نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض:حدیث ابن مسعود ؓ تدلیس سفیان کی وجہ سے ضعیف ہے


 اعتراض: حدیث ابن مسعود ؓ  تدلیس سفیان کی وجہ سے ضعیف ہے

مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

   حدیث:

          حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔

 ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دوسرا نسخہ ۱؍۳۵)

        اس حدیث کی سند میں سفیان ثوری مدلس ہے اور مدلس جب عن سے حدیث بیان کرے تو وہ ضعیف ہوتی ہے۔ یہ حدیث بھی سفیان نے عن سے بیان کی ہے ۔

جواب:

          غیرمقلدین کی قدیم کتابوں میں یہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا۔میری معلومات کے مطابق سب سے پہلے اس اعتراض کوصاحب ’’ التنکیل‘‘ شیخ عبد الرحمن معلمی نے کیا، پھر اسے حافظ زبیر علی زئی نے نور العینین وغیرہ کتابوں میں شہرت دینے پہ جُت گئے۔مگر خود اُن کے اپنے غیرمقلدین نے اس اعتراض کو فضول قرار دے کرجھٹک دیااور اسے جھٹکنے والوں میں علی زئی صاحب کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔

           حافظ زبیر علی زئی کے استاذ محترم مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد ’’مدلسین کے طبقات ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

          ’’ حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں ان کے پانچ مراتب بیان کئے ہیں؛ (۱) جس سے بہت کم تدلیس ثابت ہو جیسے یحیٰ بن سعید انصاری ہیں۔ (۲) جس کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت کیا ہواور اپنی صحیح میں اس سے روایت بیان کی ہو کیوں کہ اس کی تدلیس اس کی مرویات کے مقابلہ میں کم ہے۔ اور وہ فی نفسہ امام ہے جیسے ثوری یا وہ ثقہ سے ہی تدلیس کرتا ہے جیسے کہ ابن عیینہ ہے ۔ ‘‘

 ( خیر الکلام صفحہ ۴۷)

گوندلوی صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

          ’’ سفیان دوسرے طبقہ کا مدلس ہے۔ طبقات المدلسین ص۹۔ دوسرے طبقہ کے مدلسین کے متعلق حافظ ابن حجر نے لکھا ہے ائمہ حدیث نے ان کی تدلیس برداشت کی ہے اور ان کی حدیث صحیح سمجھی ہے کیوں کہ یہ لوگ امام تھے اور تدلیس کم کرتے تھے جیسے امام ثوری ہیں یا صرف ثقہ سے تدلیس کرتے تھے جیسے ابن عیینہ ہیں ۔‘‘

 ( خیر الکلام صفحہ ۲۱۴)

 علی زئی صاحب نے گوندلوی صاحب کی یوں مدح سرائی کی :

          ’’شیخ الاسلام ، حجۃ الاسلام ، شیخ القرآن و الحدیث، الامام، الثقۃ، المتقن، الحجہ، المحدث، الفقیہ، الاصولی، محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘

( فاتحہ خلف الامام صفحہ ۱۱)

          علی زئی کے استاذشیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد نے سفیان ثوری کے عنعنہ کے متعلق لکھا:

          ’’ سوال: سفیان مدلس ہے اور روایت عن سے کر تا ہے ۔ جواب: اوّلاً: اس کی عنعن بوجہ مرتبہ ثانیہ ہونے کے معتبر ہے قال ابن حجر فی طبقات المدلسین ، ص: ۲۔‘‘

(نشاط العبد بجھر ربنا لک الحمد مندرج مقالاتِ راشدیہ : ۲؍۱۹۳)

دوسری جگہ سفیان کے عنعنہ کی بابت لکھا:

’’ ائمہ نے اگرچہ ان کی عنعنہ کو لے لیا ہے مگر... ‘‘

( مقالاتِ راشدیہ : ۵؍۱۷۶)

 شیخ بدیع الدین اپنے خطبات میں سفیان کی معنعن روایت کی بابت کہتے ہیں:

          ’’ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور اگر کوئی کہے کہ اس کی سند میں سفیان ثوری واقع ہیں اور وہ مدلس ہیں تو اس کا جواب دو طرح سے ہے : اولا : یہ کہ سفیان ثوری طبقہ اولیٰ کے مدلسین میں سے ہیں اور بقاعدہ محدثین ان کی تدلیس مقبول ہو گی چاہے سماع کی تصریح نہ بھی کریں ملاحظہ ہو طبقات المدلسین لابن حجر۔‘‘

(خطباتِ راشدیہ : ۱؍۲۶)

شیخ بدیع الدین نے سفیان کی عنعنہ والی روایت کے متعلق لکھا:

’’ یہ حدیث بالکل صحیح اور سالم ہے ۔‘‘

( مقالاتِ راشدیہ : ۲؍۹۷)

شیخ بدیع الدین کے متعلق علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

          ’’اگر مجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے ……شیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم و فقیہ کوئی انسان نہیں دیکھا۔‘‘

(علمی مقالات : ۱؍ ۵۰۵)

علی زئی کے استاذ مولانا محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ حافظ ابن حجر طبقات المدلسین میں دوسرے مرتبہ کی وضاحت میں فرماتے ہیں : من احتمل الائمۃ تدلیسہ واخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ما روی کالثوری ، دوسرا مرتبہ وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت کیا ہے اور اپنی صحاح میں ان کی روایات نکالی ہیں ان کی امامت اور قلت تدلیس کی وجہ سے جیسا کہ امام ثوری ۔ ‘‘ پھر آگے جا کر حافظ صاحب نے دوسرے مرتبہ کے مدلسین کے نام گنوائے ہیں وہاں بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے متعلق امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں : ما اقل تدلیسہ ، امام ثوری کی تدلیس کتنی قلیل ہے۔ ‘‘ جب ائمہ فن کی تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ امام ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس بہت قلیل و نادر ہے اور وہ اس تدلیس قلیل کے باوصف حجۃ و ثبت ہیں اور محدثین کے مابین متفق علیہ ہے اور محدثین نے ان کی احادیث کی اپنی صحاح میں تخریج کی ہے۔ تو آپ ڈاکٹر [ابو جابر عبد اللہ دامانوی غیرمقلد (ناقل)] صاحب کی یہ علت کوئی وزن نہیں رکھتی۔‘‘

( مقالاتِ راشدیہ : ۱؍۳۰۲)

          مولانا محب اللہ شاہ راشدی نے سفیان کی تدلیس کے مضر نہ ہونے پر علی زئی کی تردید میں ایک مفصل مضمون ’’تسکین القلب المشوش باعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والاعمش ‘‘عنوان  سے

 لکھا۔اس کے تعارف میں غیرمقلدین کے لکھاری الازہری لکھتے ہیں:

          ’’ جماعت کے معروف محقق محترم جناب زبیرعلی زئی صاحب حفظہ اللہ نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کے مضمون ’’ ایضاح المرام واستیفاء الکلام، علی تضعیف حدیث النھی عن الانتعال فی حالۃ القیام‘‘ پر تنقید فرمائی ... تو شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ان کے رَد میں ایک مقالہ بنام ’’ تسکین القلب المشوش باعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والاعمش‘‘تحریر فرمایا اور جہاں جہاں محترم زبیر علی زئی صاحب نے اختلاف کیا، آپ نے ان کا علمی تعاقب فرمایا اور ثابت کیا کہ یہاں الاعمش اور امام ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس مضر نہیں ہے۔‘‘

 ( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۴)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے متعلق تو بلاشبہ میں نے لکھا ہے کہ چوں کہ یہ طبقات المدلسین مؤلف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ میں یہ مرتبہ ثانیہ میں مذکور ہے۔ لہذا اس کا عنعنہ مقبول ہے۔ ‘‘

 ( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۵)

 محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ہم یہ بھی کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ امام ثوری رحمہ اللہ کو مرتبہ ثانیہ میں اور قتادہ ثالثہ میں شامل کرنے میں بھی امام حاکم رحمہ اللہ سے بطریق اولیٰ غلطی ہو گئی ہے۔ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۸)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’لیجئے صاحب! امام ابن معین بھی امام ثوری کی احادیث کو محتج بہ قرار دیتے ہیں گووہ ثقہ سے تدلیس ہو یا غیر ثقہ سے۔ کیوں کہ ’’ یدلس ‘‘ عام لفظ ہے اور امام موصوف کی اس عبارت سے معلوم ہوگیا کہ امام ثوری ؒ مدلسین کے مرتبہ ثانیہ میں داخل ہیں، یعنی جن کی عنعنہ روایات بھی، ان کی امامت و جلالت اور قلت تدلیس کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اب یہ موقف صرف حافظ ابن حجر۔ یا علائی اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہم کا نہ رہا بلکہ ان کے ساتھ امام ابن معین جیسے جرح و تعدیل کے امام بھی شامل ہیں لیکن آں محترم دوست نے اپنے موقف کے اثبات کے لیے امام ابن معینؒ کے ہم پلہ کسی امام کا نام نہیں لیا۔ فللہ الحمد والمنۃ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۱۷)

 محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’لب لباب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو امام ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے ائمہ کو جو دوسرے مرتبہ میں داخل کیا ہے اس کی بنا امام المحدثین بخاری کی مذکورہ عبارت پر ہے، یعنی امام ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری کی تدلیس بالکل کم ہے اور جس امام کی تدلیس بہت کم ہو، اس کی روایات ائمہ حدیث تدلیس کے باوجود قبول کرتے آئے ہیں۔ نوٹ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ عبارت ’’ طبقات المدلسین ‘‘ میں ہے۔ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۲۶)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

’’جب ائمہ حدیث نے امام ثوری کی معنعنہ روایات قبول کی ہیں تو آپ کو کیسے حق حاصل ہوتا ہے کہ ان سب ائمہ کے خلاف امام ثوری کی معنعنہ روایات کو مردود قرار دیں؟‘‘

 ( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۴)

 محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’حدیث کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں امام ثوری رحمہ اللہ کے واسطہ سے کئی روایات ملتی ہیں جن کے بارے میں ان کے ائمہ مصنفین کا یہی ارشاد ہے کہ وہ صحیحہ یا حسنہ ہیں۔ مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ کی ’’ الجامع ‘‘ اور ابتداء سے لے کر عصر حاضر تک کے شراح نے ان ائمہ کی تصریح کو بحال رکھا ہے۔ ملاحظہ ہو علامہ مبارک پوری کی کتاب ’’ تحفۃ الاحوذی ‘‘ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی کتب ابوداود کی شرحیں اور دارقطنی پر تعلیق وغیرھا من الکتب۔لیکن محترم [ علی زئی ( ناقل ) ] کے موقف کی بناء پر ایسی بہت سی روایات ضعیف ٹھہریں گی۔ ‘‘

 ( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۲۸)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’اگر [ علی زئی کے ( ناقل )]اس موقف کو سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف سے لے کر خلف تک صحیح و متصل قرار دیتے آتے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ بن جائے گی۔ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۴)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’جی حضرت! آپ ذرا تدبر سے کام لیں۔ امام ثوری کو مرتبہ ثانیہ میں داخل کرنے پر حافظ ذہبی، ابن حجر اور علائی متفق ہیں اور ان کا یہ موقف دلائل پر مبنی ہے۔ انہوں نے اپنی رائے نہیں پیش فرمائی بلکہ ائمہ حدیث سے یہ اتفاق نقل فرمایا کہ انہوں نے امام ثوری کی تدلیس کو محتمل سمجھا ہے اور ان کو قبول کیا ہے ،آپ امام ابن معین کا اختلاف پیش نہیں کر سکتے ۔‘‘

  ( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۳۲۹)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’امام ثوری رحمہ اللہ ان ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے۔ جن کے صحاح وضعاف روایات کے امتیاز کا ان کو ذوق و ملکہ حاصل تھا۔ کما قال الذھبی فی المیزان جیسا جرح و تعدیل وغیرہ میں منقول ہے کہ ثوری سے پوچھا گیا کہ آپ جابر جعفی سے روایت کیوں کرتے ہیں، تو فرمایا میں ان کی صحیح حدیث و ضعیف میں امتیاز کر سکتا ہوں۔ امام شعبہ وغیرہ دوسرے ائمہ حدیث ضعاف سے روایات کرتے تھے تاکہ ان کا حال اچھی طرح معلوم ہو جائے۔ امام ثوری کی ان ضعاف سے تدلیس کی ایک وجہ معقول یہ بھی ہے کہ اس ضعیف راوی سے جو روایت انہوں نے لی وہ ہے تو صحیح، یعنی اس کا متن کسی دوسرے طریق سے صحیح طور پر وارد ہے لیکن انسان پر بسا اوقات نسیان طاری ہو جاتاہے یا اس سے فی الوقت ذہول ہو جاتا ہے اور اس حدیث کو اس وقت بیان کرنا بھی ضروری ہوتاہے لہذا وہ اس ضعیف راوی سے ہی یہ صحیح المتن روایت لے آتاہے اور چوں کہ اس راوی ضعیف کے نام لینے سے یہ صحیح المتن روایت بھی شاید مسترد کر دی جائے۔ اس خدشہ سے وہ ان کا نام نہیں لیتا اور تدلیس کردیتا ہے۔ اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ بہرحال ان حفاظ کے اس موقف ( ثوری کو مرتبہ ثانیہ میں داخل کرنا)پر تدبر سے کام لیاجائے تو اور بھی دلائل مل سکیں گے لہذا ان کا موقف صحیح ہے اور اس پرکوئی غبار نہیں۔ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۲۹)

محب اللہ صاحب ’’ حافظ ذہبی اور حافظ علائی ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:

          ’’یہ دونوں حافظان،امام ثوری رحمہ اللہ کی معنعن روایات کے مقبول ہونے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہم نوا ہیں۔اور اسی وجہ سے علائی نے بھی انہیں مرتبہ ثانیہ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان تینوں حفاظ کی پشت پر متقدمین ائمہ حدیث بھی ہیں۔ امام ابن معین رحمہ اللہ جو مطلق مدلسین کی روایات جو مصرحہ بالسماع نہ ہوں حجت نہیں سمجھتے، انہوں نے بھی امام ثوری رحمہ اللہ کو مستثنی کرایا (ان کا قول کا گزر چکا ) میری بات کو اگر آ پ عمومی رنگ دینا ہی چاہتے ہیں تو آپ بھی ان تینوں حفاظ: ذہبی، علائی، عسقلانی رحمۃ اللہ علیہم کے متفقہ فیصلہ کے خلاف متقدمین ائمہ حدیث سے ایسی تصریحات پیش فرمائیں جن سے بالوضاحت معلوم ہو جائے کہ وہ خصوصیت سے امام ثوری کی معنعن روایات کومسترد کر دیتے تھے والا فلا بالجملہ آپ کے پاس کوئی ٹھوس دلیل ہے ہی نہیں جن کی بنا ء پر امام ثوری رحمہ اللہ کی معنعنہ روایات کو مسترد کر دیا جائے۔ آپ نے صرف بعض ائمہ حدیث کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ معنعنہ روایت صرف اس کی مقبول ہوگی جو ثقہ سے تدلیس کرتا ہولیکن یہ دلیل بچند وجوہ مخدوش ہے۔ ( تفصیل گذر چکی ہے ) بایں ہمہ ہر کیلئے یا اصول سے کچھ مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور ہم نے امام ثوری کے مستثنی ہونے پر دلائل پیش کر دیئے اور آپ کا موقف بے دلیل ہی رہا۔ امام ثوری کے متعلق بحث کا اختتام ہو رہا ہے لہذا میں اپنے محترم دوست [ علی زئی (ناقل )] کو یہ گذارش کرنے کی جرأت کررہاہوں کہ آپ جیسے اہلِ علم کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہیں۔ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۳۰)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’امام ثوری رحمہ اللہ متفقہ طور پر ثقہ ، حجت، متقن امام اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔ اس جلالت وامامت کے ساتھ اقل التدلیس ہیں اور ائمہ حدیث نے ان کی غیر مصرح بالسماع روایات کو بھی محتمل قرار دیا ہے اور ان میں سے کسی نے بھی امام ثوری رحمہ اللہ کا نام لے کر یہ نہیں فرمایا کہ ان کی غیر مصرح بالسماع روایات مقبول نہیں۔ اَب ایسے امامت کی اعلیٰ سطح پر فائز شخصیت کو آپ نیچے گرا کر ایسی سطح پر لا کھڑا کریں کہ اس میں اور بقیہ بن الولید جیسے ضعفاء (مجاہیل اور کذابین سے تدلیس کرنے والوں، تدلیس التسویۃ کا ارتکاب بھی کرتے ہوں، صدوق سے اوپر ان کا درجہ بھی نہ ہو) میں کوئی فرق نہ کریں کیوں کہ بقیہ بھی جب تصریح سماع کرے تو اس کی روایات بھی مقبول ہوتی ہیں۔ اب آپ ہی فرمائیں کہ واقعتاً ثوری رحمہ اللہ اور بقیہ ایک ہی سطح پر ہیں اور ان دونوں کا ایک ہی مقام ہے .. . لہذا میری گذارش یہ ہے کہ محترم اپنے موجودہ موقف پر تدبر و قائل سے نظر ثانی فرما کر اس سے رجوع فرما لیں۔ ‘‘

( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۳۳۱)

محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:

          ’’محترم [ علی زئی (ناقل )]نے بلا تدبر محض عجلت پسندی میں امام ثوری اور اعمش رحمہما اللہ کی سب معنعنہ روایات کو ضعیف قرار دے دیا، حالاں کہ تحقیق اس کے خلاف تھی۔ اگرمحترم کا موقف اختیار کیا جائے تو صحیحین کے سوا اور سب روایات جو حدیث کے دوسرے دواوین ہیں اور جن کی تصحیح ائمہ حدیث کرتے آئے ہیں وہ سب کی سب بلا استثناء ( امام ثوری و اعمش کی وجہ سے) ضعیف قرار پائے گی اور اس طرح حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ ضعیف قرار پا کر سرد خانے میں رکھ دئیے جانے کے ہی قابل بنتا۔ وھذا کما تری اور اس پر طرہ یہ کہ آ پ نے اپنے موقف کے اثبات میں ایسے دلائل کا سہارا لیا جو آپ کی علمی شان سے بمراحل بعید تھے۔بس یہی بات تھی جس نے اس موضوع پر مجھے قلم اُٹھانے پر آمادہ کیا۔ اور الحمد للہ ثم الحمد للہ میں نے اس کا جواب تحریر کرکے پورا کردیا۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل سے میں اس پر مطمئن بھی ہوں۔‘‘

 ( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۳۳۱)

          یہ مضمون علی زئی کی زندگی میں شائع ہوگیا تھا اور اُن کے مطالعہ میں بھی آیا جیسا کہ خود انہوں نے اس کا اعتراف کیا ہے ۔ ( علمی مقالات :۱؍۴۹۸)

 مولانا محب اللہ شاہ صاحب کے متعلق علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

          ’’اگر مجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخنا محب اللہ شاہ سے زیادہ نیک، زاہد اور افضل،اورشیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم و فقیہ کوئی انسان نہیں دیکھارحمہما اللہ۔‘‘

 (علمی مقالات : ۱؍ ۵۰۵)

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ امام عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ ؒ بواسطہ سفیان ثوری عن الصلت بن الربعی اور وہ سعید ؒ بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اذ لم سمعک الامام فاقرأ(مصنف : ص۱۳۲ج ۲، ابن ابی شیبہ : ص ۱۴۹ ج ۲ )... اس کی سند بھی صحیح ہے۔‘‘

( توضیح الکلام صفحہ ۴۸۶)

اس عبارت میں اثری صاحب نے سفیان ثوری کی عن والی سند کو ’’ صحیح ‘‘تسلیم کیا ہے۔

 شیخ کفایت اللہ سنابلی غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ سفیان ثوری رحمہ اللہ قلیل التدلیس یعنی بہت کم تدلیس کرنے والے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ما اقل تدلیسہ قلیل التدلیس یعنی سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس بہت ہی کم ہے۔ (العلل الکبیر للترمذی ص ۳۸۸) حافظ ابن حجر نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے ص ۸۹۔ لہذا ان کا عنعنہ مقبول ہے یہی وجہ ہے کہ سفیان ثوری کی احادیث کو ائمہ نقد جب ضعیف کہتے ہیں تو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے عنعنہ کو علت نہیں بناتے ہیں بلکہ دیگر علل کی بنیاد پر تضعیف کرتے ہیں۔ چنانچہ سنن ابو داود وغیرہ میں سفیان ثوری ہی کے طریق سے ایک روایت آئی جس سے احناف ترک رفع الیدین پر استدلال کرتے ہیں یہ روایت اس لئے ضعیف ہے کیوں کہ محدثین نے اس پرجرح مفسر کر رکھی ہے۔ اس میں سفیان ثوری کا عنعنہ بھی ہے لیکن اس حدیث کی تضعیف کے لئے اسے بنیادی علت قرار دینا درست نہیں ہے۔ غور کرنے کی بات ہے محدثین کی ایک بڑی جماعت نے عدم رفع الیدین والی اس حدیث کو ضعیف تو قرار دیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ نہیں بتائی ہے کہ اس میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔ محدثین کی ایک کثیر تعداد کا اس حدیث کو ضعیف قرار دینا اس کے باوجود بھی سفیان ثوری کے عنعنہ سے تعرض نہ کرنا یہی اس بات کی زبر دست دلیل ہے کہ سفیان ثوری کا عنعنہ محدثین کے نزدیک مضر نہیں ہے کیوں کہ وہ قلیل التدلیس ہیں۔ ‘‘

 ( انوار البدر صفحہ ۱۴۹، ناشر اسلامک انفارمیشن سینٹر ممبئی )

          مولانا خبیب اثری غیرمقلد نے مسئلہ تدلیس کے حوالہ سے علی زئی کے خلاف مفصل مضمون تحریر کیا ۔ اس مضمون کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں ۔

خبیب صاحب لکھتے ہیں:

’’ ثوری قلیل التدلیس ہیں، لہذا ان کا عنعنہ سماع پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔ ‘‘

( مقالاتِ اثریہ صفحہ ۲۲۲)

          خبیب صاحب نے ’’ مقدمہ اکمال المعلم للقاضی عیاض صفحہ ۳۴۸‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

          ’’ جن جن روایات میں ابن عیینہ اور ثوری وغیرہ اور اُن کے مدلسین نے تدلیس کی ہے جو صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔محدثین کو ا س بارے میں شک نہیں(انہیں تدلیس شدہ روایات کا بخوبی علم ہے ) جمہور اس (مدلس کی معنعن روایت ) کو قبول کرتے ہیں، جن کے بارے میں معروف ہے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت (تدلیس ) کرتاہے۔ ‘‘

( مقالاتِ اثریہ صفحہ ۲۷۰)

خبیب صاحب لکھتے ہیں:

          ’’گزشتہ صفحات میں امام بخاری رحمہ اللہ کا سفیان ثوری کے متعلق یہ قول ’’ ما اقل تدلیسہ ؟‘‘ ان کی تدلیس کتنی تھوڑی ہے۔ ‘‘ گزر چکا ہے جو نص قاطع ہے کہ اہلِ اصطلاح تدلیس کی قلت و کثرت کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر وہ سبھی مدلسین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں تو امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ صراحت کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ نہایت کم تدلیس کرتے ہیں؟ اس حوالے سے راقم الحروف نے اپنے سابقہ مضمون میں تقریبا پونے دو صفحات پر مشتمل بحث لکھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا امام بخاری رحمہ اللہ اہلِ اصطلاح نہیں؟ کیا امام بخاری رحمہ اللہ، امام ابن المدینی رحمہ اللہ، یحیٰ بن معین رحمہ اللہ، احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر کبار ائمہ کی اصطلاحات سے ناواقف تھے؟ کیا ان سبھی محدثین کا موقف یکساں نہ تھا؟۔‘‘

( مقالاتِ اثریہ صفحہ۳۰۳)

غیرمقلدین کی دوغلہ پالیسی

          غیرمقلدین سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالہ سے ابن خریمہ سے جو روایت پیش کرتے ہیں اس کی سند میں بھی سفیان ثوری کا عنعنہ موجود ہے پھر بھی غیرمقلدین اس حدیث سے نہ صرف استدلال کیا کرتے ہیں بلکہ انہیں اس کے صحیح ہونے کا دعویٰ بھی ہے ۔حوالہ جات دیکھئے :

 ( شرح مشکوۃاردو: ۱؍ ۳ؤ۳۵۲مولانا محمد صادق خلیل )

 (رسائل ثنائیہ صفحہ ۵۷ مولانا ثناء اللہ امرتسری )

 ( جنازے کے مسائل صفحہ۷۸،دار الدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور)

 مولانا داود ارشد غیرمقلدلکھتے ہیں :

          ’’ صحیح حدیث میں نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے ۔ حضرت وائل بن حجر رضی

 اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ...‘‘

 (تحفہ حنفیہ صفحہ ۱۲۲)

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ عن وائل بن حجر ....‘‘

( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۸۱)

          ابن خزیمہ میں مذکور سینے پر ہاتھ باندھنے والی سفیان ثوری کی معنعن روایت ہے جو مؤمل بن اسماعیل کی وجہ سے ضعیف ہے، کئی غیرمقلدین نے مؤمل مذکور کو ضعیف کہا ہے جیسا کہ بندہ نے اپنی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں حوالہ جات جمع کر دئیے ہیں۔

          ابن خزیمہ کی سفیان کے عن والی اس روایت کے متعلق مولانامحمود احمدمیر پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں ان سب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث یہی ہے جس میں سینے پرہاتھ باندھنے کاذِکر ہے ۔‘‘

( فتاویٰ صراط مستقیم صفحہ۱۷۴، مکتبہ قدوسیہ لاہور ، اشاعت ۲۰۱۰ء )

حافظ محمد اسلم حنیف (جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور ) لکھتے ہیں:

          ’’ سینے پر ہاتھ باندھنے کی سب سے زیادہ صحیح روایت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ہے ... صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳؍۱‘‘

 ( نماز جنازہ کے احکام و مسائل صفحہ ۷۰، ناشر جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور ضلع رحیم یار خاں )

          اسلم حنیف اورمیر پوری کی تصریح کے مطابق سینے پر ہاتھ باندھنے کی بابت سب سے زیادہ صحیح حدیث سفیان ثوری کے عن والی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب انہیں اختصارمطلوب ہو تو اسی روایت کے ذِکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ چنانچہ فاروق اصغر صارم غیرمقلدلکھتے ہیں:

          ’’ جگہ کی کمی کی وجہ سے صرف ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔ ‘‘

( اہلِ تقلید کی طرف سے سوالات اور اہلِ حدیث کی طرف سے اُن کے جوابات صفحہ ۲، ادارہ احیاء التحقیق الاسلامی گوجرانوالہ )

          پھر صارم صاحب نے ابن خزیمہ سے حدیث وائل لکھی، جس کی سند میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔گویا غیرمقلدین کے پاس سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالہ سے بقول اسلم حنیف اور میر پوری سب سے زیادہ صحیح روایت سفیان ثوری کی تدلیس والی ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ سفیان ثوری کی عن والی روایت اُن کا مستدل ہو تو اسے سب سے زیادہ صحیح باور کراتے ہیں اور جب یہ اہلِ سنت احناف کے دلائل میں آئے تو ضعیف اور قابلِ رد بن جاتی ہے۔ وکیل ولی قاضی غیرمقلد ( رکن شوری جمعیت اہلِ حدیث حیدر آباد )نے غیرمقلدین کے اس طرز عمل کو دوغلہ پالیسی قرار دے کر کہا کہ اس دو رخے منہج کی وجہ سے اہلِ حدیث کو خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے غیرمقلد علماء سے کی گئی ملاقاتوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ’’کئی علماء سے بالمشافہ بات چیت ہوئی اور مشہور مسائل تدلیس اورمروجہ حسن لغیرہ کی حجیت و عدم حجیت پر بات ہوئی تو اُن علماء کے پاس اطمینان بخش جواب نہیں تھا۔ کہیں کثرت طرق کی بنا پر کسی روایت کو حسن منوانے کی کوشش کی جاتی اور جب ہم فضیلت پندرہ شعبان جیسی روایت جو کثیر الطرق ہوتی پیش کرتے تو اُس کی ایک ایک سند کو ضعیف ثابت کرکے رد کر دیا جاتا۔ کہیں صحیح ابن خزیمہ کی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی سینے پر ہاتھ والی روایت کو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے عنعنہ کے باوجود صحیح باور کروایا جاتا اور مخالفت میں جامع ترمذی کی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین والی روایت کو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے رد کر دیا جاتا۔ یہ ہے وہ دو رُخا منہج جس سے ہمیشہ دعوتی میدان میں اہلِ حدیث کو خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ‘‘

(اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص بیاد زبیر علی زئی صفحہ۵۵۳)

          غیرمقلدین کی دو رخی پر مذکورہ عبارت پڑھنے کے بعد ایک اور عبارت بھی پڑھیں اس دو رخی میں بھی ترک رفع یدین پر ضعف کی چھاپ کا تذکرہ ہے۔

حافظ شبیر احمد جمالی غیرمقلد(مدرس نواب شاہ سندھ ) لکھتے ہیں:

          ’’مروجہ حسن لغیرہ کی حجیت کے دعوے دار اپنے اصولوں کے تحت ان روایات کو حسن لغیرہ ماننے کے لیے قطعا تیارنہیں ۔ ان کے اصول پر ان روایات کا ضعف خفیف ہے نہ کہ شدید۔ عدم رفع االیدین کی روایات۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین کی روایت ( سنن ابی داود : ۷۴۸، سنن ترمذی: ۲۵۷، السنن الکبری للبیہقی ۲؍۱۸۵، دار الحدیث قاہرہ ) ضعف: سفیان ثوری کی تدلیس ( جو کہ ضعف خفیف ہے نہ کہ شدید ) براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین کی روایت ( سنن ابی داود : ۷۴۹) ضعف: یزید بن ابی زیادہ کا ضعیف ہونا، یہ بھی ضعف خفیف ہے، کیوں کہ یزید تو غیر اصول میں صحیح مسلم کا راوی ہے۔ ( میزان الاعتدال ۴؍۲۸۸، دار الفکر ) آلِ تقلید کی طرف سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی پیش کی جانے والی رایت ( السنن الکبری للبیہقی: ۵؍۱۹۷، ۱۹۸) ضعف: ایک سند میں ابن جریج کا عنعنہ دوسری سند میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کا ضعیف ہونا۔ یہ ضعف بھی خفیف ہے نہ کہ شدید ۔ کیوں کہ ابن جریج تو امت کے ایک ثقہ فقیہ ہیں۔ ( تقریب التہذیب ص ۴۰۸)ابن ابی لیلیٰ پر بھی خفیف جرح ہے۔ بیہقی کہتے ہیں: ’’غیر قوی فی الحدیث ‘‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’ صدوق سیء الحفظ ‘‘ (السنن الکبری للبیہقی۵؍۱۶۸، تقریب التہذیب : ۵۸۱)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف سے واقفیت رکھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ یہ جرح خفیف ہے نہ کہ شدید۔ اسی طرح عدم رفع الیدین کی کئی ضعیف روایات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ معلوم نہیں کہ ضعیف خفیف+ ضعیف خفیف=صحیح یا 1\2+1\2=1کا نعرہ لگانے والے اپنا یہ اصول ادھر کیوں بھول جاتے ہیں ؟؟ دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عدم رفع الیدین کی تمام روایات مردود ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ایسا نہ کہیں بلکہ اصول کی پاس داری کریں ضعیف+ضعیف=حسن کہہ کر صحیحین وغیرہ کی روایات سے تطبیق دینے کے لیے کوئی دوسرا اصول وضع کر ڈالیں۔ شعبان کی لیلۃ النصف کے فضائل کی روایات شیخ [ زبیر علی زئی ( ناقل )] نے مثال بھی ارشاد فرمائی کہ یہ روایت بھی کافی طرق سے منقول ہیں، بلکہ علامہ ابن دبیثی رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفی ۶۳۷) نے تو ایک مکمل کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ جوبنام ’’لیلۃ النصف من شعبان ‘‘ مکتبہ مؤسسہ قرطبہ سے مطبوع ہے۔اس میں بھی کافی روایات علامہ ابن دہیثی نے نقل کی ہیں۔ یہ سارے ضعیف خفیف کے حامل طرق یقوی بعضھا بعضا ‘‘ کے گن گانے والوں کے نزدیک حسن لغیرہ بھلا کیوں نہیں بن جاتے ؟...یہاں یہ الگ بات ہے کہ مفاد کی حد تک اس اصول پر چلا جائے جب مفادات پر زد پڑے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے۔‘‘

(اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص بیاد زبیر علی زئی صفحہ ۲۱۱،۲۱۲)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...