نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں


غیرمقلد ظہور احمد ملک صاحب کا علمی تعاقب

 متعلم اسامہ الحنفی الدیوبندی حفظہ اللہ(ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

            ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں ، بیوی خاوند پر حرام ہوجاتی ہے اور بغیر حلالہ شرعی کے شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوتی، یہی نظریہ اہل سنت والجماعت کا ہے لیکن غیر مقلدین  دین کی اصل روح مٹانے کے لئے اور لوگوں کو بے دین بنانے کے لیے زنا کا جواز دیتے ہیں اور حال ہی میں ظہور احمد ملک  صاحب نے اسی طرح کا ایک جواز پیش کیا ہے جس میں ظہور احمد ملک صاحب نے مسلم شریف کی حدیث کو  دلیل بنا کر پیش کیا ہے۔

دلیل : عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم.(صحیح مسلم ج1 ص477،ص478، مصنف عبد الرزاق ج6ص305) و من طریق آخر ففیہ ابن جریج

جواب نمبر1:

امام نووی نے فرمایا ہے:

فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيدا ولا استئنافا يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد فلما كان في زمن عمر رضي الله عنه وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستئناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق إلى الفهم منها في ذلك العصر.( شرح مسلم للنووی: ج1ص478)

کہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہہ کر طلاق دیتا اور دوسری اور تیسری طلاق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ استیناف کی، تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔

تنبیہ: یہ اس صورت میں ہے کہ جب ”انت طالق“کو تین بار کہے۔ اگر ”انت طالق ثلاثا“کہے تو پھر تین ہی واقع ہو جائیں گی۔

جواب نمبر2:

            اس حدیث میں طلاق کی تاریخ بیان کی جارہی ہے کہ عہد نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام سے لے کر ابتدائے عہد فاروقی تک لوگ یکجا تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دیا کرتے تھے، خلافت فاروقی کے تیسرے سال سے لوگوں نے جلد بازی شروع کردی کہ ایک طلاق دینے کے بجائے تین طلاقیں اکٹھی دینے لگےتو وہ تینوں طلاقیں نافذ کردی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس پر واضح قرینہ ہیں، آپ فرماتے ہیں:

إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة

کہ لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہے۔

            اگر ابتداء سے تین طلاق کا رواج ہوتاتو پھر استعجال اور اناۃ کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ لہذا اس حدیث میں ”۔۔۔طلاق الثلاث واحدة“ کا مطلب ”تین طلاقوں کے بجائے ایک طلاق دینا“ ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آ کر مسئلہ بدل گیا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے کے معاملے میں لوگوں کی عادت بدل گئی تھی۔ اگر یہ مراد لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلے کو منسوخ فرما کر تین طلاقوں کو تین شمار کیا ہے تو یہ مطلب انتہائی غلط ہے، کیونکہ اگر یہی معاملہ ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر اجماع نہ فرماتے بلکہ اس فیصلہ کا انکار کرتے حالانکہ کسی سے بھی انکار منقول نہیں۔ یہی مطلب محدثین نے بیان کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره۔

( شرح مسلم للنووی: ج2ص478)

ترجمہ: مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا، -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے۔

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اس حدیث کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں:

ای کان الناس یطلقون واحدۃ بدل الثلاث و یکتفون بواحدۃ للتطلیق، وکانوا لا یطلقون ثلاثاً خلاف السنۃ، وہم کانوا علی ذلک الیٰ خلافۃ عمر حتیّٰ صاروا فی عہدہ یطلقون ثلاثاً دفعۃ خلاف السنۃ، فامضاہ عمر علیہم و ہذا احد معنی الحدیث ذکرہ النووی فی شرح مسلم.

(معارف السنن: ج5 ص471)

کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دینے پر اکتفاء کرتے تھے، تین طلاقیں جو کہ خلاف سنت ہیں نہیں دیتے تھے۔ یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک چلتا رہا یہاں تک کہ لوگ خلافِ سنت تین طلاقیں اکٹھی دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا۔ حدیث کا ایک یہی مطلب امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔

فائدہ:

            حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا یہ مطلب لینے پر(کہ لوگ تین طلاقوں کی بجائے ایک طلاق دیتے تھے) قرآن و حدیث سے دو نظیریں بھی پیش کی ہیں:

نظیر نمبر1:

 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا﴾(سورۃ ص:5 )

ترجمہ: (کافر یہ کہتے ہیں:) کیا اس (پیغمبر) نے سارے معبودوں کو ایک معبود میں تبدیل کر دیا ہے؟

علامہ کشمیری فرماتے ہیں:

فہم لم یریدوا بقولہم ہٰذا انہ صلی اللہ علیہ و سلم آمن بآلہۃ ثم جعلہم واحدا، و انما یریدون انہ جعل الہاً واحدا بدل آلہۃ.

(معارف السنن: ج5 ص472)

            ترجمہ: کفار کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پہلے تمام آلہہ پر ایمان لائے پھر ان کو ایک کر دیا، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے تمام آلہہ کو چھوڑ کر ایک کو اپنا لیا ہے۔

نظیر نمبر2:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:

من جعل الهموم هما واحدا هم آخرته كفاه الله هم دنياه الخ

(سنن ابن ماجۃ: باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ- عن عبد اللہ بن مسعود)

ترجمہ: جو شخص اپنی تمام فکروں کو ایک فکر یعنی آخرت کی فکر بنا لے اللہ تعالیٰ دنیوی پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں الخ

علامہ کشمیری فرماتے ہیں:

فلیس المراد اختیار الہموم ثم جعلہا واحدۃ، وانماالمراد انہ اختار ہماً واحداً بدل ہموم کثیرۃ.

(معارف السنن: ج5 ص472)

            کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان پہلے تمام غموں کا روگ لگا لے پھر ان سب کو ایک غم میں تبدیل کر دے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غموں کے انبار کو چھوڑ کر ایک آخرت کی فکر کو اپنا لے۔

جواب نمبر3:

امام احمد بن حنبل نے فر مایا:

 الحدیث اذا لم تجمع طرقہ لم تفہمہ والحدیث یفسر بعضہا بعضا.

(الجامع لاخلاق الراوی للخطیب: ص370 رقم1651)

چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنن ابی داود میں ہے، جس میں راوی سے سوال کرنے والا شخص ایک ہی ہے یعنی ابو الصَّہباء، اور دونوں روایتوں کے الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ روایت یہ ہے:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا

 وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ.

(سنن ابی داؤد: ج1 ص317 باب نسخ المراجعۃ بعد التطليقات الثلاث)

اس روایت کی اسناد صحیح ہے۔

(زاد المعاد لابن القیم: ج4 ص1019-فصل: فى حكمہ صلى الله علیہ وسلم فیمن طلق ثلاثا بكلمۃ واحدۃ، عمدۃ الاثاث: ص94)

            اسی طرح صحیح مسلم کے راوی طاؤس یمانی کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا کی قید موجود ہے۔ علامہ علاء الدین الماردینی (م745ھ) لکھتے ہیں:

ذكر ابن أبى شيبة بسند رجاله ثقات عن طاوس وعطاء وجابر بن زيد انهم قالوا إذا طلقها ثلاثا قبل ان يدخل بها فهى واحدة.

(الجوہر النقی: ج 7ص331)

            ان دونوں روایات میں ”قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا“ (غیر مدخول بہا) کی تصریح ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث صحیح مسلم مطلق نہیں بلکہ ”غیر مدخول بہا“ کی قید کے ساتھ مقید ہے۔ ایسی عورت کو خاوند الگ الگ الفاظ (أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے طلاق دے تو پہلی طلاق سے ہی وہ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری تیسری طلاق لغو ہوجائے گی، اس لیے کہ وہ طلاق کا محل ہی نہیں رہی۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں غیر مدخول بہا کو طلاق دینے کا یہی طریقہ رائج تھا اس لیے ان حضرات کے دور میں غیر مدخول بہا کو دی گئی ان تین طلاقوں کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں لوگ ایک ہی جملہ میں اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے(یعنی انت طالق ثلاثا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تین ہی شمار ہوں گی، کیونکہ

 غیر مدخول بہا کو ایک ہی لفظ سے اکٹھی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔

جواب نمبر4:

            اگر وہی مطلب لیا جائے جو غیر مقلدین لیتے ہیں کہ تین طلاق ایک ہوتی ہے تو یہ مطلب لینا اس  روایت

 ہی کو شاذ بنا دیتا ہے، اس لیے کہ یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جملہ شاگرد آپ سے تین طلاق کا تین ہونا ہی روایت کرتے ہیں، صرف طاؤس ایسے ہیں جو مذکورہ روایت نقل کرتے ہیں۔ تصریحات محققین ملاحظہ ہوں:

(1): قال الامام احمد بن حنبل: كل أصحاب ابن عباس رووا عنه خلاف ما قال طاوس.

(نیل الاوطار للشوکانی ج6ص245 باب ما جاء فی طلاق البتۃ)

(2): قال الامام محمد ابن رشد المالکی: بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث منهم سعيد بن جبير ومجاهد وعطاء وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم.

(بدایۃ المجتہد ج2ص61 کتاب الطلاق، الباب الاول)

تنبیہ: حدیث ابن عباس صحیحین میں نہیں ،صرف صحیح مسلم میں ہے۔

(3): قال البیہقی: فَهٰذِهِ رِوَايَةُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَطَاءِ بْنِ أَبِى رَبَاحٍ وَمُجَاهِدٍ وَعِكْرِمَةَ وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَمَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ وَمُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ وَرُوِّينَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِى عَيَّاشٍ الأَنْصَارِىِّ كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَجَازَ الطَّلاَقَ الثَّلاَثَ وَأَمْضَاهُنَّ

(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً)

چونکہ طاوس کی یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگردوں کی روایت کے خلاف ہے اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت کو اپنی صحیح میں نہیں لائے۔

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَتَرَكَهُ الْبُخَارِىُّ وَأَظُنُّهُ إِنَّمَا تَرَكَهُ لِمُخَالَفَتِهِ سَائِرَ الرِّوَايَاتِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔( السنن الکبریٰ للبیہقی ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً)

            الحاصل یہ روایت طاوس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگردوں کے خلاف روایت کی

ہے اور تمام شاگرد تین کا تین ہونا ہی نقل کرتے ہیں، اس لیے طاوس کی یہ روایت ان سب کے مقابلے میں شاذ، وہم، غلط اور ناقابلِ حجت ہے۔

جواب نمبر5:

خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتوی اس روایت کے خلاف ہے۔ کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کو تین ہی فرماتے ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَ ثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ.

(جامع المسانید ج 2ص148، السنن الکبری للبیہقی: ج7 ص337 واسنادہ صحیح)

اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:

عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا۔

(المنار مع شرحہ ص194، قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی ص 202)

کہ راوی کا روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف عمل کرنا اس روایت پر عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔لہذا اس اصول کی رو سے بھی مذکورہ روایت قابلِ عمل نہیں ہے۔

جواب نمبر6:

اس روایت کی ایک سند میں ایک راوی’’طاؤس یمانی‘‘ ہے۔ امام سفیان ثوری ، امام ابن قتیبہ،اور امام ذہبی نے اسے

 شیعہ قرار دیا ہے۔

(سیر اعلام النبلاء ج5 ص26،27، المعارف لابن قتیبہ ص267،268)

دوسرا راوی ’’ابن جریج‘‘ ہے۔ یہ شیعہ ہے اور اس پر متعہ باز ہونے کی جرح بھی ہے۔

(تذکرۃ الحفاظ ج1ص 128، سیر اعلام النبلاءج5ص497،میزان الاعتدال للذہبی ج2ص509)

مذکورہ دونوں راویوں کو کتب شیعہ میں بھی شیعہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ’’ طاؤس ‘‘ کو رجال کشی لابی جعفر طوسی ص55، ص101، رجال طوسی لابی جعفر طوسی ص94 میں اور ’’ابن جریج‘‘کو رجال کشی ص280، رجال طوسی ص233 اور اصحاب صادق رقم 162 میں شیعہ کہا گیا ہے۔ اصول حدیث کا قاعدہ ہے جسے حافظ ابن حجر عسقلانی یوں بیان کرتے ہیں:

الا ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی المختار.

(شرح نخبۃ الفکر مع شرح ملا علی القاری ص159، مقدمہ فی اصول الحدیث لعبد الحق الدہلوی ص67)

کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔

جواب نمبر7:

خود غیر مقلدین کے فتاوی میں ہے :

’’ یہ کہ مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں‘‘ (فتاوی ثنائیہ ج2 ص219)

جواب نمبر8:

صحیح مسلم میں روایت موجود ہے :

قال عطاء قدم جابر بن عبد الله معتمرا فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء ثم ذكروا المتعة فقال نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر. و فی روایۃ اخری: حتى نهى عنه عمر۔(صحیح مسلم ج 1ص451 باب نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ ثم أبيح ثم نسخ واستقر تحريمه إلى يوم القيامة )

پس جو جواب اس جابر رضی اللہ عنہ کی متعۃ النساءکے جواز و عدم کا جواب ہے وہی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اگر اس کو بھی جائز مانتے ہو تو کیا متعۃ النساءکو بھی جائز مانو گے؟

جواب نمبر9:

غیر مقلدین کا موقف ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنے کا ہے لیکن صحیح مسلم کی اس روایت میں کہیں بھی ”ایک مجلس“ کا ذکر نہیں ہے۔

(بحوالہ مسئلہ تین طلاق از مولانا الیاس گھمن مدظلہ العالی)

 لہذا یہ غیر مقلد ظہور احمد ملک صاحب کی دلیل بن ہی نہیں سکتی۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...