مولانا محمد
اسماعیل سلفی غیرمقلد کی کتاب
’’مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر طائرانہ نظر
مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد کی
اس کتاب کا مقصود مماتیوں کے بزرگ مولانا سیدعنایت اللہ شاہ بخاری کی اس رائے کو
درست بتانا ہے جو انہوں نے جامعہ خیر المدارس ملتان کے جلسہ میں پیش کی تھی۔ اس
رائے کو درست بتاتے ہوئے نہ صرف علمائے دیوبند پرمہربانی فرمائی بلکہ محدثین :
امام بیہقی، حافظ ابن قیم، امام سیوطی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہم اللہ کے
موقف کو بھی غلط قرار دیا۔ان میں سے بعض کے متعلق کہا کہ وہ موضوع کو صاف نہیں کر
سکے اور نہ ہی ان کا اپنا ذہن صاف تھا، بعض کی بابت دعوی کیا وہ تعارض کو رفع نہیں
کر پائے، بعض کے بارے میں لکھا کہ ان کے نظریات سے قبرپرستوں کو مدد ملے گی اور ان
نظریات سے عوام کے پھسلنے کا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب کچھ آپ آئندہ اوراق میں
لفظ بہ لفظ پڑھیں گے ان شاء اللہ۔
یہ ساری کتاب اس
زعم کے گرد گھومتی ہے کہ دیوبندی دنیاوی حیات کے قائل ہیں اور یہ نظریہ غلط اور
بریلویوں والا ہے۔ حالاں کہ علمائے دیوبند کے ہاں اس حیات کو دنیاوی کہنے کا مطلب
یہ ہے کہ دنیا والا جسم ہی حیات سے فائز ہے ۔مگر سلفی صاحب دنیاوی سے وہ حیات مراد
لیتے رہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں گزار کر گئے۔ پھر اس کی
تردید میں خود کو مصروف کئے رکھا۔اس کتاب کے مختصر تعارف کے بعد اب ہم اس پر
طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ،وباللہ التوفیق ۔
حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی ابتداء عنایت
اللہ شاہ بخاری نے کی
کتاب
کی ابتداء میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی( غیرمقلد) کی ’’ تقریب ‘‘ ہے۔ اس
میں وہ لکھتے ہیں:
’’ اس افسوس ناک خلفشار کی ابتداء ایک تقریر سے ہوئی جو ایک
جید دیوبندی عالم، صاحب علم و عرفان مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری دام
مجدہ نے حنفیہ کرام ملتان کے ایک جلسہ میں فرمائی جس پرا ن کے رفقائے مذہب نے نہ
صرف یہ کہ اس وقت ہی ہنگامہ بپا کر دیا بلکہ بعد میں بھی فتویٰ بازی اور مضامین
سازی کی مہم چلا دی۔ حتی کہ خود مدرسہ دیوبند اور اس کے رسالہ ’’ دار العلوم ‘‘ نے
بھی اس میں کافی دلچسپی لی۔ ‘‘
( تقریب مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۷،
ناشر : المکتبۃ
السلفیہ لاہور )
بھوجیانی صاحب کے اعتراف کے مطابق
خلفشار کی ابتداء سید عنایت اللہ شاہ بخاری کی تقریر سے ہوئی۔ جب خلفشار ہوئی تو
علمائے دیوبند نے فورا اس کا تدارک فرمایا، یہاں تک کہ دیوبند کے مرکز سے بھی اس
کی تردید شائع ہوئی ۔ اس سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ بروقت اس خلفشار کا تعاقب
کیاگیا ، دوسرا یہ معلوم ہوا کہ دار العلوم دیوبند عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو ماننے والوں کا مرکز ہے ۔ جو لوگ حیات کا انکارکرکے خود کودیوبند کی طرف
منسوب کرتے ہیں انہیں اپنی نسبت پہ نظر ثانی کرنی چاہیے ۔
بھوجیانی صاحب مولاناعنایت اللہ شاہ
بخاری کو ’’ صاحب علم و عرفان ‘‘ باور کرا رہے ہیں۔ پہلے یہ بتایا جائے کہ بخاری
صاحب تمہارے ہاں مقلد ہیں یا غیرمقلد ؟ اگر مقلد ہیں تو تمہارے بقول تقلید جہالت
اور مقلد جاہل ہوتا ہے تو وہ مقلد ہو کر ’’ صاحب علم و عرفان ‘‘ کیسے بن گئے؟اگر
وہ آپ کے ہاں غیرمقلد ہیں تو انہیں دیوبند کے ایک فریق کے طور پرپیش نہ کریں بلکہ
غیرمقلد باور کرائیں۔
تنبیہ: مولانا عطاء اللہ حنیف
کا نظریہ ہے کہ انبیاء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور روضہ پر
پڑھے گئے درودکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں۔
( التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی :۱؍۲۳۷
بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۲۶۵)
عقیدہ ممات کے ’’مخالف ؍حیاتی ‘‘با اثر اور اہل علم
حضرات ہیں
مولانا محمد اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
’’ چوں کہ مخالفت با اثر اوراہلِ علم حضرات کی طرف سے تھی۔
اور یہ حضرات بھی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے اس کا اثر پاکستان
میں دوسرے مقامات پر بھی ہوا اور کوشش ہوئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ
کیا جائے۔ بلکہ اس کا اثر ہندوستان تک بھی پہنچا۔چنانچہ ماہ نامہ ’’ دار العلوم ‘‘
دیوبند میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اور ایک تعارفی نوٹ مولانا
سید انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات
النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۱۰)
سلفی صاحب نے ماشاء اللہ حیاتی
علماء کو ’’بااثر اور اہل ِ علم حضرات ‘‘تسلیم کیا ہے ۔
شیخ عبد الحق
محدث دہلوی عقیدہ حیات کے قائل تھے
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’متنازعہ فیہ مسئلہ میں مجلہ ’’ دار العلوم ‘‘ کے مضمون
نگار حضرات نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں حیاتِ دنیوی کی صراحت شیخ عبد الحق صاحب کے
بعد صرف اکابر دیوبند ہی نے فرمائی ہے ۔ ‘‘( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
صفحہ۱۶ )
سلفی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ۱۰۵۲ھ نے بھی مدارج النبوۃمیں
حیات ِدنیوی کا اعتراف کیا۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے سبکی رحمہ اللہ سے بھی اس قسم
کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ ‘‘
( مسئلہ حیات
النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۲۲)
غیرمقلدین کی کتابوں میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی بہت
زیادہ مدح سرائی مذکور ہے یہاں تک علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلدنے ’’ دو روشن
ستارے ‘‘ کتاب لکھی جس میں ایک روشن ستارہ حضرت مجدد الف ثانی کو باور کرایا جب کہ
دوسرا روشن ستارہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کو کہا۔ ان دونوں بزرگوں بالفاظ دیگر
دونوں حنفیوں کو خراج تحسین پیش کیا ۔
حافظ بیہقی اور سیوطی موضوع صاف نہیں فرما سکے
سلفی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ہاں شاہ عبد الحق رحمہ اللہ سے پہلے حافظ بیہقی رحمہ اللہ
اور سیوطی نے اس موضوع پر مستقل رسائل لکھے ہیں ۔مگر افسوس موضوع صاف نہیں فرما
سکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ان حضرات نے اس قسم کا ذخیرہ جمع فرمایا ہے جس کے متعلق
ان کے ذہن بھی صاف نہیں کہ وہ حیات ثابت فرمانا چاہتے ہیں لیکن اس کی نوع متعین
نہیں فرماتے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۱۶ )
غیرمقلدین دعویٰ کیاکرتے ہیں کہ حدیث کی فہم کو محدثین
دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جانتے ہیں۔( علمی مقالات : ۳؍۸۳، توضیح الاحکام
:۳؍۱۸۹)مگر یہاں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باری آئی تو یہ تاثر چھوڑ دیا
کہ امام بیہقی رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نہ تو موضوع صاف فرما سکے اور
نہ ہی ان کا اپنا ذہن صاف تھا۔ امام بیہقی اور امام سیوطی رحمہما اللہ دونوں شافعی
المسلک ہیں مگر موجودہ دَورکے غیرمقلدین انہیں تارک تقلید باور کرانے کی کوشش میں
لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام بیہقی مقلد نہیں تھے ۔
‘‘ ( علمی مقالات :۴؍۵۵)
اسی طرح انہوں نے امام سیوطی رحمہ اللہ کوبھی ’’
غیرمقلد ‘‘ کہا ہے ۔ ( ماہ نامہ الحدیث حضرو،شمارہ : ۹۰)
جب غیرمقلدین کے ہاں بیہقی اور سیوطی
غیرمقلد ہیں تو ہم الزاماً کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے غیرمقلدین بقول آپ کے نہ تو
موضوع کو صاف کر سکے اور نہ ہی ان کا اپنا ذہن صاف تھا۔
سلفی صاحب نے یہ اقرار تو کر لیاکہ محدثین: امام بیہقی رحمہ
اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں
مستقل رسالے لکھے ہیں مگراِس کے بالمقابل اس دور کے کسی محدث کی نشاہدہی نہیں کی
جس نے حیات انبیاء کے انکار پر رسالہ لکھا ہو؟
امام سیوطی رحمہ اللہ تعارض نہیں اُٹھا سکے
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’حافظ سیوطی رحمہ
اللہ انتہائی کوشش کے باوجود آیت انک میت
وانھم میتون
[ سورۃ زمر ] اور حدیث فیرد اللہ علی روحی اور حدیث الانبیاء
احیاء فی قبورھم یصلون میں تعارض نہیں اُٹھا سکے ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۱۷)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ پر الزام بے جا ہے۔ کیوں کہ آیت اور
حدیثوں میں تعارض ہے ہی نہیں ۔ آیت میں دنیا والی موت کی پیش گوئی ہے کہ موت آئے
گی اور حدیثوں میں قبر کی حیات کا اثبات ہے ۔ تعارض تو تب ہوتا جب حدیثوں میں یہ
مضمون ہو دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوموت نہیں آئے گی۔جب کہ کسی حدیث
میں ایسا بیان نہیں ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کے رسالہ سے قبرپرستوں کو مدد ملے
گی !!؟
سلفی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’بلکہ حافظ سیوطی ؒ نے توحاطب ِلیل کی طرح ایک غیر موثق ذخیرہ
جمع فرما دیا ہے جس سے حضرات قبوریین کو مدد ملے گی اور سادہ دل توحید کے شبہات سے
لبریز ہوں گے ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۱۷ )
سلفی صاحب دیوبندیوں اور مماتیوں کے درمیان بزعم خود محاکمہ
کرنے بیٹھے تھے،نہ جانے پھرکیا سوجھی چھلانگ لگائی اور صدیوں پہلے کے محدثین امام
بیہقی رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ تک جا پہنچے اورانہیں کھری کھری سنائیں
کہ وہ نہ تو موضوع صاف کر سکے اور نہ ہی اُن کا اپنا ذہن صاف تھا۔ اس سے بڑھ کر
امام سیوطی رحمہ اللہ کو قبر پرستوں کا معاون باورکرایا۔ یہ سب کچھ لکھنے لینے کے
باوجود قلم رُکا نہیں بلکہ اس نے اگلے لمحے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے لیا ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب’’کتاب الروح ‘‘ عوام کے
لئے خطرہ ہے
سلفی صاحب نے حافظ سیوطی رحمہ اللہ کوکھری کھری سنانے کے
بعد فورا اپنا رخ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی
طرف کر کے لکھا:
’’قریبا یہی حال حافظ ابن القیم کی کتاب الروح کا ہے ۔ فحول
اہلِ حدیث اور ماہرین رجال کو تو کوئی خطرہ نہیں لیکن عوام کے لیے یہ مورد مزلہ
اقدام ہے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۱۷ )
’’یہی حال حافظ ابن القیم کی کتاب
الروح کا ہے‘‘ اس کا مطلب پچھلی عبارت کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ سلفی صاحب کے
بقول جس طرح علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی جمع پونجی سے قبرپرستوں کو مدد ملے گی ، اسی
طرح حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’ کتاب الروح ‘‘ سے بھی قبر پرستوں کو مدد
ملے گی ۔ مزید یہ کہ ان کی کتاب عوام کے پھسلنے کا سبب ہے ۔سلفی صاحب نے ’’ کتاب
الروح ‘‘ کو عوام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے مگر یہ بھی جان لیں کہ’’ کتاب الروح
‘‘کا اردو ترجمہ اور عوام میں اس کی اشاعت بھی غیرمقلدین نے کی ہے ۔ گویا عوام کو
پھسلانے میں غیرمقلدین تعاون کر رہے ہیں ۔
یہاں یہ بات جانتے چلیں کہ سلفی صاحب نے’’ کتاب الروح ‘‘ کے
مندرجات پر سخت تنقید تو کی ہے مگر یوں نہیں کہا کہ یہ کتاب حافظ ابن قیم رحمہ
اللہ کی ہے ہی نہیں ۔
امام بیہقی سے لے کر اب تک محل نزاع متعین نہیں کیا گیا
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’اس موضوع پر امام بیہقی رحمہ
اللہ سے آج تک جو کچھ لکھا گیا ہے،ا س میں محل نزاع کا تعین نہیں فرمایا گیا۔ امام
بیہقی نے ائمہ حدیث کی طرح اس موضوع کے متعلق مواد جمع فرمایا ہے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۲۰)
اس موضوع پر محدثین:بیہقی اور سیوطی وغیرہما نے لکھا ۔
غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ محدثین انہی کے ہم مسلک تھے ، اسی طرح خود غیرمقلدین نے
بھی اس عنوان ’’ حیات النبی‘‘ کے اثبات میں بہت کچھ لکھا ہے ۔ اس سوال کو
غیرمقلدین حل کریں کہ سلفی صاحب کے زمانہ تک انہوں نے محل نزاع کا تعین کیوں نہیں
کیا؟
قصیدہ نونیہ کے مطالعہ کی ترغیب
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’حافظ سیوطی نے کتاب الروح اور حیات الانبیاء سے استفادہ
بھی فرمایا اور بعض احادیث کی توجیہات بھی کی ہیں۔ حافظ سیوطیؒ نے کتاب الروح سے
استفادہ فرمایا ہے لیکن معلوم نہیں قصیدہ نونیہ کی طرف ان کی توجہ کیوں مبذول نہیں
ہوئی۔ حالاں کہ قصیدۂ نونیہ میں حافظ ابن القیم ؒ نے اس موضوع کو بہت زیادہ منقح
فرمایا ہے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۲۰)
سلفی صاحب قصیدہ نونیہ کی طرف توجہ
دلا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کہ اس میں مسئلہ منقح کیا گیا ہے ۔ عرض ہے
کہ قصیدہ نونیہ صفحہ ۱۴۵ میں بھی حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں ۔ ( تسکین الصدور صفحہ ۳۹۶)
سلفی صاحب ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ
اللہ سے لے کر آج تک محل نزاع کا تعین نہیں فرمایا گیا۔ دوسری طرف یہ بھی ارشاد ہے
کہ حافظ ابن القیم ؒ نے اس موضوع کو بہت زیادہ منقح فرمایا ہے ۔
انبیاء کرام برزخ میں عبادت کرتے ہیں انہیں رزق بھی
ملتاہے
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’اہل سنت کے دونوں مکاتب فکر اصحاب الرائے و اہلِ حدیث کا
اس امر پر اتفاق ہے کہ شہدا اور انبیاء زندہ ہیں۔ برزخ میں وہ عبادات تسبیح و
تہلیل فرماتے ہیں ۔ ان کو رزق بھی ان کے حسب ِ حال اور حسب ضرورت دیا جاتا ہے ...
صحیح احادیث میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق عبادات وغیرہ کا ذکر آتا ہے ... بحث
اس میں ہے کہ آیا یہ زندگی دنیوی زندگی ہے ؟‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۲۰ )
جن علماء نے اسے دنیوی زندگی کہاہے اُن کی مراد یہ ہے کہ
دنیا والا جسم قبر میں حیات سے فائز ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے ان شاء اللہ۔ یہاں پر
یہ سوال بھی ہے کہ سلفی صاحب نے یہ کتاب مولانا عنایت اللہ بخاری کی حمایت میں
لکھی ہے تو کیا بخاری صاحب اور ان کے معتقدین کا یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام فوت
ہونے کے بعد زندہ ہیں اور عبادات کیاکرتے ہیں ؟
سلفی صاحب کی طرف سے احمد رضا خان کا شکریہ
سلفی صاحب ’’ حیات النبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے متعلق بریلوی عقیدہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’اس معاملہ میں مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی قابل شکریہ
ہیں۔ انہوں نے موضوع کو وضاحت سے سامنے رکھاہے دلیل ہو یا نہ ہولیکن انہوں نے
فرمانے میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۲۱ )
سلفی صاحب نے محدثین سے تو شکوہ کیا کہ انہوں نے موضوع کو
صاف نہیں کیا اور نہ ہی اُن کا اپنا ذہن صاف تھا مگر اس کے برعکس بریلویوں کے اعلی
حضرت جناب احمد رضا کا شکریہ ادا کیا۔
دیوبندیوں کی بریلویوں سے ہم نوائی کا طعنہ
سلفی صاحب ’’دیوبندیوں کی بریلویوں سے ہم نوائی
‘‘ عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’مولانا حسین احمد صاحب مرحوم مکاتیب میں فرماتے ہیں : ’’
آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی اورا ز
قبیل حیات دنیوی بلکہ بہت سی وجوہ سے اس سے قوی تر (اہ ص ۱۳۰جلد ۱) سنا ہے مولانا
نانوتوی ؒ اور بعض اکابر دیوبند بھی اسی قسم کے حیات کے قائل تھے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۲۲)
(۱) سلفی صاحب اس رسالے میں جا بجا یہی تاثر دیتے ہیں کہ انبیاء
علیہم السلام کو حیات برزخی حاصل ہے جب کہ علمائے دیوبند حیات دنیوی کے قائل ہیں
جو کہ غلط عقیدہ ہے اس کے بالمقابل عنایت اللہ شاہ بخاری کا عقیدہ درست ہے۔ حالاں
کہ علمائے دیوبند نے ’’ حیات دنیوی ‘‘ کی وضاحت بیان کی ہوئی ہے کہ دنیا والے جسم
کو حیات حاصل ہے ۔چنانچہ حضرت مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ حضرات علمائے دیوبند کے نزدیک یہ حیات دنیویہ برزخیہ
ہے۔دنیویہ تو اس لیے کہ روح مبارک کا تعلق اس جسد اطہر سے ہے جو آپ کو دنیا میں
حاصل تھا گو وہ حیات ِ اہلِ دنیا کے ادراک و شعور سے بالا تر ہے اور ولکن لا تشعرون کا مصداق ہے اور برزخیہ اس لیے ہے کہ برزخ میں ہے ۔ظاہر
امر ہے کہ یہ حیات روح کی تو ہرگز نہیں ہو سکتی کیوں کہ روح پر تو موت نہیں آتی
موت تو جسم پر وارد ہوتی ہے ۔ ‘‘ ( تسکین الصدور صفحہ ۴۳)
حضرت مولانا حسین
احمد مدنی رحمہ اللہ کی جو عبارت سلفی صاحب نے نقل کی ہے اس کی وضاحت میں حضرت
مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ حضرت مدنی ؒ کی مراد بظاہر حیات جسمانی اور دنیوی سے یہ
ہے کہ آپ کی روح مبارک کا تعلق جسد مثالی سے قائم نہیں جیسا کہ بعض صوفیاء کرام کا
نظریہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ عذاب و ثواب کے سلسلہ میں قبرمیں روح کا تعلق
جسدِ مثالی سے مانتے ہیں اور اسی طرح جنت کے عارضی ابدان سے بھی نہیں ہوتا جیسا کہ
بعض صحیح روایات سے شہداء کے متعلق ثابت ہے کہ ان کی ارواح کا تعلق جنت کے سبز رنگ
کے پرندوں سے قائم کر دیا جاتا ہے (فی جوف
طیر خضر ) بلکہ روح
کا تعلق دنیوی جسم سے قائم ہوتا ہے اور بایں معنیٰ یہ حیات جسمانی اور دنیوی ہے
چنانچہ حضرت موصوفؒ وہابی فرقہ اور علماء دیوبند کے عقائد کا فرق بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ وہ (وہابی )وفات ظاہری کے بعد انبیاء علیہم السلام کی حیات جسمانی
اور بقائے علاقہ بین الروح و الجسم کے منکرہیں اور یہ ( علماء دیوبند ) حضرات صرف
اس کے قائل ہی نہیں بلکہ مثبت بھی ہیں اور بڑے زور شور سے اس پر دلائل قائم کرتے
ہوئے متعدد رسائل اس بارہ میں تصنیف فرما کر شائع کر چکے ہیں ۔اھ ‘‘ ( نقش حیات
جلدا صفحہ ۱۰۳)اس عبارت سے معلوم ہوا کہ موصوف ؒ روح اور جسم کے علاقہ اور تعلق کی
وجہ سے جسمانی اور دنیوی حیات کا لفظ اس پر اطلاق فرما رہے ہیں اور اس کی مزید
تشریح حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒکے بیان سے ہوتی ہے چنانچہ حضرت ایک
مقام پر لکھتے ہیں کہ : انبیاء علیہم السلام کو ابدانِ دنیا کے حساب سے زندہ
سمجھیں گے الخ (لطائف قاسمیہ صفحہ ۴)اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ: انبیاء کرام
علیہم السلام کو انہیں اجسام دنیوی کے تعلق کے اعتبار سے زندہ سمجھتا ہوں یہ نہیں
کہ مثل شہدء ان ابدان کو چھوڑ کر اور ابدان سے تعلق ہو جاتا ہے اھ (لطائف قاسمی
صفحہ ۳) حضرت نانوتوی ؒ نے اس عبارت میں صراحت سے یہ بیان فرما دیا ہے کہ جیسے
شہداء کو دوسرے عارضی اجسام مرحمت ہوتے ہیں اور ان کی ارواح کا ان سے تعلق قائم کر
دیا جاتا ہے (باوجود اس تعلق کے جو فی الجملہ ان کے ارواح کو ان کے اجسام عنصری سے
بھی ہوتا ہے کمامرمفصلا) حضرات انبیاء کرام علیہم
السلام کی حیات کا یہ طریق نہیں ہے بلکہ ان کے ارواح کا تعلق ان کے ابدان دنیا سے
ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اس حیات کو دنیوی اور جسمانی کہتے ہیں ۔ ‘ ‘ ( تسکین
الصدور صفحہ ۲۷۵،۲۷۶)
(۲) قبر کی زندگی کے متعلق بریلویوں کاکیا عقیدہ ہے وہ بھی سلفی صاحب
کی زبانی ملاحظہ ہو:
’’ بریلوی حضرات کے نقطہ ٔ نظرسے یہ مسئلہ اور بھی مشکل ہو
جاتا ہے کیوں کہ وہ قبر میں بظاہر بعض تکلیفات شرعیہ کا بھی صلحائے امت کو مکلف
سمجھتے ہیں ۔ ازدواجی تعلقات کی کہانیاں بھی ان کے ہاں مروج اور متعارف ہیں ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات
النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۵۴)
کیا علمائے دیوبند کا بھی یہی
عقیدہ ہے ؟ اُن سے ہم نوائی کا دعویٰ کس بنیاد پر ہے ؟
(۳) سلفی صاحب نے بریلویوں سے ہم نوائی کا طعنہ تو دے دیا مگر یہ بتانے
کی زحمت نہیں فرمائی کہ بریلوی اپنے مخصوص عقائد اور رسومات و بدعات میں مقلد ہیں
یا غیرمقلد ؟حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ تمام بریلوی حضرات عقیدہ میں
’’ غیرمقلد ‘‘ ہیں ۔ ‘‘ ( علمی مقالات : ۲؍۵۸۸)
مزید دیکھئے
علمی مقالات : ۴؍۴۰۶،۴۰۷ ۔
سلفی صاحب نے تو بریلویوں کی ہم نوائی کا طعنہ دیا جب کہ
داؤد ارشد غیرمقلد نے تواس سے بڑھ کر اسے مرزا غلام احمد قادیانی کی تقلید قرار
دیا :
’’ دیوبند ی مکتب فکر میں حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
عقیدہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تقلید سے آیا ہے ۔‘‘ ( تحفہ حنفیہ صفحہ ۲۱۰)
حضرت مولانا حسین علی واں بھچراں اور مولانا نصیرالدین غورغشتوی کا عقیدہ
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’حضرات دیوبند سے بھی حضرت مولانا حسین علی مرحوم (واں بھچراں ) اور ان کے
تلامذہ مولوی نصیر الدین صاحب وغیرہ بھی صراحۃً اس کے خلاف ہیں۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۲۲ )
عرض ہے کہ حضرت مولانا حسین علی رحمہ
اللہ (واں بھچراں) والے قبر کی حیات اور بزرگوں کے وسیلہ کو مانتے
ہیں۔چند حوالے ملاحظہ ہوں۔
حضرت رحمہ اللہ (واں بھچراں)فرماتے ہیں:
’’ ونؤمن بان المیت یعرف من یزورہ اذا اتاہ و آکد یوم
الجمعۃ بعد طلوع الفجر قبل طلوع الشمس۔اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جب میت کے پاس کوئی
شخص زیارت کرنے کو آتا ہے تو وہ اس کو پہچان لیتی ہے خصوصاً جمعہ کے دن طلوع فجر
کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے۔‘‘
( تحریرات حدیث صفحہ۲۵۷ بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۱۵۶)
حضرت رحمہ
اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ فیجوز ان یقع المسئلۃ و العذاب و النعیم ببعض جسد المؤمن
و الکافر دون بقیۃ اجزاء ہ وقیل ان اللہ یجمع تلک الاجزاء المتفرقۃ ...والمسئلۃ
کما یفعل ذلک للحشر۔سو جائز ہے کہ قبر میں سوال و عذاب اور راحت مومن اور کافر
کے بعض جسم سے وابستہ اور متعلق ہو نہ کہ سب اجزاء سے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ
اللہ تعالیٰ قبر کی تنگی اور سوال کے لیے ان متفرق اجزاء کو جمع کر دیتا ہے جیسا
کہ وہ حشر کے دن ایسا کرے گا۔ ‘‘
( تحریرات حدیث صفحہ ۲۵۷بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۲۰۶)
حضرت رحمہ
اللہ نے علامہ ابن حجر ؒ کی’’ الجواہر المنظوم ‘‘ کے حوالہ سے لکھا:
’’ روی عن علی انہ بعد دفنہ صلی علیہ و آلہ وسلم جاء اعرابی
فقال یا رسول اللہ جئتک لتستغفرلی الی ربی فنودی من القبر الشریف قد غفر لک واتت
صفیۃ عمۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد وفاتہ (فقالت ) الا یا رسول اللہ انت
رجائیا وکنت بنا برا ولم تک جافیا وسمع الصحابۃ رضی اللہ عنہم و لم ینکرھا احد۔ حضرت علی ؓ
سے روایت کی گئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کئے جانے کے بعد
ایک اعرابی آیا اس نے کہاکہ یا رسول اللہ میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ میرے لئے میرے
رب سے مغفرت طلب فرمائیں۔ پس قبر مبارک سے آواز آئی کہ بے شک تیری مغفرت ہو چکی ہے
اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ ؓآپ کی وفات کے بعد آئی
اور اس نے یہ شعر پڑھا خبر دار ! اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میری اُمید
ہیں اور آپ ہم پر مہربان تھے اور آپ ؐ سخت مزاج نہ تھے۔ حضرات صحابہ کرام ؓ نے یہ
سنا اور کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہ کیا۔ ‘‘
( تحریرات حدیث صفحہ ۲۵۶ بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۳۷۶)
حضرت رحمہ
اللہ اپنی املائی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ وحل مشکلے از حق تعالیٰ طلب نمودن بتوجہ بزرگان بجا است
وعین رضا است، کسی مشکل کا حل اللہ تعالیٰ سے بزرگوں کے توسل سے طلب کرنا بجا اور
عین رضا ہے ۔ ‘‘
( بلغۃ الحیران صفحہ ۳۵۴ بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۴۱۳)
حضرت
مولانا نصیر الدین غورغشتوی صاحب کے عقیدہ
پر حضرت مولانا نثار احمد الحسینی صاحب نے مستقل کتاب لکھی ہے جس میں ان کے بارے
میں ثابت کیا ہے کہ وہ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائل تھے ۔ اس
حوالہ سے بعض کتابوں کے عکس بھی دئیے ہیں۔
حیات
الانبیاء پر صحیح حدیثیں نہیں ہیں۔سلفی صاحب کا دعویٰ
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’حیاتِ انبیاء کی احادیث اسناد
کے لحاظ سے اخبار احادِ صحیحہ سے بھی فرو تر ہیں۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۲۳)
حیات انبیاء علیہم السلام کے اثبات
میں صحیح حدیثیں موجود ہیں۔ محدثین کے حوالوں کے لیے حضرت مولانا محمد سرفراز خان
صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ تسکین الصدور ‘‘ اور غیرمقلدین کے اعترافی حوالوں کے
لیے بندہ کی کتاب ’’ فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ جلد اول ملاحظہ فرمائیں۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قبر میں نماز پڑھنے کی حدیث ( صحیح مسلم :۲؍۲۶۸) پر
سلفی صاحب جرح نہیں کر سکے ۔ ( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۶)
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ حیات ِ انبیاء علیہم السلام
پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے ۔‘‘
( مسئلہ حیات
النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۵۲)
علی سبیل
التنزل اگر ان
احادیث کو سنداً غیر صحیح مان لیا جائے تو بھی اجماع امت کی وجہ سے وہ صحیح قرار
پاتی ہیں،انہیں تلقی بالقبول حاصل ہے۔اور تلقی بالقبول سے حدیث ضعف سے نکل کر صحت
کی طرف آجاتی ہے۔
شیخ محمد
عثیمین صاحب شیخ البانی ( غیرمقلد )کے
کلام پر تعلیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ شیخ البانی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر
سے حجت پکڑی ہے اور ان کے علاوہ بھی علماء دین نے اسے تلقی بالقبول ( قبولیت ) کے
شرف سے نواز ا ہے اگرچہ اس کی سند کے بارے میں کچھ کلام کیا گیا ہے ۔‘‘
( حاشیہ فتنہ تکفیر صفحہ ۱۵)
سلفی
صاحب کاایک طرف تو دعویٰ ہے کہ حیاتِ انبیاء علیہم السلام کے اثبات والی حدیثیں
صحت سے فرو تر ہیں ،دوسری طرف بعد الوفات انبیاء علیہم السلام کازندہ ہونااور
عبادت کرنا مانتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’انبیاء کی حیات اہلِ سنت کے نزدیک شہداء سے بھی بہتر اور قوی
تر ہے۔ برزخ میں عبادت، تسبیح، تہلیل اور رفعت درجات ان کو حاصل ہے۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۶)
حضرت مدنی ؒ
اور نانوتویؒ کا مقام
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’مولانا حسین ؒ احمد کی جلالتِ
قدر اور مولانا نانوتوی ؒ کی غزارتِ علمی اور شیخ عبد الحق ؒ کی سادگی ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۲۶)
غیرمقلدین جب تقلید پہ بحث کرتے ہیں
تو کہتے ہیں تقلید جہالت اور مقلد جاہل ہے مگر اس کے برعکس سلفی صاحب نے حنفی
مقلدین حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی جلالتِ قدر اور حضرت مولانا
حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی علمی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔
شہداء کہاں
زندہ ہیں؟
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’آلِ عمران میں احیاء عند ربھم یرزقون فرمایا...عند کا تعلق احیاء سے ہو یا یرزقون سے دونوں
عند اللہ ہوں گی فی الدنیا نہیں ہوں۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۲۹)
سلفی صاحب کے بقول شہداء اللہ کے ہاں
زندہ ہیں۔اللہ کہاں ہے ؟ اس میں غیرمقلدین کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ
اللہ فقط عرش پر ہے اس لیے شہداء بھی عرش پر زندہ ہوں گے۔اور کچھ غیرمقلدین اللہ
تعالیٰ کو متعدد جگہ مانتے ہیں۔[مثلاً مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:’’میں
خدا کی صفت قرب و معیت کو اور اللہ تعالیٰ کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا
تاویل یقین کرتا ہوں۔‘‘(مظالم روپڑی صفحہ۱ ۱ مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول ) ]
تو ان کے نزدیک شہداء متعدد جگہوں میں زندہ ہوں گے ۔
فائدہ: عند کا تعلق یرزقون کے ساتھ ہے
لہذا یوں ترجمہ ہوگا:
’’شہداء زندہ
ہیں انہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیا جاتا ہے ۔‘‘
علامہ آلوسی بہت بڑے محقق اور حنفی ہیں
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’شیخ شہادب الدین ابو الفضل السید محمود آلوسی بغدادی...
جو اپنے وقت کے بہت بڑے محقق ، عراق کے مفتی اور مسلکاً حنفی ہیں۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۱)
عموماً غیرمقلدین کہا کرتے ہیں کہ
تقلید چوں کہ تحقیق کی ضد ہے اس لیے مقلد کو محقق نہیں کہہ سکتے۔مگر سلفی صاحب نے
علامہ آلوسی رحمہ اللہ کو محقق بھی مانا اور حنفی المسلک مقلد بھی۔
حضرت مولانا
بدر عالم ثقات میں سے
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا بدر عالم صاحب ایسے
ثقات ‘‘( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۳۳ )
ماشاء اللہ
سلفی صاحب نے حنفی و دیوبندی عالم کو ’’ ثقہ ‘‘ تسلیم کیا ہے۔
نواب صدیق
حسن اکابر قدماء سے زیادہ صائب الرائے؟
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا نواب محمد صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ والئ
بھوپال مکتب فکر کے لحاظ سے اہلِ حدیث ہیں۔اس لیے آپ حضرات کو ان سے یقیناً اختلاف
ہو سکتا ہے لیکن دقت نظر، وسعتِ مطالعہ، زہد و تقوی کے لحاظ سے ان کا مقام یقیناً
بہت اونچا ہے اور فہم قرآن میں ان کا ذہن بے حد صاف ہے۔ بہت سے اکابر قدما سے بھی
ان کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۳۳ )
۱۔ نواب صدیق حسن خان صاحب سے اختلاف
صرف اہلِ سنت کو نہیں بلکہ خود غیرمقلدین کو بھی ہے۔ مثلاً
نواب صاحب نے
لکھا:
’’ عوام میں ایمان تو عصر نبوت
ہی سے تقلیدی چلا آ رہا ہے۔ ‘‘ ( ابقاء المنن صفحہ ۶۳)
نواب صاحب
لکھتے ہیں:
’’ وجب علی العامی تقلید ہ والاخذ بفتواہ ۔‘‘ عامی پر
مجتہد کی تقلید کرنا اور اس کے فتویٰ کو لینا واجب ہے ۔ ‘‘
( لقطۃ العجلان صفحہ ۱۳۷)
نواب صاحب کے
حالات میں درج ہے:
’’ والا جاہ مرحوم نماز پنجگانہ حنفی طریقہ پر پڑھتے تھے
البتہ ان کو فاتحہ خلف الامام اور اول وقت کا خاص اہتمام مد نظر رہتا تھا۔ ‘‘
( مآثر صدیقی:۴؍۶۳)
۲۔ ’’ فہم قرآن میں ان کا ذہن بے حد
صاف ہے ‘‘ جی مگر یہ تب جب ان کی باتیں غیرمقلدین کے خلاف نہ ہوں ۔ ورنہ تقلیدو
فقہ حنفی کی حمایت میں اُن کی باتیں ماننے کو تیارنہیں ہوں گے ۔
۳۔ سلفی صاحب نے بریلوی علم کلام
کاحاصل تین چیزیں بتایاہے اُن میں سے ایک چیز اکابر کے بارے میں مبالغہ آرائی ہے
۔( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۴۵) مگر یہاں خود ہی نواب صاحب کے
متعلق مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے انہیں اکابر قدماء سے بڑھا دیا ہے۔جب کہ بعض
غیرمقلدین نواب صاحب کو سرے سے اکابر میں جگہ نہیں دیتے ۔
۴۔سلفی صاحب نے نواب صاحب کو اگرچہ اہلِ حدیث قرار دیا مگر ’’ ان کی رائے صائب
معلوم ہوتی ہے ۔‘‘ لکھ کر ان کا ’ اہل الرائے ‘‘ ہونا بھی ظاہر کر دیا۔
۵۔ سلفی صاحب نواب صاحب کو اکابر قدما
سے زیادہ صائب الرائے کہہ رہے ہیں مگر یہ بھی معلوم رہے یہی نواب صاحب قبر کی
زندگی کے متعلق کیاعقیدہ رکھتے ہیں؟ پڑھئے :
ترجمہ:"
اور تمام مردے عام اس سے کہ وہ مومن ہوں یاکافر علم ، شعور، ادراک، سننے ، اعمال
کے پیش ہونے اور زیارت کندہ کے سلام کا جواب دینے میں برابر و یکساں ہیں اس میں
حضرات انبیاء علیہم السلام اور صلحاء کی تخصیص نہیں ہے ۔"
( دلیل الطالب صفحہ۸۸۶ بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۲۰۹)
نواب صاحب نے
عبارت بالامیں مذکورسب اوصاف کوکافر مردوں تک کے لیے مانا ہے ۔
انبیاء کے اجسام محفوظ رہنے کی حدیث قابل رد ہے اورقابلِ
قبول بھی
سلفی
صاحب’’پیش کردہ احادیث پر ایک نظر ‘‘عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’حیاۃ الانبیاء بیہقی کے حوالہ سے اس مسئلہ میں احادیث
مرقوم ہیں۔ مقام نزاع کے تعین کے بعد ان میں سے کوئی استدلال کے قابل نہیں۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۴)
پھر سلفی صاحب حیات انبیاء علیہم
السلام کے اثبات والی حدیثوں پر ضعف کی چھاپ لگاتے چلے گئے یہاں تک کہ حدیث نبوی
’’ اللہ تعالیٰ نے مٹی پر انبیاء کے اجسام حرام فر ما دئیے ہیں۔‘‘کو بھی ضعیف کہہ
دیا ۔ مگر جب کسی نے کہا کہ انبیاء کرام کے جسموں کا قبروں میں محفوظ ہونا ضروری
نہیں۔ تب اسی حدیث کو قبول کر تے ہوئے کہا :
’’ گو بلحاظ سند
صحیح نہیں۔ تاہم اصول ستہ کو جو فوقیت طبرانی اور ابو یعلی پر ہے اسے نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا۔ اصول ستہ کو بحیثیت مجموعی طبرانی وغیرہ پر برتری حاصل ہے ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۵۵)
آگے لکھا:
’’ ابن ماجہ کی روایت : ان اللہ حرم
علی الارض ا ن تاکل اجساد الانبیاء ‘‘ کو ضعف کے باوجود جمہور امت نے قبول فرمایا ہے ...
قرائن کا تقاضا یہی ہے کہ ابن ماجہ کی روایت کو ترجیح دی جائے اوربرزخی زندگی کے
ساتھ جسم کی سلامتی کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۵۵)
جب حیاتِ انبیاء علیہم السلام کا
مسئلہ چل رہا تھا،تب اس حدیث کو ضعیف کہہ چھوڑا اور جب انبیاء علیہم السلام کے
جسموں کو محفوظ منوانے کی نوبت آئی تو صراحت کے ساتھ لکھ دیا کہ جمہور امت نے اس
حدیث کو قبول کیا ہے ۔
’’ فنبی اللہ حی
یرزق‘‘ کو بطور
ِفضیلت بیان کیا جا سکتا ہے
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’رہا شوکانی کا تحفۃ الذاکرین میں حدیث رد اللہ علی
روحی کی تشریح
میں یہ لکھنا لانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ وروحہ لا نفارقہ لما
صح ان الانبیاء احیاء فی قبورھم... تو سابق مفصل جرح کے موجود ہوتے ہوئے ’’ صح‘‘ سے مصطلح
صحت مراد لینا تو مشکل ہے ۔ یہ صح بمعنیٰ ثبت ہی ہو سکتا ہے ۔ جب تک حدیث پر وضع
کا حکم یقینی نہ ہو محدثین کے نزدیک ’’ ثبت‘‘ سے اس کی تعبیر ہو سکتی ہے ۔
نیل الاوطار میں حافظ شوکانی نے یہی لفظ اختیار فرمایا ہے ﴿وقد ثبت فی
الحدیث ان الانبیاء احیاء فی قبورھم﴾ایسی احادیث کا تذکرہ مواعظ اور فضائل کی مجالس میں تو
کیا جاسکتا ہے لیکن عقیدہ کی بنیاد تو اس پر نہیں رکھی جا سکتی ۔ اہلِ حدیث اور
ائمہ فن کے نزدیک اعتقاد کے لیے خبر واحد صحیح تو ہونی چاہیے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۵)
سلفی صاحب نے صح کو ثبت کے معنی میں
قرار دے کرجو تاثر دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ شوکانی کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے ۔
سلفی صاحب کی اس بات پر کئی طرح تبصرہ کیا جا سکتا ہے ۔
۱۔ سلفی صاحب کو پہلے توعلمائے حدیث
کے حوالہ جات پیش کرنے چاہیے تھے کہ لفظ’’ ثبت ‘‘ کہہ کر حدیث کا ضعف بتایا
جاتا ہے ۔
۲۔ انہوں نے صح کو ثبت کے معنی میں
کہا اگر کوئی اس کے برعکس کہہ دے ثبت کا لفظ’’َ صح ‘‘ کے معنیٰ میں ہے تو؟ شوکانی
نے تو صح اور ثبت دونوں ہی لفط تحریر کئے ہیں۔
۳۔شوکانی صاحب ثبت کہہ کر اسے
ضعیف قرار نہیں دے رہے بلکہ اس حدیث پر اپنا نظریہ درج کرتے ہیں۔ان کی عبارت
ملاحظہ ہو:
’’
وقد
ذھب جماعۃ من المحققین الی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حی بعد وفاتہ و انہ
یسر بطاعات امتہ وان الانبیاء لایبلون مع ان مطلق الادراک کالعلم و السماع ثابت
لسائر الموتی ... وورد النص فی کتاب اللہ فی حق الشھداء انھم احیاء یرزقون وان
الحیوۃ فیھم متعلقۃ بالجسد فکیف بالانبیاء و المرسلین۔ وقد ثبت فی الحدیث ان
الانبیاء احیاء فی قبورھم رواہ المنذری و صححہ البیہقی وصحیح مسلم عن النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم قال مررت بموسی لیلۃ اسری بی عند الکثیب الاحمر وھو قائم یصلی
فی قبرہ انتھی ۔
بے شک محققین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آں حضرت صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد زندہ ہیں اور آپ اپنی امت کی طاعات سے خوش
ہوتے ہیں اور یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجساد بوسیدہ نہیں ہوتے حالاں کہ
مطلق ادراک جیسے علم اور سماع وغیرہ تو یہ سب مردوں کے لیے ثابت ہے ...اور اللہ
تعالیٰ کی کتاب میں صراحت سے شہداء کے بارے میں آیا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ان کو
رزق ملتا ہے اور بلاشبہ یہ حیات ان کے جسم سے متعلق ہے تو حضرات انبیاء و مرسلین
علیہم السلام کی حیات بطریق اولی اجسام سے متعلق ہوگی۔بلاشبہ حدیث سے ثابت ہو چکا
ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ علامہ منذری ؒ نے
یہ روایت بیان کی ہے اور امام بیہقی ؒ نے اس کی تصحیح کی ہے۔اور صحیح مسلم میں ہے
کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات سرخ رنگ کے
ٹیلے کے پاس موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں کھڑے نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ ‘‘
(نیل
الاوطار:۳؍۲۶۴ طبع مصر بحوالہ تسکین الصدور صفحہ ۲۶۲)
شوکانی
کی عبارت ’’مطلق اِدراک جیسے علم اور سماع وغیرہ تو یہ سب مردوں کے لیے ثابت ہے‘‘
میں نظریہ بیان ہوا یا فضیلت؟ سب مردے جس میں فاسق و کافر بھی شامل ہیں اُن کی کون
سی فضیلت ہے جو بیان ہوئی؟
فائدہ:اس عبارت سے
یہ بھی معلوم ہوا کہ شوکانی کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کو جسموں کی حیات حاصل
ہے یعنی ان کی حیات جسمانی ہے ۔
۴۔شوکانی نے ابن ماجہ کی حدیث ’’ فنبی اللہ حی
یرزق‘‘ کے متعلق
لکھا ہے :
’’ وقد اخرج ابن ماجۃ باسناد جید ، امام ابن ماجہ نے جید سند کے
ساتھ اس کی تخریج کی ہے ۔‘‘
( نیل الاوطار: ۳؍۲۶۴)
شوکانی کی
عبارت ’’باسناد جید ‘‘ میں کیا تاویل کریں گے ؟یہاں تو ’’ ثبت ‘‘ کی بجائے
’’ جید
سند‘‘ کے الفاظ
ہیں۔
۵۔سلفی صاحب کہتے ہیں:’’ایسی احادیث کا تذکرہ
مواعظ اور فضائل کی مجالس میں تو کیا جاسکتا ہے۔‘‘ چلیں آپ لوگ بطور فضیلت ہی حیات
ِ انبیاء والی احادیث لکھ اوربیان کر دیا کریں ۔
۶۔سلفی صاحب نے یہاں تو کہہ دیا کہ یہ
احادیث ضعیف ہیں ، انہیں صرف فضائل کی مجلسوں میں بیان کیا جا سکتا ہے جب کہ دوسری
جگہ لکھتے ہیں:
’’ یہ اصل بھی خود محل نظر ہے ۔
‘‘جیسا کہ آگے ’’ حیات انبیاء کے اثبات والی احادیث بطور فضائل قبول ہیں۔‘‘ عنوان
کے تحت مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۴۰ کا حوالہ آ رہا ہے۔
قاضی شوکانی سے اختلاف
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ اسی مضمون کی دوسری حدیث سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو
الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں فنبی اللہ حی یرزق کی زیادتی
مرقوم ہے (ص ۱۱۹ کتاب الجنائز ) شوکانی ؒ نے غالباً اس کو بسند جید لکھا اور
صاحب تنقیح الرواۃ نے بھی ان کی متابعت میں اس سندکو جید فرمایا ہے مگر یہ درست
نہیں۔‘‘ ( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۹)
قاضی شوکانی نے حیات ِ انبیاء علیہم
السلام کے اثبات کی ایک حدیث کے متعلق ’’ صح ‘‘ کہا تو سلفی صاحب نے (
مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۵ میں)تبصرہ کیا کہ یہاں ’’ صح ‘‘سے حدیث کا
اصطلاحی طور پر صحیح ہونا مراد نہیں بلکہ ’’صح‘‘...’’ ثَبَتَ ‘ ‘کے معنیٰ میں
ہے اور ’’ ثَبَتَ‘‘کا لفظ اس (ضعیف )روایت کے لیے بھی بول دیا جاتا ہے جو
موضوع نہ ہو ۔ مگر قاضی شوکانی کے قول ’’بسند جید‘‘ کے سامنے
سلفی صاحب کی یہ تاویل دھری کی دھری رہ جاتی ہے ۔
غیرمقلدین تقلید کے موضوع پر لکھ چکے
ہیں کہ بادلیل بات ماننا اتباع ہے اور بے دلیل ماننا تقلید ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ
شوکانی کی پیروی میں تنقیح الرواۃ کے مصنف کا سند کوجیدکہنا اتباع ہے یا تقلید ؟
یہ بھی بتایا جائے کہ حدیث کی تصحیح و تضعیف میں کسی کی بات ماننا تقلید ہے یا
نہیں ؟
حیات انبیاء کے اثبات والی احادیث بطور فضائل قبول ہیں۔
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’ان احادیث میں ضعف اور انقطاع
موجود ہے لیکن مسئلہ چوں کہ درود کے فضائل کاہے۔اس میں حلال و حرام یا عقائد کی
بحث نہیں۔ اس لیے ابن القیم رحمہ اللہ ایسے ائمہ حدیث تک نے تسامح سے کام لیا ہے۔
بنا بریں تعدد طرق سے اس کی تصحیح کی گئی اور عوام میں مشہور ہے کہ فضائل میں اس
قسم کی احادیث قبول کرلیتے ہیں ۔ اہلِ تحقیق کے نزدیک یہ اصل بھی خود محل نظر ہے ۔
‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۴۰ )
سلفی صاحب کی
اس عبارت سے چند چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔
۱۔ حیات انبیاء علیہم السلام کے اثبات
والی حدیثوں کو حافظ ابن القیم رحمہ اللہ جیسے ائمہ حدیث نے قبول کیاہے ۔ ایک طرف
ائمہ حدیث ہوں اور دوسری طرف سلفی صاحب ، تو ترجیح یقینا ائمہ حدیث کی بات کو ہونی
چاہیے ۔
۲۔’’بنا بریں تعدد طرق سے اس کی تصحیح
کی گئی‘‘عرض ہے کہ حیاتِ انبیاء کے اثبات والی متعددحدیثیں صحیح ہیں جن کی صحت کو
خود غیرمقلدین نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے ۔ بندہ نے اپنی کتاب ’’ فضائل اعمال کا
عادلانہ دفاع ‘‘ جلد اول میں غیرمقلدین کے حوالے جمع کر دئیے ہیں۔ تعدد طرق کی بناء
پر ہی انہیں صحیح کہا گیا ہے تو بھی غیرمقلدین کو مان لینا چاہیے اس لیے کہ انہیں
یہ تسلیم ہے کہ کثرت ِ طرق سے ضعیف حدیث قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے ۔مطلب یہ
ہے کہ کسی حدیث کی بہت سی ضعیف سندیں ہوں تو سندوں کی کثرت کی وجہ سے وہ حدیث ضعف
سے ترقی کرکے صحت تک پہنچ جاتی ہے۔
چنانچہ
مولاناثناء اللہ مدنی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بعض ضعیف روایات ایسی ہیں جو کثرتِ طرق کی بناء پر کسی نہ
کسی انداز میں قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ۱؍۲۹۷)
مولانامحمد
گوندلوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر
کثرتِ طرق سے اس کا ضعف جاتا رہا ‘‘(خیر الکلام صفحہ ۴۵۲)
مولانا حافظ
محمد امین صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’جب کمزور حفظ والے راوی کو
دیگر رواۃ کی تائید حاصل ہو جائے تو غلطی کا شبہ سرے سے مفقود ہو جاتا ہے اور وہ
روایت معتبر قرار پاتی ہے ‘‘
(نماز کے بعد دعائے اجتماعی اور طائفہ منصورہ کا مسلک ِ
اعتدال صفحہ ۱۲۲)
۳۔ ’’عوام میں مشہور ہے کہ فضائل میں
اس قسم کی احادیث قبول کرلیتے ہیں۔ ‘‘فضائل میں ضعیف حدیث کی قبولیت عوام کا نظر
یہ نہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اٹھانوے فی صد عوام کو اس نظریہ کا علم ہی نہیں
تو یہ مبالغہ نہ ہوگا چہ جائیکہ کے اسے عوام میں شہرت یافتہ نظریہ قرار دیا جائے۔
سلفی صاحب ! فضائل میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا نظریہ عوام کی بجائے اہلِ علم
محدثین بلکہ خود غیرمقلدین کا ہے ، جیسا کہ درج ذیل مصنفین نے اپنی کتابوں میں
بیان کیا ہے ۔
·
مولاناابو شفیق محمدرفیق پسروری غیرمقلد ۔ (فتاویٰ
رفیقیہ ۴؍۳۲)
·
پروفیسر عبداللہ بہاول پوری غیرمقلد ۔ (خطبات بہاول
پوری ۳؍۳۷۰)
·
مولاناارشاد الحق اثری غیرمقلد ۔(آفاتِ نظر
اور ان کا علاج صفحہ ۳۸)
·
مولاناعبداللہ روپڑی غیرمقلد ۔
(فتاویٰ
اہلِ حدیث
۱؍۴۹۵،۵۳۲.... ۲؍۵۶،۶۷،۱۳۷)
ان کتابوں کی عبارات بندہ نے اپنی
کتاب ’’فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ میں نقل کر دی ہیں۔ یہاں محض حوالوں پر
اکتفاء کیا ہے ۔
۴۔ اہلِ تحقیق کے نزدیک یہ اصل بھی
خود محل نظر ہے ۔ ‘‘سلفی صاحب باور کرا رہے کہ محققین کے نزدیک فضائل میں بھی ضعیف
حدیث قبول نہیں مگر اس کے بر عکس دوسری کتاب میں یوں لکھتے ہیں :
’’گو یہ حدیثیں ضعیف ہیں لیکن
فضائل ِ اعمال میں ضعیف حدیث قبول کر لی جاتی ہے ‘‘
(شرح مشکوۃ مترجم ۱؍۷۴۲ مؤلفہ مولانا محمد اسماعیل سلفی
،مکتبہ نعمانیہ گوجرانوالہ )
جلاء الافہام میں ’’فنبی اللہ
حی یرزق‘‘ کی بحث
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’جلاء الافہام میں جیسا کہ اوپر ذِکر ہوا ہے۔ حدیث ابو
الدرداء رضی اللہ عنہ پر طویل
بحث فرمائی ہے ۔ انقطاع اور تضعیف کا جواب دینے
کی کوشش کی گئی ہے ۔ انقطاع کے لیے شواہد جمع فرمائے ہیں گو وہ شواہد خود محل نظر
ہیں۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۴۰)
سیوطی تذبدب اور خبط میں مبتلا ہیں
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے جس قدر
جوابات دئیے ہیں ان میں اکثر مناظرانہ انداز کے ہیں اور جن پر حافظ سیوطی رحمہ
اللہ نے کچھ اعتماد ظاہر فرمایا وہ حیات ِ دنیوی کے خلاف ہیں۔ان جوابات سے ظاہر
ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ کا اپنا ذہن بھی اس حدیث سے متعلق صاف نہیں۔
جوابات میں تذبدب اور خبط نمایاں ہے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۱)
سلفی صاحب کی
اس عبارت سے درج ذیل امور معلوم ہوئے ۔
۱۔ حافظ
سیوطی رحمہ اللہ نے مناظرانہ انداز اختیار فرمایا ہے ۔ عرض ہے کہ کیا مناظرانہ
انداز اختیار کرنا جائز نہیں، کیا یہ دینی عمل نہیں؟
۲۔ حافظ
سیوطی رحمہ اللہ کا حدیث کی بابت ذہن صاف نہیں ۔ حالاں کہ غیرمقلدین نے اپنی
کتابوں میں یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ حدیث کا مطلب ومفہوم محدثین زیادہ جانتے ہیں ۔
مگر یہاں محدث (سیوطی ) کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے کہ حدیث کی بابت اُن کا ذہن
صاف نہیں تھا۔
۳۔ ’’جوابات
میں تذبدب اور خبط نمایاں ہے ۔ ‘‘ سلفی صاحب تاثر دے رہے ہیں کہ سیوطی اگرچہ محدث
ہے پھر بھی تذبدب کا شکار اور خبط میں مبتلا ہے ۔اس طرح کی بات کوئی دوسرے مذہب
والاشخص کہتا تو نہ جانے غیرمقلدین اسے کیا کچھ سناڈالتے ۔
قصے حجت تونہیں مگر قابل استدلال ہیں
سلفی صاحب’’
حکایات اور قصص ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’حضرت جعفر کی شہادت، بعض ارواح کا
اپنے قرضوں کے متعلق اطلاع دینا، کتاب الروح ، شرح الصدور ، خصائص کبریٰ وغیرہ میں
اس قسم کی کئی حکایات مرقوم ہیں۔ اولاً: یہ قصے شرعا حجت نہیں۔ ثانیاً: عقائد کے
لیے یہ دلائل قطعا ًقابل اطمینان نہیں۔ ثالثاً: اس سے حیاتِ روح اور ان کی نقل و
حرکت پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۲)
سلفی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ قصے شرعا
ًحجت تو نہیں البتہ ان سے روح کی نقل و حرکت پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ
عقدہ حل نہیں کیا کہ غیر شرعی قصوں سے روح کی نقل و حرکت پر استدلال کیسے جائز
ہوا؟
کشف کا وجود
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’خواب اور کشوف کا ظہور جب غیر نبی
سے ہو تو صاحب ِکشف ممکن ہے اس پر یقین کر لے ۔عامۃ المسلمین اس کے پابند نہیں۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۲)
سلفی صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا
کہ وہ ’’کشف ‘‘ کا وجود مانتے ہیں جب کہ موجودہ دَور کے کئی غیرمقلد لکھاری اسے
علم غیب کہہ کر اس کا انکار کرتے ہیں ۔چنانچہ حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ خلاصہ یہ کہ کشف بھی غیب دانی کا
ایک نام ہے اور امت مسلمہ میں قیامت تک کسی کو کشف یا الہام نہیں ہوتا۔ ‘‘
( توضیح الاحکام :۱؍۸۸)
سیدنا سعید بن المسیب کا روضہ نبوی سے آواز سننا
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’واقعہ حرہ میں سعید بن مسیب رحمہ
اللہ کا مسجد نبوی میں اذان سننا مدعا کے لحاظ سے
بالکل بے معنی ہے۔ سعید بن مسیب آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی آواز نہیں پہچانتے تھے۔ممکن ہے یہ آواز کسی پاک باز جن یا فرشتہ کی
ہو۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۲)
۱۔سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا روضہ نبوی سے آوازیں
سننا حدیث کی مشہور کتاب ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ میں مذکور ہے ۔صاحب ِ مشکوۃ نے
اس واقعہ کو ’’باب الکرامات ‘‘ کے تحت درج کیا ہے ۔یعنی سیدنا سعید ابن المسیب رحمہ
اللہ کا روضہ سے آنے والی آواز کو سننا کرامت ہے ۔ سلفی صاحب نے مشکوۃ کی شرح میں
اس مقام پہ لکھا:
’’ اس حدیث
سے سعید ابن المسیب کی فضیلت نکلی ۔‘‘
( شرح مشکوۃ مترجم :۴؍۳۹۴)
۲۔ مولانا
محمد اسماعیل کے نام کے ساتھ ’’ سلفی ‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے ،لہذا انہیں چاہیے تھا
کہ ’’سلفی ‘‘ لفظ کی لاج رکھتے ہوئے یہاں علمائے سلف کے حوالے پیش کرتے کہ روضہ سے
آنے والی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں بلکہ کسی جن یا فرشتہ کی تھی۔
۳۔ مزید یہ کہ صاحب واقعہ روضہ سے آنے والی آواز کو نبوی
آواز کہتے ہیں اور سلفی صاحب اسے جن و فرشتہ کی آواز باور کرا رہے۔قابلِ غور بات
ہے کہ صاحب واقعہ کی بات کو ترجیح دیں یا واقعہ سے صدیوں بعد پیدا ہونے والے سلفی
صاحب کی تاویل کو راجح کہیں۔
برزخی زندگی دنیا وی زندگی سے اعلیٰ و ارفع ہے
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’برزخی
زندگی دنیوی زندگی سے بدرجہا اعلیٰ اور ارفع ہے ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۳)
سلفی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے لیے دنیاوی زندگی کا اگرچہ انکار کیا مگر یہ تسلیم کر لیا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو برزخ میں حاصل شدہ زندگی اُن کی دنیاوالی زندگی سے اعلی و
ارفع ہے ۔
دیوبندی اہلِ توحید اور اہل ِ علم و عقل ہیں
سلفی صاحب نے
دیوبندیوں کو مخاطب کرکے لکھا :
’’خان صاحب بریلوی اور ان کے اتباع
عقل اور علم سے بے نیاز ہیں لیکن آپ حضرات غور فرمائیں اہلِ توحید تو علم و عقل سے
خالی نہیں ہوتے ؟ ان فی ذلک لآیات لاولی النھی ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ۴۳ )
مولانا ابو ذر بخاری رحمہ اللہ
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’اتفاقاًرسالہ ’’ حیات النبی ‘‘
مؤلفہ مولانا اخلاق حسین ملا۔ جس کا پیش ِلفظ مولانا سید ابوذر بخاری نے لکھا
ہے۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۳)
حدیث کو خلاف پاکر تاویل کرنے کا طعن
سلفی صاحب نے
حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھا:
’’مولانا اسی حدیث یرد اللہ علی روحی
کی توجیہ فرمانے کی کوشش فرمائی ۔ یہ حدیث چوں کہ دیوبندی مکتب ِ خیال کے خلاف ہے
اس لیے اس کی تاویل فرمائی گئی ہے کہ یہ راستہ سے ہٹ جائے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۳)
غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ محدثین خود
کو حدیثوں کے مطابق ڈھالتے ہیں نہ کہ حدیثوں میں تاویل کرکے اپنے مذہب کے مطابق
کرتے ہیں۔ اگلی بات ہم عرض کر دیتے ہیں کہ حدیثوں میں تطبیق دینے کے لیے محدثین نے
بھی اس حدیث میں مختلف تاویلیں کیں۔جن محدثین نے اس حدیث میں تاویل کی ہیں اُن میں
سے چند کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ۔ ( فتح الباری :۶؍ ۳۵۲ طبع مصر )
علامہ سخاوی رحمہ اللہ ۔ ( القول البدیع صفحہ ۱۲۷ طبع الہ آباد الھند)
حافظ ابن
الملقن رحمہ اللہ ۔ ( بحوالہ
تحفۃ الذاکرین للشوکانی صفحہ ۲۸ و دلیل الطالب لنواب صدیق حسن صفحہ ۸۴۳ )
علامہ عزیزی
رحمہ اللہ ۔ ( السراج
المنیر :۳؍۲۷۸)
علامہ سیوطی
رحمہ اللہ ۔ ( انباہ
الاذکیا صفحہ ۱۰)
حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ نے
مذکورہ بالا حضرات کی عبارات اپنی کتاب ’’ تسکین الصدور صفحہ ۳۰۱ تا ۳۰۴ میں نقل
کر دی ہیں۔ خود غیرمقلدین بھی اس حدیث کی تاویل کیا کرتے ہیں مثلاً اُن کے’’ امام
‘‘علامہ وحید الزمان نے لکھا:
’’ ردِ رُوح
سے اس کا متوجہ ہونا مراد ہے۔ ‘‘
( لغات الحدیث : ۲؍۶۳، ر )
حاصل یہ کہ علمائے دیوبند نے حدیثوں
میں تطبیق دینے کے لیے زیر بحث حدیث کی بابت محدثین سے تاویل نقل کی ہے، نہ کہ اس
لیے کہ یہ اُن کے مذہب کے خلاف ہے۔ اگرسلفی صاحب کے الزام کو درست مان لیا جائے تو
محدثین اور خود غیرمقلدین پر الزام عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے حدیث کو اپنے مذہب کے
خلاف پا کر اسے تاویل کی نذر کر دیا ہے ۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کو خراجِ تحسین
سلفی صاحب نے
حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھا:
’’حضرت مولانا کی جلالتِ قدر، دقت
نظر، وسعتِ معلومات، تقویٰ للہیت معلوم اور مسلّم ہے۔ قلم لزرتا ہے کہ مجھ ایسا کم
سوادعلم وحکمت کے سمندر کے خلاف تنقید کا انداز اختیار کرے لیکن ...۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۳)
علمائے دیوبند گالیاں نہیں دیتے اور جھوٹ بھی نہیں بولتے
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’حضرات دیوبند پہلی دو بیماریوں سے قریباً
محفوظ ہیں۔ گالیاں نہیں دیتے، جھوٹ نہیں بولتے۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۵)
سلفی صاحب کی طرف سے اتنا بھی تسلیم کر لینا
غنیمت ہے کہ دیوبندی حضرات گالیاں نہیں دیتے اور جھوٹ بھی نہیں بولتے ۔اس کے
بالمقابل گالی اور جھوٹ کے حوالہ سے غیرمقلدین کاکردار کیا ہے، اس کے لیے رسائل
اہلِ حدیث جلداول و دوم ملاحظہ فرمائیں ۔
امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ کے لیے رضی اللہ عنہم
کا جملہ بولنا اور انہیں اپنے آباء کہنا
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’اساتذہ کا احترام دوسری چیز ہے اور
علم و دانش سے صرف نظر بالکل دوسرا اَمر۔ اس میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے
تلامذہ کرام کا اُسوۂ آپ کے سامنے ہے کہ احترام اور اختلاف بیک وقت چل رہے ہیں ...
رحمھم
اللہ ورضی عنھم ۔ اولئک آبائی فجئنی بمثلھم ، اذا جمعتنا یا جریر المجامع۔‘‘ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ ۴۶)
اس عبارت میں سلفی صاحب نے امام ابو
حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے لیے ’’ رضی اللہ عنھم ‘‘ لکھا ۔ مزید یہ کہ انہوں نے ان مقدس شخصیات کے لیے
عربی شعر درج کیا جس میں کہا گیا :
’’یہ میرے آباء ہیں ان جیسا لا کر دکھاؤ‘‘ ۔
حدیث سے مخلصی کے لیے سند پر جرح کردی
سلفی صاحب نے
حدیث نبوی ’’رد اللہ علی روحی ‘‘ سے مخلصی کی صورت بیان کرتے
ہوئے لکھا:
’’اس حدیث سے مخلصی کی ایک اور راہ
بھی ہوسکتی تھی کہ اس کے رواۃ میں ابو صخر حمید بن زیاد ہیں۔ مسلم نے اس کی متابعت کے
طور پر روایت کی ہے ... حدیث پر جرح کرکے مخلصی ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ۴۷ )
یہ حدیث محدثین اور خود غیرمقلدین کے
ہاں بھی صحیح ہے مگر سلفی صاحب اس حدیث پر عمل کی بجائے مخلصی کی راہ دکھا رہے ہیں
کہ اس کی سند پر جرح کرکے جان چھڑا لو۔ مزید یہ کہ سلفی صاحب نے حدیث سے مخلصی
پانے کے لیے جس راوی کو مجروح قرار دیا وہ ان کے بقول مسلم کا راوی ہے جس سے یہ
تاثر ملتا ہے کہ مسلم میں ضعیف راوی بھی موجودہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا زہد و ورع
سلفی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ امام احمد
اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے زہد و ورع کے مطابق ...‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ۴۸ )
دیوبند کے علمی اقتدار
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’ دیوبند کے علمی اقتدار اور حضرت
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی رفعت ِ مقام کی بنا پر جب کوئی مسئلہ ان حضرات کی طرف
سے آئے تو اس سے صرف ِ نظرممکن نہیں۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ۵۰ )
اس عبارت کا حاصل یہ ہوا کہ جس مسئلہ
پر شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور علمائے دیوبند کا اتفاق ہو، اسے چھوڑا نہیں جا
سکتا۔اس اُصول کی رُو سے تقلید سے انکار کی گنجائش نہیں رہتی کیوں کہ شاہ ولی اللہ
رحمہ اللہ اور علمائے دیوبند دونوں نے تقلید کوضروری مانا ہوا ہے۔ اسی اُصول سے
دیگر کئی معرکۃ الاراء مسائل حل ہو سکتے ہیں مثلاً تصوف و طریقت کی اہمیت اور
مسئلہ وحدۃ الوجود وغیرہ۔
آب ِحیات اور اس کے مصنف حضرت نانوتوی رحمہ اللہ
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’ حال ہی میں برادر محترم حضرت
مولانا محمد چراغ صاحب کی عنایت سے حضرت مولانا نانوتوی رحمہ اللہ کی ’’ آب حیات
‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ کے علم اور جلالت ِقدر کا پہلے
بھی یقین تھا ’’آب حیات ‘‘ دیکھنے سے اُن کا احترام اور بھی زیادہ ہوا۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ۵۰ )
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’ابنائے
دیوبند سے ادبا ً گزارش ہے کہ اکابر ِ دیوبند بے شک قابل احترام ہیں لیکن وہ اپنے
وقت کے ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ابو یوسف رحمہ اللہ نہیں ہیں کہ ان کی ہر بات
تقلید ۱ًمان لی جائے۔ ‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ نمبر: ۵۱ )
اس عبارت میں
دو باتیں بیان ہوئیں :
۱۔ اکابر دیوبند بے شک قابل ِ
احترام ہیں ۔
۲۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مقتداہیں جن کی تقلید کی
جاتی ہے ۔
اہلِ حدیث سے لغزش نہ ہونے کا دعویٰ
سلفی صاحب ’’ حیات النبی اور اہل ِ حدیث ‘‘
عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’مجھے خوشی ہے کہ اکابر اہلِ حدیث
میں کسی سے اس قسم کی لغزش نہیں ہوئی۔ہمارے اکابر سے غزنوی خاندان کو تصوف سے جو
شغف رہا ہے وہ بحث و دلیل کا محتاج نہیں۔ لیکن حضرت عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ اور
ان کے ابنائے کرام اور تلامذہ ٔ عظام سے کوئی بھی اس قسم کی اعتقادی جمود کا شکار
نہیں ہوا... اسی طرح جن لوگوں نے علمائے یمن سے علوم ِ سنت کا استفادہ فرمایا ہے
وہ بھی ان کمزور اور دُور اَز کار تاویلات سے محفوظ رہے ہیں اور یہ ساری برکت اس
بناء پر ہے کہ یہ دونوں طریق تقلیدی جمود سے پاک ہیں ۔ان میں اساتذہ کا اَدب تو
یقینا ہے لیکن جمود اور تقلید نہیں ۔یہی محدثین کی اصل راہ ہے ۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ۵۱ )
۱۔ غیرمقلدین کا عمومی دعویٰ ہے کہ اہلِ حدیث دَورِنبوی
سے چلے آ رہے ہیں۔ اس لئے سلفی صاحب کو چاہیے تھا کہ مولانا عبد اللہ غزنوی سے
پہلے تیرہ صدیوں کے اپنے مزعوم اہلِ حدیث اکابر کاحیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی بابت نظریہ بیان کرتے۔اہل ِ حدیث عنوان کے تحت اُن کا تذکرہ نہ کرنے کی کیا وجہ
ہے ؟ وہ سلفی صاحب کے نظریہ کے خلاف ہیں، پچھلی تیرہ صدیوں میں رجسٹرڈ اہلِ حدیث تھے
ہی نہیں ، یا کوئی اور عذرہے؟
۲۔ یمن سے استفادہ کرنے والوں کے متعلق سلفی صاحب کا
دعویٰ ہے کہ وہ اُن کے ہم نوا ہیں۔ حالاں کہ شوکانی بھی
یمنی ہیں وہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
حدیث کو صحیح قرار دے کر اپنا نظریہ اس کے مطابق لکھ چکے، جیسا کہ پچھلے صفحات میں
ہم نے بحوالہ نقل کر دیا ہے۔
۳۔سلفی صاحب نے محدثین کوتارک ِ تقلید ؍ غیرمقلدقرار دیا
جس سے ہمارا اتفاق ضروری نہیں۔ محدثین کے مقلد ہونے پر علامہ عبد الرشید عراقی
غیرمقلد کی کتاب ’’ کاروان حدیث ‘‘ ملاحظہ کر لیں۔ بہر کیف سلفی صاحب کے بقول
محدثین تارک تقلید ہیں۔ اگلی بات ہم عرض کر دیتے ہیں کہ محدثین عقیدہ حیات کے قائل
تھے مثلاً حافظ ذہبی رحمہ اللہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرماتے ہیں:
’’ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی
ہے اور نہ ہر لحاظ سے جنتی ہے بلکہ اصحاب ِکہف کی زندگی سے مشابہ ہے ۔ ‘‘ ( سیر اعلام
النبلاء :۹؍۱۶۱)
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا مذکورہ حوالہ نقل کرکے لکھا:
’’حالاں کہ اصحاب کہف دنیاوی زندہ تھے
جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آ چکی ہے ۔ ‘‘
( علمی مقالات :۱؍۲۳)
۴۔ سلفی صاحب دعویٰ کر
رہے ہیں کہ اہلِ حدیث سے حیات النبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے لغزش نہیں ہوئی ۔ہم کہتے ہیں آپ کے مزعوم اہلِ
حدیث نے حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں بہت کچھ شائع کیا ہواہے، کچھ
حوالے بندہ نے اپنی کتاب ’’ فضائل اعمال کا عالادنہ دفاع ‘‘ میں نقل کر دئیے ہیں۔
۵۔سلفی صاحب کے بقول’’ اہلِ حدیث کے اکابر غزنوی خاندان
کو تصوف سے شغف رہا ہے ‘‘عرض ہے کہ سلفی صاحب کی یہ بات بجاضرور مگر یہ بھی حقیقت
ہے موجودہ دَور کے اکثر غیرمقلدین تصوف کے خلاف ہیں۔لہذا یہ کہنا درست ہوگا کہ
غیرمقلدین اپنے اکابر کی راہ سے فرار اختیار کر چکے ہیں۔
علمائے دیوبند کا علمی احترام
سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرات
اکابر دیوبند کے علمی احترام کے وسیع اثر نے مجبور کیا۔‘‘
( مسئلہ حیات النبی صلی اللہ
علیہ وسلم صفحہ۵۱ )
علی زئی کے ہاں ’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کتاب کی
حیثیت
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد’’عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’اس سلسلے
میں بہترین کتاب مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی
’’مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہے ۔‘‘
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں