غیر مقلدین کا قیاسی دین
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ( بسلسلہ مدعیانِ اہلِ حدیث اقوال الرجال کے پیروکار ) (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
سب سے پہلے
قیاس کا مطلب جان لیں ۔مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قیاس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا شریعت میں کوئی حکم
نہیں اس کو کسی منصوص علیہ کے ساتھ ملا کر اس کا حکم معلوم کیا جائے۔ ‘‘
( الاصلاح صفحہ ۴۱۰، ام القریٰ
پبلی کیشنز گوجرانوالہ ،طبع دوم جنوری ؍ ۲۰۱۱ء )
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قیاس کہتے ہیں ایک حکم کو جو منصوص
ہو اس کی علت کے ذریعہ دوسری جگہ ثابت کرنا مثلا ً شراب کی حکم[حکم نہیں، نھی و
ممانعت ( ناقل )]کی علت نشہ ہے ۔ اور یہ علت بھنگ میں بھی موجود ہے تو بھنگ بھی
حرام ہوئی ۔ ‘‘
( فتاویٰ روپڑی :۱؍۸، ادارہ احیاء السنہ سرگودھا
)
قیاس
کا مطلب جان لینے کے بعد اَب غیرمقلدین کا قیاس کے بارے میں نظریہ پڑھ لیا جائے کہ
اُن کے ہاں قیاس اور قیاسی مسائل کی کیا حیثیت ہے۔ بطور نمونہ اُن کی چند عبارات
نقل کی جاتی ہیں۔مگر یاد رہے کہ میں صرف ناقل ہوں،ان باتوں سے نہ میرا اتفاق ہے
اور نہ ہی اس وقت ان کاجواب دینا مقصودہے۔ البتہ قارئین کی سہولت کے لئے میں ان
عبارات پہ عنوان قائم کردوں گا ان شاء اللہ ۔
قیاس کی حجیت کا انکار
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ فقہاء کے نزدیک کل دلیلیں چار
ہیں۔کتاب و سنت ، اجماع اور قیاس اور اہلِ حدیث کے نزدیک قیاس میں کلام ہے ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۶۶۴،
ادارہ احیاء السنہ سرگودھا )
مولانا ثناء
اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ حدیث کے
صریح الفاظ حجت ہیں ، قیاس کسی کا حجت نہیں ۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ:۲؍۳۱، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور)
امرتسری صاحب
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’بہت سے اہلِ حدیث ایسے ہیں جو اجماع
کے قائل نہیں بلکہ بعض قیاس کے بھی نہیں جیسے ...امام شوکانی ،ؒ نواب صدیق حسن
خانؒ۔‘‘
(اخبار اہل حدیث امر تسر،
۱۱؍جون ۱۹۱۵ء )
اس عبارت کا
عکس حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی کتاب ’’ تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۶۱ ‘‘پہ
دیکھ سکتے ہیں۔
شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قیاس
حجت نہیں بلکہ حجت حدیث شریف ہے ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۹۸)
راشدی صاحب لکھتے ہیں:
’’قیاس
تو حجت شرعیہ نہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۲۰۵)
مولانا محمد یحیٰ گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اگر ائمہ کی محض رائے اور قیاس حجت
یا واجب الاتباع ہوتی تو اس امت کے رسول بھی اتنے ہوتے جتنے مذاہب ہیں ۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ ۷۱، ادارہ
مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
مولانا داود
ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’فقہ در اصل دین کی سمجھ ہے جو کسبی
چیز نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے عطاء ہوتی ہے اور وہبی قرآن و حدیث ہی ہے۔اقوال
الرجال تو علماء کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہیں۔ لہذا اُن کے فتاویٰ فقہ نہیں بلکہ
آراء اور قیاسات ہیں ۔ ‘‘
(تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۸۳، ادارہ
مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
جب بغیر وحی
کے رسول اللہ کی بات حجت نہیں تو کسی کا قیاس کیوں حجت ہوسکتا ہے ؟
مولانا محمد
جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’ ’سنئے جناب! بزرگوں کی مجتہدوں کی
اور اماموں کی رائے، قیاس، اجتہاد و استنباط اور ان کے اقوال تو کہاں ؟ شریعت
اسلام میں تو خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی طرف سے بغیر وحی کے کچھ
فرمائیں تو وہ حجت نہیں ۔ ‘‘
( طریق محمدی صفحہ ۵۷ )
’’قیاسی مسائل‘‘ شرعی مسائل نہیں
شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قیاس دلیل
شرعی نہیں ہے ۔ ‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۲؍۲۹۳)
حافظ عبد
الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’ ’ شرعی
مسائل عقل و قیاس سے نہیں بلکہ صریح اور واضح نصوص سے ثابت ہوتے ہیں۔ ‘‘
( اصحاب الحدیث : ۱؍۱۷۴، مکتبہ
اسلامیہ )
صحیفہ اہلِ
حدیث میں لکھاہے :
’’ عقیقہ کے لیے وہ شرطیں نہیں ہیں جو
قربانی کے لیے ہیں اور شرط لگانے والے کے پاس قیاس ہی قیاس ہے کوئی شرعی دلیل
نہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :ربیع
الاول ۱۳۵۸ ھ صفحہ ۲۱)
اہلِ حدیث قیاس پہ نہیں چلتے
مولانا ابو الاشبال شاغف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اہلِ حدیث کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ
براہ راست کتاب و سنت کی اتباع کی جائے۔ عقائد و احکام اصول و فروع کسی جگہ بھی
رائے و قیاس سے کام نہ لیا جائے ۔‘‘
( مقالاتِ شاغف صفحہ ۲۶۶، بیت
الحکمت لاہور)
مولانا محمد
یحی گوندلوی غیرمقلد اپنی تائید میں نقل کرتے ہیں:
’’ اہلِ حدیث وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے پیچھے قدم قدم چلتے ہیں ... قیاس کی تقلید
نہیں کرتے ۔‘‘
(افتتاحیہ تحفہ حنفیہ صفحہ۲۱،
ادارہ مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
گوندلوی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیث کا مطمع نظر قیاس نہیں
بلکہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ‘‘
(افتتاحیہ تحفہ حنفیہ صفحہ ۲۵،
ادارہ مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیث رائے و قیاس کی بجائے
قرآن و سنت اور اقوال صحابہ کرام ؓ کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بناتے تھے ۔ ‘‘
(تحفہ حنفیہ صفحہ ۲۷۷، ادارہ
مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
قیاس کا سہارالینے والے حدیث میں کسمپرسی کا شکار ہیں
مولانا محمد
یحی گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ یہ لوگ حدیث کے معاملہ میں کسمپرسی
کا شکار ہیں کہ ان کے پاس اپنی فقہ کی تائید میں احادیث نبویہ کی نہایت کمی ہے جس
بنا ء پر ان کو قیاس کا سہارا لینا پڑا۔ ‘‘
(افتتاحیہ تحفہ حنفیہ صفحہ ۲۴، ادارہ مطبوعات
سلفیہ راولپنڈی )
صحابہ کی طرف قیاس کی عدم حجیت کی نسبت
غیرمقلدین کی
کتاب میں لکھا ہے :
’’ صحابہ کرام شرع کی دلیل دو ہی
باتوں کو سمجھتے تھے (۱)قرآن (۲)حدیث۔اور اجماع و قیاس ان کے نزدیک کوئی شرعی دلیل
نہ تھا کیوں کہ قیاس ہر ایک کا متفاوت و مختلف ہوتا ہے اور اجماع کی معرفت دشوار
ہے تیسیر الباری۱۲منہ ‘‘
(نصرۃ الباری کتاب البیوع
صفحہ۱۵۰ ، بحوالہ صحیفہ اہلِ حدیث ۸۴ھ ۱۶ جمادی الثانی و یکم رجب )
مولانا محمد
یحیٰ گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ صحابہ
کرام اور تابعین عظام قیاس کو شرعی دلیل نہیں بناتے تھے۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ ۱۴، ادارہ
مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
گوندلوی صاحب نے صحابہ کرام کے متعلق لکھا :
’’انہوں نے
قیاس کی سخت مذمت کی ۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ
۸۱)
گوندلوی صاحب
لکھتے ہیں:
’’اگر آثار ِ صحابہ کو قیاس اور تقلید
کے رد میں بالاستیعاب جمع کیا جائے تو یہ ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ
۹۴، ادارہ مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
قیاس چوتھی صدی کی پیدا وارہے
مولانا محمد
یحیٰ گوندلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’امام ابن حزم کے الفاظ میں قیاس پر
عمل اور تقلید چوتھی قرن کی پیدا وار ہیں اور پھر قیاس اور تقلید دونوں لازم ملزوم
ہیں یعنی جب قیاس آیا تو تقلید بھی ساتھ آئی ۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ
۱۵۷، ادارہ مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
اجماع و قیاس ماننا گمراہی ہے
جناب سعید
احمد یوسف زئی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ـ:
’’دینی امور معاملات و مسائل میں
رہنمائی صرف کتاب و سنت ہی سے حاصل کرنی چاہیے لیکن اگر انہیں چھوڑکر یا ان کے
ساتھ دوسری تیسری اور چوتھی شے کی طرف رجوع کیا جائے گا تو اس میں سوائے گمراہی کے
کچھ نہیں مل سکے گا ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث یکم ربیع
الآخر ۱۴۱۷ھ)
عبادات میں قیاس جائز نہیں
حافظ صلاح
الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’ ’عبادات توفیقی ہیں (یعنی اللہ یا
اس کے رسول کی طرف سے مقرر ہیں ) اس میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی ، نہ ان پر کسی
اور چیز کو قیاس کیاجا سکتا ہے ۔ ‘‘
( شرح ریاض الصالحین :۱؍۱۸۱طبع
دار السلام )
صلاح الدین
صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ عبادات و
قربات کے لئے نص کاہونا ضروری ہے ، اس میں رائے اور قیاس نہیں چل سکتا ۔ ‘‘
( تفسیری حواشی صفحہ ۱۴۹۸)
حافظ عبد
الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عبادات
میں قیاس وغیرہ بھی نہیں چلتا بلکہ قطعی نصوص سے اس کا ثبوت مطلوب ہوتا ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۱؍۱۶۷،
مکتبہ اسلامیہ )
دوسری جگہ
لکھتے ہیں:
’’خطبہ عید کو جمعہ کے خطبوں پر قیاس
کرنا بھی صحیح نہیں کیوں کہ عبادات میں قیاس کو کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ ‘‘
( اصحاب الحدیث : ۱؍۱۷۲، مکتبہ
اسلامیہ )
حافظ عمران
ایوب لاہوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عبادات
میں قیاس کو دخل نہیں ۔ ‘‘
( پانچ اہم مسائل صفحہ ۷۲)
مولانا امین
اللہ پشاوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عبادت میں
قیاس کوروا رکھنا درست نہیں ہے ۔ ‘‘
( حقیقۃ
التقلید واقسام المقلدین صفحہ ۷۰، مکتبہ محمدیہ پشاور طبع ۲۰۰۸ء)
پشاوری صاحب لکھتے ہیں:
’’قیاس عبادات میں حجت نہیں بن سکتا
ہے ، کیوں کہ عبادات کی مبنٰی توقیف پر ہے ۔ ‘‘
( حقیقۃ التقلید واقسام المقلدین صفحہ ۱۰۰، مکتبہ محمدیہ پشاور
طبع ۲۰۰۸ء)
خیر القرون میں قیاس رائج نہ تھا
مولانا بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ خیر
القرون کے زمانے میں قیاس رائج نہ تھا ۔ ‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۳؍۱۵۸)
مولانا محمد
یحیٰ گوندلوی غیرمقلد’’ خیر القرون‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس دَور کے اخیر میں چند لوگ ایسے
پیدا ہوگئے تھے جنہوں نے اسلام کے اہم ترین مسئلوں میں قیاس اور رائے سے کام لینا
شروع کر دیا۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ
۹۴، ادارہ مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
چوں کہ فقہی کتب میں قیا سی مسائل ہیں اس لئے قابل مذمت
ہیں
مولانا محمد یحیٰ گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’مسلمانو! للہ عبرت حاصل کرو ... کیا
ہدایہ ،شرح وقایہ ، فتاویٰ عالم گیری، کنز، قدوری، درمختاراور رد المحتار کے
مجموعے خدا کی طرف سے ہیں۔ کیا ان میں رائے قیاس نہیں۔ ‘‘
(مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ
۶۰، ادارہ مطبوعات سلفیہ راولپنڈی )
قیاس خطاء اور صواب کامجموعہ ہوتا ہے
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
رائے او رقیاس خطا و صواب کا مجموعہ ہوتا ہے اور اس کا کوئی پابند نہیں ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۹۷)
قیاس بدعت، بُری چیزاوراسلام کے گرنے کا باعث
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
اس فرمان سے واضح ہوا کہ قیاس نئی بدعت ہے۔پہلے نہیں تھا۔نیز قیاس بُری چیز ہے اور
اسلام کے گرنے کا باعث ہے۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۹۹)
سلف صالحین قیاس نہیں کرتے تھے
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ان سب اقوال سے ظاہر ہوا کہ شریعت میں قیاس
ورائے کی گنجائش نہیں ہے اور سلف صالحین بلا رائے و قیاس صرف قرآن وحدیث پر فیصلہ
کرتے اور ان سے مسائل نکالتے تھے ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۱۰۳)
قیاس کا ثبوت کسی حدیث میں نہیں
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
کسی حدیث میں قیاس کا نام نہیں، البتہ ایک روایت میں قیاس کی مذمت آئی ہے ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۱۱۹)
قیاس کی مذمت ہی مذمت
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ناظرین ! اس روایت سے چند امور ظاہر ہوئے۔
اول: یہ کہ سلف میں رائے کا رواج نہ تھا۔ دوم: یہ نئی محدث چیز ہے۔ سوم: رائے و
قیاس علم نہیں۔ چہارم : رائے گمراہی کا باعث ہے۔ پنجم: رائے و قیاس پر فتویٰ دینا
جائز نہیں۔ ششم : کیوں کہ اس طرح لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۱۲۲)
قیاس کو ماننا قرآن وحدیث کو ناقص سمجھناہے
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’یہ سوال ہی غلط ہے کہ یہ مسئلہ قرآن
و حدیث میں معاذ اللہ نہیں ہے، اس لیے قیاس کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ ( قرآن و حدیث کو
ناقص سمجھنا) مسلمانوں کا مذہب نہیں ہے۔‘‘
(تنقید سدید صفحہ۱۲۳)
قوسین کے
الفاظ بھی ’’تنقید سدید ‘‘کتاب ہی کے ہیں۔
جب رسول اللہ کو قیاس کی اجازت نہیں تو کسی اور کو کیا
حق ہے
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی
اختیار نہیں تو دوسروں کو اپنی رائے یا قیاس استعمال کرنے کا کیا حق ہے ۔‘‘
( تنقید سدید صفحہ۱۳۲)
قیاس متکاسلین ؍ سست لوگوں
کا وظیفہ ہے
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’سچ
ہے کہ قیاس متکاسلین کا وظیفہ ہے جو کہ نصوص کی تلاش کی زحمت گوارا کرنے کی بجائے
قیاس کرنے پر قناعت کرتے ہیں ورنہ مسائل سب منصوصہ ہیں ۔ ایضاً اہلِ حدیث کا یہ
اصول ہے کہ مسائل اصول سے لئے جائیں۔ قیاس کو ئی اصل نہیں۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۱۴۴)
قیاس کرنے والے وارثانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’شریعت
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو ، نہ کہ امتیوں کے
قیاسات و آراء، اسی طرح علماء ربانیین علوم شرعیہ کے وارث ہیں لیکن نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا ورثہ صرف قرآن و حدیث ہے اور یہی دو چیزیں آپ نے چھوڑی ہیں ... قیاس
نہ آپ نے کیا ، نہ آپ کا ورثہ ہے، نہ ہی قیاس کرنے والا آپ کا وارث کہلا سکتا ہے ۔
‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۱۸۱)
احادیث میں قیاس کی تردید کا دعویٰ!
کسی نے کہا کہ داؤد ظاہری نے سب سے
پہلے قیاس کا انکار کیا۔ اس کے جواب میں شیخ بدیع الدین راشدی
غیرمقلد نے لکھا:
’’یہ
نسبت غلط ہے۔اس سے پہلے بھی منکر ہوئے جیسا کہ اوپر ہم نے صحابہ ؓ اور تابعین ؒ
وغیرہم سے ذِکر کیا بلکہ احادیث سے بھی قیاس کی تردید ثابت کی ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۲۸۶)
مولانا امین
اللہ پشاوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جو لوگ آراء اور قیاسات کی پیروی
کرتے ہیں وہ اس حدیث کی رو سے گمراہ ہیں ۔ ‘‘
( حقیقۃ
التقلید و اقسام المقلدین صفحہ ۱۴۰ ، مکتبہ محمدیہ پشاور .. . طبع ۲۰۰۸ء )
قیاس پر عمل خطرے سے خالی نہیں
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
قیاس ورائے قابل اعتماد نہیں اور ظاہر ہے کہ جو خطا کا محتمل ہو اس پر عمل کرنا
خطرہ سے خالی نہیں۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ۳۷۹)
محدثین کے نزدیک قیاس دلیل نہیں
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اس مسئلہ میں ایسے اقوال پیش کرنا
قیاس ہے، نہ کہ استدلال ہے اور محدثین کے نزدیک قیاس شرعی دلیل نہیں ہے۔‘‘
( مقالات ِ راشدیہ :۲؍۳۱۹)
مولانا ابو
الاشبال شاغف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’دوسرے حضرات قیاس کی بے ضرورت وادی
میں غوطہ کھاتے رہے اورمحدثین نے سنن نبویہ کی غواصی سے فائدہ اُٹھایا اور ضرورت
لاحقہ کو نص سے وابستہ کرکے بتادیا اور قیاس
کے ضروری نہ ہونے کا اعلان کر دیا ۔‘‘
( مقالاتِ شاغف صفحہ۳۸۰، بیت
الحکمت لاہور )
سب مسائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں لہذا قیاس کی ضرورت
نہیں
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قائلین قیاس اسی مسئلہ میں قیاس
کرتے ہیں جو کہ منصوص نہ ہو اگرچہ یہ خود غلط بات ہے کیوں کہ سب مسائل قرآن وحدیث
میں موجود ہیں ﴿ تبیانا لکل شیء ﴾( النحل : ۸۹)’’ جو ہر چیز کی صاف وضاحت کرنے والی ہے
۔‘‘
( مقالات ِ راشدیہ :۲؍۳۱۹)
راشدی صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’ علاوہ اَزیں اہلِ قیاس سے پوچھتے
ہیں کہ تم قیاس کس صورت میں کرتے ہو اگر کہیں اس صورت میں کہ جب قرآن و حدیث میں
کوئی دلیل اس کے متعلق مذکور نہ ہو تو پھر یہ بات باطل اورلغو کہی جائے گی کیوں کہ
سورہ مائدہ والی آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چھوٹی بڑی چیز کو ہمارے لئے
واضح کر دیا ہے : ﴿وکل صغیر و کبیر مستطر﴾(القمر : ۵۳) ’’ اور ہر چھوٹی
اور بڑی بات لکھی ہوئی ہے ۔‘‘ ﴿مافرطنا فی الکتاب من شیء ﴾( الانعام : ۳۸) ’’ ہم نے
دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ۔ ‘‘ ﴿تبیانا لکل شیء ﴾(النحل: ۸۹)’’ ہر شے کا شافی بیان ہے ۔ ‘‘ پیر صاحب کو
ہمارا چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایسا مسئلہ پیش کرے جو قرآن مجید میں نہ ہو : فان لم
تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا !پھر بتائیں قیاس کی کیا ضرورت ہے ۔‘‘
( مقالات ِ راشدیہ :۲؍۲۸۶)
راشدی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ قائلین قیاس اسی مسئلہ میں قیاس
کرتے ہیں جو کہ منصوص نہ ہو اگرچہ یہ خود غلط بات ہے کیوں کہ سب مسائل قرآن وحدیث
میں موجود ہیں تبیانا لکل شیء : ۸۹‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۵؍۷۵)
قیاس کارِ ابلیس ہے
مولاناداود
راز غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’رائے اور
قیاس کی فقاہت محض ابلیسی طریق کا ر ہے ‘‘
(شرح بخاری ۵؍۳۲)
سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا
مولانا ابو
الحسن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قیاس نہ
کیا کرو ! کیوں کہ سب سے پہلے شیطان نے قیاس کیا ۔ ‘‘
(الظفرالمبین صفحہ ۲۰)
شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’امام جعفر صادق کا مقولہ ہے چنانچہ
کتاب ’’ تلبیس ابلیس‘‘ میں ان سے منقول ہے کہ ﴿اول من قاس
ابلیس ﴾( دراسات
اللبیب : ۳۳) ’’سب
سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس ہے ۔‘‘ رب کو معلوم اب تک اس کی پیروی نے کتنے گل
کھلائے ہیں ۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ :۲؍۲۸۷)
اسی طرح کی
بات ’’ مقالاتِ راشدیہ :۲؍۳۱۹‘‘ میں ہے۔
’’اب تک اس کی پیروی نے کتنے گل کھلائے ہیں ‘‘
اس کا کچھ اندازہ ہماری اسی کتاب سے ہو جائے گا ان شاء اللہ۔
اجتہاد وقیاس شیطانی وسوسے ہیں
مولانا ابو
الاشبال شاغف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’پس اے امت مسلمہ کتاب و سنت کے صریح
احکام پر عمل کرنے پر اکتفاء کرو۔ اس کے اندر ڈوب کرست نکالنے کی فکر میں مت پڑو ۔
اجتہاد و قیاس کی ضرورت نہیں ،غلط فہمی میں مت پڑو۔ یہ شیطانی وسوسے ہیں اور ان ہی
وساوس پر عمل کرنے کے یہ نتائج ہیں کہ امت مسلمہ
متفرق فرقوں میں بٹ کر تباہ و برباد ہو رہی ہے ۔‘‘
( مقالاتِ شاغف صفحہ ۲۸۲، بیت
الحکمت لاہور)
قیاس کو اصول دین میں سے ماننا قابل افسوس ہے
مولانا ابو
الاشبال شاغف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’مزید افسوس اُن پر یہ ہے کہ اجتہاد
و قیاس و رائے کو دین کے اصول سمجھتے ہیں۔‘‘
( مقالاتِ شاغف صفحہ ۳۵۵، بیت
الحکمت لاہور )
قیاس گندگی ہے
مولانا امین
اللہ پشاوری غیرمقلد نے فقہ حنفی کی تردید کرتے ہوئے لکھا:
’’اس نہر کے ساتھ آراء ، قیاس اور
فضول فرضی مسائل کی گندگی بھی مل گئی ہیں جس کی وجہ سے یہ پانی گندہ ہو چکا ہے۔ ‘‘
( حقیقۃ
التقلید و اقسام المقلدین صفحہ ۷۲ مکتبہ محمدیہ پشاور .. . طبع ۲۰۰۸ء )
قیاس بدعت ہے جس سے دین کے نامکمل ہونے کا تاثر ملتا ہے
مولانا امین
اللہ پشاوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ مستقل طور پر قیاس کا دین میں
باقاعدہ اہتمام کے ساتھ استعمال بدعت ہے ۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دین نامکمل ہے
...یہ گمان مضر ومہلک ایمان ہے ۔ ‘‘
( حقیقۃ التقلید و اقسام المقلدین صفحہ۱۰۱، مکتبہ محمدیہ پشاور ..
. طبع ۲۰۰۸ء )
قیاسی مسائل اَز خود گھڑے جاتے ہیں
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’رائے و قیاس وغیرہ تو خود گھڑے،
بنائے اور اجتہاد کیے جاتے ہیں۔‘‘
(دین میں تقلید کا مسئلہ
صفحہ۶۲)
قیاسی مسائل اہلِ حدیث کا مذہب نہیں
مولانا محمد
حسین بٹالوی غیرمقلد کہتے ہیں:
’’ مذاہب اربعہ ان مجموعہ مسائل کا
نام ہے جو کتاب اللہ و حدیث رسول و اجماع و قیاس
سے ماخوذ ہیں ، ان مذاہب کی حقیقت معلوم ہو نے
سے فورا سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ان میں سے جو حصہ حدیث سے ماخوذ ہے وہ جیسا کہ مذہب
حنفی یا شافعی کہلاتا ہے، ویسا ہی وہ مذہب اہلِ حدیث بھی کہلا سکتا ہے۔ اور مذہب
اہلِ حدیث میں اور ان مذاہب میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے، نہ نسبت تضاد جو
قسیموں میں ہوتی ہے۔ لہٰذا جو حصہ ان مذاہب کا حدیث سے ماخوذ ہے وہ مذہب حنفی
شافعی بھی کہلائے گا اور مذہب اہلِ حدیث بھی، اور جو حصہ مذاہب کا قیاس سے ماخوذ
ہے وہ مذہب حنفی و شافعی کہلائے گا، اس پر مذہب اہلِ حدیث کا لقب صادق نہیں آئے
گا۔‘‘
(تاریخ اہلِ حدیث : ۱؍۲۰۳ڈاکٹر
بہاؤ الدین )
فائدہ:
غیرمقلدین کے فرقہ ’’ جماعۃ المسلمین ‘‘ کے ہاں
بھی قیاس حجت نہیں ہے ۔چنانچہ اُن کی کتاب میں لکھا ہے :
’’ جماعت
المسلمین ، الحمد للہ تقلید سے بالکل مبرّا ہے، ہم وہی کام کرتے ہیں جو سنت سے
ثابت ہیں، ہمارے ہاں قیاس و رائے سے مسئلے نہیں بنتے لہذا ان شاء اللہ تقلید کا
گذر نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
(جماعت
المسلمین اپنی دعوت اور تحریک کے آئینہ میں صفحہ ۵۴۰،مرتبہ مسعود احمد امام جماعت
المسلمین )
مسعود احمد
لکھتے ہیں:
’’ کسی شخص کا اجتہاد و قیاس نہ منزل
من اللہ ہے اور نہ وہ اصل دین ہے ۔ ‘‘
( جماعت المسلمین اور اہلِ حدیث
صفحہ ۴)
منکرین حدیث
کے نزدیک بھی قیاس حجت نہیں جیسا کہ اُن کی کتاب ’’مقام حدیث ‘‘ میں یوں درج ہے :
’’ دین کے متعلق ایک چیز سے متعلق تو
یقینا آپ متفق ہوں گے یعنی یہ کہ دین وہی ہو سکتا ہے جو یقینی ہو اور قیاسی نہ ہو۔
‘‘
( مقام حدیث
صفحہ ۴ بحوالہ منکرین حدیث کے چار اعتراضات کا جواب صفحہ ۳۵، تالیف مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد )
اتنا
کچھ جان لینے کے بعد اَب تصویر کے دوسرے رُخ کی طرف متوجہ ہوں اور غیرمقلدین
کے قیاسی
مسائل پڑھنا شروع کریں۔ ابتداء کرتے ہیں مسائل
طہارت سے،وباللہ التوفیق۔
[……مسائل
طہارت……]
قرآن و حدیث کے خلاف ناخن پالش کو مہندی پر قیاس
کسی نے سوال
نے کیا:
’’ کیا عورت ناخن پالش ناخنوں پر لگا
کر وضو کرکے نماز پڑھ سکتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ناخن پالش لگا کر وضو کرنے
سے وضو نہیں ہوتا۔‘‘
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد نے اس کا یوں جواب دیا:
’’ناخن پالش مہندی کی قسم سے ہے ،
مہندی کا رنگ بھی دو تین دفعہ لگانے سے گاڑھا ہو جاتا ہے جو بالاتفاق جائز ہے ،
ایسا ہی ناخن پالش کو سمجھ لینا چاہیے۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۳۵۱،
ادارہ احیاء السنۃ سرگودھا )
مولانا انوار
خورشید دام ظلہ(دیوبندی) نے روپڑی صاحب کے اس فتویٰ کو حدیث کے خلاف قراردیا۔
( حدیث اور
اہلِ حدیث صفحہ۲۰۴، جمعیت اہل السنۃ لاہور )
غیرمقلدین
جب اس کا جواب لکھنے لگے تو دفاع کی بجائے کھلے لفظوں تسلیم کر لیا کہ روپڑی صاحب
نے قرآن و حدیث کے خلاف قیاس لڑایاہے۔
چنانچہ مولانا عبید اللہ عفیف غیرمقلد نے روپڑی
صاحب کے اس فتویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’حضرت مفتی علیہ الرحمہ نے ناخن پالش
کو مہندی کے گاڑھے رنگ پر قیاس کرتے ہوئے نیل پالش والے ناخنوں پر وضو کوجائز قرار
دیا ہے، گویا نیل پالش گاڑھے رنگ والی مہندی کے حکم میں ہے ( صغری ) اور مہندی
کے سخت گاڑھے رنگ کے باوجود وضو بالاتفاق جائز ہے ۔ (کبریٰ) لہذا
ناخنوں پر نیل پالش کی موجودگی میں وضو جائز ہے (حد اوسط ) مگر ان کا
یہ قیاس درست معلوم نہیں ہوتا، ان کا یہ فرمانا کہ دو تین دفعہ مہندی لگانے سے اس
کا رنگ گاڑھا ہوجاتا ہے، بالکل درست ہے مگر اس کے باوجود ناخنوں پر اس کی ایسی تہہ
نہیں بنتی جو ناخنوں تک پانی کو پہنچنے ہی نہیں دیتی، یعنی ناخنوں پرپانی بہانے کے
باوجود وہ خشک اور اَن دھلے ہی رہتے ہیں جب کہ قرآن و حدیث کی نصوص کے مطابق وضو
کے اعضاء مکمل اور پوری طرح دھونا فرض ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے : ﴿یایھا الذین
آمنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق وامسحوا برء وسکم
وارجلکم الی الکعبین ﴾اے ایمان والو ! جب تم نماز پڑھنے کے لیے اُٹھو تو اپنے
چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیاکرو اور اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو
اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لیاکرو۔‘‘صحیح بخاری میں حضرت اسامہ بن زید سے
مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں : ﴿فلما جاء المزدلفۃ تنزل فتوضا فاسبغ الوضوء ....﴾(باب اسباغ
الوضوء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے مزدلفہ پہنچے تو آپ نے سواری سے
اترکر خوب اچھی طرح وضو کیا پھر جماعت کھڑی کی گئی۔ قال الحافظ:
الاسباغ فی اللغۃ الاتمام و منہ درع سابغ ۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ج ۱ ص
۱۹۳۲)۔ سیدنا ابو
ہریرۃ فرماتے ہیں لوگو!اسبغوا الوضوء فان ابا القاسم صلی اللہ علیہ وسلم قال
﴿وویل للاعقاب من النار ﴾( باب غسل الاعقاب ) اچھی طرح وضو کر وکیوں کہ سیدنا
ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خشک ایڑیوں کے لیے عذاب ہے۔‘‘ وکان ابن
سرین یغسل موضع خاتم اذا توضا، ( فتح الباری ج ۱ص ۲۱۴)امام محمد بن سیرین (تابعی )
وضو کرتے وقت انگوٹھی آگے پیچھے کرکے انگلی دھویا کرتے تھے ۔ ‘‘ اس حدیث کامنشاء
یہ ہے کہ وضو کا کوئی عضو خشک نہ رہ جائے ورنہ وہی عضو قیامت کے دن عذاب الہی میں
مبتلا کیا جائے گا۔ چوں کہ ہاتھ کی انگلیاں اور ان کے ناخن میں اعضاء وضو داخل ہیں لہذا ان تک پانی پہنچانا ضروری (فرض ) ہے
اور ناخن پالش مجسم ہونے کی وجہ سے پانی کو ناخنوں تک پہنچنے سے مانع ہے۔ لہذا جب
تک ناخن پالش اتار کر اورکرید کر وضو نہیں کیاجائے گا،وضو صحیح نہیں ہوگا۔ جب وضو
صحیح نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی۔اس کے لئے مزید تائیدی فتاوی بھی پیش خدمت
ہیں ۔‘‘
(حدیث اور اہلِ تقلید :
۱؍۲۷۴...تالیف مولانا داود ارشد غیرمقلد ، مکتبہ اہلِ حدیث )
فائدہ: منطق جاننے والے غور فرمائیں اس فتویٰ میں جس بات کو ’’
حد اوسط ‘‘ کہا گیا وہ حد اوسط ہے یا نتیجہ ؟
مولانا
عبید اللہ خان عفیف نے اس کے بعد (۱)صاحب فقہ السنہ سید محمد سابق (۲)الشیخ محمد
بن صالح عثیمین (۳)الشیخ عبد العزیز بن باز (۴)الشیخ ابو البرکات احمد البنارسی کے
فتوے نقل کئے ،پھر آخر میں لکھا:
’’ خلاصہ بحث یہ ہے کہ ناخنوں پر پالش
کی موجودگی میں وضو نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ناخن پالش جوہر یعنی جسم دار ہے ۔ اس کے
لگانے سے ناخنوں پر ایک تہہ جم جاتی ہے جس کی وجہ سے ناخنوں تک پانی نہیں پہنچتا
اور ناخن پالش کو مہندی کے رنگ پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں کیوں کہ مہندی کا رنگ
عرض یعنی غیر مجسم ہے، لہذ ا مجسم کو غیر مجسم پر قیاس کرنا غلط ہے ۔ ‘‘
(حدیث اور اہلِ تقلید : ۱؍۲۷۷،تالیف مولانا داود
ارشد غیرمقلد ، مکتبہ اہلِ حدیث )
مولانا عبد
السلام (جامعۃ الدعوۃ الاسلامیۃ ) اس فتوی کی تائید میں لکھتے ہیں:
’’ یہی بات صحیح ہے کہ ناخنوں پر پالش
کی موجودگی میں پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے وضو نہیں ہوتا کیوں کہ یہ فاغسلوا وجوھکم
وایدیکم کے خلاف ہے ۔ ‘‘
(حدیث اور اہلِ تقلید : ۱؍۲۷۷)
اس فتوے کی
تصدیق یوں درج ہے:
’’ صح الجواب
، مبشر احمد ربانی ۔الجواب صحیح محمد یحیٰ گوندلوی ۔‘‘
(حدیث اور اہلِ تقلید : ۱؍۲۷۴)
مولانا داود ارشد غیرمقلد مذکورہ فتویٰ کی بابت
لکھتے ہیں:
’’ مولانا عبید اللہ عفیف حفظہ اللہ
تعالیٰ کا یہ فتویٰ تنظیم اہلِ حدیث اور پھر الاعتصام میں چھپ گیا تھا۔ راقم نے
فون پر رابطہ کرکے بعض شیوخ اہلِ حدیث سے اس کی توثیق طلب کی توجن سے رابطہ ہوا
اُن سب نے اس کی تائید کی۔ حسب ذیل نام قابل ذِکر ہیں : مولانا ارشاد الحق اثری
حفظہ اللہ ، ۱۷ دسمبر ۰۵ ھ ۔مفتی جماعت مولانا عبد الستار حماد حفظہ اللہ تعالیٰ
۱۷ دسمبر ۰۵ھ ۔ شارح سنن ابن ماجہ مولانا محمد علی جانباز حفظہ اللہ تعالیٰ۔ ۶
اپریل ۰۶ھ ‘‘
(حدیث اور اہلِ تقلید : ۱؍۲۷۷)
تنبیہ: اس عبارت میں
سن کے تذکروں میں ’’ ھ ‘‘ لکھا ہوا ہے، اسے ناقل یا کاتب کی غلطی خیال نہ کریں ۔
حاصل یہ کہ ان سب نے تصدیق کر دی کہ روپڑی صاحب
کایہ قیاسی فتوی قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے بھی روپڑی
صاحب کے اس فتویٰ کو حدیث کے خلاف قیاس کا نتیجہ قرار دیا ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’وضو
میں ذرا سی بھی جگہ خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوتا۔ میں اس مسئلہ میں مصنف [ مولانا
انوار خورشید دیوبندی( ناقل )] کی تائید کرتاہوں۔ نیل پالش لگی ہوتو وضو ہوجانے کے
جواز میں حضرت العلام حافظ محمد عبد اللہ روپڑی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوی سے
اتفاق کرنا مشکل ہے۔ یہ عام اہلِ حدیث کا مسلک نہیں ہے اور یہ نادرست بھی اس لئے
ہے کہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ... حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس سے کام لیا ہے ۔ ‘‘
( حدیث اور غیر اہلِ حدیث صفحہ
۴۵)
پانی میں پیشاب بہانے کو پیشاب کرنے پر قیاس
غیر مقلدین
کے ’’حجۃ الاسلام‘‘ مولانا محمد گوندلوی نے’’قیاس کی مثال‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا:
’’اس کی مثال یہ ہے کہ آں حضرت صلی
اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا ہے۔ اب یہ چیز کہ کھڑے
پانی میں پیشاب کی ممانعت حدیث میں ذکر ہونے کی بناء پر اصل اور مقیس علیہ ہے اور
اس کا کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی حرمت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پیشاب نجس اور
پلید ہے ایسا نہ ہو کہ پانی بھی پلید ہو جائے، پس نجاست علّت ہے اور پیشاب کر کے
پانی بہانے کا ذکر حدیث میں نہیں ہے۔ مگر علت یعنی نجاست اس صورت میں موجود ہے
لہذا یہ بھی حرام ہونا چاہئے، پیشاب کر کے پانی میں گرانا فرع اور مقیس ہے۔‘‘
(الاصلاح صفحہ۴۱۱)
کتے اور سور کو مردار پر قیاس
غیرمقلدین کے
’’امام‘‘ علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
’’اہل حدیث نے سور اور کتے کو بھی
مردار پر قیاس کیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث عام
ہے
پس ان کی کھال بھی دباغت (رنگنے) سے پاک ہو جاتی
ہے۔‘‘
(تیسیر الباری جلد۷ صفحہ۳۷۷)
بے ہوشی کو نیند پر قیاس
عبد الرؤف
سندھو غیر مقلدبے ہوشی وغیرہ کے ناقضِ وضو کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’علامہ شوکانی نے ان اشیاء (بے ہوشی
وغیرہ) کو نیند پر ہی قیاس کیاہے۔‘‘
(القول
المقبول صفحہ ۲۰۰ طبع
چہارم)
یعنی جس طرح نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
ایسے ہی بے ہوشی بھی وضوکو توڑ دیتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیند کا ناقض وضو ہونا
حدیث سے ثابت ہے اور بے ہوشی کا ناقض وضو ہونا بقول شوکانی قیاس سے ہے۔شوکانی کے
متعلق مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
’’ فخر المتاخرین امام محمد بن علی
شوکانی جن کا علم و کمال و امامت واستقامت اہلِ حدیثان زمانہ حال میں بالاتفاق
مسلّم ہے ۔ ‘‘
( اشاعۃ السنۃ :۸؍۱۴ بحوالہ مظالم روپڑی صفحہ
۱۲مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول )
پیشاب کے مریض کو مستحاضہ پر قیاس
حافظ عبد الستار حماد غیر مقلد ’’کتاب
وسنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں‘‘کہہ کر مسئلہ پوچھنے والے معذور کی
راہنمائی قیاس سے کرتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں ــ:
’’جس شخص کو بار بار پیشاب آنے یا ریح
خارج ہونے کا مستقل عارضہ لاحق ہو اس کے متعلق محدثین کا یہ موقف ہے کہ وہ ہر نماز
کے لئے تازہ وضو کرے…… اس موقف کی بنیاد حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کا
واقعہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ شکایت کی کہ مجھے
کثرت سے خون آتا ہے اور کسی وقت اس کی بندش نہیں ہوتی ایسے حالات میں کیا مجھے
نماز چھوڑ دینے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ خون حیض کا
نہیں جس کی وجہ سے نماز ترک کر دی جائے بلکہ یہ ایک بیماری کی وجہ سے رگ خون بہ
پڑتی ہے مخصوص ایام میں تو نماز ترک کی جا سکتی ہے، اگر خون بدستور جاری رہے تو
غسل کر کے نماز ادا کرنا ہوگی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنا
ہوگا، حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ پھر تجھے ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہوگا۔‘‘ (صحیح
بخاری ،الوضو۲۲۸)استحاضہ کے خون کا حکم بے وضو ہونے کی طرح ہے کہ مستحاضہ ہر نماز
کے لئے وضو کرے گی لیکن وہ اس وضو سے صرف ایک فریضہ اداکر سکتی ہے ۔[ فتح الباری :
ج۱، ص ۴۰۹] اس پر قیاس کرتے ہوئے جس مریض کو بار بار پیشاب آنے یا ریح خارج ہونے
کی شکایت ہے اسے چاہیے کہ وہ ہر نماز لئے تازہ وضو کرے ۔‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۱؍۷۲)
یہی فتوی اصحاب الحدیث :۲ ؍۹۰ پر بھی
موجود ہے۔ اس فتوی کا حاصل یہ ہے کہ بار بار پیشاب کے قطرات آنے والے مریض اور بار
بار ہوا خارج ہونے والے مریض کو مستحاضہ (جسے حیض کے علاوہ بیماری کی وجہ سے خون
آتا ہو) پر قیاس کیا گیا ہے، وضو کے لئے جوحکم مستحاضہ کا ہے وہی اُن مریضوں کا
ہے۔
اس طرح کا
مسئلہ علامہ وحید الزمان غیرمقلدنے لفظ قیاس کی صراحت کے بغیر تحریر کیا، وہ سیدہ
فاطمہ بنت حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’ اس حدیث سے اور حدث والوں کا بھی
حکم نکلا جیسے کسی کو پیشاب کی بیماری ہو جاوے یا ریاح کی وہ بھی نماز ترک نہ کرے
بلکہ ہر نماز کے لیے وضو کرلے۔ اور جب تک وقت باقی رہے ایک ہی وضو سے فرض اور نفل
ادا کرے ، گو حدث ہوتا رہے ۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۱؍۳۱۹)
جرابوں کے مسح کو موزوں پر قیاس
اکثر غیر مقلدین کے نزدیک دورانِ وضو
پاؤں دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح کرنا درست ہے مگر انہیں کے بعض علماء اسے غلط
قیاس کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
مولانا
ابوالبرکات احمد غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق کوئی
حدیث صحیح نہیں ہے علماء نے جرابوں پر مسح کرنے کو موزوں پر مسح کے ساتھ قیاس کیا
ہے۔‘‘
(فتاویٰ برکاتیہ صفحہ۱۸ )
مولانا عبد
الرحمن مبارکپوری غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’باقی رہا قیاس کا مسئلہ کہ جب موزہ
پر مسح جائز ہے تو قیاساً جراب پر جائز ہونا چاہیے کیوں کہ ان دونوں میں کوئی فرق
مؤثر نہیں ہے…… اس پر شبہ یہ ہے کہ اگر مسح موزہ کی کوئی علت منصوص ہوتی تو اس علت
کی بناء پر جراب کے مسح کو اس پر قیاس کر لیا جاتا لیکن یہاں کوئی علت منصوص نہیں
ممکن ہے کہ ہم کوئی اور علّت سمجھیں اور حقیقت میں کوئی اور ہو۔‘‘
(فتاویٰ نذیریہ:۱ ؍۳۳۳)
اس فتویٰ پر غیرمقلدین کے ’’شیخ الکل فی الکل‘‘
میاں نذیر حسین دہلوی نے بھی دستخط کیے ہیں۔
مولانا شرف
الدین دہلوی غیر مقلد ، جرابوں پر مسح کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ مسئلہ نہ قرآن سے ثابت ہوا نہ
حدیث مرفوع سے ، نہ اجماع، نہ قیاسِ صحیح سے۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۴۴۲، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور)
غسل عید کو غسل جمعہ پر قیاس
مولانافاروق
رفیع غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ غسل جمعہ پر قیاس: چوں کہ اہلِ
اسلام کا اجتماع اور عید ہے اور اس مناسبت کی وجہ سے غسل جمعہ واجب ہے۔ سو عیدین
میں بھی یہ اسباب موجود ہیں۔ لہذا جمعہ عیدین کے غسل کا کرنا بھی بہتر عمل ہے ۔ ‘‘
( عیدین کے مسائل صفحہ ۳۷، ناشر
: ترجمان الحدیث پبلی کیشنبز )
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’ ’حاصل کلام یہ ہے کہ عیدین کے روز
غسل استحباب پر کوئی صریح مرفوع روایت نہیں ہے... حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ
علیہ لکھتے ہیں کہ : ’’ اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک عید کا غسل ،غسل جمعہ پر
قیاس کی وجہ سے مستحب اور پسندیدہ ہے ۔ ‘‘
( اصحاب الحدیث : ۱؍۴۱۳)
ڈاکٹر شفیق
الرحمن غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ عیدین کے دن غسل کے بارے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت
نہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ہے، اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہ غسل، غسل
جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے مستحب ہے۔‘‘
(نمازِ نبوی صفحہ۶۵ طبع دار السلام)
ڈاکٹر صاحب
مزید لکھتے ہیں:
’’امام نووی فرماتے ہیں: اس مسئلہ (غسل عیدین، ناقل) میں
اعتماد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر پر ہے، نیز جمعہ کے غسل پر
قیاس اس کی بنیاد ہے۔‘‘ (نمازِ نبوی صفحہ۶۵ طبع دار السلام)
بھنگ کو شراب
پر قیاس
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قیاس کہتے ہیں ایک حکم کو جو منصوص
ہو اس کی علت کے ذریعہ دوسری جگہ ثابت کرنا مثلا ً شراب کی حکم[حکم نہیں، نھی و
ممانعت ( ناقل )]کی علت نشہ ہے ۔ اور یہ علت بھنگ میں بھی موجود ہے تو بھنگ بھی
حرام ہوئی ۔ ‘‘
( فتاویٰ روپڑی :۱؍۸، ادارہ
احیاء السنہ سرگودھا )
پاخانہ کو پیشاب پر قیاس
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلدقیاس کی شرطیں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۱۔ قیاس کسی آیت و حدیث کے خلاف نہ
ہو ۔ ۱۲۔ اس کی علت بہت واضح ہو۔ مثلاً حدیث میں کھڑے پانی میں پیشاب سے نہیں[ نہی
( ناقل )] آئی ہے اور علت اس کی نجاست ہے تو اس علت کی وجہ سے پاخانہ بطریق اولیٰ
منع ہوا پس جہاں یہ دوباتیں ہوں وہاں بے کھٹکہ قیاس صحیح ہے کسی اور جگہ ہو یا نہ
ہو۔ ‘‘
( فتاویٰ روپڑی :۱؍۸، ادارہ
احیاء السنہ سرگودھا )
کوا کے جھوٹے کو بلی پر قیاس
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ہاں اس کے جوٹھے کو بلی پر قیاس
کرنے کی گنجائش ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ روپڑی :۱؍۲۳۷، ادارہ
احیاء السنہ سرگودھا )
عام حلال جانوروں کے پیشاب کو اونٹوں کے پیشاب پر قیاس
غیرمقلد ین کی طرف سے شائع کردہ کتاب’’ فقہ
السنہ‘‘ میں لکھا:
’’دیگر ماکول اللحم حیوانات کو ان پر قیاس کیا
جائے گا۔ ‘‘
( فقہ السنہ :۱؍۴۷)
فقہ السنہ کے
مصنف سید سابق کے متعلق لکھا ہے :
’’ کسی ایک
فقہی مسلک کی تقلیدنہیں کی ۔ ‘‘
(مؤلف کے مختصر حالات زندگی
مندرج فقہ السنہ:۱؍۳۶)
کتے کے باقی اجزاء کو اُس کے لعاب پر قیاس
حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
امام ابن تیمیہ ؒ کا کہنا ہے کہ کتے کا لعاب نص کی وجہ سے نجس سے اورا س کے بقیہ
اجزء قیاس کی وجہ سے۔ ‘‘
( فقہ الاسلام شرح بلوغ المرام
صفحہ ۴۲)
لاہوری صاحب
دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
’’(ابن تیمیہ ؒ) کتے کا لعاب نص کی
وجہ سے نجس ہے اور اس کے بقیہ تمام اجزاء قیاس کی وجہ سے نجس ہیں البتہ اس کے بال
پاک ہیں ... (شوکانی ؒ) حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے۔ علاوہ اَزیں اس کی
بقیہ مکمل ذات ( یعنی گوشت ،ہڈیاں ، خون، بال اور پسینہ وغیرہ ) پاک ہے کیوں کہ
اصل طہارت ہے اور اس کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں ۔ (راجح )شوکانی ؒ کا
موقف راجح معلوم ہوتا ہے ۔ ‘‘
( فقہ الحدیث :۱؍۱۴۷طبع فقہ
الحدیث پبلی کیشنز )
تنبیہ: غیرمقلدین کے
ہاں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تارک تقلید ہیں۔اس لئے اُن کے قیاسی مسئلہ کو ’’غیرمقلدین کے قیاسی مسائل ‘‘ کے تحت لانے
پر انہیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
بھڑ،مکڑی اور بچھو وغیرہ کو مکھی پر قیاس
حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
اہلِ علم نے مکھی کے علاوہ ہر اُس جانور کو بھی مکھی پر قیاس کیا ہے جس کا خون
بہنے والا نہیں اور کہا ہے کہ شہد کی مکھی ،مکڑی اور بچھو وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے
،یعنی ان میں سے کوئی بھی جانور پانی میں گر کر مر جائے تو پانی پاک ہی رہتا ہے ۔
‘‘
( فقہ الاسلام شرح بلوغ المرام
صفحہ ۴۶)
مولانا صفی
الرحمن مبارک پوری غیرمقلد نے قیاس کالفظ لکھے بغیر اس قیاسی مسئلہ کو یوں درج
کیا:
’’والحدیث
دلیل علی ان الذباب لو ماتت فی مائع لاینجسہ واستنبط من ھذا حکم کل ما لیس لہ دم
مسفوح، کالنحلۃ والعنکبوت والزنبور واشباہ ذلک۔‘‘
(اتحاف الکرام
شرح بلوغ المرام صفحہ ۱۵ ، ناشر دار السلام ریاض)
ترجمہ: اور حدیث دلیل ہے اس بات پر کہ
مکھی اگر کسی بہنے والی چیز میں مر جائے تو وہ اسے نجس نہیں کرتا اور اسی سے
استنباط کیا گیاہر اُس چیز کا حکم جس میں بہنے والا خون نہ ہو، جیسے شہد کی مکھی،
مکڑی، بھڑ اور اس جیسی دوسری چیزیں۔
دیگر حلال جانوروں کے لعاب کو اونٹ کے لعاب پر قیاس
حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کا لعاب دہن پاک ہے اور اس پرقیاس کرتے ہوئے اہل
علم نے تمام ماکول اللحم [ حلال جانوروں ( ناقل )] کا لعاب پاک قرار دیا ہے ۔‘‘
( فقہ الاسلام شرح بلوغ المرام
صفحہ ۵۳)
پاخانہ کو پیشاب پر قیاس
غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا ہے :
’’
ظاہریت وجود میں آئی جس کے بانی داود ظاہری ؒ اور جس کو غذا و جلا بخشنے والے علامہ
ابن حزم ؒ ہوئے... قیاس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رہی حالاں کہ کسی بھی تحریک
کے قائم مقام اور دائم رہنے کے لئے قانون میں ایسی شق کا ہونا ضروری ہے جس کے
ذریعے آئے دن پیش آمدہ مسائل کی گرہ کشائی کی جا سکے، اسلام نے اسی فطری ضرورت کے
پیشِ نظر اپنے قانون میں قیاس کی گنجائش رکھی ... ظاہریت کی ظاہر پسندی ملاحظہ
کیجئے، ان کے یہاں رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے ، اس لیے کہ اللہ کے رسول
نے اسے منع فرمایا ہے لیکن رکے ہوئے پانی میں پائخانہ کرنا درست ہے کیوں کہ اس
سلسلے میں اللہ کے رسول سے کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے... گروہ محدثین اوراہلِ حدیث
نے رُکے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرنے والی روایت پرپائخانہ کو قیاس کرکے دونوں سے
منع فرمایا کیوں کہ مقیس اور مقیس علیہ میں علت مشترک ہے بلکہ مقیس علیہ یعنی رکے
ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرنے کی علت ( گندگی ) سے مقیس یعنی رکے ہوئے پانی میں
پائخانہ نہ کرنے کی علت ( گندگی ) قوی تر ہے ۔ ‘‘
( تحریک اہلِ حدیث کا پس منظر
صفحہ ۱۰،۱۱)
الاعتصام میں قیاس مع الفارق کے بل بوتے فتویٰ
کسی
غیرمقلد نے حرام چربی والے صابن کے استعمال کے جواز پر فتویٰ دیا تھا۔ مولوی گلزار
احمد ( تلمیذ مولانا عبد اللہ دیرو والوی لائل پور )نے تبصرہ کرتے ہوئے اسے قیاس
مع الفارق قرار دیا :
’’حرام چربی کو دوسری اشیاء کے ساتھ
ملا کر استعمال کرنا اور تبدیلی حالت کا حیلہ ڈھونڈنا یہود نا مسعود کی روشن قبیح
کی اتباع ہے۔رہا غلاظت کو جلا کر راکھ بنانے سے تبدیلی حالت پر قیاس، تو یہ قیاس
مع الفارق ہے کیوں کہ مزج اور احراق میں فرق ہے۔ احراق ( جلانے ) سے حقیقت بالکل
بدل جاتی ہے ، بخلاف مزج کے کہ اس میں انتقال حقائق نہیں ہوتا ۔ ‘‘
مٹی پر چونا وغیرہ اشیاء کو قیاس
تیمم صرف مٹی سے جائز ہے یا جنس زمین
: پتھر ، کنکر ،ریت اور چونا وغیرہ سے بھی؟ اس میں غیرمقلدین کے دو گروہ ہیں۔ ایک
گروہ صرف مٹی سے تیمم کوجائز بتا تا ہے جب کہ دوسرا طبقہ جنس زمین میں سے ہرچیز :
پتھر،کنکر،ریت اور چونا وغیرہ کے ساتھ تیمم کو درست مانتا ہے۔(احناف بھی یہی موقف
رکھتے ہیں) پہلے گروہ کے مفتی نے کنکر اور ریت وغیرہ سے تیمم کے جواز کوقیاسی
مسئلہ قرار دیا ہے۔ گویا اُن کے نزدیک غیرمقلدین کا دوسرا گروہ قیاس پر عمل پیرا
ہوا۔
پہلے گروہ کے
فتاویٰ کا ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
’’ سوال
: چونہ کی دیوار یا چونہ سے بنی ہوئی دیوار پر تیمم جائز ہے یا نہیں ؟ مسجدوں میں
مسائل کے تختے کتبے پر لگے رہتے ہیں اس میں لکھاہے کہ مٹی کی جنس مثلا ً
پتھر،کنکر،چونہ،گچ وغیرہ سے تیمم جائز ہے۔
الجواب: تیمم کی
بابت ارشاد ہے : فتیموا صعیدا طبیا یعنی پاک مٹی
پر تیمم کرو، چونہ وغیرہ کو علماء حنفیہ نے مٹی پرقیاس کرکے جائز لکھا ہے ۔ خاکسار
کے نزدیک اس میں شبہ ہے ۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۳۱۰ بحوالہ
فتاویٰ علمائے حدیث: ۱؍۱۲۵مکتبہ اصحا ب الحدیث لاہور )
تنبیہ:حنفیہ نے مٹی کے ساتھ جنس زمین سے تیمم کو جائز بتایا ہے
اس کی دلیل حدیث ِ بخاری ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
:
’’ جُعِلت لِیَ الا رض مَسجِدا وطھورا فَایمَا رَجل مِن
امتِی ادرکتہ الصلٰوۃ فَلیِصل،
(صحیح بخاری : ۱؍ ۶۲)
زمین کو میرے لیے نماز کی جگہ اورپاک
کرنے والی بنایا گیاہے پس میرے کسی امتی کوجہاں کہیں بھی نماز پالے وہاں نماز پڑھ
لے۔
غیر مقلدعالم علامہ وحیدالزمان اس
حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’اس حدیث سے امام مالک اورامام
ابوحنیفہ اوراوزاعی وغیرہم نے دلیل لی کہ تیمم ہرچیز سے درست ہے جوزمین کی قسم سے
ہو مٹی یاپتھر یااینٹ وغیرہ۔
(تیسیرالباری جلد ۱ صفحہ ۲۶)
امام بخاری
رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کے اوپران الفاظ میں باب قائم کیا:
’’ باب قول النبی صلی اللہ علیہ
وسلم جعلَت لِیَ الارض مَسجدا وطھورا‘‘
نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان کہ ساری زمین کو میرے لیے مسجد اورپاک کرنے والی
بنایاگیاہے۔
علامہ
وحیدالزمان صاحب اس باب کے تحت لکھتے ہیں:
’’یعنی زمین کی ہر چیز پر نماز اور اس
سے تیمم کرنا درست ہے مگر جہاں کوئی دلیل اس کی ہو کہ وہ نجس ہے یاوہاں نماز
پڑھنامکروہ ہے،
(تیسیرالباری : ۱ ؍ ۳۱۶ نعمانی کتب خانہ)
پٹیوں کے مسح کا جواز موزوں کے مسح پر قیاس اور قیاس سے
ضعیف حدیث کو تقویت
مولانا عبد
التواب ملتانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’دوموزوں پر اور عمامے پر مسح کا
جواز بھی اسی کا مقتضی ہے اور قیاس ہذا نص صریح ضعیف کو جو وجوب مسح علی الجبابر
میں وارد ہے تقویت پہنچتی ہے ۔ ‘‘
( حاشیہ بلوغ المرام اردو
صفحہ ۷۷، فاروقی کتب خانہ ملتان )
نماز کے مسائل
مولی کو کچے
گوشت، لہسن اور پیاز پر قیاس
علامہ وحید
الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اسی حکم میں ہے وہ ہرترکاری جس میں
بدبو ہو جیسے مولی وغیرہ گواِس کی تصریح حدیث
میں نہیں... لیکن جب کچا گوشت لانے کی اور پیاز
اورلہسن کی ممانعت ہوئی تو مولی کا حکم بھی اس
پر قیاس کر سکتے ہیں۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ
: ۱؍۴۷۵)
مسجد میں
ہرگم شدہ چیز کے اعلان کی ممانعت کو گم شدہ جانور کی ممانعت پر قیاس
حدیث میں ہے
جو مسجد میں ’’ ضالۃ ‘‘کے تلاش کرنے کا اعلان
کررہاہو تو تم کہو اللہ تجھے واپس نہ لوٹائے۔
(بلوغ المرام )
حافظ عمران
ایوب لاہوری غیرمقلداِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’ ضالۃگم شدہ جانور کو کہتے ہیں لیکن
دوسری اشیاء کو بھی اس پر قیاس کر لیا جاتا ہے ۔ البتہ دوسری گم شدہ اشیاء کے لئے
لغت میں ضائع اور لقطۃ کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ ‘‘
( فقہ الاسلام شرح بلوغ المرام صفحہ ۱۶۵، فقہ
الحدیث پبلی کیشنز )
ہر مجلس علم
اور عبادت کو مسجد پر قیاس
علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قیاس کیا
ہے علماء نے پیاز لہسن پر بد بودار چیز کو اور مسجد پر ہر مجلس علم اور عبادت کو ۔
‘‘
( شرح مسلم اردو: ۱؍۱۲۶، کتاب
المساجد )
اذان کے بعد کی دعا میں ہاتھ اُٹھانا قیاسی
کسی نے سوال کیا :
’’ اذان کے بعد کی دعا ہاتھ
اُٹھا کر مانگنی جائز ہے یا نہیں ۔‘‘
مولانا ثناء
اللہ امرتسری غیرمقلد نے اس کا جواب دیا:
’’اس دعا کو قیاس کرلیجئے ورنہ ہاتھ
اُٹھانے کا ثبوت میرے ناقص علم میں نہیں ۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث: ۱؍۴۵۴، ادارہ احیا السنۃ ڈی
بلاک سرگودھا )
تکبیر کے
جواب دینے کو اذان کے جواب دینے پر قیاس
حافظ زبیر
علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں:
”تکبیر
(اقامت ،دوسری اذان) کا جواب دینا صراحتاً ثابت نہیں ۔ اگر کوئی شخص اذان پر قیاس
کرکے اس کا جواب دیتا ہے تو اسی طرح جواب دے جس
طرح وہ اذان کا جواب دیتا ہے ۔“
(علمی مقالات ۳؍۷۴، مکتبہ اسلامیہ)
سجدہ سہوکا مسئلہ... نفلوں کو فرض پر قیاس
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ فرضوں میں اگر درمیانی تشہد بھول
جائے تو حدیث میں سجدہ سہو آیا ہے، نفلوں کو بھی
اسی قیاس کرنا چاہیے کیوں کہ جس مسئلے میں نفلوں
کو فرضوں سے علیحدہ نہیں کیا، ہم علیحدہ نہیں کر سکتے۔ پس نفلوں میں بھی سجدہ سہو
کافی ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ علمائے حدیث : ۳؍۱۸۵)
ربنا ولک الحمد کہنے میں مقتدی کو امام پر قیاس
مولانا صفی
الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ثبت فی صحیح البخاری فی المغازی
ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول فی الفریضۃ وھو امام بعد قولہ سمع اللّٰہ
لمن حمدہ ربنا ولک الحمد ویقاس علیہ المقتدی۔‘‘
( اتحاف الکرم حاشیۃ بلوغ المرام
صفحہ ۱۱۵،ناشرمکتبہ دار السلام ریاض)
صحیح بخاری
کتاب المغازی میں ثابت ہے کہ بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام ہونے کی حالت
میں فرض نماز میں سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہنے کے بعد
ربنا ولک الحمد کہاکرتے تھے
اور اسی پر مقتدی کو قیاس کیا جائے۔
امام کا
بآواز بلندقنوت پڑھنا اور مقتدیوں کا آمین کہنا قنوت نازلہ پر قیاس
حافظ عبد
الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’امام کا بآواز ِ بلند قنوت پڑھنا
اور مقتدی حضرات کا آمین کہنا بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ قنوت نازلہ
پرقیاس کر لیاجائے تو گنجائش نکل سکتی ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۲؍۱۸۰مکتبہ اسلامیہ )
وتروں
میں بلند قنوت اور آمین کہنے کوحافظ ثناء اللہ مدنی نے بھی قیاسی کہا ہے۔
( الاعتصام لاہور ۲۱؍ اگست
۱۹۹۲ء )
سو جانے سے چھوٹنے والی نماز پر بھول کر قضاء
ہونے والی نماز کو قیاس
مولانا عبد
التواب ملتانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’سو جانے سے جو نماز وقت سے بے وقت
ہو گئی ہو اس کے لیے اذان دنیا مشروع ہے........ اور جو نماز بھول سے رہ گئی ہو اس
کا حکم بھی قیاساً یہی ہوگا کہ اس کے لیے بھی اذان و
اقامت ہووے ۔ ‘‘
( حاشیہ بلوغ لمرام اردو صفحہ ۹۱ ، فاروقی کتب
خانہ ملتان،سال اشاعت : ۱۹۷۹ء )
مقتدی کی طرف
سے آیات قرآنیہ کاجہرا جواب ، آمین پر قیاس
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قرآن مجید کی جن سورتوں کے جوابات
حدیثوں میں آ گئے ہیں وہ جس طرح امام کے لیے جائز اور مستحب ہیں اسی طرح مقتدی کے
لیے بھی جائز مستحب ہیں بلکہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو سامعین کا جواب دینا بہت محبوب تھا [ پھر مشکوۃ سے ایک ضعیف
حدیث نقل کی ،جس میں نماز کی بات نہیں بلکہ عام حالت کے حوالہ سے گفتگو ہے ۔(ناقل
) ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت پیاری
لگی تھی کہ سامعین بھی جواب دیں لہذا مقتدی کو جواب دینا چاہیے۔ اس حدیث میں اگرچہ
ضعف ہے مگر امام شافعی نے اس سے استدلال کیا ہے کہ سامع بھی جواب دے۔ امام شافعی ؒ
کے استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث قابل عمل ہے خاص کر فضائل ِ اعمال میں۔ رہی
یہ بات کہ نماز غیرنماز میں کوئی فرق ہے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر
کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا ۔ یہ ایسا ہی سمجھ لینا چاہیے جیسے امام کی آمین کے ساتھ
آمین کہی جاتی ہے کیوں کہ سماع قراء ت کو مخل نہیں ۔ پس اس کا آمین پر قیاس صحیح
ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۴۹۵،
ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا )
روپڑی صاحب
کے اس فتوے میں کئی باتیں قابل توجہ ہیں۔
روپڑی صاحب
کے بقول یہ حدیث سندا ً ضعیف ہے ۔اورروپڑی صاحب یہ بھی لکھ چکے :
’’ ضعیف حدیث کسی کے نزدیک قابلِ حجت
نہیں ۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۵۰۳ ، ادارہ احیاء السنۃ
ڈی بلاک سرگودھا )
روپڑی صاحب نے امام شافعی رحمہ اللہ
کے استدلال کا سہارا لیا ۔یہاں یہ بتلایا جائے کہ غیرمقلدین کے ہاں کسی مجتہد کا
استدلال حدیث کے سندی ضعف ختم کرکے اسے صحت تک پہنچا دیتا ہے ؟ اگر ہے تو حوالہ ؟
پھر اس ضعیف حدیث میں عام حالات کی
بات ہے کہ آیات کا جواب حاضرین دیں تو پسندیدہ ہے ۔ نہ تو نماز کی بات ہے اور نہ
ہی مقتدیوں کے جواب دینے کی ۔
روپڑی صاحب
نے آخرمیں قیاس بھی لڑایا ہے کہ جس طرح مقتدی کا اونچی آمین کہنا قراء ت میں مخل
نہیں ، اسی طرح مقتدی کی طرف سے آیتوں کابلند جواب بھی خلل نہیں ڈالتا ،لہذا آمین
پر قیاس صحیح ہے ۔جب کہ روپڑی صاحب کے ہاں قیاس حجت ہی نہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’فقہاء
کے نزدیک کل دلیلیں چار ہیں :کتاب و سنت ، اجماع و قیاس۔اور اہلِ حدیث کے نزدیک
قیاس میں کلام ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۶۶۴، ادارہ احیاء السنۃ
ڈی بلاک سرگودھا )
شیخ البانی کا قیاسی فتوی
غیرمقلدین کی رائے ہے کہ جو شخص سفر
کر رہا وہ دوران سفر دو وقت کی نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ سکتا ہے ۔شیخ البانی
غیرمقلد نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر مسافر کسی جگہ ٹھہرا ہوا ہوتب بھی دووقت کی
نمازوں کو ایک وقت میں پڑھ سکتا ہے ۔
فتاوی اہل
حدیث میں لکھا:
’’ دو نمازوں ظہر ، عصر، یا مغرب ،عشا
کے جمع کرنے کے متعلق سوال ہوا کہ اگر مسافر کویقین ہوکہ وہ عصر تک یا عشاء تک گھر
پہنچ جائے گا تو کیا وہ ظہر کے ساتھ عصر یا مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز جمع اور
قصرکی صورت میں پڑھ سکتا ہے ؟ شیخ البانی نے فرمایا: پڑھ سکتا ہے کیوں کہ جب مسافر
سفر میں کسی جگہ ٹھہرنے کی نیت کر لے تو اس حال میں اسے نمازیں جمع کرنے کی
اجازت ہے ،تو گھر پرپہنچنے کی نیت کی صورت میں
بھی جائز ہے ۔‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۶۸۴،
ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا )
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد نے شیخ البانی کے اس فتوے کو قیاسی فتوی قرارد یا ۔ روپڑی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ شیخ البانی کا خیال صحیح نہیں۔
سفرمیں اگر چار روز سے کم اقامت کی نیت ہو تو وہ مسافر ہے۔اگر اس سے زیادہ کی نیت
ہو تو وہ مقیم ہے اور جوشخص عصر تک یا عشاء تک گھر پہنچ سکتا ہے وہ گھر پہنچ کر
مسافر نہیں رہتا اس کو اس پر کس طرح قیاس کیاجا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ مسافر کسی
جگہ ٹھہرا ہوا ہو تو اس کے لیے جمع ثابت نہیں ۔ بلکہ جو چلنے کی تیاری کر رہا ہو،
اس کے لیے ثابت ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۶۸۷،
ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا )
قنوت وتر کے
رفع یدین کو قنوت نازلہ پر قیاس
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قنوتِ نازلہ پر قیاس کرکے قنوتِ
وتر میں بھی دعا کی طرح ہاتھ اُٹھانا جائز ہے۔ ‘‘
( توضیح الاحکام :۲؍۹۶)
علی زئی صاحب
نے یہی قیاسی مسئلہ اپنی کتاب ہدیۃ المسلمین صفحہ ۷۵ اور علمی مقالات :۴؍۱۲۶میں
بھی لکھاہے۔
مولانا مبشر
احمد ربانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قنوت وتر میں ہاتھوں کا اُٹھانا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں رکوع سے پہلے قراء ت
سے فارغ ہونے کے بعد اسی طرح بغیر ہاتھ اُٹھانے دعا مانگنی چاہیے جو لوگ وتر میں
ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے ہیں وہ اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں۔ ‘‘
( احکام و مسائل صفحہ ۲۵۹)
مولانا ابوالبرکات احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جو دعا وتروں میں پڑھی جاتی ہے یہ
بھی قنوت ہے۔لہذا نازلہ قنوت پر قیاس کرکے وتر میں بھی ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے
ہیں۔
( فتاویٰ برکاتیہ صفحہ ۳۸)
مولانا عبد الغفار محمد ی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ وتروں میں ہاتھ اُٹھانا نبی صلی
اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے اس لیے ہم ہاتھ نہیں اُٹھاتے ۔اگر
اُٹھاتے ہیں تو امام شافعی کی تقلید میں نہیں بلکہ اس لیے کہ قنوتِ نازلہ میں ہاتھ
اُٹھانا حدیث سے ثابت ہے کیوں کہ نازلہ بھی قنوت ہے اور وتروں والی بھی قنوت تو
نازلہ والی پر قیاس کرتے ہوئے ہم ہاتھ اُٹھا
لیتے ہیں۔‘‘
( حنفیوں کے ۳۵۰ سوالات صفحہ ۵۵۰)
مولانا جاوید
اقبال سیالکوٹی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قنوتِ وتر میں ہاتھوں کو اُٹھانے
کے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ہے ، اس لیے بہتر ہے کہ ہاتھ اُٹھائے بغیر دعا
مانگی جائے ... اگر قنوت ِوتر کو قنوت ِ نازلہ پرقیاس کرکے ہاتھ اُٹھاکر دعا کرے
تو یہ بھی درست معلوم ہوتا ہے ۔ ‘‘
(احکام والوضوو الغسل و الصلوٰۃ صفحہ ۱۸۸)
شیخ عبد
الروؤف سندھو غیرمقلد’’ دعاء قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کا حکم ‘ عنوان قائم کرکے
لکھتے ہیں:
’’ اس دعاء
میں ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں کسی حدیث میں کوئی صراحت نہیں ملتی ۔ اس کے بارے میں
مبارک پوری لکھتے ہیں:واما
رفع الیدین فی قنوت الوتر فلم اقف علی حدیث مرفوع فیہ ایضاً ‘‘ ( تحفۃ
الاحوذی : ۲؍۵۶۷) ’’رہا قنوت وتر میں ہاتھوں کا اُٹھانا تو اس کے بارے میں بھی کسی
مرفوع حدیث پر مطلع نہیں ہوا ہوں ۔‘‘ یعنی مجھے کوئی مرفوع حدیث نہیں ملی ۔ عبدا
للہ بن مسعود اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے کہ وہ قنوتِ وتر میں
ہاتھ اُٹھاتے تھے مگر یہ ان سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ۔ تفصیل کے لیے ہماری
کتاب ’’ مسنون نماز ‘‘ (ص: ۱۷۶، پہلا ایڈیشن ) دیکھیں۔ بعض علماء اس دعاء کو عام
دعاء پر قیاس کرتے ہوئے اس میں بھی ہاتھ اُٹھانے کے قائل ہیں ۔ جب کہ امام احمد بن
حنبل اس دعاء کو دعائے قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے اس میں ہاتھ اُٹھانے کے قائل
ہیں کیوں کہ اس دعاء میں ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے ۔ملاحظہ ہو حوالہ مذکورہ (ص: ۱۷۷،
حاشیہ ) ان علماء کے مقابلے میں علماء کی ایک دوسری جماعت ہے جو قنوتِ وتر میں
ہاتھ اُٹھانے کو مکروہ جانتی ہے اس بناء پر کہ نماز میں رائے و قیاس کو دخل نہیں
کیو ں کہ یہ ایک تعبدی اور توفیقی اَمر ہے ۔ ملاحظہ ہو: احکام الاحکام شرح عمدۃ
الاحکام ، لابن دقیق العید ( ۱؍ ۱۷۲) ایضاً ۔ مسنون نماز۔ ‘‘
( احناف کی چند کتب پر ایک نظر صفحہ ۳۷، دار
الاشاعت اشرفیہ سندھو قصور )
قنوت وتر
رکوع کے بعد پڑھنے کو قنوت نازلہ پر خلاف ِ حدیث قیاس
پہلے والے غیرمقلدین قنوت ِوتر رکوع
کے بعد پڑھنے کے قائل تھے ۔ ( صلوٰۃ الرسول صفحہ ۲۹۵ مع تسہیل الوصول ) لیکن
موجودہ غیرمقلدین کہتے ہیں کہ از روئے حدیث قنوت وتر رکوع سے پہلے ثابت ہے ۔ رکوع
کے بعد پڑھنے کے قائلین اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں گویا انہوں نے حدیث کے
خلاف قیاس لڑایا ہے ۔
چنانچہ غلام
مصطفی ظہیر غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھنا راجح
ہے جیسا کہ نسائی :۳۲؍۲۳۵ ح ۶۹۹ وغیرہ سے ثابت ہے جو لوگ رکوع کے بعد پڑھتے ہیں وہ
قنوت نازلہ پر قیاس کرکے ہی پڑھتے ہیں ۔ ‘‘
(تسہیل الوصول الی تخریج و
تعلیق صلوۃ الرسول صفحہ۲۹۵، نعمانی کتب خانہ )
نص صریح کے
مقابلے میں قیاس ، مدت سفر کی تحدید تین دن
مولانا ثناء
اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ محدثین کے نزدیک بحکم بحدیث تین
روز کی نیت اقامت کرنے پر قصر کرنا جائز ہے چارروز کی کرے گا تو قصر جائز نہ رہے
گا۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ : ۱؍۶۰۱)
امرتسری صاحب نے جس مسئلہ کو محدثین
بلکہ حدیث کا مسئلہ باور کرایا،حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اسے نص صریح کے خلاف
قیاسی کاوش بتلایا ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ جولوگ مدت سفر کی تحدید تین دن کے
اندر کرتے ہیں،ان کے پاس کوئی صریح صحیح دلیل نہیں ہے، نص صریح کے مقابلے میں
عمومات پر قیاس کرنا مرجوح ہے ۔‘‘
( ہدیۃ المسلمین صفحہ ۸۵، مکتبہ اسلامیہ )
یاد رہے کہ
علی زئی صاحب خود عموم کا سہارا لے لیا کرتے تھے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ صحیح مسلم (۷۰۵) وغیرہ کی احادیث
کا عموم بھی اسی کامؤید ہے کہ بارش میں جمع بین الصلوتین جائز ہے ۔ ‘‘
( ہدیہ المسلمین صفحہ ۸۷)
آگے
غیرمقلدین کی زبانی مذکور ہوگا کہ بارش میں جمع تقدیم کا مسئلہ بھی قیاسی ہے۔
مذکورہ عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ
محدثین کی طرف منسوب مذکورہ مسئلہ نص ِ صریح کے خلاف قیاس ہے۔ اس کے بالمقابل یہ
دعویٰ بھی ہے کہ محدثین قیاس کوسرے سے مانتے ہی نہیں ۔
چنانچہ
مولانا ابو الشکور محمد عبد القادر حصاروی ( گنگا ضلع حصار) لکھتے ہیں:
’’ قیاس
محدثین کے نزدیک حجت نہیں۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۶۰۸، ادارہ احیاء السنۃ
ڈی بلاک سرگودھا )
اورغیرمقلدین یہ دعوی بھی کرچکے ہیں
کہ سب محدثین ’’ غیرمقلد ‘‘ تھے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ۸۵، اوکاڑوی کا تعاقب
صفحہ ۵۲، حافظ زبیر علی زئی ، سراج ِ محمدی صفحہ ۳ ، مولانا محمد جونا گڑھی )
جلسہ استراحت کی ہیئت قیاسی ہے
غیرمقلدین پہلی اور تیسری رکعت کے
سجدوں سے اُٹھ کر کچھ دیر بیٹھ جایا کرتے ہیں اس بیٹھنے کو جلسہ استراحت کا نام
دیا گیاہے۔ جلسہ استراحت کی ہیئت کو شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد نے قیاسی کہا :
وہ لکھتے ہیں:
’’ ہر وہ رکعت جس کے سجدوں سے فارغ ہو
کر تشہد نہیں بلکہ قیام ہے تو اس میں ذرا بیٹھ کر کھڑا ہونا مسنون ہے جسے جلسہ
استراحت کہا جاتا ہے مگر ہیئت قیاس ہے ،منصوص نہیں ۔‘‘
( نماز نبوی مشمولہ مجموعہ
رسائل اثری : ۱؍۳۸۶)
نووی اور شیخ
جیلانی کا قیاسی مسئلہ
شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اذکار
وغیرہ میں اور سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے غنیۃ الطالبین میں فرمایا
ہے کہ امام اھدنا پڑھے۔ اور مولوی عبد الوہاب
صاحب نے ہدایت النبی المختار میں فرمایا ہے کہ نہیں اھدنی پڑھے۔ اول الذکر دونوں نے قیاس کیا اور مؤخر الذکر نے
اس کا انکار کیا ۔ہر سہ کو میری پیش کردہ صریح حدیث کا علم نہیں جو کہ قاطع نزاع
ہے ۔ ‘‘
( حاشیہ :نماز نبوی مشمولہ
مجموعہ رسائل اثری : ۱؍۳۸۷)
اثری صاحب نے نووی اور جیلانی دونوں کی بات کو
قیاس کہا ہے۔ اور یہ دونوں بزرگ غیرمقلدین کے ہاں تارک تقلید ہیں۔ اس طرح کہ نووی
کا شمار محدثین میں ہوتا ہے اور غیرمقلدین کے ہاں سب محدثین تارک تقلید تھے۔ اور
شیخ جیلانی کو تو صراحۃ ًمتعدد غیرمقلدین نے ’’ اہلِ حدیث ‘‘ لکھا ہوا ہے ۔
آیات کے جواب دینے کو آمین کہنے پر قیاس
مولانا جاوید
اقبال سیالکوٹی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ہماری مساجد میں جو یہ مروج ہے کہ
امام جب بعض مخصوص آیات کی تلاوت کرتا ہے
تو وہ ( امام اور مقتدی ) ان آیات کا جواب دیتے
ہیں،یہ طریقہ درست نہیں، کیوں کہ اس کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ... نماز
کی حالت میں مقتدی کا قرآن سن کر بلند آواز میں جواب دینا کسی صحیح مرفوع حدیث سے
ثابت نہیں، ہاں اگر آہستہ آواز میں جواب دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
( احکام الوضو، والغسل والصلوٰۃ صفحہ ۱۱۸،نظر
ثانی مولانا عبد المنان نور پوری ،طبع مکتبہ اسلامیہ )
سیالکوٹی صاحب نے اقرار کیا نماز میں
قرآن کی آیتوں کا جواب دیناامام و مقتدی دونوں کے لیے ثابت نہیں ، اگلی بات ہم عرض
کرتے ہیں کہ غیرمقلدین نے اس مسئلہ میں قیاس سے کام چلایا ہے ۔
چنانچہ
مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کی جن سورتوں کے جوابات
حدیثوں میں آ گئے ہیں وہ جس طرح امام کے لیے جائز اور مستحب ہیں اِسی طرح مقتدی کے
لیے بھی جائز و مستحب ہیں... رہی یہ بات کہ نماز ، غیر نماز میں کوئی فرق ہے یا
نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا ۔ یہ ایسا ہی سمجھ
لینا چاہیے جیسے امام کی آمین کے ساتھ آمین کہی جاتی ہے کیوں کہ سماع قراء ت کومخل
نہیں ۔ پس اس کا آمین پر قیاس صحیح ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۴۹۵، ادارہ احیاء السنہ
سرگودھا )
اس طرح
کافتویٰ ’’ فتاویٰ اہلِ حدیث :۲؍۴۹۵‘‘ میں بھی ہے ۔
آیات سننے
والا جواب دے دیگر آیتوں کو سورۃ رحمن کی آیتوں پر قیاس
فتاویٰ
ثنائیہ کا ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو۔
’’سوال: مقتدی جب سبح اسم ربک الاعلیٰ سنے تو امام کے ساتھ سبحان ربی الاعلی پڑھے یا نہ ۔
اسی طرح الیس اللہ باحکم الحاکمین سن کر بلی وانا علی ذلک من الشٰھدین پڑھے یا نہ
؟جواب: حدیث شریف میں اتنا آیا ہے کہ جو کوئی الیس اللہ باحکم الحاکمین پڑھے وہ بلی کہے ۔ سننے والے کی بابت میرے ناقص علم میں کوئی حکم نہیں۔ الا واقعۃ الرحمن پہ قیاس کیا
جاتا ہے جس میں ذِکر ہے کہ فبای آلاء ربکما ماتکذبان کے جواب دینے کی حضور علیہ
السلام نے ترغیب فرمائی تھی کہ جواب میں کہا کرو ولا بشیء من نعمتک ربنا نکذب فلک الحمد یہ تعلیم
الرحمٰن کے متعلق ہے مگر قیاس کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے اور سوالات کے جوابات دینے
بھی جائز ہیں۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۴۴۹، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور )
یہ فتویٰ مولانا
ثناء اللہ امرتسری صاحب کا ہے اس میں دو بار قیاس کی صراحت موجود ہے ۔
صلوۃ الخوف
کے مسئلہ میں قیاسا ًترجیح
بلوغ المرام میں حدیث ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ
عنہما نے کہا:
نجد کی طر ف چڑھائی میں میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ہم نے دشمن کے سامنے صفیں بنائیں، پس رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کھڑے ہوئے ایک جماعت کو نماز پڑھائی جب کہ دوسری جماعت دشمن کی طرف
متوجہ ہوئی، آپ نے ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ کھڑے تھے(نماز میں) ایک رکوع کرایا
اور دوسجدے کرائے، پھر اس جماعت کی جگہ چلے گئے، جس نے نماز نہیں پڑھی تھی، وہ آئے
آپؐنے ان کو ایک رکوع کرایا اور دوسجدے کرائے، پھر اس جماعت کی جگہ چلے گئے، جس نے
نماز نہیں پڑھی تھی، وہ آئے آپؐ نے ان کو ایک رکوع اور دو سجدے کرائے، پھر سلام
پھیرا، اس کے بعد وہ کھڑئے ہو گئے۔
( بلوغ المرام مترجم صفحہ ۱۶۹
ترجمہ مولانا عبد التواب ملتانی )
مولانا عبد
التواب ملتانی غیرمقلد اِس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’کھڑا ہوا الخ احتما ل پڑتا ہے کہ ہر
ایک جماعت نے ایک ہی حالت میں دوسری رکعت پڑھ کر نماز کو پورا کیا ہو اور یہ
احتمال قیاساً راجح ہے ۔ ‘‘
( حاشیہ بلوغ لمرام اردو صفحہ ۹
۱۶، فاروقی کتب خانہ ملتان،سال اشاعت : ۱۹۷۹ء )
دوسرے عذروں کو سفرپر قیاس
حافظ محمد اسحاق غیرمقلد( صدر مدرس دار العلوم
تقویۃ الاسلام لاہور) لکھتے ہیں:
’’سفر میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
سے صحیح احادیث میں تقدیم، تاخیر اور صوری
تینوں طریق پر جمع کرنا ثابت ہے دوسرے عذروں کو
اس پر قیاس کیا جاتا ہے ۔‘‘
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور۳
؍مارچ ۶۷ ۱۹ء صفحہ۴)
بندہ نے مذکورہ بالا فتویٰ ’’
الاعتصام ‘‘ سے نقل کیا ہے۔بعد میں یہی فتوی ’’ فتاویٰ علمائے حدیث : ۴؍۲۲۸‘‘ میں
مل گیا،البتہ فتاوی علمائے حدیث میں الاعتصام کا حوالہ مذکور نہیں۔
سفر میں جمع تقدیم کو بارش میں جمع تقدیم پرقیاس... اور
نص ِصریح کے خلاف قیاس
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بارش میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ سے جمع تقدیم بھی ثابت ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے (ان شاء اللہ )اسی پر قیاس
کرتے ہوئے اور امام ابن قتیبہ کی بیان کردہ حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے سفر میں جمع
تقدیم جائز ہے۔ ‘‘
( ماہ نامہ الحدیث شمارہ:۵۲
،ستمبر ؍ ۲۰۰۸ء صفحہ ۲۳)
یہی عبارت
علی زئی کی کتاب ’’ علمی مقالات : ۲؍۱۹۴‘‘میں بھی موجود ہے ۔
علی زئی صاحب نے سفر میں جمع تقدیم کے
مسئلہ کو بارش میں جمع تقدیم کے مسئلہ پر قیاس کیا جب کہ مولانا علی محمد سعیدی
غیرمقلد کی تصریح کے مطابق بارش میں جمع تقدیم کامسئلہ ہی نص ِ صریح کے خلاف ہے
چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ بارش میں جمع تقدیم کسی صحیح مرفوع
حدیث سے ثابت نہیں، صرف استدلال یا بعض تابعین کا تعامل ہے جو نص صریح کے مقابل
حجت نہیں۔ ‘‘
( حاشیہ: فتاوی علمائے حدیث :
۴؍۲۲۲)
سعیدی صاحب
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ بارش میں تقدیم کے لیے نص کی ضرورت
ہے تاکہ ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین
کتابا موقوتا کی تخصیص ہو
سکے ، ورنہ احتمالات سے تخصیص جائز نہیں ۔‘‘
( حاشیہ: فتاوی علمائے حدیث :
۴؍۲۲۷)
سعیدی صاحب
کی اس عبارت کے پیش ِ نظر علی زئی صاحب نے خلافِ نص مسئلہ پر اپنے قیاس کی بنیاد
رکھی ہے ۔
سفر میں جمع
تقدیم کو عرفات کی جمع تقدیم پر قیاس
علامہ وحید
الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ابو داود نے کہاجمع تقدیم میں کوئی
حدیث عمدہ نہیں ہے اور امام ابن حزم نے اس لیے جمع تقدیم کو جائز نہیں رکھا ۔ میں
کہتا ہوں عرفات میں جو جمع تقدیم کی حدیث ہے وہ صحیح ہے اور اسی پر دوسرے سفر کو
قیاس کر سکتے ہیں۔ ‘‘
( تیسیر الباری شرح بخاری
:۲؍۱۴۹)
صف سے نمازی
کھینچنے کو ایک امام اور ایک مقتدی والے مسئلہ پر قیاس
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اگر اکیلا
ہو تو پہلی صف سے کسی کو کھینچ کر ملا لے۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۵۳۴، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور )
غیرمقلدین کے
بقول یہ مسئلہ قیاسی ہے۔ چنانچہ اُن کی کتاب میں لکھا ہے :
’’اگلی صف میں (سے ) کسی کو کھینچنا
کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں امام مالک، احمد، اوزاعی، اسحاق اور ابوداود رحمۃ اللہ
علیہم کا یہی مذہب ہے کہ صف سے آدمی نہ کھینچا جائے،البتہ ایک امام اور ایک مقتدی
والے مسئلہ پر قیاس کرکے اس کا جواز ملتا ہے۔ ‘‘
( نماز نبوی صفحہ ۱۳۰)
نماز نبوی
نئے ایڈیشن کی عبارت ملاحظہ ہو:
’’ اگر اگلی صف میں جگہ نہیں ہے تو
ایک امام اور ایک مقتدی والے مسئلے سے استنباط کرتے ہوئے اگلی صف سے آدمی کھینچ کر
صف بنا لینا جائز ہے اور اگر نہ کھینچا جائے اور اکیلے ہی نماز پڑھی جائے تو پھر
یہ نماز دوہرانی پڑے گی۔ ‘‘
( نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں صفحہ ۱۶۶تصحیح و تخریج سے مزین جدید
ایڈیشن ، طبع دار السلام )
اس
عبارت میں کہا گیا ہے کہ صف میں اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔ البتہ ایک امام اور
ایک مقتدی والے مسئلہ پر قیاس کرکے اگلی صف سے آدمی کھینچ لیا جائے تو نماز ہو
جائے گی۔ یعنی اکیلے نمازی کی مجبوری ہے کہ وہ قیاسی
مسئلہ پر عمل کرے ، گویا قیاس پر عمل کرنا اس کے
لیے ناگزیر ہے ۔
غیرمقلدین کے رسالہ ماہ نامہ ’’ الحدیث ‘‘ میں
لکھا ہے :
’’ اگلی صف سے کھینچنے والی تمام
روایات ضعیف ہیں۔لیکن ایک امام اور ایک مقتدی پر قیاس کرتے ہوئے اگلی صف سے آدمی
کھینچ لینا جائز ہے واللہ اعلم ۔‘‘
( الحدیث شمارہ: ۲۹ رمضان ۱۴۲۷ھ
صفحہ ۵۵)
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ نماز باجماعت ہو رہی ہو تو صف کے
پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے آدمی کی نماز نہیں ہوتی ...اگر کوئی شخص امام و مقتدی
جب دو ہوں، پر قیاس کرکے اگلی صف سے ایک آدمی کھینچ کر ملا لے توجائز ہے ،تاہم صف
کے بالکل آخری کونے سے آخری آدمی کو کھینچے تاکہ قطع ِ صف سے بچ جائے۔ (دیکھئے
ہدیۃ المسلمین (۳۸)۔‘‘
( علمی مقالات :۳؍۷۵ ، مکتبہ
اسلامیہ )
غیرمقلدین کے
رسالہ ’’محدث ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ صف سے کسی نمازی کو کھینچنے کی
اگرچہ کوئی صحیح و معتبر حدیث نہیں مگر اس کی ممانعت بھی نہیں ہے بلکہ بعض ضعیف
اور مرسل روایات میں اس کا حکم بھی دیا گیا ہے لیکن ہمارا استدلال ان ضعیف و مرسل
روایات سے نہیں بلکہ فعل نبوی پر قیاس سے ہے۔‘‘
( محدث رمضان ، شوال ۱۴۲۶ھ
بحوالہ زمزم ذیقعدہ و ذی الحجہ ۱۴۲۶ھ صفحہ ۶۲)
سنت والے کے
پیچھے فرض کی نیت کرکے نماز پڑھنا تہجد پر قیاس ہے
کسی نے سوال
کیا:
’’ ایک شخص سنتیں پڑھ رہا ہو تو کیا
دوسرا آنے والا اس کے ساتھ بطور جماعت شامل ہو کر اپنے فرض پڑھ سکتا ہے یا نہیں
؟(محمد شاہد مبین )
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد نے اس کا جواب یوں دیا:
’’ اس کا صریح ثبوت مجھے معلوم نہیں
ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تہجد والی
حدیث پر قیاس کرتے ہوئے بعض لوگ جواز کے قائل
ہیں۔ تاہم دلیل صریح نہ ہونے کی وجہ سے ایسے عمل سے اجتناب بہتر ہے البتہ یہ مسئلہ
مسلّم اور ثابت ہے کہ امام کی نیت نفل نماز کی ہو اور مقتدیوں کی فرض تو دونوں کی
نماز درست ہے۔ ‘‘
( توضیح الاحکام :۱ ؍۱۹۴مکتبہ اسلامیہ ، اشاعت
اکتوبر ؍۲۰۰۹ء )
قومہ میں
ہاتھ باندھنے کو قومہ سے پہلے والے قیام میں ہاتھ باندھنے پر قیاس
غیرمقلدین
کا ایک طبقہ قیام میں ہاتھ باندھنے کی طرح قومہ میں بھی ہاتھ باندھنے پر سختی سے
عمل پیرا ہے۔وہ لوگ اس پر بہت سی کتابیں بھی تحریر کر چکے ۔ مگر اس کے مد مقابل
غیرمقلدین کے دوسرے گروہ نے قومہ میں ہاتھ باندھنے کو قیاسی مسئلہ قرار دیا ہے۔
چنانچہ پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد نے
مکالمہ لکھا:
’’ ا ۔ وہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے
کا آخر کیا ثبوت دیتے ہیں؟ ب ۔ ثبوت کیا دینا تھا قیاس اور استدلال کرتے ہیں ۔ا۔
کوئی صریح حدیث پیش نہیں کرتے ؟ ب۔ کوئی حدیث ہو تو پیش کریں ۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۷۷۴،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب
لکھتے ہیں:
’’شاہ صاحب رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے
پر زور تو بہت دیتے ہیں مگر اس کے دلائل پر بالکل غور نہیں کرتے۔ان کے استدلالات
میں کوئی فقیہانہ بات بھی ہے یا نہیں۔ مقیس (جس مسئلہ کو قیاس کیا جائے )
اور مقیس علیہ ( جس مسئلے پر قیاس والے مسئلے کی بنیاد ہے ) کو برابر سمجھنا ہرگز
فقاہت کی نشانی نہیں ۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۲۲،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب
نے عبد العزیز بن باز کے متعلق لکھا :
’’شیخ نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح رکوع
کے بعد والے قیام کو رکوع سے پہلے والے قیام پر قیاس کیا ہے ۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۵۸،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
تنبیہ: غیرمقلدین کے ہاں شیخ عبد العزیزبن باز ’’اہلِ حدیث
‘‘شمار ہوتے ہیں۔
پروفیسر صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’قیام ثانی میں وضع صرف قیاس پر مبنی ہے کہ
دوسرا قیام بھی پہلے قیام کی طرح ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ
وسلم قیام اول میں وضع کرتے تھے دوسرے میں بھی کرتے ہوں کیو ں کہ یہ دونوں قیام
ہیں اور یہ صرف قیاس واستدلال ہے۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۶۹،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
قیاس سے فتنہ کھڑا کردیا
شیخ
بدیع الدین راشدی غیرمقلد ( سندھ ) رکوع کے بعد قومہ کی حالت میں ہاتھ باندھنے کے
قائل ہیں۔پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد نے اُن کا مستقل رَد لکھا جو ’’
رسائل بہاول پوری ‘‘ میں شامل ہے ۔جس میں منجملہ باتوں کے یہ انکشاف کیا گیا کہ
راشدی صاحب کے پاس اپنے اس دعویٰ و عمل پر نہ تو قرآن ہے ، نہ حدیث اور نہ ہی خیر
القرون کا عمل۔ اُن کے پاس صرف اور صرف غلط قیاس ہے ۔ چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حقیقت یہی ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ
باندھنے کا صدیوں تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
چار پانچ سو سال بعد جا کر کسی نے قیاس ہی لڑایا ہے جس سے یہ فتنہ کھڑا ہوا ہے ۔
‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۷۸۹، مکتبہ اسلامیہ ،
طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
صدیوں بعد
قیاس لڑایا ...
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’ ارے بھائی !و ہ کسی صحابی سے، نہ
کسی تابعی سے ، نہ کسی تبع تابعی سے۔یہ توصدیوں بعد کسی نے قیاس ہی کیا ہے۔ جس سے
یہ مسئلہ چل پڑا ہے۔ ورنہ قیاس کے سوا اِس مسئلے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۰۲،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
ہاتھ باندھنے
والوں کی دلیل صرف قیاس و اجتہاد ہے
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’ ہاتھ باندھنے والوں کی دلیل صرف
قیاس و اجتہاد ہے اور ارسال کرنے والوں کی دلیل ہر زمانے میں اپنے سلف کا طریقہ
ہے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۳ ۸۰، مکتبہ اسلامیہ ،
طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
سطحی قیاسوں
سے کیسے کیسے عجیب نتیجے نکالتے ہیں
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’ واقعہ یہ ہے کہ عالم خواہ کتنابھی
بڑا ہو جب وہ اُکھڑ جاتا ہے اور کسی مسئلے میں غلطی کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر اسی
پر پکا ہو جاتا ہے توپھر وہ دلائل نہیں دیتا، مکڑی کا جال بنتا ہے۔ اس کا استدلال
ایسا بودا اور کمزور ہوتا ہے کہ اس کی ذات پر تعجب ہونے لگتا ہے کہ اللہ ایسا عالم
ہو کر ایسی کچی باتیں۔ پیر [ بدیع الدین راشدی غیرمقلد ( ناقل )] صاحب کو ہی دیکھ
لیں وہ ایک غلط مسئلے کا شکار ہو گئے، اب وہ سطحی قیاسوں سے کیسے کیسے عجیب نتیجے
نکالتے ہیں۔‘ ‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۰۵،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
ان کا راستہ اجتہاد و قیاس کا راستہ ہے، ان کا
معتمد نقل نہیں
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’ بعض کو چاند واقعتا نظر آجاتا ہے،
جس کو پھر سب دیکھ لیتے ہیں۔لیکن بعض کو تو دھوکا ہی لگتا ہے اور وہ اس دھوکے کو
ہی چاند کہتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ چاند ہوتا نہیں۔ ہمارے [غیرمقلد ( ناقل )]بزرگوں
کا بھی اس مسئلے میں یہی حال ہے کہ وہ دھوکے پر دھوکے کھاتے ہیں۔ لیکن اس کو ثبوت
کہتے جاتے ہیں۔ لیکن دیانت داری کی بات یہ ہے کہ پیر[بدیع الدین راشدی
غیرمقلد(ناقل )] صاحب کو اس مسئلہ میں دھوکا ہی لگا ہے۔ کیوں کہ ان کا راستہ
اجتہاد و قیاس کا راستہ ہے ان کا معتمد نقل نہیں۔ پیر صاحب کے لیے اب رجوع کرنا
مشکل ہے... پیر صاحب کو شاید یہ احساس نہیں کہ اس بے بنیاد مسئلے پر ان کی وجہ سے
جتنے سادہ لوح لوگ لڑھکتے ہیں، آخر اُن کا بوجھ کس کی گردن پر ہوگا؟ ۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۰۸، مکتبہ اسلامیہ ،
طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
جب مسئلہ ہی
نا معقول اور قیاسی ہو تو جواب کیا ہوگا ؟
پروفیسرعبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدنے شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلدکے متعلق لکھا:
’’پیر صاحب رسالے جتنے مرضی لکھیں،
جواب جتنے مرضی دے لیں، لیکن جواب ان سے بنتا نہیں۔ لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے
فٹا فٹ جواب لکھ دینا اور بات ہے ، جواب واقعتا جواب ہونا بالکل اور بات ہے۔ جواب
معقول تبھی ہو سکتا ہے جب مسئلہ بھی معقول ہو۔ جب مسئلہ ہی نا معقول اور قیاسی ہو
تو جواب کیا ہوگا ؟‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۸۰۹،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
یہ مسئلہ کسی
نقل پر مبنی نہیں، بلکہ قیاس اور اجتہاد پر مبنی ہے
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ پیر صاحب
اس مسئلے میں سراسر غلطی پر ہیں۔ وہ اپنی پوری کوششوں کے باوجود اس مسئلے کا کوئی
تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے ۔ یہ مسئلہ کسی نقل پر مبنی نہیں، بلکہ قیاس اور
اجتہاد پر مبنی ہے ۔ اس لیے اس مسئلے کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۰۸،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
غیرجنس پر
قیاس
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدنے شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلدکی بابت لکھا:
’’شاہ صاحب وہ مثالیں پیش کرتے ہیں جن
میں لفظ ’’ اذا ‘‘ وارد ہوا ہے مگر ان کو
سمجھتے نہیں کہ وہ مثالیں جن پر یہ قیاس کر رہے ہیں یہ اور جنس سے ہیں اور اذا قام
فی الصلوٰۃ کسی اور جنس سے ۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۲۲،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
قومہ میں
ہاتھ باندھنے والوں کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ صرف قیاس و ظنون ہے
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’ہاتھ باندھنے والوں کے پاس نہ تو
کوئی نص ہے، نہ ہی امت کا عمل ان کی طرف ہے۔ ان کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ صرف قیاس
و ظنون ہے۔ اس لیے امت کا عمل ان کے مقابلے میں بہ منزلہ نص ہے ۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۳۰،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
تفقہ سے خالی
ہونے کے باوجود قیاس کا شوق چرایا
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پور ی غیرمقلد نے شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد کے متعلق لکھا :
’’شاہ صاحب کے اس اعتراض پر تعجب کرنے
سے ان کے فہم کا نقص واضح ہو رہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقائق شرعیہ سے نابلد
ہیں ۔ گویا کہ وہ تفقہ سے خالی دامن ہیں ۔‘‘
(رسائل بہاول پوری صفحہ۸۲۴،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب یہ اعتراف کرتے آئے ہیں
کہ شیخ بدیع الدین راشدین نے قیاس سے کام لیا ہے جیسا کہ پچھے صفحات میں آپ پڑھ
چکے ہیں اور یوں بھی لکھا کہ راشدی صاحب تفقہ سے خالی اور حقائق شرعیہ سے نابلد
ہیں۔ نتیجہ یہی نکلے گا کہ انہوں نے تفقہ سے خالی اور حقائق شرعیہ سے نابلد ہو کر
قیاس کیا۔
کسی کا قیاس
ماننا تقلید ہے
پروفیسرعبد
اللہ بہاول پور ی غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’خیرالقرون میں آپ کو کوئی ایسا ایک
فرد نہ ملے گا جو وضاحت یا اشارے کے ساتھ ہاتھ باندھنے کا اثبات کرے ۔ البتہ آج کے
دَور میں جو کہ تقلید شخصی اور فتنوں کا دَور ہے دن بدن ہاتھ باندھنے والوں کی
تعداد بڑھتی نظر آتی ہے ۔ لیکن ہماری معلومات کے مطابق آج سے تقریبا چالیس پچاس
برس قبل ہمارے علاقوں میں اور دوسرے علاقہ جات میں کوئی ایک فرد بھی ہاتھ باندھنے
والا نہ تھا ۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۲۹،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب
لکھتے ہیں:
’’ہاتھ باندھنے والے تو صرف علماء کی
تقلید میں ہاتھ باندھتے ہیں اور کسی بھی دلیل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۲۹،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب کو اعتراف ہے کہ قومہ کی
حالت میں ہاتھ باندھنا قیاس سے ثابت ہے اس کے باوجود اس قیاس کی پیروی کو تقلید
کہہ رہے ہیں جس سے واضح ہوا کہ کسی کا قیاس ماننا اُن کے نزدیک تقلید ہے۔لہذا
ہماری اس کتاب میں غیرمقلدین کے جتنے بھی قیاسی مسائل ہیں اُن پر عمل کرنے والے
مدعیان اہلِ حدیث اپنے مولویوں کے مقلد ہوئے۔
پروفیسر صاحب
لکھتے ہیں:
’’رہا ہاتھ باندھنے کا عمل تویہ اس
پُرفتن دَور کے چند افراد کا استدلال ہے اور متاخرین میں سے بعض افراد کے اتباع ہی
کو تو تقلید کہتے ہیں۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۳۱ ۸،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب کی اس عبارت سے ایک تو یہ ثابت ہوا
کہ قومہ کی حالت میں ہاتھ باندھنے والے مدعیان اہلِ حدیث اپنے مولویوں کے مقلد ہیں
اور دوسرا یہ حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ اتباع کرنے کو تقلید کہتے ہیں جب کہ عام طور
پر غیرمقلدین اتباع اور تقلید میں فرق کا دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ اتباع کسی کی اچھی
بات تسلیم کرنا اور تقلید بُری بات ماننا ہے۔ تلک اذًا
قِسمۃٌ ضیزٰی
بدعت کے
اثبات میں قیاس کا سہار ا
پروفیسرعبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قیام ثانی میں وضع کی دلیل نہ ملنے
کے باعث علامہ ناصرالدین البانی حفظہ اللہ نے فرمایا: الوضع فی القیام الثانی بدعۃ ضلالۃ کہ قیام ثانی
میں ہاتھ باندھنا گمراہ کن بدعت ہے ۔ ‘‘
(رسائل بہاول پوری صفحہ۸۴۳،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب
لکھتے ہیں:
’’آج کل وضع کی بدعت ایجاد ہونے کی
وجہ سے اس میں بھی کافی اختلاف موجود ہے۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۴۳،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
’’اس پُر فتن دَور میں یا خیر القرون
میں تو ان پر کثرت عدد کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ ان کی تعداد اس بدعت
والے دَور میں ضرور بڑھ رہی ہے لیکن اگر آپ ماضی کی طرف دیکھیں تو آہستہ آہستہ ان
کی تعداد کم ہوتی چلی گئی ،یہاں تک کہ خیرا لقرون میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے
گا جو وضع کا قائل ہو۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۵۴،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر صاحب نے لکھاکہ قومہ میں ہاتھ
باندھنا بدعت ہے اور یہ اعتراف بھی کیا کہ ہاتھ باندھنے والے اپنے اس عمل کو قیاس
کا سہارا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاتھ باندھنے والوں نے اپنی اس بدعت کو
قیاس کے سہارے وجود بخشا ہے ۔
غلط قیاس کی
جسارت ...اور ... ادنی کو اعلی پر قیاس
پروفیسر عبد
اللہ بہاول پوری غیرمقلد نے قومہ میں ہاتھ باندھنے والوں کی بات نقل کی :
’’قیام ثانی کو بھی قیام اول پر ہی
قیاس کر لیجئے کیوں کہ یہ دونوں قیام ہیں۔ جب پہلے میں وضع ثابت ہوگیا تو دوسرے
میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ‘‘
پھر اس پہ
پروفیسر صاحب نے یوں تبصرہ کیا:
’’ یہ قیاس صحیح نہیں کیوں کہ اس کا
نتیجہ عرف کے خلاف ہے جیساکہ پہلے گزرچکا ہے۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دونوں
قیاموں کے درمیان بہت فرق ہے ۔اس لیے یہ قیاس درست نہیں بلکہ یہ تو ادنیٰ کو اعلی
پر قیاس کرنے کے مترادف ہے ۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۸۴۵،
مکتبہ اسلامیہ ، طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
دو قیاموں کو دو سجدوں پر قیاس
پروفیسرعبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد نے شیخ بدیع
الدین راشدی غیرمقلد پر طعن کرتے ہوئے لکھا:
’’ اب دو قیاموں کو دوسجدوں پر قیاس
کرکے جواب دینا پیر صاحب جیسے زبر دست مجتہد کا ہی کام ہے۔ کسی معمولی آدمی کا کام
نہیں۔ اگر اسی کو جواب دینا کہتے ہیں تو پھر واقعی تسلی بخش جواب دینا پیر صاحب پر
ختم ۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۸۰۱، مکتبہ اسلامیہ ،
طبع ہفتم اگست ؍ ۲۰۰۴ء)
بیٹھنے کی
حالت میں ہاتھ باندھنے کو کھڑے ہونے پرقیاس اور قیاس کو حدیث پر ترجیح
غیرمقلدین کا ایک گروہ:شیخ بدیع الدین
راشدی اور اُن کے متبعین رکوع کے بعد قو مہ کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا قائل ہے ۔
اس گروہ کے ایک فرد سے مولانا محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد کی گفتگو ہوئی ۔ وہ
گفتگو راشدی صاحب کی زبانی سنئے :
کے
حکم کو نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ :۱؍۹۶،۹۷نعمانی کتب خانہ
لاہور)
مقتدی کو امام پر قیاس
مولانا صفی
الرحمن مبارک پور ی لکھتے ہیں:
” ثبت فی صحیح البخاری فی المغازی ان النبی صلی اللّٰہ
علیہ وسلم کان یقول فی الفریضۃ و ھو امام بعد قولہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا ولک
الحمد ویقاس علیہ المقتدی۔“ ( اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام صفحہ
۱۱۵،ناشر: مکتبۃ دار السلام ریاض ، طبع اول : ۱۹۹۲ء ... ۱۴۱۳ھ)
ترجمہ: صحیح بخاری کتاب المغازی میں
ثابت ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام ہونے کی حالت میں فرض نماز میں سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ربنا ولک الحمدکہا کرتے تھے
اور مقتدی کو اسی ( امام ) پر قیاس کیا جائے گا۔
جنازہ کے مسائل
جنازہ کی ثناء کو
عام نمازوں کی ثناء پر قیاس
غیرمقلدین
کا ایک طبقہ نماز جنازہ میں ثناء پڑھنے کا قائل ہے اُن میں مولانا عبد الرحمن
مبارک پوری بھی ہیں۔ ( کتاب الجنائز صفحہ ۵۲، فاروقی کتب خانہ ملتان )
کتاب
الجنائزکے سرورق پر درج ذیل عبارت لکھی ہوئی ہے :
” جان کنی کے وقت سے لے کر تجہیز و
تکفین اور اس کے بعد تک کے تمام وہ ضروری احکام و مسائل جو احادیث سے ثابت ہیں۔ “
سرورق کی عبارت میں دعویٰ کیاگیا کہ
اس کتاب میں مذکور تمام مسائل صحیح حدیث سے ثابت ہیں مگر یہ بات حقیقت کے کس قدر
قریب ہے اس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔غیرمقلدین کی تصریح کے مطابق
جنازہ میں ثناء پڑھنا عام نمازوں پر قیاس کا
نتیجہ ہے جیسا کہ آگے مذکورہوگا ان شاء اللہ ۔
مولانا محمد
گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
” اگر پہلی
تکبیر کے بعد دعائے استفتاح بھی پڑھے تو بہتر ہے ۔“
( مقالاتِ محدث گوندلوی صفحہ
۶۱۴)
صاحب ِ حاشیہ
نے لکھا:
” علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ نماز جنازہ میں دعائے استفتاح کی کوئی دلیل صحیح نہیں ہے۔مزید لکھتے ہیں : یہ
بات ہمارے علماء کے غرائب میں سے ہے کہ وہ فرض نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے دعائے
استفتاح کو نماز ِجنازہ میں ثابت کرتے ہیں حالاں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ “
( اصل صفۃ صلوٰۃ النبی بحوالہ مقالات محمد
گوندلوی صفحہ ۴۱۴)
صرف
ثناء ہی کیا اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن میں نماز ِجنازہ کی صراحت نہیں بلکہ عام
نمازوں میں قیاس کرکے انہیں اپنا یا گیا تو وہ سب البانی کی عبارت کے پیشِ
نظرعلمائے غیرمقلدین کے غرائب ہوں گے ۔
مولانا مقبول
احمد سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
” صراحت کے ساتھ کسی حدیث میں نماز
جنازہ میں ثناء پڑھنے کا ذِکر نہیں ملتا ہے ، لیکن عام نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے
نماز جنازہ میں بھی ثناء پڑھ سکتے ہیں ۔ “
( مجلہ تفہیم الاسلام نومبر؍ ۲۰۱۷ء صفحہ ۱۲)
حافظ محمد اسلم حنیف غیرمقلد (جامعہ محمدیہ اہلِ
حدیث لیاقت پور ) لکھتے ہیں:
”پہلی تکبیر کے بعد دیگر نمازوں کی
طرح انہی پر قیاس کرتے ہوئے اگر ثناء پڑھے تو پڑھ سکتا ہے کیوں کہ ذخیرہ احادیث
میں نماز جنازہ میں ثناء پڑھنے کی الگ سے کوئی دلیل کم از کم میرے علم میں نہیں ہے
۔ “
( نماز جنازہ کے احکام و مسائل صفحہ ۷۰، ناشر
جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور ضلع رحیم یار خاں )
تعزیت کی دعا میں
ہاتھ اُٹھانے کو سکتاتِ امام پر قیاس
مولانا محمد
عبد اللہ غیرمقلد (مہتمم دار القرآن و الحدیث لائل پور) لکھتے ہیں :
” شاہ محمد اسحاق دہلوی اپنی مشہور
کتاب اربعین میں صفحہ ۳۴ پر ایک جواب میں فرماتے ہیں کہ اہل میت کے ہاں جا کر
تعزیت کرنا، اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا جائز ہے ۔ [ انتھی (ناقل )] دیکھئے وتروں
میں مغفرت کی ہاتھ اُٹھاکر دعاکی جاتی ہے۔ حالاں کہ اس بارے میں کوئی حدیث موجود
نہیں جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وتروں میں ہاتھ
اُٹھا کر دعا کی ہو ۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوہریرہ ؓ کے
شاگرد اور داماد حضرت سعید بن المسیب اور حضرت اَنس کے شاگرد امام زہریؒ وتروں میں
ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے کو بدعت سمجھتے ہیں۔ ( قیام اللیل امام مروزیؒ ) وتروں میں
ہاتھ اُٹھانے والوں کا موقف یہی ہے کہ دعا میں ہاتھ اُٹھانا آدابِ دُعا میں شامل
ہے اور ہاتھ اُٹھانے کی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر ثابت ہے۔
اس سے معلوم یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو حدیث میں نہیں ہے وہ بدعت نہیں ہو جاتی۔ مثلاً
ہم اہلِ حدیث کے نزدیک امام کے پیچھے سری و جہری نمازوں میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا
ضروری ہے تو اب کب پڑھنا ہے ۔ امام کے سکتات میں، سبل السلام صفحہ ۱۹۱ج اول پر بات
مرقوم ہے کہ سکتات ِامام کا ذکر حدیث سے ثابت نہیں لیکن ہم اہلِ حدیث سکتات امام
میں سب سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تو کیا ہم بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں کیوں کہ
بدعت کی تعریف یہ ہے نہیں کہ جو حدیث میں نہیں وہ بدعت ہے ۔ بدعت کی تعریف یہ ہے
کہ وہ مخالف دین ہو یا مفسد دین ہو ۔ “
( فتاویٰ علمائے حدیث :۵؍۱۹۶)
یہی عبارت” مولانا عبد اللہ دیر ووالوی صفحہ
۵۹۳“ میں بھی مذکور ہے ۔
عبدا للہ
صاحب کے اس فتوی کی بابت فتاویٰ علمائے حدیث میں لکھا ہے :
” قنوت وتر اور قنوت فجر میں فی
الجملہ مماثلت ہے ، لیکن دعائے تعزیت میں رفع یدین کا تو اس سے دُور کا بھی تعلق
نہیں ،اب رہا سکتات امام میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ کا مسئلہ تو محترم مولوی
صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ امام احمد بن حنبل ؓ کا خیال ہے ، سب اہلِ حدیث کا
یہ مسلک نہیں ... مولوی صاحب نے حنابلہ کے مسلک کو اہلِ حدیث کا مسلک سمجھ لیا،
اور اس پرہاتھ اُٹھاکر دعا کرنے کو قیاس کیا ہے ، جو عقلی اور نقلی طور پر درست
نہیں، صحیح عقیدہ یہ رکھنا چاہیے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل ہو
چکا ہے ، نہ اس میں کمی ہو سکتی ہے ، نہ زیادتی کی گنجائش ہے جو آں حضرت نے فرمایا
وہی سبیل رشد و ہدایت ہے اس کے ماسوا نہ ہدایت، نہ نور ... جو آپ کے زمانہ میں
مستحسن نہیں تھا، وہ آج بھی نہیں ہو سکتا ،اسی کو بدعت کہتے ہیں۔“
( فتاویٰ علمائے حدیث : ۵؍۲۰۱،
مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور )
تلاوت کے ایصال ثواب کو کنواں کھودنے اور روزہ رکھنے کے ایصال
ثواب پر قیاس
کسی نے سوال کیا :
” قرآن خوانی مردہ کی طرف سے بخشوانا
جائز ہے یا نہیں ۔ اس میں علماء کا اختلاف کیوں ہے ؟ (عبداللہ مدنپور گیا )
مولانا ثناء
اللہ امرتسری غیرمقلدنے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا:
”بعض افعال کا ثبوت آں حضرت ؐ کے
زمانہ سے ملتا ہے جیسے میت کی طرف سے کنواں کھودوانا یا روزہ رکھنا ائمہ سلف میں
سے بعض تو ان ہی افعال تک محدود رکھتے ہیں جن کا ثبوت ہے اور بعض دیگر افعال کو
بھی ان پر قیاس کرکے جائز بتاتے ہیں قرا ء ت قرآن انہی قیاسی مسائل میں سے ہے
۔امام ابوحنیفہ اور امام مالک ؒ کے یہی وجہ اختلاف ہے خاکسار کے نزدیک بھی جائز
ہے۔ “
(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۵۳، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور )
یہی فتویٰ ”
فتاوی علمائے حدیث :۵؍۳۶۸میں بھی ہے ۔
میت کی طرف
سے قضا نماز کو روزوں پر قیاس
حدیثوں میں آیا ہے کہ کسی عورت نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں نے نذر کے
روزے مانے ہوئے تھے مگر روزے رکھنے سے پہلے وہ
فوت ہوگئی۔ تب آپ نے فرمایاکہ تم اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھو۔ اس قسم کی حدیثوں
کے پیش نظر مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
” ان احادیث پر قیاس کرکے اگر کوئی
میت کی طرف سے قضا نماز ادا کرے تو ثواب پہنچنے کی اُمید قوی ہے۔ “
( حاشیہ: فتاوی ثنائیہ :۲؍۳۸، اسلامک پبلشنگ
ہاؤس شیش محل روڈ لاہور )
جنازہ کے رفع یدین کو عام نمازوں پر قیاس
مولانا فضل
الرحمن بن محمد غیرمقلد لکھتے ہیں:
” اہل ِ علم کی اکثریت سے منقول ہے کہ
ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھوں کو اُٹھایا جائے کیوں کہ تمام نمازوں میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کایہی معمول تھا۔امام شافعی ؒ سے مروی ہے : عام نماز کے طریقہ پر
قیاس کرتے ہوئے اور جو کچھ اس کے بارے میں منقول ہے اس بنا پر نماز جنازہ پڑھنے والا
ہر تکبیر کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو اُٹھائے ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے نمازمیں قیام کرتے ہوئے ہر تکبیر کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اُٹھایا ۔“
( جنازے کے مسائل صفحہ۶۹،دار الدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور)
(عیدین کے
مسائل )
عید ین کے غسل کو جمعہ کے غسل پر قیاس
شیخ عبدالرؤف
سندھو غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حاصل کلام یہ ہے کہ عیدین کے روز
غسل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ملی، حافظ ابن حجر نے
بزار سے نقل کیا ہے کہ عیدین کے روز غسل کے بارے میں مجھے کوئی صحیح حدیث معلوم
نہیں۔ ’’ تلخیص ‘‘ ( ۲؍۸۱)بلکہ حافظ ابن عبد البر نے تو کہا ہے کہ عیدین کے روز
غسل کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت ہی
نہیں۔ تمہید (۱۰؍۲۶۶) ... حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں کہ اہلِ علم کی ایک جماعت کے
نزدیک عیدین کا غسل، غسل ِ جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے مستحب ہے۔ تمہید (۱۰؍۲۶۶) امام
نووی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے میں اعتماد ابن عمر کے اَثر پر اور جمعہ کے غسل پر
قیاس پر ہے۔ مجموع (۵؍۷)۔‘‘
( القول
المقبول صفحہ۶۵۲،۶۵۳،
طبع چہارم)
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حاصل کلام یہ ہے کہ عیدین کے روز
غسل کے استحباب پر کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے...حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ
علیہ لکھتے ہیں کہ اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک عید کا غسل، غسل جمعہ پر قیاس
کی وجہ سے مستحب اور پسندیدہ ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۱؍
۴۱۳)
ڈاکٹر شفیق
الرحمن غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ عیدین کے دن غسل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی
حدیث ثابت نہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ہے، اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک
یہ غسل، غسل جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے مستحب ہے۔‘‘
(نمازِ نبوی صفحہ۶۵ طبع دار السلام)
ڈاکٹر صاحب
مزید لکھتے ہیں:
’’امام نووی فرماتے ہیں: اس مسئلہ[غسل
عیدین( ناقل) ]میں اعتماد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر پر ہے، نیز
جمعہ کے غسل پر قیاس اس کی بنیاد ہے۔‘‘
(حوالہ مذکورہ)
فاروق رفیع غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ غسل جمعہ پر قیاس: چوں کہ اہلِ
اسلام کا اجتماع اور عید ہے اور اس مناسبت کی وجہ سے غسل جمعہ واجب ہے۔ سو عیدین
میں بھی یہ اسباب موجود ہیں۔ لہٰذا عیدین کے غسل کا کرنا بھی بہتر عمل ہے۔ ‘‘
( عیدین کے مسائل صفحہ ۳۷، ناشر : ترجمان الحدیث
پبلی کیشنز )
نماز عیدین میں ہاتھوں کا باندھنا عام نمازوں پر قیاس
مولانا عبد
الجبار غزنوی غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’دوسری نمازوں میں تکبیر تحریمہ کے
بعد ثناء اور حمد پڑھنے کے وقت ہاتھوں کا باندھنا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، لہٰذا
اِس پر قیاس کرکے اور جمہور امت کی اِقتداء کے لحاظ سے قولِ راجح ہاتھوں کا
باندھنا ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(فتاویٰ غزنویہ صفحہ ۹۲ بحوالہ
فتاویٰ علمائے حدیث :۴ ؍۱۸۶)
عیدین کی زائد تکبیروں کے رفع یدین کو عام
رفع یدین پر قیاس
عیدین
کی زائد تکبیروں کے رفع یدین پر غیرمقلدین کا باہمی اختلاف ہے۔ ایک طبقہ اس کا
قائل نہیں
جب کہ دوسرا اسے معمول بنائے ہوئے ہے۔فتاویٰ
علمائے حدیث میں صراحت بھی مل گئی کہ یہ رفع یدین قیاسی مسئلہ ہے:
’’ عیدین کی تکبیرات میں ہاتھ اُٹھانا
ثابت نہیں کسی صحیح مرفوع حدیث سے۔ محض ایک صحابی حضرت ابن عمر ؓ کا اَثر ہے۔ امام
شافعی کہتے ہیں کہ اس بارے میں حدیث مرفوع تو ہے نہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے دوسری
نماز کے قیام اور رکوع کی تکبیروں پر اسے قیاس کرکے کہا ہے کہ سجدہ کے علاوہ جب
بھی آپ نے تکبیر کہی تو رفع یدین کیا۔‘‘
( فتاویٰ علمائے حدیث :
۳؍۱۶۰،مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور ،طباعت دوم ،سن: جنوری ؍ ۲۰۱۱ء)
عیدین کے خطبوں کو جمعہ کے خطبہ پر قیاس
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی طرح عید کے بھی دو خطبے پڑھے ہوں ...دو
خطبہ کی روایتیں اگرچہ ضعیف ہیں، مگر جمعہ پر قیاس سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ
عیدین کے جمعہ کی طرح دو خطبے پڑھے جائیں۔ ‘‘
(فتاویٰ اہل حدیث :۲ ؍۶۵)
روپڑی صاحب کی یہ عبارت ’’فتاویٰ علمائے حدیث
:۴؍۱۹۷‘‘ میں بھی ہے ۔
یاد رہے کہ روپڑی صاحب یہاں قیاس کا
سہارا لے رہے ہیں جب کہ ان کے ہاں قیاس حجت نہیں ہے۔
(فتاویٰ اہلِ
حدیث : ۱؍۶۶۴، ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا )
غیر مقلدین
کے فتاویٰ میں لکھا ہے:
’’عیدین میں دو خطبوں کا پڑھنا کسی
حدیث سے صحیح ثابت نہیں، صرف اس قدر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد
نمازِ عید خطبہ پڑھا اور وعظ فرمایا، دو خطبے پڑھنے والے جمعہ پر قیاس کرتے ہیں
ہیں۔‘‘
(فتاویٰ عمر پوری، ص:۷…… بحوالہ: فتاویٰ علمائے
حدیث : ۴؍ ۱۸۷)
مولانا علی
محمد سعیدی غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں عید کے
دو خطبوں کی نص موجود ہے ، اگرچہ اس کی سند میں کچھ کلام ہے لیکن قیاس کے موافق
ہے۔‘‘
(فتاویٰ علمائے حدیث: ۴؍ ۱۸۷)
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ غیرمقلدین نے
اگرچہ عیدین کے خطبوں کو جمعہ کے خطبوں پر قیاس کیا ہے مگر اُن کے اپنے غیرمقلدین
ہی نے اسے جھٹک دیا ہے ۔
مولانا ثناء
اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’عیدین کے
خطبہ کے درمیان بیٹھنا سنت ہے ۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۵۳۵، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور )
حافظ محمد
اسماعیل سگری غیرمقلد( شولا پور) نے امرتسری صاحب کے اس فتوی کا تعاقب کرتے ہوئے
لکھا:
’’ گذارش یہ ہے کہ عیدین کا دو خطبوں
سے ادا کرنا کسی حدیث سے ثبوت کو نہیں پہنچتا۔بلکہ فقہاء نے عیدین کو جمعہ پرقیاس
کیا ہے ۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر ؒ نے تلخیص میں فرمایاکہ قولہ یجلس
بینھما کما فی الجمعۃ مقتضاہ انہ احتج بالقیاس ...انتھی ... پس کوئی دلیل دو خطبہ کے
قائلین کے پاس نہیں ہے۔ اور جب دو خطبوں کا ثبوت کسی حدیث سے نہیں ہوتا۔ اور صرف
قیاس ہی قیاس سے کام لیا جاتا ہے تو یہ دو خطبے عیدین کے اور ان کے مابین جلوس
خلاف سنت ہے۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۵۳۶، اسلامک
پبلشنگ ہاؤس لاہور )
حافظ عبد
الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ آخری گزارش: عید ین کے دونوں خطبوں
کے متعلق جو نقلی اور عقلی دلائل کتب حدیث سے دستیاب ہوئے ہیں ہم نے دیانت داری کے
ساتھ پیش کر دیا ہے اور ان پر انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی گزارشا ت بھی رقم کی
ہیں مذکورہ دلائل اور گزارشات کے پیش نظر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ عیدین کے
لئے دو خطبے دینا ایک شرعی حکم ہے جس کے ثبوت کے لیے صاف واضح اور صحیح دلائل کی ضرورت
ہے جو ہمیں نہیں مل سکے۔ اس کے متعلق صرف لفظ ’’ خطب ‘‘ استعمال ہوا ہے جو فرد ِ
مطلق پر دلالت کرتا ہے اور اس سے مراد صرف ایک خطبہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم عام طور پر وعظ ارشاد فرماتے ہوئے دیا کرتے تھے، دو خطبے صراحت کے ساتھ
صرف جمعہ کے لیے ہیں اس کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر دو خطبے ہمارے نزدیک پایہ ٔ
ثبوت کو نہیں پہنچتے، اس لیے ہمارا موقف یہی ہے کہ عیدین کے لیے صرف ایک ہی خطبہ
پر اکتفا کیا جائے۔ چنانچہ برصغیر کے عظیم محدث علامہ عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں لفظ ’’ خطب ‘‘ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عیدین کے لئے صرف ایک ہی
خطبہ مشروع ہے اور جمعہ کی طرح اس کے دو خطبے نہیں ہیں، نہ ہی ان کے درمیان بیٹھنے
کا ثبوت ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عیدین کے دو خطبے دینا قابلِ
اعتبار سند سے ثابت نہیں لوگوں نے جمعہ پرقیاس کرتے ہوئے اسے رواج دے دیا ہے۔[
مرعاۃ المفاتیح : ۳۰۰، ج ۲] البتہ جو حضرات ضعیف احادیث کے متعلق نرم گوشہ رکھتے
ہیں ان کے نزدیک کے دو خطبے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ہمیں اس سے اتفاق
نہیں ہے۔‘‘
(فتاویٰ اصحاب الحدیث :۲؍ ۱۶۸، مکتبہ اسلامیہ
لاہور ، سن اشاعت: جنوری؍۲۰۰۹ء )
بشیر احمد حسیم غیر مقلدنے
بھی لکھا ہے کہ عید کے خطبہ کو جمعہ پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔
بھینس کی
قربانی کو گائے پرقیاس
بہت
سے غیر مقلدین بھینس کی قربانی کو جائز کہتے ہیں، ثبوت کے لئے میرا مضمون ’’بھینس
کی قربانی، غیر مقلدین کی زبانی‘‘ شائع شدہ مجلہ صفدر گجرات شمارہ۹ملاحظہ فرمائیں۔
بھینس کی قربانی کے جواز پر غیرمقلدین کی مستقل کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اُن
میں سے مفصل اور جامع کتاب مولانا نعیم الحق ملتانی کی ’’ بھینس کی قربانی کا
تحقیقی جائزہ ‘‘ ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بھی جانیں کہ غیرمقلد
مصنفین نے بھینس کی قربانی کے جواز کو قیاسی مسئلہ باور کرایا ہے یعنی ان کے بقول
اس کا جواز گائے پر قیاس ہے ،جیسے گائے کی قربانی بالاتفاق جائز ہے تو اس پر قیاس
کرکے بھینس کی بھی جائز ہونی چاہیے۔
چنانچہ بشیر
احمد حسیم غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’بحالتِ مجبوری جس علاقہ میں گائے دستیاب نہ ہو، گائے پر
قیاس کرتے ہوئے بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے۔‘‘
(عیدین اور قربانی کے مسائل صفحہ۲۵)
مولانا عبد المنان نور پوری غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’جو لوگ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں
دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر (گائے، ناقل) پر
قیاس کرتے ہیں۔‘‘
(احکام ومسائل :۱ ؍ ۴۳۴)
مولانا نظر
احمد سہسوانی غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ
سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے ، نہ تعامل ِ صحابہ سے ۔ ہاں
اگر اس جنس کو بقر سے مانا جائے جیساکہ حنفیہ کا قیاس ہے ۔( کما فی الھدایۃ ) یا
عموم بھیمۃ الانعام پر نظرڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی
ہے۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ
:۲؍۸۱۰)
بعضے غیرمقلدین بھینس کی قربانی
کو قیاسی کہہ کر اس کا رد بھی کیا کرتے ہیں ۔
مولانا محمد اسحاق غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بعض فقہاء نے بھینس کو گائے کی جنس قرار دیتے ہوئے بھینس
اور بھینسے کی قربانی جائز قرار دی ہے۔مگر یہ قیاس ہی ہے ۔ قرونِ اولی ٰ سے اس کا
ثبوت نہیں ملتا ۔ ‘‘
( الاعتصام لاہور۸؍مارچ ۱۹۶۸ صفحہ۷)
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جو اَہلِ علم بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں وہ صرف
یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بھینس کو گائے کی جنس کہتے ہیں یا گائے پر اسے قیاس کرتے
ہیں ۔ حالاں کہ بھینس ایک الگ جنس ہے، ان کے دودھ اور گوشت کی تاثیر بھی الگ الگ
ہے پھر قیاس کے لیے کوئی علت مشترک ہونی چاہیے ان میں نہیں پائی جاتی ۔ ‘‘
(فتاویٰ اصحاب الحدیث :۳؍۴۰۴)
حماد صاحب
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ پھر قیاس کے لیے کوئی علت
مشترک ہونی چاہیے جو اِن میں نہیں پائی جاتی ۔ ‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۴؍۳۵۹)
فوت شدہ کی طرف سے قربانی کا جواز حج پر قیاس
مولانا بشیر
احمد حسیم غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’حج پر قیاس کرتے ہوئے اپنے فوت شدہ رشتہ دار کی طرف سے
قربانی کرنا، جائز ہے۔‘‘
(عیدین اور قربانی کے مسائل صفحہ۳۳)
ان کی مراد یہ ہے کہ جیسے فوت شدہ کی
طرف سے حج کرنا درست ہے، ایسے ہی اس کی طرف سے قربانی کرنا بھی درست ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر مہتمم و مدرس کو
قیاس ،قربانی کی کھال کا مسئلہ
ایک غیر مقلد
نے فتویٰ دیا:
’’حضرت علی ؓ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر
(کھالیں) تقسیم کرنے کے لئے اپنا وکیل مقرر کر دیا تھا، بعینہ اس طرح کسی ادارہ
خاص کے ناظم اور مہتمم کو بھی وکیل بنا دیا جاتا ہے ،نہ یہ کہ اس کی ذات کے لئے
کھال دی جاتی ہے۔ ‘‘
فتاویٰ علمائے حدیث میں اس فتویٰ کو
نہ صرف قیاسی کہا گیا،بلکہ اسے غلط اور بے جا قیاس کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ پڑھئے!
لکھا ہے:
’’جواباً عرض ہے کہ مولانا نے جو حضرت علیؓ پر مہتمم ومدرس
وناظم کو قیاس کر کے وکیل بنایا ہے، یہ آپ کاقیاس قیاس مع الفارق ہے۔‘‘
(فتاویٰ علمائے حدیث :۱۳؍ ۱۶۲)
بڑے جانور میں عقیقہ کے جوازکو
قربانی پہ قیاس
بہت سے غیر مقلد علماء، بڑے جانور میں عقیقہ
کوجائز مانتے ہیں، ثبوت کے لئے ’’فتاویٰ علمائے حدیث جلد۱۳ صفحہ۱۹۶ تا ۱۹۸‘‘ کا
مطالعہ فرمائیں۔
غیرمقلدین نے یہ بھی تاثر دیا ہے کہ
بڑے جانور میں عقیقہ کا مسئلہ قیاسی ہے جیسا کہ درج ذیل حوالوں سے ثابت ہے ۔
مولانا عبید
اللہ رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’جو لوگ سات مل کر (عقیقہ) کرتے ہیں وہ قربانی پر قیاس
کرتے ہیں۔‘‘
(فتاویٰ علمائے
حدیث :۱۳ ؍۴۴)
ایک صاحب نے
سوال کیا:
’’کیا دو لڑکے اور تین لڑکیوں کے عقیقے میں ایک گائے جائز
ہے کہ نہیں ؟‘‘
مولانا ابو البرکات احمد غیرمقلد
نے مذکورہ سوال کا یہ جواب دیا:
’’ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے یہ ثابت
نہیں ہے۔بعض علماء قیاس اُضحیہ پرکرکے اس طرح جائز سمجھتے ہیں۔الراقم ابو البرکات
احمد، تصدیق: حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی ؒ۔‘‘
( فتاوی برکاتیہ صفحہ ۲۴۹، ۲۵۰)
اس عبارت میں مذکورہ بالا قیاسی مسئلہ
کو بعض علماء کی طرف منسوب کیا ہے قارئین کو ہم اگاہ کرتے چلیں کہ اس فتویٰ کی
تصدیق کرنے والے بزرگ مولانا حافظ محمد گوندلوی نے بھی یہی قیاسی مسئلہ اختیارکیا
بلکہ دوسروں کے عمل کے لیے اسے لکھ بھی دیا ہے ۔
چنانچہ غیر
مقلدین کے فتاویٰ میں لکھا ہے :
’’ گائے یا اونٹ میں عقیقہ کا ذکر صحیح حدیث میں نہیں آیا،
صرف قیاس ہے اور قیاس صحیح ہے، کیوں کہ اونٹ گائے کا ہر حصہ ایک بکری کی طرح ہے۔
حافظ محمد گوندلوی گوجرانوالہ۔‘‘
(فتاویٰ علمائے حدیث :۱۳؍۱۹۶)
عقیقہ کی شرائط کو قربانی کی
شرائط پہ قیاس
بہت سے غیر مقلد علماء کا فتویٰ ہے کہ
’’عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور والی شرائط ہونی چاہئیں۔
مولاناعلی
محمد سعیدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جو شرائط جانور قربانی کے ہیں وہ ہی شرائط جانور عقیقہ
میں ہونے افضل ہیں کیوں کہ عقیقہ کوبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی فرمایا
ہے جیسا کہ حدیث میں مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْسُکَ فَلْیَنْسُکْ ۔اور علامہ
شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقیقہ پر ایک رسالہ لکھا ۔اس کا نام رکھا ہے نسیکہ۔ جب حدیث اور علماء کرام کی
اصطلاح میں عقیقہ کو نسیکہ یعنی قربانی
فرمایاہے تو عقیقہ میں قربانی کے شرائط ہونے ضروری ہیں ۔‘‘
( فتاویٰ علمائے حدیث ؍۲۹۹)
یہاں یوں بھی غور فرما لیں کہ سعیدی
صاحب اس عبارت کے شروع میں کہتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی والی شرائط ہونا
افضل ہیں اورآخر میں لکھا کہ یہ شرائط ضروری ہیں۔
مولانا ابو
البرکات احمد غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ افضل و بہتر یہی ہے کہ شرائط
پائی جائیں ۔‘‘
( فتاویٰ
برکاتیہ صفحہ ۲۵۱)
سبل السلام کے مصنف علامہ یمانی کے
بقول عقیقہ میں قربانی کے جانوروں کی شرائط قیاس سے ثابت ہیں، حدیث صحیح سے
نہیں،حکیم محمد یوسف صاحب لکھتے ہیں:
’’صاحب سبل السلام نے کہا ہے کہ شرائط اس کے صحیح حدیث (سے
) ثابت نہیں، بالقیاس ہیں۔‘‘
(فتاویٰ علمائے
حدیث :۱۳؍۲۱۲)
صحیفہ اہلِ حدیث میں لکھاہے :
’’ عقیقہ کے لیے وہ شرطیں نہیں ہیں جو قربانی کے لیے ہیں
اور شرط لگانے والے کے پاس قیاس ہی قیاس ہے کوئی شرعی دلیل نہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :ربیع الاول ۱۳۵۸ ھ صفحہ ۲۱)
صحیفہ کی اس
عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اُن کے نزدیک قیاس شرعی دلیل نہیں ہے ۔
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بعض علماء عقیقہ کو قربانی پرقیاس کرتے ہیں ان کے نزدیک
سات حصے ہوں گے۔ چنانچہ نیل الاوطار میں کہا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس حصے ہو
سکتے ہیں اور جو عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرتا ہے وہ شاید عقیقہ میں اونٹ کے دس
حصے کا بھی قائل ہو ۔ غرض اس قسم کے خیالات ہیں اس لئے پورا اطمینان نہیں کیوں کہ
شارع کا مقصد دو جانیں ہوں ۔ ‘‘
( فتاوی اہلِ حدیث :۲؍۵۴۵، ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک
سرگودھا)
مولانا عبد
الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ کسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کے جانور میں قربانی کی
شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا،بلکہ کسی ضعیف حدیث سے بھی ان شرائط کا ثبوت نہیں
ملتا جو حضرات شرائط لگاتے ہیں ان کے پاس قیاس کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے ۔
( تحفۃ الاحوذی : ۵؍۹۹بحوالہ فتاوی اصحاب الحدیث :۲؍۳۹۵)
حافظ عبد
الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ کسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کے جانور پر قربانی کی شرائط
عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا اور جو لوگ یہ شرائط عائد کرتے ہیں ان کے پاس قیاس کے
علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے ، تاہم عقیقہ کے جانور میں متقارب اور مساوی کی قید
اس بات کی متقاضی ہے کہ شریعت نے قربانی کے جانور میں جن عیوب و نقائص سے بچنے کا
حکم دیا ہے انہیں عقیقہ کے جانور میں بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابن قدامہ
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور میں بھی ان عیوب سے اجتناب کرنا چاہیے
جن سے قربانی کے جانور میں احتراز کیا جاتا ہے ۔ [مغنی ابن قدامہ ، ص : ۳۹۹، ج ۲۳]
بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر مبنی بر حقیقت ہے کہ عقیقہ کے جانور کا دو دانتہ ہونا
ضروری نہیں ہے لیکن موٹا تازہ ہونا چاہیے ، جسے بکرا یا مینڈھا کہا جا سکے ۔‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۲؍۳۸۳)
بغیر دانت والے کو دو دانت والے
بکرے پہ قیاس
کسی نے سوال
کیا:
’’ ہمارے ہاں ایک بکرا ہے جس کے پیدائشی طور پر دانت نہیں
ہیں تو ا س کے متعلق دو دانتہ ہونے کا کیسے پتہ چلا یا جائے ؟ ‘‘
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلدنے
اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا:
’’صورت مسؤلہ بہت ہی شاذ و نادر ہے ہمارے
رجحان کے مطابق اس کے لیے دو طریقے ہو سکتے ہیں(۱)اس سے ملتے جلتے بکرے جب دو
دانتہ ہو جائیں تو بغیر دانت والا بکرا ان پر قیاس کرتے ہوئے قربانی کے طور پر ذبح
کیا جا سکتا ہے۔ (۲) اگر اس کا اندازہ نہ ہو سکے تو وہ ایک سال مکمل ہونے کے بعد
جب دوسرے سال میں ہو جائے تو اس کی قربانی ان شاء اللہ جائز ہوگی واللہ اعلم ۔‘‘
( فتاوی اصحاب
الحدیث : ۳؍۴۰۵)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں