اہل حدیث اورمسئلہ وحدۃ الوجود :مسئلہ وحدۃ الوجود کے عنوان پہ لکھی گئی مولانا عبد الرحمن عابد حفظہ اللہ( پشاور) کی کتاب نصرۃ المعبود پر تقریظ
مسئلہ
وحدۃ الوجود کے عنوان پہ لکھی گئی مولانا عبد الرحمن عابد حفظہ اللہ( پشاور) کی
کتاب
نصرۃ المعبود پر تقریظ
مفتی رب نوازحفظہ اللہ ، مدیر اعلیٰ مجلّہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
غیرمقلدین
کے حلقہ میں’’ امام العصر‘‘ سمجھے جانے والے بزرگ مولانا محمد اسماعیل سلفی (جمعیۃ
اہل حدیث پاکستان کے سابق ناظم) لکھتے ہیں:
’’علماء دیوبند کو ان کی علمی خدمات نے
اتنا ہی اونچا کردیاہے جتنا مناظرات نے ہم کو نیچا دکھایا اور ذہنی طور پر جماعت
کو قلاش کردیا۔‘‘
(نتائج التقلیدصفحہ: ق)
جب
غیرمقلدین مسلسل شکستوں کی وجہ سے ذہنی طور پر قلاش ہوئے تو علمائے دیوبند کے
عقائد پر مشق شروع کردی اور یہ دعویٰ ہانک دیا کہ ان کے عقائد صحیح نہیں۔
غیرمقلدین چوں کہ’’وحدۃ الوجود ‘‘ کو بھی عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں،اس لیے اسے
بھی نہ صرف تقریر و تحریر کی صورت میں زیر بحث لائے بلکہ فتوے بھی لگائے کہ علمائے
دیوبند وحدۃالوجود والا کفریہ عقیدہ رکھتے ہیں۔جب کہ ان کے علمائے سابقین میاں
نذیر حسین دہلوی اور ان کے شاگردوں میں شاید ہی کوئی مصنف ہوگا جو وحدۃ الوجود کو
کفر قرار دے کر قائل کو کافر کہتاہو۔ چوں کہ وہ لوگ وحدۃ الوجود کے خلاف موجودہ
آلِ غیرمقلدیت کی طرح شور و غوغا نہیں مچاتے تھے، اس لیے دفاع اور اقدام کے حوالے
سے علمائے دیوبند کوبھی اس عنوان سے لکھنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ حضرت مولانا
محمد امین اوکاڑوی رحمہ اللہ کے آخری دَور میں وحدۃ الوجود پہ غیرمقلدین کی طرف سے
کافی حد تک لے دے شروع ہو چکی تھی، اس لئے اوکاڑوی صاحب نے وحدۃ الوجود کی تشریح
بیان فرمائی اورنواب صدیق حسن خان غیرمقلد کی سوانح ’’ مآثر صدیقی :۴؍۳۹‘‘سے ایک
حوالہ تجلیات ِ صفدر میں نقل کیا جس میں درج ذیل باتیں ہیں:
وحدۃ الوجود کا مسئلہ دلائل پر مبنی ہے، وحدۃ
الوجود کو ضلالت و گمراہی نہیں کہہ سکتے، وحدۃ الوجود کو ضلالت و کفر قرار دینے سے
بہت سے علماء کرام اور مشائخ ِ عظام کی تضلیل و تکفیر لازم آتی ہے۔
غیرمقلدین
کی طرف سے تائیدی بات یا اُن کے وحدۃ الوجودی ہونے پر یہی اِک حوالہ پڑھنے کو ملتا
تھا۔
کہتے ہیں کہ ضرورت
ایجاد کی ماں ہے۔ بندہ نے ضرورت محسوس کی کہ جو لوگ وحدۃ الوجود کو کفرکہتے پھرتے
ہیں، پہلے اُن کی کتب کو دیکھ لیا جائے۔ جب اُن کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو ان میں
جگہ جگہ وحدۃ الوجود کا اثبات ملا اور وحدۃ الوجود کے حامی بزرگوں کی مدح سرائی
بھی پائی،اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے شیخ ابن عربی سمیت وحدۃ الوجود کے قائلین
کو اپنا ہم مسلک بھی لکھا ہوا تھا۔ بندہ نے اپنے حاصل مطالعہ کو ’’ مسئلہ وحدۃ
الوجود اور آل ِ غیرمقلدیت ‘‘ عنوان سے جمع کر دیا جو ماشاء اللہ قریباً دو
سوصفحات پر مشتمل ہے۔یہ کتاب الگ سے بھی دستیاب ہے اور اس کا کافی حصہ میری کتاب ’’
زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں شامل ہے۔ اس کتاب میں وحدۃ الوجود کے ایک بڑے مخالف
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلدکے متعدد مضامین کو متن میں رکھ کر حاشیہ میں جواب دیا۔
غیرمقلدین نہ صرف اس کتاب کے جواب سے عاجز ہیں بلکہ اَب حالت یہ ہے کہ وحدۃ الوجود
کے عنوان پر نہ تو وہ پہلے جیسا شور مچاتے ہیں اور نہ ہی اتنی مناظرانہ چیلنج بازی
کرتے ہیں۔
کچھ
مصنف ’’نصرۃ المعبود‘‘ کے بارے میں
اور اَب تو
ماشاء اللہ حضرت مولانا عبد الرحمن عابد حفظہ اللہ نے بھی اس عنوان پر مستقل کتاب
’’ نصرۃ المعبود فی مسئلۃ وحدۃ الوجود ‘‘ تحریر کردی جو عن قریب منظر عام پر آ رہی
ہے ان شاء اللہ ۔ اور یہ مشاہدہ ہے کہ جو کتاب بعد میں لکھی جائے اس میں نسبۃً
جامعیت زیادہ ہوتی ہے اور مندرجات بھی وافر۔کتاب کا تعارف کرانے سے پہلے کچھ باتیں
حضرت مصنف حفظہ اللہ کے متعلق عرض کر دینا مناسب ہوگا ان شاء اللہ ۔
مولانا عبد الرحمن عابد صاحب فرقوں خصوصا
ً غیرمقلدیت اور مماتیت پر بہت زیادہ مطالعہ رکھتے ہیں اور وہ ماشاء اللہ اپنے
حاصل مطالعہ کو شائع بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بہت سے مضامین مختلف رسائل: ترجمان
ِ احناف پشاور اور راہ ہدایت پشاور وغیرہ میں شائع ہو ئے اور متعدد کتابیں بھی
منظر عام پہ آ چکی ہیں۔ماشاء اللہ ان کے مضامین ہوں یا کتابیں علم و تحقیق سے
وابستہ لوگ بڑی دل چسپی سے پڑھتے ہیں اور میں خود بھی ان کی تحریروں سے استفادہ
کرتا رہتا ہوں۔مولانا صاحب کی کرم نوازی ہے کہ اُن کی جب بھی اردو زبان میں کوئی
کتاب شائع ہوتی ہے تو اِس کا ایک نسخہ ہدیۃ ً مجھے بھیج دیتے ہیں جزاہم اللہ۔ اُن
کی کتابیں: توضیحات عبارات اکابر .. . اور قھرالباری علی امین اللہ
البشاوری وغیرہ میری
لائبریری کی زینت بھی ہیں اورمیرے مطالعہ سے بھی گزریں۔
مولانا صاحب حفظہ اللہ علم کے حوالے سے
سخی ہیں جب انہیں کوئی نئے حوالے ملتے ہیں تو دوستوں کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔
کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے حاصل مطالعہ کی فہرست واٹس ایپ کے ذریعے
ساتھیوں کو بھیج دیتے ہیں۔
مناظرین
اور مصنفین کا اِک واٹس ایپ گروپ ہے اس میں جب کوئی ساتھی مشورہ طلب کرتا ہے یا
حوالہ مانگتا ہے تو حضرت مولانا صاحب اس کے ساتھ تعاون کردیتے ہیں ۔چوں کہ میں بھی
اس گروپ میں شامل ہوں اس لیے اُن کی علمی سخاوت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔
مولانا
صاحب ماشاء للہ علمی اعتبار سے ذی استعداد عالم ہیں، اس لیے کمال کے مدرس بھی
ہیں۔مطلب یہ کہ وہ صرف تصنیف یا مناظرہ کے میدان کے شہسوار نہیں بلکہ علم و تحقیق
کی دنیا میں اپنا اک منفرد مقام رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ مزید ترقی نصیب فرمائے ،
آمین۔
مولانا صاحب ماشاء اللہ مناظرانہ ذوق کے مالک
ہیں۔پشاور کے مشہور عالم ومفتی اور مناظر حضرت مولانا مفتی ندیم المحمودی صاحب
حفظہ اللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ،عموما ً ہر مناظرہ میں اُن کے ساتھ ہوتے
ہیں۔ مفتی صاحب کے کئی کامیاب مناظرے ریکارڈ کا حصہ ہیں جنہیں اہلِ ذوق سنتے رہتے
ہیں۔ اُن کے مناظرے عموما ً پشتو زبان میں ہیں مگر دل چسپی کا عالم یہ ہے کہ میں
غیرپشتو ہونے کے باوجود وہ مناظرے سنا کرتا ہوں۔
کچھ
’’ نصرۃ المعبود‘‘کتاب کے بارے میں
اَب آتے
ہیں حضرت مولانا عبد الرحمن عابد حفظہ اللہ کی کتاب ’’ نصرۃ المعبود فی مسئلۃ وحدۃ
الوجود ‘‘ کی جانب۔ ماشاء اللہ میں نے اس کتاب کے اکثر حصہ کا مطالعہ کیا ، مطالعہ
کرنے سے کتاب کی بابت جو تعارف حاصل ہوا، اسے یہاں درج کر دیتا ہوں وباللہ التوفیق
۔
مصنف حفظہ اللہ نے ’’ پیشِ لفظ ‘‘ کے تحت کتاب
لکھنے کی غرض تحریر کی کہ غیرمقلدین وحدۃ الوجود کو مدار بناکرچوں کہ عوام کو
علمائے دیوبند اور صوفیاعظام سے متنفر کر رہے تھے، اس لیے ضرورت تھی کہ وحدۃ
الوجود کی بابت وضاحت اور اصلیت بیان کرکے ازالۂ اوہام کیا جائے۔
علمائے دیوبند نے وحدۃ الوجود کی تشریح
یوں کی : اللہ تعالیٰ کے وجود کے مقابلہ میں مخلوق کے وجودکو کا لعدم سمجھنا ،جیسے
دن کے وقت بھی جگنو موجود ہوتا ہے اور اس میں روشنی والی صفت بھی قائم ہوتی ہے،
مگرروشنی نظر نہیں آتی۔اس کی روشنی سورج کی روشنی کے مقابلہ میں کالعدم ہوتی
ہے۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے وجود کے مقابلہ میں مخلوق کا وجود کالعدم کے درجہ میں
ہے۔ وحدۃُ الوجود کی اس تعریف کے مطابق نہ مخلوق کے وجود کی نفی ہے ، نہ خالق اور
مخلوق کو ایک باور کرایا گیا اور نہ اس میں کوئی شرعی اعتراض ہو سکتا ہے ۔
وحدۃ
الوجود سے الگ تھلگ دوچیزیں:حلول و اتحاد ہیں۔ حلول کا معنی کسی چیز میں حل ہوجانا
ہے جیسے دودھ میں چینی حل ہونے کے بعد اس کا وجود نہیں ہوتا بلکہ صرف دودھ ہی رہتا
ہے۔ اتحاد کا مطلب دو چیزوں کو اس طرح چپکا اور جوڑ دیا جائے کہ وہ دو کی بجائے
ایک ہی محسوس ہو جیسے ایک کاغذ کو دوسرے پہ چپکا کر دونوں کو ایک بنا دیا جائے۔ایک
عام انسان کو سمجھا دیا جائے تو وہ بھی جان لے گا کہ وحدۃالوجود اور چیز ہے اور
حلول و اتحاد چیزے دیگر است ۔لیکن افسوس کہ غیرمقلدین وحدۃالوجود کا مطلب حلول و
اتحاد بیان کرکے کہتے ہیں کہ وحدۃ الوجود کفریہ عقیدہ ہے ،لہذا اس کے قائلین
مسلمان نہیں۔ مصنف حفظہ اللہ نے کھول کر بیان کیا کہ غیرمقلدین کی طرف سے وحدۃ
الوجود پر حلول و اتحاد کی تعریف چسپاں کرنا غلط اور پھر اسے بنیاد بنا کر تکفیربازی
کرنا غلط در غلط ہے۔
مصنف نے
وحدۃ الوجود کی تعریف صوفیائے حق سے نقل کی،پھر علمائے دیوبند کی زبانی بھی درج
کی، جس سے ثابت کیا کہ صوفیائے حق اور علمائے دیوبند میں سے کوئی بھی حلول و
اتحادکا قائل نہیں بلکہ وہ اس کا رَد لکھ چکے ہیں۔
مصنف نے
وحدۃ الوجود کے اثبات پر غیرمقلدین کے کئی فتاوی اورحوالے نقل کئے۔ جن سے غرض
مخالفین کو جھنجھوڑنا ہے کہ اگر تم وحدۃ الوجود کو کفر بتاتے ہوتو اپنے ان
غیرمقلدین کی بابت کیا فتوی دو گے ؟ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ غیرمقلدین کے مشہور
مصنف مولاناعبد العزیز نور ستانی نے لکھا:
’’ وحدۃ الوجود یا توحید وجودی کی
تعبیرجو بھی ،جیسے بھی، جس بھی خوب صورت اور بہتر سے بہتر طریقے سے کرے وہ کفر اور
زندقہ ہی ہے ، باطل ہی باطل ہے چاہے جتنی بھی اس کی بہتر اور مختلف اندازسے
تعبیرکی جائے۔ ‘‘
( ڈاکٹر اسرار صاحب کانظریہ ٔ
توحید الوجودی اور اس کا شرعی حکم صفحہ : ۱۴)
مولانا
محمد رفیق اثری ، مولانا ارشاد الحق اثری اور حافظ محمد شریف وغیرہ آلِ غیرمقلدیت
نے اس فتوی کی
تصدیق و تائیدکر
رکھی ہے۔ اس فتوی کے پیش نظر غیرمقلدین اپنے فتوی تکفیر سے اپنے اُن بزرگوں کو
نہیں بچا سکتے جنہوں نے وحدۃ الوجود کے اثبات میں لکھا۔جب غیرمقلدین اپنے بزرگوں
پر وارد اعتراض کا جواب نہیں دے پاتے تو رٹا رٹایا جواب دہرا دیتے ہیں کہ ہمارے
نزدیک قرآن و حدیث حجت ہے، کسی کا عمل نہیں۔ حالاں کہ یہاں یہ بحث ہے ہی نہیں کہ
کس کی بات حجت ہے اور کس کی نہیں، بلکہ یہ مطالبہ ہے کہ جب آپ لوگوں کے نزدیک وحدۃ
الوجود کفریہ عقیدہ ہے تو اس کے قائل غیرمقلدین پر کفر کا فتوی لگائیں۔ کسی پر
فتوی لگاتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی بات حجت ہے یا نہیں؟بلکہ تضلیل و
تکفیر کا فتوی لگتا ہی اسی پرہے جس کی بات حجت نہیں ہوتی۔ لہذا اَب غیرمقلدین فتوی
لگانے کی ہمت کریں اور’’اُن کی بات حجت نہیں ‘‘والاجملہ دہرانا چھوڑ دیں۔یہ اپنے
بزرگوں پر وارد الزام کا جواب نہیں ، بلکہ جواب سے بے بسی کا اظہار ہے ۔
بعض غیرمقلدین نے شیخ ابن عربی کو وحدۃ الوجود
کا سب سے بڑا علمبردار کہہ کر اُن کے خلاف بہت کچھ لکھا ۔ مصنف حفظہ اللہ نے ابن
عربی کا دفاع پیش کیا، مزید یہ بھی بتایا کہ غیر مقلد بزرگوں کو ابن عربی کے ساتھ
بہت زیادہ عقیدت ہے ، انہوں نے ان کے دفاع میں تحریریں لکھیں اور زبان کوبھی
استعمال میں لائے۔ میاں نذیر حسین دہلوی نے تووحدۃ الوجود کے حامی بزرگ شیخ ابن
عربی کے مخالف کے ساتھ پندرہ دن تک مناظرہ جاری رکھا بالآخر مخالف کو ہم نوا بنا
ہی لیا۔ مزید یہ کہ مصنف نے متعدد غیرمقلدلکھاریوں کی عبارات نقل کیں جن میں
صراحۃً ابن عربی کو مخالفِ تقلید اور اہل حدیث بھی لکھ ہوا ہے ۔
مصنف حفظہ
اللہ نے وحدۃ الوجود کے اثبات میں ان شخصیات کی عبارات بھی نقل کیں جنہیں
غیرمقلدین بھی عموما ًمعزز و محترم سمجھتے ہیں مثلا ً: امام غزالی ،حضرت مجدد الف
ثانی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ ۔بلکہ اُن میں سے
بعض کے متعلق توغیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ وہ اہلِ حدیث تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ
اللہ اور خاص کر شاہ اسماعیل شہید کو تو کھلے عام اہلِ حدیث لکھ رکھا ہے ۔
مصنف حفظہ
اللہ نے شطحیات اور غلبہ حال کے متعلق بھی وضاحت کی کہ شطحیات قابل مؤاخذہ نہیں
اور غلبہ حال کی وجہ سے جو بات صادر ہووہ بھی عفو ہے۔ ایسی چیزیں نہ تو قابل
اقتداء ہوتی ہیں اور نہ قابلِ گرفت جیسا کہ خود بعض غیرمقلدین نے بھی اعتراف کیا
ہے۔مگر کیا کریں مخالف طبقہ شطحیات اور غلبہ حال والے پہلو سے صرف نظرکرکے اعتراض
کر چھوڑتا ہے جو کہ غلط ہے ۔
مصنف نے وحدۃ الوجود کے حوالہ سے غیرمقلدین کے
متضاد خیالات بھی نقل کئے ہیں۔ کچھ کے نزدیک وحدۃ الوجود کفر ہے اور جب کہ بعض اسے
نہ صرف صحیح سمجھتے ہیں بلکہ اس کے صحیح ہونے پر دلائل بھی دیتے ہیں۔
جس طرح ہر فن کی کچھ اپنی اصطلاح ہوتی
ہیں ،اسی طرح صوفیاء کی بھی اپنی اصطلاحات ہیں۔ اس لیے جس فن کا مسئلہ ہو اُس کی
وضاحت اور اصطلاحی تعریف اُسی فن کی کتابوں سے نقل کرنی چاہیے۔ لیکن غیرمقلدین بات
تو صوفیاء کی پیش کرتے ہیں مگر اُن کی بیان کردہ اصطلاح سے نظریں ہٹا کر اپنا من
پسند مطلب بیان کرکے اعتراض کر دیتے ہیں۔ مصنف حفظہ اللہ نے اس بات پہ روشنی ڈالی
ہے کہ صوفیاء کی بات پیش کرتے ہو تو اس کی وضاحت بھی صوفیا ء سے پیش کرو، صوفیاء
کی اصطلاح کے برعکس نہ تو لغت کا سہارا لیں اور نہ خود سے اس کا من پسند مطلب بیان
کریں۔
وحدۃ
الوجود کے اثبات پر اس سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھی گئیں،مگر اُن میں زیادہ تر بحث
صوفیانہ اقوال کے پیشِ نظر ہے ،مصنف حفظہ اللہ نے صوفیاء کے اقوال بھی درج کئے اور
غیرمقلدین کے اعتراضات کا بھی جواب دیا۔ بلکہ خود غیرمقلدین کا وحدۃ الوجودی ہونا
بھی نقل کیا۔اس لیے یہ کتاب اُن کے لیے بھی مفید ہوگی جو نفس وحدۃ الوجود جاننا
چاہتے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے بھی تحفہ ہے جو غیرمقلدین کے وساوس سے پریشان ہیں
۔ ہمیں اُمید ہے کہ یہ کتاب دونوں طبقوں کے لیے رہنما ثابت ہوگی بلکہ وحدۃ الوجود
کو کفر کہنے والے غیرمقلدین کو بھی سوچنے اور نظر ثانی کی دعوت دے گی ان شاء اللہ
۔
کتاب لکھنے
کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی حوالہ اصل کتاب کی بجائے کسی دوسری کتاب سے
لیا ہوتو بحوالہ فلاں لکھ دینا چاہیے۔ یہ دیانت داری بھی ہے اور اگر بالفرض وہ
حوالہ غلط ہو ثابت جائے تو غلطی ناقل کے سر نہیں لگے گی۔ اس کتاب میں بعض مقامات
پر ایسے حوالے نظر میں آئے جہاں مصنف نے بات نقل کرکے بحوالہ فلاں لکھ دیا ۔ ہمیں
اُن کا یہ طرز پسند آیا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف حفظہ اللہ کی
اس کاوش کو شرف قبولیت دے اور ہمیں اُن کے علوم سے مستفید ہونے کی توفیق دے، آمین۔
آخر میں اہلِ خیر کو متوجہ کرنا چاہوں گا کہ حضرت مولانا عبد الرحمن عابد حفظہ
اللہ جیسے محقق اور محنتی مصنفین کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کے سلسلہ میں تعاون
فرمائیں تاکہ ان کی علمی و تحقیقی کتب جلد سے جلد شائع ہوں اور لوگوں کے لیے اُن
سے استفادہ کی شکل بن سکے۔ اُمید ہے کہ صاحبِ ثروت لوگ اس کارِ
خیر میں ذوق و شوق
سے حصہ لیں گے ان شاء اللہ۔
رب نواز عفااللہ عنہ
مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور
شرقیہ
بروز منگل
... ۲۵ ؍ شوال ۱۴۴۴ھ ...مطابق ۱۶؍ مئی ۲۰۲۳ء
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں