جب تک اس نے توبہ نہ کی، وہ نہ ٹلا۔
نقض
النقض:
(1) فقہ الحدیث کے دو درجے ہیں، (1) فقہ العامۃ: یعنی حدیث کے منطوق ظاہری کا فہم
وتفقہ، کسی امر آخر کا اعتبار کیے بغیر۔ (2) فقہ الخاصۃ: یعنی حدیث کا فہم وتفقہ
بما لہ وما علیہ، یعنی شریعت کے جامع مطالعہ کے ساتھ۔ قسم اول محدثین اور قسم دوم
فقہاء معروفین کا خاصہ ہے۔ ذیل میں چند عبارات سے فقہ کی ان دو اقسام کے مابین فرق
واضح ہو گا۔
·
یوسف بن عدی کے بقول: ان کے معاصرین و اساتذہ میں صرف عبد اللہ بن وھب فقیہ،
محدث اور زاہد تھے۔([29]) حالانکہ ان کے
اساتذہ کے نا م درج ذیل ہیں:
مالک بن انس، عبد الرحمٰن بن ابی الزناد، رشدین بن سعد،
معمر بن سلیمان، دراوردی۔([30])
·
سلیمان بن حیان کہتے ہیں کہ ہم نے ایسے اہل علم سے بھی سماع کیا ہے، جن سے
سفیان ثوری نے خود سماع کیا ہے۔ لیکن حدیث کی تفسیر کے لیے ہم ثوری کے پاس آیا
کرتے تھے۔([31])
·
انس بن سیرین کے بقول: کوفہ میں ایک وقت میں چار ہزار طلبہ حدیث اور صرف چار سوطلبہِ فقہ تھے۔([32])
·
اسحاق بن راہویہ کے بقول: محدثین کی ایک جماعت میں احادیث کی تفسیر ومراد کا
بیان امام احمد بن حنبل ؒ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا تھا۔([33])
·
محدثین فقہ خاص سے متعلقہ سوالات کے کلیۃ اعراض کرتے تھے، چنانچہ یحییٰ بن
معین سے ایک سوال ہوا، تو کہا اس کا جواب تو احمد ہی دے سکتا ہے۔([34])
·
عبد الرزاق بن ھمام نامی گرامی محدث ہیں، جن کے بارے میں بطور مبالغہ کہا گیا
کہ یہ اگر مرتد بھی ہو جائیں، تو بھی ان کی روایت معتبر ہو گی۔([35]) امام احمد ان
کے بارے میں فرماتے ہیں: اصحاب الحدیث میں یہ نہایت قلیل الفقہ شخص تھے۔([36])
·
یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ ان اکابر اسلام محدثین سےفقہ وتفقہ کی نفی دراصل
"فقہ اصطلاحی" کی نفی ہے، نفس تفقہ مراد نہیں۔ اس طرح محدثین کے مقابل
فقہاء اسلام سے معرفت حدیث کی نفی کا مطلب بھی اصطلاحی معرفت محدثین کی نفی ہے،
نفسِ معرفت بالحدیث مراد نہیں۔
حضرات اہل حدیث کایہ طرزِ صنیع عجیب ہے کہ فقہاء سے نفی معرفت
بالحدیث کووہ عمومی مراد لیتے ہیں، کہ انہیں معرفت تھی ہی نہیں۔ اور دوسری طرف
محدثین سے فقاہت کی نفی عمومی مراد لے کریہ شور کرتے ہیں کہ اس سے محدثین کی
گستاخی کر دی گئی ہے، حالانکہ دونوں جگہوں پر اصطلاحی امر کی نفی مراد ہے۔
بعینہ یہ معاملہ ان صحابہ کرام کے بارے میں ہے کہ جن کے
بارے میں بعض مفتیان تابعین نے کہا کہ ان میں فقاہت نہیں تھی، تو معاذ اللہ ان کے فہمِ
عام کی نفی نہیں، بلکہ ان کے معاصرین فقہاء صحابہ کے مقابلے میں ان کی فقاہت کا
انکار ہے۔
· مولانا راشدی مرحوم نے جس عبارت کا حوالہ دیا ہے اسی عبارت
میں حاکم مرحوم نے فقہاء معروفین، آئمہ اربعہ کی تعریف جس لطیف پیرایہ میں کی ہے،
راشدی صاحب اور ان کے محشی نے عمداً اس سے پہلو تہی کی ہے۔ حاکم کے الفاظ ہیں:
فأما فقهاء الإسلام أصحاب القياس والرأي
والاستنباط والجدل والنظر فمعروفون في كل عصر وأهل كل بلد، ونحن ذاكرون بحمد الله ومشيئته في هذا الموضع فقه الحديث عن أهله؛ ليستدل بذلك على أن أهل هذه الصنعة
من تبحر فيها لا يجهل فقه الحديث.([37])
عبارت صریح ہے کہ فقہاء الرای کا ذکر ان کی شہرت واستفاضہ
کی وجہ سے نہیں کیا، نہ یہ کہ ان کا کوئی مقام ومرتبہ ان کے خیال میں نہیں۔ ان
فقہاء کو حاکم نے فقہاء الاسلام بھی قرار دیا ۔ اسی "معرفة علوم الحدیث" میں حاکم مرحوم نے ایک نوع کے
تحت محدثین کے فقہی مسلک بھی بیان کیے ہیں۔ چنانچہ وہ بتاتے ہیں کہ زمان گزشتہ کے محدثین مرجئہ، شیعہ، رافضی، سابی،
بغضی، خارجی، اہل غلو، معروفین بالرجعۃ، قدری، حشوی، اور جہمی بھی تھے۔
اس باب کا عنوان ہے:
"معرفة مذاهب المحدثین" ([38])
دیکھئے، احباب گرامی کیا ارشاد فرماتے ہیں:
· فقہ اصطلاحی سے جب تک محدثین مستغنی رہے، تو ان کے اور
فقہاء کے مابین کے تعلقات پر امام احمدؒ کا
یہ مقولہ شاہد ہے: کہ دونوں طبقےایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے، یہاں تک کہ امام
شافعیؒ آگئے۔([39])
· فقہ الخاص وفقہ العام کے
مابین فرق کے لیے امام بخاریؒ
ودیگر محدثین کے تراجم وابواب پر نظر دوڑائی جا سکتی ہے۔ امام بخاریؒ کے تراجم میں علت ومعلول، مجاز وکنایہ، قیاس
واستنباط، استخراج واستدلال کے ایسے نادر نمونے ہیں ، جنہوں نے "فقه البخاری فی تراجمه" کو ایک محاورہ بنا ڈالا ہے۔ نیز امام بخاریؒ کے انہی تراجم کی بنیاد پر انہیں تفقہ میں امام
احمد ؒ پر بھی فوقیت دی گئی ہے۔ "هدی الساری" میں ان اقوال کو ملا حظہ کیا جا سکتا ہے۔
· امام بخاریؒ کے ان تراجم میں موجود تفقہ وتدقق کی دیگر وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کا
تعلق علماء کوفہ سے زیادہ رہا ہے۔ ان کا مقولہ ہے: "لا أحصي کم دخلت الکوفة" یعنی تحصیل علم کے
لیے کتنی مرتبہ کوفہ گیا، شمار نہیں کر سکتا۔
· اگر فقہ الحدیث سے مرادصرف فقہ ظاہری بلااستخراج ہوتی، تو امت
کے سب سے بڑے فقیہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہوتے، حالانکہ ان کا شمار مکثرین
فی الفتوی تک میں نہیں۔ ابن القیم نے "إعلام الموقعین" میں جو فہرست دی ہے اس میں حضرت ابو ہریرہ کا نام نہیں
لیتے۔([40])
بلکہ علامہ ابن القیم مرحوم نے علماء امت کی تقسیم اس طرح
کی:
كان العلماء من
أمته منحصرین فی قسمین: أحدهما: حفاظ الحديث جهابذته، والقادة الذين هم أئمة
الأنام وزوامل الإسلام
..........القسم الثاني: فقهاء الإسلام، ومن دارت الفتيا على أقوالهم بين الأنام،
الذين خصوا باستنباط الأحكام، وعنوا بضبط قواعد الحلال والحرام؛ فهم في الأرض
بمنزلة النجوم في السماء.([41])
ظاہر ہے کہ یہ تقسیم، تقسیم عقلی کے ساتھ ساتھ تقسیم واقعی
بھی ہے، ہر زمانے میں یہ مشاہد ومقبول ہے۔ ابن حجر ؒ نے بھی محدثین وفقہاء کے
وظائف کو مختلف قرار دیا ہے۔([42])
امید ہے کہ قارئین کو فقہ العام وفقہ الخاص کے مابین
فرق واضح ہو گیا ہو گا، نیز یہ بھی سامنے
آ گیا ہے کہ تفقہ سے استغنا باعثِ خوشی نہیں، اور یہ کہ فقہاءِ اسلام کے منصب کو نہ
سمجھنا تعصب کی وجہ سے ہے۔فإن الناس أعداء لما جهلوا.
(2)
جہاں تک احادیث کو ترک کرنے کی بات ہے، تو
ا س سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کسی روایت کو "خلاف اصول" قرار دینا فقہاء
کی ایک علمی اصطلاح ہے، چنانچہ "معجم لغة الفقهاء" میں مرقوم ہے: "المراد بالأصول: القرآن والسنة المتواترة المجمع عليها بالقبول،
والسنة المشهورة المستفیضة المجمع علی العمل بها."([43])
کبار
اہلِ اسلام وآئمہِ اعلام کےہاں اس اصطلاح
کا استعمال ملتا ہے۔ اگر ترک حدیث مع شرائط معتبرہ بھی قابل اعتراض ہے، تو اس جرم
میں امت کے اکابر اصاغرشریک ہیں۔
"وما أسوا هذا القول."
ایک
علمی اصطلاح کو عامی انداز سے سمجھنا نری حماقت ہے، اہل علم کے ہاں اس سے مراد
متعلقہ باب میں آنے والی تمام روایات مرفوعہ، فتاویٰ ،آثار صحابہ وتابعین، موافق
ومخالف روایات وآثار کے ممکنہ استقصائی مطالعہ کے بعد جو اصول ممہّد ہوتا ہے، وہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب
کوئی روایت متعلقہ باب کی اکثری روایات کے معارض ہو گی، تو قابل توقف ہو گی۔ اسی
کانام شاذ، منقطع باطنی بھی رکھا جاتا ہے، عموما یہ روایت خبر واحد ہوتی ہے۔
فتح الباري میں حافظ ؒنے متعدد
روایات پر نقلِ نقدمیں یہ اصطلاح استعمال کی ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں: "وهذا تعسف، وإنما أقول: ليته صح فنتبعه ونقول به، إلا على أصل مالك، في
أن خبر الواحد إذا جاء بخلاف القواعد لم يعمل به، فلما جاء الحديث الأول الموافق
للقاعدة في رفع الإثم عملنا به، وأما الثاني فلا يوافقها فلم نعمل به."([44])
·
علماءِ اہل حدیث جن اہل علم کی خوشہ چینی کرتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن
تیمیہ سرفہرست ہیں۔ علامہ موصوف نے ترک حدیث کے شرعی اعذار پر ایک گرانقدر رسالہ
تحریر کیا ہے۔راشدی صاحب اور صلاح صاحب کا اس موقع پر اس سے پہلو تہی کرنا "نوع من الخیانة" ہے۔
علامہ موصوف نے اس میں ترک حدیث کے متعدد اعذار تحریر کیے
ہیں۔ اس سلسلے کی مفید عبارات ملاحظہ ہوں:
"وليعلم
أنه ليس أحد من الأئمة المقبولين عند الأمة قبولا عاما يتعمد مخالفة رسول الله صلى الله عليه وسلم في
شيء من سنته، دقيق ولا جليل."([45])
"وفي كثير من
الأحاديث يجوز أن يكون للعالم حجة في ترك العمل بالحديث لم نطلع نحن عليها؛ فإن
مدارك العلم واسعة، ولم نطلع نحن على جميع ما في بواطن العلماء."([46])
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ فقہاءِ اسلام نبی ﷺ کی عمدا
مخالفت نہیں کرتے۔ ترک حدیث کے اعذار پر ہمیں مکمل واقفیت بھی نہیں، کیونکہ ان اکابر
کےمدارک علمى وسیع تھے۔
موجودہ اہل حدیث حضرات کی کتب (مثلا "الطوام المرعشة" جو خود بدیع الدین
راشدی صاحب کی ہے) کو ملاحظہ کریں، تو نظر آتا ہے کہ مقلدین عموما اور
حنفیہ خصوصاترک حدیث، ترک اطاعت رسول کے عظیم گناہ کے مرتکب ہیں، چنانچہ اس سلسلے
میں بنی اسرائیل کے علماء سوء، قریش مکہ کی تقلید آباء پر مشتمل آیات کا مصداق اس
زمانے میں حنفیہ قرار پاتے ہیں، لیکن اس کے برعکس شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف
اس رسالہ کے مطابق درج ذیل ہے:
وہ فرماتے ہیں کہ " کسی امام کے بارے میں یہ اعتقاد
جائز نہیں، کہ انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا ہے، نہ ان پر اس
سلسلے کی وعیدیں لاحق ہوتی ہیں۔ " اور فرماتے ہیں کہ " اس طرح کی رائے
صرف ابن تیمیہ کی نہیں، بلکہ سلف صالحین کی رائے ہے، اور اس کی مخالفت اہل بدعت
کرتے ہیں۔" لکھتے ہیں: "وهذا مما لا نعلم بين الأمة فيه خلافا،
إلا شيئا يحكى عن بعض معتزلة بغداد، مثل بشر المريسي وأضرابه."([47])
اہل حدیث حضرات غور
کریں کہ وہ بشر مریسی کی راہ پر گامزن ہیں یا پھر محدثین کی۔
(3) جہاں تک حدیثِ مصرّاۃ کو ترک کرنے کی بحث ہے، اس سلسلے
میں راشدی صاحب نے جو واقعہ نقل کیا، محشی نے اسے مکھی پر مکھی مارتے ہوئے جوں کا توں نقل کر کے اپنی خیانت کا
واضح ثبوت دیا ہے۔ اور یہ اعتراض ان حضراتِ
اہل حدیث کے ہاں نقل مسلسل سےمتصف
ہے۔
اس واقعے کے اصل مصادر سامنے رکھنے سےان ناقلین کا تعصب
وتشدد اور خیانت واضح ہوتی ہے۔ دونوں حضرات ماتن ومحشی نے یہ سخاوی سے نقل کیا ہے،
سخاوی کی عبارت ملاحظہ ہو۔
"... فجاء شابّ
خراساني حنفي، فطالب بالدلیل في مسئلة المصرّاة، فأوردہ المدرس عن أبی
هریرة رضي الله عنه، فقال الشاب: إنه غیر مقبول الرواية، قال القاضي: فما استمم کلامه
حتی سقطت عليه حية عظیمة من سقف الجامع، فهرب منها، فتبعته دون غیره، فقیل له: تب،
فقال: تبت، فغابت، ولم یر لها أثر بعد.([48])
اس عبارت سے درج ذیل امور اظہر من الشمس ہیں :
·
یہ شخص ایک عامی طالب علم تھا۔ قابل
ذکر عالم نہ تھا،حتیٰ کہ مجہول الاسم رہا۔
·
عقوبت کی بنیاد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی تھی، ترک روایت نہیں۔
·
یہ شخص رافضیت مائل تھا، کہ صحابہ کے بارے میں ایسےتاثرات دیے۔
عامی قسم کے طلبہ کے نامناسب رویوں کی بنیاد پر اکابر،
اساتذہ اہل علم پر نقد کرنانامناسب طریقہ اور ناشائستہ فعل ہے۔ خود طلبہِ حدیث کے
اس طرح کے اقوال وآثار کتب میں مرقوم ہیں۔ بلکہ اگر یہ مقولہ کسی قابل ذکر شخص کا
بھی ہوتا، تو توبہ کے بعد اس پر طنز وتعریض درست نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد کبار
اہلِ علم کے ہفوات پرمحققین چشم پوشی سے کام لیتے ہیں، نہ کہ الزام تراشیاں۔
حنفیہ کی بعض کتب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت
کے بارے میں تحریر ہے، کہ وہ غیر فقیہ صحابی تھے۔ معاذ اللہ اس سے مراد نفس فقاہت
کی نفی نہیں، بلکہ فقہ استخراجی واصطلاحی ہے۔ اور اہل تحقیق وانصاف کے ہاں یہ قابلِ گرفت امر نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے
کہ عبارتِ بالا خلافِ ادب ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر قائل کے بارے میں افراط وتفریط
سے کام لینا خلاف عقل ونقل ہے۔
شعبہ مشہور محدث ہیں، وہ کہتے ہیں: کان أبو هریرۃ رضی الله عنه ربما دلّس.([49]) کیا اہل حدیث حضرات نے شعبہ پر اور پھر ان کے
نام لیوا محدثین پرنقد شنیع سے کام لیا ہے؟ کہ وہ اُسی صحابی کے بارے میں تدلیس کا
قول اختیار کر رہے ہیں، جن کے بارے میں بعض حنفیہ نے غیر فقیہ کہا؟ اور کیا تدلیس کی شناعت کے بارے میں وارد
اقوالِ شعبہ یہاں لا کر کہا جا سکتا ہے کہ شعبہ کا نظریہ حضرت ابو ہریرہ کے بارے
میں یہ ہے؟ معاذ اللہ ایسی جسارت کا ارتکاب کوئی سفیہ وسیئ الفہم کر سکتا ہے۔
ابن حجر ؒ نے شعبہ کے اس قول پر جس شائستگی سے رد کیا، وہی
طریقہ غیر فقیہ کی عبارت پر اختیار کرنا بہترین رویہ ہے۔ حافظ موصوف لکھتے ہیں: والصواب ما عليه الجمهور من الأدب في
عدم إطلاق ذلك.([50])
فوائد:
(1) اہل حدیث حضرات کے آئمہ اربعہ کے متبعین پر ترکِ حدیث
کے اعتراضات کی بنیاد، مشہور کتبِ حدیث کی روایات ہیں، کہ وہ احادیث مذاہب اربعہ
کے خلاف ہیں۔ اور یہ بناء الفاسد علی الفاسد کے قبیل سے ہے، اس
لیے کہ آئمہ اربعہ کے مذاہب کی تدوین، ان کتب کی تدوین سے قبل ہو چکی تھی۔ان مذاہب
ومسالک کی بنیاد آئمہ اربعہ کی مرویات وتشریحات پر ہے، اسی وجہ سے محققین ان آئمہ
پر مخالفت حدیث کا الزام لگانے کی جسارت نہیں کرتے۔ ان مخالف روایات کے محامل آئمہ
کی کتب میں مرقوم ہیں۔ ایسی روایات شاذ ونادر ہیں، جو ان اکابر کے حیطہِ علم میں
نہ تھیں۔ ابن حجر ؒ نے "تعجیل المنفعة" میں اس کی تصریح کی
ہے، کہ مالکیہ کے مذہب کی بنیاد مؤطا
نہیں، بلکہ ابن القاسم کی روایات پر ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: "بل اعتمادهم في الأحكام والفتوى
على ما رواه أبن القاسم عن مالك سواء وافق ما في الموطأ أم لا."([51]) ظاہر ہے کہ یہ
صرف مالکیہ کے ہاں نہیں، دیگر مذاہب کے ہاں بھی یہ طریقہ کار ہے۔
(2) اسلاف کی کتب میں خبر واحد کے بارے میں دو طرح کے اقوال
ہیں: مفید للعلم، مفید للظن۔ جبکہ متواتر
کے بارے میں صرف مفید للعلم ہے۔ اب اگر العلم سےمراد دونوں مواقع پر ایک ہی لیا
جائے، تو پھر خبرِ واحد اور خبرِ متواتر کو کی تقسیم کا کوئی فائدہ نہیں، اور یہ
خلاف عقل ونقلِ آئمہ ہے۔
چنانچہ اس سلسلے میں اہل علم تصریح کرتے ہیں کہ
"علم" کا اطلاق ظن پر ہو سکتا ہے، ظن کو علم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس
طرح خبرِ واحد مفید للظن اور متواتر مفید للعلم الاصطلاحی کے لیے مفید ہو گا، اور
عبارات کا تناقض ختم ہوجائے گا۔
اس سلسلہ میں ایک تشریح یہ بھی سمجھ آتی ہے، کہ خبرِ واحد
محدثین کی اصطلاح کے مطابق خبرِ مشہور کو بھی شامل ہے، جبکہ فقہاء کے ہاں
خبرِمشہور، خبرِ واحد کی قسیم ہے، اس کا حصہ نہیں۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ جن
عبارات میں خبر واحد کا مفید للعلم ہونے کا قول اختیار کیا گیا ہے، وہاں خبر واحد
کا وہ حصہ مراد ہے جو اخبار مشہورہ پر مشتمل ہے اور باقی حصہ کے لیے مفید للظن
ہونے کا قول اختیار کیا جائے گا۔
ایک تشریح یہ بھی ممکن ہے کہ اخبار متواترہ مفید للعلم
القطعی، اخبار مشہورہ مفید للعلم الظنی اور اخبار آحاد مفید للظن ہیں۔والله أعلم.
(3) ترک حدیث کی بحث کے لیے اہل علم وشائقین درج ذیل مصادر
ملاحظہ کریں:
·
"علل الأصولیین في رد متن الحدیث
والاعتذار عن العمل به" بلال فیصل البحر البغدادي
·
"اختلاف المحدثین والفقهاء في الحکم علی الحدیث" عبد اللہ شعبان علی
·
معنی قول الإمام المطلي " إذا صح
الحدیث فهو مذهبی" للإمام السبکی الکبیر
·
"مقام ابی
حنیفہ" امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ
·
"کتاب الإنتهاء لمعرفة الأحادیث التي لم یفت بها الفقهاء" عبد السلام محمد عمر
(4) مولانا بدیع راشدیؒ نے
مولانا ظفر احمدعثمانی ؒ کے پیش کردہ
حوالہ جات سے کوئی تعرض نہیں کیا، اور نہ فاضل محشی نے نہ ان کے جواب کے لیے کوئی
سطر لکھی۔ البتہ جا بجا راشدی صاحب نے "نواٹیٹ" دیے ہیں، اور ہر دوسرے
صفحے پر لکھا کہ یہ حنفیوں کی باتیں ہیں، محدثین کے یہ اصول نہیں۔ راشدی ؒ صاحب نے متعدد مقامات پر مولانا عثمانی ؒ کا نقطہ نظر نہیں سمجھا، اور نہ ان کے مدعا پر توجہ دی،
بلکہ عبارت کے کسی لفظ پر انہوں نےحاشیہ آرائی کر کے بزعم خود "نقض" پیش
کر دیا ہے۔ اس لیے ایک صاحب بصیرت ناقد نے "نقض قواعد في علوم الحدیث" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کا نام "ملاحظات" یا "مأخذ علی کتاب قواعد في علوم الحدیث" بہتر ہے۔ اس طرح انہوں نے لکھا کہ "قواعد في علوم الحدیث" کے بارے میں یہ خیال درست نہیں کہ یہ محدثین کے خلاف ہے،
بلکہ اس میں بہت سے قواعد محدثین سے منقول ہیں۔
[1]: (ص 28)
[2]: (ص 36)
[3]: فتاوی ابن
تیميه: 2/142- 149
[4]: النکت: 2/301
[5]: التدريب مع
التقریب: ص 70
[6]: فتح المغیث:
1/30
[7]: مقدمة ابن صلاح،
النوع الأول ص: 152، تنقیح الأظفار: 1/59، توضیح الأفکار: 1/59 - 62
[8]: مختصر منهاج
السنة، ص: 488 - 508
[9]: (الصواعق
المرسلة: ص 297)
[10]: (النکت علی کتاب
ابن الصلاح: ص 278)
[11]: فتح الباري،
الأحكام، باب من قضی له بحق أخيه
[12]: نقض، ص: 12
[13]: توضیح الأفکار:
1/114
[14]: إرشاد الفحول: 1/325
[15]: ملاحظہ ہو:ج: 1، ص: 100،113، 128،ج: 2، ص: 301
[16]: الموقظة
[17]: النكت:1/212
[18]: أیضا: 1/ 155
[19]: أیضا: 1/171
[20]: أیضا:1/283
[21]: أیضا: 2/201
[22]: أیضا: 2/187
[23]: ص: 464
[24]: إرشاد الفحول:
1/239
[25]: الصواعق
المرسلة: 2/359
[26]: ص:57، ص: 80، ص:
76
[27]: فتاوی ابن
الصلاح: 1/213
[28]: الانتقاء: ص 27
[29]: الرفع والتکمیل:
ص91
[30]: تهذیب التهذیب:
ص4/457
[31]: الرفع والتکمیل:
ص 91
[32]: الرفع والتکمیل:
ص233
[33]: مناقب الإمام
أحمد
[34]: مناقب الإمام
أحمد
[35]: تهذیب التهذيب
[36]: طبقات
الحنابلة:1/321
[37]: معرفة علوم الحدیث:
ص246
[38]: ص:41
[39]: الرفع والتکمیل
[40]: 2/18
[41]: إعلام الموقعین:
2/14،13
[42]: النکت: 1/288
[43]: ص: 72
[44]: باب الصائم إذا
أکل أو شرب ناسیا
[45]: رفع الملام عن
آئمة الأعلام: ص10
[46]: رفع الملام عن
آئمة الأعلام: ص55
[47]: رفع الملام عن
آئمة الأعلام: ص58،57
[48]: الإعلان بالتوبیخ
لمن ذم التوریخ: ص 103،102
[49]: النکت: 2/104
[50]: النکت: 2/104
[51]: تعجیل المنفعة:
1/238
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں