غرباء
اہلِ حدیث کے ترجمان ’’ صحیفہ اہلِ حدیث ‘‘کا مطالعہ
مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمدپور شرقیہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
عقیقہ
کے جانورمیں قربانی والی شرائط کا ہونا اچھا ہے
صحیفہ اہلِ حدیث میں لکھا ہے :
’’مؤطا امام مالک کے صفحہ ۱۸۶ میں امام
مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا عندیہ درج ہے جس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اچھی بات ہے
(کہ ) عقیقہ کا جانور بھی مثل جانور قربانی کے ہو ۔ وہ بھی بطورِ افضلیت کے ،نہ (کہ
)بطورِ شرط کے ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:ربیع
الاول۱۳۵۸ھ صفحہ ۲۱)
عقیقہ کے
جانور میں قربانی والی شرائط کو بطور افضلیت مان لینا بھی غنیمت ہے ورنہ کئی غیرمقلدین اس کے انکاری
بھی موجود ہیں۔
قیاس
کے دلیلِ شرعی ہونے کا انکار
صحیفہ میں مزید لکھاہے :
’’ عقیقہ کے لیے وہ شرطیں نہیں ہیں جو
قربانی کے لیے ہیں اور شرط لگانے والے کے پاس قیاس ہی قیاس ہے کوئی شرعی دلیل نہیں
۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :ربیع
الاول ۱۳۵۸ ھ صفحہ ۲۱)
اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ صحیفہ اہلِ حدیث والوں کے نزدیک قیاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ حالاں کہ
شرعی دلائل میں چوتھے نمبر پر قیاس ہے ۔
دوسری بات : صحیفہ کے قلم کار کو اصرار ہے
کہ عقیقہ میں قربانی والی شرائط کا پایا جانا دلیل شرعی سے ثابت نہیں مگر پھر بھی
امام مالک کے قول کی بنیاد پر لکھ دیا کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی والی شرطوں کا
ہونا افضل عمل ہے ۔ تو قیاس پر عمل تو انہوں نے بھی کر لیا اگرچہ افضلیت کے طور پر
کیا ہے ۔نیز یہ بھی بتائیں کہ امام مالک کے قول پر عمل کرنا تقلید ہے یا نہیں ؟
انعامی
چیلنج مگر انعام کون دے گا؟
ابو سلیمان
عبد الرحمن نومسلم جالندھری صاحب( مد رسہ دار الکتاب وا لسنہ صدر بازار دہلی
)لکھتے ہیں:
’’تمام دنیا کے حنفی حضرات کو کھلا اور
انعامی چیلنج دیا جاتا ہے جیسا کہ ہم اہلِ حدیث امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے پڑھنے
کا خاص لفظ حدیث مرفوع صریح صحیح حسن سے(بحوالہ کتب صحاح ستہ و ماوافق بھا )دکھاتے ہیں۔ایسا ہی وہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے نہ
پڑھنے کا خاص لفظ حدیث مرفوع صریح صحیح حسن سے (بحوالہ کتب صحاح ستہ و ماوافق بھا) میدان مناظرہ میں دکھا دیں تو
ہم ا ن کو اس حق ِ محنت ، دادِ ہمت ، تمغہ صداقت کے صِلہ میں فاتحہ کے ہر حرف کے
بدلے مبلغ ایک سو روپیہ دینے کو تیار ہیں ان شاء اللہ۔کیا ہے روئے زمین پرکوئی
زندہ دِل حنفی جو میدانِ مناظرہ میں کودے اور انعام کے پیچھے خاص لفظ فاتحہ کے نہ
پڑھنے کا دِکھا کر مبلغ پانچ سو روپیہ ۵۰۰انعام حاصل کرے (دیدہ باید ) ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:رجب ۱۳۵۹ھ
صفحہ ۱۰)
امام کے
پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے دلائل کے لیے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
کی کتاب ’’احسن اکلام ‘‘ دیکھئے۔ اَب تو کئی غیرمقلدین بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ
از روئے احادیث امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے مثلاً شیخ البانی غیرمقلد کی
کتاب ’’ صفۃ صلوۃ النبی صفحہ ۸۰ ‘‘ دیکھئے ۔مگر ہماری معلومات کے مطابق کسی حنفی
عالم کو انعام تو کجا اپنے بزرگ شیخ البانی کو بھی نہیں دیا گیا۔آخر یہ انعام کہاں
گیا ؟ کم از کم اپنے امام البانی کو تویہ انعام دے دیتے ۔
بیعت
کا مسئلہ دنیا میں چمکا دیا
صحیفہ اہلِ
حدیث میں دہلی کے کسی بزرگ کے بارے میں نظم درج ہے، جس کا پہلا شعر یہ ہے :
’’توحید کا ڈنکا عالم میں بجوا
دیا دہلی والے نے
بیعت کا مسئلہ دنیا میں چمکا
دیا دہلی والے نے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:رجب ۱۳۵۹ھ صفحہ ۱۰)
عام
غیرمقلدین بیعت ِ شیخ کے خلاف ہیں جب کہ غرباء میں بیعت کا سلسلہ پایا جاتا ہے ۔
مذکورہ شعر میں بھی بیعت کو مقام مدح میں بیان کیا گیا ہے ۔
یدِ بیضاء
اوپر ’’بیعت کا مسئلہ دنیامیں چمکا دیا ‘‘ عنوان کے تحت جس
نظم کاشعردرج ہے اُسی نظم کا دوسرا شعر یہ ہے ۔
مسئلہ
امامت سچا تھا مہاجر عالم پکا تھا
دلیل یدبیضاسے دکھلا دیا دہلی والے نے
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:رجب ۱۳۵۹ھ صفحہ ۱۰)
یَد کا
معنیٰ ہاتھ اور بیضاء کا معنیٰ سفید ۔یدبیضا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا
کہ وہ اپنے ہاتھ کو بغل میں ڈالتے اور جب باہر نکالتے تو روشن و چمکتاہوا ہو اہوتا
۔دہلی والے بزرگ نے ’’یدِ بیضاء ‘‘دلیل کیسے دِکھلادی ،یہ چیز وضاحت طلب ہے ۔
آبِ
بقا پردہ میں ہے
اسی صحیفہ میں ’’پردہ دار عورتیں ‘‘ نظم درج ہے ۔اس کا ایک
شعر یہ ہے ۔
’’آبِ شیریں اور آبِ شور ہے ہر
جا عیاں
خضر سے پوچھو مگر آبِ بقا پردے
میں ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:رجب ۱۳۵۹ھ صفحہ ۱۰)
وضاحت کی
جائے کہ خضرسے مراد کون ہیں ؟یہ وہی خضر تو نہیں جن کے پاس سیدنا موسی علیہ السلام گئے تھے۔اگر وہی
ہیں تو ان سے پوچھنے کا کیا مطلب ہے ؟ کیا یہی تاثر دینا مقصود ہے کہ وہ اَب تک
زندہ ہیں جب کہ غیرمقلدین کی ایک بڑی جماعت اُن کے فوت ہو چکنے پر متفق ہے۔
آنجہانی کا سالانہ عرس
صحیفہ اہل
ِ حدیث میں شیخ حمید اللہ غیرمقلد کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے :
’’ایک اشتہار اپنے اسمِ گرامی سے بعنوان
’’ عبد الوہاب آنجہانی کا سالانہ عرس ‘‘ شائع فرمایا۔جس میں الزامات کے ثبوت دینے
کی بجائے بے لگامی ، فحش کلامی کے حیرت انگیز مظاہرے اور کرشمے دکھائے ہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ ھ
ربیع الثانی صفحہ ۳)
حمید اللہ
صاحب نے غیرمقلد بزرگ عبد الوہاب صاحب کو ’’ آنجہانی ‘‘ کا لقب دیا اور غیرمقلدین
میں بھی ’’ سالانہ عرس ‘‘ ہونے کا دعوی کر دیا ۔
قلم
کی شرافت کے نمونے
شیخ حمید اللہ صاحب غیرمقلد نے غرباء
اہلِ حدیث کے متعلق اپنے تاثرات میں لکھا:
’’ امامت کا ڈھونگ ، جھوٹی اور ملعون
امامت کے گڑھے، پیری و مریدی کے جال ...سالانہ عرس، عرس کی روٹیاں، غل غپاڑہ ،
امامیوں کی کھلی بے ایمانی، بے حیائی، بے شرمی ، ڈھٹائی ، سفلہ پن، کھوئے گئے، لال بجھکر، بو کھلاہٹ۔
‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ صفحہ ۳)
قلم کی شرافت لفظ لفظ سے ٹپک رہی ہے ۔ ہر جملہ واضح ہے ہمیں
وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں۔
بے
لگامی ، فحش کلامی ، بدزبانی ، نکتہ چینی
صحیفہ نے مذکورہ عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’ خدا کی قسم جی تو چاہتا تھا کہ رخصت
جزاء سیۃ سیۃ مثلھا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شیخ صاحب کو اُن کی اس بے لگامی ، فحش
کلامی ، بدزبانی ، نکتہ چینی کا مزہ چکھاتے، کانفرس کے ڈھونگ ر چانے کا پول
کھولتے،کانفرنس کا چندہ جو جماعت غرباء اہل ِ حدیث کے مقابلہ میں حق مٹانے کے لیے
صرف کیا جاتا ہے ۔اس پر بھی کچھ روشنی ڈالتے ،مگر شیخ صاحب چوں کہ اس مقدس جماعت
کا فرد ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے
ما اہل حدیثیم دغا را
شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ِ ما حیلہ و فن نیست
اس لیے افضل اور بلند تر اَمر ’’خذ العفو و امر بالمعروف و اعرض عن الجاھلین پر گامزن
ہوتے ہوئے شیخ صاحب کی رعایت کرتے ہیں ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ربیع الثانی صفحہ ۴)
صحیفہ کے
مضمون نگار نے شیخ حمید اللہ غیرمقلد کے متعلق ’’ بے لگامی ، فحش کلامی ، بدزبانی
، نکتہ چینی ‘‘ الفاظ سنا چھوڑے مگر احسان بھی جتلا دیا کہ ہم نے معاف کیا ۔
غرباء
اہلِ حدیث کے عقائد
شیخ حمید اللہ
غیرمقلد کہتے ہیں :
’’فرقۂ امامیہ ( جماعت غرباء اہلِ حدیث
) کے عقائد کتاب و سنت اور سلف صالحین کے خلاف ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ کفر و شرک
کے بھی مجوز ہیں اور قطعی حرام زنا...کے بھی مجوز ہیں ، ان کے نزدیک ہندوؤں کے
معبودوں کو کل غیراللہ کو منتر شرک و کفر میں نداء دینا درست
ہے ، اللہ و رسول کو گالی دے کر منتر کرنا درست
ہے ، بھڑ بچھو کے ڈسے پر تپ دق ، بنکم کا در ،
دردِ گردہ وغیرہ میں منتر کفر وشرک درست ہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۵)
یہ عقائد
کسی حنفی و دیوبندی نے فرقہ امامیہ ؍ غرباء اہل ِ حدیث کی طرف منسوب نہیں کئے بلکہ
غیرمقلدین کے ایک اہم فرد شیخ حمید اللہ نے لکھے ہیں یقیناً اندر کے فرد کو جو
معلومات ہو سکتی ہیں وہ باہروالے کو عموماً نہیں ہوتیں۔ مزید یہ کہ غرباء والے
اگرچہ خود کو فرقہ کہنے کی بجائے ’’ جماعت ‘‘ کا نام دیتے ہیں مگر خود ان کے اپنے
غیرمقلدین نے انہیں فرقہ امامیہ کا خطاب دیا ۔ دوسروں کو فرقہ پرستی کا طعنہ دینے
والے غیرمقلدین خود فرقہ پرستی کا شکار ہیں۔
تہذیب اور اخلاق سے گراہوا اشتہار
صحیفہ میں شیخ حمید اللہ غیرمقلد کے متعلق لکھا ہے:
’’جلسہ ختم ہونے کے بعد تیسرے روز آپ نے
ایک اشتہار بعنوان ’’ عبد الوہاب آنجہانی کا سالانہ عرس ‘‘ شائع کیا۔یہ اشتہار
تہذیب اور اخلاق سے اتناہی گرا ہوا ہے جتنا ایک عورت خاوند کی نگاہوں سے بد زبانی
کی وجہ سے گر جاتی ہے اور وہ اُس کی زبان درازی سے تنگ آ کر اُسے طلاق دے دیتا ہے
۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۵)
لیجئے !
شیخ حمید اللہ غیرمقلد کی شخصیت بھی سامنے آ گئی کہ وہ صحیفہ اہلِ حدیث کے مضمون
نگار کے ہاں کس کردار کے مالک ہیں۔
اشتہار
کا پیٹ بدزبانی اور مغالطہ دہی سے بھرا ہے
صحیفہ میں لکھا ہے:
’’شیخ [حمید اللہ صاحب غیرمقلد
(ناقل)]کی قلم اور زبان نے اس اشتہار کا پیٹ صرف بد زبانی اور مغالطہ دہی سے بھرا
ہے ۔بد زبانی کے متعلق ہمیں کچھ پرواہ نہیں کرنی چاہیے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۵)
چلیں ہمیں
معلوم ہوگیا کہ غیرمقلدین اس طرح کے اشتہار بھی شائع کرتے ہیں جس کا پیٹ صرف بد
زبانی اور مغالطہ دہی سے بھرا ہوتا ہے ۔
دلیل
سے عاجز بد زبانی پہ اُترتا ہے
صحیفہ میں مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’بد زبانی کے متعلق ہمیں کچھ پرواہ
نہیں کرنی چاہیے۔ اس قسم کی بدزبانیوں کا بدلہ ہمارے بڑوں نے لیا،نہ ہم لیں۔ یہ تو
ہماری آخرت کا ذخیرہ ہے۔ نیز شیخ صاحب کانفرنس کے سکریٹری اور بزرگ ہیں اگر سو
پچاس گالیاں اور بھی دے لیں تب بھی ہمیں در گذر کرنا چاہیے ۔اور یہ بدیہی بات ہے
کہ جب کوئی شخص اپنے دعویٰ کی دلیل پیش کرنے سے عاجز آجاتا ہے تو وہ اپنی زبان
درازی پر اُتر آتا ہے ۔“
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ربیع الثانی صفحہ ۵)
جی بجا
فرمایا ۔صحیفہ کے ذریعہ ہمیں شیخ حمید اللہ اور غرباء اہلِ حدیث کی بابت کئی اہم
باتیں معلوم ہوئیں۔
مغالطہ
دہی
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ شیخ [حمید اللہ غیرمقلد (ناقل)]صاحب
پبلک کو مغالطہ میں ڈالنے کے لیے لکھتے ہیں : ایک اور بے حیائی اور ملاحظہ کیجئے
کھلی چھٹی یہ ۵ بجے شام کو تقسیم کرتے ہیں اور اس میں لکھتے ہیں کہ ۴ بجے شام جلسہ
میں مناظرہ کے لیے آ جاؤ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۶)
عجیب انکشاف ہے ناں !!؟
بڑھاپا
اور یہ سفید جھوٹ!
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ سچ ہے اذا لم تسحتی فاصنع ما شئت شیخ [حمید اللہ غیرمقلد(ناقل)]صاحب کا بڑھاپا اور یہ
سفید جھوٹ استغفراللہ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۶)
اللہ کی پناہ ،
اُف!!
کفر
باز
صحیفہ میں شیخ حمید اللہ غیرمقلد کے متعلق لکھا ہے ـ:
’’افسوس شیخ صاحب اپنے کفر باز ملاں
مولویوں کے اختراعی الزامات اور اتہامات کو میدان ِ تحقیق میں آکر ثابت نہ کیا اور
نہ ہی قیامت ثابت کر سکتے ہیں ان شاء اللہ ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۷)
جن
غیرمقلدین کو ’’کفر باز مولویوں‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا اُن کے نام لکھ دیتے تو
اچھا ہوتا ۔
حسد
و ضد میں آکر آخرت کو بھول گئے
صحیفہ میں شیخ حمید اللہ غیرمقلد کے بارے میں مزید لکھا :
’’آپ ایک جماعت حقہ اور اس کے مخلص رہبر
کے محض حسد و ضد میں آ کر آخرت ہی کو نہیں بھول گئے بلکہ اپنی دنیاوی تہذیب و
پوزیشن کو بھی خیر باد کہہ چکے ہیں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۷)
او ہو ... افسوس ۔
دامن
ثبوت سے خالی
صحیفہ میں لکھا ہے:
’’ہمارا احقاق ِ حق کے لیے باربار آپ کو
میدان میں تحقیق کے لیے بلانا اور آپ کا گھر میں بیٹھ کر بد زبانی بے لگامی کرنا
پبلک کو صاف بتا رہا ہے کہ آپ اور آپ کے مولویوں کا دامن ثبوت سے خالی ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ربیع الثانی صفحہ ۷)
ُاُن مولویوں کے نام کیا ہیں؟
تکفیری
اشتہار بازی
صحیفہ میں مذکورہ عبارت کے بعد لکھا ہے:
’’ آپ [حمید
اللہ غیرمقلد (ناقل)]کا اشتہار بازی سے صرف مقصد یہ ہے کہ
بڑھے جس سے
نفرت وہ تحریر کرنی جگر جس سے شق ہو وہ تقریر کرنی
گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی مسلمان بھائی کی
تکفیر کرنی
ہے عالموں کا تمہارے طریقہ ہے ہادیوں کا تمہارے سلیقہ
المنکشف جماعت غرباء
اہلِ حدیث دار الامات دہلی۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۷)
غیرمقلدین
میں ایک طبقہ تکفیری ذہن کا ہے اس کا خود غیرمقلدین نے اعتراف کیا ہے اُن میں سے
ایک حوالہ مذکورہ بالا بھی ہے ۔
بیعت
ہونے کا شوق
صحیفہ میں لکھا ہے
:
’’ علاقہ لائل پور (پنجاب ) سے ایک سنتِ
نبوی کے دلدادہ صاحب مندرجہ ذیلہ مشورہ طلب کرتے ہیں: میں مدت سے ارادہ کر رہاہوں
کہ بیعت والی حدیث پر عمل کروں یعنی امام کی بیعت کرکے جماعت میں داخل ہو جاؤں مگر
اس شش و پنج میں ہوں کہ شاہ محمد شریف صاحب گھڑیالوی کی بیعت کروں یا مولوی عبد
الستار صاحب دہلوی کی ۔ سنا ہے کہ شاہ صاحب پرہیز گار زاہد تو ہیں مگر قرآن و حدیث
کے عالم نہیں ۔مولوی عبد الستار صاحب کتاب وسنت کے عالم ہیں ۔ واعظ ہیں، مناظر بھی
ہیں مگر واللہ اعلم آپ کہتے ہیں کہ زکوۃ امام کو دئیے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔ اور
میں چاہتا ہوں کہ جس کی بیعت کروں،اس کو ایک جبہ تک نہ دوں۔آپ مشورہ دیجئے !کس کی
بیعت کروں ؟‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۲۸)
ٍ اس بیعت پر
اُن غیرمقلدین کو تبصرہ کرنا چاہیے جو بیعت صوفیاء پر طعن کیا کرتے ہیں۔
مولوی
عبد الستار زکوۃ نہیں چھوڑیں گے
صحیفہ میں مذکورہ بالا عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’اگر آپ زکوۃ کو تاوان جانتے ہیں اور
اس کے دینے سے گریز کرتے ہیں ۔تو نہ مولوی عبد الستار صاحب کی جماعت میں داخل ہونے
کا نام لیجئے۔اور نہ ہی شاہ صاحب کی بیعت کیجئے ۔ کیوں کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں
۔ مولوی عبد الستار صاحب زکوۃ نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ربیع الثانی صفحہ
۲۸)
غرباء کے
کسی امام کے ساتھ دورانِ بحث کہا گیا کہ آپ امام وقت ہیں تو شرعی احکام کا نفاذ
کیوں نہیں کرتے اور حدود جاری کرنے سے کیوں گریزاں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ہم
ابھی مکی دَور میں گزر رہے ہیں ۔مخاطب نے انہیں جواب دیا : عجیب بات ہے شرعی احکام
و حدود کی بات ہو تو آپ مکی دَور کا حوالہ دیتے ہیں اور جب زکوۃ وصول کرنے کی باری
آتی ہے تو مدنی دَور کے بن جاتے ہیں ۔آپ کی امامت بہت سمجھ دار ہے ۔
مذکورہ حکایت میں
اپنی بعض تحریروں میں غیرمقلدین کے رسالہ سے نقل کر چکا ہوں۔
مرید
کے نذرانے
صحیفہ میں اپنی بات کو جاری رکھے ہوئے مزید لکھا:
’’باقی رہے شاہ صاحب ۔سو اُن کے متعلق
بیان کیا جاتا ہے کہ زکوۃ تو در کنار رہی ۔بلکہ صدقہ ، خیرات اور چندہ وغیرہ سے
بھی ان کی مداد کرنا آپ کافرض ہوگا ۔ اور اس میں اگر تساہل کریں گے تو یاد رکھئے !
آپ جیسا بد نصیب ، بد بخت ، مجرم خدائے قدوس کے دربار میں دوسرا کوئی نہیں ہوگا۔
آپ کے گلے میں رسی ہوگی جس شاہ صاحب اور شریفی امارت کے حافظ عبد اللہ صاحب روپڑی
جیسے خصوصی ارکان پکڑ کر خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے ۔چنانچہ ہمارے اس مقولہ
کی تصدیق کے لیے ’’اخبار تنظیم اہل حدیث ‘‘ مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۲ء کو ملاحظہ
کیجئے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۲۹)
ٍ آؤ جی! دیکھو
!پیر کو نذرانے نہ دینے پرمرید کاکیا حشر ہوگا۔ غیرمقلدین کے ’’ امام العصر ‘‘
حافظ عبد اللہ روپڑی جیسے مصنف کی بابت کتنی بڑی پیشن گوئی کر دی گئی ۔
صوفیوں پر فریفتہ نظر جماعت
کسی نوجوان
نے نکاح کے لیے مجرب عمل پوچھا تو صحیفہ میں اس کا یوں جواب دیا:
’’میں
آپ کی خاطر دو عمل لکھ رہا ہوں ۔ دونوں میں سے جون سا پسند اور آسان ہو کیجئے ۔ ہر
دو عمل تیر بہدف ہیں بار ہا لوگوں نے تجربہ کیا ہے جو کہ یقینا کامیاب ہوئے ہیں ۔
(۱)آپ جماعت غرباء اہل ِ حدیث میں داخل ہو جائیے، اس کے امام کے ہاتھ پر بیعت کر
لیجئے ، پانچوں وقت اول صف میں امام کے پیچھے نماز باجماعت ادا کیجیے ، صبح و شام
کا ورد ، وظیفہ پڑھئے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بہت جلد جماعت میں آپ کا نکاح ہو جائے
گا جماعت ایسے صوفیوں پر فریقتہ نظر آتی ہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۲۹)
بیعت اورصوفیت والے معاملہ پہ نگاہ رہے۔شادی کا جھانسہ دے
کر اپنے امام کی بیعت میں آنے کی دعوت دی جارہی ہے ۔ دو عملوں میں سے ایک تو یہاں
بیان ہوا ۔ دوسراعمل آگے ’’ چھوکری بھی اور نوکری بھی ‘‘ عنوان کے تحت ملاحظہ
فرمائیں۔
گالیاں
دینے اور کفر و شرک کے فتوے لگانے پر چھوکری بھی اور نوکری بھی
اُوپر ’’ صوفیوں پر فریفتہ نظر
جماعت‘‘عنوان کے تحت آپ نے پڑھاکہ نوجوان کو نکاح کا حل بتایا گیا ہے کہ وہ غرباء
اہلِ حدیث میں شمولیت اختیار کرلے۔ اب ایک اور عمل ملاحظہ فرمائیں جس کے ذریعہ نہ
صرف لڑکی سے شادی ہوگی بلکہ ساتھ ساتھ ماہانہ وظیفہ بھی ملے گا۔ چنانچہ مذکورہ
بالامنقولہ عبارت کے بعد لکھا ہے :
’’(۲)اگر یہ عمل نہ ہو سکے تو یہ
کیجئے۔جماعت غرباء اہلِ حدیث کے خلاف اور [غیرمقلدین کی (ناقل )]حمید اللہ پارٹی
کی خوش نودی میں دو تین پوسٹر شائع کیجئے ، جماعت غرباء اہلِ حدیث کو دل کھول کر
گالیاں دیجئے کافر ، مشرک ، خارج از اسلام کہئے۔ کامل یقین ہے کہ ایسا کرنے سے
حمیدیہ پارٹی میں صرف نکاح ہی نہیں ہوگا بلکہ معقول ماہانہ بھی مقرر ہوگا۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ربیع الثانی صفحہ
۲۹)
اُف گالیاں دینے اور کفر و شرک کے فتوے لگانے پر چھوکری بھی
اور نوکری بھی !؟
غنڈوں
کو پذیرائی
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’یہ [حمیدیہ پارٹی (ناقل)]پارٹی ایسے
غنڈوں کو بہت چاہتی ہے یہ عمل تسخیر بے نظیر اور یار لوگوں کا تجربہ شدہ ہے ۔ ہم
نے آپ کو بتا دیا ہے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۲۹)
حمیدیہ پارٹی غیرمقلدین کی ہے جس کی بابت صحیفہ میں لکھا ہے
کہ اس پارٹی میں غنڈوں کو مقبولیت ہے ۔
ایمان
جیب میں
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ ایک دنیا دار شخص مالی جذبات میں آکر
فرماتے ہیں : ملاں مولویوں کا ایمان میری جیب میں ہے ، میں نے مولوی ثناء اللہ
صاحب جیسوں کا ایمان لے لیا۔ تو مولوی عبد الستار (صاحب ) کیا چیز ہے ۔‘‘ دوسرے
مولوی صاحبان کے متعلق تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے مگر مولوی عبد الستار صاحب سے
ایمان جیسی چیز کے لینے کی توقع نہیں ہو سکتی۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۲۹)
’’ مولوی
ثناء اللہ صاحب جیسوں کا ایمان لے لیا۔‘‘ ثناء اللہ صاحب کا تو پتہ چل گیا کہ یہ
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ہیں باقی کون کون سے غیرمقلدین ہیں اُن کی فہرست بھی درج
کر دیتے ۔
آنکھ
کی بجائے ہاتھ سے دیکھنا
صحیفہ میں لکھاہے :
’’اسکاٹ لینڈ میں ایک عورت بجائے آنکھ
کے ہاتھ سے دیکھتی ہے۔ کتاب پر ہاتھ رکھ کر اس کی عبارت پڑھ لیتی ہے ۔ اور اس طرح
ہاتھ رکھ کر رنگ پہچان لیتی ہے سبحان اللہ۔ “
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ
ربیع الثانی صفحہ ۳۲)
اگر اس طرح
کی بات غیرمقلدین کے مخالف کسی مصنف نے لکھی ہوتی تو غیرمقلدین نے اس کا مذاق
اُڑانا تھا۔
آتشِ
دوزخ سے بچنے کے لیے صحیفہ اہلِ حدیث پر ایمان لانا ضروری قرار
شیخ عبد العزیز قریشی لکھتے ہیں:
’’ درِ فیض محمد وا ہے آئے جس کا جی چاہے
نہ آئے آتش ِ دوزخ میں جائے جس کا جی چاہے
نبی علیہ السلام کی تعلیم کی تبلیغ دہلی
و دیگر بلادِ ہند سندھ وغیرہ وغیرہ کے لیے امام جماعت غرباء اہلِ حدیث کے زیرِ
سرپرستی صحیفہ اہلِ حدیث عرصہ سے اسلام کی سچی و توحید کا رہبر چار دانگ عالم میں
جاری ہے ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
جمادی الاول صفحہ ۱۰)
صحیفہ کی
اس عبارت میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جو صحیفہ اہلِ حدیث کی تعلیمات سے اعراض
کرے وہ دوزخ کی آگ میں جلے گااس لیے نار جہنم سے بچنے کے لیے صحیفہ اہلِ حدیث پر
پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اب کسی بزرگ کے مقولہ ’’ نجات میری اتباع پہ موقوف ہے ‘‘
پہ اعتراض کس منہ سے کریں گے؟
زبانی
جمع خرچ ، عمل نہیں
شیخ عبد العزیز قریشی لکھتے ہیں:
’’ جس وقت بیعت لی جاتی ہے اُس وقت یہ
اقرار ہوتا ہے کہ میرا جان و مال سب کچھ اللہ کے راستہ میں بک چکا ہے ۔ عمل اس کے
برعکس ۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ ہمارا دعویٰ صرف زبانی ہے عمل ندارد۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
جمادی الاول صفحہ ۱۰)
صحیفہ کی
اس عبارت ’’ ہمارا دعویٰ صرف زبانی ہے عمل ندارد‘‘ پہ ہم ’’ بے شک ‘‘ کہہ دیتے
ہیں۔
صحیفہ
کو اسلام کا سچا مبلغ قرار دینا
شیخ عبد العزیز
قریشی لکھتے ہیں:
’’اسلام کا سچا خدمت گار اور دین اسلام
کا سچا مبلغ صحیفہ اہلِ حدیث جس کا چندہ صرف ایک روپیہ سالانہ ہے ہم پر کس قدر
گراں ہے شرم کا مقام ہے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ جمادی الاول صفحہ
۱۱)
صحیفہ اہلِ حدیث نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس کے کچھ نمونے
قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
صحیفہ
کو قرآن کا مترجم کہنا
صحیفہ میں
شیخ عبد العزیز قریشی کی نظم درج ہے جس میں صحیفہ اہلِ حدیث کی مدح ہے اس کا ایک
شعر درج ذیل ہے:
’’یہ مترجم ہے قرآں کا ، حدیثوں
کی حمایت ہے
عمل اس کے موافق ہو خدا کی یہ ہدایت ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
جمادی الاول صفحہ ۱۸)
صحیفہ اہلِ
حدیث کو قرآن کا مترجم کہنا بڑی جسارت ہے ۔اس صحیفہ کے مندرجات پر عمل کو ’’ ہدایت
‘‘ کا نام دینا بھی حوصلہ کی بات ہے ۔ یہ مندرجات کیسے اور کیا ہیں ؟اس کا کچھ
نمونہ ہم پیش کر چکے ہیں۔
صحیفہ
کی اشاعت میں حصہ لینا مذہبی فریضہ ہے
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ صحیفہ اہل ِ حدیث کے ہر پڑھنے والے
کا مذہبی ، اخلاقی و قومی فرض ہے کہ وہ ’’ صحیفہ اہلِ حدیث ‘‘ کی اشاعت میں قلم سے
، کلام سے ، خریداری سے اور ہر ممکن طریقہ سے کافی حصہ لے تاکہ ’’ صحیفہ اہلِ حدیث
‘‘ کو زیادہ سے زیادہ شان دار کامیابی حاصل ہو۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
جمادی الاول صفحہ ۲۹)
تقلید کے
وجوب پر اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صحیفہ اہلِ حدیث سے تعاون کا مذہبی
فریضہ ہونا شرعی دلائل سے ثابت کریں۔ اور جنہوں نے اس فریضہ کی ادائیگی نہیں کی
اُن کا حکم بھی بتادیں۔
مبلغ
علیہ السلام ؟؟؟
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’بنگلہ فاضلکا (پنجاب) سے مقامی امیر
شکایت کرتے ہیں کہ جن اراکین جماعت نے جماعتی مبلّغ کے لیے مبلغ علیہ السلام کے
دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اب تک اس وعدہ کو پورا نہیں کیا ۔لہٰذا یاد دہانی
کی جاتی ہے کہ وہ ایفاء وعدہ کی طرف توجہ کریں ۔ وانھا لکبیرۃ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
جمادی الاول صفحہ ۳۰)
عبارت میں مذکور ’’ مبلغ علیہ السلام ‘‘ کی وضاحت مطلوب ہے
۔
عقائدکو
بدنما دھبہ
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ قارئین کرام کو یاد ہوگا ہم نے ماہِ
رمضان المبارک ۵۵ ھ کے ’’ صحیفہ اہلِ حدیث ‘‘ میں لکھا تھا کہ اخبار اہلِ حدیث
امرتسر بعض وقت ایسے مسائل کی اشاعت کرتا ہے جو جماعت اہلِ حدیث کے مسلک اور اصول
کے سراسر خلاف ہوتے ہیں جس سے جماعت اہلِ حدیث کے بلند خیالات ،پاکیزہ عقائد کو بد
نما دھبہ لگتا ہے ۔ چنانچہ چند اُن مسائل کا بھی تذکرہ کیا تھا جو اخبار اہلِ حدیث
نے اپنے پیارے نام اور سنہری اصول اہلِ حدیث کے خلاف شائع کیے ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۵)
صحیفہ اہلِ حدیث کے مضمون نگار کی تصریح کے مطابق اخبار
اہلِ حدیث امرتسر میں غلط عقائد شائع ہوتے ہیں۔
اناپ
شناپ مضامین کا متحمل اخبار
صحیفہ میں
مولانا ثناء اللہ امرتسری کے اخبار اہلِ حدیث کے نام کی تبدیلی کا مشورہ دیتے ہوئے
لکھاہے:
’’فاضل معاصر [امرتسری صاحب(ناقل )]کو
ہم نے مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے اخبار کا نام تبدیل کردیں ۔ اور ساتھ ہی
ایک ایسے نام کی تجویز کردی تھی جو ہر طرح کے اناپ شناپ مضامین کا متحمل تھا ۔
لازمی امر تھا کہ معاصر اپنے اخبار کا نام تبدیل کرتے یا غلط عقیدہ کی تردید
فرماتے مگر آپ نے ایسا نہ کیا ، نہ کرنا تھا ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۵)
مولانا ثناء اللہ امرتسری کو دوسرے غیرمقلدین نے
بھی کہا تھا کہ آپ اخبار وغیرہ کا نام ’’اہل حدیث ‘‘ رکھتے ہیں مگر کام حدیث کے
خلاف کرتے ہیں ۔ دیکھئے رسائل اہلِ حدیث ۔
غلط
مسئلے
صحیفہ میں مذکورہ
عبارت کے فوراً بعد لکھا ہے :
’’ بلکہ الٹا ہم پر جہل کا فائر کرتے
ہوئے غلط مسئلے کے قائم رکھنے کے لیے ایک بارہویں صدی کے مقتدر عالم کے کلام کا
سہارا پکڑا ۔ خیر عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کون جاہل تھا اور کون عالم ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۵)
’’ بارہویں صدی کے مقتدر عالم کے کلام کا سہارا پکڑا‘‘ اسے
تقلید نام دیں گے یا کچھ اور ؟
صحیفہ
اہل ِ حدیث کی بر بنائے جہالت دشمنی
اخبار اہلِ حدیث امرتسر ۰ا شوال ۱۳۵۵ ھ صفحہ ۳ میں لکھا ہے
:
’’ عرب کا مقولہ من جھل شیئا عاداہ [جو
شخص جس چیز(کی حقیقت )سے جاہل رہتا ہے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ (ناقل ) ]بالکل صحیح
ہے اس لیے ہم اپنے معاصر صحیفہ کو ایسا لکھنے پر معذور سمجھتے ہیں ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ ذیقعدہ صفحہ۵)
اچھا جی ٹھیک ہے ۔
خد اہر جگہ ....میں موجود ہے
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ مولانا امرتسری ہی بتائیں کہ دریا کی
پنہائی زیادہ ہے یا وہ کوزہ جس میں دریا بند ہے اور عرب کا مقولہمن جھل شیئا عاداہ
’’صحیفہ اہلِ حدیث ‘ ‘ پر صادق آتا ہے جس کی بلند نگاہیں آفتاب کی کرنوں، ماہتاب
رسالت کی روشنی پر ہیں جو شفیع المذنبین رحمۃ اللعالمین کی شفاعت کے اُمید واروں
کو اس روشنی کی طرف بلا رہا ہے۔یا وہ اخبار اہلِ حدیث جس کی پستی نظر کی رسائی
بمصداق ’’ تھکا اونٹ سرائے کو تکتا ہے ‘‘ صرف کلام ِ شوکانی تک ہے جس کو مقلدین کی
طرح جناب امام الائمہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ِ عالیہ کو نظر انداز کرکے
زید و بکر کے قیل و قال پر گھمنڈ ہے ۔ اور اس کھوٹی پونجی کا امت محمدیہ کو خریدار
بناتا ہے یعنی لوگوں کو بتا تا ہے کہ ان کا خدا ہر جگہ ہے ، ہرمکان ، پائخانہ ،
شراب خانہ ، زنا خانہ وغیرہ میں موجود ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۱۰)
اس عبارت میں اخبار اہلِ حدیث کو کھوٹی پونجی کہنے کے ساتھ
یوں بھی کہا گیا کہ اخبار اہلِ حدیث والوں کا خدا ہر جگہ ہے ، ہرمکان ، پائخانہ ،
شراب خانہ ، زنا خانہ وغیرہ میں موجود ہے۔موجودہ مدعیان اہلِ حدیث ’’ خدا ہر جگہ
....میں موجود ہے ‘‘ عبارت پر تبصرہ کر دیں کہ یہ عقیدہ کیسا ہے اور اخبار اہلِ
حدیث والوں پر کیا حکم لگائیں گے ؟
اللہ
حاظر و ناظر
مولانا
ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد کا عقیدہ تو اوپر آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ ہر اللہ جگہ
موجود ہے ۔اب ایک اور صاحب کی تحریر پڑھئے ۔ بابو عبد الحمید صاحب لکھتے ہیں :
’’ اب میں خدائے بزرگ وبرتر کو حاضر
ناظر سمجھ کر جو کچھ میرا عقیدہ مسئلہ امامت کے متعلق ہے ظاہر کرتا ہوں ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ ۱۴)
بابو صاحب ایک صفحہ بعد لکھتے ہیں:
’’ میں خدا
کو حاضر ناظر سمجھ کر کہتا ہوں کہ ...‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۱۵)
یاد رہے کہ موجودہ مدعیان اہلِ حدیث کے نزدیک اللہ کو ہر
جگہ حاضر ماننا گندہ عقیدہ ہے ۔
صحیفہ
اہلِ حدیث کی اشاعت جماعتی فریضہ
غرباء کے خادم ابو محمد مہاجری صاحب
’’جماعتی فرض ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’جماعت غربا ء اہلِ حدیث کے ہر فرد کا
جماعتی فرض ہے کہ وہ جماعت کے مایہ ناز ’’ صحیفہ اہلِ حدیث ‘‘ کو دنیا کے گوشے
گوشے میں پہنچا دے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۲۹)
پتہ چلا کہ کچھ فرض جماعتی بھی ہوتے ہیں۔
کتبِ
ستہ کی صحت پر اجماع کا دعویٰ
صحیفہ میں لکھا ہے:
’’ کتب ِ صحاح ستہ اسلام کے دفاتر اور
اصول ہیں۔شرق و غرب نے ان کی صحت پر اتفاق کیا ہے ۔“
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۳۱)
اس پر اسلاف کے کچھ حوالے درکار ہیں کہ مشرق و مغرب کے
علماء نے کتب ستہ کی صحت پر اتفاق کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان کتب میں سینکڑوں احادیث
ایسی بھی ہیں جن سے احناف دلیل لیتے ہیں مثلاسیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
سے مروی ترک رفع یدین کی حدیثیں نسائی ،ترمذی اور ابو داود میں موجود ہیں۔
عبد
الوہاب آنجہانی کا سالانہ عرس؟!
صحیفہ اہلِ حدیث میں شیخ حمید اللہ کے بارے میں لکھا ہے :
’’کھلی چِھٹی کو ملاحظہ
فرماتے ہی شیخ صاحب غیظ و غضب میں آ گئے۔ گھونگھٹ کی چادر کو چہرے سے اُٹھا دیا۔
جماعت غرباء اہلِ حدیث کے چار و ناچار بلا واسطہ منہ لگے۔ چنانچہ ایک اشتہار اپنے
اسمِ گرامی سے بعنوان ’’عبد الوہاب آنجہانی کا سالانہ عرس ‘‘ شائع فرمایا۔ جس میں
الزامات کے ثبوت دینے کی بجائے بے لگامی، فحش کلامی کے حیرت انگیز مظاہرے اور
کرشمے دکھائے ہیں جیسا کہ مشتے نمونہ از خروارے ذیل میں درج ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے !
فرماتے ہیں .....‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ربیع
الثانی ۱۳۵۷ھ صفحہ ۴)
غرباء اہلِ
حدیث کے امام ’’ عبد الوہاب ‘‘ کوخود غیر مقلد بزرگ شیخ حمید اللہ نے ’’ آنجہانی
‘‘ کہہ دیا ۔ یاد رہے کہ ابو الاشبال شاغف غیرمقلد نے مقالات شاغف میں شیخ البانی
غیرمقلد کو ’’ آنجہانی ‘‘ کہا ہے ۔
فحش کلامی کے حیرت انگیز مظاہرے اور کرشمے
صحیفہ میں آگے لکھا ہے:
’’امامت کا ڈھونگ ، جھوٹی اور ملعون
امامت کے گڑھے ، پیری و مریدی کے جال ، پٹے پٹائے ... سالانہ عرس ، عرس کی روٹیاں
، غل غپاڑہ ، امامیوں کی کھلی بے ایمانی ، بے حیائی ، بے شرمی ڈھٹائی ، سفلہ پن
کھو گئے ، لال بجھکّر ، بو کھلاہٹ
وغیرہ وغیرہ ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ربیع
الثانی ۱۳۵۷ھ صفحہ ۴)
زبان کی شرافت کے ساتھ ساتھ اس عبارت میں انکشاف موجود ہے
کہ غرباء اہلِ حدیث میں پیری و مرید ی کے جال بچھائے گئے ہیں۔
بے لگامی ، فحش کلامی ، بد زبانی ، نکتہ چینی
صحیفہ میں آگے لکھا ہے:
’’خدا کی قسم جی تو چاہتا تھا کہ رخصت جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شیخ صاحب کو ان کی اس بے لگامی ،
فحش کلامی ، بد زبانی ، نکتہ چینی کا مزہ چکھاتے ، کانفرنس کا ڈھونگ رچانے کا پول
کھولتے ، کانفرنس کا چندہ جو جماعت غرباء اہلِ حدیث کے مقابلہ میں حق مٹانے کے لیے
صَرف کیا جاتا ہے ۔اس پر بھی کچھ روشنی ڈالتے ۔مگر شیخ صاحب چونکہ اُس مقد س مذہب
کے ایک فرد ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے
ما اہلِ حدیثم دغا را نہ
شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ِ ما حیلہ و فن نیست ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ربیع
الثانی ۱۳۵۷ھ صفحہ ۴)
شیخ صاحب سے مراد ’’ شیخ حمید اللہ غیرمقلد ‘‘ ہیں۔
ابو
شیبہ کے ضعف پر اجماع کا دعویٰ
مولانا عبد الحق
ملتانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ابو شیبہ
باجماع محدثین سخت ضعیف ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۶۵ھ
شوال صفحہ۷)
ابوشیبہ کے سخت ضعیف ہونے پر محدثین کی طرف اجماع کو تو
منسوب کر دیا مگر یہ بھی بتا دیتے کہ غیرمقلدین میں سے کس کس نے ابوشیبہ کی سند سے
مروی حدیث کو اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے ۔
بیس
تراویح پر بدعت کافتویٰ
ملتانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ تیسرا سوال یہ تھا کہ قرونِ ثلاثہ
میں سے کسی عالم کی رائے بیس رکعات کے بدعت ہونے کی ہوئی ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق
عرض ہے کہ میری نظر میں کہیں نہیں گزرا کہ کسی اہل علم نے بدعت کہا ہو ۔ ہاں آٹھ
رکعات کا انکار اور بیس کالزوم صریح بدعت ہے جس پر مشاہدہ گواہ ہے۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۶۵ھ
شوال صفحہ۷)
مولانا
غلام رسول صاحب نے بیس رکعات کے اثبات میں مستقل رسالہ ’’ رسالہ تراویح ‘‘ لکھا ۔
بیت اللہ اور مسجد نبوی میں صدیوں سے بیس تراویح کا معمول ہے اُن کی بابت بھی یہی
فتویٰ ہے ؟
مسنون
قراء ۃ والا قرآن
صحیفہ میں ’’قرآن شریف مسنون قراء ۃ والا ‘‘ عنوان قائم
کرکے لکھا ہے:
’’ نہایت ہی عمدہ واضح الفاظ والا سنت
کے موافق مطبوع شدہ سب سے سستا ۔ہم سے طلب کریں۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۷ھ
جمادی الثانی صفحہ ۵)
’’سنت کے
موافق مطبوع ‘‘کی وضاحت کردی جاتی تو اچھا ہوتا۔ دَورِ نبوی میں تو قرآن مطبوعہ
شکل میں تھا ہی نہیں تو اس جملہ کا کیا مطلب ہے ؟ نیز اس کے علاوہ جو دوسرے مطبوعہ
قرآن ہیں وہ مسنون قراء ۃ والے نہیں؟
فیصلہ
حرمین
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’کچھ عرصہ ہوا حمیدیہ پارٹی کی ناپاک
کوششوں سے ایک رسالہ بنام ’’فیصلہ حرمین ‘‘ شائع ہوا تھا ۔ رسالہ مذکور کی اصل
حقیقت تو یہ ہے کہ وہ محض غلط بے بنیاد الزامات ،تہمتوں کے ذریعہ حاصل کیا گیا تھا
جس میں سادہ لوح ، ناواقف بھولے بھالے مسلمانوں کو مغالطہ میں ڈال کر مولانا مولوی
عبد الوہاب صاحب محدث ہند اور جماعت غرباء اہلِ حدیث سے متنفر کرنے کی ناپاک کوشش
کی گئی تھی ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۲ھ ماہ ِ رجب صفحہ۶)
اس کا مطلب
یہ ہے کہ صحیفہ اہل حدیث کے مضمون نگار کے بقول غیرمقلدین کی حمیدیہ پارٹی نے
حرمین کے مقدس نام سے وہ کچھ کیا جو کسی دَور میں احمد رضا خان بریلوی نے ’’حسام
الحرمین ‘‘میں کیا تھا۔
درجہ ٔ صوفیت
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب
سیالکوٹی جو پنجاب کے سرکردہ اہلِ حدیثوں میں سے ہیں ...خدا کی عنایت سے آپ ولی
ہیں ، صوفی ہیں ، فیضِ ولی کے قائل ہیں ۔ درجہ ٔ صوفیت آپ کا بلند ہے۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۲ھ
ماہ ِ رجب صفحہ۱۲)
اس عبارت میں ’’ صوفی ‘‘ کا لفظ مقام مدح میں تحریر کیا ہے
جب کہ موجودہ مدعیان اہلِ حدیث تصوف اور صوفیت کے باغی ہیں ۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرِ کرم
صحیفہ میں
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی غیرمقلد کے بارے میں لکھا ہے :
’’حال ہی میں آپ نے اخبار اہلِ حدیث
امرتسر میں تحر یر فرمایا ہے کہ : ’’اور اہلِ صلاحیت کے دم قدم کی برکت سے
بیماریوں اور آفتوں کا دُور ہونا اور بارشوں کا بوقت ضرورت برسنا اور رزق و مال
میں افزائش (الی ان قال) اور جس کسی پر آپ (رسول اللہ ) کی نظر کرم پڑگئی اس کا دل
خدا کی طرف متوجہ ہوگیا ‘‘ صفحہ ۶ کالم : ۳ مؤرخہ ۱۴ جمادی الثانی ۱۳۶۲ھ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۲ھ
ماہ ِ رجب صفحہ۱۲)
’’جس کسی
پر آپ (رسول اللہ ) کی نظر کرم پڑگئی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہوگیا ۔‘‘ اس کی
ایسی وضاحت کریں کہ کم از کم آپ کے غیرمقلدین تو مطمئن ہو جائیں۔
تدل علی انہ واحد
غرباء اہلِ
حدیث کے خادم مولانا محمد یونس دہلوی صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’رات دن یہ ہم نے بے کار پیدا نہیں کئے
بلکہ ان میں فکر تدبر کرنے والی قوم کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ واقعی کسی نے کیا
خو ب کہاہے :
وفی کل شیء لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ربیع الثانی صفحہ۱۷)
’’وفی کل شیء لہ آیۃ تدل علی انہ
واحد ‘‘‘کو دہلوی
صاحب توحیدی جملہ کے طور پر لائے ہیں جب کہ بعض غیرمقلداس جملہ کو وحدۃ الوجود کا
نام دیتے ہیں جب کہ ان کے ہاں کے وحدۃ الوجود کفریہ عقیدہ ہے ۔ حاصل یہ کہ یہ جملہ
دہلوی صاحب کے ہاں توحید ہے اور دوسرے بعض غیرمقلدین کے ہاں کفر ۔
بریلویت
اور شرک کی بُو
صحیفہ اہلِ حدیث میں لکھا ہے :
’’اخبار ’’تنظیم اہلِ حدیث ‘‘ روپر
مجریہ یکم صفر ۶۰ھ مطابق ۲۸؍فروری ۴۱ھ میں ’’ بہارِ مدینہ ‘‘ کے عنوان سے ایک
نظم شائع ہوئی ہے جس کے ایک دو شعر ناظرین کرام کے ملاحظہ کے لیے درج ذیل ہیں
الہٰی ! میں
آنکھوں کا سرمہ بناؤں
جو مل جائے
مجھ کو غبارِ مدینہ
تمنائے دل اس
قدر رہ گئی ہے
میں ہوں
سامنے ہو مزار مدینہ
اس نظم کے
مصر عوں سے بریلویت اور شرک کی بُو آتی ہے ۔اسی سبب سے اخبار الفقیہ امرتسر مجریہ
۲۲تا۲۹ صفر ۶۰ھ نے اپنے فاسد عقیدہ کی تائید کے لیے بڑے فخر و ناز کے ساتھ اس نظم
کو نقل کیا ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۰ھ
ماہ ربیع الآخر صفحہ۱۵)
’’ بریلویت اور شرک کی بُو ‘‘ ہے یا کچھ اور ۔ہے یہ عبارت
مدعیان اہلِ حدیث کی ۔
بریلویوں
کے بھی کان کتر ڈالے
صحیفہ میں اس عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’سچ تو یہ ہے کہ ناظم صاحب نے نظم
مذکور میں بریلویوں کے بھی کان کتر ڈالے ہیں۔ بریلوی حضرات اکثر نیم کا سرمہ تیار
و استعمال کرتے ہیں ۔مگر ناظم صاحب خاک ِ مدینہ کا سرمہ لگانے کو تڑپ رہے ہیں اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزار دیکھنے کے لیے بے قرار ہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۶۰ھ
ربیع الآخر صفحہ۱۷)
چلو جی یہ
بھی اک اہم انکشاف ہے کہ مدعیان اہلِ حدیث کے کچھ لوگ بریلویوں سے بھی آگے نکل گئے
۔کان کترنے سے مراد یہی ہے ناں کہ اُن سے آگے نکل گئے ۔روضہ نبوی دیکھنے کے بے
قرار شخص وہاں کیسے جائیں گے ؟ غیرمقلدین کے ہاں تو روضہ نبوی کی زیارت کے لیے سفر
کرنا ممنوع ہے ۔
مزار
اور اس کی خاک کے متمنی
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’اجی حضرات ! جب آپ رسول اللہ کے مزار
اور اس کی خاک کے متمنی ہیں تو پھر مزار، خانقاہ بنانے اور ان کی خاک کو شفا سمجھ
کر لانے والوں کی دن رات کس منہ سے تردید کرتے ہیں‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۶۰ھ
ربیع الثانی صفحہ ۱۶)
اس کا جواب انہی یعنی آپ کے مخاطب مدعیان اہلِ حدیث کے ذمے
ہے وہ بتائیں کہ وہ کس منہ سے تردید کرتے ہیں۔
صفات باری تعالی میں تاویل
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’نیز اخبار تنظیم اہلِ حدیث کی اشاعت
مذکورہ کے صفحہ ۲ پر جو نظم درج ہے اس میں بھی قابلِ اعتراض باتیں مثلا ً
’’دستِ قدرت غافلوں کا کب ہوا ہے دستیار!
اب نہ مطرب ہے ، نہ ساقی ہے نہ وہ ایام ہیں ۔‘‘
لفظ دستِ قدرت اور مطرب ( قوال) قابلِ
غور ہے ۔ صفات الہٰی کی ناجائز تاویل کرنے کی وجہ سے آپ حضرات نے مولوی ثناء اللہ
امرتسری پر تکفیری فتووں کی لے دے کی ہے اور خود اس کا ارتکاب کرتے ہیں کیا خدا کے
ہاتھ قدرت کے ہیں ؟ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۶۰ھ
ربیع الثانی صفحہ ۱۶)
پتہ چلا کہ صفات باری کی بابت غیرمقلدین میں بھی اختلاف ہے
۔ ایک دوسرے پر لے دے بھی چلتی رہتی ہے ۔
گانا
بجانا ، ناچنا، شراب پینا
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’اور گانا بجانا ، ناچنا، شراب پینا
جائز ہے جیسا کہ مصرعہ ’’اب نہ مطرب ہے ‘‘ ظاہر کر رہا ہے ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۸ھ
ربیع الثانی صفحہ ۴)
’’اور گانا بجانا ، ناچنا، شراب پینا جائز ہے۔‘‘ واقعی ؟
اگر ایسا ہے تو کیوں؟کیا قرآن وحدیث کی خلاف ورزی نہیں؟
الزامی جوابات سے ہمیں معاف رکھیں
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’درخواست ہے کہ’’ تنظیم اہلِ حدیث ‘‘
ان [غلطیوں (ناقل)]کی اصلاح فرمائے ۔ آئندہ خیال رکھے اور الزامی جوابات سے ہمیں
معاف رکھے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۶۰ھ
ربیع الثانی صفحہ ۱۶)
تنظیم اہلِ حدیث نے اُن غلطیوں کی اصلاح کی ہو ہمیں اس کا
علم نہیں ۔ کسی غیرمقلد کو معلوم ہے تو ہمیں بھی مطلع کرے۔
امرتسری
صاحب کی بیان کردہ توحید
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے
اخبار اہلِ حدیث امرتسر مجریہ ۱۵؍ صفر ۶۰ھ مطابق ۱۴؍ مارچ ۴۱ء میں اپنے ناظرین
کرام کو مرزائی ، عیسائی، شیعی، علی پوری کی توحید دکھائی ہے اور خوب دکھائی ہے
جزاہ اللہ خیرا مگر ساتھ ہی اپنی یہ توحید بھی دکھا گئے کہ ساتوں
آسمان اور عرش مُعلّٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے ہے
چنانچہ اخبار مذکور کے الفاظ ہیں
تھے جب افلاک اور عرشِ مُعلّٰی زیر پا تیرے
نہ پھر کیونکر ترے باپوس کے ہو
زیر پا دنیا
اُمید ہے کہ مولوی صاحب موصوف اس کی
اصلاح فرمائیں گے ورنہ اندیشہ ہے کہ آنے والی نسلیں جب اخبار اہلِ حدیث کے پرچہ کو
دیکھیں گی تو یہی کہیں گی کہ مرزائی ، عیسائی ، علی پوری اور اہلِ حدیث کی توحید
یکساں تھی ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۶۰ھ ربیع الثانی صفحہ۱۷)
موجودہ
مدعیان اہلِ حدیث مذکورہ عبارت میں درج جملہ’’ مرزائی ، عیسائی ، علی پوری اور
اہلِ حدیث کی توحید یکساں تھی۔‘‘ کی وضاحت کریں اور یکسانیت کو کھول کر بتائیں۔
بیعت
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’بیعت: منڈی ہارون آباد سے واپسی کے
وقت حضرت الامام ڈبر منچن آباد میں تشریف فرما ہوئے۔ وعظ و نصیحت سے مستفید
فرمایا۔ ۷۲ مرد ۱۷ عورتوں نے امام صاحب کی بیعت میں داخل ہوئے۔ خدا استقامت دے
آمین ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۶۰ھ
ربیع الثانی صفحہ ۱۷)
پتہ چلا غرباء اہلِ حدیث میں بیعت کا معمول بھی ہے ۔بیعت کے
منکر غیرمقلدین پہلے غرباء سے والوں سے نمٹ لیں۔
فاروق
اعظم
صحیفہ میں امام قتیبہ کے حوالے سے لکھا ہے :
’’امام بخاری اپنے زمانہ کے فاروق اعظم
تھے اگر گروہ صحابہ میں ہوتے تو بن کر چمکتے ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۶۰ھ
ربیع الثانی صفحہ ۲۵)
غیرمقلدین
کے ہاں ’’ اعظم ‘‘ کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس لیے وہ کسی امتی
کو امام اعظم کہنے پر اعتراض کر دیتے ہیں تو اس جگہ امتی کے لیے فاروق اعظم کا لفظ
کیسے لکھ دیا ؟
مسنون
قراء ۃ والا قرآن مجید معریٰ
صحیفہ میں
’’مسنون قراء ۃ والا قرآن مجید معریٰ ‘‘کے عنوان سے خوش خبری شائع ہوئی جس کے
الفاظ یہ ہیں:
’’مدت سے آر زو تھی کہ اہلِ اسلام جیسے
دیگر اعمال سنت نبویہ کے مطابق بجا لانے کے ہمیشہ خواہاں و جویاں رہتے ہیں ایسے ہی
قرآن مجید کی تلاوت سنت نبوی کے مطابق کریں۔بحمد للہ یہ خواہش پوری ہوئی کہ قرآن
مجید مسنون قراء ۃ چھپ کر تیار ہے پس شائقین سنت نبوی کوچاہیے کہ یہ قرآن مجید
منگوا کر پڑھیں اور اپنی اولادوں کو بھی ابتداء سے پڑھائیں ...ملنے کا پتہ : منیجر
صحیفہ اہلِ حدیث صدر بازار دہلی۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ذیقعدہ صفحہ ۱۳)
اس پر
تبصرہ پہلے ہو چکا ہے ۔ موجودہ مدعیان اہلِ حدیث عبارت بالا میں مذکور مسنون قراء
ۃ والا قرآن پڑھتے ہیں یا غیرمسنون ؟ نیز یہ بھی بتائیں غرباء اہلِ حدیث کے شائع
کردہ اس مزعومہ مسنون قراء ۃ والے قرآن کی اشاعت سے پہلے کون سا قرآن پڑھا جاتا
تھا ۔غرباء اہلِ حدیث کے ہاں معروف ’’ مسنون قراء ۃ والا قرآن ‘‘ اَب کہیں سے مل
جاتا ہے ؟ اس کا ایک نسخہ ہمیں بھی مطلوب ہے جو صاحب بھی لا دیں ہم اس کا ہدیہ فی
الفور ادا کریں گے ان شاء اللہ۔
امرتسری
تفسیر
ابو سلیمان
عبد الرحمن صاحب ( مدرسہ دار الکتاب والسنہ صدر دہلی )’’مولوی محمد صاحب جونا گڈھی
جواب دیں ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’قارئین کرام ! مولوی محمد صاحب ایڈیٹر
اخبار محمدی نے اپنے اخبار محمدی مجریہ ۱۵؍ جون ۳۸ءمیں لکھا ہے کہ :’’اغلاط
(تفسیر ) ثنائی کی نسبت ایک حرف تک نہ لکھنا چاہیے ‘‘ سو میری مولوی صاحب کی خدمت
میں مخلصانہ التماس ہے کہ کیا جناب کے نزدیک مولوی ثناء اللہ کی عربی تفسیر کے جن
مقامات سے بوجہ خلاف ہونے تفسیر سلف کے علماء اہلِ حدیث نے اختلاف کیا ہے ۔ مولوی
ثناء اللہ صاحب تفسیر کردہ معانی درست ہیں تو کھلے طور پر اعلان کر دیں کہ مولوی
ثناء اللہ صاحب کے تفسیر کردہ معانی میرے نزدیک بھی درست ہیں ۔ لہٰذا کوئی شخص ان
کے خلاف ایک حرف تک نہ لکھے۔‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ۱۳۷۵ھ ذی
قعدہ صفحہ ۲۷)
امرتسری
تفسیر کے اغلاط کی بابت رسائل اہلِ حدیث میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے ۔ بندہ اپنی زیر
ترتیب کتاب ’’ غیرمقلدین قرآن و سنت کی کسوٹی پر ‘‘ میں غیرمقلدین کی زبانی اُن
اغلاط نقل کرے گا ان شاء اللہ۔
معتزلہ
، جہمیہ اور گمراہ فرقوں کے عقائد
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھا ہے :
’’ اگر آپ کے نزدیک سلف صالحین کی
تفاسیر درست ہیں تو پھر آپ اپنی سرگوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے مولوی ثناء اللہ صاحب
کو کیوں نہیں ہدایت کرتے کہ وہ سلف سے اتفاق کر لیں اور جماعت اہلِ حدیث میں
معتزلہ ،جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے عقائد نہ پھیلائیں ۔مجھے اُمید ہے کہ مولوی
محمد صاحب اس کا بہت جلد جواب عنایت کرکے شکریہ کا موقع دیں گے ۔‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ۱۳۷۵ھ ذی
قعدہ صفحہ ۲۷)
امرتسری
صاحب سلف سے اتفاق کیسے کریں جب کہ انہوں نے مظالم روپڑی میں کہا ہے کہ مجھے اس کی
کوئی پرواہ نہیں کہ میرے اختیار کردہ موقف کا حامی پچھلے ادوار میں کوئی ہو یا نہ
ہو۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر جگہ جگہ اسلاف کی خلاف ورزی کی دیکھئے
الاربعین ۔ یہ رسالہ رسائل اہلِ حدیث میں شامل ہے ۔
’’ جماعت
اہلِ حدیث میں معتزلہ ،جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے عقائد نہ پھیلائیں ‘‘ اس سے
معلوم ہوا غیرمقلدین ’’اہلِ حدیث‘‘ جیسے خوش کن لیبل کے ذریعہ کیا کچھ پھیلا رہے
ہیں۔
مولوی
ثناء اللہ صاحب کی صحبت سے اعتزال و جہمیت ...
اسی صفحہ پر حاشیہ میں لکھا ہے ـ:
’’مولوی ثناء اللہ صاحب کی صحبت سے
متاثر ہو کر مولوی محمد بھی اعتزال و جہمیت کی طرف تو مائل نہیں ہوگئے۔‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ۱۳۷۵ھ ذی
قعدہ صفحہ ۲۷)
مولوی محمد مائل ہوئے یا نہیں ..یہ تو بعد کے مؤرخ کی ذمہ
داری ہے کہ وہ اس پر اپنی تحقیق پیش کرے ۔ البتہ اس عبارت سے یہ تو معلوم ہورہا ہے
کہ امرتسری صاحب بقول صحیفہ اہلِ حدیث اعتزال و جہمیت والے تھے ۔
قرآن
ختم کرنے والا پھر سے المفلحون تک پڑھے
صحیفہ میں درج ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو۔
’’س:حافظ ماہ رمضان المبارک میں قرآن
مجید سناتے ہیں ۔جب آخر یعنی سورہ تک پہنچتے ہیں تو پھر اول سے المفلحون تک پڑھتے
ہیں۔ اس کا قرآن و حدیث سے کوئی پتہ چلتا ہے ؟ جواب سے مطلع فرمائیں ۔
ج: جامع ترمذی شریف مطبوعہ مجتبائی دہلی
کے صفحہ ۱۱۸جلد ۲ میں ابن عباس سے مروی ہے : ایک شخص نے عرض کیا :اے رسولِ خدا کون
سا عمل خداتعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے ؟ حضور نے فرمایا : اترنے والا ، کوچ کرنے
والا یعنی قرآن شریف کو ختم کرکے پھر اول سے شروع کرنے والا۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ماہ
رمضان صفحہ۸)
اُمید ہے کہ غیرمقلدین اس مسئلہ پر عمل پیرا ہوتے ہوں گے
۔عام غیرمقلدین کا عمل ہو یا نہ صحیفہ اہلِ حدیث والوں کا تو ہوگا۔
کثیر
تعداد میں بھینسوں کی قربانی
صحیفہ میں’’ قربانیاں ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا ہے :
’’امسال بھیڑوں ، دنبوں ، بکروں کی
بکثرت قربانیوں کے علاوہ دہلی کمیلہ میں ۱۳؍ ذی الحجہ کی دوپہر تک گائے بھینس کی
تقریبا ۸۰۰ قربانیاں ہوئیں۔مدرسہ دار الکتاب والسنۃ کی جانب سے ۱۳؍ ذی الحجہ کو
ایک بھینس کمیلہ میں ذبح کی گئی جس کو مسنون دُعا پڑھ کر امام صاحب حفظہ اللہ نے
ذبح کیا ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۴ھ
ماہ محرم الحرام صفحہ۱۶)
عقیدہ خلق
قرآن
مولانا عبد
اللہ لائل پوری لکھتے ہیں:
’’حوالہ جات بالا سے صاف عیاں ہے کہ
تلاوت و قرآت بمعنیٰ مصدری مخلوق ہیں اور بمعنٰی مفعولی غیرمخلوق ۔ لیکن فاضل
ایڈیٹر اہلِ حدیث مفعولی معنی کو مخلوق خیال فرماتے ۔ملاحظہ ہو مظالم روپڑی صفحہ
۱۶ ھذا نصہ جو چیز لکھی اور پڑھی جاوے وہ مخلوق ہیں ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۰ھ
ماہ ِ ربیع الاول صفحہ۲۶)
’’فاضل
ایڈیٹر اہلِ حدیث‘‘ سے مراد مولانا ثناء اللہ امرتسری ہیں اور مظالم روپڑی انہی کی
کتاب ہے ۔ یہ کتاب ’’رسائل اہلِ حدیث ‘‘ جلد اول میں شامل ہے ۔
اس عبارت میں
مولانا ثناء اللہ امرتسری کے متعلق کہاگیا ہے کہ وہ خلق قرآن یعنی قرآن کے مخلوق
ہونے کے قائل ہیں ۔
جہمیہ معتزلہ
...
لائل پوری
صاحب آگے لکھتے ہیں :
’’ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی خدمت
میں بادب عرض ...آپ اپنے فتوے پر نظر ثانی فرما کر محدثین سلف کی روش اختیار
فرماویں اور جہمیہ و معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ چھوڑ دیں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۰ھ ماہ ِ ربیع الاول
صفحہ۲۶)
اس عبارت میں
مولانا ثناء اللہ امرتسری کے متعلق چند باتوں کا انکشاف ہے :
۱۔ امرتسری
صاحب کو محدثین کی روش اپنانے کی تعلیم ہے ۔
۲۔ ان کو اسلاف کی روش اختیار کرنے کی تاکید ہے
۔
۳۔ انہیں معتزلہ کے طریقہ کو چھوڑنے دینے کی
گزارش ہے ۔
۴۔ اسی طرح انہیں جہمیہ کے راستہ کو بھی ترک کی
تلقین ہے ۔
امام ابو
حنیفہ رحمہ اللہ پر فتویٰ بازی
مولانا عبد
اللہ لائل پوری صاحب لکھتے ہیں:
’’یہی وہ[خلق قرآن( رب نواز )] مسئلہ
ہے کہ جس کی وجہ سے علماء سلف نے امام ابو حنیفہ ؒ کو مشرک کا فتویٰ لگادیا تھا
حتی کہ امام ابو یوسف ؒ کی لگاتار دو ماہ کی کوشش سے امام صاحب رجوع فرما لیا ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۰ھ
ماہ ِ ربیع الاول صفحہ۲۷)
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خلق
قرآن کے قائل نہیں تھے ۔اس کی تائید میں بندہ نے غیرمقلدین کی متعدد عبارات اپنی
کتاب ’’ غیرمقلدین کا امام ابوحنیفہ کو خراجِ تحسین ‘‘میں نقل کر دی ہیں۔
غیر صحابی کے
لیے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کا جملہ
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب رضی
اللہ عنہ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۰ھ ماہ ِ ربیع الاول
صفحہ۳۲)
غیرمقلدین کسی کتاب میں امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ کے ساتھ ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کا جملہ دیکھ لیں توتلملا اُٹھتے ہیں جب کہ
وہ خود کئی بزرگوں اور اپنے علماء کے لیے یہ جملہ لکھ چکے ہیں کئی حوالے بندہ نے
اپنی کتاب ’’ فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ میں نقل کر دئیے ہیں اورایک حوالہ
اوپرمذکور ہوا ۔
محدث لاثانی
...قابل اتباع
غرباء اہلِ
حدیث کے امام عبد الستار صاحب اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں:
’’عالم متبحر ، محدث لاثانی ...کی
زندگی کے شاندار ، قابل اتباع کا ر نامے ضبط کئے جائیں تاکہ آنے والی سعید روحیں
اُس سے مستفیض ہوں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۶۰ھ
ماہ ِ ربیع الاول صفحہ۳۲)
انہیں ’’محدث لا ثانی‘‘ کہنے میں
مبالغہ ہے یا نہیں ؟اس کے متعلق خود غیرمقلدین کی عبارات پڑھ لینا کافی ہیں جو اُن
کے خلاف لکھی گئی ہیں۔
مزید یہ کہ
اس عبارت میں مولانا عبدا لستار صاحب کو قابل اتباع کہاگیا ہے ۔ غیرمقلدین ائمہ
اربعہ کو قابلِ اتباع نہیں مانتے اس لیے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فرق بتائیں
کہ ائمہ اربعہ قابلِ اتباع کیوں نہیں اور مولانا عبد الستار غیرمقلد قابلِ اتباع
کیوں ہے ؟
حیرت انگیز
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ استنبول کے قریب ایک ترک مسمی
مصطفی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ سن رسیدہ انسان ہے۔ اس وقت عمر ۱۷۴ سال کے قریب
ہے لیکن وہ جوانوں کی طرح مستعد نظر آتا ہے۔ اس نے گذشتہ سال گیارہویں شادی کی ہے۔
اس سے پہلے اس کی دس بیویاں مر چکی ہیں ۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۸ھ
ماہ ِ شعبان صفحہ۲۶)
اگر اس طرح کی بات غیرمقلدین کے
مخالفین کسی کی کتاب میں لکھی ہوتی تو اس کا کیسے مذاق اُڑایا جاتا ؟
مُرَوّجہ فقہ
مولانا عبد
القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ علم فقہ
قرآن و حدیث ہے، اور سب صحابہ فقہاء تھے ۔ مروجہ فقہ بدعت ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ
ماہ ِ شعبان صفحہ۱۸ )
اس عبارت میں قرآن و حدیث کو علم فقہ
کہا گیا ہے ۔لہذا فقہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے والے نعر ے پہ نظرثانی کی ضرورت ہے ۔
یاپھراس کا صحیح اور حقیقی مصداق غیرمقلدین کی فقہ ہے ۔
’’مروجہ
فقہ بدعت ہے‘‘ اس مروجہ فقہ میں علامہ وحید الزمان کی کتابیں نزل الابرار من فقہ
النبی المختار اور نواب صدیق حسن خان کی کتاب ’’ الروضۃ الندیۃ ‘‘ بھی شامل ہیں یا
نہیں ؟فقہی مسائل پر لکھی گئیں کتب غیرمقلدین کا استثناء کس دلیل ہے ؟ مزیدیہ کہ
مروجہ فقہ پر تو بدعت کا فتوی لگا دیا مگر دیگر علوم :مروجہ اصول حدیث ، مروجہ فن
اسماء الرجال ،مروجہ صرف و نحو اور لغت و بلاغت وغیرہ کا حکم بھی بیان کر دیتے ۔
ابو ہریرہ
فقیہ ہے
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’اصول الشاشی وغیرہ کتب اصول فقہ میں
حضرت ابو ہریرہ ؓ کو غیرفقیہ قرار دیا ہے حالاں کہ دیگر کتب میں اس کی تردید
ہے...شرح مسلم الثبوت...، قمرالاقمارحاشیہ نور الانوار... ، چلپی حاشیہ توضیح ،
ظفر الامانی لمولانا عبد الحی ...، فصول الحواشی شرح اصول الشاشی وغیرہ میں حضرت
ابو ہریرہ ؓ کو فقیہ تسلیم کیا گیا ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۰)
چلو آپ نے تردیدی بیان بھی نقل کر دیا ۔
امام صاحب
مرحوم رضی اللہ عنہ
عبد الرزاق
صاحب( منڈی پان صدر بازار دہلی) لکھتے ہیں:
’’معبود برحق اللہ عز وجل کی جناب میں
دعا کرتا ہوں کہ اس جماعت غرباء قائم کردہ امام صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کو قیامت
تک قائم رکھے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ ماہ ِ شعبان
صفحہ۲۸)
یہاں غیرصحابی کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ
‘‘ کا جملہ لکھا گیا ہے ۔آگے بھی اس طرح کی عبارت مذکور ہو گی ان شاء اللہ۔
تھیٹر کی
تفریح
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ایک حضرت مولانا جو پچھلے دنوں میں
’’ جماعت غرباء اہلِ حدیث ‘‘ سے نکل کر حمیدیہ پارٹی میں جا ملے تھے ۔ ڈاڑھی پر
مولویت کا حجاب ڈالے ہوئے ٹھیٹر کی تفریح فرما رہے۔ پنجابی لڑکے پیچھے بیٹھے ہوئے
اُن سے کہہ رہے ہیں : ’’ مولانا صاحب ! تھیٹر اور آپ؟ بڑی غیرت کی بات ہے ۔ آپ تو
بڑے پارسا بن کر امامیہ جماعت کی بُرائی میں بڑے زور و شور کے ساتھ اشتہار نکال
رہے تھے ۔ (مولانا صاحب حجاب اُٹھا کر فرماتے ہیں ) اچھا بھائی! جو تمہارے جی میں
آئے کہہ لو ۔ میں نے تو مولانا ثناء اللہ امرتسری کے فتوے پر جو بائیسکوپ دیکھنے
کے جواز کے بارے میں ہے عمل کیا ہے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی:۱۳۵۷ھ ماہ
ِ شعبان صفحہ۲۸)
غرباء والے بھی اہلِ حدیث ہونے کے
مدعی ہیں اور حمیدیہ پارٹی بھی مدعیان اہلِ حدیث کی ہے۔ ٹھیٹر دیکھنے والامذکورہ
بندہ اہل حدیث کہلوانے والوں کا ایک فرد ہے ۔اس عبارت میں غیرمقلد کے متعلق یہ بھی
مذکور ہے کہ انہوں نے امرتسری صاحب کے فتوی پرعمل کیا، جب کہ دعویٰ یہ ہے کہ اہل
حدیث امتیوں کے فتاوی پہ نہیں ،قرآن و حدیث پر عمل کیاکرتے ہیں۔
ماموریت کی
نکیل
صحیفہ میں اس
عبارت کے فورًابعد لکھا ہے :
’’ناظرن کرام!دیکھا۔یہ ہیں امام جماعت
سے علیحدہ ہو کر آزاد پارٹیوں میں شامل ہونے کے بد نتیجے۔مولانا صاحب جب جماعت میں
داخل تھے تو ماموریت کی نکیل ناک میں پڑی ہوئی تھی ۔ پابندی کے ساتھ صراط مستقیم
پر چل رہے تھے۔ شیطانی دروازے بند تھے۔ اور جماعتی برکات کے ابواب کھلے ہوئے تھے۔
خدا تعالیٰ کی محافظت کا ان پر ہاتھ تھا ۔ مگرجونہی مولانا نے جماعت سے علیحدگی
اختیار کی تو جھٹ شیطان لعین کے ہتھے چڑھے ۔ پھر کیا تھا برکات کی جگہ نحوست برسنے
لگی ۔ خدا کے ہاتھ کی بجائے شیطان کا ہاتھ آگیا۔ ماموریت کے قائم مقام آوارگی کا
تسلط ہوا۔ حیا کی جگہ بے حیائی چھا گئی ۔ بس مولانا صاحب حدیث :اِ ذا لم تستحیی فاصنع ما شئت کے پورے مصداق ٹھہرے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ ماہ ِشعبان
صفحہ۲۹)
لو جی یہ سارے فتوے اس وجہ سے ہیں کہ
وہ بندہ جماعت غرباء کے امام کی ماموریت سے نکل گیا ۔ غیرمقلدین پہلے تقلید کی رسی
کا طعنہ دوسروں کو دیتے رہے ہیں ۔ اب ماموریت کی نکیل سے نکلنے کا طعنہ خود اپنے
اہلِ حدیث کو دے دیا ۔مطلب وہ یہ نکیل اپنے اہلِ حدیثوں کے ناک میں ڈالے رکھنا
پسند کرتے ہیں۔
تہمتیں
لگائیں اور خوب گلچھڑے اُڑائے
غیرمقلدین کی
’’حمیدیہ پارٹی‘‘ کے ایک مولوی صاحب کی بات منقول ہے :
’’میں نے ’’ اشارات نگار ‘‘ کے بتائے
ہوئے وظیفہ پر عمل کیا۔ امامیہ جماعت کے خلاف اشتہارات شائع کئے، تقریریں کیں،
تہمتیں لگائیں۔ ماشاء اللہ خوب کامیاب ہوا۔ حمیدیہ پارٹی کی نگاہوں میں نہایت
مقبول ہوا ۔ دو چار مہینے خوب گلچھڑے اُڑائے۔ مگر ہائے افسوس ! تین
چار ماہ سے وظیفہ مذکور کا اثر بے اثر ہو گیا ہے ۔ پھر اسی طرح پریشانی کے عالم میں
ہوں ۔ کس نمے پرسد کہ بھیا کون ہو۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۲۹)
قارئین کرام ! آپ نے مختلف وظیفے سنے
اور پڑھے ہوں گے مگر غیرمقلدین کی طرف سے ایجاد کردہ مذکورہ وظیفہ شاید پہلی دفعہ
آنکھوں سے گزر رہا ہوگا ۔
ابو جہل سے
تشبیہ
صحیفہ میں
مذکورہ عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’مولوی صاحب!آپ اشارات نگار پر بے جا
خفا ہو رہے ہیں۔ اس نے کب آپ کو عمر بھر کی گارنٹی لکھ دی تھی۔ دو چار مہینے ہی
غنیمت سمجھو۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بدر کے دن ابلیس علیہ اللعنۃ نے ابو جہل
کا کہاں تک ساتھ دیا تھا ۔ مکہ مکرمہ سے میدان بدر میں قدم رکھنے تک نا ؟ ابو جہل
کی پارٹی کو محمدی جماعت کے ساتھ بھیڑانے تک نا؟فلما تراء ت
الفئتان نکص علی عقبیہ وقال انی بریء منکم انی اری مالا ترون انی اخاف اللہ واللہ
شدید العقاب۔ جب دونوں
فریق لڑنے لگے تو ابلیس یہ کہتا ہوا ابوجہل سے الگ ہوگیا ۔ میں تم سے بیزار ہوں اس
لیے کہ میں دیکھ رہا ہوں جماعت محمدی کے لیے آسمان سے فرشتے آ رہے ہیں یقینا میں
خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا کی پکڑ سخت ہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۰)
ٖاس عبارت
میں غرباء اہلِ حدیث کو محمدی جماعت سے موسوم کر کے دوسرے غیرمقلد کو ابوجہل اور
شیطان سے تشبیہ دے چھوڑی ۔
حیاسوز اتہام
صحیفہ میں مذکورہ عبارت کے فوراً بعد لکھا ہے :
’’اب یہ صورت ہو سکتی ہے کہ ہر چہار
ماہ کے بعد آپ لوگ عمل کی تجدید کر لیا کریں یعنی جماعت غرباء اہلِ حدیث پر دو چار
حیاسوز اتہام لگا کر اشتہار شائع کر دیا کریں ۔ مگر قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ
زمانہ گیا جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے ۔ شیخ الزّر بہت ہی ہوشیار ہو گئے
ہیں شاید ہی وہ اب ان پیٹ پرستوں کو منہ لگائیں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۰)
صحیفہ کی اس عبارت کے پیش نظر غرباء
اہلِ حدیث کے مخالف غیرمقلدین حیاسوز تہمتیں لگا کر دنیاوی صلہ حاصل کرتے ہیں ۔اور
اُن میں کوئی ’’’ شیخ الزر ‘‘ پیسے کے پجاری بھی ہیں۔
محمد علی
جناح کا فرمان اور ....
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’مسلم لیک کے صدر مسٹر محمد ؐ علی ؑ
جناح فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کی نجات اسلامی احکام کے ما تحت صرف اپنی جماعت یعنی
مسلم لیگ میں شامل ہو کر حاصل ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ (ملاحظہ ’’الامان ‘‘ دہلی مؤرخہ ۲۵
؍ ربیع الثانی ۵۷ھ مطابق ۲۵ جون ۳۸ء ) کیا فرماتے ہیں حمیدیہ پارٹی کے علماء اس
مسئلہ کے بارے میں کہ مسٹر جناح کا مندرجہ بالا قول صحیح ہے یا غلط یا قادیانی
آواز ہے ؟آیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے بغیر مسلمانوں کی نجات نہیں ہو سکتی ؟ اگر یہ
قول صحیح ہے تو حمیدیہ پارٹی اس میں شامل ہو کر نجات کیوں نہیں حاصل کرتی ؟ اور
اگر یہ قول غلط ہے ، قادیانی آواز ہے ؟ تو حمیدیہ پارٹی کے علماء مسلم لیگ اور اس
کے صدر مسٹر جناح کے حق میں تکفیری متفقہ فتویٰ شائع کرکے حمایت ِ دین کا ثبوت دیں
گے ؟دیدہ باید‘‘
( صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۰)
حمیدیہ پارٹی غیرمقلدین کی ہے انہوں
نے غرباء اہل حدیث پر فتوی بازی کی اس لیے غرباء والوں کو مذکورہ عبارت لکھ کر
سوال کرنا پڑا۔
صحیفہ اہلِ
حدیث کی اشاعت بڑھانا فرض اولین
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’رسالہ صحیفہ اہلِ حدیث کی اشاعت
بڑھانا ہر مسلمان مرد ، عورت کا فرض اولین ہے‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۰)
اشاعت صحیفہ کے بڑھانے کی فرضیت پرکوئی صریح
دلیل بھی ذکر کر دیتے ۔ اگر اس کے منکر و مخالف کا حکم بھی تحریر ہوتا تو بہتر تھا
۔ بریلویت کے قائد نے اپنی کتابوں کے مندرجات پر عمل کرنے کو سب سے بڑا فرض کہا
اور آپ نے صحیفہ کی اشاعت بڑھانے کو اولین فریضہ ۔
جلسہ کا آغاز
تلاوت سے
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’بوقت صبح تلاوت کلام اللہ کے بعد
طلباء مدرسہ او ڈاں فاضلکا نے مختلف عنوانوں پر تقریریں کیں ....نماز ظہر کے بعد
قرآن خوانی ہوئی اس کے بعد مولوی عبد القادر صاحب حصاروی نے ضرورتِ امام پر عقلی و
نقلی دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۱)
جلسہ کی
ابتداء تلاوت سے کرنے کو بعض غیرمقلدین نے بدعت کہا ہے ۔مزید یہ کہ اس عبارت میں
’’قرآن خوانی ‘‘ کے الفاظ بھی درج ہیں۔
اسلامی احکام پر پابند رہنے کی بیعت
صحیفہ میں غرباء اہلِ حدیث کے ایک
جلسہ کی کار گزاری بیان کرتے ہوئے کہاگیا :
’’جلسہ
میں تقریبا ً چالیس آدمیوں نے اسلامی احکام کے پابند رہنے کی بیعت کی ۔ نیز مقام
ڈہنڈیاں میں ستائیس مرد اور سولہ عورتوں نے بیعت کی۔ خدا تعالیٰ استقامت بخشے آمین
‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۵۷ ۱۳ھ
ماہ ِشعبان صفحہ۳۲ )
غیرمقلدین عمومًا کہا کرتے ہیں کہ
احکام پر پابند رہنے کی بیعت ناجائز اور غیر ثابت ہے مگر مذکورہ عبارت میں احکام
پر پابند رہنے کی بیعت مذکور ہے۔
بچے کے کان
میں اذان دینے پر حدیثیں
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ایک محفوظ جگہ سے منتقل ہو کر ایک
ایسے عالم میں بچے نے قدم رکھا ہے جو نہایت ہی خطر ناک ہے جس میں ہزار فتنوں،
آفتوں، بلاؤں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لہٰذا اس سے محفوظ رکھنے کے لیے بچے کے کان میں
اذان دی جاتی ہے۔ یہ اذان خدائے عزو جل کی طرف سے عظیم الشان امان ، پناہ ، بچاؤ
ہے ۔چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جس قوم ، جس خاندان ، جن
لوگوں میں صبح کے وقت اذان دی جاتی ہے۔ وہ شام تک خدا تعالیٰ کی پناہ میں رہتے ہیں
اور شام کے وقت اذان دی جاتی ہے۔تو وہ صبح تک خدائے تعالیٰ کی امان میں رہتے
ہیں۔(مجمع الزوائد ص ۱۳۹ ج۱) نیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : جب کسی
بستی ، شہر میں اذان دی جاتی ہے تو وہ اُس روز عذابِ الہٰی سے محفوظ رہتا ہے
۔(مجمع الزوائد ص ۱۳۹ ج۱) آنحضور علیہ السلام کے خادم انس بن مالک رضی للہ عنہ سے
مروی ہے : نبی علیہ السلام اکثر صبح کے وقت چھاپا مارا کرتے تھے ۔ اذان کا انتظار
فرمایا کرتے تھے۔ اگر اذان ہوتی تو رک جاتے ورنہ چھاپا مارتے تھے۔ (مشکوٰ ۃ ص ۶۵
ج۱) ...اسلام کی یہ تعلیم ہے اور یہی حق و انصاف ہے کہ جس صنائع حقیقی نے اپنی
قدرتِ کاملہ سے ایسا حسین و شکیک بچہ عنایت فرمایا ہے جس کی تصویر ، تخلیق ،
ایجاد، ساخت سے تمام کائنات عاجز ہے ۔ فقط ۔ اسی اکیلے کی امان ، پناہ ، دہائی دی
جائے۔ یہ اذان جو بچے کے کان میں دی جاتی ہے۔ یہ خدائے تعالیٰ کی جانب سے بچے بچے
کے خاندان اور اہلِ بلد کے لیے امان ، پناہ ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیثوں سے ثابت
ہے۔
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ماہ رمضان صفحہ۳،۴)
آج کل بعض غیرمقلدین کی کتابیں پڑھنے
سے پتہ چلا کہ یہ لوگ نومولود بچے کے کان میں اذان کو غیر ثابت کہتے ہیں جب کہ
صحیفہ کی مذکورہ عبارت میں اسے تسلیم کیا گیا اور بزعم خود بات کو مدلل کرنے کی
کوشش بھی کی ۔
بچے کے کان
میں اذان پر کچھ مزید
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے ہیں : جس وقت اذان دی جاتی ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دعا
قبول ہوتی ہے۔ ( مجمع الزوائد ) لہٰذا اس خیال سے بچے کے کان میں اذان دی گئی کہ
درازئ عمر اور نیک بختی کی دُعا جو بچے کے حق میں کی جائے۔ وہ بارگاہ میں الہی میں
مقبول ہو۔ پیغمبر خدا احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے: اذان اور قرآن
شریف کی حُسنِ آواز کو خدا تعالیٰ کان لگا کر سنتا ہے ۔( مجمع الزوائد ص ۱۳۹ج ۱)
چوں کہ اذان ایک ایسی محبوب اور پیاری آواز ہے جس کو خود خدائے تبارک و تعالیٰ
دوست رکھتا ہے اور کان لگا کر سنتا ہے ۔ لہٰذا صالح فال، نیک شگون کے ارادے سے یہ
محبوب آوازبچے کے کان میں دالی گئی کہ بچہ اچھی باتوں کو سننے کو دوست رکھے اور
بُرے خیالات سے دُور رہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ماہ رمضان صفحہ ۴)
لیجئے ٓصحیفہ میں نومولود کے کان میں
اذان دینے کی دلیل بھی ذکر کردی ۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ اس اذان کو غیر ثابت کہنے
والے غیرمقلدین کیا تبصرہ کرتے ہیں ؟ وہی تبصرہ جو قبر پہ اذان دینے والوں کے
مزعومہ دلائل پہ کرتے ہیں یا کچھ اور؟
مولانا عبدا لوہاب کا کوئی مسئلہ غلط نہیں ، دعویٰ
محمد یوسف
صاحب مکی لکھتے ہیں:
’’ناظرین باتمکین !آپ حضرات خوب واقف
ہیں کہ امام الموحدین رأس المتقین ، شیخ العارفین ابو محمد عبد الوہاب غفر اللہ
ذنبہ و نور مرقدہ و وسع مدخلہ نے اپنی اَسی سالہ زندگی میں ...ہندوستان وغیرہ کے
چپہ چپہ و گوشہ گوشہ میں جن محکم مسائل حقہ کی قرآن و حدیث کی روشنی میں اشاعت و
تبلیغ کی ہے۔ ان میں سے کسی کی ماں نے اتنا دودھ نہیں پلایا کہ اس نے کسی ایک
مسئلہ کو بھی نصوص شرعیہ سے غلط اور جھوٹا کر دکھایا ہو یا کر دکھائے بلکہ بفضلہ تعالیٰ جو
بھی اُن مسائل حقہ کا مقابل ہوا منہ کی کھاکر اُلٹا گرا‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ماہ رمضان صفحہ ۷)
مولانا عبد الوہاب کی بابت مبالغہ
ارائی دیکھ لی ۔ جناب! مولانا مذکور کے کئی مسائل کو خود غیرمقلدین نے غلط قرار
دیا ہوا ہے ۔ مولانا اور ان کی جماعت غرباء کے خلاف غیرمقلدین کے رسائل شائع ہو
چکے، جن میں اُن پر شرک کے فتوے بھی لگائے گئے ۔
فوقیت عامہ
کا دعویٰ
یوسف صاحب نے
عبد الوہاب صاحب کے بارے میں مزید لکھا :
’’ آپ بفضلہ تعالیٰ اپنے ہم عصر علماء پر ہر مسئلہ میں صداقت تامہ
اور فوقیت ِ عامہ رکھتے تھے اور کل مسائل میں یقینا حق بجانب تھے منجملہ اُن کے
ایک مسئلہ امامت اور ادائے زکوۃ ہے۔‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ماہ رمضان صفحہ ۷)
اس فوقیت کو دوسرے تو کجا خود
غیرمقلدین نے تسلیم کیا؟ اُن کے سب مسائل کی حقانیت کا دعوی بھی بڑی بات ہے۔ کتب
بینی کا شوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اُن کے دعوی امامت اور مسئلہ ادائے زکوۃ پر
خود غیرمقلدین نے کافی کچھ لکھا ہے ۔مثلاً دیکھئے مولانا محمد جونا گڑھی کا رسالہ
’’ظل محمدی ‘‘ یہ رسالہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم میں شامل ہے ۔
رموز و اوقاف
والا قرآن بدعت !!!
صحیفہ
میں’’مسنون قراء ۃ قرآن مجید مُعرّیٰ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا ہے :
’’مدت سے آرزو تھی کہ اہلِ اسلام جیسے
دیگر اعمال سنت نبوی کے موافق بجا لانے کے ہمیشہ خواہاں و جویاں رہتے ہیں ویسے ہی
قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت بھی سنت نبوی کے مطابق بجالائیں پس الحمد للہ آج یہ
خواہش اور دلی تمنا ظہور پذیر ہوئی کہ مسنون قراء ۃ والا قرآن مجید چھپ کر تیار
ہوا اور بوجہ قراء ۃ مسنونہ کے ہندوستان بھر کے قرآن پر سبقت اور بازی لے گیا
فالحمد للہ علی ذلک ۔ جس کی پشت پر اکابر علماء... سے اس امر کابھی ثبوت دیا گیا
ہے کہ جملہ رموز اوقاف مروجہ بدعت اور خلاف ِ طریقہ ٔ نبویہ ہیں۔ پاس جملہ عاشقان
سنت ِ نبوی پر لازم اور ضروری ہے کہ فوراً قرآن مجید مذکور منگوا کر خود بھی موافق
قراء ۃ نبوی کے تلاوت کریں اور اپنی اولاد ، ازواج و احباب کو بھی ابتداء ہی سے
قراء ۃ مسنونہ کی عادات ڈال کر اجر دارین و رضائے رب العالمین کے مستحق بنیں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ماہ رمضان صفحہ ۲۸)
غیرمقلدین نے بدعت کے فتوے لگاتے لگاتے
رموزو اوقاف والے قرآن کی اشاعت کو بھی بدعت کہہ دیا !!گویا جو لوگ رموز و اوقاف
والے قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں وہ بدعتی ہیں ۔ جناب ! آپ نے اپنے طبع کردہ قرآن
کو’’ مسنون قراء ۃ والا‘‘ نام کس بنیاد پہ دیا ۔ صرف رموز و اوقاف نہ ہونے کی وجہ
سے ؟اگر دَور نبوی میں رموز و اوقاف والا قرآن نہیں تھا توسوال یہ ہے کہ تب یک جا
جمع شدہ کتابی شکل میں قرآن تھا؟ توکتابی شکل میں جمع شدہ قرآن کی اشاعت اور تلاوت
پر کیا فتویٰ لگائیں گے؟
امتی کے لیے
’’رضی اللہ عنہ ‘‘ کا لاحقہ
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’اکابر علماء مثل شاہ ولی اللہ صاحب
محدث دہلوی و شیخ الاسلام امام ابن ِ تیمیہ وغیرہ رضی اللہ عنہم ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۹ھ
ماہ رمضان صفحہ ۲۸)
شاہ ولی اللہ
محدث دہلوی حنفی مقلدہیں اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ حنبلی ۔ گویا ان مقلدین کو
صحیفہ میں اکابر علماء میں شمار کیا ہے ۔ مزید یہ کہ ان کے لیے ’’رضی اللہ عنہم ‘‘
کا جملہ بھی لکھ دیا جب کہ بعض غیرمقلدین نے غیر صحابی کے لیے اس جملہ کو لکھنا
قابل ِ اعتراض ٹھہراتے ہیں۔
اہلِ حدیثوں
نے مسائل ِ شرعیہ پردۂ اخفا میں رکھ دئیے
صحیفہ میں
لکھاہے :
’’اس دَورِ فتن میں جب کہ دیگر علمائے
تو کیا بعض نام کے اہلِ حدیثوں نے بھی بہت سے مسائل شرعیہ کو پردۂ اخفا ء میں ڈال
کر طاق ِ نسیان میں رکھ دیا ہے اور دن بدن ان میں نیچریت اور صلح کل کی غیر شرعی
ہوا جذب ہوتی جاتی ہے ۔ مشاہدہ گواہ ہے اگر یقین نہ ہو تو اہلِ بدعت و اہلِ ہوا کے
اشتہارات و مجالس میں علماء اہلِ حدیث کے نام بھی دیکھ لو !‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ
ماہ محرم صفحہ ۱۳)
صحیفہ کی
مذکورہ عبارت میں چند چیزوں کا انکشاف ہے۔
۱۔اہلِ حدیثوں نے کئی مسائل شرعیہ کو پر دہ
اخفاء میں رکھ کر بھلادیا ۔
۲۔ اُن میں
نیچریت پھیلتی جاتی ہے ۔
۳۔اُن میں
صلح کل کی غیر شرعی ہوا بھی جذب ہوتی جاتی ہے۔
۴۔ اہل بدعت کے اشتہارات میں اہلِ حدیثوں کے نام
بھی درج ہوتے ہیں۔
بے نماز کا جنازہ
صحیفہ میں
لکھاہے :
’’صلوا علی من قال لا الہ الا اللہ و صلوا خلف من قال لا الہ الا اللہ اس حدیث کی
مدنظر رکھ کر فقط کلمہ گو کا جنازہ پڑھانا اور تارک ِ نماز کے پیچھے نماز پڑھنے کا
فتویٰ کلکتے والے اہلِ حدیثوں نے دیا ہے۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ ماہ محرم صفحہ ۲۵)
آگے صحیفہ
والوں نے اپنی رائے درج کی ہے :
’’صرف کلمہ گو یعنی تارک ِ صوم و صلوٰ
ۃ کا جنازہ پڑھنا شرعاًثابت نہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ
ماہ محرم صفحہ ۲۵)
آگے لکھا ہے
:
’’جو لوگ صرف زبانی اور رسمی و رواجی
کلمہ گو ہیں اور کلیۃً شرک و بدعت سے باز نہیں آتے جس میں ترک صلوٰۃ وغیرہ بھی
داخل ہے وہ کافر و منافق ہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :۱۳۵۷ھ
ماہ محرم صفحہ ۲۶)
صحیفہ کی مذکورہ عبارتوں کا خلاصہ یہ
ہے کہ تارک نماز اور تارک روزہ منافق ہیں، اس لیے اُن کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں
مگر کلکتے والے اہلِ حدیثوں نے ان کے جنازہ پڑھنے کا فتوی دیا ہے ۔
نواقضاتِ روزہ
کرم الجلیلی
الہاشمی صاحب لکھتے ہیں :
’’دروغ گوئی ، جھوٹ، فحش بیانی، بے
حیائی ، جعل سازی ، مکاری فریب دہی ، چغل خوری ، غیبت اور گالم گلوچ سے زیادہ ٹوٹ
جاتا ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۸۹ھ ،۱۶رمضان صفحہ ۱۶)
غیرمقلدین کے ہاں مذکورہ اُمور روزہ توڑنے والے
ہیں ۔اس لیے اگر حالت روزہ میں ان سے یہ گناہ صادر ہو جائیں تو وہ رمضان کے بعد
ایسے روزوں کی قضا کیاکریں۔ بلکہ غیرمقلدین ہی اس کا حکم بتا دیں کہ ایسی صورت میں
صرف قضا ء ہوگی یاکفارہ بھی ؟
صدقہ فطر
کرم الجلیلی الہاشمی
صاحب لکھتے ہیں:
’’نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا ضروری
ہے ۔نماز عید ادا کرنے سے یہ صدقہ فطر نہیں رہتا بلکہ ایک عام صدقہ کے حکم میں ہو
جاتا ہے ...قیمت دینا بھی جائز ہے ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۸۹ھ ، ۱۶
رمضان صفحہ ۱۶)
غیرمقلدین میں یہ مسئلہ اختلافی ہے کہ
نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا ہوتا ہے یا نہیں ۔ اسی طرح یہ بھی اختلاف ہے کہ
صدقہ فطر میں اجناس کی بجائے قیمت دینا جائز ہے یا نہیں ۔
بے نماز کا
نکاح ، جنازہ وغیرہ
صحیفہ اہلِ حدیث میں’’حامیان بے
نمازیاں کے دلائلِ مزعومہ پر تبصرہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھاہے :
’’دو از دہم بے نماز کی سزا قتل ہے جس
سے ظاہر ہے کہ بے نماز کا کفر، کفر ارتداد ہے ...یہ تیرہ قرائن اور دلائل جس سے
غیر مکفرین بے نمازوں کے بھائیوں کی سب تاویلیں باطل ہو گئیں اور یہ ثابت ہو گیا
کہ بے نماز کافر حقیقی اور مشرک خارج از اسلام ہے جس سے نہ نکاح جائز ہے اور نہ اس
کا جنازہ پڑھنا جائز ہے ، اور نہ وہ مسلمانوں کا وارث ہے ۔‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۸۹ھ ،۱۶
شوال صفحہ ۷)
جب کہ اس کے برعکس دوسرے کئی غیرمقلدین بے نماز
کو حقیقی کافرکی بجائے من وجہ کافر کہتے ہیں اور بعض غیرمقلدین کے نزدیک تو تو بے
نماز کو مسلمان ہی ہی ہے۔ بہرحال صحیفہ کی مذکورہ عبارت کے مطابق بے نماز حقیقی
کافر ہے ،اس کا نکاح جائز نہیں اور مرجائے تو جنازہ بھی جائز نہیں ۔ اَب یہ معلوم
نہیں کہ اس فتوے پر ان کا عمل بھی ہے یا نہیں ؟
علماء اہلِ رائے کی تقلید
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ترکِ صلوٰۃ کفر بواح ہے جس سے آج کل
کے علماء اہلِ رائے کی تقلید سے متاثر ہو کر غافل ہو رہے ہیں ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۸۹ھ ،۱۶شوال
صفحہ ۱۰)
صحیفہ نے تو
راز کھول دیا ہے کہ غیرمقلدین ویسے تو تقلید کو ہر بُرائی کا سرچشمہ کہتے ہیں مگر
یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ چُھپ چُھپ کے تقلید کیا کرتے ہیں ۔مزید حیرت یہ کہ تقلید
بھی اہل الرائے کو جنہیں وہ اہلِ حدیث کے مد مقابل ٹھہرا کر ان پر گمراہی کا فتویٰ
لگایا کرتے ہیں۔
سب گھروں
والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
جلیلی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ایک گھر والوں کی طرف سے ایک بکری
کافی ہے چاہے وہ کتنے ہی ہوں ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث: ۱۳۸۹ھ یکم ذی
الحجہ صفحہ ۶)
صحیفہ والوں کو چاہیے تھا کہ اس اصول
کے مطابق یہ مسئلہ بھی حل کر دیتے کہ اگر کوئی شخص بڑا جانور قربانی کرے تو وہ
کتنے افراد کی طرف سے کافی ہوگا ۔ جب ایک بکری سارے گھر (مثلاًسوافراد) کی طرف سے
کفایت کر جاتی ہے ۔ توبڑا جانور سات بکریوں کے قائم مقام ہونے کی وجہ سے سات گھروں
(کے سات سو افراد)کی طرف سے کافی ہونا چاہیے؟ ۔
وتروں میں
ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا
کسی نے سوال
کیا :
’’وتر کی آخری رکعت میں ہاتھ اُٹھا کر
دعا مانگنے کا حدیث پاک سے ثبوت عطا فرمائیں ‘‘
کرم الجلیلی الہاشمی نے
اس سوال کے جواب میں لکھا:
’’ صراحۃ ً تو میری نظر سے نہیں گزرا
(پھر مطلق ہاتھ اُٹھانے کی احادیث درج کرکے لکھتے ہیں(ناقل )] ان سے ثابت ہوا کہ
وتروں میں دعا کرتے وقت ہاتھ اُٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث :۱۳۹۰ھ یکم محرم صفحہ ۷)
وتروں میں ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے
کو دیگر کئی غیرمقلدین قیاسی مسئلہ کہاہے ۔ صحیفہ والے نے بھی قیاس کیا مگر قیاس
کا نام نہیں لیا ۔
مقلدین کی
اقتداء میں نماز کا حکم
جلیلی صاحب
لکھتے ہیں:
’’چوں کہ مقلدین حضرات محض تقلید امام
کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات کا انکار کرتے (ہیں)اور
ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے اس لئے ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث :۹۰ ۱۳ھ ماہ
صفر صفحہ ۲۸)
حدیثوں کے خلاف امتیوں کی تقلید اہلِ
حدیث کہلوانے والوں کا شیوہ ہے ۔رسائل اہلِ حدیث دیکھ لیں۔ مگر صحیفہ کے مضمون
نگار الزام مقلدین پر لگا رہے ہیں ۔ اگر مقلدین سے تقلیدی اہل ِحدیث مراد لے لیں
تو یہ عبارت حق بحق دار رسید کامصداق ہوگی ۔
سیدنا عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تین دن قربانی کے قائل تھے
مولانا عبد
القادر حصاروی صاحب لکھتے ہیں:
’’دوسرا مسلک تین دن کا ہے کہ ایک عید
کا دن ہے اور دو دن اس کے بعد ہیں یہ عبد اللہ ابن عمرؓ وغیرہ سے مروی ہے ۔یہ بھی
ہمارے قریب ہے صرف ایک دن قربانی کرنے کا مسلک سراسر مردود ہے جس پر کوئی دلیل
قائم نہیں ہے عرب و عجم میں تعامل اس کے خلاف ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث:۰ ۱۳۹ھ یکم
ربیع الاول صفحہ۲۴)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
کا فتویٰ تین دن قربانی کے جواز کا ہے ۔ جب کہ غیرمقلدین کی اکثریت کی رائے کے
مطابق قربانی کے دن چار ہیں اُن کی رائے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے
خلاف ہے ۔ دیگر صحابہ کرام کا نظریہ بھی تین دن قربانی کرنے کا ہے ۔ ثبوت کے لیے
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کی کتابیں : مقالات اور توضیح الاحکام دیکھ لیں۔
حافظ ابنِ
تیمیہ اور شیخ جیلانی حنبلی المسلک ہیں
جناب محمد
اسماعیل آزاد صاحب لکھتے ہیں:
’’شیخ عبد القادر جیلانی ؒ حنبلی مسلک
کے پیرو تھے فقہ اسلام کے چاروں مسالک میں سے حنبلی مسلک کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے
کہ یہ توحید باری تعالیٰ کے تنزیہی تصوّر پر مضبوط اعتقاد رکھنے کی تعلیم دیتا ہے
اس مسلک کے ماننے والوں میں امام ابن تیمیہ ، امام جوزی اور شیخ عبد القادر جیلانی
عالم اسلام کے درخشندہ ستارے ہیں اگرچہ اہلِ تصوف نے شاہ عبدا لقادر جیلانی کو
سلسلہ صوفیاء میں شمار کیا ہے لیکن ان کی کتاب غنیۃ الطالبین حنبلی فقہ کی کتاب ہے
‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ
۱۶؍ربیع الثانی صفحہ۱۸)
صحیفہ نے حقیقت بیان کردی کہ علامہ
ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ دونوں حنبلی المسلک
مقلدہیں انہیں تارکِ تقلید کہنے والے غیرمقلدین کی بات غلط ہے ۔
مشرکوں سے
مصاحبت اور موانست
عبد القادر
حصاروی صاحب لکھتے ہیں :
’’غور
اور فکر کریں کہ ہمارے سلف سچے ، پکے غیرت مند اصلی اہلِ حدیث تھے یا آج کل کے خلف
جو مشرکوں ، کافروں ، ملحدوں ،اشراروں اور حرام کارو ں سے مصاحبت و موانست اور
قربانیوں میں شمولیت رکھتے ہیں ...آج ہمارے علماء پہاڑوں برابر شرکوں ، کفروں اور
بدعتوں سے متنفر ہو کر ان کا ارتکاب کرنے والوں بیزار نہیں ہوتے ببیں تفاوتِ راہ
از کجا است تا کجا ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ
۱۶؍ربیع الثانی صفحہ۱۸)
پتہ نہیں حصاروی صاحب کو اپنے سوال کا
جواب ملا یا نہیں کہ اصلی اہلِ حدیث کون ہیں ؟ حصاروی صاحب یہ بتا دیتے تو بہتر
ہوتا کہ اس جگہ اسلاف سے مراد کون ہیں ؟
اہلِ حدیث کے
عقائد و اعمال بدل گئے
حصاروی صاحب
لکھتے ہیں:
’’میں نے خود مشاہدہ کیا انقلاب ہند
کے بعد جب لوگ ہجرت کرکے آئے تو جو اہلِ حدیث مشرکوں اور بدعتیوں میں مقیم ہوئے وہ
انہی کی طرح ہوگئے اس لیے بعض محدثین نے یہ باب باندھے ہیں کہ اہلِ ہوا سے بغض اور
مجانبت رکھے ۔ آج مشرکوں سے میل جول رکھنے سے عقائد و اعمال بدل گئے ہیں اور باہم
شیر و شکر ہو رہے ہیں ۔ ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ
۱۶؍ربیع الثانی صفحہ۱۸)
سبب
جو بھی ہو اتنی بات تو حصاروی صاحب نے تسلیم کر لی ہے کہ اہلِ حدیثوں کے عقائد
واعمال تبدیل ہوگئے اور وہ مشرکوں و بدعتیوں کی طرح ہو گئے ۔
اونٹ میں سات
قربانیاں
حصاروی صاحب
نے صحابی کی بات نقل کی:
’’ آنحضرت صلعم نے ہم مسلمانوں کو یہ
حکم صادر فرمایا کہ ہم گائے اور اونٹ قربانی کریں تو سات حصہ دار باہم شریک ہوں ہر
بدنہ میں ساتواں شریک ہم میں سے ہو ۔‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ
۱۶؍ربیع الثانی صفحہ۱۸)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ میں سات
افراد شامل ہو سکتے ہیں جب کہ بعض غیرمقلدین نے اس کے برعکس فتوی دیا کہ اونٹ میں
دس آدمی قربانی کر سکتے ہیں ۔
اہلِ مدینہ
نے کفریہ عقیدہ کی وجہ سے نکال دیا
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’
موجودہ افراد خاندانِ لکھویہ کے بہت معمراور بزرگ شخص مولانا محمد علی صاحب ہیں جو
بہت طویل عرصہ ملک حجاز عرب کے مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہنے کی وجہ سے مدنی
مشہور ہیں لیکن اب ان کو مدنی کہنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ اہلِ مدینہ نے ان کو
کفریہ عقیدہ کی وجہ سے نبوی شہر سے خارج کردیا ہے اب وہ بزبان ِ حال یہ شعر پڑھتے
ہیں ۔
نکلنا
خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے مدینہ
سے ہم نکلے ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ جمادی
الاولیٰ صفحہ۱۷مطابق ۶ جولائی ۱۹۷۰ء شمارہ: ۹)
صحیفہ نے اپنے اہلِ حدیث بزرگ کے متعلق مذکورہ
بالا عبارت لکھی کہ انہیں اہلِ مدینہ نے کفریہ عقیدہ کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا
۔ وہ مدنی تو نہیں البتہ مدینہ سے نکالے ہوئے تو ہیں۔
فتویٰ تکفیر
نے منہ سیاہ کر دیا
گذشتہ عبارت
کے متصل بعد لکھا ہے :
’’ قرآن ناطق ہے تلک الایام نداولھا بین الناس ہم لوگوں میں زمانہ کو بدلتے رہتے ہیں ایک دن وہ تھا کہ
آپ شہر نبوی میں شیخ الحدیث کی مسند پر جلوہ افروز تھے آج وہ دن ہے علماء اسلام
عرب و عجم نے آپ کے کفریہ عقائد کی وجہ سے فتویٰ تکفیر کی تشہیر سے آپ کا منہ سیاہ
کر دیا کہ اب خاص و عام اہلِ اسلام آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے
بلکہ مصلے سے اتار دیتے ہیں ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۱۷ )
اللہ اکبر!
عرب و عجم کے اہلِ اسلام کے فتوی کی زَدمیں آکر کس انجام کو پہنچے ؟
مولوی محمد علی پر فتوئے تکفیر
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’اس اصل کی رُو سے فرقہ مرزائی اور
مولوی محمد علی لکھوی کافر و مرتد قرار پائے کیوں کہ یہ لوگ احادیث نزول مسیح علیہ
السلام اور روایت قتل دجال بذریعہ مسیح ؑ کے منکر اور مکذب ہیں میرے اور میرے
رفقائے قافلہ کے رو برو مولوی محمد علی صاحب صحیحین خصوصاً بخاری کی حدیثوں کو
ناقابل اعتبار قرار دیا ۔‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۱۸)
اس عبارت میں منجملہ باتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ
مولانا محمد علی لکھوی غیرمقلد صحیفہ اہلِ حدیث کی عبارت کے مطابق بخاری و مسلم کی
حدیثوں کے باغی ہیں۔
بزرخ والوں
کو دنیا کی اطلاع
صحیفہ میں
لکھاہے :
’’مجھے افسوس یہ ہے کہ مولانا محی
الدین مرحوم کو مدینہ کے قبرستان میں عالمِ برزخ میں جب یہ اطلاع ہوئی ہوگی تو بہت
صدمہ ہوا ہوگا کہ میرا لڑکا میرے قرب وجوار میں رہ کر کنعان کی طرح میرے فتوے کا
مورد بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے نکال گیا۔ انا للہ وانا الیہ
راجعون ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۱۹)
اس عبارت میں یہ تاثر موجود ہے کہ فوت
شدہ انسان کو دنیا کے حالات کی خبر ہو سکتی ہے ۔لہذااگر اس طرح کی بات مخالفین کی
کسی کتاب میں مل جائے تو غیرمقلدین کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔
مرزائی خوش
ہو رہے ہیں
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’اور آج مرزائی خوش ہو رہے ہیں کہ
مولانا محی الدین لکھوی نے ہمارے مسیح پر جو فتوے کفر کے لگائے تھے وہ فتویٰ ان کے
صاحب زادے پر چسپاں ہو گیا ہے ۔ اگر مولوی محمد علی صاحب میں رائی برابر بھی عقل
ہے تو وہ خدا را اِس باطل عقیدہ کفریہ سے توبہ کریں۔
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۲۰)
اس عبارت سے معلوم ہورہا ہے کہ جس شخص
پر فتویٰ کفر لگایا گیا ہے وہ مولانا محی الدین لکھوی ( غیرمقلد ) کا بیٹا ہے ۔
اجماع کی مخالفت گمراہی ہے
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’آپ کا یہ عقیدہ اجماع امت کے خلاف
ہے اور خرقِ اجماع عین ضلالت ہے ۔‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم جمادی الاولیٰ
صفحہ۲۰)
غیرمقلدین اجماع کی حجیت کے متعلق
کوئی اتفاقی موقف آج تک پیش نہیں کر سکے ۔ کچھ تو اسے حجت سمجھ کر اس کی مخالفت کو
گمراہی بلکہ کفر قرار دیتے ہیں۔ ( تفسیری حواشی صلاح الدین یوسف )اور کچھ سرے سے
اسے حجت ہی نہیں مانتے ۔ لیکن دلائل سے اس کی حجیت ہی ثابت ہے ۔
مرزاقادیانی
کی گود میں جا گرے
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ پھر جب خود [مرزا قادیانی (ناقل )]
نبی اور مسیح مثیل بننے لگا تو اس نے حضرت عیسی کی وفات کا ڈھول پیٹنا
شروع کر دیا اور اس نے کتابیں لکھیں جن کو پڑھ کر مولوی محمد علی لکھوی ایسے کمزور
ایمان والے لٹو ہو گئے اور اسلام سے نکل کر کفر میں جا پڑے۔ ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۲۱)
عجیب انکشاف ہے کہ مولوی محمد علی
لکھوی ( غیر مقلد ) نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے فوت ہو جانے کا نظریہ حدیثوں کے
برخلاف مرزا غلام احمد قادیانی کی اتباع میں اختیار کیا ہے۔ افسوس !!ائمہ کرام کی
تقلید سے تو وحشت لیکن مرزا غلام احمد کی پیروی کر لی ، پیروی بھی حدیثوں کے خلاف
، عقیدہ کے مسئلہ میں اور عقیدہ بھی اجماعی ۔ امت محمدیہ کا اتفاق ہے کہ سیدنا
عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ ہی آسمان پر اُٹھا لیا تھا اور وہ قیامت
کے قریب زمین پر تشریف لائیں گے ۔
بخاری و مسلم
کی بعض حدیثیں من گھڑت ہیں
مذکورہ عبارت
کے متصل بعد لکھا ہے:
’’ ٹریکٹ میں مرزا قادیانی کے کئی کفر
درج ہیں ان میں حیات مسیح کا انکار ہے اور بخاری و مسلم کی سب حدیثیں صحیح نہیں
بلکہ بعض غیر صحیح اور موضوع ہیں یہ دوسرا کفر ہے یہی عقیدہ مولوی محمد علی کا ہے
جو انہوں نے میرے رو برو بیان کیا تھا ۔ ‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم جمادی الاولیٰ
صفحہ۲۱)
مرزا غلام احمد سے ہم نوائی کس حد تک
اختیار کی گئی ۔اول تو حیات عیسی کا انکار ، پھر چوں کہ بخاری و مسلم کی حدیثوں سے
سیدنا عیسی علیہ والسلام کی حیات کا اثبات ہے اس لیے اُن پر ضعف و من گھڑت ہونے کی
چھاپ لگا دی ۔
خروجِ دجال
اور ظہور مہدی کا انکار
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ میں کہتا ہوں کہ اس بناء پر مولوی
محمد علی لکھوی کافر مرتد ثابت ہوئے کیوں کہ مرزا کے کئی عقائد کفریہ ان میں پائے
جاتے ہیں :وفات عیسیٰ ، نزول عیسیٰ سے انکار ، قتل دجال سے انکار بخاری و مسلم کی
بعض حدیثوں کو غیر معتبر غیر صحیح اور موضوع قرار دینا ۔ امام مہدی منتظر کا انکار
وغیرہ ان میں موجود ہیں تمام اہلِ اسلام کو ان سے مقاطعہ کر دینا چاہیے۔‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۲۱)
ایک کفریہ عقیدہ آجانے سے ایمان کا
صفایا ہوجاتا ہے اور جہاں کئی کفریہ عقیدے جمع ہوجائیں توکیا حشر ہوگا ؟ اس عبارت
میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ مولوی محمد علی لکھوی کی کس قدر موافقت بتائی
گئی ہے۔ بخاری و مسلم کی جن حدیثوں کو غیر معتبر کہاہے وہ یقینا ایسی ہوں گی جن سے
اُن کے نظریات کی تردید ہوتی ہوگی ۔ اگر صحیفہ والے بزرگ اُن حدیثوں کی نشان دہی
کر دیتے تو اچھا ہوتا ۔
سیدھے سادھے
صوفی و درویش
صحیفہ میں لکھا ہے :
’’ یہ بات مخفی نہ رہے کہ میرے مضمون
میں جو فتویٰ مولانا محی الدین کی طرف منسوب ہے اس سے مراد مولوی محمد علی کے والد
بزرگ وار مدفون مدینہ منورہ ہیں ۔ وہ مولوی محی الدین نہ سمجھ لیں جو مولوی محمد
علی صاحب کے صاحب زادہ ہیں کیوں کہ وہ کوئی جید اور محقق عالم نہیں ہیں ۔ صوفی
سیدھے سادھے صوفی درویش ہیں جدھر کوئی ان کو لگا دیتا ہے لگ جاتے ہیں اور بس‘‘
( صحیفہ ا ہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۲۱)
اس عبارت میں ایک تو یہ کہاگیا کہ
غیرمقلدبزرگ صوفی ہیں جب کہ موجودہ غیرمقلدین صوفیت اور تصوف کو دین اسلام کے مد
مقابل الگ دین قرار دیتے ہیں ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرمقلد بزرگ کو جدھر کوئی
لگا دیتا ہے لگ جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت میں چند واقعات نقل کر دیتے تو اچھا ہوتا ،
یا کم از کم اتنا بتادیا ہوتا کہ ہر کسی کے پیچھے لگنے کو تقلید کہیں گے یا کچھ
اور ؟
تنبیہ: مولوی محمد
علی کے متعلق سب باتیں مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد کی ہیں ۔
حکیم فیض
عالم صدیقی کی غیرمقلدیت
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’اختلاف ِ امت کا المیہ : مسلک اہلِ
پر اپنی نوعیت کی پہلی اور اہم ترین تصنیف جس میں مصنف نے بدلائل ثابت کیا ہے کہ
اہلِ حدیث وہی لوگ ہیں جو ڈیڑھ سو سال تک نبی علیہ السلام کی وفات کے بعد تھے یہ
تقلیدی بدعت ڈیڑھ صدی ہجری کے بعد کی پیدا وار ہے ... اس کتاب کا یک ایک نسخہ ہر
اہلِ حدیث کے ہاتھ میں شمشیرِ برّاں ہے ۔ملنے کا پتہ : حکیم فیض عالم صدیقی رہتاس
ضلع جہلم ۔‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۲۶)
اس عبارت میں واضح اور متعدد بار تاثر
دیا گیا ہے کہ حکیم فیض عالم صدیقی غیرمقلد اور اہلِ حدیث ہے ۔ یہ دعویٰ بھی کہ ان
کی کتاب ہر اہلِ حدیث کے ہاتھ شمشیر براں کے طور پر کام دے گی ۔البتہ حکیم صاحب کی
طرف یہ بھی سخاوت ہے کہ انہوں نے تقلید کو دَور نبوی سے ڈیڑھ صدی بعد کی پیدا وار
تسلیم کر لیا۔ ورنہ عام غیرمقلدین تو تقلید کو چوتھی صدی کی پیداوار کہتے ہیں ۔ جب
کہ یہ بات حقیقت کے برخلاف ہے۔ تقلید دَور نبوی سے تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے کبھی
اس عنوان پہ لکھنے کی نوبت آئی تو بہت سے دلائل و شواہد کے پیش کریں گے،ان شاء اللہ
۔
تعویذ و گنڈے
...امامت من جانب اللہ بعد از نبی
حامد رضا صاحب ( بی اے کوئٹہ ) نے
ڈاکٹر سبطین لکھنوی رکن آکسفورڈ میڈیکل کالج کو خط لکھا اس کا ایک تراشا یہ ہے :
’’مجھے یہ سن کر از حد دُکھ ہوا ہے کہ
آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات بھی ،ا مام جماعت غرباء اہلِ حدیث کے دستِ حق
پرست پر بیعت سے مشرف ہو چکے ہیں کاش! بیعت کرنے سے قبل آپ ’’ تحریک اہلِ حدیث
‘‘نامی پمفلٹ ہی پڑھ لیتے۔ اللہ اللہ ! کیا زمانہ آیا ہے کہ سید احمد شہید کی
چھوڑی ہوئی یہ مجاہدانہ تحریک بھی امامت کا سائن بورڈ لگا کر تعویذ گنڈے بیچنے پر
مجبور ہو چکی ہے تلخ نوائی معاف! کہیں تشیع والا جذبہ پر ستش امام تو اس راہ سے
تسکین پارہا کہیں ایساتو نہیں ہے کہ کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہو راہی کو
؟ تحریک اہلِ حدیث نامی پمفلٹ بھیج رہاہوں موقع ملے تو ضخیم کتابوں کے انبار چھوڑ
کر اس کا بھی مطالعہ کیجئے ۔ یہ کتابچہ ایک فریاد ہے ان لوگوں کے لیے جو اہلِ حدیث
ہونے کے مدعی بھی ہیں اور امامت من جانب اللہ بعد از نبی کے قائل بھی ۔ امید کہ آپ
مع الخیر ہون گے والسلام ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم جمادی الثانی
صفحہ۱۷)
اس عبارت میں
متعدد باتوں کا انکشاف ہے :
۱۔ غرباء اہلِ حدیث نامی جماعت میں امام کی بیعت
کا معمول ہے ۔
۲۔غرباء والے نہ صرف تعویذ کا جواز مانتے ہیں
بلکہ مضمون نگار کے بقول تعویذ فروشی بھی کرتے ہیں۔
۳۔ غرباء
اہلِ حدیث کے متعلق دعوی کیا گیا ہے کہ وہ امامت من جانب اللہ بعد از نبی کے قائل
ہیں۔
اہلِ حدیث
قابلِ تقلید
مولانا محمود احمد حسن (فاضل عربی،
فاضل مدرسہ عربیہ اسلامیہ دار السلام کراچی ) فرماتے ہیں:
’’اہلِ حدیث
کا طرز ِ عمل اس سلسلہ میں قابلِ تقلید ہے ۔‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۹۰ھ ۱۶؍ جمادی الثانی
صفحہ۲۰)
ائمہ ہدایت کی تقلید کو ناجائز کہنے
والے مدعیانِ اہلِ حدیث نے اپنے طرز ِ عمل کو قابلِ تقلیدکہہ دیا ہے۔ دوسرے لفظوں
میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے عوام کو اپنی تقلید کرنے پر اُبھارا ہے ۔
آمین اور رفع
یدین کو نماز کے ارکان قرار دینے کی جسارت
کرم الجلیلی
الہاشمی صاحب لکھتے ہیں:
’’ نماز میں سورہ فاتحہ کے اختتام پر
آمین بالجہر اور رکوع میں جاتے اور اُٹھتے و قت رفع الیدین کا مسئلہ نماز کے ارکان
سے تعلق رکھتا ہے جن کے ترک سے نماز کے حسن و خوب صورتی میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے
بلکہ راقم الحروف کے عقیدے کے مطابق نماز ہی نہیں ہوتی۔ ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم رجب
صفحہ۵)
آمین اور رفع یدین کو ارکان کہنے کا
دعوی تو کر دیا مگر اس کے دلائل کہاں ہیں ؟ غیرمقلدین سلفی ہونے کے دعوے دار بھی
ہیں ۔کیا اسلاف بھی آمین اور رفع یدین کو نماز کے ارکارن میں شمار کرتے ہیں ؟
علامہ عینی
حنفی کا شمار صف اول کے شارحین ِ حدیث میں
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’ حافظ ابن ِ حجر ، علامہ عینی ،
علامہ قسطلانی ، علامہ کرمانی وغیرھم جیسے خدام محدثین جن کا فہرست شارحین حدیث کی
صف اول میں شمار ہوتا ہے ۔
(نصرۃ الباری کتاب الصلح دسواں
پارہ عکس صحیفہ اہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم رجب المرجب )
حافظ ابن ِ حجر رحمہ اللہ شافعی
المسلک ہیں اور علامہ عینی رحمہ اللہ حنفی مقلد ۔ ان دونوں مقلدوں کو شارحین حدیث
کہہ کر خدام ِ حدیث میں شمار کر لیا ہے ۔
مولوی محمد
علی کے معتقدین پر فتویٰ
عبد القادر
حصاروی صاحب لکھتے ہیں:
’’ اگر حیات ِ مسیح کا عقیدہ عین حق
اور وفات مسیح کا عقیدہ باطل اور کفر ہے تو پھر مرزائی فرقہ اور مولوی محمد علی
صاحب بروئے کتاب و سنت اور اجماعِ امت کافر اور خارج از اسلام ہیں اور جو مدعیان ِ
اسلام ان سے تعلق اور عقیدت رکھتے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ ملحق ہیں۔ ‘‘
( صحیفہ اہل حدیث ۱۳۹۰ھ یکم
جمادی الاولیٰ صفحہ۱۸)
پہلے تو مولوی محمد علی کی بابت فتوی
تھا اَب ان سے تعلق اور عقیدت رکھنے والے کا حکم معلوم ہوگیا ۔ مولوی محمد علی چوں
کہ اہلِ حدیث تھے اس لیے ظن غالب یہی ہے کہ ان سے تعلق و عقیدت رکھنے والے بھی
غیرمقلدین ہی ہوں گے ۔
امامت کا ڈھونگ... پیری مریدی کا جال
صحیفہ اہلِ
حدیث میں شیخ حمید اللہ کے بارے میں لکھا ہے :
’’کھلی چھٹی کو ملاحظہ فرماتے ہی شیخ
صاحب غیظ و غضب میں آ گئے ۔ گھونگھٹ کی چادر کو چہرے سے اُٹھا دیا ۔ جماعت غرباء
اہلِ حدیث کے چار و ناچار بلا واسطہ منہ لگے ۔ چنانچہ ایک اشتہار اپنے اسمِ گرامی
سے بعنوان ’’ عبد الوہاب آنجہانی کا سالانہ عرس ‘‘ شائع فرمایا ۔ جس میں الزامات
کے ثبوت دینے کی بجائے بے لگامی ، فحش کلامی کے حیرت انگیز مظاہرے اور کرشمے
دکھائے ہیں جیسا کہ مشتے نمونہ از خروارے ذیل میں درج ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے ! فرماتے
ہیں :
’’امامت کا
ڈھونگ ، جھوٹی اور ملعون امامت کے گڑھے ، پیری و مریدی کے جال ، پٹے پٹائے ...
سالانہ عرس ، عرس کی روٹیاں ، غل غپاڑہ ، امامیوں کی کھلی بے ایمانی ، بے حیائی ،
بے شرمی ڈھٹائی ، سفلہ پن کھو گئے ، لال بجھکّر ، بو کھلاہٹ (وغیرہ وغیرہ )خدا کی
قسم جی تو چاہتا تھا کہ رخصت جزاء سیۃ سیۃ مثلھا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شیخ صاحب
کو ان کی اس بے لگامی ، فحش کلامی ، بد زبانی ، نکتہ چینی کا مزہ چکھاتے ، کانفرنس
کا ڈھونگ رچانے کا پول کھولتے ، کانفرنس کا چندہ جو جماعت غرباء اہلِ حدیث کے
مقابلہ میں حق مٹانے کے لیے صَرف کیا جاتا ہے ۔اس پر بھی کچھ روشنی ڈالتے ۔مگر شیخ
صاحب چوں کہ اُس مقد س مذہب کے ایک فرد ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں جس کے متعلق کہا
جاتا ہے
ما اہلِ حدیثم دغا را نہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ِ ما حیلہ و فن نیست ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث دہلی ربیع
الثانی ۱۳۵۷ھ صفحہ ۴)
اس عبارت میں
چند باتیں مذکور ہیں۔
۱۔ غرباء اہلِ حدیث کے امام عبد الوہاب کو ’’
آنجہانی ‘‘ کہا ہے ۔
۲۔ ان کے عرس منائے جانے کا دعوی بھی ہے ۔
۳۔اشتہار میں
بے لگامی ، فحش کلامی کے حیرت انگیز مظاہرے اور کرشمے دکھائے ہیں ۔
۴۔غرباء میں امامت کا ڈھونگ اور پیری و مرید ی کے جال ہیں وغیرہ ۔
اللہ کی
قدرت کے سمندرکو ناپا نہیں جا سکتا
مولانا عبد الحمید انور رحمانی اپنے مضمون ” خرق
عادت : معجزہ اور کرامت میں فرق “ میں لکھتے ہیں:
” کوتاہ ِ عقل انسان خدا کی قدرت کے
ناپیدا کنار سمندر کو چلووں سے ماپنا چاہتا ہے ۔“
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶ شوال المکرم ۱۳۹۵ھ
صفحہ ۱۲)
یہ عبارت اُن
غیرمقلدین کو ملاحظہ کرنی چاہیے جو بزرگوں کی کرامات کو اپنے عقل سے ماپ کر انکار
کردیتے ہیں۔
بیت اللہ میں لاکھ
اور مسجد نبوی میں پچاس ہزار کا ثواب
مولاناعبد الجبار سلفی( خادم رسالہ صحیفہ اہلِ
حدیث حدیث محل اے ایم نمبرا کراچی )”ایک لاکھ اور پچاس ہزار“ کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
” بیت اللہ شریف میں ایک نیک کام کرنے
کا اَجر ایک لاکھ درجہ بڑھا کر اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں پچاس ہزار درجہ بڑھا
کر اللہ پاک عطا فرماتا ہے۔“
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶ شوال المکرم ۱۳۹۵ھ
صفحہ ۱۳)
بعض غیرمقلدین پچاس لاکھ والی اس
فضیلت کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحیح حدیث کے مطابق مسجد نبوی کی ایک نماز
دس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔
مسنون قراء ت والا قرآن مکہ و مدینہ بھجوانے کی حسرت
سلفی صاحب
مذکورہ عبارت کے فوراً بعد لکھتے ہیں:
” آج کل ان دونوں مقامات پر حجاج کرام
پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں شب و روز پہنچ رہے ہیں۔ حجاج کرام کی تلاوت کے
لیے حرمین میں مسنون قراء ت والے قرآن پاک کی بے حد ضرورت ہے۔ حجاج کرام کلام اللہ
کی تلاوت کرتے ہیں ... الحمدللہ قرآن پاک مسنون قراء ت والا طبع ہو کر آگیا
ہے۔قرآن پاک اس طریقہ پر طبع کرایا گیا ہے جو طریقے اللہ کے رسول نے بتائے۔ آپ
ایسے قرآن پاک حرمین شریفین بھجوائیے جو مسنون طریقہ پر طبع کرائے گئے ہیں۔آپ اللہ
کے گھر کے لیے ایک قرآن پاک وقف کریں گے تو اللہ پاک اعمال نامہ ایک لاکھ قرآن پاک
درج فرمائے گا۔قرآن پاک تو بہت لوگ لے جاتے ہیں لیکن آپ وہ قرآن پاک بھجوائیے جس
کے بھجوانے سے سنت ِ رسول کی اشاعت زیادہ سے زیادہ ہو اور آپ کو اَجر بھی زیادہ
ملے۔ ہم نے کلام اللہ حرمین تک بھجوانے کا معقول بندوبست کیا۔ ہدیہ کلام پاک مترجم
با تفسیر عکسی طباعت سفید کاغذ، موٹے حروف،بہترین جلد صرف تیس روپے، ہدیہ کلام پاک
بلا ترجمہ قسم اول بارہ روپے،قسم دوم پانچ روپے۔ اپنی یا اپنے مرحومین کی جانب سے
کلام اللہ بھجوا کر ثواب سے مال مالا ہوجائیے۔ ہدیہ ارسال کرتے وقت وقف کرنے والے
کا نام اور برائے بیت اللہ یا برائے مسجد نبوی ضرور لکھئے ۔ “
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶
شوال المکرم ۱۳۹۵ھ صفحہ ۲۳)
یہاں یہ سوال ہے کہ کیا مکہ و مدینہ
میں پہلے سے مسنون قراء ت والے قرآن نہیں ؟ قراء ت کی مسنونیت ہند سے مکہ و مدینہ
بھجوائی جانے کی کوشش سے کیا تاثر قائم ہوتا ہے ؟ یہی کہ اہل ِ حرمین اَب تک
غیرمسنون قراء ت والا قرآن پڑھ رہے ہیں ۔ یہ بھی بتایا جائے مذکورہ مسنون قراء ت
والے قرآن کے شائع ہونے سے پہلے صدیوں سے امت غیرمسنون قرآن کی تلاوت کر رہی ہے ؟
یہاں یہ بھی واضح کریں کہ بیت اللہ
میں ایک قرآن وقف کرنے کی صورت میں لاکھ قرآن وقف کرنے کا ثواب یہ قیاسی مسئلہ ہے
یا منصوص؟ قیاسی ہے تو اعتراف کرلیں اور ساتھ یہ بھی بتادیں کہ کسی کا قیاس ماننا
تقلیدہے یا نہیں؟۔اوراگر منصوص ہے تو قرآن و حدیث کی نص پیش کریں۔
تقلید کی ابتداء کے متعلق رائے
مولانا محمد صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں:
”چار صدیاں گزارنے کے بعد تقلیدی
مذاہب نے جنم لیا ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم رجب؍ ۱۳۹۸ھ صفحہ ۹)
یہ تو دعویٰ ہے اس کی دلیل؟ ایک طرف
تو غیرمقلدین کا دعوی ہے کہ تقلید چار سو سال بعد پیدا ہوئی ۔ اور
دوسری طرف کہتے ہیں فقہ حنفی کو امام ابو یوسف
رحمہ اللہ نے حکومت کے زور سے پھیلایا ۔ کیا امام ابویوسف چوتھی صدی کے بعد کے
امام ہیں؟
ائمہ اربعہ پر بے شمار رحمتیں
سیالکوٹی صاحب آگے لکھتے ہیں:
” ائمہ اربعہ پر خدا کی ان گنت رحمتیں
نازل ہوں ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم رجب؍
۱۳۹۸ھ صفحہ ۹)
جب ائمہ
اربعہ پر بے شمار رحمتوں کی دعا ہوئی تو یقینا اُن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
بھی شامل ہیں۔
فقہ حنفی کا کچھ حصہ لائق تحسین و قابل عمل
سیالکوٹی
صاحب آگے لکھتے ہیں:
” بے شک فقہ حنفی کا کچھ حصہ لائق
تحسین و عمل ہے جس پر کتاب و سنت کی روشنی پڑ رہی ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم رجب؍ ۱۳۹۸ھ صفحہ ۹)
سیالکوٹی صاحب کی یہ سخاوت ہے کہ
انہوں نے فقہ حنفی کے کچھ حصہ کو تو لائق تحسین اور قرآن و حدیث کے موافق مان لیا۔
ورنہ اگر وہ اتنا بھی نہ مانتے تو کوئی کیا کر سکتا تھا ؟
صلوۃ الرسول کا سندھی میں ترجمہ کرنے کی حسرت
محمد عبد التواب (الفیصل کریانہ مرچنٹ سکرنڈ ضلع
نواب شاہ ) لکھتے ہیں:
”آج تک سندھی زبان میں کوئی نماز کی
مستند کتاب شائع نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے سندھی داں طبقہ نماز کے مسائل سے بالکل
ناواقف ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم نے مولانا صادق صاحب سیالکوٹی کی صلوۃ الرسول کا
سندھی زبان میں ترجمے کا کام شروع کر دیا ہے ۔اس کی چھپائی اور کتابت پر ہزاروں
روپے کے خرچ کا امکان ہے جو سکرنڈ کی جماعت کی طاقت سے باہر ہے، اس لیے اہلِ ثروت
حضرات سے میں پُرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔اگرکوئی
صاحب فردا ًیا اجماعاً چھپوانا چاہیں تو ہم سے سندھی کا مسودہ حاصل کرکے چھپوا
سکتے ہیں ۔ (نوٹ) یہ کتاب غریب افراد میں مفت تقسیم کی جائے گی۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم رجب؍ ۱۳۹۸ھ صفحہ ۲۴)
اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
غیرمقلدین کے ہاں ” صلوٰۃ الرسول “ کتاب کی کیا اہمیت ہے ؟ لیکن اس کے مندرجات
قرآن و حدیث سے کس قدر ہم آہنگ ہیں ؟اور اس میں درج کتنے حوالے درست ہیں۔ یہ آپ اس
کی تخریج ”القول
المقبول “کے مطالعہ
سے جان سکتے ہیں۔
تعریضاً جھوٹ بولنا جائز ہے
نصرۃ الباری شرح بخاری میں لکھاہے :
”اگرچہ اس حدیث شریف میں باب کے مطابق
لڑائی وغیرہ میں جھوٹ بولنے کی بالتصریح اجازت ثابت نہیں ہو رہی ہے لیکن اس کے
دوسرے طریق میں جو کہ اگلے باب میں مذکور ہے واضح الفاظ فاذن لی فاقول (مجھے کچھ
بات کہنے کی اجازت دیجئے ) موجود ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر
تصریحاً اور تعریضا ً جھوٹ بولنا جائز ہے۔ نیز جامع ترمذی میں حضرت اسماء بنت
یزیدؓ سے بالصراحت روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوائے
تین مقامات کے جھوٹ بولنا حلال نہیں ہے۔ (۱) آدمی اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے
جھوٹی بات کرے۔ (۲) لڑائی میں (کافروں سے ) جھوٹ بولے۔(۳) لوگوں میں صلح کرنے کے
لیے جھوٹی بات کہے۔“
( نصرۃ
الباری ، کتاب الجہاد ، بارہواں پارہ صفحہ ۴۹بحوالہ پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم رجب؍ ۱۳۹۸ھ صفحہ ۲۵)
غیرمقلدین اس
حوالہ کو اپنے سامنے رکھیں ۔ اور اس پر مثبت یا منفی جیسا چاہیں تبصرہ کر سکتے
ہیں۔
عاشق ِسنت صحابی
مولانا عبد القہار (مفتی جماعت غرباء اہلِ حدیث
) لکھتے ہیں:
” عاشق ِسنت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ۔
“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم و ۱۶؍ ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۵)
اَب کئی غیرمقلدین لکھ رہے ہیں کہ عاشق ناجائز
محبت کرنے والے کو کہتے ہیں اور محب جائز محبت کرنے والے کو ۔ان کی رائے کے مطابق
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لئے ” عاشق سنت ’’ کہنا درست نہیں ہوگا۔
دیوبند یوں نے دلائل میں بریلویوں پر غلبہ پایا
مولانا عبد القادر حصاروی لکھتے ہیں:
” مختلف مناظروں میں جب اہلِ حدیث اور
دیوبندی علماء نے دلائل شرعیہ کے تھپڑ مارے تو اب ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ آں حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی ذات سے پیدا ہو کر نور نہیں،ویسے جسمانی نور ہیں۔ نہال
مہار کے ملا اور مولویوں کا یہ دعویٰ کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور من نور
اللہ ہیں ان کی زبان سے باطل ہوا کہ خدا کے نور کا حصہ نہیں۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۱۵)
اس عبارت میں حصاروی صاحب نے اعتراف
کیا کہ دیوبندیوں نے دلائل شرعیہ کے ذریعہ بریلویت پہ غلبہ پایا ہے، والحمدللہ ۔
شرک کی بُو کامحسوس ہونا
مولانا محمد صدیق اعظمی جھنگوی اپنے مضمون ”کرامات اہلِ حدیث“( قسط: ۲) میں لکھتے ہیں:
”ضلع جھنگ قصبہ حویلی بہادر شاہ میں
وقت کے محدث حضرت مولانا یار محمد صاحب علیہ الرحمۃ حسب معمول تہجد کی نماز ادا
کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے، آپ کو مسجد کے ایک گوشہ سے نہایت سخت قسم کی
گندی بُو آئی۔ موسم سردی کا تھا۔ آپ نے ایک شخص کو کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسجد
کے اس کونہ میں کوئی مشرک آدمی سویا ہوا ہے۔ چنانچہ چراغ جلا کر دیکھا تو صف کے
نیچے کوئی شخص سویا پڑا ہے۔ اس کو جگا کر پوچھا کہ میاں مسافر کہاں سے آئے ہو اور
کہاں جانا چاہتے ہو تو اس نے نہایت اعتماد اور فخر سے کہا ضلع ہزارہ سے آرہا
ہوں۔یہاں ایک قریب دربار ہے اس کی زیارت کرنی ہے۔ منت یہ مانی تھی کہ پیدل چل کر
یہ دُور دَراز کا سفرطے کرکے دربار حضرت سلطان باہوؒ کی نذر نیاز ادا کروں گا۔ بات
سمجھ آ گئی اس مشرک انسان کے شرک کی آلودگی و تعفن آمیز بدبو سے آپ کا مقدس باطن
اثر پذیر ہوا اور آپ کی رگِ توحید فوراً بے قرار ہوئی ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم و ۱۶؍ ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۱۸)
غیرمقلدین نے اس واقعہ کو بطور کرامت
ذِکر کیا ہے ۔ عرض ہے کہ اگر اس طرح کی بات اہل سنت کی کسی کتاب میں آجائے تو اسے
بھی کرامت تسلیم کریں ،اس کا مذاق نہ اُڑائیں۔
کچھ مدت کے لیے آمین بالجہر اور رفع یدین کی چھٹی
مولانا محمد
صدیق اعظمی جھنگوی نے مولانا عبد المنان وزیر
آبادی کا بیان نقل کیا:
” ایک مدرسہ میں داخلہ لے لیا مگر
اہلِ مدرسہ نے مجھ سے یہ عہد لیا کہ اس دَوران میں یہاں آمین بالجہر، رفع یدین
جیسی سنتوں پر عمل کرنے سے گریز کریں گے تو میں نے اس شرط کو مان لیا اس خیال پر
کر اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد ان عمل پیرا ہو جاؤں گا۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۱۹)
اس واقعہ سے اتنا تو ثابت ہے کہ وزیر
آبادی صاحب نے کچھ عرصہ کے لیے رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ مسلکی اعمال کو
چھوڑے رکھا۔ یہ بات غیرمقلدین واضح کریں کے کتنے دن ، ہفتے یا مہینے انہوں نے ان
اعمال کو ترک کئے رکھا ۔
قرآن مجید مترجم بر مسنون قراۃ مع فوائد ستاریہ
صحیفہ میں لکھاہے :
” قرآن مجید مترجم بر مسنون قراء ۃ مع
فوائد ستاریہ بفضل اللہ یہ قرآن مجید اس قدر مقبول عام ہیں کہ حال ہی میں اس کے دو
ایڈیشن طبع ہوکر آئے ہیں ... مکتبہ ایوبیہ حدیث محل اے ایم کراچی۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۲۷)
مذکورہ عبار ت میں ” قرآن مجید مترجم
بر مسنون قراء ۃ مع فوائد ستاریہ“ کی
وضاحت کریں ۔ ترجمہ کی اشاعت اور فوائد ستاریہ سمیت شائع کرنا مسنون ہے ؟اس کی
اشاعت سے پہلے مسلمان قرآن کی تلاوت مسنون طریقے سے نہیں کر رہے تھے ؟ مزعومہ
مسنون تلاوت والے قرآن کو شائع کرنے والوں نے اپنے استادوں کے پاس کون سا قرآن
پڑھا تھا۔ مسنون قراء ت والا یا غیر مسنون ؟
اِعادہ روح اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے
صحیفہ میں ایک مضمون ” اثباتِ اعادہ
روح “ قسط وار شائع ہوا ۔یہ مضمون شیخ عاصم بن عبد اللہ آل معمر القریوتی کا ہے
،اس کا ترجمہ ارشد حسن ثاقب نے کیا ہے ۔ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
” ہم گزشتہ صفحات میں یہ بھی ثابت کر
چکے ہیں کہ اِعادہ روح کا عقیدہ اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ ہے اور کوئی دوسرے
مسلک کا آدمی ان سے اس عقیدہ میں متفق ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اعتقاد ہی
سرے سے غلط ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۲۹)
اس عبارت میں مذکور ہے کہ مرنے کے بعد
قبر میں روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ اہل سنت والجماعت والا ہے۔جو اِس کا انکار
کرے اسے سوچ لینا چاہیے کہ وہ کس گروہ کی راہ پہ چل رہا ہے !!؟
زاذان کی تعدیل کا بیان
”اثبات اعادہ روح “ مضمون میں مذکورہ بالا عنوان
قائم کرکے لکھا:
”( ۱) ابن معین کہتے ہیں:( ثقۃ لایسئل عنہ )تہذیب صفحہ
۳۳جلد ۳ ( ۲) ابن عدی کہتے ہیں (احادیثہ لاباس بھا اذا روی عنہ ثقۃ) تہذیب صفحہ ۳۳جلد ۳ ۔( ۳) ابن
سعد فرماتے ہیں ( ثقۃ کثیر الحدیث ) (۴) خطیب
فرماتے ہیں (کان ثقۃ) (۵)عجلی رقم طراز ہیں ( کوفی تابعی ثقۃ )....“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم و ۱۶؍ ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۲۹)
اِعادہ روح کی حدیث کی سند میں زاذان
راوی ہے ۔ مذکورہ عبارت میں اس راوی کو قابل اعتماد کہا گیا ہے۔ یہاں مولانا محب
اللہ شاہ راشدی غیرمقلد کی تحریر کا اک اقتباس پڑھ لیں۔
راشدی صاحب
لکھتے ہیں:
” قبر میں سوال و جواب کے لئے روح کے
اعادہ کا عقیدہ صحیح حدیث جو صحیح مسلم و امام احمد کے مسند وغیرہ میں صحیح سندوں
سے ثابت ہے ،لہٰذا یہ عقیدہ شرک کیسا ؟اوریہ عقیدہ قرآن کریم کی کسی آیت کے خلاف
نہیں ...صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جمہور سلف صالحین کایہی عقیدہ ہے اس سے
انکار یا تو معتزلہ نے کیا ہے یا آج کل کے کچھ ملحد یامدعی اجتہاد ۔اللہ تعالیٰ
گمراہی سے پناہ میں رکھے ۔آمین “
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۴۱۳)
بخاری و مسلم
میں بدعتی راویوں کی روایات
”اثبات ِ اعادہ روح “ مضمون میں لکھا ہے :
” امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے
بہت سے مبتدع راویوں سے روایت لی ہے اور ائمہ حدیث نے مبتدعین کی ایک بڑی جماعت کو
ثقہ قرار دیاہے۔ ان کی روایات سے استدلال و استشہاد کیا ہے اور ان کی روایات کو
صحاح،سنن، معاجم، مسانیداور اجزاء میں نقل کیا ہے۔ طالبانِ علم جانتے ہیں کہ ان
روایات میں بعض ایسی بھی ہیں جو بظاہر ان کی بدعات کے مطابق ہیں۔ اس کی ایک مثال
ہم پیش کرتے ہیں۔ مسلم شریف میں اعمش سے روایت منقول ہے : اعمش عن عدی بن ثابت عن زر قال علی والذی خلق الحبۃ و
برأ النسمۃ انہ لعھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم الا انہ لا یحبنی الا مؤمن ولا
یبغضنی الامنافق اس روایت کے
راوی عدی بن ثابت کے بارے میں ابن معین کہتے ہیں کہ شیعی مفرط اور ابو حاتم کہتے
ہیں صدوق کان امام مسجد الشیعۃ و
قاصھمملاحظہ ہو
ترجمہ عدی بن ثابت تہذیب ص ۱۶۵ جلد ۷۔ علامہ ذہبی میزان ص ۴ جلد ا میں ابان بن
ثعلب کے ترجمہ میں فرماتے ہیں (شیعی جلد لکنہ صدوق فلنا صدقہ وعلیہ بدعتہ) اس کی
تفصیل اصول حدیث کی کتابوں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ہمارا مقصد صرف اِشارہ کرنا تھا۔
متلاشیان حق اور طالبان علم اس کی تحقیق کریں گے تو کئی مزید پہلو اُجاگر ہوں گے۔
“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۲۹)
غیرمقلدین کو یہ اعتراف ہے کہ بخاری
ومسلم میں بدعتی راوی ہیں اور اس کے ساتھ اُن کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ تمام ثقہ و
صدوق راوی اہلِ حدیث ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ اہلِ حدیثوں میں بدعتی بھی
ہیں۔
اِعادہ روح کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے
”اثبات اعادہ
روح “ مضمون میں لکھا ہے :
” اہل سنت و الجماعت نکیرین کے سوال و
جواب کے وقت جسد میت میں دوبارہ روح ڈالنے کے عقیدے پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور یہ
اس اِعادۂ روح سے اس کو جو برزخی حیات ملتی ہے (جو اس دنیا سے یکسر مختلف اور
ہمارے اِدراک سے بالا ہے ) اس پر ان کا ایمان ہے اور یہ عقیدہ قرآن سے کسی بھی
صورت متعارض یا متصادم نہیں ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب اور ان کے اتباع سے ہمدرد انہ گذارش
کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ پرنظرثانی کرکے حق مان لیں اور کتاب و سنت اور اجماع امت
سے ثابت شدہ مسائل میں اختلاف کرکے اپنی آخرت اور وحدتِ امت کے لیے نقصان کا سامان
نہ کریں۔“
( پندرہ روزہ
صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍ ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۲۹)
اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ مرنے کے
بعد جسم میں روح کا لوٹایاجانا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے ۔ لہذا جواِس کا
انکاری ہے وہ کتاب وسنت اور اجماع کا نکاری ہوگا۔ دوسری بات یہ بھی ثابت ہوئی جب
مرنے کے بعد جسم میں اعادہ روح ہوتا ہے تو یقینا قبر والوں کو ایک زندگی حاصل ہے
۔اور وہ زندگی بھی روح مع الجسد ہوئی۔
شرعی تعویذ اور بیعتِ جہاد کے علاوہ بیعت
صحیفہ میں
لکھاہے :
” یہ کتابیں طبع ہو گئی ہیں: احکام
ِتعویذ ات: شرعی اور شرکیہ تعویذات کا فرق اور تجزیہ ۔جائز اور ناجائز تعویذات میں
اسلاف نے کیا فرق کیا ہے۔مسئلہ بیعت: کیا جہاد کے علاوہ بھی آں حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہ سے بیعت لی ہے۔ جی ہاں رسالہ منگا کر دیکھئے!“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم و ۱۶؍ ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۳۴)
اس عبارت میں
دو باتیں مذکور ہیں :
(۱)بعض
تعویذات شرعی ہیں۔ لہذا مطلقاً تقلید کو شرک کہنے والے غلطی پر ہیں۔
(۲)جہاد کے
علاوہ بیعت ِ توبہ اور نیک اعمال پر قائم رہنے کی بیعت بھی ثابت ہے۔ لہذا اسے غیر
ثابت کہنے والوں کی رائے درست نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے غیرمقلدین کی کتاب ” مولانا
محمد داود غزنوی “ دیکھ سکتے ہیں۔
اہلِ حدیث بنانے میں سارا زور لگانا
صحیفہ میں لکھاہے :
” اپنی اپنی جگہ ہرحلقے میں،ہر ناظم
فرداً اور اجتماعاً اس کوشش میں اپنا سارا زور صرف کر دے کہ کم از کم ایک آدمی کو
راہ ِحق دکھانا ہے یعنی اہلِ حدیث ضرور بنانا ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۳۶)
اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
غیرمقلدین کا زور کہاں خرچ ہو رہا ہے!! یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صرف اہلِ
حدیث بنا لینا کافی ہوگا یا اس کے بعد غرباء اہلِ حدیث میں شمولیت کے لیے مزید ایک
بار پھر پورا زور لگانا پڑے گا؟
دوسری جماعتوں کی مدح سرائی
صحیفہ میں
لکھاہے :
” آپ نے دیگر جماعتوں کی مثال پیش
کرتے ہوئے فرمایا : وہ لوگ اطاعت و فرماں برداری کی قابلِ قدر مثال پیش کرتے
ہیں۔اپنے امیر کا حکم ملنے پر ، اپنے کاروبار، مصروفیات، گھربار، سب کچھ چھوڑ کر
تبلیغ کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ اور ۱۵ دن،ایک ماہ، دو ماہ بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے
تک تبلیغ میں دُور دراز کا سفر طے کرتے ہیں۔ صعوبتیں جھیلتے ہیں جب کہ جماعتِ حقہ
ہونے کی حیثیت سے یہ فریضہ ہمارا تھا کہ ہم سے زیادہ تبلیغ کا حق ادا کرنے والا
اور کوئی نہ ہوتا۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی یکم و ۱۶؍ ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۳۶)
اس عبارت میں غیرمقلدین کی جماعت کے
علاوہ دوسری جماعتوں کی تعریف کی ہے اور الفاظ سے پتہ چل رہا ہے کہ ان ممدوحہ
جماعتوں میں سے ایک جماعت ”تبلیغی جماعت“ ہے۔ کیوں کہ تبلیغی جماعت والے گھر بار ،
کاروبار چھوڑ کے دوماہ یا کم و بیش وقت کے لئے جماعت میں جایا کرتے ہیں۔
جماعت کا ہر فرد مبلغ ہے
صحیفہ میں لکھا ہے :
” محترم موصوف نے ناظمین جماعت کے
اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت غرباء اہلِ حدیث کا ہر ناظم بلکہ ہر فرد
اپنی جگہ مبلغ ہو، آپ نے فرمایا کہ تبلیغ دین اس قدر اہم فریضہ ہے اس سے نسیان
قابل مؤاخذہ اور اس میں کسل مندی برتنا ناقابلِ معافی جرم ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ
کافرمان ہے : کنتم خیر امۃ اخرجت للناس .... “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍
ذوا لحجہ ؍۱۴۰۱ھ صفحہ۳۷)
جب تبلیغ کرنا ہر فردکی ذمہ داری ہے
تو غیرمقلدین کو تبلیغی جماعت پہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ اس جماعت کے افراد
عالم نہ ہونے کے باوجود تبلیغ کیوں کرتے ہیں؟
وہابی بھی مقلدین
کا فرقہ ہے
مولانا عبد القادر حصاروی لکھتے ہیں:
” وہابی فرقہ مقلدین میں سے ہے، یہ
چاروں فرقے باہم چچا زاد بھائی ہیں۔اس لئے اہلِ حدیث اِن سب سے الگ غیرمقلد ہیں۔
ان کی حدِ فاصل عدم تقلید ہے اور اعمال میں بھی۔ “
( پندرہ روزہ
صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،یکم جمادی الثانی ۱۳۹۳ھ صفحہ۱۷)
وہابی شیخ محمد بن عبد الوہاب کے
پیروکاروں کو کہتے ہیں جیسا کہ آگے ” شیخ محمد بن عبد الوہاب مقلد تھے ’’ عنوان کے
تحت مذکور ہے۔ مذکورہ عبار ت میں وہابیوں کو مقلدین کا فرقہ کہا ہے جس کا مطلب یہ
ہے کہ سعودیہ والے مقلد ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب مقلد تھے
مولانا عبد القادر حصاروی لکھتے ہیں:
” اہلِ حدیث بھی کہتے ہیں کہ ابن عبد
الوہاب نہ اتباع کی رُو سے ہمارے پیشواؤں میں سے ہیں اور نہ نسب کی وجہ سے۔ بلکہ
ترکِ تقلید کی وجہ سے ہم سب سے دُور ہیں اور تقلید کی وجہ سے وہ آپ کے چچا زاد
بھائی ہیں۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،یکم جمادی
الثانی ۱۳۹۳ھ صفحہ۱۸)
بہ اعترافِ حصاروی صاحب شیخ محمد بن
عبد الوہاب حنبلی مقلد ہیں۔ لیکن اَب بہت سے غیرمقلدین ان کے مقلد ہونے کو
چھپاکراُنہیں اپنا ہم مذہب قرار دے ر ہے ہیں۔
تقلید شخصی کو شرک کہنے کی جسارت
مولانا عبد
القادر حصاروی آگے لکھتے ہیں:
” اہلِ حدیث ان سے جدا ہیں۔تقلید
ِشخصی کو شرک کہتے ہیں اور بدعتِ حقیقی قرار دیتے ہیں۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،یکم جمادی الثانی ۱۳۹۳ھ صفحہ۱۹)
اس عبارت میں ایک تو غیرمقلدین نے خود
کو سعودیہ کے وہابیوں سے الگ قرار دیا۔ مزید یہ کہ انہوں نے تقلید کو شرک و بدعت
کا نام دیا ہے۔اس فتوی کے مطابق شیخ محمد بن عبد الوہاب مشرک اور بدعتی ثابت ہوتے
ہیں ۔ واصل واسطی غیرمقلدنے لکھا:
” ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ اہلِ
حدیث کا دعوی ہے کہ ائمہ مجتہدین کی تقلید شخصی شرک ہے ،ان پر افتراء محض ہے۔جس
پرکم اَز کم استغفار کا وِرد ضرور کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو روزِقیامت باعثِ شرمندگی
بن جائے۔“
( عقیدہ سلف صفحہ ۲۹)
واسطی
صاحب کو حصاوری صاحب کی مذکوربالا عبارت پڑھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا اہل ِ
حدیث کہلوانے والے تقلیدکو شرک نہیں کہتے ؟
تنبیہ: کئی غیرمقلدین نے تقلید کو شرک کہا ہے ۔
1.
پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری ۔(
رسائل بہاول پوری صفحہ ۵۲)
2.
مولانا ابو الحسن سیالکوٹی ۔( الظفر المبین صفحہ ۲۰)
3.
مولانا محمد جونا گڑھی ۔ ( سراج
محمدی صفحہ ۱۲)
حدیث ِوسیلہ کی تاویل
مولانا عبد القادر حصاروی نے اللّٰھم انا کنا نتوسل الیک الخ
حدیث پر
تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
” میں کہتا ہوں کہ اس دلیل سے توسل
بالذات مراد لینا بالکل باطل ہے۔ یہ توسل بدعا الصالحین ہے جو تمام اہلِ علم کے
نزدیک جائز ہے اور یہ وسیلہ آں حضور ؐ خود بھی لیا کرتے تھے چنانچہ حدیث میں ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم
کان یستفتح بصعالیک المھاجرین یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فقیر درویشوں (اصحاب ِ
صفہ ) کے سبب سے فتح حاصل کیا کرتے تھے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،۱۵؍ شعبان
۱۳۷۲ھ صفحہ۲۰)
حصاروی صاحب نے حدیث کی جو تاویل کی
ہے اس کی تردید کے لیے امام آل ِ غیرمقلدیت علامہ وحید الزمان کی عبارت ذکر کی
جاتی ہے ۔ علامہ صاحب لکھتے ہیں:
”اس حدیث سے نیک بندوں کا وسیلہ لینا ثابت ہوا
۔بنی اسرائیل بھی قحط میں اپنے پیغمبر کے اہلِ بیت کا توسل کہاکرتے ۔اللہ تعالیٰ
پانی برساتا۔اس سے یہ نہیں نکلتا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک آں حضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کا توسل آپؐ کی وفات کے بعد منع تھا کیوں کہ آپ تو اپنی قبر میں زندہ ہیں اور
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو دعا سکھائی ۔ اس میں یوں ہے : یا محمد انی اتوسل بک الی ربی اور ان
صحابی نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ دعا دوسروں کو سکھائی مگر
ہمارے اصحاب میں سے امام ابن تیمیہ اور ابن قیم اس طرف گئے ہیں کہ اموات اور قبور
کاتوسل جائز نہیں۔نہ حضرت عمر ؓ نے،نہ اور کسی صحابی نے آپ ؐ کی قبر شریف کا توسل
کیا اور خلاف کیا ان کا بہت سے اکابر محدثین اور علماء نے اوریہ کہا ہے کہ ایک امر
کا منقول نہ ہونا اس کے عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا جب کہ اصل وسیلہ کا جواز شرع
سے ثابت ہے۔“
(تیسیرالباری :۲؍۸۴،۸۵، طبع تاج
کمپنی )
مولانا عبد التواب ملتانی کے القاب
صحیفہ میں
لکھا ہے :
” حضرت شیخنا العالم الامام الربانی المحقق الفاضل الناقد
المحدث الکامل الصمدانی ابو محمد عبد الوہاب الملتانی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،۱۵؍ شعبان
۱۳۷۲ھ صفحہ۲۲)
بعض غیرمقلدین نے دیوبندیوں پر اعتراض
کیا کہ یہ لوگ اپنے اکابر کے لئے بڑے بڑے القاب لکھتے ہیں۔ ایسے معترضین یہاں
ملتانی صاحب کو دئیے گئے القاب پڑھ لیں۔
صحیفہ اہلِ حدیث کی اہمیت کا دعوی
محمد یوسف (
بھاٹی گیٹ لاہور ) لکھتے ہیں:
” صحیفہ اہلِ حدیث کراچی کا ” حدیث
نمبر “ من اوّلِہ الی آخرِہ پڑھا۔ نہایت ہی مسرت ہوئی۔ بے
شک اس پُر فتن دَور میں قرآن و حدیث کی صحیح حفاظت اور سچی مذہبی خدمت صحیفہ اہلِ
حدیث ہی کا کام ہے۔ خدا اس کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے۔ آمین “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،۱۵؍ شعبان
۱۳۷۲ھ صفحہ۲۴)
اس عبارت میں صحیفہ اہلِ حدیث کی بابت
دعویٰ ہے کہ وہ قرآن وحدیث کامحافظ اور مذہب کا سچا خادم ہے۔ اس عبارت کو سامنے
رکھ کر ہمارے اس رسالے” صحیفہ اہلِ حدیث کا مطالعہ ’’ کامطالعہ کریں۔
”شب براء ۃ ’’ رسالہ
صحیفہ میں
لکھا ہے :
” شب برات : جمعیۃ تبلیغ غرباء اہلِ
حدیث کراچی کی جانب سے یہ رسالہ شائع ہوا ہے۔ اس میں ” شب برات ’’ گزارنے کا مسنون
طریقہ درج ہے۔ پتہ: جمعیۃ تبلیغ غرباء اہلِ حدیث محمدی مسجد آر ٹیلری میدان نمبر۱
محمدی روڈ کراچی۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،۱۵؍ شعبان
۱۳۷۲ھ صفحہ۲۵)
آج کل کے غیرمقلدین شب برا ء ت کی
فضیلت کا انکار کررہے ہیں جب کہ غرباء والے اس کی فضیلت پر مستقل رسالہ شائع کر
چکے ہیں۔
اکابرین کا گلہ
مولانا محمد صدیق اعظمی جھنگوی اپنے مضمون ‘ ‘
جماعت اہلِ حدیث کے لیے لمحہ فکریہ “ میں لکھتے ہیں:
” مگر اس سلسلے میں دلوں کو بے چین کردینے
والی یہ حقیقت بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ اس موقف کے حاملین حضرات خود گریزاں ہو
رہے ہیں۔ جماعت ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے جب کہ اکابرین و قائدین حضرات باہم
آویزش و ذاتی رنجشوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس راہ میں وہ اتحاد و
رفاقت کا عنصر جو کبھی ہمارا قابلِ رشک امیتازی نشان تھا بالکل مفقود ہے دینِ حق
کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ترک کر دیا جاتا ہے کوئی مثبت پروگرام پیش نہیں کیا جاتا
ہے۔ نئی نسل ہم سے شاکی ہے۔ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی تڑپ باقی نہیں رہی، حالاں
کہ یہ بات دعویٰ سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہمارے اکابرین اپنے وسائل سے کام لیتے
اور علماء کواپنے ساتھ ملا کر گاؤں گاؤں پھر جاتے اور کتاب و سنت کا صافی مواد پیش
کرتے تو یقینا دنیا کا اکثر حصہ اس فصل دلربا سے ضرور باریاب ہوتا اور ویران قلوب
گلشن کتاب و سنت سے معطر ہوتے۔ افسوس ہمیں یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ دَورِحاضر
ہ کے دینی طلباء اپنے سلف کرام کی ڈگر سے منہ موڑ چکے ہیں مگر اس داستان ِدرد کو
قبول نہیں کیا جاتا کہ ہم نے ان کے لئے کون سا میدان عمل و تربیت تیار کیا۔ کہاں
تصنیف و تحریر کے لیے ریسرچ گاہیں بنائی ہیں اور کس طرح ان کو میدان ِ تقریر میں
لانے کے لئے کوئی تجربہ گاہ بھی تجویز کی ہے۔کیا آج کا وقت ہمارے موقف اورہماری
دعوت کے لیے موزوں و مناسب ہے۔ یاد رہے اس حقیقت سے اپنا رخِ زیبا ہٹا کر یقینا
ناقابل ِ معافی جرم کا ہم ارتکاب کر رہے ہیں تو اس خسارہ عظیم کی تلافی کے لیے
ضرور سر جوڑ کر بیٹھئے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍ رجب المرجب۱۳۹۹ھ صفحہ۵)
اس عبارت کا لفظ لفظ غیرمقلدین اکابر
کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ اور یہ تصویرکشی کرنے والا کوئی بیگانہ
شخص نہیں بلکہ ان کا اپنا غیرمقلد ہی ہے ۔
فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا
صحیفہ میں مذکورہ بالا عنوان سے
مولانا محب اللہ شاہ راشدی کاشائع ہوا ، یہ مضمون اشاعت کے لیے مولابخش محمدی (ضلع
تھر پارکر ) نے بھیجا وہ اس مضمون کی بابت لکھتے ہیں:
”حال ہی میں سید صاحب کا جماعت کی ایک
مقتدر اور علمی شخصیت سے ” دعا میں ہاتھ اُٹھانے “ کے موضوع پر علمی مباحثہ شروع
ہوا۔آپ نے ہاتھ اٹھانے کی تائید میں جو عالمانہ جواب دیا وہ احقر کو اَز راہِ شفقت
مرحمت فرمایا۔ میری ناقص نظر میں اس اہم مسئلہ پر علمی انداز میں بحث علمی حلقوں
میں قدر و منزلت کی نگاہ سے ملاحظہ کی جائے گی۔ لہٰذا عزیز القدر کرم الجلیلی کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں
تاکہ موقر جریدہ ” صحیفہ اہلِ حدیث “ میں شائع کی جائے۔ مولابخش محمد ضلع تھرپارکر
“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍ رجب المرجب۱۳۹۹ھ صفحہ۶)
مولانا محب اللہ شاہ راشدی صاحب کا
اِجتماعی دعا کے اثبات والا مضمون کئی رسائل میں شائع ہو کر شائقین کے مطالعہ میں
آچکا ہے۔ہم نے مولا بخش کی مذکورہ تحریر بھی نقل کر دی جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں
راشدی صاحب کا مضمون کس قدر پسند ہے ۔
کتب ِ ستہ حدیثیں
مولانا عبد الرحمن سلفی نے کہاہے:
” آج مسلمانوں کے پاس احادیث کا صحیح
ترین مجموعہ حدیث کی چھ صحیح کتابوں ( صحاح ستہ ) کی شکل میں موجود ہے جن کے نام
یہ ہیں: صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی،ابن ماجہ اورموطا امام
مالک۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍ رجب المرجب۱۳۹۹ھ صفحہ۱۷)
کتب ِ ستہ کی حدیثوں کو ” احادیث کا
صحیح ترین مجموعہ ’’ کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس مجموعہ میں
بہت سی احادیث ایسی ہیں جو غیرمقلدیت کے خلاف
ہیں مثلا ً سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ترک ِ رفع یدین کی حدیث۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہ حیثیت راوی حدیث
مولانا عبد الجلیل سامرودی ” خاتمۃ الظلام فی رد
فاتحۃ الکلام “ میں لکھتے ہیں:
” ابن عدیؒ نے کہا کہ من کان لہ امام والی حدیث
میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ہی نے حضرت جابر ؓتک موصول کیا ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۵)
اس عبارت میں سیدنا امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ کا بطورِ راوی حدیث تذکرہ ہے ۔ باقی رہی اس حدیث کے موصول ہونے کی بات
تو عرض ہے کہ فرقہ غیرمقلدیت کے امام شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو نہ صرف
موصول قرار دیا بلکہ اس حدیث کو ناسخ حدیثوں میں شمار کیا ہے جیسا کہ آگے”من کان لہ امام کی بابت
سامرودی رائے ’’ عنوان کے تحت آرہا ہے ،ان شاء اللہ ۔
امام غزالی کی طرف منسوب کتاب منحول
مولانا عبد
الجلیل سامرودی ” خاتمۃ الظلام فی رد فاتحۃ الکلام “ میں لکھتے ہیں:
”امام غزالی ؒ نے منحول میں امام صاحب
ؒ پر جرح کی تھی جس کی بناپر غزالی ؒ کا قافیہ تنگ کر دیا گیا۔ بالآخر احیاء
العلوم میں ان کی قدرے مدح سرائی کر دی تب جا کر ان بے چاروں کی توبہ قبول ہوئی
اور آج صفحہ ہستی پر ہر کس نا کس کی زبان پر احیاء احیاء ہو رہی ہے ورنہ احیاء کو
پوچھتا ہی کون؟۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۶)
منحول کی
بابت مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کی عبارت بھی پڑھ لیں:
”باہم مذہبی منافرت ہی کا نتیجہ ہے کہ
امام الحرمین ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ اور حنفی مسلک کے خلاف ” مغیث الخلق ’’ لکھی ۔ جس میں وفورِ عصبیت میں ایسے واقعات لکھے جن
کی تاریخی شواہد کی روشنی میں قطعاً نہیں کی جا سکتی ۔ رہی سہی کسر امام غزالی ؒ
نے ”المنحول “ میں نکال دی۔ “
( اسباب اختلاف الفقہاء صفحہ ۴۶، ناشر: ادارۃ
العلوم الاسلامیۃ منٹگمری بازار فیصل آباد ، تاریخ ِ طباعت : ستمبر ؍۲۰۰۲ء)
اس عبارت کے پیش ِ نظر سامرودی صاحب
کی تحریرکا جائزہ لیں کہ حقیقت کیا ہے اور سامردوی صاحب نے اسے کیا رنگ دیا ہے ؟
امام ابوحنیفہ کا ورع ، صدق ، جاہ و جلال اور مرتبہ
مولانا عبد
الجلیل سامرودی ” خاتمۃ الظلام فی رد فاتحۃ الکلام “ میں لکھتے ہیں:
”ثقہ ہونا اور چیز ہے اور ضعیف ہونا سئ
الحفظ کی بنا پر اور چیز ہے ان دونوں میں تضاد نہیں ۔ آدمی ضعیف حافظہ کی وجہ سے
ہوتا ہے مگر جلالت ِ شان کی بنا پر وہ ثقہ بھی ہوتا ہے ... . جس نے امام صاحب کو
ضعیف کہا ہے اُس نے حافظہ ہی کی بنا پر کہا ہے جیسے امام نسائی ؒ نے بیان کیا ہے
اور جنہوں نے ان کو صدوق و ثقہ لکھا ہے وہ بھی صحیح ہے وہ ان کے ورع،صدق،جاہ وجلال
اور مرتبہ وغیرہ کی بنا پرکہا ہے ۔ اس میں بُرا ماننے کی بات ہی کون سی ہے۔ امام
صاحب ؒ صدوق و ثقہ برابر تھے۔البتہ حافظہ یہ ان کی اختیاری چیز نہیں۔ حافظہ میں
خرابی ہونا یہ اور چیز ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ، یکم جمادی
الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۶)
جناب !آپ کی طرف سے امام صاحب کو ”
ورع ،صدق ،جاہ وجلال اور مرتبہ“ والاماننا بھی غنیمت ہے ورنہ غیرمقلدین میں ایسے
لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو امام صاحب کو سرے سے مسلمان ہی نہیں مانتے۔ رئیس محمد
ندوی غیرمقلد نے اپنی کتاب” سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۱۰۶،ناشر:مکتبۃ الفضیل بن عیاض
کراچی، سن اشاعت: ۲۰۰۸ء “ میں لکھ چھوڑا ہے کہ امام صاحب کے عقائد کفریہ و شرکیہ
تھے۔( معاذ اللہ )
باقی رہا آپ جناب کا امام صاحب کے
حافظہ کو کمزور کہنا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ خود غیرمقلدین نے تسلیم کیا ہے کہ
اُن کاحافظہ بہت زیادہ تھا۔ ایسے حوالہ جات میری کتاب ” غیرمقلدین کا امام
ابوحنیفہ کو خراج ِ تحسین“ میں ملاحظہ کر
سکتے ہیں۔
حدیث من کان لہ امام کی بابت سامرودی رائے
مولانا عبد
الجلیل سامرودی ” خاتمۃ الظلام فی رد فاتحۃ الکلام “ میں لکھتے ہیں:
”آمدم بر سر مطلب من کان لہ امام میں
سورۃ فاتحہ کو دُور کا بھی واسطہ نہیں لہذا اس کو سورت فاتحہ کی نفی میں پیش کرنا
کہاں تک ٹھیک ہو سکتا ہے ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ، یکم جمادی
الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۶)
سامردوی صاحب کہتے ہیں کہ من کان لہ
امام الخ حدیث میں سورۃ فاتحہ کو دُور کا بھی واسطہ نہیں حالاں کہ غیرمقلدیت کے
امام شیخ ناصرالدین البانی نے اس حدیث کو فاتحہ کے متعلق قرار دیا۔ انہوں نے جہری
نمازوں میں فاتحہ پڑھنے کو منسوخ کہا ہے اور پھر منسوخیت پر جن حدیثوں کو پیش کیا، اُن
میں ایک حدیث یہی من کان لہ امام الخ ہے۔( صفۃ
صلوۃ النبی عربی صفحہ۸۰)
راوی کا فتوی اپنے مروی کے خلاف علامت ِنسخ
مولانا عبد الجلیل سامرودی ” خاتمۃ الظلام فی رد
فاتحۃ الکلام “ میں لکھتے ہیں:
”راوی کا
فتوی اپنی مروی عنہ کے خلاف علامت ِنسخ ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۸)
اس اصول کو مسئلہ تین طلاق میں بھی
یاد رکھاکریں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ایک مجلس کی تین طلاق
کے تین ہونے کا ہے اُن سے مروی روایت مسلم کا مطلب اگر بالفرض وہی ہو جو غیرمقلدین
بتلاتے ہیں تو بھی مذکورہ بالا اصول کی وجہ سے وہ روایت منسوخ کہلائے گی جیسا کہ
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے فتاوی ثنائیہ :۲؍۲۱۹ میں کہا ہے ۔
امام کے ساتھ قراء ت ممنوع
مولانا عبد
الجلیل سامرودی ” خاتمۃ الظلام فی رد فاتحۃ الکلام “ میں لکھتے ہیں:
”چودہویں دلیل میں آپ نے حضرت زید بن
ثابت ؓ کا اثر بیان کیا ہے۔وہ اہلِ حدیثوں کو کب مضر ہے۔ قرآت مع الامام کو اہلِ
حدیث بھی تو منع ہی کرتے ہیں۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۸ )
غیرمقلدین کا نظریہ ہے کہ امام کے پیچھے
آہستہ پڑھنا انصات کے خلاف نہیں۔(توضیح الکلام ) جب اُن کا نظریہ یہی ہے تو ”قرآت
مع الامام ’’ منع کیسے ہوا ؟ نیز اگر امام دو یا ایک سانس میں فاتحہ پڑھے تو
غیرمقلدین کیا
کریں گے۔ امام کا ہر آیت پہ وقف کرنا قواعد
تجوید کے پیش نظر ضروری تو نہیں۔
پاکی ٔداماں کی حکایت
مولانا عبد القادر حصاروی لکھتے ہیں:
” دیوبندی اُمت کے حکیم مولانا اشرف
علی تھانوی صاحب تھانوی امداد الفتاویٰ ۸محرم ۱۳۰۱ھ ج ۱ ص ۵۱۳ میں جماعت اہلِ حدیث
پر ریمارک فرماتے ہوئے یہ الزام تراشتے ہیں کہ یہ لوگ سلف صالحین خصوصاً امام اعظم
علیہ الرحمۃ کو طعن و تشنیع کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔’’ میں کہتا ہوں کہ یہ سراسر
جھوٹا الزام اور گمراہ کن پروپیگنڈا یار لوگوں نے کر رکھا ہے تاکہ لوگ ان سے دُور
اورنفور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ حدیث کسی عالم یا امام کے حق میں صرف علماء
متقدمین کے اقوال ِجرح تو نقل کر دیتے ہیں لیکن اَز خود کوئی عیب نہیں لگاتے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الاخر ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۰)
جناب! حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے الزام
نہیں لگایا، حقیقت کا اظہار کیا ہے۔ غیرمقلدین کی طرف اماموں کی گستاخی اتنی عام
چیز ہے کہ خود انہیں اس کا اعتراف بھی ہے ۔
میاں نذیر
حسین دہلوی اپنے ٹولہ مدعیان ِ اہلِ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
” کچھ ائمہ مجتہدین کو گالی وغیرہ
دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو حنفی یا شافعی کہنا شراب نوشی یا زنا
کاری سے بھی بڑا گناہ سمجھتے ہیں، خدا کی پناہ۔اور اپنے متعلق دعویٰ کرتے ہیں کہ
ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں۔ “
( فتاویٰ نذیریہ : ۱؍۱۸۳)
علامہ وحید
الزمان اپنے غیرمقلدین کے متعلق لکھتے ہیں:
” ائمہ مجتہدین رضوان اللہ علیہم
اجمعین اوراولیاء اللہ اور حضرات صوفیہ کے حق میں بے ادبی اور گستاخی کے کلمات
زبان پر لاتے ہیں۔ اپنے سوا تمام مسلمانوں کو مشرک اور کافر سمجھتے ہیں ، بات بات
میں ہر ایک کو مشرک اور قبر پرست کہہ دیتے ہیں۔ “
( لغات الحدیث : ۲؍۹۱...ش ، میر محمد کتب خانہ
کراچی )
وحید الزمان
مزید لکھتے ہیں:
” بعضے اگلے اماموں اور مجتہدین اور
پیشوایانِ دین پر جیسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ
ہیں ، طعن و تشنیع کرتے ہیں۔“
( لغات الحدیث : ۲؍۲۱...کتاب ”د
’’ ، میر محمد کتب خانہ کراچی )
مولانامحمد
داود غزنوی کہتے ہیں:
” دوسرے لوگوں کی یہ شکایت کہ اہلِ
حدیث حضرات ائمہ اربعہ کی توہین کرتے ہیں،بلا وجہ نہیں ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں
کہ ہمارے حلقہ میں عوام اس گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ائمہ اربعہ کے اقوال
کا تذکرہ حقارت کے ساتھ بھی کر جاتے ہیں ۔ “
( سوانح مولانا داود غزنوی
صفحہ۸۷)
مزید حوالہ جات بندہ کی کتاب ” فضائل
اعمال کا عادلانہ دفاع “صفحہ۱۴۲، اعتراض: ۲۴ کے جواب میں دیکھ سکتے ہیں۔
غرباء اہلِ حدیث فرقہ کی بنیاد
صحیفہ میں فطوبی للغرباء الحدیث ذکر کرکے لکھا
ہے :
” ہماری جماعت کا نام جماعت غرباء
اہلِ حدیث ہے، یہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔اس حدیث نبی صلعم کی بناء پر والدی ماجدی
حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب ؒ نور اللہ مرقدہ نے جماعتِ غرباء اہلِ حدیث نام رکھا
۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۲)
اس سے معلوم ہوا کہ غرباء اہلِ حدیث
فرقہ کی بنیاد مولانا عبد الوہاب غیرمقلد نے رکھی اُن سے پہلے یہ جماعت دنیا میں
کہیں موجود نہیں تھی۔ یہ جماعت اپنے وجود میں آنے کے بعد ایک مستقل فرقہ کی حیثیت
اختیار کر گئی ۔ مطالبہ کی صورت میں ہم اس پر شواہد پیش کرنے ذمہ داری لیتے ہیں۔
مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
صحیفہ میں لکھا ہے :
” بعد نماز عصر مسائل کا تذکرہ جاری
ہے چند لوگوں نے حیات النبی ؐ کا مسئلہ دریافت کیا۔ امام صاحب نے دلائل کی روشنی
میں جواب دیا جس کا لوگوں نے اعتراف کیا۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۴)
آگے لکھا ہے :
” موحدین کا درود وسلام فرشتوں کے
ذریعہ آپ ؐ تک پہنچادیا جاتا ہے جو آپ کی قبر پر جا کر درود وسلام پڑھتا ہے اس کا
درود و سلام آپ ؐ خود سنتے ہیں کیوں کہ آپ کی روح مبارک واپس جسم میں لوٹا دی جاتی
ہے ۔ الحمد للہ یہ مدلل جوابات سن کر سائلین کی تسلی ہو گئی ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ، یکم جمادی
الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۴)
اس عبارت میں واضح اعتراف ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر پڑھا جانے والادرود آپ سنتے ہیں۔ لیکن اس
کے برعکس کے آج کے اکثر غیرمقلدین عقیدہ حیات و سماع النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
انکاری ہیں اور بعضے تو اسے بد عقیدگی کا نام دیتے ہیں۔ اُس دَور کے معترضین کی تو
تسلی ہو گئی تھی آج کے غیرمقلدین کی تسلی بھی غرباء کاکوئی ساتھی کرا دے ۔
وظائف محمدی
صحیفہ میں ”وظائف محمدی “عنوان قائم کرکے لکھا
ہے:
”وظائف محمدی یعنی مشہور و معروف کتاب
” الحزب المقبول “ الحمد للہ
تیار ہوکر گئی ہے ۔ اس مبارک کتاب میں اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ۴۳۹ دعائیں ، وظائف اور اَذکار جمع کئے گئے ہیں ۔ یہ
کتاب لاکھوں کی تعداد میں باربار طبع ہو کر ختم ہو چکی ہے ... مکتبہ ایوبیہ :
ناشران وتاجران کتب اے ایم نمبرا کراچی نمبر۱۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۵)
یہ ” وظائف محمدی “ نام سے مستقل کتاب
ہے جب کہ آج کل کچھ غیرمقلدین اعتراض کرتے پھر رہے ہیں کہ ذِکر واَذکار کے لیے
”وظائف “ کا لفظ چوں کہ حدیثوں سے ثابت نہیں ، اس لئے یہ لفظ نہیں کہنااور لکھنا
چاہیے۔ یاد رہے کہ مولانا عبد السلام بستوی کی کتاب بھی ” اسلامی وظائف ’’ کے نام
سے شائع ہے ۔
امام ابوحنیفہ کی عزیمت دین
مولوی محمد صدیق اعظمی جھنگوی لکھتے ہیں:
” حضرت امام
ابوحنیفہ ؒ کی عزیمت دین کو کوئی طاقت ہلا نہ سکی ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۶)
غیرمقلدین کی طرف سے امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ کی اتنی سی تعریف بھی غنیمت ہے ۔ ماشاء اللہ امام صاحب اس قدر استقامت
والے تھے کہ حکومت ِ وقت کا ظلم و ستم انہیں اپنے مشن سے ہٹا نہ سکا۔
چودہویں صدی میں مردہ سنت کے اِحیاء کا دعویٰ !!
مولانا محمد عبد اللہ (رئیس قوم اڈو ) لکھتے
ہیں:
” یہ حقیقت ہے اور صحیح حقیقت ہے کہ
جماعت غرباء اہلِ حدیث کے ممتاز سربراہ ! شیخ الحدیث،فاضل اجل ، عالم وحید دہر
مولانا عبد الوہاب صاحب مرحوم ثقی اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ پہلے وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے اس
چودہویں صدی ہجری میں ایک اَہم مردہ سنت یعنی مسئلہ امارت کا اِحیاء کیا ہے۔ گو
جماعت اہلِ حدیث کے بعض علماء و امراء نے اس کے خلاف ایک محاذ قائم کر رکھا تھا۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۲۱)
غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ اہلِ حدیث
فرقہ اسلام کے دَور اول سے چلا آرہا ہے اُن کے اس دعوے کے مطابق سوال یہ ہے کہ
پچھلی صدیوں میں یہ سنت مُردہ کیوں رہی ، تب مدعیانِ اہلِ حدیث کہاں تھے جو اِسے
زندہ کرتے؟۔ مزید یہ کہ جب بقول آپ کے مردہ سنت زندہ ہوئی تو اہلِ حدیث کے بعض
علماء و امراء نے اس کے خلاف محاذ کیوں قائم کر لیا تھا،کیا انہیں سنت کے اِحیاء
سے چڑ تھی ؟
کافر کو زکوۃ دینا درست نہیں
نصرۃ الباری میں حدیث نبوی” توخذ من اغنیائھم و ترد فی
فقرائھم “ کی شرح میں
لکھا ہے:
”علامہ قسطلانی نے فرمایا : یہ حدیث
دلیل ہے اس پر کا فر کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ “
(نصرۃ الباری
کتاب الزکوۃ ،چھٹا پارہ صفحہ ۱۷بحوالہ پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ، یکم
جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۲۹)
لیکن اس حدیث کے خلاف بعض غیرمقلدین
کی رائے ہے کہ کافر کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔مثلاً مولاناثناء اللہ امرتسری لکھتے
ہیں:
” ادائے
زکوٰۃ میں زکوٰۃ لینے والے کے ایمان یاعدم ایمان کو دخل نہیں ہے یعنی مومن صالح،
فاسق اور کافر میں کسی کومال زکوۃ دے دیاجائے توزکوٰۃ اداہو جاتی ہے“
(مظالم روپڑی صفحہ ۳۵، مشمولہ رسائلِ اہلِ حدیث
جلداول)
بخاری میں مرسل روایت
بخاری میں ایک سند اس طرح ہے ـ:
” حدثنا مسدد عن یحی عن ابی حیان قال حدثنی ابوزرعۃ عن
النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم“اس سند کی بابت نصرۃ الباری کتاب الزکوۃ چھٹا پارہ صفحہ
۱۹ میں لکھاہے :
” یحی بن سعید قطان کی یہ روایت مرسل
ہے کیوں کہ ابو زرعہ تابعی ہیں ان کا سماع نبی علیہ السلام سے ثابت نہیں ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی، یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ ۳۱)
یہ بھی یاد
رہے کہ غیرمقلدین کے ہاں مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ ( تحقیق الکلام ) وغیرہ ۔
بیعت جہاد کے ساتھ مختص نہیں
نصرۃالباری میں لکھا ہے:
” اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نماز
پڑھنے اورزکوٰۃ دینے پر بھی امام کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے۔ جو لوگ بیعت کو مختص
بالجہاد کہتے ہیں اس با ب اور حدیث میں ان کی تردیدہے۔ “
(نصرۃ الباری
کتاب الزکوۃ ،چھٹا پارہ صفحہ۲۲ ، بحوالہ پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ، یکم
جمادی الثانی ؍۱۳۸۱ھ صفحہ۱۴)
عبارت میں ” جو لوگ “ لفظ ہیں،اس کا مصداق بھی بتا دیتے۔ جناب! یہ
غیرمقلدین ہی ہیں جو کہتے ہیں ایسی بیعت ثابت نہیں۔ در اصل وہ بیعت ِ صوفیاء کے
انکاری ہیں اس لئے یہی نظریہ اپنائے ہوئے ہیں کہ بیعت ِ اسلام اور بیعت جہاد کے
علاوہ کوئی اور بیعت ثابت نہیں ۔
سیداحمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کا مسلک
مولانا عبد القہار نے سیداحمد بریلوی اور شاہ
اسماعیل شہید کے متعلق لکھا:
” یہ کتاب و سنت کے مروج و مبلغ اہلِ
حدیث تھے۔اپنی زندگی دین و اسلام ہی پھیلانے میں گذاری ۔ ان بزرگوں کی تصانیف سے
پتہ چلتا ہے کہ یہ اہل اللہ دین متین کے خادم گزرے ہیں ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الثانی ؍۱۳۹۷ھ صفحہ۱۷)
سید احمد شہید رحمہ اللہ کو غیرمقلدین
کی کتابوں میں حنفی لکھا ہوا ہے ۔مثلاً مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
” اہلِ حدیث گروہ کو نہ تو عبدالوہاب
نجدی سے کوئی خاص مذہبی تعلق ہے ، نہ سید احمد رائے بریلی سے مخصوص تعلق ہے ۔ کیوں
کہ عبد الوہاب اور سید احمد رائے بریلوی بحیثیت غیرمقلد دنیا میں پیش نہیں ہوئے۔
بلکہ وہ دونوں صاحب مقلدانہ صورت میں تھے۔ عبد الوہاب حنبلی تھا اورسید صاحب
حنفی۔یہی وجہ ہے کہ حنفی بھی سید صاحب کے معتقد تھے اور ہیں۔ سب سے اول مرید
سیدصاحب کے نواب صاحب ٹونک تھے ۔اور سید صاحب کے غیرمقلد نہ ہونے کا ثبوت خود اس
سے ظاہر ہے کہ ان کی سوانح عمری حنفی رسالہ ” صوفی ’’ پنڈی بہاء الدین کے دفتر سے
شائع ہوئی ہے جس میں سید صاحب کی بہت بڑی تعریف کی گئی ہے۔ یہ واقعہ صاف دلیل ہے
کہ سید صاحب بحیثیت غیرمقلد پیش نہ ہوئے تھے۔ “
( اہلِ حدیث امرتسر ۲۴؍
شوال۱۳۳۶ھ ،مطابق اگست؍ ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۱)
اس کا عکس
حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی کتاب ” تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۳۲“ پہ دیکھ
سکتے ہیں۔
اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ سے تو اَب کئی
غیرمقلدین براء ت کا اعلان کر چکے ہیں۔یہاں ڈاکٹر شفیق الرحمن غیرمقلد کا براء ت
نامہ پڑھ لیں۔ڈاکٹر صاحب نے لکھا:
” یہاں یہ بحث نہیں کہ صراط مستقیم
کتاب کس کی ہے بلکہ عبد المجید صاحب جیسے جید عالمِ اہلِ حدیث صراط مستقیم کے
مضامین کو مواعظِ حسنہ قرار دے رہے ہیں ۔ کیا ایسی کتب کے حوالے سے سید احمد اور
شاہ اسماعیل صاحب کو اہلِ حدیث ثابت کرنا ایمانی موت نہیں؟“
( اہلِ توحید کے لیے لمحہ فکریہ
صفحہ ۲۰مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
شوکانی کا رَد چکنا چور
مولانا عبد
القادر حصاروی اپنے مضمون ” تہبند یا پاجامہ ٹخنون کے نیچے اور وضو “ میں لکھتے
ہیں:
”بندہ نے بفضلہ تعالیٰ آپ کا اور
علامہ شوکانی کا بھرپور رد چکنا چور کر دیا ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶ شعبان ؍۱۳۹۴ھ صفحہ۱۰)
مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی نے
شوکانی کو اہلِ حدیث کا مسلّم پیشوا کہا ہے۔( تاریخ اہلِ حدیث صفحہ ۱۴۷، طبع مکتبہ
قدوسیہ لاہور )
اپنے مسلّم
پیشوا کے رد کو قبول کرو یا چکنا چور ،یہ آپ کی مرضی ہے ۔
چادر ٹخنوں سے نیچے ہونا مفسد صلوۃ ہے
مولانا عبد
القادر حصاروی اپنے مضمون ” تہبند یا پاجامہ ٹخنون کے نیچے اور وضو “ میں لکھتے ہیں:
”اس تصریح سے معلوم ہوا مسبل ازار کا
وضو اور نماز فاسد ہیں چنانچہ عون المعبود جلد ۴ ص ۱۰۰ میں ہے : والحدیث یدل علی تشدید امر
الاسبال وان اللّٰہ تعالی لا یقبل صلوۃ المسبل وان علیہ ان یعید الوضو ء والصلوۃ یعنی یہ
حدیث دلالت کرتی ہے کہ تہبند لٹکانے والے پر سخت حکم لگایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ
اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور اس پر لازم ہے کہ وہ وضو اور نماز دونوں کا اعادہ
کرے چنانچہ اسی بنا پر دستور
المتقی کے صفحہ ۴۱
پر لکھا ہے : ” ٹخنون سے نیچے پائجامہ پہننے والوں کو اَزسر نو وضو کرنا چاہیے۔
ایک ایسا شخص ایک مرتبہ آں حضرت صلعم کے سامنے نماز پڑھ رہا تھا آپ نے اس کی نماز
تڑوا کر از سر نو وضو کرنے کا حکم دیا۔ جناب مولانا حافظ سراج الدین چودھ پوری نے
کتاب بنام صلوۃ الرحمن لکھی ہے ۔اس کے ص ۸پر نواقض لکھتے ہوئے ص : ۹ پر لکھتے ہیں:
اونٹ کا گوشت کھانے سے تہبند یا پائجامہ کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے سے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶ شعبان ؍۱۳۹۴ھ صفحہ۱۲)
یہاں مولانا
داود ارشد غیرمقلد کی بھی سن لیں:
” آخر میں ہم اس بات کی بھی وضاحت کر
دینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ مولانا یونس قریشی صاحب نے یہ دعویٰ قطعاً نہیں کیا کہ
ٹخنوں سے نیچے پاجامہ ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، یہ انوار صاحب کی زیادتی ہے ، صرف
انہوں نے یہ کہا ہے کہ اَزسر نو وضو کرنا چاہیے، اور حدیث میں بھی فقط اس قدر ہی
ہے مکرر وضو کرنا ٹوٹنے کو مستلزم نہیں، یہ محترم کی بھول ہے، گویہ حدیث راقم کی
تحقیق کے مطابق ضعیف ہے ۔“
( حدیث اور اہلِ تقلید :۱؍۲۵۱، ناشر: مکتبہ اہلِ
حدیث امین پور بازار فیصل آباد )
اگر قریشی صاحب نے وضو کو فاسد نہیں
کہا تو حصاروی صاحب تو وضو بلکہ نماز تک کو فاسد کہہ رہے ہیں۔ان کے متعلق اپنے
تاثرات پیش کریں۔
نواقض وضو کتنے ؟
مولانا عبد
القہار لکھتے ہیں:
” واضح ہو کہ مسئلہ یوں ہے کہ اصل وضو
توڑنے والی چیز صرف قبل و دبر سے کچھ خارج ہونا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ
علیہ نے باب منعقد کرکے واضح کر دیا کہ باب من لا یر الوضو ء من المخرجین القبل
والدبر الخ روایت میں قے نکسیر وغیرہ سے وضو کرنا آیا ہے ،وہ بطور استحباب و فضیلت
کے ہے ، نہ کہ بطور ِوجوب ولزوم کے۔ اس باب میں رَد ہے ان لوگوں کا جو اِس کے سوا
میں واجب کہتے ہیں ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶ شعبان ؍۱۳۹۴ھ صفحہ۲۰)
اس فتوے کی مولانا عبد الغفار سلفی نے
تصدیق کی ہے ۔ اس فتویٰ میں صرف شرم گاہوں سے کچھ نکلنے کو ناقض وضو کہا گیا ہے
حالاں کہ خود غیرمقلدین کے ہاں اس کے علاوہ بھی نواقضات ہیں مثلاً نیند کرنا، عورت
کو ہاتھ
لگانا ، شرم گاہ کو چھونا وغیرہ ۔
شرم گاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
مولانا عبد ا
لقہار مس ذکر کی بابت روایات میں تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تطبیق یہی ممکن ہے کہ اگر ذَکَر کو
ہاتھ لگانے سے شہوت پیدا ہو اور کچھ نکلے تو وضو ٹوٹ گیا ورنہ حدیث کے مطابق مضغۃ
منک کہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہے جیسے بدن کے اور کسی حصہ پرہاتھ لگ جائے
تو وضو نہیں ٹوٹتا۔اسی طرح ذَکر پر ہاتھ مطلق لگنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶ شعبان ؍۱۳۹۴ھ صفحہ۱۰)
اس فتوے کی مولانا عبد الغفار سلفی نے
تصدیق کی ہے ۔ اس فتویٰ کے برعکس دیگر غیرمقلدین شرم گاہ کو ہاتھ لگانا ناقض وضو
بتاتے ہیں۔
قرآن مجید مترجم
اہل حدیث برمسنون قرآۃ مع فوائد ستاریہ
صحیفہ میں
مذکورہ بالا عنوان قائم کرکے لکھا ہے :
” عرصہ دراز سے قرآن مجید ترجمہ کے
ساتھ الحمد للہ طبع ہو کر آگیا ہے... ترجمہ تحت اللفظ ہے تاکہ عام آدمی بھی ہر لفظ
کا ترجمہ بآسانی سمجھ سکے۔ مترجم حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ... مکتبہ :
ایوبیہ ناشران کتب اسلامیہ حدیث محل اے ایم نمبر: کراچی نمبر۱“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الثانی ؍۱۳۹۸ھ صفحہ۱۷)
اس عبارت میں ” برمسنون قرآۃ مع فوائد
ستاریہ“ کہا گیا ہے ۔ فوائد ستاریہ کو
ساتھ شائع کرنا بھی مسنون ہے ؟ مزید یہ بھی بتایا جائے یہ اشاعت کس دلیل کی بنیاد
پر مسنون ہے جب کہ دَور نبوی میں تو قرآن یک جا کتابی شکل میں نہیں تھا۔ یہ بھی
بتائیں کہ آج کل بھی آپ کے اس مزعومہ مسنون قرا ء ت والے قرآن کی اشاعت ہو رہی ہے
یا تب سے اَب تک اشاعت موقوف ہے ؟
غزوہ کے سفر کو عام سفر پر قیاس
نصرۃ الباری
کتاب الجہاد بارہواں پارہ صفحہ ۲۰باب حمل الزاد فی الغزو کے تحت لکھا ہے:
” باب کی مطابقت یہیں سے ثابت ہوئی کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق بوقت ہجرت سفر کے لیے اپنے ہمراہ
زادِ راہ لے گئے۔حضرت امام بخاری ؒ نے غزوہ کے سفرکو عام سفر پر قیاس کرتے ہوئے
مسئلہ ہذا پر استدلال کیا ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الثانی ؍۱۳۹۸ھ صفحہ۲۸)
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ
اللہ قیاس کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ بخاری میں کئی جگہ قیاسی مسائل پیش بھی کئے۔
غیرمقلدین کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لاکھوں حدیثوں کے
حافظ تھے۔ ہم کہتے ہیں وہ اس قدر حافظ ِحدیث ہونے کے باوجود قیاس کی طرف محتاج
ہوئے ہیں۔
غزوہ کے سفر کو عام سفر پر قیاس
نصرۃ الباری
کتاب الجہاد بارہواں پارہ صفحہ ۲۰باب الاارتداف فی الغزو و الحج کے تحت لکھا ہے:
”اگرچہ اس حدیث شریف میں حج اور عمرہ
میں اپنی سواری پر کسی کو بٹھانے کاذِکر ہے ، غزوہ کا نہیں،لیکن حضرت امام بخاری ؒ
نے غزوہ کے سفر کو بھی اسی پر قیاس کرکے مسئلہ ٔ باب کو ثابت کیا ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الثانی ؍۱۳۹۸ھ صفحہ۳۱)
جو غیرمقلدین کہتے ہیں کہ قیاس حجت
نہیں، اور یہ کہ قیاس کارِ ابلیس ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق کیا کہیں گے
جو صحیح بخاری میں کئی مقامات پر قیاسی مسائل پیش کر چکے ہیں۔
اونٹنی پر گدھے کوقیاس
نصرۃ الباری
کتاب الجہاد بارہواں پارہ صفحہ ۲۰باب الردف علی الحمار کے تحت لکھا ہے:
”یہاں پر راحلہ سے مراد حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے۔ اس پر گدھے کو قیاس کرکے اس پر دو آدمیوں کے بیٹھنے
کے جواز کو ثابت کیا۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الثانی ؍۱۳۹۸ھ صفحہ۳۱)
لیجئے! امام بخاری رحمہ اللہ کا ایک
اور قیاسی مسئلہ غیرمقلدین کی خدمت میں حاضر ہے۔یہ اَب غیرمقلدین کی مرضی ہے کہ وہ
اس قیاسی مسئلہ کو قبول کرتے ہیں یا رَد؟ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ کسی امام کے
قیاسی مسئلہ کو
قبول کرنا
تقلید ہے یا نہیں؟
مسجدنبوی میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب
کرم الجلیلی لکھتے ہیں:
” یہاں پر مسجد نبوی ہے جس میں ایک
نماز کی ادائیگی کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اسی مسجد میں روضۃ من ریاض
الجنۃہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۲)
اس طرح کی عبارت پہلے بھی گزر چکی۔ اس
پر تبصرہ کرتے ہوئے وہاں ہم نے لکھ دیا ہے کہ موجودہ غیرمقلدین پچاس ہزار والی
فضیلت کو نہیں مانتے ۔
شیخ عبد العزیز بن صالح کی شان میں اشعار
صحیفہ میں شیخ عبد العزیز بن صالح( امام مسجد
نبوی ) کی شان میں ایک نظم درج ہے اس کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
” سر بسر
آئینہ شانِ محمد آپ ہیں
عارف پیغام
عرفان محمد آپ ہیں
قدر کرتے ہیں
سبھی رومی و شامی آپ کی
باعثِ اعزاز
ہے ہم کو رہنمائی آپ کی
تاقیامت آپ
کا سایہ رہے اسلام پر
حرف آجائے نہ پھر دین نبیؐ کے نام پر ’’
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۷)
غیرمقلدین ان اَشعار کی عام فہم اندار
میں وضاحت کردیں۔ یہاں رومی وشامی کا تذکرہ مقام مدح میں ہے کیا واقعۃ ً وہ آپ کے
نزدیک قابلِ مدح ہیں ؟ ان کا شمار صوفیاء میں تو نہیں ؟ اگر ایسا ہے تو سوال ہوگا
کہ موجودہ دَور کے غیرمقلدین تو صوفیاء کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور تصوف کو دین
اسلام کے مد مقابل الگ و مستقل دین کہتے ہیں۔
جماعت کی روح بورڈ لگانے میں ہے
مولوی محمد یونس اجڑانوی اپنے مضمون ” تبلیغی
رپورٹ “ میں لکھتے ہیں:
”میں مرکز سے پر زور الفاظ میں یہ عرض
کرتا ہوں۔ آپ صحیفہ اہلِ حدیث میں مرکز سے ایک ضروری اعلان فرمائیں۔ہر ایک مقامی
امیر کو اپنی اپنی مساجد کے دروازے پر جماعت غرباء کا بورڈ لگانا ضروری ہے۔ اگر
ایسا نہ کیا گیا تو جماعت کی روح ختم ہو جائے گی۔ یہ ہمارا ہی نہیں بلکہ جماعت کے
الگ الگ نشان ہوتے ہیں۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۱۴)
لوجی ! صحیفہ والوں کے نزدیک جماعت کی
روح بورڈ لگانے میں ہے ۔اگر بورڈ نہ لگائے گئے تو جماعت کی روح ختم ہو جائے گی۔
تعویذات کا جواز
مولوی محمد یونس اجڑانوی” تبلیغی رپورٹ “ مضمون
میں آگے لکھتے ہیں:
”جب میں مسجد میں نماز پڑھنے گیا،
جماعت کے لوگ کہنے لگے:مولوی صاحب جو امام مسجد ہیں انہوں نے اس مسئلہ پر بڑا زور
دے رکھا ہے جو پہلے آپ جائز اور صحابہ سے ثابت کر گئے تھے تعویذات شرعیہ۔ موجودہ
امام مسجد شرک کہتا ہے اور کہتا ہے دکھاؤ اللہ کے رسول ؐ نے تعویذ لکھ کر دئیے ہوں
یا لکھنے کی اجازت دی ہو ۔ اگر دکھا دو تو میں مان جاؤں گا ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۱۵)
غیرمقلدین
میں تعویذ کی بابت اختلاف ہے کچھ اسے جائز بتاتے ہیں اور کچھ اسے شرک قرار دیتے
ہیں صحیفہ کی مذکورہ عبارت سے بھی معلوم ہورہاہے کہ اس حوالہ سے اُن کے دو گروہ
ہیں ۔ غیرمقلدین کا جوطبقہ تعویذ کو شرک کہتا ہے ، وہ لوگ اس کا شرک ہونا حدیث کی
طرف منسوب کرتے ہیں۔ غیرمقلدین مذاہبِ اربعہ کے متعلق کہتے ہیں کہ ان میں جائز و
ناجائز کا اختلاف پایا جاتا ہے انہیں اپنے گھر بھی جھانک لینا چاہیے کہ ان میں شرک
و توحید کا اختلاف موجود ہے ۔
صحابہ کرام تعویذ لکھتے اور بچوں کے گلے ڈالتے
مولوی محمد
یونس اجڑانوی ” تبلیغی رپورٹ “ میں آگے لکھتے ہیں:
”مجھ سے کہنے لگے: آج بعد نماز اس
مسئلے [ تعویذ کے جواز (ناقل ) ]کو ضرور دکھاؤ۔میں گھر سے تفسیر ستاری سورت فاتحہ
لے گیا اور سب نمازیوں کو دکھائی اور پڑھ کر سنائی۔ایک بار، دو بار،تین بار عنوان
تعویذات شرعیہ اور یہ بھی بتادیا کہ حضرت الامام مرحوم نے تعویذات شرکیہ کا پہلے
عنوان قائم کیا ہے خوب شرکیہ تعویذ کا رد کیا ،شرک بتایا۔میں نے کہا : لوگو! صحابہ
کرام ؓ حضور ؐ کے شاگرد ہیں اور صحابہ کرام ؓشرک سے بیزار تھے۔اگر قرآن و حدیث کے
تعویذ شرک ہوتے تو صحابہ کرام ؓ ہرگز نہ لکھتے اور نہ اپنے بچوں کے گلے میں ڈالتے۔
تمام لوگوں نے مسئلہ تعویذ کو اچھی طرح سے سمجھ لیا۔ اور سب نے بیک زبان کہا کہ
مولانا عبد الستار مرحوم نے صحیح لکھا ہے ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ، ۱۶؍ ربیع
الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۱۵)
صحیفہ کی عبارت کے مطابق صحابہ کرام
سے تعویذ کا ثبوت منقول ہے ۔ اس لیے تعویذ کو شرک کہنے والے غیرمقلدین کے لیے لمحہ
فکریہ ہے۔صحیفہ کے قلم کار کے بقول تب سب غیرمقلدین تعویذ کا جواز مان گئے تھے۔ آج
بھی غرباء کا کوئی مبلغ میدان میں آئے اور تعویذ کو شرک کہنے والے غیرمقلدین کے
سامنے دلائل رکھ کے انہیں قائل کرے ۔
کسی بھی نیکی کا ایصال ثواب
مولانا عبد
القہار لکھتے ہیں:
”اگر زندہ آدمی ان کے لیے دعامانگے۔
ان کی طرف سے صدقہ خیرات کرے، کوئی نیکی کرے تو اس کا ثواب ان کو پہنچتا ہے یعنی
مردوں کو زندوں سے نفع ملتا ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۱۸)
صحیفہ کی عبارت کے مطابق کوئی بھی
نیکی کرکے اس کا ایصال ِثواب کیاجا سکتا ہے۔جب کہ غیرمقلدین کا ایک فرقہ اس عموم
کا قائل نہیں بلکہ وہ ایصالِ ثواب کو انہی صورتوں میں مخصوص سمجھتا ہے جو اُن کے
زعم میں
منصوص ہیں۔
سماع موتیٰ کا نظریہ
مولانا عبد
القہار لکھتے ہیں:
”صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ اہلِ قبور
صرف وہی کلام بات سنتے ہیں جن کے متعلق قرآن وحدیث سے صراحت ثابت ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۱۴)
لیکن غیرمقلدین کا ایک طبقہ مطلقاً
سماع موتی کا منکر ہے۔ پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری نے کہا :
” وہ مُردہ
ہی کیا ہوگاجو سنے ۔“
(رسائل بہاول پوری صفحہ ۶۴،
مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور ، سن اشاعت: اگست؍ ۲۰۰۴ء )
سماع موتی کا ثبوت حدیث سے
مولانا عبد
القہار لکھتے ہیں:
”صحیح بخاری شریف مطبوعہ محمدی کے
صفحہ ۱۸۳ میں ہے : کہا ابن عمر نے کہ جھانکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کفار پرجو
بدر کی لڑائی میں مارے گئے تھے اور ایک گڑھے میں ڈال دئیے گئے تھے ۔ پس فرمایاآپ ؐ
نے (ان کفار کی طرف متوجہ ہو کر ) کیا پایا تم نے جو وعدہ کیا تھا تم سے تمہارے رب
نے سچا؟ تب حضور ؐ سے سوال ہوا کہ آپ مُردوں سے سوال و بات کلام فرماتے ہیں آپ ؐ
نے جواباً ارشاد فرمایا : ہاں لیکن اتنی بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے ... صحیح
مسلم و جامع ترمذی وغیرہ کی روایتیں اہلِ قبور پر سلام کرنے کی آئی ہیں۔ا س طرح وہ
روایت جس میں ہے کہ جوتی کی آہٹ معلوم کرتے ہیں۔ اس قسم کے دلائل سے صرف اتنا ثابت
ہوتا ہے کہ جب اللہ چاہتا ہے اہلِ قبور کو سنوا دیتا ہے، نہ یہ کہ اہلِ قبور اہلِ
دنیا کی ہر حالت سے باخبر ہیں، وہ سب کچھ جانتے اور سنتے اور یہ سمجھ کر ان سے مرادی
مانگی جائیں، ان کومتصرف فی العالم جانا جائے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۱۶)
صحیفہ کی عبارت میں سماع موتی کا
اثبات ہے مگر غیرمقلدین کا ایک طبقہ اس کا منکر ہے اور بعض نے تو اسے شرک کا چور
دروازہ کہا ہے۔مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں:
” سماع موتیٰ کامسئلہ عذاب ِقبر یا
روح کی حقیقت کی طرح محض ایک تحقیقی مسئلہ نہیں بلکہ شرک کا سب سے بڑا چور دروازہ
ہے۔“
( روح ،عذابِ قبر اور سماع موتی
صفحہ ۴۲)
محمد بن عبد الوہاب شیخ الاسلام ہیں
مولانامحمد ابراہیم (خادم خطیب جامع مسجد قدس
اہلِ حدیث محلہ گرو نانک پورہ گلی :۱۹ گوجرانوالہ )
” شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب
رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق تالیف اصول الدین
الاسلامی مع قواعدہ الاربع فی الاسلام ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ربیع الاول ؍۱۳۹۶ھ صفحہ۲۴)
یہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کو ” شیخ
الاسلام “ کہا ہے مگر بہت سے غیرمقلدین انہیں حنبلی مقلد کہہ کر حنفیوں سے کہتے
ہیں کہ وہ تمہارا چچا زاد بھائی ہے۔شیخ محمد بن عبد الوہاب کے حنبلی مقلد ہونے کا
حوالہ پہلے بھی مذکور ہو چکا ہے۔
فتاویٰ ستاریہ کی بابت ”بے نظیر تالیف “ ہونے کا دعویٰ
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”فتاوی ستاریہ کامل: حضرت الامام صاحب
رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بے نظیر تالیف ہے ۔اسلامی مسائل واحکام کابے کراں سمندر ہے
،یہ دینی معلومات کا عظیم دفتر ہے ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۶)
اس
مزعومہ بے نظیر”فتاوی ستاریہ “کے بہت سے مسائل کو عام غیرمقلدین نہیں مانتے مثلاً
فتاویٰ ستاریہ میں لکھا ہے کہ امام کو رکوع کی حالت میں پا لینے سے رکعت ہو جاتی
ہے ،لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔جب کہ عام غیرمقلدین کہتے ہیں مدرک رکوع کو
رکعت دہرانی چاہیے ۔
میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا سنت
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”نیچے لکھے ہوئے موقعوں پر غسل کرنا
سنت ہے ...(۱) جمعہ کی نماز کے لیے ( ۲) عیدین کے لیے (۳) میت کو غسل دینے کے بعد
(۴) احرام باندھنے کے لیے (۵) مکہ شریف میں داخل ہونے کے لیے ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۱۳)
یہاں صرف مسائل درج ہیں دلائل نہیں
۔یہ بھی بتایا جائے کہ یہاں جو سنتیں مذکور ہوئیں ،یہ سب غیرمقلدین کے ہاں سنت ہیں
یا بعض کے نزدیک ۔
سگریٹ اور حقہ پی کر مسجد آنے کا مسئلہ
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”کچالہسن یا پیاز وغیرہ بدبو دار چیز
کھا کر مسجدمیں جانا منع ہے۔ ( مشکوۃ ) سگریٹ اور حقہ پر بھی غور کر لیجئے!۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۱۴)
سگریٹ اور حقہ کو لہسن و پیاز پر قیاس
کیا جا رہا ہے ۔ غیرمقلدین کے ہاں قیاس حجت نہیں اس لیے سگریٹ اور حقہ کی بابت
صریح حدیث پیش کریں۔
اللہ پاک حاضر ناظر ہے
صحیفہ میں”
اللہ پاک حاضر ناظر ہے “ عنوان قائم کرکے
لکھا ہے :
”اللہ پاک کی عبادت اس طرح کر گویا تو
اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۱۴)
موجودہ
غیرمقلدین کی رائے میں اللہ کو حاضر و ناظرماننا غلط عقیدہ ہے۔ ان کی رائے میں
اللہ صرف اور صرف عرش پہ ہے ۔
نمازی کا ستر کتنا ؟
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”مرد کے لیے ناف سے گھٹنوں تک بدن
ڈھانپنا فرض ہے لیکن عورت کواپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کے سوا سارا بدن ڈھانکنا
چاہیے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۱۴)
اس میں ایک تو مرد و عورت کے ستر کا
فرق معلوم ہوا اور سترکو ڈھانکنا نماز میں ضروری ہے۔ مزید یہ کہ مرد کے ستر کی
تعیین میں غیرمقلدین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ایک نظریہ تو وہی ہے جوصحیفہ میں
مذکور ہوا، بعض کے نزدیک ران سترمیں شامل نہیں اور بعض کے ہاں تو ستر صرف اور صرف
قبل و دبر یعنی آگے اور پیچھے کی شرم گاہ ہے بس۔فقہ اور تقلید کو اختلاف کا سب
قرار دینے والے خود پچاسیوں مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں۔
دو سجدوں کے درمیان
بیٹھنافرض !!
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا
فرض ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۱۴)
سب سے پہلے غیرمقلدین اپنے اصول کے
مطابق فرض کی تعریف کریں اور پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی فرضیت پر حدیث
لائیں۔ اور غیرمقلدین میں سے جو اِس فرض کو فرض نہیں مانتے اُن کی بابت کیا حکم
ہے؟
کتا رکھنے کا جواز
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”کتا صرف دو حالتوں میں رکھنا جائز
ہے۔ایک شکار کے لیے، دوسرے بھیڑ بکریوں اورمویشیوں کی نگہبانی کے لیے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۱۵)
اتنی بات تو معلوم ہوگئی کہ بعض
صورتوں میں کتا رکھنے کی اجازت ہے اگلا سوال یہ ہے کو کوئی بندہ کتارکھنا
چاہتا ہے مگر اُس کے پاس کتا ہے نہیں،تو کیا وہ
کسی سے کتا خرید کر سکتا ہے ؟ یہ مسئلہ بھی بیان کر دیتے۔
قرآن کو بوسہ
دینااسلاف سے ثابت نہیں
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”س: قرآن کریم کو بوسہ دینا جائز ہے
یا نہیں ؟ ج: زمانہ سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ’“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ ۲۱)
سائل نے یہ تو نہیں پوچھا کہ اسلاف سے
ثابت ہے یا نہیں؟ اگر یہ اسلاف سے ثابت بھی ہوتا تو تمہارے لئے تو پھر بھی حجت
نہیں تھا اس لیے کہ تمہارا دعوی ہے : اہلِ حدیث کے دو اصول، اطیعو االلہ و
اطیعوالرسول ۔
نواقضِ وضو کتنے ؟
صحیفہ میں
لکھا ہے :
”وضو صرف مخرجین یعنی قبل و دُبر میں
سے کسی چیز کے اخراج یا سونے سے ٹوٹتا ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ رجب ؍۱۳۹۲ھ صفحہ۲۲)
پہلے ایک مقام پہ صحیفہ کا مسئلہ
منقول ہو چکا ہے کہ ناقضِ وضو صرف شرماگاہوں سے کچھ نکلنا ہے۔ یہاں ایک اوربات کا
اضافہ ہو گیا کہ نیند بھی ناقض وضو ہے ۔
بیٹے کو عاق قرار دے دیا
محمد عبد
الغفار الخیری (ناظم آباد کراچی ) لکھتے ہیں:
”میں نے اپنے سب سے بڑے لڑکے عاد
الغفار الخیری سے ان کی غلط روی کی بناء پر ترک تعلقات (جس کو عرف عام میں عاق
کرنا کہا جاتا ہے ) کر لیا ہے ۔ اب میرا ان سے کسی معاملہ میں کوئی واسطہ اور تعلق
نہیں ہے اور نہ میں ان کے کسی قول و فعل کا ذمہ دار ہوں۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ذوالحجہ ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۵)
اوہ! اللہ خیر کرے ۔ یہاں عاق کی بات
آئی ہے مناسب ہوتا کہ عاق اور اس سے متعلقہ احکام کو اپنے اصول کے مطابق حل کر دیا
جاتا تاکہ ان مسائل سے واقف ہو جاتے ۔
اہلِ حدیث کی پستی انتہاء درجہ میں
اعیان احمد
(کراچی ) اپنے مضمون ” درد مند دل کی پکار “
میں لکھتے ہیں:
”آج اہلِ حدیث جس پستی اور زوال کا
شکار ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ایمانی، اخلاقی،دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے یہ
جماعت تباہی و بربادی کے آخری درجہ میں پہنچ چکی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دونوں
لحاظ سے یہ قوم بالکل بے حیثیت ہو کر رہ گئی ہے۔ اہلِ حدیث کے اندر انتشار،بے عملی
و جمود اور اجتماعی مفاد کی جگہ خود غرضی اورعیاری کا دَور دَورہ ہے۔ چھوٹے بڑوں
کا اَدب نہیں کرتے۔ اور بڑے چھوٹوں کی تربیت سے غافل ہیں۔عوام علماء کا احترام
فراموش کر چکے ہیں اور علماء عوام کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں۔ اجتماعی فکر و
نظر اور کوشش کا فقدان ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے اہلِ
حدیث کوئی جماعت نہیں بلکہ ایک بھیڑ ہے جو بلا مقصد اِدہر سے اُدہر بھٹکتی پھر رہی
ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ذوالحجہ ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۵)
اہلِ حدیث ہونے کے دعوے داروں کی پستی
کس قدر ہے، یہ آپ مذکورہ عبارت سے جان سکتے ہیں !!اور یہ بیان کسی مخالف کا نہیں
بلکہ ان کے اپنے فرد کا ہے جسے اس نے ” درد مند دل کی پکار ” عنوان سے پیش کیا ۔
بیرونی دنیا میں اہلِ حدیث کی افسوس ناک حالت
اعیان احمد
(کراچی ) اپنے مضمون ” درد مند دل کی پکار “ میں آگے لکھتے ہیں:
”بیرونی دنیا میں اہلِ حدیث کی حالت
اور زیادہ افسوس ناک ہے۔دوسرے فرقوں اور جماعتوں کی نظر میں ان کی کوئی وقعت
نہیں۔ان کی آواز کہیں سنی نہیں جاتی۔ان کا حق کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ اس لئے کہ
ان کے کردار میں کوئی وزن نہیں۔ ہر جگہ اہلِ حدیث عوام اور علماء کو نظر انداز کیا
جاتا ہے۔ اخبارات میں اگر بیانات و تذکرے آتے ہیں تو دیوبندی، بریلوی،شیعہ اور
جماعت اسلامی کے علماء کے ہی آتے ہیں۔قومی سطح پر اگرتقریر کے لیے بلایا جاتا ہے
تو اہلِ حدیث کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ اس وجہ سے کہ اہلِ حدیث میں کوئی فعال اور
باقاعدہ تنظیم موجود نہیں ہے۔ اہلِ حدیث میں کوئی قابلیت کا جوہر نہیں پایا جاتا۔
“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ذوالحجہ ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۱۶)
اس طرح کی افسوس ناک حالت کو پروفیسر
عبد اللہ بہاول پوری نے ”رسائل بہاول پوری“... اور...”خطبات بہاول پوری“ میں نسبتاً تفصیل سے بیان کیا جس میں یہ بات
بھی مذکور ہے کہ چوں کہ اہلِ حدیث کہلوانے والے قرآن وحدیث پر عمل پیرا نہیں اس
لیے اُن کے حالات ایسے ہو گئے ہیں۔
اہلِ حدیث پستی کے گہرے غار میں
اعیان احمد
(کراچی ) اپنے مضمون ” درد مند دل کی پکار “ میں آگے لکھتے ہیں:
”آج اہلِ حدیث بھی پستی کے گہرے غار
میں گرتے جار ہے ہیں۔اصلاح کی اُمیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ عمررسیدہ لوگ تھک چکے ہیں۔
آج ہماری جماعت بھی نوجوانوں کے مضبوط بازوؤں کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہے کہ کب وہ
قوم کی حالت سدھارنے کے لیے حرکت میں آتے ہیں اور کب اہلِ حق کی ٹھکرائی ہوئی یہ
جماعت اس سر زمین کے اُفق پرا یک عظیم تحریک کی صورت میں اُبھرتی ہے ؟ ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ذوالحجہ ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۱۶)
یہ اقتباس بھی اعیان احمد صاحب کے
مضمون ” درد مند دِل کی پکار “ کا حصہ ہے
۔ انہوں نے پکار کر تو کر دی مگر یہ معلوم نہیں ان کی پکار کو خاطر میں لایا گیا
یا نہیں ؟ ویسے اعیان صاحب کے اپنے الفاظ تو یہ ہیں:”اصلاح کی اُمیدیں دم توڑ چکی
ہیں ۔“
امام ابوحنیفہ شہید ہیں
صحیفہ میں
لکھا:
”تاریخ میں ان لوگوں کا تذکرہ بھی
اچھے الفاظ میں نہیں آیا جن کے سامنے امام ابوحنیفہ ؒ کو قیدمیں ڈالا گیا اورزہر
دے کر شہید کر دیا گیا۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، ۱۶؍ ذوالحجہ ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۳۰)
چلیں اتنا تو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ شہادت کی عظیم نعمت سے سرفراز ہوئے۔ یعنی ان کی سعادتوں
میں سے ایک سعادت یہ بھی ہے کہ انہیں شہادت نصیب ہوئی۔
بے نماز کاحشر قارون ، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ
مولانا عبد
الغفار خیری اپنے مضمون ” ہماری نمازیں “ میں لکھتے ہیں:
”بیہقی نے شعب الایمان میں عبد اللہ
ابن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کا ذِکر
کرتے ہوئے فرمایا جس نے نماز کی حفاظت کی اس کی نمازتو وہ اس کے لیے روشنی ہوگی
اور اس کے ایمان پر دلیل ہوگی اور قیامت کے دن نجات ہوگی۔ اور جس نے اس کی حفاظت
نہ کی تو اس کے لیے وہ نہ روشنی ہوگی، نہ دلیل اور نہ نجات ہوگی اور وہ قیامت کے
دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۱۳)
فضائل اعمال کے خلاف لکھنے والے
غیرمقلدین مذکورہ بالا حدیث کو ضعیف کہہ کر اعتراض کیا کرتے ہیں مگر صحیفہ میں وہی
حدیث درج ہے ۔ اور صحیفہ کو قرآن و حدیث کا محافظ بھی کہا گیا جیسا کہ پہلے عبارت
گزر چکی ہے ۔
قدقامت الصلوۃ کا جواب اقامھا اللّٰہ و ادامھا
مولاناابو
تمیم محمدی ( حیدر آبا د دکن ) اپنے مضمون ” نماز “ میں لکھتے ہیں:
”فائدہ: جب اقامت کہنے والا قدقامت الصلوۃ کہے تو سننے
والا اقامھا اللّٰہ و ادامھا کہے یعنی قائم رکھے اللہ نماز کو اور ہمیشہ قائم
رکھے ۔اقامت کے بعد اگر کوئی وضو کر رہا ہو تو اس کا انتظار کرے ۔ صحیح ابن جارود
۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۱۸)
یہاں وضاحت مطلوب ہے کہ یہ مسئلہ
غیرمقلدین میں اتفاقی ہے یا صرف صحیفہ والوں کا اختیار کردہ ؟ مذکورہ مسئلہ کے
دلائل درج کر دیئے ہوتے تو اچھا ہوتا تاکہ اس مسئلہ کے مخالف گروہ کو وہ حدیثیں
دکھائی جاتیں۔
جہری نماز میں بسم
اللہ پڑھنے کا مسئلہ
مولاناابو
تمیم محمدی ( حیدر آبا د دکن ) اپنے مضمون ” نماز “ میں لکھتے ہیں:
”جہری نماز میں بسم اللہ جہر سے پڑھے
۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۱۸)
یہ مسئلہ بھی غیرمقلدین کے ہاں
اختلافی ہے اس میں اُن کی کئی آراء ہیں۔ ایک یہ کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ جہری
ہی پڑھی جائے،آہستہ پڑھنا ثابت نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ جہر او ر سر دونوں طرح
پڑھنا ثابت ہے مگر آہستہ پڑھنا بہتر ہے ۔ تیسری تحقیق یہ ہے کہ بسم اللہ آہستہ
پڑھنا ہی ثابت ہے ،لہذا جہری نہیں پڑھنا چاہیے۔ان متعدد آراء میں سے صحیفہ میں ایک
رائے لکھی ہوئی ہے ۔
جہری نمازوں میں
منفرد بھی آمین جہراً کہے
مولاناابو
تمیم محمدی ( حیدر آبا د دکن ) اپنے مضمون ” نماز ’’ میں لکھتے ہیں:
”اگر نماز
فجر یا مغرب یا عشاء کی ہے تو امام یا مقتدی یا منفرد آمین پکار کر کہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۱۹)
محمدی صاحب کے بقول ”جہری نمازوں میں
منفرد آمین اونچی کہے “۔ اس کی دلیل کہاں ہے؟ یہاں یہ بھی بادلیل بتائیں کہ منفرد
نمازی جہری نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی آمین جہرا ًکہے گا؟ مزید یہ کہ
سری نمازوں میں آمین آہستہ کہی جاتی ہے اس کے دلائل بھی بیان کردیں۔
بسم اللہ دو سورتوں کے درمیان حدِ فاصل ہے
مولاناابو
تمیم محمدی ( حیدر آبا د دکن ) اپنے مضمون ” نماز “ میں لکھتے ہیں:
”سورۃ کے درمیان سے پڑھیں توبسم اللہ
پڑھنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ بسم اللہ ایک سورۃ اور دوسری سورۃ کے شروع کی علامت
ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۱۹،۲۰)
علامت کی بات لکھ دی اور یہ بھی واضح
کرنا تھا کہ بسم اللہ شریف ہر سورت کا جز ہے یا نہیں۔ اور یہ بھی بتاتے کہ
غیرمقلدین کا اس میں اختلاف کیا ہے ؟ غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں
ایک فریق باطل پر ہوتا ہے تو نشان دہی کی جاتی کہ اس مسئلہ میں غیرمقلدین کا کون
سا فریق باطل پہ ہے۔
عورت کی نماز
مولاناابو
تمیم محمدی ( حیدر آبا د دکن ) اپنے مضمون ” نماز “ میں لکھتے ہیں:
”فائدہ: عورتیں بھی اِسی طرح سجدہ
کریں ۔ زمین سے چپک کر سجدہ کرنا کسی ضعیف سے ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں۔بلکہ اِس
طرح سجدہ کرنے کو اصطلاحِ حدیث میں کتے کی بیٹھک کہتے ہیں اس طرح سجدہ کرنے سے
نماز باطل ہو جاتی ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۲۰)
غیرمقلدین کی کتب کا مطالعہ ہم عرصہ
دراز سے کر رہے ہیں مگر یہ بات ہمارے مطالعہ میں پہلی بار آئی ہے کہ اگر عورت زمین
سے چپک کر سجدہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہوتی ۔یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ غیرمقلدین
کا ایک اقلیتی گروہ مرد و عورت کی نماز میں فرق کا قائل ہے۔
امام شافعی ماں کے پیٹ میں تھے کہ ستارہ ٹوٹ کر ریزہ ہوا
محمد فاروق
آزاد (جلال پوری ملتان ، خطیب لانڈھی کراچی ) اپنے مضمون ” تاریخ اہلِ حدیث قسط:۴
“ میں لکھتے ہیں:
”امام شافعی جملہ مکاتب ِ فکر کے ہاں
ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔یہ بھی ائمہ مجتہدین میں سے ہیں۔ان کی پیدائش ۱۵۰ھ سال
وفات امام بوحنیفہ ؒ ہے ۔ ابھی بطن ام میں تھے۔ ماں کو بشارت ملی وہ یہ کہ ان کے
بطن مبارک سے آسمان کا مشہور ستارہ مشتری نکلا۔ اور وہ ایسا ٹوٹا کہ ریزہ ریزہ ہو
کر دنیا کے تمام شہروں میں پھیل گیا حیرت و استعجاب سے۔ جب کہ ایک قابل معبر سے
تعبیر پوچھی گئی اس نے کہا آپ کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ ایسا جلیل القدر والمنزلت
عالم پیدا کرے گا کہ تمام انسانی آبادی اس کے علم سے بہرہ ور ہوگی۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍ شوال المکرم ۱۳۸۸ھ صفحہ۴)
اس پر موجودہ غیرمقلدین تبصرہ کریں ۔
کیا واقعۃً اس طرح کامعاملہ پیش آیا؟ مزید یہ کہ معبر کی تعبیرکو آپ نے کیسے مان
لیا جب کہ وہ امتی ہے اور آپ لوگوں کے ہاں امتی کی بات حجت نہیں ۔
امام ابوحنیفہ کو اہلِ حدیث کہہ دیا
محمد فاروق
آزاد (جلال پوری ملتان ، خطیب لانڈھی کراچی ) اپنے مضمون ” تاریخ اہلِ حدیث قسط:۴
“ میں آگے لکھتے ہیں:
”امام ابوحنیفہ ،امام مالک اور اُس
زمانہ کے لوگ اہلِ حدیث تھے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم ربیع الاول ۱۳۸۸ھ صفحہ۲۴)
غیرمقلدین کے ہاں اہل الرائے کا مطلب
رائے کی پیروی کرنے والا اور اہلِ حدیث کا مطلب حدیث کا متبع ہے ۔ اس تقسیم کے
لحاظ غیرمقلدین عموماً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ”اہل الرائے ’’کہا کرتے ہیں
مگرجب چاہتے ہیں تو انہیں اہلِ حدیث بھی لکھ دیتے ہیں جیسا کہ یہاں انہیں اہلِ
حدیث کہا ہے ۔
کرم الجلیلی کے چچا کا کردار
کرم الجلیلی لکھتے ہیں:
”شومی ٔ قسمت سے ہمارے محترم چچابزعمہ
مولانا و بالفضل اولنا، جامع المعقول و المنقول، حاوی الاصول والفروع، علامۂ
دَوراں ، مجتہدِ عصر، محقق دہر ، مجدد ِ چودھویں صدی وغیرہ عبد القاد ر صاحب
بالقابہ بھی علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ، شیطان کے انہیں طوق و
سلاسل میں مقید و محصور ہو کر رہ گئے ہیں،خود بینی کی ٹی بی نے تمام ایمانی خون
حسد و بغض کے اُلٹیوں کے ذریعے اُگلوا دیا، شہرت ونام وری کے کینسر نے عدل و انصا
کی تمام ہڈیوں کو کھا لیا، نخوت وتکبر کے ناسور نے اخلاق، آداب، صداقت اور دیانت
کے تمام جسم کو بیکار کرکے رکھ دیا۔ آپ نے شہرت و ناموری کے اُڑان کھٹولے پر سوار
ہو کر دوشِ ثریّا ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اُسے غیض و غضب کی تیز و تند آندھیوں نے
مکانِ سحیق و عمیق میں پہنچا دیا۔ نخوت و تکبر کے جہاز میں بیٹھ کر اپنی منزل
مقصود پر پہنچنا چاہالیکن تعصب و انانیت کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم صفر المظفر ۱۳۸۳ھ صفحہ۵)
چچا کا جو کردار ہے سو ہے،مگر بھتیجے
کا اخلاق بھی اس عبارت سے ٹپک رہا ہے ۔ جس چچا کا کردار یہاں درج ہے ان کا مسلک
بھی لکھ دیتے۔ کیا یہ بات درست ہے کہ وہ مسلکاً اہلِ حدیث ہیں؟ آگے آنے والے عنوان
” صحابہ ، تابعین ، محدثین اور اسلاف کی توہین و تذلیل ’ ’ کے تحت مذکور عبارت سے
تو یہی لگتا ہے کہ وہ اہلِ حدیث ہیں۔ عبد القادر سے مراد مولانا عبد القادر حصاروی
تو نہیں؟
صحابہ ، تابعین، محدثین اور اسلاف کی توہین و تذلیل
کرم الجلیلی آگے اپنے چچا مذکور کے متعلق لکھتے
ہیں:
”بو العجبی ، خود بینی اور خود پسندی
کے غلیظ گڑھے میں اپنی محققیت و مجتہدیت
کے پتھر ایسے مارے کہ اُس سے نہ صرف اپنے بلکہ صحابۂ رسول، تابعین عظام، محدثین کرام، اکابر سلف
صالحین رضوان اللہ علیہم رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عہدحاضرہ کے جملہ اہلِ حدیث
بلکہ وہ اہلِ حدیث بھی جو کہ موصوف کے اخلاق سوز و متعصابانہ مضامین کی ذوق و شوق
کے ساتھ اشاعت کر رہے ہیں، کے عفتی کپڑوں کو بھی گندا کر دیا، اُن بزرگوں کی نہ
صرف تذلیل و تحقیر بلکہ اپنے مقلد بھائیوں کی طرح اُن کو غیر مجتہد ، غیر فقیہ اور
بے سمجھ قرار دیاہے موصوف کی اس دلیری پر مقلدیت ، شیعیت، رافضیت اور چکڑالویت بھی
شرمانے لگی۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم صفر المظفر ۱۳۸۳ھ صفحہ۵)
کرم الجلیلی کے چچا کے مضامین شائع
کرنے والے اُن کے اپنے اہلِ حدیث ہی ہیں،وہ مضامین حیاسوز ہونے کے ساتھ ساتھ”صحابہ
، تابعین ، محدثین اور اسلاف کی توہین و تذلیل ’’ پرمشتمل ہیں۔
جمعہ کی پہلی اذان پر بدعت کی پھبتی
نصرۃ الباری کتاب المناسک ساتواں پارہ صفحہ ۸۳
پہ لکھا ہے :
” آج کل بھی اکثر مساجد میں ہشام بن
عبد الملک کی ایجاد کردہ بدعت جاری ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم صفر المظفر ۱۳۸۳ھ صفحہ۳۶)
جس اذان کو بدعت کہا گیا ہے یہ اذان
غیرمقلدین کی کئی مساجد میں جاری ہے۔ جمعہ کی اذان ِ ثانی کے اثبات میں مولانا محب
اللہ شاہ راشدی کامضمون”مقالاتِ راشدیہ جلد اول ’’ میں ہے ۔انہوں نے اس مضمون میں
اپنے اُن غیرمقلدین کی خبرلی ہے جو اسے غیر ثابت اور بدعت کہتے ہیں ۔
شب قدر میں وعظ و تقریر کا اہتمام بدعت
نصرۃ الباری کتاب المناسک ساتواں پارہ صفحہ ۸۳
پہ لکھا ہے :
”آج کل بھی جو لوگ ماہِ رمضان کی
پانچوں شب قدر میں وعظ و تقریر کو لازم سمجھتے ہیں اور ہر سال بطور نمائش اجتماع و
اہتمام کرکے اس طرح شب قدر مناتے ہیں کیوں کہ بہ ہیئت کذائی مرد و زن کا یہ اجتماع
و التزام عہد نبوی و عہد خلفائے راشدین میں ثابت نہیں اس لیے اسے بھی بدعت کہہ
سکتے ہیں گو مطلق وعظ و نصیحت بدعت نہیں ہے ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم صفر المظفر ۱۳۸۳ھ صفحہ۳۶)
یہ عبارت پڑھ لیں اور پھر جب رمضان
کامہینہ آئے تو دیکھنا کہ غیرمقلدین کے ہاں شب قدر کس طرح منائی جاتی ہے ۔ پھر خود
ہی فیصلہ کرلینا کہ ان کا عمل مذکورہ بالا عبارت کے پیش نظر بدعت ہے یا نہیں ؟
صحیح بخاری کی روایت میں راوی کو شک ہوگیا
نصرۃ الباری کتاب المناسک ساتواں پارہ صفحہ ۸۴
پہ لکھا ہے :
”اُراہ مضاف و مضاف الیہ کے درمیان
جملہ معترضہ ہے لفظ ” حُنین“ میں راوی
کو شک ہوگیا اس لئے
اُراہ کہا ۔ صحیح
مسلم میں بروایت ہمام بغیرشک کے مروی ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ، یکم صفر المظفر ۱۳۸۳ھ صفحہ۳۷)
علامہ وحید الزمان نے تیسیر الباری
میں کئی مقامات میں اعتراف کیا ہے کہ بخاری کے متعد رایوں کو شک ہوا ہے۔ ایسے
حوالوں کو ایک جگہ پڑھنا چاہیں تو حضرت مولانا حافظ عبد القدوس قارن دام ظلہ کے
رسالہ ” بخاری شریف غیرمقلدین کی نظر میں ’’کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
قابل اقتداء ہستیاں
صحیفہ میں لکھاہے :
” قابل اقتداء ہستیاں : حضرت عبد اللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جو نیک ہستیاں دنیا سے رحلت کر گئی ہیں پس
وہی قابلِ اقتداء ہیں کیوں کہ علم، عمل اور اسلام پر ان کے خاتمے کا ہونا معلوم ہے
اور وہ دنیا کے فتنوں سے بھی محفوظ ہیں اور زندہ آدمی دنیا کے شرو فساد سے مامون
نہیں ہے۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍شعبان۱۳۸۸ھ صفحہ۷)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
نے فوت شدہ لوگوں کو قابل اقتداء ہستیاں قرار دیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری تھی کہ
فوت شدہ کی اقتداء کو تقلید کہیں گے یا کچھ اور ؟
مکہ میں اہلِ حدیث کی دکان
صحیفہ میں ”
مکہ مکرمہ میں اہلِ حدیث کی دوکان “ عنوان سے اشتہار شائع ہوا جس میں لکھاہے :
” حجاج کرام کو سن کر مسرت ہوگی کہ
الحمدللہ ہم اکیس سال سے مکہ مکرمہ میں آپ حضرات کی خدمت کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔اب
ہم پھر نہایت مستعدی سے آپ کی خدمت کے لئے منتظر ہیں۔ ہر قسم کی گھڑیاں، ہر قسم کا
بہترین اُونی و ریشمی کپڑا،ہر سائز کے مصلے، ہرطرح کے کمبل اور غالیچے۔ نیز دیگر
ضروریات کی اشیاء بازار سے رعایتی نرخ پر خرید فرمائیں۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍شعبان۱۳۸۸ھ صفحہ۲۳)
آج کل غیرمقلدین دعویٰ کر رہے ہیں کہ
مکہ و مدینہ والے اہلِ حدیث ہیں اگر یہ دعوی تسلیم کیا جائے تو ”مکہ میں اہلِ حدیث
کی دوکان’’ کے اشتہار کی ضرورت نہیں رہتی ،اس لئے کہ مذکورہ دعویٰ کے مطابق تو
وہاں کی عمومی دکانیں انہیں کی ہونی چاہئیں ۔
غیر مہذبانہ تعاقب
مولانا عبد القادر حصاروی اپنے مضمون ” انعامی
چیلنج بسر و چشم منظور “ میں اپنے ایک فتوی کے متعلق لکھتے ہیں ـ:
” اس پر مولانا یوسف صاحب کلکتوی نے
غیر مہذبانہ طریق سے تعاقب کر دیا جو صحیفہ اہلِ حدیث مطبوعہ یکم فروری ۱۹۶۸ء میں
شائع ہو چکا ہے۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍شعبان۱۳۸۸ھ صفحہ۲۵)
کلکتوی صاحب غیرمقلد ہیں اور ان کا تعاقب صحیفہ اہلِ حدیث میں
شائع ہوا۔ حصاروی صاحب تاثر دے رہے ہیں کہ کلکتوی صاحب غیرمقلد نے غیرمہذب تعاقب کیا اور یہ غیرمہذب
تعاقب غرباء اہلِ حدیث کے ترجمان رسالہ میں شائع ہوا۔
ضدو عناد ، کبر و غرور
مولانا عبد القادر حصاروی اپنے مضمون ” انعامی
چیلنج بسر و چشم منظور “ میں اپنے ایک
عالم مولانا محمد یوسف کلکتوی کے متعلق لکھتے ہیں ـ:
” بالآخر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو
ضد و عناد، کبرو غرور کی بیماریوں سے شفا بخش کر تواضع اور عدل اور حق قبول کرنے
کی توفیق بخشے، آمین۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍شعبان۱۳۸۸ھ صفحہ۲۵)
معلوم نہیں کہ کلکتوی صاحب کے حق میں حصاروی صاحب کی دعا قبول ہوئی؟ اُن کے
مخاطب کی بیماریاں: ضدو عناد، کبرو غرور زائل ہوئی تھیں یا نہیں ؟ اس کی وضاحت
غیرمقلدین ہی کر دیں تو اچھا ہوگا۔
زندوں کا وسیلہ
کرم الجلیلی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
”زندوں کاوسیلہ اور ان سے دعا کرانا
جائز ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بارش کے لیے
حضرت عبا س کا وسیلہ پکڑا اور آپ سے دعا کرائی۔ ہاں جو حضرات دنیا سے جا چکے ہیں
ان کا وسیلہ ناجائز ہے۔ تفصیل کے لیے حضرت مولانا عبدالستار صاحب محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ کا تصنیف کردہ رسالہ ” الوسیلۃ “ ملاحظہ فرمائیں۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶؍شعبان۱۳۸۸ھ صفحہ۳۰)
کرم الجلیلی صاحب نے زندوں کے وسیلہ کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کی
دلیل میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ غیرمقلدین
کے ہاں امتی کا عمل حجت نہیں۔مزید یہ کہ اس عبارت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے
عمل کو وسیلہ کا نام دیا گیا جب کہ پہلے ایک غیرمقلدکا بیان گزرچکا کہ سیدنا عمر
رضی اللہ عنہ کا یہ عمل وسیلہ نہیں بلکہ محض دعا کرانا ہے۔مطلب کوئی غیرمقلد اسے
وسیلہ کا نام دیتا ہے اور کوئی اسے محض دعا کرانے کا۔جب کہ صحیح بخاری :۱؍۱۳۷ میں
جہاں یہ واقعہ منقول ہے وہاں الفاظ وسیلہ کے ہیں اللّٰھم انا کنا نتوسل الیک الخ ۔
ائمہ اربعہ ہمارے امام ہیں
مولانامحمد رفیق خاں (پسرور ضلع سیالکوٹ ) لکھتے
ہیں:
”ہمارے امام ابوحنیفہ ؒ ، امام شافعی
ؒ، امام مالک ؒ اور امام احمد ؒ اور شیخ عبد القادر جیلانی اور سب سلف صالحین کا
اتفاق ہے کہ ... ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،یکم جمادی الثانی ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۱۵)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ اگر آپ
کے امام ہیں تو اُن پر وارد ہونے والے اشکال کا جواب دینا بھی آپ کی ذمہ داری
ہوگی۔ کچھ غیرمقلدین امام صاحب کو بُرا کہتے ہیں تووہ اس عبارت کے مطابق گویا اپنے
امام کو بُرا کہنے والے ہیں۔
تقلید کومہلک مرض قرار دینے کی جسارت
کرم الجلیلی لکھتے ہیں:
” بات در اصل یہ ہے کہ تقلید ناسدید
ایک ایسا مہلک مرض ہے کہ جس کو بھی یہ لگ گیا وہ مفلوج ہوکر رہ گیا، اُس کے ہاتھ
پاؤں بے کار ہوگئے،وہ آنکھوں سے اندھا، کانوں سے بہرا، زبان سے گونگا، ماؤف
الدماغ، ناکارہ دل غرض کہ گوشت پوست کا ایک غیر متحرک ڈھانچہ بلکہ لوٹھڑا بن کر رہ
گیا۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،۱۶ ؍ صفر المظفر ۱۳۸۷ھ صفحہ۲)
ہم نے اپنے رسالہ ” غیرمقلد ہو کر
تقلید کیوں؟ “ اور اپنی کتاب ” زبیر علی زئی کا تعاقب “ میں اہلِ حدیث کہلوانے والوں کے تقلیدی ہونے پر
خود اُن کی اپنی بہت سی عبارات باحوالہ پیش کر دی ہیں تو کیا وہ تقلیدی اہلِ حدیث
بھی مذکورہ عبارت کا مصداق ہیں؟
کشادہ ٹانگیں
صحیفہ میں لکھا ہے :
”س: بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ
نماز میں اُن کے پاؤں کے درمیان جگہ کافی سے زیادہ چوڑی ہوتی ہے کیا حدیث سے اتنی
ٹانگیں کشادہ کرنا ثابت ہے ؟ ج:نماز میں نمازی کو پاؤں اتنے کشادہ کرنے چاہئیں جن
سے بآسانی کھڑا ہو سکے اور ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ اور مونڈھے
سے مونڈھا مل سکے۔ بصورتِ دیگر مذکورہ اشیاء کا ترک لازم آئے گا۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،یکم جمادی الثانی ؍ ۱۳۸۸ھ صفحہ۲۶)
یہاں کہا گیا کہ ٹانگیں اتنی کشادہ
ہوں کہ مونڈھے سے مونڈھے ملے ہوئے ہوں۔ آپ غیرمقلدین کی مساجد میں جاکر مشاہدہ کر
لیں کیا اُن کے کندھے ملے ہوتے ہیں ؟ ہمارا مشاہدہ تو یہی ہے کہ دوران ِ نماز
غیرمقلدین کے مونڈھے ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں ہوتے۔حافظ عبد اللہ روپڑی نے بھی
فتاوی اہلِ حدیث میں تسلیم کیا ہے کہ بعض لوگ نماز میں پاؤں اتنا کشادہ کر لیتے
ہیں کہ کندھے باہم نہیں مل پاتے۔
قابل اتباع مکتوب
صحیفہ میں لکھا ہے :
” قابل اتباع
مکتوب ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،یکم جمادی الثانی ؍ ۱۳۸۸ھ صفحہ۲۹)
اَب تک تو غیرمقلدین سے ہم یہی سنتے
رہے ہیں کہ قابلِ اتباع صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب کہ صحیفہ کی
مذکورہ عبارت میں امتی کا مکتوب بھی قابلِ اتباع باور کرایا جارہا ہے ۔
بیعت کرکے غرباء میں شمولیت
صحیفہ میں ”جماعت میں شمولیت “ عنوان قائم کرکے
لکھا ہے :
” گزشتہ دنوں مندرجہ ذیل احباب چک
:۱۴۱ ضلع ساہی وال کی جماعت کے توسط سے حضرت امام صاحب کی بیعت کرکے جماعت میں
داخل ہوئے۔ محمد شریف قریشی، عطاء اللہ شاہ محمد صاحب، حافظ محمد اسلم صاحب، حافظ
مصطفی صاحب، حافظ اسلم صاحب، حافظ حاکم علی صاحب۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،یکم جمادی الثانی ؍ ۱۳۸۸ھ صفحہ۳۰)
بیعت ِ صوفیاء کو غیر ثابت کہنے والے
غیرمقلدین مذکورہ بیعت کی بابت کچھ فرمائیں۔ بعض غیرمقلدین کہا کرتے ہیں کہ بیعت
ہونے کا مطلب پیر کی تقلید میں آنا ہے۔بیعت کے بعد اپنی مرضی ختم بس پیر کی ہر بات
کو ماننا لازم ہوتا ہے۔ ایسے معترضین بتائیں کہ جو لوگ امام غرباء کی بیعت ہوئے
کیا وہ اُن کے مقلدین میں شامل ہوئے ہیں؟ غیرمقلدین کے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں
کہ انہوں نے اپنے امام کی تقلید کا پٹہ گلے میں پہن لیا؟
علامہ وحید الزمان کا مسلک
حافظ عبد
الاعلیٰ درانی (برطانیہ ) اپنے مضمون ” علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ کا مسلک “ میں
لکھتے ہیں:
” علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ کا
مسلک بتانے میں بہت زیادتی کی جاتی ہے۔ اور بغیر کسی دلیل کے انہیں شیعہ کے کھاتے
میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ علامہ صاحب کٹر حنفی تھے حتی کہ وہ دار العلوم دیوبند
کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ انہوں نے محسوس فرمایا کہ قرآن کریم کا ترجمہ تو خاندان
ولی اللہ نے کر دیا جس کی وجہ سے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی مسلک تصوف چھوڑ کر
خالص موحد بن گئے لیکن صحاح ستہ کا ترجمہ نہیں ہوا۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،محرم تا صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء صفحہ۶)
یہاں یہ بتا دیا جاتا کہ وحید الزمان
کو شیعہ کہنے والے کون لوگ ہیں؟اُن پر شیعہ کا لیبل لگانے والے اہلِ تشیع ہیں
یامدعیان اہلِ حدیث ؟کیا یہ بات درست ہے کہ متعدد مدعیان ِ اہلِ حدیث نے انہیں
شیعہ کہاہے ؟
درانی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ وحید
الزمان صاحب دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ اس کا ثبوت درکار ہے ۔
ہماری معلومات کے مطابق درانی صاحب کی یہ غلط بیانی ہے۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ شاہ ولی اللہ
رحمہ اللہ نے تصوف کو ترک کر دیا تھا جیسا کہ اس کا اعتراف خود غیرمقلدین کو بھی
ہے مثلاً مولانا عطاء اللہ ڈیروی غیرمقلد نے ” شاہ ولی اللہ اور صوفیت “ کا عنوان قائم کرکے لکھا :
” شاہ ولی اللہ کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ مذکورہ حوالہ جات جو صوفیت اور عقیدہ وحدت الوجود یا وحدت الشہود پر دلالت
کرتے ہیں۔یہ اُن کی وہ تحریرات ہیں جواُن کے حج پر جانے سے پہلے انہوں نے لکھی تھی
اور حج سے واپس آنے کے بعد انہوں نے ایسی تمام باتوں سے رجوع کر لیا تھا اور وہ
صحیح العقیدہ ہو گئے تھے۔یہ بات میں نے جماعت اہلِ حدیث سے تعلق رکھنے والے احباب
سے سنی لیکن یہ تحریرات جومیں نے نقل کی ہیں ان کی کتاب ” انفاس العارفین “ سے
ماخوذ ہیں اور ” انفاس العارفین“ان کی حج کے بعد کی تالیف ہے ۔اس کتاب کے آخر میں
وہ لکھتے ہیں...۔“
( تبلیغی و دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت صفحہ
۱۸۷،۱۸۸، دار الکتب العلمیہ ،طبع اول ، اشاعت: مئی ؍۲۰۱۰ء )
اس کے بعد ڈیروی
صاحب نے ” انفاس العارفین“ کی عبارت نقل کرکے لکھا:
” ثابت
ہوگیاکہ آپ طریقہ ٔصوفیت پرتھے ۔ “
( تبلیغی و
دیوبندی جماعت کا عقیدہ صوفیت صفحہ ۱۸۸، دار الکتب العلمیہ ،طبع اول ، اشاعت: مئی ؍۲۰۱۰ء )
درانی صاحب کا شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ
کے متعلق یہ جملہ ” مسلک تصوف چھوڑ کر خالص موحد بن گئے“ بھی قابلِ غور ہے ۔اس میں یہ تاثردیا گیا کہ
صوفی موحد نہیں ہوتا۔ اس پر ہم صرف اتنا پوچھتے ہیں کہ غیرمقلدین کا غزنوی خاندان
اور قصوری خاندان صوفی ہے ،توکیا وہ موحد نہیں تھے؟ کیا تصوف اور توحید ایک دوسرے
کی ضد ہیں کہ کوئی بندہ صوفی ہو کر موحد نہیں ہوسکتا؟
وحیدالزمان کب اہلِ حدیث ہوئے؟
حافظ عبد
الاعلی درانی (برطانیہ ) لکھتے ہیں:
”شیخ الکل کی شاگردی سے علامہ وحید
الزمان کے ذہن میں صحاح ستہ کا ترجمہ کرنے کا الہامی خیال پیدا ہوا اور ۱۹۲۰ء میں
شیخ الکل کی وفات کے بعد انہوں نے اس عظیم الشان کام کا بیڑہ اُٹھایا۔ اور علامہ
صاحب نے اسے پایہ تکمیل پہنچایا اس عظیم المرتبت کام کی تکمیل پر سو سال کا طویل
عرصہ گزر چکا ہے لیکن کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی ان سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ صحاح ستہ
کے ترجمہ کے دَوران ہی وہ اہلِ حدیث ہوگئے۔ “
( پندرہ روزہ
صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،محرم تا صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء صفحہ۶)
اس عبارت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ
وحید الزمان صاحب کو میاں صاحب کی شاگردی سے کتب ِحدیث کے ترجمہ کا شوق ہوا ۔
حالاں کہ وہ نواب صدیق حسن خان کی تحریک اور وظیفہ جاری کرنے سے اس طرف متوجہ ہوئے
جیسا کہ خود انہوں نے یہ بات لکھی ہے کہ نواب صدیق حسن خان نے :
” خدمت ترجمہ صحاح ستہ کی مفوض فرمائی
او رواسطے گزر اوقات کے پچاس پچاس روپیہ ماہ وار حرمین شریفین میں مقر ر فرمائے۔
اس خبر فرحت ِاَثر کے سنتے ہی نہایت شادمانی ہوئی۔ “
( پیشِ لفظ مؤطاامام مالک مترجم )
حاصل یہ کہ میاں صاحب کی وفات کے عرصہ
بعد وحید الزمان صاحب تراجم کی طرف راغب ہوئے اور خود درانی صاحب نے لکھاکہ انہوں
نے تراجم کاکام ۱۹۲۰ء میں شروع کیا، جب کہ میاں صاحب کی وفات کا سن ۱۹۰۰ء بتایا جاتا ہے۔ ( تصدیر فتاویٰ نذیریہ
جلداول صفحہ الف )
یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ انہوں نے
کتب ستہ کے تراجم کے دَوران مسلک تبدیل کیا۔ وہ اس سے پہلے غیرمقلدیت کی آغوش میں
آچکے تھے انہوں نے کتب ِحدیث کے حواشی غیرمقلدیت کے نقطۂ نظر سے تحریر کیے ،خاص کر
غیرمقلدین کے ہاں امتیازی سمجھے جانے والے مسائل : رفع یدین، فاتحہ خلف الامام،
آمین بالجہر، آٹھ تراویح اور ایک مجلس کی تین طلاق وغیرہ مسائل مذکورہ نقطۂ نظرکے
مطابق لکھے ہیں بلکہ ان مسائل کو بیان کرتے ہوئے اپنے مخالفین کارد بھی کیا۔
وحید الزمان کے شیعی تفردات اہلِ حدیث ہونے کی نفی نہیں
کرتے
حافظ عبد
الاعلی درانی (برطانیہ ) میں لکھتے ہیں:
”رہی بات ان کے بعض شیعی مسائل میں دل
چسپی اور تفردات کی تو کوئی ٹھوس دلیل نہیں کہ وہ اہلِ حدیث ہونے کے بعد کے ہیں ان
بعض الظن اثم۔ غالب خیال یہی ہے کہ وہ پہلے کے ہیں۔ اگر کوئی ایسا تفرد بعد کا
ثابت ہو بھی جائے تو یہ کوئی قابل گردنی زدنی نہیں ہے۔امام شوکانی، علامہ صنعانی
بعض دیگر اہلِ علم کی طرف بھی اس قسم کے اقوال منسوب ہیں ۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،محرم تا صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء صفحہ۶)
جی آپ نے بجا کہا کہ وحیدالزمان کے
تفردات ان کے غیرمقلد ہونے کی نفی نہیں کرتے۔ لیکن آپ کی
اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تفردات
پہلے دَور کے ہیں۔ ان کی جن کتب سے یہ تفردات پیش کیے جاتے ہیں وہ سب ان کے مشرف
بہ غیرمقلدیت ہونے کے بعد کی ہیں مثلاً ہدیۃ المہدی وغیرہ۔
درانی صاحب نے وحید الزمان کے دفاع میں شوکانی
اور صنعانی کی طرف بھی شیعی تفردات کی نسبت سے کیا یہی تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ
دونوں بزرگ شیعی تفردات کے باوجود اہلِ حدیث ہیں تو وحیدالزمان بھی اہلِ حدیث ہیں
یا کچھ اور پیغام مقصود ہے ؟
وحید الزمان کو اہلِ حدیث نہ ماننے والے اہلِ حدیثوں پر
افسوس
حافظ عبد
الاعلی درانی (برطانیہ ) میں لکھتے ہیں:
”در اصل علامہ وحید الزمان کا اتنا
وقیع علمی کام ہند کے بعض مقلدین کے نزدیک ہرگز ہضم نہیں ہو سکتا، اس لئے انہوں نے
علامہ وحید الزمان کو بد نام کرنے کے لیے ہر ہربہ استعمال کیا ۔افسوس اس وقت زیادہ
ہوتا ہے کہ اہلِ حدیث بھی اس رو میں بہہ جاتے ہیں حالاں کہ انہیں تو اس کام کر
کریڈٹ دینا چاہیے اور مخالفین کی بغض کی وجہ عیاں کرنی چاہیے ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،محرم تا صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء صفحہ۶)
درانی
صاحب کہہ رہے کہ اہلِ حدیث مقلدین کی رو میں بہہ گئے اس لئے وحیدالزمان کے اہلِ
حدیث ہونے کا انکار کر دیا ۔ حالاں کہ مقلدین حضرات تو وحید الزمان کو غیرمقلد اور
اہلِ حدیث ہی گردانتے ہیں ۔ ان کے اہلِ حدیث ہونے کا انکار تو بعض غیرمقلدین نے
کیا ہے ۔ اس کی بھی وجہ ہے وہ یہ کہ جب وحید الزمان پہ کئے گئے اعتراضات کا جواب
نہیں دے پاتے تو لاچار ہو کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ ہمارا اہلِ حدیث نہیں۔ ورنہ عام
غیرمقلدین اور خود اُن کی اپنی کتابیں ان کے اہلِ حدیث ہونے کی گواہ ہیں۔ ایسے
حوالے بندہ نے اپنی کتاب ” زبیر علی زئی کا تعاقب “ میں نقل کر دئیے ہیں۔
دُرانی صاحب کے بقول اُن کے اہلِ حدیث مقلدین کی
رو میں بہہ گئے۔یہا ں یہ سوال بجا ہے کہ رومیں بہہ جانے کے اس طرز ِعمل کو تقلید
کہیں گے یا نہیں ؟
وحید الزمان کے اہلِ حدیث ہونے پر دو غیرمقلد علماء کی
گواہی
حافظ عبد
الاعلی درانی (برطانیہ ) میں لکھتے ہیں:
”اسی لئے علمائے محققین کی رائے کافی
محتاط ہے اگرچہ مخالفین کا پروپینگنڈا اثر انداز ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ارشاد الحق
اثری حفظہ اللہ وحید الزمان کا مسلک بتاتے ہوئے لکھتے رقم طراز ہیں: ” برصغیر کے
نام ور علماء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ پہلے متعصب حنفی تھے۔ پھر تحقیق کے بعد
تقلید کا زور ٹوٹ گیا تو کتاب و سنت کی تابع داری کا شوق بڑھ گیا البتہ ان کے بعض
تفردات سے شیعی عقائد کے ساتھ ہم آہنگی کی بناپر ....“ (پاک و ہند میں علمائے اہلِ
حدیث کی خدماتِ حدیث ، صفحہ ۸۱) محقق عالم جناب عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ وحیدا
لزمان کے مسلکی اَدوار کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” پھر تحقیق کے
بعد تقلید کا زور ٹوٹ گیا تو کتاب و سنت کی تابع داری کا شوق بڑھ گیا۔ البتہ ان کے
بعض تفردات سے شیعی عقائد کے ساتھ ہم آہنگی کی بناء پر اکابر علمائے اہلِ حدیث نے
پر زور بے زاری کا اظہار کیا ہے۔ “( ہفت روزہ حدیبیہ جلد ۲ ... ۱تا ۱۵ مارچ ؍۲۰۱۱ء)۔۔۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،محرم تا صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء صفحہ۶)
درانی صاحب نے ارشاد الحق اثری اور
عبد الوکیل ناصر دونوں کو محقق علماء کہا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھی کسی
پروپیگنڈے کا شکار ہو کر وحید الزمان کے شیعی تفردات کے قائل ہوئے؟
ارشاد الحق
اثری اور عبد الوکیل کے الفاظ قریبا ً ایک جیسے ہیں ۔یہ اتفاقاً ہوا یا ایک نے
دوسرے کی نقل کی۔
وحیدالزمان فخر اہلِ حدیث تھے
حافظ عبد الاعلی درانی (برطانیہ ) میں لکھتے
ہیں:
”اس لئے بندہ عاجز حافظ عبد الاعلیٰ
کا موقف یہی ہے کہ علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ نہ صرف پختہ اہلِ حدیث تھے بلکہ
اہلِ حدیث کے لیے باعثِ فخر تھے۔ جیسا شاہ ولی اللہ مترجم قرآن کریم کے اعزاز کے
حامل تھے۔ اسی طرح ترجمہ حدیث نبوی کا سب سے پہلے اعزاز علامہ وحید الزمان رحمہ
اللہ کو حاصل ہوا۔ “
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ،محرم تا
صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء صفحہ۶)
حدیث کے پہلے مترجم والی بات سے تو
اتفاق نہیں، البتہ یہ بات درست ہے کہ وحید الزمان کا شمار مدعیان
اہلِ حدیث کے فرقہ میں ہے ۔ درانی صاحب کے بقول
وہ پختہ اہل ِ حدیث ہیں اوراہلِ حدیث کے لئے باعثِ فخر ۔
حنفیت کی قدامت
حافظ عبد
الاعلی درانی (برطانیہ ) میں لکھتے ہیں:
”ہندوستان
زمانہ قدیم سے اسلام گڑھ کی بجائے حنفیت کا گڑھ بنا ہوا ہے ۔“
( پندرہ روزہ صحیفہ اہلِ حدیث
کراچی ،محرم تا صفر ۱۴۴۵ھ ... جولائی تا اگست ۲۰۲۳ء )
اسلام اور حنفیت کو مد مقابل گردانا
غیرمقلدانہ سوچ ہے۔ ورنہ یہ کیسی تقسیم ہے کہ قرآن وحدیث سے فقہائے احناف جوکچھ
سمجھیں وہ تو اسلام کے بالمقابل الگ دین ہو اور جو کچھ غیرمقلدین اَخذکریں وہ ٹھیٹھ
اسلام کہلائے؟ تلک اذاً قسمۃ ضیزی ۔حافظ عبد
اللہ روپڑی نے یوں دعویٰ کر دیا:
” مسلک اہلِ
حدیث اور ٹھیٹھ اسلام میں کوئی فرق نہیں ۔“
( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۱؍۶۹، ادارہ احیاء السنۃ
ڈی بلاک سرگودھا ، اشاعت: اکتوبر؍ ۲۰۱۰ء )
مزید یہ کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور مولانا
محمد حسین بٹالوی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیا کرتے تھے اور حنفی بھی
کہلواتے تھے۔(اشاعۃ السنہ جلد ۲۲نمبر ۱۰ صفحہ۱۳۰)
اس کا عکس حضرت مولانا حبیب الرحمن
لدھیانوی کی کتاب ”تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۳۸“
پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ تو کیا میاں اور بٹالوی بھی اسلام گڑھ کے بالمقابل
حنفیت گڑھ کے افراد تھے ؟
درانی صاحب نے اتنا توتسلیم کیا
ہندوستان میں قدیم زمانہ سے حنفی آباد چلے آ رہے ہیں لیکن کب سے ہیں؟ یہ آپ
غیرمقلدین کے ” خاتم المحدثین“ نواب صدیق حسن خان کی زبانی جانئے!۔ نواب صاحب
لکھتے ہیں:
”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا
یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے چوں کہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو
پسند کرتے ہیں اس وقت سے آج تک لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں او ر اسی مذہب
کے عالم اور فاضل، قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے یہاں تک ایک جم غفیر نے مل کر
” فتاویٰ ہندیہ ’’یعنی فتاویٰ عالم گیری جمع کیا اور اس میں شیخ عبد الرحیم دہلوی
والد بزرگوار شاہ ولی اللہ مرحوم کے بھی تھے۔“
(ترجمانِ وہابیہ صفحہ ۱۰،۱۱
...مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلداول )
نواب صاحب اور درانی صاحب کی گواہیوں
سے ہندوستان میں احناف کی تو قدامت معلوم ہوگئی ۔ اب ترک تقلید کی ابتداء بھی
پڑھئے!۔مولانا ثناء اللہ امرتسری لفظ ” وہابی “پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” اہلِ حدیث ( غیرمقلدین ) پر یہ لفظ
حضرت میاں صاحب سے شروع ہوا کیوں کہ حضرت موصوف سے پہلے اہلِ حدیث کا گروہ بحیثیت
غیرمقلد ہندوستان میں نہ تھا جن لوگوں کو ان سے پہلے لوگ ”وہابی ’’ کہا کرتے تھے ،
وہ مسائل توحیدیہ کی وجہ سے کہتے تھے، نہ کہ مسائل ترکِ تقلید کی وجہ سے ۔ “
( اہلِ حدیث امرتسر ۸؍ذی قعدہ
۱۳۳۶ھ ، مطابق اگست؍۱۹۱۸ء صفحہ ۳)
اس کا عکس
حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی کتاب ”تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۳۸’’ پہ دیکھ
سکتے ہیں۔
کلمہ شکر:صحیفہ اہلِ حدیث کے جس شمارہ میں علامہ وحید الزمان کے اہلِ حدیث ہونے پر دُرانی صاحب کا مضمون ہے۔ اس صحیفہ کا مطلوبہ صفحہ مولانا عبد الرحمن عابد ( پشاور ) نے بھیجا ہے ۔جزاہم اللہ ۔
شرابی کی سزا
حکیم محمد
صادق سیالکوٹی اپنے مضمون ’’ اسلام میں جرائم کی سزا ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ حضرت علی نے اس کو چالیس کوڑے مار
کر کہا رسول اللہ ؐ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے۔ اور حضرت ابو بکر نے بھی چالیس ہی
۔ لیکن حضرت عمر نے اَسی کوڑے مارے تھے۔وہ بھی سنت ہے ۔ ( ابن ماجہ ) اس سے معلوم
ہوا کہ شرابی کی سزا چالیس کوڑوں سے اَسّی کوڑوں تک حالات کے مطابق دی جا سکتی ہے۔
‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍ ذو
القعدہ ۱۳۸۸ھ صفحہ ۲۱)
عام غیرمقلدین شرابی کی سزا چالیس
کوڑے بتاتے ہیں مگر سیالکوٹی نے چالیس سے اَسی کو تسلیم کیا ہے۔ مزید یہ کہ یہاں
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے شرابی کے لیے اَسی کوڑوں کی سزا کو ’’ سنت ‘‘
قرار دیا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ خلفائے راشدین کا فعل بھی سنت ہے ۔یہاں سیدنا عمر
رضی اللہ عنہ کے فعل کو حجت تسلیم کیا گیا جب کہ شیخ ناصرالدین البانی غیرمقلد کے
نزدیک خلفاء راشدین میں سے کسی ایک کا عمل حجت نہیں ۔ جب چاروں کسی عمل پہ متفق
ہوں تب حجت ہوگا۔ چنانچہ وہ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء
الراشدین ، تم لازم
پکڑنا میری سنت کو اور خلفائے راشدین کی سنت کو ‘‘ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ یہ مراد ہے کہ چاروں خلفائے راشدین
کا ایک رائے پہ جمع ہونا حجت ہوگا اور صحیح بھی یہی معنی ہے ۔‘‘
( فتاوی البانیہ صفحہ ۱۱۹،
ناشر: مکتبۃ الصدیق السلفیہ ، اشاعتِ اول: جنوری ؍۲۰۱۳ء )
بے نمازوں سے قتال کرنا شرعی جہاد ہے
مولانا عبد
القادرعارف حصاروی غیرمقلد اپنے مضمون ’’ بے نماز کی تکفیر کا اثبات ‘‘ میں لکھتے
ہیں :
’’یہ قتال صدیقی تادیباً یا حدًّا نہ
تھا جیسا کہ پروفیسر صاحب کا خیال ہے۔بلکہ یہ شرعی جہاد ہے جو بے نمازوں اور
تارکین ِزکوۃ سے کیا جا سکتا ہے چنانچہ قرآن میں یہ حکم وارد ہے کہ فان
تابوا و اقاموا الصلٰوۃ واتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم یعنی اگر وہ کفر سے توبہ کرکے
نماز اور زکوۃ کے پابند ہو جائیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔جس کا مفہوم مخالف یہ ہے
کہ اگر نماز و زکوۃ کے پابند نہ ہوں توان سے جنگ کرو اور راستہ نہ چھوڑ ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍ ذو
القعدہ ۱۳۸۸ھ صفحہ ۲۴)
غیرمقلدین حدیث پر عمل کرنے کے دعوے
دار ہیں ، اس لئے بتایا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بے نماز یا
گناہ کبیرہ کے مرتکب سے قتال کیا۔ باقی رہا سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قتال وہ
زکوۃ کے ترک پہ قتال نہیں بلکہ زکوۃ کے انکار کی وجہ سے تھا زکوۃ کی فرضیت کا
انکار کفر ہے جب کہ اسے فرض مان کر ادا نہ کرنا کفر نہیں ، گناہ کبیرہ ہے ،جناب کو
یہ فرق معلوم ہونا چاہیے ۔مذکورہ عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حصاروی صاحب کے ہاں
مفہوم مخالف حجت ہے ۔
احادیث رکوع
کی بابت
ایک صاحب
لکھتے ہیں :
’’مجھے پانچوں وقت ایک ایسے مولوی
صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی نصیب ہوتی ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ رکوع میں ملنے سے
رکعت نہیں ہوتی۔ اَب میں پریشان ہوں کہ ان کے پیچھے میری نماز ہوتی ہے یا نہیں
کیوں کہ جیسے دیگر لوگ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کے منکر ہیں اسی طرح یہ بخاری
شریف کی حدیث کے منکر ہیں جو کہ رکوع کی بابت ہے ۔ ‘‘
صحیفہ میں اس سوال کا یوں جواب دیاگیا:
’’ اگر واقعی وہ مولوی صاحب احادیثِ
رکوع کے منکر ہیں توان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی،کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے کسی ارشاد کی تکذیب یا انکار کرنا اسلام سے ہاتھ دھونا ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍ ذو
القعدہ ۱۳۸۸ھ صفحہ ۲۱)
عام غیرمقلدین رکوع پانے لینے سے رکعت
پالینا نہیں مانتے ۔ غرباء والے رکعت کا پالینا قرار دیتے ہیں اور اسے حدیث
کامسئلہ بھی باور کراتے ہیں ۔ چوں کہ یہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے اس لیے غرباء والے
دوسرے غیرمقلدین کو مخالف حدیث کہتے ہیں ، جیسا کہ مذکورہ عبارت سے باور کرایا گیا
ہے ۔
اونٹ میں
عقیقہ کا مسئلہ
صحیفہ میں
مذکور ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
’’س:علامہ ابن قیم نے تحفۃ الودود میں
لکھا ہے کہ لایصح فیھا الاشتراک گائے ، اونٹ میں عقیقہ کے لیے اشتراک صحیح نہیں ہے۔ اس
کا کیا مطلب ہے ؟ ج: یہ علامہ موصوف کی اپنی رائے ہے ورنہ شریعت مطہرہ میں اس کی
کوئی ممانعت وارد نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس بعض صحابہ کا تعامل موجود ہے۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍ ذو القعدہ ۱۳۸۸ھ
صفحہ ۲۶،۲۷)
صحیفہ کی اس
عبارت میں کئی باتیں قابل توجہ ہیں :
(۱)صحیفہ کے
بقول علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اونٹ میں عقیقہ کے قائل نہیں مگر یہ اُن کی ذاتی
رائے ہے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے رائے سے مسئلہ لکھا بالفاظ دیگر وہ اس
مسئلہ میں اہل الرائے ہیں ۔
(۲)صحیفہ کے
بقول اونٹ میں عقیقہ کے جواز کی ممانعت چوں کہ حدیث میں نہیں اس لیے یہ جائز ہوا۔
یعنی ان کے نزدیک حدیث سے اس کا ثابت ہونا ضروری نہیں ۔ بس اتنا کافی ہے کہ حدیث
میں اس کی ممانعت نہیں ۔
(۳)صحیفہ میں
بعض صحابہ کے تعامل کو دلیل بنایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ غیرمقلدین نے امتی حضرات
کے عمل کو دلیل بنایا ہے مگر جب جنون میں ہوں تو یوں کہہ دیتے ہیں قابل اتباع صرف
اور صرف وحی الہی ہے ۔ امتی چوں کہ معصوم نہیں ، اس لیے ان کی اتباع جائز نہیں ۔
وغیرہ
نفاس کی انتہائی مدت چالیس دن
صحیفہ میں
درج ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ کریں:
’’بچہ کی پیدائش کے بعد نفاس کی مدت
چالیس یوم ہے۔اگر حمل گرجائے تو اس کے نفاس کی مدت کتنی ہے ؟:ج: دونوں کا ایک حکم
ہے اور چالیس دن یہ انتہائی مدت ہے ۔اگر اس
سے پہلے خون بند ہو جائے تو نماز وغیرہ شروع کر
دینی چاہیے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍ ذو
القعدہ ۱۳۸۸ھ صفحہ۲۷)
یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے۔ غیرمقلدین
اس مسئلہ پر اعتراض کیاکرتے ہیں کہ نفاس کی آخری مدت متعین نہیں وغیرہ مگر غرباء
والوں نے اسی مسئلہ کو’’صحیفہ اہلِ حدیث ‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا ہے ۔
امام ابو
حنیفہ قرآن و سنت کے پیرو تھے
محمد عمران
الہی میرٹھی لکھتے ہیں :
’’صحابہ ؓ ، تابعین و تبع تابعین ،
ائمہ دین ، محدثین ہوں یا مجتہدین سب ہی حق کے پیرو کتاب و سنت کے پابند تھے ۔امام
ابوحنیفہ ؒ جانتے تھے کہ حق صرف قرآن و حدیث ہی میں دائر ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍صفر ۱۳۷۸ھ صفحہ۱۱)
غنیمت ہے کہ سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ کو کتاب و سنت کا پیرو مان لیا۔ ورنہ غیرمقلدین کی بڑی کھیپ ہے جو امام صاحب
کو مخالف حدیث کہتی ہے بلکہ ان کے بعض افراد تو انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے
ہیں۔
فرض نماز وں
کے بعد دعا
کسی نے سوال
کیا :
’’فرض نماز پڑھا کر امام مقتدی کے
ساتھ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگے یا نہ مانگے ؟... حدیث شریف سے صحیح جواب عنایت فرما
دیں۔‘‘
صحیفہ میں اس سوال کا جواب یوں دیا گیا:
’’ کبھی کبھار ہاتھ اُٹھا کر دعا
مانگنا اور کبھی ہاتھ نہ اُٹھائے تو اس طرح جائز و درست ہے ۔کوئی گناہ نہیں ۔ مطلق
روایت بھی ہے کہ جب آدمی ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ شرماتا ہے کہ
اپنے بندے کا ہاتھ خالی لوٹادے ۔ اس طرح ایک روایت میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے
فرمایا جو بندہ ہر نماز کے بعد بسط کفیہ یعنی ہاتھ دراز کردے۔اللہ
تعالیٰ کے سامنے اور دعائے فرمودہ نبی ؐ پڑھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ہاتھ
خالی نہ پھیرے۔ اسود ؓ عامر کی روایت میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فجر کی نماز کے
بعد رفع یدیہ کے ساتھ دعا مانگی ہے ۔‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍صفر
۱۳۷۸ھ صفحہ۱۴)
فرضوں کے بعد اجتماعی دعا کو دَور
حاضر کے عام غیرمقلدین جائز نہیں مانتے بلکہ بعضے تو اسے بدعت بھی کہہ دیتے ہیں
مگر غرباء والوں نے اسے حدیث کا مسئلہ قرار دے کر شائع کر دیا ہے ۔
چادر سے ٹخنے
ڈھکے ہوئے ہوں تو نماز نہیں ہوتی
صحیفہ میں
درج ہے :
’’واضح ہو کہ شرعا مسبل ازار کی
نماز نہیں ہوتی ، بلکہ ٹخنہ ڈھانک کر یعنی تہبند یا پائجامہ ٹخنہ پر رکھنے
والے مرد کا وضو بھی نہیں ۔اس کو اَز سر نو وضو کرنا ہوگا ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍صفر ۱۳۷۸ھ صفحہ۱۵)
غیرمقلدین اس مسئلہ سے متعلق حدیث کو
ضعیف کہا کرتے ہیں۔مزید یہ کہ اس کی تشریح میں یوں بھی لکھا کہ اس حدیث کے مطابق
نئے وضو کرنے کا حکم تو ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ چادر ٹخنوں سے نیچے رکھنے
والے کا وضو ٹوٹ گیا ۔مولانا داود ارشد غیرمقلد کی کتاب ’’ حدیث اور اہلِ تقلید ‘‘
جلد اول کا مقدمہ دیکھئے ۔
یہاں یہ وضاحت بھی چاہیے تھی کہ
مذکورہ بالا مسئلہ میں مرد و عورت کا حکم یکساں ہے یا نہیں ؟ اگر یکساں ہے تو دلیل
چاہیے اور اگر دونوں میں فرق ہے تو مردو عورت کی نماز میں فرق ہوا۔ جب کہ عام
غیرمقلدین کی رائے ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق نہیں ۔
یزید کی بابت
حکیم فیض عالم صدیقی کا نظریہ
حکیم فیض
عالم صدیقی غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’یزید کے متعلق وہی گھسی پٹی باتیں
دہر ا کر انہیں ہلاکو اور چنگیز کی صف میں
گھسیٹ کر کھڑا کرنے کو دینی بے بصیرتی کہا جائے یا خبث باطن ۔ غض بصر کہا جائے یا
صرف نظر۔ تجاہل عارفانہ کہا جائے یا بزدلانہ پامال ِ حرکت ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍صفر ۱۳۷۸ھ صفحہ۱۶)
حکیم صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’ یزید تین بار امیر حج مقرر ہوئے
اور ان کی قیادت میں جلیل القدر صحابہ ؓ نے مناسک حج ادا کئے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی بشارت مغفور لھم کے لشکر کے سالار اعظم مقرر ہوئے جس لشکر میں میزبان
رسول ؐ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ جیسے جلیل القدر صحابی عبادلہ ثلاثہ جیسے عظیم
صحابی ؓ اور خود حضرت حسین ؓ بطور رضا کار شامل تھے اور چھ مہینے سے زیادہ امیر
موصوف کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔ حضرت حسین ؓ کے بھتیج داماد حضرت زینب بنت علی ؓ
کے داماد تھے ۔ سیدہ موصوفہ نے حادثہ کربلا کے بعد امیر موصوف کے ہاں مستقل قیام
فرمایا ۔ ان کا مزار آج تک دمشق میں زیارت گاہ ہے ۔ محمد بن علی ؓ جنہیں ایک سازش
کے تحت بعد میں محمد بن الحنفیہ ؒ بنا دیا گیا ان کے قریبی احباب میں سے تھے اور
اُنہیں نماز کا پابند ، نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے والا سنت کا پابند اور دینی
مسائل میں گفتگو کرنے والا بیان کرتے ہیں ۔‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی ۱۶؍صفر
۱۳۷۸ھ صفحہ۱۷)
غیرمقلدین سے
درخواست ہے کہ وہ حکیم فیض عالم صدیقی کے مذکورہ دعووں پر روشنی ڈالیں کہ یہ کس
حدتک صحیح اور ثابت ہیں۔موجودہ غیرمقلدین سلف صالحین کا منہج اختیار کرنے کے مدعی
ہیں اس لیے یہاں بتایا جائے کہ جو نظریہ حکیم صاحب نے پیش کیا اسلاف امت بھی اسی
کے قائل ہیں ؟
پندرہویں
شعبان کی فضیلت
کرم الجلیلی
ہاشمی اپنے مضمون ’’ احکام ِ ماہ شعبان ‘‘ میں لکھتے ہیں::
’’احادیث میں ماہ شعبان کی پندرہویں
شب کی بھی خاص طور پر فضلیت آئی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اذا
کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا یومھا فان اللّٰہ ینزل فیھا لغروب
الشمس الی السماء الدنیا۔ (ابن ماجہ، مشکوۃ ) ماہ شعبان کی پندرہویں شب کو قیام
کرو( تسبیح ، تہلیل، استغفار، درود، تلاوتِ قرآن اور نماز وغیرہ میں گزارو) اور دن
کو روزہ رکھو۔ اس لیے کہ اس شب میں خدائے عزوجل سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا پر
نزول ِ اجلال فرماتا ہے۔ خدائے ارحم الراحمین شعبان کی پندرہویں شب کو آسمان دنیا
پر نزول فرما کر اپنی مغفرت اور عافیت کے خزانے لٹانے کے لیے اپنے بندوں کو دعوت
دیتا ہے ... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : فیغفر
لجمیع خلقہ الا لمشرک او مشاحن اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنی تمام ( پابند شرع) مخلوق
کو بخش دیتا ہے مگر دو شخص اس فضیلت والی رات میں بھی بخشش سے محروم ہیں (۱)مشرک
یعنی وہ شخص جو کہ خدائے تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات عبادت ، عظمت ، قدرت، احیاء،
اماتت وغیرہ میں کسی فرشتے، کسی نبی ،کسی ولی ،کسی بزرگ ،کسی پیر ، کسی جن وغیرہ
کو شریک کرتا ہے ۔ (۲) مشاحن یعنی وہ شخص جو اپنے مسلمان بھائی سے بلاوجہ شرعی بغض
،کینہ اور حسد رکھتا ہے اور اس سے سلام کلام ترک کر دیتا ہے ۔ (ابن ماجہ ، مشکوۃ
شریف ) ایک اور حدیث میں یوں ارشاد نبوی ہے : لاینظر اللہ
فیھا الی مشرک ولا مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق لوالدیہ ولا
الی مد من خمر اللہ تعالی
شعبان کی پندرہویں شب کو مشرک ، کینہ ور ، رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے،
ٹخنے سے نیچے تہبند ، پاجامہ ، لٹکانے والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے نشہ
میں مدہوش رہنے والے کی طرف دیکھتا بھی نہیں...مسلمانوں کو چاہیے تو یہ تھا
...حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رات کو قیام کرتے، ذِکر الہی
میں مشغول رہتے ، تسبیح تہلیل کرتے اور بار گاہ الہی میں دست بستہ کھڑے ہو کر اپنے
گناہوں کی معافی چاہتے اور دن کو روزہ رکھ کر اپنی اطاعت و فرماں برداری کا ثبوت
دیتے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم
شعبان ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۲،۳)
زمانہ حاضر کے عام غیرمقلدین پندرہویں
شعبان کے فضائل کو تسلیم نہیں کرتے ،اس کے برعکس اُن کے کئی علماء اس فضلیت کے
قائل ہیں جن میں سے ایک ثبوت صحیفہ کی مذکورہ عبارت بھی ہے ۔
بے نماز کو
مومن سمجھنے والے اہلِ بدعت ہیں
مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد
اپنے مضمون ’’ تارکین نماز اور ان کے دلائل ِ مزعومہ ‘‘ میں اپنے غیرمقلدین
کومخاطب کرکے لکھتے ہیں::
’’اَب بندہ حصاری بے نمازیوں کے
حماتیوں سے دریافت کرتا ہے کہ آپ سلف صالحین اور محدثین کرام کے گروہ میں داخل ہیں
اور فرائض وغیرہ اعمال کو ایمان میں داخل سمجھتے ہیں یا نہیں ۔اگر نہیں سمجھتے تو
آپ اہلِ بدعت میں شمار ہیں ، پھر اہلِ حدیث ہونے کا دعوی چھوڑ دیں ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم
شعبان ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۲،۳)
بے نماز کو گناہ گار تو سب مانتے ہیں
البتہ اس کے کافر ہونے میں اختلاف ہے ۔او ر تقلید و فقہ کو اختلاف کا سبب قرار
دینے والے غیرمقلدین میں بھی یہ اختلاف موجود ہے۔ حصاروی صاحب وغیرہ کچھ غیرمقلدین
بے نماز کو کافر کہتے ہیں جب کہ اس کے بالمقابل غیرمقلدین کا دوسرا گروہ بے نماز
کو مسلمان تسلیم کرتا ہے فتاوی ثنائیہ وغیرہ دیکھ لیں۔ حصاروی صاحب نے اس مسئلہ
میں اپنے مخالف غیرمقلدین کو بدعتی کہہ دیا ہے۔
گھوڑے کی
قربانی
صحیفہ میں
عبد الواحد( اہلِ حدیث راجن پور )کا سوال درج ہے :
’’ایک رسالہ میری نظر سے گزرا ہے اُس
میں لکھا ہوا ہے کہ گھوڑے کی قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ہے کیا یہ مولوی سچے ہیں
اور میں نے فتاوی ستاریہ بھی دیکھا ہے اُس میں گھوڑے کی قربانی کے متعلق علماء کے
فتاوی موجود ہیں ان میں کون سچا ہے ۔صحیح بات تحریر فرمائیں کہ گھوڑے کی قربانی
کرنی جائز ہے یا نہیں صحیح ثبوت دیں۔ ‘‘
کرم الجلیلی ہاشمی نے اس
کا یوں جواب دیا:
’’ آپ نے جس رسالہ کی طرف اشارہ
فرمایا ہے یہ میری نظر سے بھی گزرا ہے ۔اس رسالہ کو پڑھ کر اس کے مصنف کے متعلق
اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو علم حدیث یا اصول حدیث سے دُور کا بھی لگاؤ نہیں ہے، یہ
محض سستی شہرت کے لیے یہ سب کچھ پرچار کر رہے ہیں ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم شعبان ؍۱۳۸۹ھ
صفحہ۲۸ )
صحیفہ اہلِ حدیث کی اس عبارت سے ثابت
ہوا کہ غرباء والوں کے ہاں گھوڑے کی قربانی جائز ہے۔اَب ذرا مولانا محمد داود ارشد
غیرمقلد کا دعویٰ سنیں۔مولانا ابو بلال جھنگوی رحمہ اللہ
نے تحفہ اہلِ حدیث میں لکھا تھا کہ بعض غیرمقلدین گھوڑے کی قربانی کو جائز کہتے
ہیں تو داود صاحب نے اس پہ یوں تبصرہ کیا:
’’ ہم نے زندگی میں جھنگوی سے زیادہ کوئی کاذب نہیں دیکھا ۔ غالباً جھنگوی اہلِ حدیث کے خلاف جھوٹ لکھنا جائز سمجھتا ہے۔جس کی وجہ
سے یہ کذب و افتراء غلط بیانی کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتا۔ ہمارا دعوی ہے کہ
کسی اہلِ حدیث نے گھوڑے کی قربانی کا فتوی نہیں دیا ۔ اگر جھنگوی کے قول میں
صداقت ہے تو وہ ہمت کرے اور اپنے رفقاء سمیت مل کر سر توڑ کوشش کرکے کسی اہلِ حدیث
مفتی کا فتوی دکھا دے، ورنہ اللہ کا خوف کرے اور اپنے احوال کو درست کر ے اور اہلِ
حق کی مخالفت ترک کر دے ۔ ‘‘
( تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۰۳، ملنے کا پتہ : نعمانی
کتب خانہ لاہور ، تاریخ اشاعت: ۲۰۰۶ء)
فتاوی ستاریہ اور صحیفہ اہلِ حدیث میں
گھوڑے کی قربانی کے جواز پہ فتاویٰ ہونے کے باوجود داود ارشد کی مذکورہ بالا دعوی
کو کیا نام دیں؟ بہتر ہے کہ خود داود صاحب ہی اپنے اس دعوی کی حیثیت متعین کر دیں
۔
بخاری و مسلم
کی حدیث پہ جرح کرنے والے کی حیثیت
کرم الجلیلی نے مذکورہ سائل کو جواب دیتے ہوئے دعوی کیا کہ
گھوڑے کی قربانی حدیث ِ بخاری سے ثابت ہے ،پھر حدیث بخاری پہ جرح کرنے والے کے
متعلق لکھا:
’’اگر کوئی شخص صحاح ستہ خصوصاً صحیح
بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث مقدسہ کو جرح و تعدیل کی چُھریوں سے مسخ کرنے کی
کوشش کرے توہم اس کو لا علم نہ کہیں توکیا کہیں ۔ بلکہ اَب تو ہمیں اس رسالہ کے
مصنف کے ایمان و اسلام کی خیر منانے کے لیے دعائیں کرنی چاہییں کیوں کہ جو شخص
صحاح ستہ وما وافق بہا خصوصا صحیح بخاری وصحیح مسلم کی کسی حدیث کا انکار کرتا ہے
وہ اپنے ایمان و اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔بہرحال مولوی صاحب نے جو کچھ لکھا
ہے وہ سراسر غلط اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے اور فتاویٰ ستاریہ میں علماء کرام کا
متفقہ فتویٰ ہے وہ بالکل صحیح ہے کیوں کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں لکھاگیا ہے
۔‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم
شعبان ؍۱۳۸۹ھ صفحہ۲۸ )
بخاری و مسلم پہ جرح کرنے والے غیرمقلدین
پہ مذکورہ بالا فتوی لگتا ہے۔ مثلاً شیخ البانی نے مولانا ارشاد الحق اثری کی
تحقیق کے مطابق بخاری کی آٹھ حدیثوں کو ضعیف کہا اور حافظ زبیر علی زئی کی رائے
میں البانی نے مسلم کی تیس حدیثوں پرجرح کی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث : اذا
قرأ فانصتوا، جب امام
قراء ت کرے تو تم خاموش رہو ۔‘‘ کو تو مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد سے لے
کر مولانا ارشاد الحق اثری اور ان کے شاگرد خبیب اثری تک عام غیرمقلدین نے ضعیف
کہا ہے ۔یہاں تک حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد نے بھی ’’تفسیری حواشی صفحہ ۲‘‘ پہ
اس حدیث کی صحت کو مشکوک قرار دیا ۔
اس عبارت میں صحاح ستہ کی حدیثوں میں
سے کسی حدیث کو ضعیف کہنے پر سنگیں فتوی لگایا حالاں کہ کتب ستہ میں نسائی، ابو
داود ، ترمذی اور ابن ماجہ کی متعددحدیثوں کو قریبا سارے غیرمقلدین ضعیف کہا کرتے
ہیں مثلا شیخ البانی اور زبیر علی زئی نے سنن اربعہ کی سینکڑوں حدیثوں کو ضعیف کہا
ہے ۔
تنبیہ: حدیث ِبخاری توکیا کسی
بھی حدیث ِنبوی سے گھوڑے کی قربانی ثابت نہیں ہے۔ مولانا نعیم الحق ملتانی غیرمقلد
کی کتاب ’’ بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ‘‘ دیکھئے ۔
رکوع پالینے
سے رکعت پالینے کا نظریہ رکھنے والے اور صحیفہ کی عبارت
عام غیرمقلدین کی رائے ہے کہ جو بندہ امام کو
حالت ِ رکوع میں پالے اسے رکعت نہیں ملتی اس لئے اسے چاہیے کہ وہ امام کے سلام
پھیرنے کے بعد کھڑا ہوجائے اور اپنی رکعت پوری کرے جب کہ غربااہلِ حدیث فرقہ کے
ہاں ایسے شخص کو رکعت مل گئی ۔ اس تناظر میں آگے آنے والے سوال و جواب کو پڑھیں۔
’’ س: مولوی عبد اللہ نے رکوع کی رکعت
کے نہ ہونے کے متعلق ایک رسالہ لکھا ہے اس کا جواب مرکز کراچی سے شائع ہوا ہے یا
نہیں ۔ج: حضرت مولانا الحاج عبد الجلیل صاحب محدث سامرودی نے ’’ اتمام
الخشوع بادراک الرکوع ‘‘ کے زیر عنوان رسالہ نور ِہدایت دہلی بابت شعبان ۸۷ھ میں
بالتفصیل جواب دیا ہے جوکہ عن قریب صحیفہ اہلِ حدیث کراچی میں بھی شائع کیا جائے
گا ان شاء اللہ ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم شعبان ؍۱۳۸۹ھ
صفحہ۲۹ )
سامرودی صاحب کے رسالہ’’ اتمام
الخشوع بادراک الرکوع ‘‘میں لفظ خشوع ہے ۔ اس کی وضاحب مطلوب ہے ۔ کیاوہ یہ کہنا
چاہتے ہیں کہ جو لوگ مدرک رکوع مدرک رکعت کا نظریہ رکھتے ہیں ان کی نماز کامل خشوع
والی ہے یا کچھ اور مراد ہے ؟
حقہ نوش کو
امام بنانا ٹھیک نہیں
صحیفہ میں
درج ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
’’س: حقہ نوش کو امامقرر کرنا اور اس
کے پیچھے پنج وقتی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ج: ایسے شخص کو ہمیشہ کے لیے امام
بنانا ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ حضور اکرم صلعم کا ارشاد ہے ائمتکم
خیارکم ، تمہارے
امام تم میں سے بہترین افراد ہونے چاہئیں ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم شعبان ؍۱۳۸۹ھ
صفحہ۲۹ )
امام بہترین
انسان ہونا چاہیے یہ الگ بات ہے ۔ یہ آپ کے اس دعوی کی دلیل نہیں کہ حقہ فروش کی
امامت ٹھیک نہیں ۔ آپ کو اس کی امامت کے جائز نہ ہونے کی صراحت کرکے اس کے مطابق
دلیل دینی چاہیے تھی ۔
شراب ناپاک
ہے
کرم الجلیلی
ہاشمی لکھتے ہیں:
’’چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام
پاک میں شراب کو رجس ،گندی و ناپاک چیزقرار دیا ہے اس لئے اگروہ کپڑے یا بدن وغیرہ
پر لگ جائے تو اس کا پاک کرنا ، دھونا ضروری ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم شعبان ؍۱۳۸۹ھ
صفحہ۲۹ )
عام غیرمقلد ین شراب کو پاک کہتے ہیں
اوربعضوں نے تو یوں بھی تعبیرکر دیا کہ ماں کی طرح پاک ہے۔ لیکن صحیفہ اہلِ حدیث
میں شراب کو ناپاک بتایاگیا ہے ۔مزید یہ کہ اس کی ناپاکی کو قرآن کا مسئلہ باور
کرایا گیا ہے ۔
بعض صحابہ
کرام منسوخ پہ عمل پیرا رہے
کرم الجلیلی
ہاشمی لکھتے ہیں:
’’چوں کہ احکام ِ اسلامی کے نزول کے
کئی ایک مراحل تھے۔ بعض مرحلہ میں کوئی حکم نازل ہوااور خدا نے جب چاہا اس کو
منسوخ کرکے دوسرا حکم نازل فرمادیا ۔ پس جس صحابی نے پہلے مرحلہ میں حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کووہ کام کرتے دیکھا اور انہیں اس کا نسخ معلوم نہیں ہوا تو انہوں
نے اسی پر گامزن ہوتے ہوئے دوسروں کو بھی اسی پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرمائی
اور جس صحابی کو اس کا نسخ معلوم ہو گیا تو انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور
دوسروں سے کرایا۔ پس بظاہر یہ وجہ اختلاف معلوم ہوتی ہے ورنہ نعوذ باللہ صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہم اختلاف کی بنیاد رکھ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
بنانے کے قطعی حق میں نہ تھے وہ تو خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے
داعی تھے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍ ربیع الاول
۱۳۹۲ھ صفحہ۲۹ )
اس عبارت سے
میں دو باتیں قابلِ غور ہیں :
(۱)صحابہ
کرام میں بھی مسائل کاختلاف تھا ۔ جب کہ غیرمقلدین اختلاف کی وجہ ائمہ اربعہ کی
فقہ بتاتے ہیں۔
(۲) دَور
نبوی کے بعد بعض صحابہ کرام منسوخ حدیثوں پر عمل پیرا رہے۔لہذا بعض صحابہ کا عمل
اس بات کی حتمی دلیل نہیں کہ ان کا اختیار کردہ عمل غیرمنسوخ ہے ۔
وہابی کی
بابت کچھ
مولانا حکیم
عبد الکریم شفیق جھنگوی لکھتے ہیں:
’’آج کے لوگ اہلِ حدیثوں کو بدنام
کرتے ہیں ، وہابی کہتے ہیں حالاں کہ وھاب اللہ کا نام ہے اور اللہ کوماننے والا
وہابی کہلاتا ہے لیکن لوگوں نے ہمیں ہوّا بنارکھا ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و
۱۶؍ ربیع الاول ۱۳۹۲ھ صفحہ۳۵ )
اس عبارت کے الفاظ ’’ لوگوں نے ہمیں
ہوّا بنارکھا ہے ۔ ‘‘کی تعیین مطلوب ہے کہ ان ہوا بنانے والے لوگوں میں غیرمقلدین
بھی ہیں ؟ ایک وقت تھا کہ غیرمقلدین نے بڑھ چڑھ کے وہابی کا رد کیا ، اسے گالی تک
باور کرایا ۔ کیا آپ لوگوں کو وہ وقت یاد نہیں جب مولانا محمد حسین بٹالوی غیرمقلد
نے انگریز حکومت کو درخواست دی تھی کہ ہمیں سرکاری کاغذات میں وہابی کی بجائے اہلِ
حدیث کہاجائے ۔
اہلِ حدیث کو
بُرا کہنے والے کا حکم
صحیفہ میں
لکھا ہے :
’’بُرا جو کہتا ہے اہلِ حدیث کو ہمدم
،ہم اس کو سب سے بڑا بدعتی سمجھتے ہیں۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و
۱۶؍جمادی الثانی۱۳۸۱ھ صفحہ۹ )
اہلِ حدیث کا اصلی مصداق محدثین ہیں
اور غیرمقلدین کی کتابوں میں محدثین پہ کئی طرح کی بے ادبی پائی جاتی ہے۔ مقالات
شاغف وغیرہ کتابیں دیکھ لیں۔ لیکن مضمون نگار نے یہاں اہلِ حدیث سے مراد غیرمقلدین
کا فرقہ مراد لیا ہے جسے انگریز نے اہلِ حدیث نام الاٹ کیا ۔ اس مراد کے پیش نظر
ہم عرض کرتے ہیں کہ اہلِ حدیث کے دعوے داروں نے اپنے ہی اہلِ حدیثوں کو بہت زیادہ
بُرا کہا ہے ثبوت کے لیے رسائل اہلِ حدیث جلد اول و دوم وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں
۔ پھر اُن بُرا کہنے والوں پہ مذکورہ بالا حکم بھی لاگو کریں۔
سورۃ فاتحہ
قرآن کا حصہ ہے تو ؟
مولانا عبد
الغفار خیری اپنے مضمون ’’ سورۃ الفاتحہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اکثر کتابوں میں پیش لفظ یا دیباچہ
یا تقریظ شروع میں ہوتی ہے۔یہ پیش لفظ یا دیباچہ یا تقریظ اگرچہ کتاب کے شروع میں
ہوتی ہے پھر بھی اس کو کتاب نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح قرآن عظیم کی شروعات ’’ الم‘‘ سے ہوتی
ہے۔ بغرض آسانی قرآن عظیم کے تیس پارہ کئے گئے ہیں جس مسلمان سے پوچھا جائے تیس ہی
بتائے گا۔ دریافت کرکے دیکھ لو ، ہر ایک ’’ الم ‘‘ کو پہلا پارہ اور عم
یتساء لون ‘‘ کو آخری
یعنی تیسیواں پارہ بتائے گا۔ قرآن عظیم پہلے پارہ ’’ الم ‘‘ سے شروع ’’ عم
یتساء لون ‘‘ تیسویں
پارہ پر ختم ہوتا ہے تو سوال یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کس پارہ میں ہے ۔ ہرمسلمان کے
گھر میں قرآن عظیم موجود ہے ۔ اس میں دیکھو کہ یہ سورۃ فاتحہ قرآن عظیم کے کون سے
پارے میں ہے ۔ پہلا پارہ کون سا ہے اور آخری پارہ کون سا ہے ۔ یہ مانا کہ قرآن
مبین میں سورہ فاتحہ ہے تو کس طرح ہے اور کون سے پارہ میں ہے ۔ ‘‘ ( صحیفہ اہلِ
حدیث کراچی یکم و ۱۶؍جمادی الثانی۱۳۸۱ھ صفحہ۱۵)
خیری صاحب اس عبارت میں’’یہ پیش لفظ
یا دیباچہ یا تقریظ اگرچہ کتاب کے شروع میں ہوتی ہے پھر بھی اس کو کتاب نہیں کہا
جاتا۔‘‘ لکھ کر کیا تاثر دینا چاہتے ہیں ؟ یہی کہ جس طرح تقریظ کو کتاب نہیں کہا
جاتا ہے اسی طرح فاتحہ بھی قرآن نہیں ؟ اگر کچھ اور مطلب ہے تو واضح کریں۔
سورہ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک سب
سورتیں قرآن ہے ۔ اس لئے فاتحہ بھی قرآن میں شامل ہے اور بخاری میں حدیث نبوی ہے :
ھی
اعظم سورۃ من القرآن ، یہ قرآن کی بہت عظمت والی سورت ہے ۔ باقی رہی سپاروں کی
تقسیم تو اس کی بابت خود خیری صاحب نے یوں ’’ بغرض آسانی قرآن عظیم کے تیس پارہ
کئے گئے ہیں‘‘ لکھ دیا ہے ۔خیر ی صاحب سے یہ سوال بھی بجا ہے کہ سب کے ہاں یہ بات
مسلّم ہے کہ قرآن کی ۱۱۴ سورتیں ہیں اگر سورت فاتحہ قرآن کا حصہ نہیں تو پھر ۱۱۴
سورتیں کیسے ہیں؟
وظائف محمدی
صحیفہ میں’’وظائف محمدی یعنی مشہور و
معروف کتاب الحزب
المقبول ‘‘ عنوان سے
کتاب کا اشتہار درج ہے جس میں یہ عبارت بھی ہے :
’’یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں بار
بار طبع ہو کرختم ہو چکی ہے ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و
۱۶؍جمادی الثانی۱۳۸۱ھ صفحہ۱۶ )
فضائل اعمال کے خلاف لکھی جانے والی
غیرمقلدین کی بعض کتابوں میں درج ہے کہ حدیث کی رو سے ذکر و اذکار کہنا تو درست ہے
مگر وظیفہ و وظائف درست نہیں۔لیکن یہاں خود غیرمقلدین نے ’’ وظائف محمد ی ‘‘ کے
نام سے کتاب لکھ دی اور یہ دعوی بھی کردیا کہ یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو
چکی ہے ۔
عوام میں انتشار کی وجہ
نصرۃ الباری شرح بخاری میں ہے :
’’دونوں عالموں کے اختلاف سے عوام میں
انتشار ہوگیا ۔کچھ لوگ ابو ذر ؓ کی طرف ہو گئے اور کچھ امیر معاویہ ؓ کی طرف ۔ آخر
امیر معاویہ ؓ نے اپنے امام حضرت عثمان ؓ کی طرف شکایت لکھی۔ حضرت عثمان ؓ نے ابو
ذر ؓکو مدینہ میں بلا کر ربذہ بستی میں رہنے کا مشورہ دیا۔ ابوذر ؓ نے بخوشی منظور
کیا اور آخر دم تک وہیں رہے۔‘‘
( نصرۃ
الباری کتاب الزکوۃ صفحہ۲۷ چھٹا پارہ، صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍جمادی
الثانی۱۳۸۱ھ صفحہ۳۵)
اس سے معلوم ہوا کہ دَور صحابہ میں
بھی مسائل میں باہمی اختلاف تھا۔ لہذا اگر مذاہب اربعہ میں باہمی اختلاف ہے تو
انہیں ہدف طعن نہ بنائیں۔
اجتہادی امور
میں اختلاف جائز ہے
نصرۃ الباری
میں آگے لکھا ہے ـ:
’’ اجتہادی
امور میں اختلاف روا ہے اور یہ کہ جلبِ مصلحت پر دفع مفسدہ کو مقدم کرنا چاہیے ۔
قس و ع ۔‘‘( حوالہ مذکورہ )
بعض غیرمقلدین اجتہاد کے قائل نہیں
،ان میں ابوالاشبال شاغف غیرمقلدبھی ہیں۔ ( مقالات شاغف )مزید یہ کہ جب اجتہادی
امور میں اختلاف جائز ہے تو غیرمقلدین کو ’’ایک دین اور چار مذاہب ‘‘ کہہ کر طعنہ
نہیں دینا چاہیے ۔
صفات میں
تاویل کو فاسد عقیدہ کہنے کی جسار ت
نصرۃ الباری
شرح بخاری میں ہے :
’’جو علماء صفاتِ الہی کی تاویل کرتے
ہیں دست ِ قدرت وغیرہ کہتے ہیں ان کا قول غلط اور عقیدہ فاسد ہے ۔‘‘
( نصرۃ
الباری کتاب الزکوۃ صفحہ ۳۲ چھٹا پارہ،
صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم و ۱۶؍جمادی الثانی۱۳۸۱ھ صفحہ۳۵)
تاریخ اہلِ حدیث میں مولانا محمد
ابراہیم سیالکوٹی نے صفات باری تعالی میں تاویل کی بابت بحث کرتے ہوئے لکھا :
’’ بعض لوگوں کا خیال اَب بھی ہے اور
پہلے بھی رہا ہے کہ اہلِ حدیث مطلقا تاویل کے قائل نہیں ہیں ۔ لیکن ان کی یہ رائے
مسئلہ صفات کو تفصیلاً نہ سمجھنے اور ائمہ اہلِ حدیث کی تصریحات و تشریحات کو نہ
جاننے کے سبب ہے۔ بلکہ صفات فعل میں جہاں کوئی قطعی دلیل عقلی یا نقلی تاویل پر
مجبور کرے وہاں اہلِ حدیث بھی تاویل کرتے ہیں۔‘‘
( تاریخ اہلِ حدیث صفحہ ۳۲۳،
مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور ، سن اشاعت: ۲۰۰۴ء )
سیالکوٹی
صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ان ہر دو ائمہ اہلِ حدیث کی تصریحات
سے صاف ثابت ہوگیا کہ اہلِ حدیث کو تاویل سے بہر صورت انکار نہیں ۔‘‘
( تاریخ اہلِ حدیث صفحہ ۳۲۶)
غرباء کے امام کی بیعت کرلی
مولانا نذیر احمد شاہ قریشی ہاشمی
(مدرس مدرسہ تدریس القرآن و الحدیث چک : ۴۲۲ کٹو ڈاک خانہ جھوک دادو متصل
تاندلیانوالہ ضلع لائل پور ) لکھتے ہیں: :
’’میں ۱۴؍ رمضان المبارک کو محترم
امام حافظ الحاج ابو محمد عبد الستار صاحب محدث دہلوی کے ہاتھ پر بیعت کی تاکہ
جماعتی زندگی بسر کرسکوں اور آج سے ہی اپنے پچھلے گناہوں کی اللہ تعالیٰ رب
العالمین سے معافی مانگی ۔ ‘‘
( صحیفہ اہلِ حدیث کراچی یکم شوال المکرم ۱۳۸۵ھ
صفحہ۲۱)
دَور حاضر کے غیرمقلدین صوفیاء میں
رائج بیعت توبہ پر اعتراض کرتے ہیں مگر انہیں چاہیے کہ پہلے غرباء اہلِ حدیث سے اس
بیعت کو ختم کرائیں۔
اللہ
کو اپنے دل میں بس جانے دو
مولانا عبد
الغفار الخیری لکھتے ہیں:
’’مثل ہے کہ ’’ خانہ خالی در دیو می گیرد‘‘ یعنی جو گھر
غیرآباد ہو جس کا کوئی نگران نہ ہو اس میں دیو (جنّ) آباد ہو جاتے ہیں اورکیڑے
مکوڑے حشرات الارض اپنامسکن بنا لیتے ہیں اکبر الہ آبادی نے کہا ہے
مالک کے بغیر گھر کی رونق نہیں کچھ
اللہ کو اپنے دل
میں بس جانے دو۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ
حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ ۱۰)
اس عبارت میں
دل کو اللہ کا گھر قرار دیا گیا ہے ۔ اگر اس طرح کی بات کسی اور کی کتاب میں ہوتی
تو غیرمقلدین کیاحکم لگاتے ؟
فقہ اکبر تصنیف امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ
مولانا عبد القادرعارف حصاروی لکھتے ہیں:
’’امام ابوحنیفہ ؒ اپنے عقائد کی کتاب فقہ اکبر کے صفحہ ۱۶
پر لکھتے ہیں : وخروج الدجال و یاجوج و ماجوج وطلوع الشمس من مغربھا ونزول
عیسی علیہ السلام من السماء وسائر المعلومات یوم القیامۃ علی ما وردت بہ الاخبار
الصحیحۃ حق کائن یعنی
نکلنادجال کا اور خروج یاجوج و ماجوج کا اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور عیسی
علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اوردیگر علامات ِ قیامت جو احادیثِ صحیحہ میں
وارد ہیں حق ہیں اور واقع ہونے والی چیزیں ہیں۔فقہ اکبر آخری صفحہ ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ۱۳)
حصاروی صاحب
نے ’’فقہ اکبر ‘‘ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف تسلیم کیا ہے جب کہ کئی
غیرمقلداس سے انکاری ہیں۔
عقائد نسفی
مولانا عبد القادرعارف حصاروی لکھتے ہیں:
’’عقائد نسفی جو عقائد کی مشہور درسی کتاب ہے اس میں عقائد
کی چیزوں کو بیان کیا گیا ہے اس میں خروج دجال اور یاجوج ماجوج اور نزول عیسی من
السماء بیان کیا گیا ہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ۱۳)
حصاروی صاحب
نے ’’ عقائد نسفی ‘‘ کو عقائد کی کتاب اور مشہور درسی کتاب تسلیم کیا ہے ۔بعض
غیرمقلدین نے شرح عقائد نسفی کو بدعتی کتاب کا نام دیا ہے ۔
نزول عیسی کی بابت مولوی محمد
علی لکھوی کا عقیدہ
مولانا عبد
القادرعارف حصاروی’’مولوی محمد علی لکھوی کا عقیدہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’لکھوی صاحب کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت
ہو چکے ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ اُٹھائے گئے ہیں اور قرب قیامت
نازل ہوں گے وہ عیسائی العقیدہ ہیں اور اس بارہ میں جو احادیث وارد ہیں وہ سب جعلی
اور جھوٹی ہیں ۔اور بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں کا کوئی اعتبار نہیں ،ان
میں جعلی حدیثیں پائی جاتی ہیں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ۱۴)
اُف ! اللہ خیر
۔ لکھوی صاحب کا کیسا عقیدہ ہے ؟ اور انہوں نے بخاری و مسلم کی حدیثوں کے متعلق
کیا نظریہ قائم کر لیا۔یاد رہے کہ یہ لکھوی بزرگ غیرمقلد ہیں ۔
خوش رہے رحمن بھی ، راضی رہے شیطان بھی
حصاروی صاحب
مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھتے ہیں:
’’اب مولوی محی الدین اور مولوی معین الدین لکھوی نہایت
انصاف اور دیانت سے بتائیں کہ مولانا محی الدین عبد الرحمن مدنی کا عقیدہ اور دیگر
ان کے موافقین کاعقیدہ حضرت عیسی کے رفع و نزول کے بارہ میں صحیح اور حق ہے یا
مولوی محمد علی اور آپ صاحبان کے والد کا عقیدہ صحیح ہے ۔ ان میں سے کون کافر اور
کون یہودی العقیدہ ہے جب فیصلہ ہر دو باپ بیٹے کا آپ کے ہاتھ ہے تو معاملہ بہت
نازک ہے کہ اگر آپ لوگوں نے سکوت اختیار کیا تو بھی بہت بُری بات ہے کیوں کہ
الساکت عن الحق شیطان اخرس ہے ۔ اگر بے دلیل فیصلہ کیا کہ دونوں نے باپ دادا کا
لحاظ رکھا اور بَین بَین کوئی بات لکھ دی کہ
حج ِمکہ بھی کیا ، گنگا کا
اشنان بھی
خوش رہے رحمن بھی ، راضی رہے شیطان بھی
ٍ تو آپ لوگ اس آیت کے مصداق ہوں گے ومن لم یحکم
بما انزل اللّٰہ فاؤلئک ھم الکافرون کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق
فیصلہ نہ کرے گا وہ کافر ہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ ۱۵)
حصاروی صاحب
کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی اگلا عنوان ’’ باپ کافر ہے یادادا؟حصاروی کاسوال‘‘
دیکھئے ۔
باپ کافر ہے یا دادا ؟ حصاروی کا سوال
حصاروی صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’اگر آپ اپنے دادے کے خلاف فیصلہ دے کر ان کو عیسائی
العقیدہ اور کافر قرار دیں گے تو ہم حکومتِ سعودیہ سے درخواست کریں گے کہ مدینہ کے
گورستان جنت البقیع میں عیسائی العقیدہ کافر دفن نہیں ہوسکتا ۔اس لئے مولوی
عبدالرحمن مدنی کی لاش جنت البقیع سے نکلواکر شیخ تارا سنگی کے حوالہ کر دی جائے
اوراگر وہ حق پر تھے اور آپ کے والد یہودی العقیدہ اور کافر ہیں تو آپ کے لئے لازم
ہے کہ اپنے بزرگوں کی تصدیق کرتے ہوئے مولوی محمد علی کے شائع کردہ اشتہاروں کی
تردید کریں ۔ اور ان سے اسی طرح بیزاری کا اظہار کریں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اپنے کافر باپ سے بیزاری ظاہر کی تھی ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ ۱۵)
مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق سابق نظریہ
شیخ محمد
حسین بن مولانا حافظ محمدبارک اللہ لکھوی لکھتے ہیں:
’’مرزا قادیانی کو پہلے یہ عاجز اچھا سمجھتا تھا جب سے اس
نے مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے اور نبوت کا مدعی ہوا ہے تب میں اس کو ملحد ، دجال
اورکذاب سمجھتا ہوں ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ ۱۵)
اس طرح اگر کسی اور بزرگ کے متعلق
حوالہ مل جائے کہ وہ پہلے ناواقفی سے مرزا قادیانی کو اچھا سمجھتا تھا، پھر حقیقت
سامنے آنے پہ اس کے خلاف فتوی دیا ہے تو غیرمقلدین کواس کا آخری نظریہ بتلانا
چاہیے۔
حکیم فیض عالم صدیقی کی
غیرمقلدیت
صحیفہ اہلِ
حدیث میں ’’جماعتی خبریں ‘‘ والے صفحہ پہ ’’ خوش خبری ‘‘عنوان کے تحت لکھا ہے :
’’خطیب حضرات، ائمہ مساجد اور غرباء کے لیے خصوصی
رعایت۔اختلافِ امت کا المیہ حصہ اول جس میں تقلید ی مذاہب، مرزائیت، چکڑالویت اورسوشلزم
پرتاریخی روشنی میں محققانہ بحث کی گئی ہے ۔حصہ دوم : شیعیت کی مکمل تاریخ ...
پتہ: حکیم فیض عالم صدیقی ،رہتاس ضلع جہلم ۔‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍ شعبان ۱۳۹۲ھ صفحہ۲۲)
صحیفہ والوں نے اپنی جماعت کے خطباء ،
ائمہ اور غرباء کے لئے حکیم صاحب کی کتاب’’ اختلاف ِامت کا المیہ ‘‘ کا ترغیبی
اشتہار دیا ہے ۔
نعم البدل بہت مشکل
صحیفہ اہلِ حدیث میں ’’جماعتی خبریں
‘‘ والے صفحہ پہ ’’آہ مولانا پسروری ‘‘عنوان کے تحت مولانا رفیق پسروری کی وفات کا
اعلان ہے جس میں درج ذیل جملہ بھی ہے :
’’جس کا اس قحط الرجال کے دَور
میں نعم البدل بہت مشکل ہے ۔ ‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث ۱۶؍جمادی الثانی۱۳۹۷ھ صفحہ ۲۲)
مشکل حل ہوئی
یا نہیں ؟ ان کا نعم البدل ملا یا نہیں ؟
اہلِ حدیثوں نے حنفیوں کی تقلید
کرلی
صحیفہ کے
ادرایہ میں لکھا ہے :
’’آپ حضرات بھولے نہیں ہوں گے، آپ کو یہ بات یاد ہوگی کہ کراچی
شہر کے برادران ِ احناف نے گذشتہ عید الاضحیٰ ۲۹؍چاند کی تاریخ کے حساب سے ۱۰؍اگست
سن ۵۳ء بروز منگل منائی تھی ۔باوجود اس کے کہ مطلع صاف نہیں تھا، آسمان اَبر آلود
تھا۔۲۹؍ تاریخ کو بقرہ عید کا چاند نظر نہیں آیا تھا ۔ جماعت غرباء اہلِ حدیث کے
علاوہ کراچی شہر کے اکثر اہلِ حدیث حضرات نے بھی حنفی بزرگوں کی قلادت ، رباطت،
رفاقت اور دیکھا دیکھی میں ۱۰؍اگست بروز منگل عید الاضحیٰ کی رسم ادا کی تھی ...
ادارہ نے یکم ماہِ محرم الحرام ۷۴ھ کی اشاعت میں غریب الوطن مہاجرین اور کئی ایک
پارٹیوں کی ’’ عید ‘‘ پہ تبصرہ کیا تھا ۔انہیں کے ساتھ جماعت غرباء اہلِ حدیث کی
’’عید ‘‘ پر بغیر کسی رو ،رعایت ،لحاظ، ملاحظہ اور طرف داری روشنی ڈالتے ہوئے لکھا
تھا کہ : یہ دین کے معاملے میں سب سے الگ تھلگ رہتی ہے ۔ دنیا کے نزدیک یہ تین میں
ہے ، نہ تیرہ میں الخ (صحیفہ اہلِ حدیث یکم محرم ۷۴ھ ) اس پر ہمارے واجب الاحترام
بزرگ مولانا الحاج محمد یوسف صاحب نکتہ چینی کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں: سچ ہے نہ
آپ تین میں ، نہ تیرہ میں۔ آپ کی روش دین میں بھی الگ، دنیا میں بھی الگ ۔نہ دین
کے رہے، نہ دنیا کے الخ (الارشاد جدید ۱،۱۶ ذی الحجہ ۷۳ھ) مولانا صاحب نے فرمایا
کہ آپ (جماعت غرباء اہلِ حدث ) کی روش دین میں ... الگ ہے ، بے شک الگ یہ صحیح ہے
۔مولانا صاحب اسے ہزار دفعہ دہرائیں، کسی کا سر پھرا ہے یا کسی کی جرأت ہے کہ اسے
غلط بتائے لیکن نتیجہ نکالنے میں قلم کا انجن ہمارے فاضل محترم کے قابو سے باہر ہو
گیا ہے، موٹر زیادہ گرم ہوگیا ہے۔ استخفاف ، سبکی اور غیض و غضب اس پر غالب آ گیا
ہے۔ اس کا پہیہ راہ راست، جادۂ انصاف اور لائن عدل سے اُتر گیا ہے... ادارہ ہی نے
لکھا تھا کہ یہ جماعت دین کے معاملہ میں سب سے الگ تھلگ رہتی ہے اورادارہ ہی اس کے
معنی اور مفہوم کو خوب سمجھتا ہے ۔ ادارہ کو اس کا موقع ،محل اور وقت بھی یاد ہے
۔‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث یکم جمادی الاول؍ ۱۳۷۴ھ صفحہ۵،۶)
اس عبارت میں’’ قلادت‘‘ لفظ ہے۔
غیرمقلدین یہاں موقع محل کی مناسبت سے کیا ترجمہ کریں گے ۔ ویسے عام طور پہ
غیرمقلدین اس کا معنی ’’ پٹہ ‘‘ کیا کرتے ہیں۔ یہاں اک اصول بھی درج ہے کہ جس کی
عبارت ہو وضاحت بھی اسی کا حق ہے ۔ کسی بیگانے کو اپنی مرضی کی وضاحت کا حق نہیں۔
مگر کتنے مقام ہیں جہاں غیرمقلدین عبارت کسی سنی کی لے کر اس کی وضاحت اپنی من
مانی سے کر لیتے ہیں ۔ مثلاً وحدۃ الوجود کی بات کسی دیوبندی کی کتاب سے لے کر اس
کا مطلب خود سے بیان کر دیتے ہیں کہ وحدۃ الوجود کا مطلب خالق و مخلوق میں فرق ختم
کرکے دونوں کو ایک ماننا ہے ۔ جب کہ اس اصول کے پیشِ نظر وحدۃ الوجود کی وضاحت اور
تشریح کاحق علمائے دیوبند کو ہے ۔ علمائے دیوبند وحدۃ الوجود کا مطلب یوں بیان
کرتے ہیں کہ جس طرح سورج کے مقابلہ میں جگنو کی روشنی کالعدم ہے ،اسی طرح مخلوق کا
عطائی اور عارضی وجود اللہ تعالی کے ذاتی اور ابدی وجود کے مقابلہ میں کالعدم کے
درجہ میں ہے ۔ اس میں مخلوق کے وجود کی نفی نہیں ، جس طرح سورج کی روشنی کے مقابلہ
میں جگنو کی روشنی کی نفی نہیں۔ بلکہ دونوں مقابلہ کے لحاظ: مخلوق اللہ کے مقابلہ
اور جگنو کی روشنی سورج کی روشنی کے مقابلہ میں کالعدم کے درجہ میں ہے ۔
پتھر لے کر جماعت کے پیچھے پڑے
اسی اداریہ
میں مولانا محمد یوسف مذکور کو مخاطب کرکے لکھا:
’’مولانا صاحب سے یہ توقع کہاں ! آپ الٹا پتھر لے کر جماعت
کے پیچھے پڑے، جماعت کا دین میں رہنا گوارا ہ کیا ۔ بڑی دلیری ، خود داری اور
ٹھیکے داری کے ساتھ فرمایا: نہ دین کے رہے ...الخ ۔‘‘
(صحیفہ اہلِ حدیث یکم جمادی الاول؍ ۱۳۷۴ھ صفحہ۷ )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں