نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قبر سے دستگیری (امداد المشتاق کی ایک عبارت پر اہل بدعت کا اعتراض اور اس کا جواب )

 

 قبر سے دستگیری

(امداد المشتاق کی ایک عبارت پر اہل بدعت کا اعتراض اور اس کا جواب )

مولانا عبد الرحمٰن عابد صاحب حفظہ اللہ                           (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)

آج کل سوشل میڈیا اور واٹس اپ گروپس پر رضاخانی ایک عبارت پیش کررہے ہیں جو کچھ یوں ہے :

”حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا بعد انتقال حضرت مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کومحتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائے حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنےیا آدھ آنہ روز ملا کرے گا ‘‘۔

(امداد المشتاق صفحہ: ۱۲۳)

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رضاخانیوں نے لکھا:

’’جناب اشرفعلی تھانوی صاحب نے یہ جو کچھ لکھا ہے کہبعد انتقال حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان ہوں اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیے  یہ حق،سچ،ایمان ہے یا کفر،شرک،بدعت ہے اور سوال یہ ہے کہ قبر والے سے یہ کہنا کہ  بہت پریشان ہوں اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیےیہ ما تحت الاسباب ہے یا مافوق الاسباب اگر ما تحت الاسباب ہے تو کوئی اور بھی مانگ سکتا ہے یا صرف دیوبندیوں کو اس کی اجازت ہے اور اگر مافوق الاسباب ہے تو شرک ہوا یا نہیں؟‘‘

          غیر مقلدین جو اسی تاک میں لگے رہتے ہیں کہ بریلویہ کی طرف سے کوئی حوالہ یا اعتراض ہمیں ملے تاکہ ہم دونوں بھائی اہل حق کے خلاف شانہ بشانہ کام کریں وہ بھی اس حوالے پر معترض ہیں لہذا ہم دونوں کو سامنے رکھ کر جواب دیں گے۔

جواب :اس اعتراض کو سمجھنے کیلئے پہلے مسئلہ استمداد کو سمجھنا ضروری ہے چنانچہ ہم سب سے پہلے مسئلہ استمداد من غیر اللّٰہ کی وضاحت پیش کرتے ہیں ۔

 مسئلہ استمداد من غیر اللہ کی وضاحت

          اہل السنت والجماعت علماء دیوبند (نوراللہ وجوہھم یوم القیامۃ ) کے نزدیک دلائل کی روشنی میں ندا ء اور استعانت میں تفصیل اور تقسیم ہے ۔نہ نداء  واستعانت تمام کی تمام بالکلیہ جائز ہے اور نہ مطلقاً شرک ہے بلکہ اس میں تقسیم ہے جس کی تفصیل حاضر خدمت ہے ۔ بتوفیق اللہ تعالیٰ وعونہ

بحث اول :  استعانت من غیر اللہ کے بارے میں کریں گے ۔

استمداد من غیراللہ آٹھ قسم پر ہے :

 قسماو ل:  اللہ تعالیٰ کے علاوہ (نبی ،ولی ،پیر ،بُت و دیگر غیراللہ) کو مستقل اور قادر بالذّات سمجھنا  اور ان سے مدد مانگنا۔

حکم :  ایسی مدد مانگنا صریح شرک ہے ،ایسا شرک جس کی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اور عموماً مدّعیانِ اسلام میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے صرف وثنیہ (بت پرست ) اس کے قائل ہیں کہ وہ وجود باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ دوسری مخلوقات کو بھی قادر بالذّات سمجھتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں ۔العیاذباللہ

قسم دوم :  غیراللہ (مستعان منہ ،جس سے مدد مانگی جاتی ہے )کو تو قادر بالذَّات نہیں سمجھتے ہیں ۔لیکن قادر بالعطاء سمجھتے ہیں ۔ لیکن ان کا عقیدہ ایسا ہوتا ہے کہ اس بندے(نبی یا ولی ودیگر مخلوق ) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قدرت دی ہے جس کے بعد یہ مستقل اور خود مختاربن گیاہے کہ اب جو بھی چاہتاہے اور جب بھی چاہتاہے اور جس کے حق میں بھی چاہتاہے وہ کرسکتاہے ۔

حکم :  استعانت کی یہ صورت بھی شرک ہے اورمنصوصی(قرآن کی رُو سے) شرک ہے ۔ مشرکین مکہ کا بھی یہی قصور تھا ۔ کیوں کہ وہ اپنے معبودوں کو قادر بالذات نہیں کہتے تھے بلکہ ان کو متصرف باِذن اللہ سمجھتے تھے ۔ لیکن ان کا خیال یہ ہوتاتھا کہ ان بتوں کو تو اب ویسے بھی اختیارات حاصل ہوگۓ ہیں ،وہ اب جس کے لئے اور جب بھی چاہیں مدد کرسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکین زمانہ جاہلیت میں ایسی تلبیہ پڑھتے تھے۔

’’ لبیک اللھم لبیک لاشریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وماملک ‘‘

’’ ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں ۔ آپ کا کوئی بھی شریک نہیں ہے لیکن وہ (شریک ) ہے کہ جو آپ کا (شریک) ہے ۔ آپ ان کے اور ان کے تمام مملوکات کے مالک ہو“ ۔

اگر قرآن کی طرف رجوع کی جائے وہاں بھی ہمیں تصریح ملتی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو قادر بالذات نہیں سمجھتے تھے :  (هؤُلاءِ شُفعاؤُنا عِنْد اللّہ.ما نعْبُدُهُمْ إِلاّ لِيُقّربُونا إِلى اللہ زُلْفى)

’’ وہ کہتے تھے کہ یہ (اصنام ) اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہوں گے ۔ ہم ان کی عبادت صرف اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچائے ۔ “

الغرض:  ایسا عقیدہ بھی شرکیہ عقیدہ ہے اور افسوس کی بات ہے کہ آج کل بعض جہلاء  مدّعیانِ اسلام نے بھی یہ عقیدہ اپنایا ہوا ہے ۔ اللھم احفظنا منہ آمین

میری مراد  بریلوی طبقہ (واخواتهم) ہے

قسم سوم :  زندہ آدمی سے امورِ عادیہ میں مدد مانگنا ، کہ وہ فعل عادۃً  انسان کا فعل شمار ہوتاہے ۔یہ مستعان منہ محض ذریعہ اورآلہ بن جاتاہے اور حاجت روا  اور مشکل کشا فقط اللہ تعالیٰ کو ہی سمجھا جاتا ہو ۔

مثلاً:  میں نے زید سے کہا کہ مجھے پانی دیدو ، یا مثلاً میری فلاں مدد کرو ، یا جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زندہ دوستوں سے امورِ عادیہ مدد مانگی تھی کہ :( منْ أنْصارِي إِلى اللّہ قال الْحواريُّون نحْنُ أنْصارُ اللہ)

(سورة ال عمران آیت۵۲)

اسی طرح دوسری جگہ میں ذوالقرنین کے بارے میں آتاہے کہ اس نے اپنے زندہ ساتھیوں سے امورِ عادیہ میں مدد مانگی تھی کہ:( فأعِينُونِي بقُوَّةٍ)(سورة الکہف:۹۵) میرے ساتھ اپنی قوت میں مدد کرو ۔

ایسے بہت زیادہ دلائل اور شواہد موجود ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ نے مدد مانگی ہے ۔ اس سے یہی قسم مراد ہے ۔ اور اس کو ماتحت الاسباب استمداد کہتے ہیں 

حکم :  یہ قسم بالاتفاق جائز ہے ۔

نوٹ:    ہم اہل السنّۃ والجماعۃ جس طرح تفریط ( کمی ) کے قائل نہیں ہیں اسی طرح افراط (زیادتی ) کے بھی قائل نہیں ہیں ۔ بالفاظ دیگر جس طرح بدعت کے قائل نہیں ہیں اسی طرح الحاد کے بھی قائل نہیں ہیں ۔

قسم چہارم :  زندہ آدمی سے امورِ غیرعادیہ میں امداد طلب کرنا کہ وہ عادۃً  اور شرعاً  انسان کی قدرت سے باہر ہو اور انسان کا فعل بھی شمار نہیں ہوتاہو ۔ مثلاً   اے مرشد اے پیر مجھے بچہ دیدو وغیرہ ۔

حکم :  (استعانت من غیراللہ ) کی یہ قسم بھی ناجائز ہے ۔البتہ کرامت اور اعجاز (معجزہ ) اس سے مستثنیٰ ہے۔

 قسم پنجم:  نبی یاولی کی وفات کے بعد امور غیرِعادیہ یاان امورِ عادیہ کہ جس میں انسان کی موت کے ساتھ اس کی قدرت اورطاقت ختم ہوجاتی ہے میں مدد مانگنا۔مثلاً (امور غیرِعادیہ کی مثال ) اے مرشداے پیر مجھے اولاد عطا کر۔  (ان امور عادیہ کی مثال جس کی موت کی وجہ سے طاقت وقوت ختم ہوجاتی ہے ) اے فلاں میری فلاں مقدمہ ختم کرو ۔

حکم :  یہ بھی ناجائزہے ۔ الا یہ کہ یہ بطریق توسل و دعا ہو۔

قسم ششم : کسی نبی یاولی سے بعد از وفات روحانی فیض حاصل کرنے میں مدد طلب حاصل کرنا ۔

حکم : یہ قسم جائز ہے ۔

تنبیہ :  روحانی فیض سے بریلویوں قبرپرستوں جیساحصولِ فیض مراد نہیں ہے کہ روح مدد کرتی ہے العیاذباللہ ۔ بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر جائز صورت میں مرادہے۔یعنی اس سے مراد فیضِ قبور ہے ۔(تفصیل کیلئے کتاب توضیح عبارا ت اکابر کا مطالعہ کریں)۔

قسم ہفتم :  اُمورِ عادیہ اور غیرِعادیہ میں زندہ یا وفات شدہ کے توسل اور برکت کی مددسے اللہ تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنا ۔

حکم : یہ قسم جائز ہے اس کو مجازاً مدد کہا گیا ہے حقیقت میں توسل ہے اور مدد اللہ سے مانگنی ہے ۔

تنبیہ:  اس قسم میں استشفاع بھی داخل ہے ۔

 قسم ہشتم :  ایک نبی یا ولی ایک خاص وقت میں بطور اعجاز وکرامت کہہ دیں کہ مانگو کیا مانگتے ہو ۔ اس خاص وقت میں سائل اس سے امور عادیہ اورغیرعادیہ میں کوئی مطالبہ کرے اور مدد مانگے ۔

حکم: یہ جائز ہے ۔

          ایک تو اس میں استمرار نہیں ہے کیونکہ یہ کرامت ہے اور کرامت میں استمرار نہیں ہوتاہے ۔ اوردوسرا یہ کہ یہ بندہ کا فعل نہیں ہوتاہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے ۔ کیونکہ کرامت اور معجزہ بندہ کا فعل نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتاہے جو بندہ کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتاہے ۔(کما مرّ تفصیلہ) اس میں طاقتِ بشریہ کو دخل نہیں ہے۔اس وجہ سے یہ خلافِ قانون ہے اور خلاف قانون میں استمرار اوردوام نہیں ہوتاہے ۔

خلاصہ:  یہ کل آٹھ قسمیں ہوئیں جس میں چار قسم جائز اور چار ناجائز ہیں ۔

           مذکورتقسیم کو آسان الفاظوں میں یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ وه مدد جو مافوق لااسباب ہو تو ناجائز اور جو ماتحت الاسباب ہو تو وه جائز ہوگا۔. تو جو جواز کی قسم ہو وه ماتحت الاسباب میں داخل ہوگا اور باقی مافوق لاسباب میں ہوگا۔

خلاصہ:  اس تمام بحث کا یہ خلاصہ نکلا کہ نہ ہم مطلقا استمداد کی اجازت دیتے ہیں ۔اور نہ مطلقاً نداء جائز سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس میں بین بین (مبنی بر اعتدال ) انصاف کے ساتھ اپنے اپنے وصف کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر نہ افراط سے کا م لیتے ہیں اور نہ تفریط سے بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں ۔ یعنی ہم اس نداء اوراستعانت سے لوگوں کو منع کرتے ہیں کہ وہ امور غیرعادیہ میں مطلقاً (میتاوحیّا ) اور ان امور ِعادیہ میں استعانت (مددمانگنا) جو اس کی قدرت کے باہر ہو یا کسی مخلوق کو قادر بالذات یا قادر بالعطاء سمجھتے ہوئے پھر اسے مستقل اور خود مختار بنادے ۔ ایسی استعانات ہم بدلائل نہیں مانتے ہیں ۔ اوروہ نداء  و استعانت جو انسان کی قدرت میں ہو اور ماتحت الاسباب ہو ایسی ندا اور استعانت کو ہم مانتے ہیں ۔ فللّٰہ الحمد ۔ اور اکابرین دیوبند رحمہم اللہ تعالیٰ کے بھی یہی نظریات ہیں کہ استعانتِ محرّمہ کے قائل ہیں اور نہ بالکلیہ استعانت کے منکرین ہیں ۔     بالفاظ دیگر نہ غیرمقلدین خوش ہوں کہ ہم نے علماء دیوبند کی کتب میں استعانت کے الفاظ پائے ہیں فلہٰذا ہم اپنی تکفیری مشن میں کامیاب ہوئے،  نہیں بلکہ یہ ان (غیرمقلدین ) کی غلط فہمی ہے ۔ ہم (علماء دیوبند ) ہر گز ہرگز استعانتِ محرّمہ کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم تو اس کو صریح شرک اور ناجائز کہتے ہیں ۔

اور نہ بریلوی حضرات خوش ہوں کہ گویا ہماری شرکیہ عقائد علماء دیوبند کی کتب سے بھی ثابت ہیں ، نہیں ہرگز نہیں  بلکہ ہمارے نزدیک اس میں تفصیل ہے جو پہلے گزرچکی ہے ۔ تو بریلویوں اور علماءِ حقہ کے عقائد میں آسمان اور زمین کا فرق ہے ۔لیکن ناسمجھ اور قلتِ عقل والے غیرمقلدین اور بریلوی اس فرق سے یاتو جاہل ہیں یا متجاہل ہیں۔

اکابرین علماء دیوبند سے وضاحت

          خود اکابرین دیوبند رحمہم اللہ تعالیٰ سے بھی ملاحظہ فرمائیں کہ علماء دیوبند (رحمہم اللہ ) نہ تو استعانتِ فاسدہ کے قائل ہیں اور نہ مطلقاً استعانت کو شرک وناجائز کہتے ہیں ۔ مثلاً

          حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ استعانت کی ایسی اقسام بیان کرتے ہیں کہ :

(۱) ... استعانت واستمداد بالمخلوق جو باعتقاد علم وقدرت مستقل مستمد منہ ہو وہ شرک ہے ۔

(۲) ...اور جو باعتقاد علم وقدرت غیرمستقل ہو مگر وہ علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت نہ ہو معصیت ہے ۔

(۳) ...اور جو باعتقاد علم وقدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائز ہے خواہ وہ مستمد منہ زندہ ہو یامیت ۔

(۴) ...اور جو استمداد بلا اعتقاد علم وقدرت ہو نہ مستقل نہ غیرمستقل پس اگر طریق استمداد مفید ہو تب بھی جائز ہے جیسے استمداد بالنار والماء والواقعات التاریخیہ

(۵)...  وگرنہ لغو ہے ۔       

(امداد الفتاویٰ : ۵/ ۳۳۵ )

تو معلوم ہوا کہ حضرت تھانوی ؒ نہ تو مطلقاً استمداد کے شرک کے قائل ہیں اور نہ مطلقاً جواز کے قائل ہیں ۔

           مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ بھی اس کے بارے میں تقسیم کے قائل ہیں ، غیرمقلدین اور انکے بھائی بریلوی حضرات مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ کا عقیدہ بھی ملاحظہ فرمائیں وہ فرماتے ہیں کہ :

 استعانت کی تین معنیٰ ہیں :

(۱) ... حق تعالیٰ سے دعا کرے کہ بحرمتِ فلاں میرا کام کردے یہ بالاتفاق جائز ہے خواہ عندا لقبر ہو خوا ہ دوسری جگہ اس میں کسی کا کلام نہیں ۔

(۲) ...صاحب قبر کو کہے کہ تم میرا کا م کردو یہ شرک ہے ...

(۳) ... قبر کے پاس جاکر کہے کہ اے فلاں تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالیٰ میرا کا م کردے اس میں علماء کا اختلاف ہے ،مجوّزین سماع موتی اس کے جواز کے قائل ہیں ... الخ ۔

 (فتاویٰ رشیدیہ )

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں :

 ’’ ندا ء غیراللہ کو کرنا دور سے شرکِ حقیقی تب ہوتا ہے کہ ان کو عالم ِسماع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں ، مثلاً یہ جانے کہ حق تعالیٰ اس کو مطلع فرمادے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچادیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یامحض شوقیہ کہتاہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر وحرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگر چہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اً سماع ہوتا ہے نہ عقیدۃً ، پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کی ہوتی ہے کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت مگر ہاں بوجہ موہم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہ ایہام بھی ہے “۔

 (فتاویٰ رشیدیہ،صفحہ: ۱۸۲ )

ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں کہ:

 ” جب انبیاء علیہم السلام کو علمِ غیب نہیں تو یارسول اللہ کہنا بھی ناجائز ہوگا اگر یہ عقیدہ کرکے کہے کہ وہ دور سے سنتے ہیں بسببِ علمِ غیب کی تو خود کفر ہے اور جو یہ عقیدہ نہیں تو کفر نہیں مگر مشابہ کفر ہے ....“ 

(ایضاً ص: ۲۰۳ و ۲۰۴ ، مکاتیب رشیدیہ ص:۷۲)

اسی طرح ایک جگہ پر حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ ایک قول ذکر کرتے ہیں کہ:

”سو اشعار ومدح میں جو نداء خطاب پڑھا جاتا ہے اگر ذات فخرِ عالم کو حاضر وناظر بالذات کوئی عقیدہ کرے تو وہ مشرک ہوتا ہے اور اگر یہ عقیدہ نہیں بلکہ محض محبت میں کہتا ہے یا بوجہ اس کی کہ اگر ضمن صلوۃ  و سلام میں ہے تو ملائک آپﷺ تک پہنچا دیں گے اور جو بدون اس کی ہے وقت غرض ِاعمال کی پیش ہوجاوے گا تو جائز ہے مگر چوں کہ اس مجمع میں جہّال، سفہاء  اور اہلِ بدعت کہ تمام اولیاء تک کی نسبت ان کا عقیدہ عالمِ بالذات ہونے اور متصرف بالذات ہونے کا ہے موجود هوتے ہیں تو بصورت ندا ء خطاب کے ان کے عقائدکا افساد اور ان کی بدعت وشرک کی تائید ہوتی ہے تو در صورتیکہ یہ امر مظنون بلکہ بحکم یقین ہے تو در صورۃِ ثانیہ خطاب شرک نہیں مگر توہّم شرک اور سببِ فتنہ وفساد کا ہے .... الخ ۔

 ( البراہین القاطعہ ، ص:۲۷)

          اسی طرح تقسیمات شیخ الاسلام محدّث دوران مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے بھی” الارشاد فی مسئلۃ الاستمداد “ میں مفصّلا ومحققاً بحث کی ہے ۔

          ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند منا ظرِ وقت فقیہ العصر مولانا حسن چاندپوری رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً نے بھی اس کے متعلق مفصّل ومدلل اور منقح بحث کیا ہے ، دیکھئے :”سبیل السداد فی مسئلۃ الاستمداد“ مشمولہ رسائل چاندپوری جلد دوم )

          اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد اب سمجھیں کہ امداد المشتاق کا واقعہ استعانت کی قسم نمبر ۷ میں آتا ہے اور فتاوی رشیدیہ کی قسم نمبر ۳ میں ۔

یہ ممکن ہے کہ اس مرید کو کشف قبور ہوا ہو اور کشف قبور ثابت ہے ۔جیسا کہ مفسر ابن کثیر ؒ نے ابن عساکر ؒ کے حوالہ سے سورۃ الاعراف آیت نمبر ۲۰۱ کی تفسیر میں حضرت عمرکا واقعہ ذکر کیا ہے کہ :

           حضرت عمر کے زمانہ میں ایک نوجوان مسجد میں کثرت سے عبادت کرتے تھے، ایک عورت نے اس نوجوان کو دیکھا اور اس پر عاشق ہوگئی ،اس جوان کو اپنی نفس کی خواہش پورا کرنے کے لئے بلایا ، اور ہمیشہ اس کو دھوکہ کرنے کی ترکیب کرتے یہاں تک کہ اس جوان کو اپنے گھر لانے کے قریب کردیالیکن اس کے ذہن میں قرآن کریم کی یہ آیت آئی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ: (ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذا ھم مبصرون )  اور بے ہوش ہوگئے ،اور جب پھر اس آیت کی تلاوت کی تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس جوان کی روح پرواز کر گئی ،تو حضرت عمر اس جوان کی تعزیت کے لئے اس کے والد کے پاس تشریف لے گئے ،چونکہ اس جوان کو رات کے وقت ہی دفن کردیاتھا ،اور حضرت عمر نے اس جوان کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی ،اور حضرت عمر اس جوان کی قبر پرحاضر ہوئے اور آواز لگائی کہ :

ثمَّ ناداهُ عُمرُ فقال: یا فتى ولِمنْ خاف مقام ربّہ جنَّتانِ  فأجابہ الْفتى مِنْ داخل الْقبْرِ: یا عُمرُ قدْ أعْطانِيهِما ربِّي عزَّ وَجلَّ فِي الْجنَّةِ مرَّتيْن‘‘

ترجمہ: عمر  اس جوان کے قبر کے پاس آیا اور صاحب قبر (میت) سے مخاطب ہوا کہ : اے جوان ...! جواللہ تعالیٰ کے مقام سے ڈرتاہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے لئے دو جنت ہیں ،تو (قبر سے اس میت ) جوان نے جواب دیا کہ : اے عمر: یقیناًاللہ تعالیٰ نے مجھے دونو ں جنت دئے ۔اس واقعہ کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں :

’’ وقدْ ذكرَ الْحافِظُ ابْنُ عساكرَ فِي ترْجمةِ عمْرِو بْن جامِع مِنْ تاريخِہ أَنَّ شابًّا كان يَتعبَّدُ فِي الْمسْجِدِ، فهويتْہ امْرأةٌ فدعته إلى نفسها، فما زالتْ بہ حتَّى كاد يَدْخُلُ معھا الْمنْزل، فذكر هذِهِ الْآيَة إِنَّ الّذِين اتَّقوْا إِذا مسَّهُمْ طائِفٌ مِن الشَّيْطان تذکرُوا فإِذا هُمْ مُبْصِرُون فخرَّ مغْشِيًّا عليْہ، ثُمَّ أفاق فأَعادھا، فمات، فجاء عُمرُ فعزَّى فيہ أباهُ، وكان قدْ دُفن ليْلا فذھب فصلى على قبْرِهِ بمنْ معہ، ثُمَّ ناداهُ عُمرُ فقال: يَا فتى ولِمنْ خاف مقام ربّہ جنَّتانِ فأجابہ الْفتى مِنْ دَاخِلِ الْقبْرِ: يَا عُمرُ قدْ أَعْطَانِيهِما رَبّي عزَّ وجلَّ فِي الْجنَّةِ مرَّتيْنِ.  [تفسیرابن،کثیر:۳/۵۳۴]

نوٹ: یہ واقعہ مندرجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے : تاریخ ابن عساکر ۳/ ۴۱۱،مختصر تاریخ دمشق لابن منظور : ۱۹/۱۹۰، روضۃ المحبین لابن القیم :صفحہ: ۳۱۷۔)

دیکھئے... عؓمر  کا قبروالے سے بات کرنا کشف قبور نہیں ہے ...؟ معلوم ہوا کہ اس طرح کی واقعات ثابت ہیں ،لیکن ہر وقت ہر کسی کے لئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے ناجائز مدد طلب کرنا ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے ۔

حافظ ابن تیمیہ ؒ اور کشف قبور

حافظ ابن تیمیہ ؒ الحنبلی (المتوفیٰ :۷۲۸ ھ ) فرماتے ہیں کہ :

وقدْانْكشف لِكثِيرِ مِنْ النَّاس ذلك حتَّى سمِعُوا صوْت الْمُعذّبِين فِي قُبُورِهِمْ ورأَوْهُمْ بِعُيُونِهِمْ يُعَذّبُون فِي قُبُورِهِمْ فِي آثار کثِيرةٍ معْرُوفۃ

                                                                        (فتاویٰ ابن تیمیہ :۴/ ۲۹۶)

زیادہ لوگوں پر قبر کے حالات منکشف ہوتے ہیں ،یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کی آوازیں سنتے ہیں جن کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے ،اور اس سلسلہ میں بہت سے واقعات موجود اور مشہور ہیں ۔

حافظ ابن القیم الحنبلی اور احوالِ قبور

غیرمقلدین کاممدوح شیخ الاسلام حافظ ابن القیم (المتوفیٰ : ۷۵۱ ھ)حضرت مطرف تابعی ؒ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دن وہ اپنے علاقے کے قبرستان تشریف لے گئے:

 فرأى أهْل الْقُبُور كلَّ صاحب قبْر جالِسا على قبْرهِ، فقالُوا: هذا مُطرّفٌ يأْتِي الْجُمْعۃ قُلْتُ وتعْلمُوْن عِنْدكمْ يوْمَ الْجُمُعة قالوا: نعمْ، ونعْلمُ ما يقُولُ فِيہ الطَّيْرُ. قُلْتُ: وما يَقولون؟ قالوا يقولون سلام سلام

 (کتاب الروح : ص: ۲۲و۲۳،المکتبة الحقانیه پشاور پاکستان)

ترجمہ:  آپ نے قبر والےکو دیکھا کہ ہر قبر  والا اپنی قبر پر بیٹھاہےسب نے انھیں دیکھ کر کها:لو یہ مطرف ؒہیں  جو ہر جمعہ کو (ہمارے پاس ) آتا ہے ،تو میں نے ان کو کہا کہ کیا تمہیں بھی جمعہ کے دن خبر رہتی ہے ، تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں ،بلکہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چڑیاں اس دن کیا کہتے ہیں ،تو میں نے کہا کہ وہ کیا کہتے ہیں ،تو انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کہتے ہیں کہ: سلام سلام ۔

ملاحظہ: غیرمقلدین ابن القیم ؒ کو تارک التقلید اور سرخیلِ اہل حدیث کہتے ہیں ۔(دیکھے مقالات الحدیث ، ص:۴۳۱ ۔ فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ : ۱/ ۲۶۳ )

اور اس کتا ب کے متعلق زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں کہ: ”ابن القیم کی ثابت شدہ کتاب الروح ....“ (توضیح الاحکام : ۱/ ۱۱۹ )

نیز... یہ حوالہ مشہور مفسر ابن کثیر(المتوفّی:۷۷۴ھ)نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کی ہے (دیکھے: سورة الروم آیت نمبر۵۳،ناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع، المحقق: سامي بن محمد سلامة)

          بہرحال امداد المشتاق کا مذکورہ بالا واقعہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس جولاہے کو اس وقت کشف قبور ہوگیا ہو اور ہم چونکہ قبر میں حیات بھی مانتے ہیں اور اکثرسماع کے بھی قائل ہیں تو اس شخص نے بطور توسل اور دعا اپنے پیر سے کہہ دیا ہوگا کہ یہ مشکل ہے ۔پیر صاحب نے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی ہوگی اور اللہ نے کرامۃ اس مزار سے اس کرامت کا ظہور کردیا مگر عقیدہ اور کرامت میں فرق ہے۔

عقیدے اور کرامت میں چند فروق

(۱)... عقیدہ دائمی ہوتی ہے اور کرامت عارضی اور غیر دائمی ہوتی ہے ۔

(۲)... عقیدہ اختیاری چیز ہے اور کرامت وکشف ولی کے اختیار میں نہیں ہوتاہے،

(۳)... کرامت سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے جبکہ عقیده تو احکام کا منبع ہے

(۴)... کرامت کسی اور پر حجت نہیں ہوتا جبکہ عقیده سب کیلئے  یکساں ہے

(۵)... کرامت ایک ظنی چیز سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جبکہ عقیده کے لئے مضبوط دلیل درکار ہوتی ہے

 وغیرہ وغیرہ ۔

          اب بریلوی حضرات کو ہم مشرک اس لئے کہتے ہیں کہ وہ قبر والے کو مستقل بطعا قادر مانتا ہے اور مافوق

 الاسباب اس مردے ہی سے مانگتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ مجھے ملا اس مردے کے اختیار سے ملا اور یہ اس پر قادر تھا اس کو بطور عقیدہ اپناتا ہے یہ شرک ہے ۔

          جبکہ علمائے احناف دیوبند اہل قبور سے بطور توسل مجازی اور صوری استعانت کے قائل ہیں( نہ کہ حقیقی استعانت) وہ اہل قبور کو مافوق الاسباب میں قادر بھی نہیں مانتے اور اگر توسل کی صورت میں ایسا کچھ ظاہر ہوا تو اسے کرامت مانتے ہیں اور کرامت و معجزہ درحقیقت اللہ ہی کا فعل ہے گویا اس صورت میں اہل قبر نے کوئی مدد نہیں کی بلکہ مدد اللہ ہی نے کی یہ گویا واسطہ بن گیا۔

   تو علماء احناف جس نظریہ کی تردید کرتے ہے وہ عقیدۃً اور دائماً تسلیم کرنے والے نظریہ کی تردید ہے ،اور اس عقیدہ کی تردید کرامت (عارضی اور خرق عادت) کی نفی کو مستلزم نہیں ہے ۔

معترض کے سوالات کے جوابات

سوال نمبر ۱:جناب اشرفعلی تھانوی صاحب نے یہ جو کچھ لکھا ہے کہ بعد انتقال حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان ہوں اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیے  یہ حق،سچ،ایمان ہے یا کفر،شرک،بدعت ہے

جواب : حق سچ ہے ۔الحمد للہ۔

سوال نمبر۲: اور سوال یہ ہے کہ قبر والے سے یہ کہنا کہ  بہت پریشان ہوں اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیےیہ ما تحت الاسباب ہے یا مافوق الاسباب اگر ما تحت الاسباب ہے تو کوئی اور بھی مانگ سکتا ہے یا صرف دیوبندیوں کو اس کی اجازت ہے اور اگر مافوق الاسباب ہے تو شرک ہوا یا نہیں؟

جواب : یہ سب ماتحت الاسباب ہیں اس لئے کہ روٹی تو باپ ،بھائی ،سیٹھ، بھی دے دیتا ہے ۔رزق اسباب سے مربوط ہے ۔کوئی اور سے مراد اگر عوام کالانعام خصوصاً بریلوی ہوں تو بالکل بھی نہیں مانگ سکتے کیونکہ وہ جب مانگے گیں تو اس عقیدے سے مانگے گے کہ یہ ولی مافوق الاسباب ہر طرح کا قادر مختار ہے اس لئے اس سے مانگو جو کہ صریح شرک ہے ۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...