کپڑے نہ ہونے
پر ننگا نماز پڑھنا
اور ”بہشتی زیور“پر
غیرمقلدین کے اعتراض کا جواب
محترم محسن اقبال صاحب حفظہ اللہ(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
غیر مقلدین نے مولانا تھانویؒ کی کتاب
بہشتی زیور پر اعتراض کیا ہے کہ مولانا تھانوی کے نزدیک ننگا ہو کر نماز پڑھنا
جائز ہے لیکن یہاں بھی اپنی عادت سے مجبور ہو کر ادھوری بات نقل کی۔
مولانا تھانویؒ نے ایک مسئلہ بیان کیا
ہے کہ اگر سارا کپڑا نجس ہو تو ننگی نماز پرھنے سے اس نجس کپڑے کو پہن کر نماز
پڑھنا بہتر ہے۔۔۔ اگر کپڑے نہ ہوں تو ننگی نماز پڑھے اور اس جگہ پڑھے کہ کوئی دیکھ
نہ سکے اور بیٹھ کر پڑھے۔ یہ مسئلہ آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین ؒ سے
ثابت ہے۔اگرصرف مسئلہ لکھنے پر اور بیان کرنے پر اعتراض ہے تو پھر یہ اعتراض امام
ابن ابی شیبہ اور امام عبدالرزاق پر بھی آئے گا جنہوں نے یہی مسئلہ بیان کیا۔
یہی فتویٰ
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جو جلیل القدر تابعی، فقیہ اور محدث تھے ان کا بھی ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون، عن هشام، عن
الحسن، في القوم تنكسر بهم السفينة فيخرجون عراة كيف يصلون؟ قال: جلوسا وإمامهم وسطهم ويسجدون
ويغضون أبصارهم
(مصنف ابن ابی شیبہ )
امام ابن ابی شیبہؒ نے باب باندھا
''لوگوں کے
پاس کپڑے نہ ہوں اور نماز کا ٹائم ہو تو کیا کریں''
امام عبدالرزاق نے تو یہاں تک
باب باندھا ہے کہ
"برہنہ
شخص کا نماز ادا کرنا"
ننگا نماز پڑھنے کا ذکر امام
عبدالرزاق نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی نقل
کیا ہے۔
اب ان پر اعتراض کرو کہ ابن ابی شیبہ
نے تابعین سے اور امام عبدالرزاق نے تابعین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہی
مسئلہ کیوں نقل کیا؟ کیا کوئی غیر مقلد امام ابن ابی شیبہؒ اور امام عبدالرزاقؒ پر
اعتراض کرے گا کہ
انہوں نے ننگا نماز پڑھنے کا ذکر حدیث کی کتب
میں کیوں کیا؟
غیر مقلدین اپنی
گھر کا بھی خبر لیں کیونکہ ان کے نواب صدیق حسن خان تو لکھتے ہیں کہ
''عورت تنہا
اور دوسری عورتوں کے درمیان،شوہر کے ساتھ یا دوسرے محارم کے ساتھ بالکل برہنہ ہو
کر نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے"۔
(بدور الاہلہ،39)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں