نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرد وعورت کے طریقہ نماز میں فرق اور غلام مصطفی ظہیر امن پوری کے مضمون کا تحقیقی جائزہ


 مرد وعورت کے طریقہ نماز میں فرق

تمہید:

اس مضمون میں ہم اہل حدیث غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری کی تحریر کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گیں۔

قارئین غیر مقلدوں کی تحریر ان کے محدث فورم پر پڑھ سکتے ہیں

مرد وعورت کے طریقہ نماز میں فرق تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری

تحریر کا طریقہ کار یہ ہیکہ پہلے ہم امن پوری صاحب کے نام لکھ کر انکی عبارت نقل کرے گیں جس میں وہ احناف کے دلائل کا جواب دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور اکثر جگہ بے تکی باتیں کر گزرتے ہیں ، اس کے بعد تحقیقی جائزہ کے عنوان سے ہم اپنا جواب تحریر کریں گیں ۔

1. غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری : راویہ میمونہ بنت عبدالجبار کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔جس روایت کے دو راویوں کی توثیق ثابت نہ ہو، اُسے بہ طور حجت پیش کرنا اہل حق کا وطیرہ نہیں ہو سکتا۔

تحقیقی جائزہ : انتہائی حیرت کی بات ہے نام نہاد محقق امن پوری صاحب کو امام ہیثمی رحمہ اللہ کا کلام "لَمْ أَعْرِفْھَا میں اسے پہچان نہیں پایا۔(مَجمع الزوائد : ٢/١٠٣)" تو نظر آ گیا لیکن پوری عبارت میں سے یہ الفاظ نظر نہ آئے جن میں سند کے باقی راویوں کو ثقہ کہا گیا ہے۔ قارئین پوری عبارت پڑھیں اور امن پوری صاحب کی خیانت پہچانیں

رواه الطبراني في حديث طويل في مناقب وائل من طريق ميمونة بنت حجر ، عن عمتها أم يحيى بنت عبد الجبار ، ولم أعرفها ، وبقية رجاله ثقات

اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں.

(مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)

قارئین یہاں امام ہیثمی رحمہ اللہ نے سند کے باقی تمام رواہ (سوائے ام یحیی کے) کو ثقہ کہا ہے جبکہ امن پوری صاحب نے امام ہیثمی کی آدھی بات لی اور آدھی بات چھوڑ کر اپنے اہلحدیث ہونے کا واضح ثبوت دیا۔

 راویہ : ام یحیی ۔

تاریخ دمشق (جزء 62ص390) میں ”باب وائل بن حجر بن سعد“ کے تحت ام یحییٰ کا نام ”کبشہ“ مذکور ہے۔ وہاں سند یوں ہے:

حدثنا میمونۃ بنت عبدالجبار بن وائل قال سمعت عمتی کبشۃ ام یحییٰ۔۔۔الخ

اور امام ابن مندہ نے حاشیہ اکمال الکمال جزء 2ص478پر فرمایا ہے کہ اس راویہ کی کنیت ”ام یحییٰ“ ہے اور ان سے میمونہ بنت حجر بن عبدالجبار نے روایت کی ہے۔

"عورت کے سینے پر ہاتھ باندھنے پر اجماع"

عورت کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔

1: امام ابو القاسم ابراہیم بن محمد القاری الحنفی السمر قندی (المتوفیٰ بعد907ھ) لکھتے ہیں:

وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا بِالْاِتِّفَاقِ.

(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)

ترجمہ: عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔

2: سلطان المحدثین ملا علی قاری رحمہ اللہ (م1014ھ) فرماتے ہیں:

وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا اِتِّفَاقًا لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی السَّتْرِ.

(فتح باب العنایۃ: ج1 ص243 سنن الصلوۃ)

ترجمہ:عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے پر ہے۔

3: علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ (م1304ھ) لکھتے ہیں:

وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا.

(السعایۃ ج 2ص156)

ترجمہ:رہا عورتوں کے حق میں[ہاتھ باندھنے کا معاملہ]تو تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کے لیےسنت سینہ پر ہاتھ باندھناہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔

نوٹ : مشہور غیر مقلد اہلحدیث شیخ زبیر علی زئی بھی عورت کی نماز کے سلسلے میں اجماع سے دلیل لاتے ہیں اور لکھتے ہیں 

" اس پر اجماع ہیکہ عورت مردوں کی امام نہیں ہو سکتی۔" 

مقالات جلد 5 صفحہ 114۔

اس پر اجماع ہیکہ عورت مردوں کی امام نہیں ہو سکتی

2. غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری : عطاء رحمہ اللہ والی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں 

" یہ قرآن و حدیث نہیں، بل کہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا اجتہاد ہے، وہ بتا رہے ہیں کہ عورت کے ہاتھ اٹھانے کی ہیئت ہے، اگر وہ ہیئت ترک بھی کر دے تو کوئی حرج نہیں "

تحقیقی جائزہ : امن پوری صاحب نے ترجمہ غلط کیا ہے اور ترجمہ میں جھوٹ بولا ہے ۔

صحیح ترجمہ یہ بنتا تھا

  " کہ اگر عورت تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا چھوڑ بھی دے تو کوئی حرج نہیں ہے" ۔ جبکہ امن پوری صاحب نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ " جو ہیت امام عطاء نے بتائی ہے کہ وہ ہاتھ کم اٹھائے اس کو چھوڑ بھی دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔"

یہ بہت بڑا جھوٹ ہے ۔

3.غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری : "ویسے بھی تقلیدِ شخصی کے وجوب کے قائلین کو ان کے اقوال پیش کرنا زیبا نہیں، ان کو چاہئے کہ اپنے امام سے باسند صحیح مرد و عورت کے طریقہئ نماز میں فرق ثابت کریں ورنہ مانیں کہ۔۔۔۔۔"

تحقیقی جائزہ :

پہلا جواب جو باتیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے باسند صحیح ثابت ہیں کیا ان کو آپ غیر مقلد مانتے ہیں ؟؟؟ 

دوسرا جواب : اس پر امت کا اجماع ہے لہذا اجماع کے ہوتے ہوئے امام کے قول کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر ان کا قول اجماع کے خلاف ہوتا تب امام کے قول کی ضرورت تھی۔

4.غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری:

"الحمد للہ! ہم اہلحدیثوں کے مرد و عورتیں صحابی رسول سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الدرداء رحمہ اللہ تابعیہ کی پڑھی ہوئی نماز کے مطابق نماز پڑھتے ہیں"

تحقیقی جائزہ : 

کچھ سطر قبل ، امن پوری صاحب تابعی امام عطاء رحمہ اللہ کے قول کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ " یہ قران حدیث نہیں ہے ایک تابعی کا اجتہاد ہے "۔ جبکہ یہاں ام درداء تابعیہ کے فعل کو بڑے فخر کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ ہماری عورتیں اس طرح نماز پڑھتی ہیں۔

۔

یعنی نفس پرست غیر مقلدوں کی جہاں مرضی آئی تابعی کی بات جھٹلا دی اور جہاں دل کیا تابعیہ کی بات مان لی۔ سبحان اللہ 

5۔غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری : 

" امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:

تَجْمَعُ الْمَرْأَۃُ یَدَیْہَا فِي قِیَامِہَا مَا اسْتَطَاعَتْ .

''عورت قیام میں جتنا ہو سکے، اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر رکھے۔'' (مصنف عبد الرزاق : ٢/١٣٧)

تبصرہ:

اس قول کی سند ''ضعیف'' ہے، اس میں امام عبد الرزاق بن ہمام ''مدلس'' ہیں،جو کہ لفظ ''عن'' سے روایت کر رہے ہیں اور سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا سند ''ضعیف'' ہے "

 نیز ایک اور روایت امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:

تَجْتَمِعُ الْمَرْأَۃُ إِذَا رَکَعَتْ تَرْفَعُ یَدَیْہَا إِلٰی بَطْنِہَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ یَدَیْہَا إِلَیْہَا، وَتَضُمَّ بَطْنَہَا وَصَدْرَہَا إِلٰی فَخِذَیْہَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ .

''عورت جب رکوع کرے، تو اکٹھی ہوجائے۔ اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف بلند کرلے اور جتنا ہو سکے، اکٹھی ہو جائے۔ جب وہ سجدہ کرے، تو اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف ملائے اور اپنے پیٹ اور سینے کو اپنی رانوں سے ملائے اور جتنا ہو سکے، اکٹھی ہو جائے۔'' (مصنف عبد الرزاق : ٢/١٣٧،ح : ٥٠٦٩) " کے بارے میں بھی یہی لکھا کہ "سند ''ضعیف''ہے۔ اس میں وہی علت امام عبد الرزاق کی تدلیس موجود ہے۔

تحقیی جائزہ :

ہم اسکا جواب محدث فورم کے ہی کفایت اللہ سنابلی غیر مقلد سے دکھاتے ہیں جنہوں نے امن پوری صاحب کی مخالفت کی اور امام عبدالرزاق کو مدلس ماننے سے انکار کر دیا۔ سنابلی لکھتا ہے

"میں [کفایت اللہ سنابلی] بھی شروع میں محض بعض حضرات کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے یہ سمجھتا تھا کہ امام عبدالرزاق مدلس ہیں لیکن بذات خود دلائل دیکھنے کے بعد میں اسی نتیجہ پر پہونچا کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ پرتدلیس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔اسی لئے میں نے اپنی کتاب حادثہ کربلا میں ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے امام عبدالرزاق کی تدلیس والی علت کو حذف کردیا ہے جبکہ شروع میں جب میں نے فورم پر یہ مقالہ پیش کیا تھا تو عبدالرزاق کی تدلیس کو بھی بطور علت گنایا تھا۔ "

موصوف مزید لکھتے ہیں 

"یاد رہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں مدلس ماننے کے باوجود بھی ان کے عنعنہ کو مقبول قرار دیا ہے۔ کیونکہ انہیں مدلس ماننے کی صورت میں بھی یہ قلیل التدلیس ہی ہوں اور قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ مقبول ہوتا ہے، الا یہ کہ کسی روایت میں ان کی تدلیس ثابت ہوجائے"

لیں جی فرقہ غیر مقلد اہلحدیث ہی کے ایک صاحب نے فرقہ اہلحدیث کے دوسرے نام نہاد محقق کی منجی ٹھوک دی۔ 

6۔ غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری: 

" تنبیہ نمبر 1۔

نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں

کُنَّ نِسَاءُ ابْنِ عُمَرَ یَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاۃِ .

''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی ازواج نماز میں چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔''

(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)

 2۔ نیز نافع رحمہ اللہ خود کہتے ہیں:

'تَرَبَّعُ' ''عورت چار زانوں ہو کر بیٹھے۔'' (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)

اگر اُمتیوں سے نماز کا طریقہ لینا ہے، تو پھر بعض الناس کی عورتیں چا زانوں ہو کر کیوں نہیں بیٹھتیں؟ اگر وہ کہیں کہ یہ عذر پر محمول ہے تو پھر عورت کے لیے بیٹھنے کی خاص حالت با سند صحیح بیان کریں، ورنہ مانیں کہ مرد و عورت کا نمازمیں بیٹھنے کا طریقہ ایک جیسا ہے۔"

تحقیقی جائزہ:

تنبیہ نمبر 1 میں ہم کہتے ہیں کہ

یہاں امن پوری صاحب نے خود یہ مان لیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی عورتیں چوکڑی مار کر بیٹھتی تھی ۔

ہم پوچھتے ہیں کہ وہ چوکڑی مار کر کیوں بیٹھتی تھی ؟ 

اس میں نص ہے یا قیاس ہے ؟

امن پوری صاحب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نص ہے تو پیش کریں ؟ 

ورنہ اگر قیاس ہے تو امن پوری صاحب اس کی علت بتائیں ؟

ہمارے نزدیک اس کی علت یہ ہے کہ اگر عورت مردوں کی طرح بیٹھے گی اس کی سرین ٹائٹ ہو کر نظر آئے گی ۔

تو ان کے قیاس کی رو سے ہر وہ طریقہ جس میں عورت کی سرین ٹائٹ ہو کر نظر نہ آئے وہ ان کے مطابق ہوگا۔

 2 کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ خود امن پوری صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عورتیں چوکڑی مار کر بیٹھتی تھی۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ چوکڑی مار کر وہ عورتیں کیوں بیٹھتی تھیں ؟ ستر کی حفاظت کے لیے یا کسی اور وجہ سے ؟ معلوم ہوا عورت کا مقصود ستر اور اپنے جسم کو سمیٹنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ 《 صلوا کما رایتمونی اصلی 》 کا جو تم معنی لیتے ہو وہ معتبر ہے ؟ یا جو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لیا تھا وہ معتبر ہے ؟

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں چوکڑی مار کر بیٹھا کرتے تھے ؟

7۔غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری :

" ام الدرداء' نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں "

تحقیقی جائزہ : 

کیا مزے کی بات ہے کہ وہ مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔

یعنی عورتوں کی طرح نہیں بیٹھتی تھی ۔

اگر اس زمانے کے سارے مرد عورت ایک جیسی نماز پڑھتے ہوتے تو ایک عورت کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اس کا کیا مقصد ؟ جب ان میں فرق ہی نہیں تو ، ان کے بیٹھنے کی کیفیت اس انداز میں کیوں بیاں کی گئی جس سے معلوم ہوتا ہیکہ کیفیات الگ الگ تھیں۔

 یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ایک ہی مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔

 تبھی ان کے متعلق یہ روایت میں آیا ہے ورنہ باقی عورتیں ، مردوں کی طرح نہیں بیٹھتی تھی ۔ 

8۔غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری : 

 "قارئین کرام! ابو مطیع بلخی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب تصنیف ''الفقہ الاکبر'' کا راوی ہے، جس کا حال آپ نے اچھی طرح معلوم کر لیا ہے۔ ائمہ محدثین نے کس طرح اس کی خبر لی ہے، ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایات و تصانیف کا کوئی اعتبار نہیں۔ والحمد للہ علی ذلک! "

تحقیقی جائزہ : امام ابو مطیع بلخی رحمہ پر امن پوری جرح کا جواب جاننے کیلئے قارئیں یہ رسالہ پڑھیں

مقام امام ابو مطیع بلخی تصنیف مفتی عنایتہ اللہ عینی

امام ابو مطیع بلخی کے بارے میں تفصیلی مضامین 

امام ابو حنیفہؒ، کی کتاب الفقہ الاکبر ،الابسط کے راوی اور ان کے شاگرد امام ابو مطیع بلخیؒ

غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری نے مرسل حدیث کی حجت کا انکار کیا ہے۔

تحقیقی جائزہ :

حدیث مرسل میں قبول و رد کا معیار

ائمہ اربعہ کے نزدیک حدیث مرسل حجت ہے۔البتہ قبول کرنے میں ہر ایک کی اپنی اپنی شرائط ہیں۔مرسل حدیث کو علی الاطلاق رد کرنا ائمہ اربعہ میں سے کسی کا بھی مذہب نہیں ہے۔

احناف کے یہاں کونسی مرسل حدیث لی جاتی ہے ؟

احناف کے اصولِ حدیث کے ایک بڑے محقق ناقل امام ابوبکر الجصاص رازی رحمہ اللہ فرماتےہیں

" صحابۀوتابعین کی مراسیل ہمارے ائمہ کے یہاں مقبول ہیں۔

اور میرے نزدیک تبع تابعی کی مرسل بھی حجت ہے بشرطیکہ وہ راوی ثقہ اور عادل محدثین سے ارسال کرنے میں معروف ہو۔"

اکثر فقہاء حنابلہ نے مرسل حدیث کو لیا ہے۔ ان میں سے مشاہیر کے نام حاضر خدمت ہیں

ابن عقیل،ابن جوزی، ابن قدامہ، آل تیمیہ، ابن نجار اور حافظ ابن رجب حنبلی رحمھم اللہ

ابن رجب شرح علل الترمذی (ج1ص524) پر فرماتے ہیں

"فقہاء کی ایک بڑی تعداد مرسل حدیث کو بطور حجت مانتی ہے۔اور ہمارے فقہاء کا کہنا ہے کہ امام احمد رح کا صحیح طریق سے ثابت شدہ مذہب بھی یہی ہے۔"

مرسل حدیث حجت ہے اس بارے میں تفصیل کیلئے یہاں کلک کریں

اصول حدیث میں مرسل روایات کا حکم

10۔غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری۔

" سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا . ''جب عورت سجدہ کرے، تو سمٹ جائے اور اپنی دونوں رانیں جوڑ لے۔'' (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٦٩، واللفظ لہ،، السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٢)

تبصرہ: یہ قول بلحاظ سند سخت ''ضعیف'' ہے، کیوں کہ

1۔ ابو اسحاق سبیعی ''مدلس'' ہیں۔(طبقات المُدلِّسین لابن حجر : ٤٢) "

تحقیق جائزہ : 

جس سند پر امن پوری صاحب نے کلام کیا ہے عین اسی سند والی حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ " اہل علم کے اس پر عمل کی وجہ سے یہ حدیث مضبوط ہو جاتی ہے "۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب النکت علی کتاب ابن صلاح صفحہ نمبر 168 پر فرماتے ہیں 

 وهذا الحديث رواه الترمذي وغيره من روايه ابي اسحاق السبيعي عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه والحارث ضعيف جدا وقد استغربه الترمذي ثم حکی اجماع اهل العلم على القول بذلك فاعتضد الحديث بالاجماع والله اعلم

تو یہ حدیث ضعیف جداً ہے

 اس کے متعلق امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 

ہم اس حدیث کو صرف ابواسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ابواسحاق سبیعی روایت کرتے ہیں حارث سے اور حارث، علی ؓ سے، 

٢ - بعض اہل علم نے حارث کے بارے میں کلام کیا ہے، 

 ٣ - عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔

قارئین کرام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے اس ضعیف روایت کے بارے میں فرمایا ہے کہ اہل علم کا اس کو لینے کی وجہ سے یہ روایت قابل قبول ہے۔ بالکل اسی طرح عورت کے سینہ پر ہاتھ باندھنے والی روایت بھی تعامل امت کی وجہ سے قابل قبول ہے ، آئمہ نے اس پر عمل کیا ہے۔

وعن وائل بن حجر قال : قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " يا وائل بن حجر إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك ، والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها ".

وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجرؓجب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اُٹھائے".

لہذا امن پوری صاحب کا سب سے پہلا جاہلانہ اعتراض باطل ہوا الحمد اللہ

11۔غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری:

"امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا، وَلَا تُجَافِي کَمَا یُجَافِي الرَّجُلُ .

''جب عورت سجدہ کرے، تو پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چمٹائے اور اپنی کمر کو بلند نہ کرے اور کہنیوں کو پہلو سے دور کرے، جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔'' (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)

تبصرہ:

یہ نہ قرآن ہے، نہ حدیث، نہ قول صحابی اور نہ قول ابی حنیفہ۔ یہ ایک مسلمان کا اجتہاد ہے، جو صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ ویسے بھی جو لوگ مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کرتے ہیں، وہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے کئی اجتہاد ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے مزعوم امام سے با سندِ صحیح یہ فرق ثابت کریں، ورنہ مانیں۔۔۔

قارئین کرام! یہ بعض الناس کا کل کائنات ہے، جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا "

تحقیقی جائزہ :گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے امن ہوری صاحب کبھی تابعیہ ام درداء کے اقوال پیش کرنے پر خوش ہوتے ہیں لیکن جب ہم تابعین امام عطاء یا امام ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کے اقوال انکے خلاف پیش کرتے ہیں ، موصوف لومڑی کی سی شاطرانہ چال چلتے ہوئے ، اپنے مخالف صحیح سند سے وارد اقوال کو رد کر کے قرآن و حدیث کے دعویدار بن جاتے ہیں۔

ہم امن پوری صاحب سے کہتے ہیں 

جن احادیث میں عورت کو خصوصا کہا گیا کہ مردوں کی طرح نماز پڑھے وہ پیش کی جائیں ۔ اور آپ ثابت کریں کہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا یہ اجتہاد صحیح احادیث کے کیسے خلاف ہے ؟

موصوف امن پوری مزید گل افشانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"واضح رہے کہ احناف زیر ناف ہاتھ باندھتے ہیں، جب کہ ان کی عورتیں سینے پر ہاتھ باندھتی ہیں، یہ فرق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور امام ابو حنیفہ سے بھی با سند صحیح ثابت نہیں ہے، فرمانِ نبوی ہے:

صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي .

''نماز میرے طریقے کے مطابق پڑھیں۔'' (صحیح البخاري : ٦٣١)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے۔ ہر مرد و عورت کو شامل ہے۔ کسی صحیح مرفوع یا موقوف روایت سے بھی مر دو عورت کے طریقہ نمازمیں فرق ثابت نہیں ہے۔ شریعت نے نماز کے بعض مسائل میں عورتوں کے لیے مخصوص احکام صادر کیے ہیں، مثلاً : لباس، امام کو لقمہ دینے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ مارنا، امامت کی صورت میں صف کے درمیان میں کھڑے ہونا، صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا، وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ صورتیں شرعی دلائل کی روشنی میں مستثنیٰ کی گئی ہیں، نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ان کا طریقہ نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

تحقیقی جائزہ :

امن پوری صاحب ایک حدیث کو بہت زور و شور سے پیش کرتے ہیں 《ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو 》 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی بن کر بھی نماز پڑھی ہے اور امام بن کے بھی نماز پڑھی ہے۔ 

مردوں کے بھی امام بنے ہیں عورتوں کے بھی امام بنے ہیں۔ 

لہذا ان حضرات کو چاہیے کہ اپنی عورتوں کو باقی نماز مردوں کی طرح پڑھنے کے ساتھ ساتھ امامت کا بھی موقع دیا کریں کیونکہ ان کے ہاں مرد و عورت کہ نماز میں کوئی فرق نہیں 

اگر مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے تو۔۔

1۔ غیر مقلد عورت اذان کیوں نہیں دیتی ؟

2۔غیر مقلد عورت اقامت کیوں نہیں دیتی ؟

3۔غیر مقلد عورت ٹانگیں چوڑی کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتی ؟

4۔غیر مقلد عورت آمین بالجہر کیوں نہیں کہتی ؟

5۔نیز بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت رات مسجد میں گزارا کرتی تھی۔ ان کی عورتیں رات مسجد میں نہیں گزارتی ہیں؟

6۔ غیر مقلد عورت ، غیر مقلد مرد کی امام کیوں نہیں بن سکتی ؟

7۔غیر مقلد عورت جمعہ و عیدین کا خطبہ کیوں نہیں سے سکتی ؟ 

8۔غیر مقلد عورت تراویح میں مردوں کو قرآن کیوں نہین سناتی ؟

9۔غیر مقلد عورت پر ننگے سر نماز کیوں نہین پڑھتی ؟ جب کہ آپ کے ہاں مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں

10۔اگر کوئی غیر مقلد عورت یا مرد قرات بھول جائے تو غیر مقلد مقتدی عورت مصحف میں دیکھ کر لقمہ کیسے دے گی جب کہ اس کے دونوں ہاتھ میں مصحف ہو گا ۔ بالفرض ایک ہاتھ میں بھی ہو تو ایک ہاتھ سے مصحف پکڑے ہوئے ہاتھ پر تالی کیسے بجائے گی ؟

ہماری جوابی تعاقب ، امن پوری صاحب کے پورے مضمون پر محیط نہیں۔ کیونکہ امن پوری صاحب کی بہت سی فضول باتوں کا جواب پہلے سے موجود ہے ۔( مثلا امام حارثی کی توثیق الاجماع شمارہ میں موجود ہے۔) مزید یہ کہ بہت سی باتوں کا جواب آئندہ ضمنی تحاریر میں آئے گا۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...