نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض:... مصنف فضائل اعمال نے صحابہ کرام کو صوفی بنادیا ہے۔

 

                                       

فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع (جلد دوم)

 اعتراض:۱۳۵... مصنف فضائل اعمال نے صحابہ کرام کو صوفی بنادیا ہے۔

مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمدپور شرقیہ                                                        (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

  محمد طارق خان نے قرآنی آیت ﴿یایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین﴾( سورۃ توبہ )  یعنی’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

            ’’یہ آیت غزوہ تبوک میں رہ جانے والے صحابہ کرام کے حق میں نازل ہوئی تھی کیوں کہ انہوں نے غزوہ سے پیچھے رہ جانے کے سلسلے میں کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا بلکہ سچ بول کر اپنے آپ کو ایک بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔ اس پر اللہ نے ان کو بطورِ مثال تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا اور یہ آیت نازل کی۔لیکن اس آیت کو صوفیہ کے حق میں بتا کر صاحب فضائل اعمال نے صحابہ کو بھی صوفی بنا دیا ۔ العیاذ باللہ ! ‘‘

( تبلیغی جماعت عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں صفحہ۵۱ )

الجواب:

 ۱۔اس طرح کا اعتراض خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے کیا جس کا جواب بندہ نے ’’ فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ جلد اول ،اعتراض: ۱۱۷ کے تحت دے دیا ہے ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اعتبار عمومِ لفظ کا ہے اس لیے قیامت تک جو لوگ بھی عقیدہ و عمل میں سچے پیدا ہوں گے سب کی معیت کا حکم ہے۔ ان سچوں میں صوفیا ء بھی شامل ہیں لہذا صادقین کے مصداق میں صوفیاء کو شامل کرنا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے ۔وہاں بندہ نے الزامی حوالے بھی نقل کر دئیے ہیں۔

عمومِ لفظ والے اصول کو صوفیاء بھی مانتے ہیں ۔ چنانچہ مولانا عبد الجبار غزنوی غیرمقلد صوفی لکھتے ہیں:

’’ اگرچہ خطاب خاص ہے مگر حکم عام ‘‘ ( اِثباتُ الالہام و البیعۃ صفحہ ۱۴۳)

 ۲۔ طارق صاحب کے نزدیک چوں کہ صوفیاء گمراہ ہیں اس لیے اُن کے نزدیک صحابہ کرام کو صوفیاء کہنا اس قدر غلط بات ہے جس پہ انہیں ’’ العیاذ باللہ‘‘ کہنا پڑا ۔حالاں کہ غیرمقلدین کے اعتراف کے مطابق صحابہ کرام میں تصوف پایا جاتا تھا، جیسا کہ ہم نے ’’ مقدمہ علمائے اہلِ حدیث کا ذوق ِ تصوف صفحہ ۱۶،۶۶کے حوالے ’’فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ جلد اول، اعتراض: ۱۱۰ کے تحت نقل کر دئیے ہیں۔

مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اہلِ حدیث کا طریقہ ان تما اَدوار میں صحابہ کرام کے طریقہ سے مختلف نہیں رہا۔ بلکہ اہلِ حدیث صحابہ کرام ہی کی فروع اور عقائد اور تصوّف میں اتبا ع کرتے تھے۔ ‘‘

 ( الانطلاق الفکری صفحہ ۹۷ بحوالہ غیرمقلدین کی ڈائری صفحہ ۱۱۳)

            سلفی صاحب کی اس عبارت میں جہاں یہ اعتراف موجود ہے کہ غیرمقلدین تصوّف کے قائل ہیں،وہاں یہ بھی صراحت ہے کہ صحابہ کرام میں بھی تصوّف تھا۔

 حاجی محمد ادریس بھوجیانی غیرمقلد (ٹوبہ ٹیک سنگھ) کی کتاب ’’ ارباب ِ طریقت ‘‘ میں درج ذیل حضرات کو اہل ِ طریقت ؍ صوفیاء میں شمار کیا ہے :

            ’’ سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ... حضرت امام حسین علیہ السلام ‘‘

( اربابِ طریقت صفحہ ۵۴۸ تا ۵۵۱، ،ناشر مکتبہ رحمانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ،طبع اول ۱۹۸۶ء )

اربابِ طریقت میں درج ذیل احباب کے مستقل تراجم مذکور ہیں:

            ’’ سید المرسلین احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ... حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ... حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ۔‘‘

( ارباب ِطریقت صفحہ ۲۷۲ تا ۲۷۸)

اربابِ طریقت میں سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ کے حالات میں ”بیعت ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا ہے :

            ’’ آپ نے حضرت علی المرتضی ؓ سے بیعت کی اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ حضرت امام حسن ؓ سے بھی خرقہ خلافت حاصل کیا۔ ‘‘

( اربابِ طریقت صفحہ ۵۵۲)

            اس عبارت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اُن اربابِ طریقت میں شمار کیا جن سے آگے خلافت چلی اور خرقہ عطاء کرنا بھی۔مزید یہ کہ صحابہ کرام تو اپنی جگہ رہے ، یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ

 وسلم کو بھی اربابِ طریقت بالفاظ دیگر صوفیاء میں شمار کیا ہے۔

 ۳۔ غیرمقلدین کا بھی تصوف کے ساتھ شغف رہا ہے۔ چنانچہ مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ ہمارے اکابر سے غزنوی خاندان کو تصوف سے جو شغف رہا ہے وہ بحث و دلیل کا محتاج نہیں ۔‘‘

( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۵۱، طبع المکتبۃ السلفیۃ لاہور )

            علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد نے ’’ اہلِ حدیث کے چار مراکز ‘‘ نامی کتاب لکھی ہے ۔ اس میں ایک مرکز ’’ تصوف و صوفیاء ‘‘ کے عنوان سے مذکور ہے ۔

 امام خان نوشہروی غیرمقلد نے نواب صدیق حسن غیرمقلد کی تصوّف پر لکھی گئی درج ذیل کتابوں کی نشان دہی کی :

 ’’ خیرۃ الخیرۃ...ریاض المرتاض وغیاص العرباص... الروض الخصیب من تزکیۃ القلب المنیب... سالق العباد... سعۃ المجال الی ما یخل عن الارزاق وا لاموال... صدق اللجا الی ذکر الخوف و الرجا... فتنۃ الانسان من تلقاء ابنا ء الزمان ۔ ‘‘

( تراجم علمائے حدیث ہند صفحہ ۳۱۰ ، طبع مکتبہ اہلِ ٹرسٹ کراچی )

            مولانا محمد ادریس بھوجیانی غیرمقلد کی کتاب ’’ اربابِ طریقت ‘‘میں ’’روحانیت کے علمبر دار علماء اہلسنت وا لحدیث ‘‘ عنوان کے تحت درج ذیل شخصیات کے حالات درج ہیں:

۱۔ مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی                        ۲۔مولانا غلام رسول قلعہ میاں سنگھ

 ۳۔ مولانا سید عبد اللہ غزنوی                                     ۴۔ نواب صدیق حسن خان

 ۵۔ مولانا حافظ محمد لکھوی                                        ۶۔ مولانا عبدالرحمن لکھوی

 ۷۔ مولانا عبدا لجبار غزنوی                                       ۸۔ مولانا عبد اللہ غازی پوری

 ۹۔ مولانا محمد سلیمان روڑوی                                      ۱۰۔ مولانا عبد المنان وزیر آبادی

 ۱۱۔مولانا فیض اللہ خان بھوجیانی                                ۱۲۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری

۱۳۔ مولانا عبد اللہ روپڑی                                      ۱۴۔مولانا نیک محمد

 ۱۵۔ مولانا محمد گوندلوی                                           ۱۶۔ مولانا عبد الرحمن بھوجیانی

 ۱۷۔ صوفی محمد عبد اللہ                                            ۱۸۔ مولابخش کوموی

 (اربابِ طریقت صفحہ۴۳۳تا ۴۶۲)

            ان اٹھارہ شخصیات کا تذکرہ اہلِ حدیث صوفیا ء کے تحت کیا ہے۔ اور محمد عبد اللہ کے شروع میں ’’صوفی ‘‘ کا لفظ بھی درج ہے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی غیرمقلد نے صوفی مذکور کے حالات پر مستقل کتاب لکھی اُس کا نام ’’صوفی محمد عبد اللہ ‘‘ ہے ۔ یعنی کتاب کے نام میں ’’صوفی ‘‘کا لفظ موجود ہے۔

۴۔ طارق صاحب کو شکوہ ہے کہ صادقین کا مصداق صوفیاء کو قرار دینا آیت کو غیر محل پر چسپاں کرنا ہے مگر خود اُن کا اپنا کردار یہ ہے کہ کافروں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیتوں کو تبلیغی جماعت پہ جوڑ دیتے ہیں۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ’’ حضرت جی مولانا یوسف صاحب کی اس ہدایت کو پڑھ کر بے اختیارقرآن کی ایک آیت کی جانب ذہن منتقل ہو جاتا ہے جواَصل میں یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی تھی مگر تبلیغی جماعت کے طرز ِعمل پر حرف بحرف صادق آتی ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ ...‘‘

( تبلیغی جماعت عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں صفحہ۶۲ )

            طارق خان صاحب نے سینہ زوری سے کام لیتے ہوئے یہود یوں و عیسائیوں کی تردید میں نازل ہونے والی آیت کو تبلیغی جماعت پر چسپاں کر دیا۔

             یہاں طارق صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس آیت کا کامل و اکمل مصداق غیرمقلدین کے ’’شیخ الاسلام ‘‘ مولاناثناء اللہ امرتسری ہیں ۔ مولانا عبد الحق غزنوی غیرمقلد نے اُن کے متعلق لکھا:

’’ تحریف میں یہودیوں کی بھی ناک کا ٹ دی۔‘‘

 ( الاربعین صفحہ ۳مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول)

 محمد طارق خان صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

            ’’تبلیغی نصاب جیسی کتاب جو لغویات سے بھری ہوئی ہے اس کی تبلیغ کی خاطر اپنے وقت اور پیسہ کازیاں نہ کریں ورنہ قرآن کی یہ آیت جس کی اَصل مراد تو کوئی اور لوگ تھے، آپ پر صادق آ جائے گی اس آیت میں اللہ تعالیٰ ( نے ) فرمایا کہ: ومن الناس من یشتری لھو الحدیث ....‘‘

( تبلیغی جماعت عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں صفحہ۲۸۲ )

اس آیت میں ’’ لھو الحدیث ‘‘ کا مصداق گانا اور آلات موسیقی وغیرہ ہیں۔ یاد رہے کہ امام آلِ غیرمقلدیت وحیدالزمان نے گانے کو جائز قرار دیا ہے ۔

 ( اسرار اللغۃ ، پارہ ہشتم صفحہ ۷۶بحوالہ آثار خیر صفحہ ۳۷۷)

            اس طرح اہلِ ظواہر کے امام جناب ابن حزم بھی گانے کو جائز کہتے ہیں۔

( تیسیرا لباری : ۲؍۵۰، رسائل مولانا عبد الحق ہاشمی غیرمقلد :۱؍۵۸)

            بلکہ ابن حزم نے بخاری کی روایت کردہ حدیث ِنبوی ’’ میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو گانے کو حلال قرار دیں گے ‘‘ ( بخاری :۲؍۸۳۷) کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔

( مختصر صحیح بخاری :۲؍۴۹۴مؤلفہ حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد ،رسائل مولانا عبد الحق ہاشمی غیرمقلد :۱؍۵۸)

             اہل ظواہر کو غیرمقلدین تارکِ تقلید و غیرمقلد کہا کرتے ہیں ۔مثلاً

 حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’مشہور غیر مقلد عالم اور منجلیق الغرب حافظ ابن حزم اندلسی الظاہری۔‘‘

 (علمی مقالات جلد ۲ صفحہ ۲۴۵)

محمد اسلم سندھی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ظاہری مذہب یہ ہے کہ قیاس و تقلید وغیرہ کو رَد کرکے فقط قرآن وحدیث کے ظاہر پر عمل کیا جائے اور تاویل سے بچا جائے یہی اہلِ حدیث کا مذہب ہے۔ ‘‘

( مجلہ بحرالعلوم میر پور خاص شیخ العرب و العجم نمبر صفحہ ۴۲)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...