فقہ غیر مقلدین قرآن و حدیث کے خلاف ہے
مولانا عبد الرحمٰن عابد صاحب حفظہ اللہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
14.شریعت:
جب صحابی رسول(ﷺ) حضرت عمرو بن
العاص(رضی اللہ عنہ) وفات کے وقت آیا تو اپنے بیٹوں کو کچھ وصیتیں کیں، ان میں سے
ایک یہ بھی تھا کہ:
"فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا
عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ
جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا ؛ حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا
أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي"
( صحیح مسلم، كتاب الايمان،جلد1 صفحہ192)
جب مجھے دفن کروگے تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال
دینا اور میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا
جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل مانوس ہوجائے ( اور میں
تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں ) اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے وکیلوں(فرشتوں )
کو کیا جواب دیتا ہوں۔
اسی طرح خود رسول اللہ ﷺ کا بھی
ارشادِ گرامی موجود ہے کہ
كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ
الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ وَسَلُوا
لَهُ التَّثْبِيتَ؛ فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ»
(سنن ابی داود،
رقم الحدیث 3221، کتاب الجنائز، ج2 صفحہ357)
ترجمہ : جب نبی کریم ﷺ میت کی
دفن سے فارغ ہوتے تو اس پر کھڑے ہوجاتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش کی دعا
کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا دعا کرو
کیونکہ اب اس سے سوال کیا جارہا ہے۔
غیرمقلدیت:
غیرمقلدین کے فضیلۃ الشیخ
ابوصہیب محمد بن عبدالرحمن صاحب عمرو بن العاص(رضی اللہ عنہ) کی حدیث ذکر کرکے
متصل اس حدیث کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"لیکن شیخ ابن عثیمین اور
شیخ ابن باز رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں اس قسم کی
عمل کو ترغیب نہیں دی ہے اور نہ امت کو دکھایا ہے بلکہ ان (رسول اللہ ﷺ) کا عمل تو
دفن کے بعد یہ تھا کہ لوگوں کو کہتے کہ آپ لوگ اپنے اس بھائی کے لئے مغفرت طلب
فرمائیے اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا فرمائے اس کے علاوہ اور کام انہوں نے نہیں
سیکھائی تو اس کا کرنا بھی جائز نہیں"
( د جنازی احکام او مسائل ص339)
معلوم ہوا کہ یہ لوگ صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین اور جناب نبی کریم ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں ابن باز اور
ابن عثیمین مرحوم کو لیتے ہیں اور انہی کے اقوال کے مقابلے میں حدیث چھوڑتے ہیں
العیاذ باللہ ۔
15.شریعت:
ہم جب نبی کریم ﷺ اور صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کی دور کی طرف نظر دوڑائے تو یہ مسئلہ بالکل واضح
اور شفاف نظر آرہا ہے کہ قبر کی سر اور پاؤں کی طرف سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی
جائے، مختصرًا چند حوالہ جات بطورِ مشت
نمونہ ازخروارے ملاحظہ کیجیے:
"۔۔۔۔۔۔ حدثنا ابو اسامۃ عبد اللہ
بن محمد بن ابی اسامۃ الحلبی، حدثنا ابی
ح وحدثنا ابراھیم بن دحیم الدمشقی، حدثنا ابی
ح وحدثنا الحسین بن اسحاق التستری، حدثنا علی ابن حجر۔
قالوا: حدثنا مبشر بن اسماعیل، حدثنی عبد
الرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیہ قال : قال لی ابی: یا بنی! اذا مت فالحدنی فاذا وضعتنی فی
لحدی فقل : بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، ثم سن علی التراب سنا، ثم اقرا عند راسی بفاتحۃ
البقرۃ وخاتمتھا، فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ذلک۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، الجز
التاسع عشر،ص220۔۔221)
ترجمہ: عبد الرحمٰن بن العلاء
اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد حضرت لجلاج رضی
اللہ عنہ نے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں تو مجھے لحد میں رکھ دینا، اور
جب مجھے لحد میں رکھو تو یہ دعا پڑھنا" بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ "
اور میرے سرہانے سورۃ بقرہ کا اول اور آخر پڑھنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہی
فرماتے سنا ہے۔
* ۔۔۔۔۔۔۔اخبرنا ابو عبد اللہ
الحافظ، ثنا ابو العباس احمد بن یعقوب، ثنا العباس بن محمد، سالت یحیی بن معین عن
القراءۃ عند القبر، فقال: حدثنا مبشر بن اسماعیل الحلبی، عن عبد الرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیہ
انہ قال لبنیہ: اذا ادخلتمونی قبری فضعونی فی اللحد وقولوا: بسم اللہ وعلی سنۃ رسول اللہ"، وسنوا علی التراب سنا، واقراؑو ا عند راسی اول البقرۃ وخاتمتھا ، فانی راؑیت
ابن عمر یستحب ذالک۔
(السنن الکبری الجز الرابع، ص93، کتاب الجنائز، باب ما ورد فی قراۃ القرآن عند القبر/الدعوات الکبیر الجز الثانی، ص297)
ترجمہ:۔عبد الرحمٰن بن العلاء
اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ علاء بن لجلاج نے اپنے بیٹوں سے فرمایا کہ جب تم
مجھے قبر میں داخل کرو تو مھجےلحد میں رکھ دینا اور یہ دعاپڑھنا" بسم اللہ
وعلی سنۃ رسول اللہ"، اور مجھ پر مٹی ڈالو اور میرے سرہانے سورۃ بقرہ کا اول
اور آخر پڑھنا کیونکہ میں نے ابن عمر کو دیکھا کہ اسے مستحب سمجھتے تھے۔
نوٹ: پہلی روایت
میں صحابی رسول حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ذلک فرما رہے ہیں
اور دوسری روایت میں صحابی کا بیٹا حضرت علا بن لجلاج تابعی اپنے بیٹوں کو وصیت
کرتے ہوئے راؑیت ابن عمر یستحب ذلک فرمارہے
ہیں۔لہذا دونوں رویتوں میں کوئی تضاد وتعارض نہیں۔
گویا دونوں روایتوں میں نبی کریم ﷺ، دو صحابی حضرت لجلاج اور عبد اللہ ابن عمر رضی
اللہ عنہما اور ایک تابعی
علاء بن لجلاج سے اس مسئلہ کا ثبوت مل رہا ہے اور امام خلّال ؒ
بھی بایں الفاظ نقل کرتے ہے :
وسالت یحیی بن معین فحدثنی بھذا الحدیث۔۔۔ (الامر بالمعرف والنھی عن المنکر/ کتاب القراءۃ عند القبور ص87)
۔۔۔ امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اس راوی کی ضمنی توثیق کر رکھی ہے
کیونکہ ان کے سامنے جب عبد الرحمن بن العلاء کی روایت امام محمد ابن قدامہ جوہری
نے سنائی تو آپ نے رجوع کرکے اس کے موافق عمل کرنے کا حکم دیا۔ امام ابو بکر
الخلال نے اس واقعہ کو دو سندو ں سے روایت کیا ہے
پہلی سند:۔۔۔ اخبرنی الحسن بن احمد الوراق، ثنی علی بن موسی الحداد۔ وکان صدوقا، وکان ابن
حماد المقری یرشد الیہ۔ فاخبرنی قال: کنت مع احمد حنبل فی جنازۃ، فلما
دفن المیت جلس رجل ضریر یقرا عند القبر۔۔۔۔۔ الخ۔۔۔۔۔
دوسری سند:۔۔۔۔ واخبرنا ابو بکر بن صدقۃ قال: سمعت عثمان بن احمد بن ابراھیم الموصلی قال: کان ابو عبد اللہ احمد بن حنبل فی الجنازۃ۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔۔۔۔
دوسری سند میں ابوبکر احمد بن عبد اللہ بن صدقۃ
بغدادی ہیں، علامہ ذہبی نے ان کو الحافظ کے لقب سے یاد کیا ہے اور لکھا ہے کہ
موصوف نے امام احمد ؒ سے مسائل حاصل کئے ہیں اور ان سے امام خلالؒ نے استفادہ کیا
ہے ( تاریخ الاسلام)۔ ان کا انتقال293ھ کو ہوا ہے۔( طبقات الحنابلۃ)
اور عثمان بن احمد موصلیؒ کے متعلق قاضی ابو
یعلی فرماتے ہیں صحب امامنا وروی عنہ اشیاء۔ کہ وہ
ہمارے امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ رہے ہیں اور ان سے بہت سے مسائل نقل کئے ہیں۔ اس
کے بعد قاضی ابویعلی نے مذکورہ قصہ بھی ان کے حوالے سے نقل کیا ہے
امام بیہقی ؒ نے دعوات الکبیر میں عبد الرحمن بن العلاء کی
روایت کو حسن کہا ہے۔
ھذا موقوف حسن۔۔۔ (الدعوات الکبیر الجز الثانی، ص297)
۔۔۔۔۔۔ امام نووی ؒ نے عبد
الرحمن بن العلاء کی روایت کو حسن کہا ہے۔
وروینا فی سنن البھیقی باسناد
حسن۔۔۔ (الاذکارا لنوویۃ ص 137)
۔۔۔۔۔۔ علامہ ہیثمیؒ نے عبد
الرحمن بن العلاء کو ثقہ قرار دیا ہے۔
اسی قراءۃ والی روایت کے
متعلق فرماتے ہیں:
رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون۔۔۔
( مجمع الزوائد الجز الثالث ص124 رقم:4243)
اور دوسرے مقام پرعبد الرحمن بن
العلاء کی طبرانی والی روایت کے متعلق
فرماتے ہیں:
رواہ الطبرانی وفیہ المعلی بن الولید ولم اعرفہ ،و بقیۃ رجالہ ثقات۔۔
( مجمع الزوائد الجز الخامس ص23 رقم7961)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ منذریؒ بھی عبد الرحمن بن العلاء کی طبرانی والی ایک
روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
رواہ الطبرانی باسناد لا باس بہ۔۔۔
( الترھیب والترغیب الجز الثالث ص101 رقم13)
۔۔۔۔۔۔علامہ شمس الدین محمد بن
مفلح المقدسیؒ نے بھی عبد الرحمن بن لعلاء والی روایت کی تصحیح کر رکھی ہے۔
و صح عن ابن عمر۔۔۔ ( کتاب الفروع الجز الثالث ص420 کتاب الجنائز)
۔۔۔۔۔۔ علامہ ابن حجر نے امام
بیہقی کی سند کی تخریج کرتے ہوئے عبد الرحمن بن العلاء کی روایت کو حسن کہا ہے۔
ھذا موقوف حسن۔۔۔ ( نتائج الافکار ،الجزء الرابع، ص426/ الفتوحات الربانیۃ لمحمد علی
بن محمد
علان الجز الرابع ص136)
عبد اللہ بن عمر کی مرفوع حدیث کو امام خلال ؒ،
امام طبرانیؒ اور امام بیہقیؒ نے روایت کی ہے۔
امام خلال ؒ فرماتے ہیں:
واخبرنی العباس بن محمد بن احمد بن عبد الکریم قال: حدثنی ابو شعیب عبداللہ
بن الحسین بن احمد بن شعیب الحرانی من
کتابہ، قال: حدثنی یحیی بن عبد اللہ الضحاک البابلتی، حدثنا ایوب بن نھیک الحلبی الزھری
مولی آل سعد بن ابی وقاص قال: سمعت عطاء بن ابی رباح المکی، قال
سمعت ابن عمر، قال: سمعت النبی ﷺ یقول: اذا مات احدکم فلاتحبسوہ، واسرعوا
بہ الی قبرہ ، ولیقراعند راسہ بفاتحۃ البقرۃ، وعند رجلیہ بخاتمتھا فی قبرہ۔۔
(الامر بالمعرواف والنھی عن المنکر
ص88 وکتاب القراء ۃ عند القبورص2)
الغرض! یہ مسئلہ بھی شریعت بمع
سلف صالحین رحمہم اللہ سے ثابت اور مصرّح ہیں، اس موضوع پر ہم نے مستقل 100(سو)
حوالہ جات اپنی تصنیف" حکم القرأۃ عندالقبور" میں جمع کئے ہیں تفصیل
وہاں ملاحظہ کیجئے۔
غیرمقلدیت:
اب غیرمقلدین کا نظریہ اور فقہ
شریعت کے خلاف ملاحظہ کیجئے۔ غیرمقلدین کے مناظر اور شیخ الحدیث مولانا افضل
السواتی السلفی صاحب لکھتے ہیں:
"عام اہلِ بدع جو کرتے ہیں
اس کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج ہیں، ایک طریقہ یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کے اول اور
آخر پڑھ لیجئے ۔۔۔الخ "
(حکم القرأۃ عندالقبور ص28)
آگے اس کو شرک کے زمرے میں شمار
کرتے ہوئے لکھتے ہیں
" اور دوسرا زیارتِ بدعیہ
ہے کہ انسان وہاں جائے تو وہاں نماز پڑھتے ہیں اموات سے حاجات مانگتے ہیں اور طواف
کرتے ہیں اور قبر کے جنگلے کو چھومتے ہیں اور اس کی استیلام کرتے ہیں رکن یمانی کی
طرح اور وہاں قرآن پڑھتے ہیں سورت الفاتحہ اور اخلاص وغیرہ پڑھ کر اموات کو بخشتے
ہیں تو یہ زیارت زیارۃِ بدعیہ شرکیہ ہیں"( ایضًا ص31 و 32)
اور دوسری جگہ اس کے قاری(پڑھنے
والے) کو لعنت کا مستحق قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"تو یہ مصلی عندالقبر اور
ذاکر عندالقبر اور قاری عندالقبر رسول اللہﷺ کی لعنت میں داخل ہوا
(ایضًا صفحہ 46)
اسی طرح کئی
غیرمقلدین کی کتابوں میں اس کو صریح بدعت کہا ہے چند کتب اختصارًا ملاحظہ کیجیے :
فتاوی الدین الخالص ج7ص236،
الحق الصریح ج6ص617 614 کلاھما لامین اللہ البشاوری، د جنازی
أحکام او مسائل لابی صہیب ص312 وغیرہ
16.شریعت:
شریعتِ مطہرہ میں یہ بات بھی
صاف اور واضح معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا قبرستان جانا جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا:
«کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ
زِيَارَةِ الْقُبُورألاِ فَزُورُوهَا فانها تذکرکم الآخرة»
(صحيح مسلم، الجنائز، باب استئذان
النبی ربه عزوجل فی زيارة قبر امه)
ترجمہ: "میں نے تمہیں
قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، تو سنو! اب تم ان کی زیارت کیاکرو کیونکہ قبروں کی
زیارت تم کو آخرت کی یاد دہانی کرانے کا ذریعہ ہے۔"
عورتوں کا
زیارت قبور کی نیت سے قبرستان جانا جائز اور مستحسن امر ہے، بشرطیکہ شرعی آداب و
حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستر و حجاب سے متعلق احکام کی پابندی کی جائے اور
نالہ و شیون سے گریز کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اول اول مرد و زن ہر دو کو قبروں کی
زیارت سے منع فرمایا تھا، لیکن بعد ازاں یہ ممانعت ختم فرمادی۔
ظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مردوں
اور عورتوں کے لیے یکساں تھی، اسی طرح اب زیارت قبور کا حکم بھی دونوں ہی کے لئے
ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے زیارت قبور کے جو مقاصد اور حکمتیں بیان فرمائی
ہیں، خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ مردوں کو، لہٰذا اگر وہ ان کے
پیش نظر قبرستان جانا چاہیں، تو ان کیوں کر روکا جا سکتا ہے؟
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کا بھی یہی موقف ہے چنانچہ مروی ہے کہ
ایک مرتبہ سیدہ اپنے بھائی
عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر سے واپس آرہی تھیں کہ
عبداللہ بن ابی ملیکہ نے استفسار کیا کہ کیا
رسول خدا ﷺنے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا؟ ام المومنین نے جواب دیا: ہاں یہ
درست ہے، لیکن بعدازاں آپ ﷺ نے اس کی رخصت مرحمت فرما دی تھی۔
(مستدرک الحاکم
ج1ص376، رقم الحدیث1392، صحیح)
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ قبروں کے پاس کیا کہنا چاہیے، تو آں
حضرت ﷺ نے یہ کلمات سکھلائے:
السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ،
وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا
إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ. (مسلم)
’’اے ان گھروں والے مومنو اور
مسلمانو! تم پر سلامتی ہو۔ ہم میں سے آگے جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں پر خدا
سلامتی فرمائے اور خدا نے چاہا تو ہم بھی جلد ہی تمہیں ملنے والے ہیں۔‘‘
اس سے استدلال یوں ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ نہیں فرمایاکہ عورتوں کے لیے تو زیارت
قبور ہی ممنوع ہے پھر دعا کا سوال کیسا؟ بل کہ آپ ﷺ نے انہیں باقاعدہ دعا بتلائی
جس سے عورتوں کے لیے زیارتِ قبور مشروع معلوم ہوتی ہے۔دیگر کئی حوالے اور بھی ہے لیکن اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
غیرمقلدیت:
اب غیرمقلدین کا شریعت کے خلاف
مسئلہ ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ امین اللہ پشاوری کے
مدرسہ کا مہتمم اور مشہور مصنف عبداللہ فانی صاحب لکھتے ہیں:
"علماء محققین کی تحقیق کے
مطابق قبرستان کو عورتوں کا جانا حرام اور فتنے اور بےحیائی کی سبب
ہے"(انتخابِ مشکوۃ ج1ص320)
اور اسی طرح مشہور غیرمقلد صادق
سیالکوٹی صاحب مردوں کا تخصیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
" مردوں کو قبروں کی زیارت
کرنا سنت ہے"
( صلوۃ الرسول ص443)
اور پشاور میں غیرمقلدین کے
مدرسے کا نصاب میں پڑھی جانی والی کتاب میں صادق اللہ صافی صاحب یوں عنوان(قبروں
کی زیارت کرنا) قائم کرکے لکھتے ہیں:
"نزدیک قبرستان کو جانا
سنت ہے صرف مردوں کے لئے"
( محفوظات ج2ص118، حصہ الفقہ)
17.شریعت:
یہ شرعی مسئلہ کس سے مخفی ہوگا
کہ متعہ حرام ہے جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کو اللہ نے منع کیا
ہے
"ان اللہ قد حرم المتعۃ الی یوم
القیامۃ "
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے متعہ کو قیامت تک کےلئے حرام کردیا ہے۔
دیگر کئی دلائل اس موضوع پر
موجود ہیں۔
غیرمقلدیت:
امام اہل حدیث نواب وحیدالزمان
صاحب لکھتے ہیں:
"وکذالک لابأس یتبع الرخص واختیار
قول اھل المدینۃ فی الغناء واختیار قول أھل الکوفۃ فی النبیذ و اختیار قول أھل
المکۃ فی المتعۃ اذا اجتھدوا عرف أن الحق معھم ۔۔۔"
(ھدیۃ المھدی ص112)
یعنی اسی طرح اس میں کوئی حرج نہیں
ہے کہ آدمی رخصتوں کے پیچھے لگا رہے، اور گانے کے سلسلے میں اہلِ مدینہ کا قول
اختیار کرے، نبیذ کےسلسلہ میں کوفہ والوں کا قول لے، اور متعہ کے سلسلہ میں اہل
مکہ کے قول پر عمل کرے البتہ پہلے وہ اجتہاد کرے اور یہ جان لے کہ حق انہی کےساتھ
ہے۔
مطلب۔۔ بس
اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ حربہ استعمال کرتے رہے کہ یہ میرا
اجتہاد ہے اور اسی کو حق پر سمجھتا ہوں اور یوں اس کے آڑ میں مزے اڑاتے جائے۔
رخصتوں کے آڑ
میں متعہ تک کو جائز قرار دیتے ہیں یہ لوگ، استغفراللہ العظیم
اور دوسری
جگہ تو صاف لکھتے ہیں:
"وقد ثبت ذلك بآيات القرآن اباحۃ
المتعۃ"
(نزل الابر ار.
ج ۲ ص33)
کہ قرآن کی آیاتوں سے متعہ کی
اباحت(جائز ھونا) ثابت ہے
انا للہ وانا الیہ راجعون!
18.شریعت:
شریعتِ مطہرہ میں نماز تراویح
کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے اور اس کی تعداد پر بھی بالآخر اجماع ہوا ہے۔
دلیل نمبر ۱:
"قال الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي
(مـ 235 هـ) : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ
عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ
عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653، السنن الكبرى للبیہقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ
رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ.)
دلیل نمبر ۲:
روی الامام المورخ أبو القاسم حمزة
بن يوسف السهمي الجرجاني (م427ھ): حدثنا أبو الحسن
علي بن محمد بن أحمد القصري الشيخ الصالح رحمه
الله حدثنا عبد الرحمن بن عبد المؤمن العبد الصالح قال أخبرني محمد بن حميد الرازي
حدثنا عمر بن هارون حدثنا إبراهيم بن الحناز عن عبد الرحمن عن عبد الملك بن عتيك
عن جابر بن عبد الله قال خرج النبي صلى الله عليه و سلم ذات ليلة في رمضان فصلى
الناس أربعة وعشرين ركعة وأوتر بثلاثة.
(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)
اسنادہ حسن و رواتہ ثقات۔
فائدہ: اس روایت
میں چار رکعت فرض، بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔
اسی طرح اس تعداد پر اجماع بھی
ہے اور چار مذاہب اسی پر قائم و دائم بھی ہے الحمدللہ
تفصیل کے لئے ہماری
کتاب"تراویح شل رکعاتہ مسنون دی" ملاحظہ کیجئے جو کہ امین اللہ پشاوری
صاحب کے تلمیذ کی کتاب کے جواب میں لکھا گیا ہے جو کہ تا ہنوز ان سے جواب نہیں بن
سکا الحمدللہ۔
غیرمقلدیت:
اب غیرمقلدین کی شریعت کے خلاف
موقف بھی ملاحظہ کیجئے چنانچہ غیرمقلدین کے امام اہل حدیث نواب وحیدالزمان صاحب
لکھتے ہیں:
"ولایتعین لہ عدد معین"(کنزالحقائق ص30)
کہ تراویح
میں کوئی عدد معین نہیں ہے۔
اور نواب نورالحسن خان صاحب
لکھتے ہیں:
"وبالجملہ عددے معین
درمرفوع نیامدہ "
( عرف الجادی ص84)
اور مولوی عثمان صاحب لکھتے
ہیں:
" مقلدین کی ایک بڑی جماعت
نے بیس رکعت مقرر کرکے بدعت شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے"
( رفع الاختلاف ص56)
اور مولوی یونس قریشی صاحب
غیرمقلد لکھتے ہیں
"البتہ بیس یا تیس کی عداد
معین اور خاص کرنا درست نہیں کیونکہ اس عمل کے بدعت ہو جانے کا خوف ہے"
( دستورالمتقی 162)
نماز میں
مصحف کودیکھ کرتلاوت کرنا
شریعت :
جناب نبی
کریم ﷺ نےفرمایا
"صلّوْا کما رأیْتُمُوْنِیْ
اُصلیْ"
(صحیح البخاری حدیث نمبر 631)
یعنی اس طرح
نماز پڑھو جیسا کہ تم مجھے نماز پڑھتے دیکھ رہے ہو
دور نبوی ﷺ کی تئیس سالہ زندگی میں
کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نےنماز کی حالت میں قرآن دیکھ کر پڑھا ھو یہاں تک کہ
ابتدائی دور میں تو نماز میں بات چیت کرنےکی اجازت بھی تھی لیکن اس دور میں بھی
قرآن دیکھ کر پڑھنا ثابت نہیں ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ
دخل رسول اللہﷺ الکعبۃ ماخلف بصرہ موضع سجودہ حتی خرج منہا
رواہ الحاکم فی ’’المستدرک ‘‘۱/۴۷۹ (۱۷۶۱) وقال : حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم
یخرجاہ
جب آپ ﷺ کعبہ
میں داخل ہوئے تو نکلنے تک اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ سےنہیں اٹھائی۔
بغاوت :
قارئین کرام خود سوچ لیں کہ حالت نماز
میں قرآن یاموبائل دیکھ کرتلاوت کرنا اس حدیث کی خلاف ورزی نہیں ؟ اور یہ ایسی چیز
نہیں ہےجو نمازی کو مشغول بنادیتا ہے قرآن کریم کو جیب سےنکالنا یا موبائل کو جیب
سےنکالنا اور اس کی کوڈ آن کرنا،اور پھر اس کی صفحات الٹ پلٹ کرنا اور پھر انگلیوں
سےآگےپیچھے کرکے ایپ اوپن کرنا اور مخصوص جگہ تلاش کرنا! یہ محض حدیث کا خلاف ہی نہیں بلکہ دین کامذاق
بھی ہے جو غیرمقلدین حضرات کا بےدلیل عمل ہے اللہ ہمیں قرآن و حدیث کی صحیح معنوں
میں متبعین و مقلدین بنائے ۔اس جگہ مشہور غیرمقلد عبداللہ بہالپوری صاحب کا یہ قول
یاد آیا کہ
" ہم کام کےاہلحدیث نہیں بلکہ نام کے
اہلحدیث ہے"
(رسائل بہالپوری ص580)
۲۰: مصحف اٹھا کر تلاوت کرنا
شریعت :
عن قبيصة بن هلب، عن ابيه، قال: كان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم "يؤمنا فياخذ شماله بيمينه"
(سنن الترمذی ج1 رقم الحدیث 252)
ترجمہ: ہلب
طائی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ
سے پکڑتے۔
نمازمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی
احادیث متعدد صحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں۔
مثلاً:
1- وائل بن حجر ؓ(مسلم: ۴۰۱ وابوداؤد: ۷۲۷)
2- جابر ؓ (احمد ۳۸۱/۳ح ۱۵۱۵۶ وسندہ حسن)
3- ابن عباس ؓ (صحیح ابن حبان ، الموارد: ۸۸۵ وسندہ صحیح)
4- عبداللہ بن جابر البیاضی ؓ ؓ(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی ۱۶۱۰/۳ ح۴۰۵۴وسندہ حسن واوردہ الضیاء فی المختارۃ
۱۳۰/۹ح۱۱۴)
5- غضیف بن الحارث ؓ (مسند احمد ۱۰۵/۴، ۲۹۰/۵ وسندہ حسن)
6- عبداللہ بن مسعود ؓ (ابوداؤد: ۷۵۵ وابن ماجہ: ۸۱۱ وسندہ حسن)
7- عبداللہ بن زبیر ؓ (ابوداؤد: ۷۵۴ واسنادہ حسن واوردہ الضیاء
المقدسی فی المختارۃ ۳۰۱/۹ح ۲۵۷)یہ حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث
المتواتر ص۹۸ ح ۶۸)
بغاوت :
اب غیرمقلدین
کا ان احادیث سے بغاوت ملاحظہ کیجئے غیرمقلدین عموماً ماہ رمضان المبارک میں
تراویح کی حالت میں قرآن یا موبائل اٹھا کر ان احادیث بالا کی مخالفت کرتے ہیں ہے
نبی کریم ﷺ کا کیا عمل تھا اور غیرمقلدین کا کیا عمل ہیں اللہ معاف فرمائیں ۔
۲۱: مالِ تجارت میں زکوۃ
شریعت :
قرآن کریم
میں ہے
"ياأيُّها الّذِين آمنُوا
انْفِقوا مِنْ طيِّباتِ ما كسبْتمْ وممَّا أخْرجْنا لكُمْ مِن الْارْض“
(سورۃ البقرۃ:267)
اے ایمان
والو ! جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو
(اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اﷲ کے راستے میں) خرچ کیا کرو)
·
مجاہد ؒ (المتوفی: 102ھ) اس آیت
کی تفسیر میں کہتے ہیں:
یہ آیت تجارت
کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
·
سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ:
وعنْ سَمُرۃ بْن جُنْدُبٍ ؓ قال: كان رسُولُ اللہ ﷺ يَأْمُرُنا; أنْ نُخْرج الصَّدقۃ من الذِي
نعُدُّهُ لِلْبيْع
ِ (سنن ابی داؤد (1562)
(رسول اللہﷺ
ہمیں ان چیزوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے جو ہم تجارت کیلئے تیار کرتے
تھے)
·
ابن عبد البر ؒ نے اسے حسن کہا ہے، اور امام
ابوداود ؒ نے اس کی حکم سے سکوت اختیار کیا ہے اور غیرمقلدین کا یہ اصل انکی
کتابوں میں درج ہے کہ امام ابوداؤد ؒ کا سکوت قابلِ احتجاج و قابلِ استدلال ہے
(دیکھے فتاوی حصاریہ ج3ص14)
·
دارقطنی ؒ اور حاکم ؒ نے ابو ذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے
روایت کیا ہے کہ آپ فرما رہے تھے: (اونٹوں میں زکوٰۃ ہے، بکریوں میں زکوٰۃ ہے،
گائے میں زکوٰۃ ہے، اور کپڑے میں بھی زکوٰۃ ہے)الحدیث
·
حافظ ابن حجر ؒ "تلخیص
الحبیر" (2/391) میں کہتے ہیں: "اس کی سند میں کوئی قابل
اعتراض بات نہیں ہے" اور نووی ؒ نے اسے "المجموع"(6/4) میں صحیح
کہا ہے۔
اس حدیث میں سامانِ تجارت پر زکوٰۃ لاگو ہونے کی
دلیل ہے، کیونکہ عام کپڑوں میں اس وقت تک زکوٰۃ نہیں ہوتی جب تک وہ تجارت کیلئے نہ
ہوں، اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہی ہوگا کہ
یہاں کپڑوں میں زکوٰۃ سے مراد تجارت کی غرض سے لئے جانے والے کپڑے ہیں۔
·
بخاری(1468) مسلم(983) میں ابو
ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عمر ؓ کو زکوٰۃ وصولی کیلئے روانہ فرمایا تو
ابن جمیل ، خالد بن ولید، اور رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہم نے زکٰوۃ ادا نہ کی، تو رسول اللہ.ﷺ نے فرمایا:
(ابن جمیل اس لیے ادا نہیں کر رہا کہ پہلے فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی بنا دیا
ہے! جبکہ خالد سے تم زیادتی کر رہے ہو،
کیونکہ اس نے اپنی ذرہیں اور سامان سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیا ہے، جبکہ
عباس کی زکوۃ میرے ذمہ ہے، بلکہ زکوۃ سے
ایک گنا زیادہ میرے ذمہ ہے)
·
نووی ؒ "شرح مسلم"
میں کہتے ہیں:
"اہل
لغت کا کہنا ہے کہ: [حدیث میں مذکور] " الأعْتاد " سے مراد جنگی سازو سامان ہے، اور حدیث کا مطلب
یہ ہے کہ: انہوں نے خالد سے زکوٰۃ کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ انہوں نے ان جنگی آلات کو تجارتی سامان سمجھ
لیا تھا[کیونکہ ان کے ہاں] اس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو خالد نے انہیں کہا:
"مجھ پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوتی" تو انہوں نے نبیﷺکو خبر دی کہ خالد نے زکوٰۃ
ادا نہیں کی تو آپﷺ نے فرمایا: تم نے ان
سے زکوٰۃ طلب کر کے زیادتی کی ہے؛ کیونکہ انہوں نے اپنے جنگی ساز و سامان کو سال ہونے سے قبل ہی اللہ کی راہ میں وقف کر دیا ہے، اس لیے اس پر زکوٰۃ
نہیں۔
·
شافعی، احمد، عبد الرزاق، اور دارقطنی رحمہم
اللہ نے ابو عمرو بن حماس سے روایت کی ہے
کہ ان کے والد نے ان سے کہا:
"میں چمڑے کا کاروبار کیا کرتا تھا، تو
میرے پاس عمر ؓبن خطاب گزرے تو انہوں نے مجھے کہا: "اپنے مال کی زکوٰۃ ادا
کرو"
میں نے کہا:
میرا مال تو چمڑے کی شکل میں ہے!؟
تو انہوں نے
کہا: اس کی قیمت لگاؤ اور پھر زکوٰۃ ادا
کرو"
·
عبد الرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ:
"میں
عمر بن خطاب ؓ کے عہد میں بیت المال کا ذمہ دار تھا، چنانچہ جس وقت زکوٰۃ ادا کی
جاتی تو تاجروں کے مؤجل اور معجل سارے تجارتی مال
کا حساب لگاتے، اور پھر پورے مال میں سے زکوٰۃ وصول کرتے"
اس اثر کو
ابن حزم نے "المحلى" (4/40) میں صحیح کہا ہے۔
·
بیہقی
میں ابن عمر ؓسے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں:
"سامان میں اسی وقت زکوٰۃ
ہوگی جب اسے تجارت کی غرض سے رکھا جائے"
اس اثر کو
بھی ابن حزم ؒ نے "المحلى"(4/40) میں اور نووی ؒ نے "المجموع" (6/5) میں صحیح قرار
دیا ہے۔
یہ تمام
دلائل مجموعی طور پر تجارتی سامان پر زکوٰۃ لاگو ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
جو کہ جمہور
اہل علم ؒ کا مسلک ہیں، اور جمہور زکوٰۃ
واجب نہ ہونے کا موقف شاذ قرار دیتے ہیں۔بلکہ ابن المنذر ؒ نے تجارتی سامان پر
زکوٰۃ واجب ہونے کے متعلق اجماع بھی نقل کیا ہے، اور اہل ظاہر جو کہ تجارتی سامان
پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے کے قائل ہیں ان کے
موقف کو شاذ اور خارج از اجماع قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام
ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں:
"ائمہ
اربعہ اور ساری امت -ماسوائے چند شاذ موقف والے افراد - اس بات پر متفق ہیں کہ سامانِ تجارت پر زکوٰۃ واجب
ہے، چاہے تاجر مقیم ہو یا مسافر، یا اشیائے فروخت سستی خرید کر ذخیرہ کر ے اور
فروخت کرنے کیلئے قیمت بڑھنے کا انتظار کر
رہا ہو، یا دکاندار ہو، اسی طرح تجارت چاہے نئے کپڑے کی ہو یا پرانے کی
کھانے پینے کا سامان فروخت کرے یا پھل فروٹ ، یا چمڑا وغیرہ ، یا مٹی سے بنے
برتن وغیرہ فروخت کرے، یا غلاموں کی خرید
و فروخت کا کاروبار ہو، یا گھوڑے ، خچر، گدھے، یا چارہ کھانے والی بکریاں
وغیرہ فروخت کرے، سب پر زکوٰۃ لاگو ہوگی، اس لیے کہ شہروں میں
رہنے والے افراد عام طور پر سامان تجارت
کے مالک ہوتے ہیں، اور دیہاتوں میں رہنے والے افراد عام طور پر جانوروں کے مالک
ہوتے ہیں، [تو سب پر معتبر شرائط کی موجودگی میں زکوٰۃ واجب ہوگی]" انتہیٰ
(مجموع فتاوى ابن تیمیہ (25/45)
بغاوت :
اب غیرمقلدین
کا بغاوت قرآن و حدیث سے ملاحظہ کیجئے:
غیرمقلدین کے
مایہ ناز محقق نواب نورالحسن خان صاحب(المتوفّی: 1336ھ) لکھتے ہیں:
"وازینجادریافت شد کہ دلیلی دال بروجوب
زکوۃ دراموال تجارت نیست "
( عَرف الجادی ص65)
یعنی یہی
سےیہ بات معلوم ہوگئی کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ تجارت کےمال میں زکوۃ واجب
ہوگی
اور نواب
وحیدالزمان صاحب(المتوفی:1338ھ) لکھتے ہیں
"ولاشئ فی غیرھا من الجواھر والعروض ولو کانت للتجارۃ "
یعنی ان
کےسوا سامانوں اور جواہرات میں زکوۃ نہیں اگرچہ تجارت کے لئے ہوں
اور دوسری
جگہ لکھتے ہیں
"لاتجب فی عروض التجارۃ"
(نزل الابرار ص209)
کہ مالِ
تجارت میں زکوۃ واجب نہیں ہے ۔
اور امین
اللہ پشاوری غیرمقلد بھی اعتراف کرتےھوئےلکھتے ہیں کہ
”مالِ تجارت
میں زکوۃ واجب نہ ہونے کے قول کو ابن حزم، داود ظاہری، علامہ شوکانی، نواب صدیق
حسن خان اور شیخ البانی صاحب نے ترجیح دی ہیں“
(دیکھے الحق الصریح ج7ص138)
غیرمقلدین کا
فقہ قرآن وحدیث کی کسوٹی پر خود رکھ دیجئے ہم اگر عرض کردینگے توشکایت ہوگی ۔
۲۲ :اپنے
والدین کو زکوٰۃ دینا
شریعت :
اس پر اجماع
ہے کہ والدین کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں کیوں
کہ ہر شخص اپنے والدین کا جزو ہوتا ہے۔چنانچہ ابن قدامہ الحنبلی ؒ ؒ(المتوفی : 620. ھ) فرماتے ہیں کہ
"قال ابن المنذر أجمع أھل العلم علی أن الزکوۃ لایجوز
دفعھا الی الوالدین"
(المغنی ج3ص247)
ترجمہ: ابن
المنذر فرماتےہیں کہ اہل علم کا اس پراجماع ہے کہ زکوۃ والدین کو دینی جائز نہیں
اور حافظ ابن
حجر ؒ لکھتے ہیں :
(و قال ابْنُ الْمُنْذر: أجْمعُوا علی أنَّ الرَّجُل لا
یُعْطِيْ زوْجتہُ مِن الزَّکاۃِ لانَّ نفْقتہا واجِبۃٌ علیْہِ فتسْتغْنِيْ بِہا
عنِ الزَّکاۃِ)
’’امام ابن
المنذر نے کہا: اس بات پر اجماع ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، اس
لیے کہ اس کا خرچہ خاوند کے ذمّے ہے، پس وہ اس خرچے کی وجہ سے زکوٰۃ سے مستغنی
ہے۔‘‘[ فتح الباري، باب الزکوٰۃ علی الزوج والأیتام في الحجر: 416/3]
اور امام
قرطبی ؒ لکھتے ہیں :
(ولا یجُوزُ أنْ تّعْطِي من
الزَّکاۃِ مَنْ تلْزمُہُ نفقتُہُ و ھمُ الَْوالِدن والْولَدُ والزَّوْجۃُ)
’’یہ جائز
نہیں ہے کہ آدمی اپنی زکوٰۃ اس کو دے جس کا نفقہ (خرچہ) اس کے ذمّے ہے جیسے ماں
باپ ہیں ، اولاد ہے اور بیوی ہے۔‘‘
یعنی ان تینوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں
ہے۔(تفسیر القرطبي: 189/8)
بغاوت :
اب غیرمقلدین
کا بغاوت ملاحظہ کیجئے:
غیرمقلدین
کےمایہ ناز مجتہد العصر و محقق(بزعمھم) امین اللہ پشاوری صاحب لکھتے ہیں:
یجوز الدفع الی الأولاد
اذاکانوا یسکنون فی بیت علی حدۃ یعیشون منفردین وھو اختیار شیخ الاسلام ابن تیمیۃ
والألبانی ۔۔۔(قال الالبانی، الناقل) نحن نری جواز اعطاء الفرع
للأصل۔۔۔۔ واما اذا کان الأب وأولادہ یعیشون بمفردھم مستورین کمایقال فیجوز لھذا
الولد الغنی أن یعطی زکوۃ مالہ لأبیہ واخوتہ الفقراء انظر الموسوعۃ 131/3)
ترجمہ و
مفہوم۔۔۔اپنے اولاد کو زکوۃ دینی جائز ہے جبکہ وہ علیحدہ گھر میں رھتے ھو اور یہی
قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور البانی صاحب نے بھی اختیار کیا ہے(پھر البانی کا
ایک فتوی درج کیا ہے جس میں یہ عبارت آخر میں درج ہے)ہمارا یہ خیال ہے کہ
فرع(اولاد) اپنی اصل(والدین،داد وغیرہ) کو زکوٰۃ دےسکتا ہیں اور جب والدین اور
بیٹے جُدا جُدا گھر میں زندگی گزاردیتی ہیں جیساکہ سوال میں کہاگیا تو مالدار
اولاد اپنی زکوٰۃ اپنے فقیر والدین اور بہن کو دےسکتی ہے۔
(دیکھے فتاوی الدین الخالص
ج8ص226 و 227)
اور نواب
نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:
"ادلہ عموما و خصوصا ناطق باشند
بجواز دفع زکوۃ بسوی اصول و فروع"
(عَرف الجادی
ص72)
یعنی عمومی و
خصوصی دلائل اس پر ناطق ہیں کہ ماں باپ اور سگی اولاد کو زکوۃ دینی جائز ہے
۲۳: اپنی
بیوی کو زکوۃ دینا
یہ توہرعام و
خاص کومعلوم ہے کہ اپنی بیوی کو زکوۃ دینی جائز نہیں ہےیعنی جن قرابت داروں کا
نفقہ آدمی کے ذمہ واجب ہے۔ان کوزکوٰۃدینا جائز نہیں ہے۔مثلاً ماں باپ، دادا،
پڑدادا، بیٹا، پوتا، پڑپوتا وغیرہ اور بیوی۔
اور یہ تشریح اسلاف ؒ ہی نے کی ہیں چنانچہ مشہور
مفسر امام قرطبی ؒ (المتوفی:676ھ) لکھتے ہیں :
(وَلَا یَجُوزُ أَنْ تُّعْطِيَ
مِنَ الزَّکَاۃِ مَنْ تَلْزَمُہُ نَفَقَتُہُ وَ ہُمُ الْوَالِدَانِ وَالْوَلَدُ
وَالزَّوْجَۃُ)
’’یہ جائز
نہیں ہے کہ آدمی اپنی زکوٰۃ اس کو دے جس کا نفقہ (خرچہ) اس کے ذمّے ہے جیسے ماں
باپ ہیں ، اولاد ہے اور بیوی ہے۔‘‘
یعنی ان تینوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں
ہے۔(تفسیر القرطبی: 189/8)
اور اسی پر
اجماع ہوچکا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ (المتوفّی:852ھ) لکھتے ہیں :
(و قال ابْنُ الْمُنْذِر: أجْمعُوا علی أنَّ الرَّجُل
لا یُعْطِيْ زوْجتہُ مِن الزَّکاۃِ لانَّ نفْقتھا واجبۃٌ علیْہِ فتسْتغْنيْ بھا عن
الزَّکاۃِ)
’’امام ابن
المنذر نے کہا: اس بات پر اجماع ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، اس
لیے کہ اس کا خرچہ خاوند کے ذمّے ہے، پس وہ اس خرچے کی وجہ سے زکوٰۃ سے مستغنی
ہے۔‘‘
[ فتح الباري، باب الزکوٰۃ علی الزوج والأیتام فی الحجر: 416/3]
کیونکہ اس پر
اتفاق ہے کہ بیوی کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ۔ کیونکہ بیوی دراصل شوہر کا ایک
حصہ اور جزو ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ومِن ايتہ أن خلق لكُم مِن
أنفُسکم أزوجا..(سورةالروم)
’’اوراس کی
نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی سے بیویاں بنائیں۔‘‘
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ بیوی دراصل شوہر کا ایک جزو ہے۔ اس لیے بیوی کو زکوۃ دینا گویا اپنے
کو زکوۃ دینا ہے اور اپنے آپ کو زکوۃ دینا کسی طور جائز نہیں۔ اسی لیے بیوی کو
زکوۃ دینا بھی کسی طور جائز نہیں ۔
بغاوت :
اب شر یعت کے
خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرمقلدین کا بغاوت ملاحظہ کیجئے:
امین اللہ
پشاوری سے ایک سوال ہوا ہے، بمع جواب ملاحظہ کیجئے:
"سئل: عن دفع الزکوٰۃ الی الزوج و دفع
الزوج الی الزوجۃ ھل یجوز ذالک"
الجواب: الحمدللہ: أما دفع الزوجۃ الزکوٰۃ لزوجھا
الفقیر أو المسکین فیجوز عندأکثر أھل العلم۔۔۔
(پھر کچھ
احادیث ذکر کرنے کے بعدلکھتے ہیں )
فھذان الحدیثان یدلان علی جواز ذالک۔۔۔ "
( فتاوی الدین الخالص ج78ص224)
ترجمہ و
مفہوم : یعنی سوال کیا گیا کہ زکوۃ خاوند
کو دےسکتی ہے یا نہیں اور خاوند بیوی کو
دی سکتی ہے یا نہیں
جواب: الحمدللہ
مالدار بیوی اپنا فقیر خاوند یا مسکین خاوند کو زکوۃ دےسکتی ہے یہ اکثر اھل العلم
کےنزدیک جائز ہے (پھر کچھ احادیث ذکر کرنے کے بعد خلاصۃً لکھتے ہیں ) پس یہ دو
احادیث اس کی جواز پر دلالت کرتی ہے
اور اسی طرح
غیرمقلدین کے مشہور ویب سائیٹ "محدث" پر ایک مفتی(اسحاق سلفی) سائل کو
جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں
"صحیح
حدیث کے مطابق کوئی بھی عورت زکوٰۃ کے مستحق اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے۔۔۔
(اپنے موقف پر دلائل۔پیش کرنےکےبعد لکھتے ہیں )
اور سعودی
عرب کے مشہور سلفی عالم علامہ شیخ خ محمد بن صالح العثیمین (المتوفى: 1421هـ) رحمہ
للہ " الشرح الممتع " (6/168-169) میں
كہتے ہیں ۔
"فللزوجة أن تعطيہ زكاتها وربما
يستدل لذلك بحديث زينب امرأة عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنهما أن النبي صلّى اللہ علیہ وسلّم «حث على الصدقة، فقال ابن مسعود
لزوجتہ: أعطيني وأولادي أنا أحق من تصدقت علیہ» .
فقالت: لا حتى أسأل النبي صلّى اللہ
علیہ وسلّم فسألت النبي صلّى اللہ علیہ وسلّم فقال: «صدق عبد اللہ، زوجك وولدك أحق
من تصدقت علیہم» فيمكن أن نقول: قوله: «من تصدقت علیہم» يشمل الفريضة والنافلة.
وعلى كل حال إن كان في الحديث
دليل فهو خير، وإن قيل هو خاص بصدقة التطوع، فإننا نقول في تقرير دفع الزكاة إلى
الزوج: الزوج فقير ففيه الوصف الذي يستحق به من الزكاة، فأين
الدليل على المنع؟ لأنه إذا وجد السبب ثبت الحكم، إلا بدليل، وليس هناك دليل لا من
القرآن ولا من السنة، على أن المرأة لا تدفع زكاتها لزوجها،
اهـ باختصار
یعنی صحیح
یہی ہے كہ اگر خاوند زکوٰۃ كے مستحقین میں سے ہے تو اسے زکوٰۃ دینی جائز ہے، اور
اس كے لئے نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم كے اس فرمان سے استدلال كيا جاسكتا ہے جو
انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى بیوی زینب رضى اللہ عنہا كو
فرمايا تھا: " تیرا خاوند اور تیری اولاد قابل صدقہ افراد میں تمہارئے صدقہ
کے زيادہ حقدار ہیں ،تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اس حدیث میں میں فرض اور نفل دونوں
شامل ہیں، بہر حال اگر حدیث میں دلیل ہے تو يہ بہتر اورخیر ہے،
اور اگر يہ
كہا جائے كہ يہ تو نفلى صدقہ كے ساتھ خاصل ہے، تو ہم خاوند كو زکوٰۃ دینے كے بارہ
میں یہ کہیں گے: خاوند فقیر اور محتاج ہے اور اس میں وہ وصف پايا جاتا ہے جس كى
بنا پر زکوٰۃ كا مستحق ہوا جاتا ہے، تو منع اور نہ دینے كى دلیل كہاں ہے؟ كيونكہ
جب سبب پايا جائے تو حكم ثابت ہو جاتا ہے، لیکن اگراگر كوئى دلیل اس كے خلاف ملے
تو پھر ثابت نہیں ہوگا، چنانچہ یہاں اس كے خلاف قرآن اور سنت سے كوئى دلیل نہیں
ملتى ہے كہ بیوی اپنے خاوند كو زکوٰۃ ادا
نہیں كر سكتى۔ انتہی مختصرا"
(الشرح الممتع
) جلد 6 ص262
۲۴: مالدار
اہل علم کو زکوۃ دینا
شریعت:
امام بخاری ؒ (المتوفی:256ھ) اور امام مسلم ؒ
(المتوفی261ھ) اپنی صحیحین میں روایت ذکرکرتے
”أنَّ اللہ افْترض علیہم صدقة
تُؤْخذُ مِن أغْنِيائهمْ فتُردُّ في فُقرائهم“
(صحیح البخاری الرقم 1395، صحیح المسلم الرقم19)
یعنی نبی
کریمﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ انہیں
بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں
سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
اسی طرح ایک
اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ:
" لا تحِلُّ الصدقةُ لغنِيّ، ولا
لذي مرَّة سويّ "
( سنن الترمذي(652) الرقم : 652، و أخرجہ أبو داود (1634) وأحمد (6530)
کسی مالدار
کو زکوۃ دینا جائز نہیں اور نہ کسی صحت مند انسان کو ہی ۔
بغاوت :
اب غیرمقلدین کا شریعت سےبغاوت ملاحظہ کیجیے:
نواب نورالحسن
خان صاحب لکھتے ہیں:
"ومنجملہ سبلِ خدا صرف صدقہ اہل علم است کہ
قیام دارند بمصالح دینیہ مسلمین پس ایشاں رانصیبے
درمال خداست خواہ تونگرباشند یاگدا بلکہ صرف آں دریں جھر ازاھم امورست"
(عَرف الجادی ص69)
یعنی خدا
کےراستوں میں(جن میں زکوۃ خرچ ھونی چاہیے)ایک راستہ یہ ہے کہ زکوۃ کا مال اہل علم
پر خرچ کیا جائے چونکہ عام مسلمانوں کی دینی مصلحتوں کوقائم رکھتے ہیں اس وجہ
سےزکوۃ میں سےان کا حصہ ہے بلکہ اہل علم پر زکوۃ خرچ کرناسب سےاہم مصرف ہے خواہ وہ
علماء مالدار ہو یا فقیر۔
تعجب ہے
مالدار لوگوں کےلئے زکوۃ کا مال حرام ہے اور غیرمقدین اپنی فقہ کی خاطر شریعت سے
بغاوت کرتے ہوئے حلال قراردیتے ہیں۔۔(!!) انا للہ وانا الیہ راجعون!
۲۵: یتیم
کےمال میں زکوۃ نہیں
شریعت:
حضرت امام ترمذی رح(المتوفی :179ھ) نے اسی مسئلے
کےاثبات کےلیے باب منعقدکیا ہے "باب ماجآء فی زکوۃ مال۔الیتیم" یعنی یہ باب اسی سلسلہ
کاہے کہ یتیم کےمال میں زکوۃ ہے
پھر یہ حدیث پیش کیا ہے
عنْ عمْرِو بْن شُعيْبٍ، عنْ
أبِيِہ، عنْ جّدهِ، أنَّ النَّبِيَّ صلى اللہ علیہ وسلم خطب النَّاس فقالَ " ألا منْ ولی يَتِيما لہ مالٌ
فلْيَتَّجرْ فِيِہ ولا يَتْرُكْہ حتّى تأْكُلهُ الصَّدقةُ (سنن الترمذی رقم الحدیث 641)
یعنی آنحضرتﷺ
نےایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں آپﷺ
نےفرمایاآگاہ رھو جوشخص یتیم کی سرپرستی کرتاہے اور اس یتیم کےپاس مال بھی
ہے تو اس سرپرست کویتیم کےمال میں تجارت کرنی چاہیے اور وہ اس کا مال یوں ہی چھوڑے
نہ رکھے کہ اس کا مال زکوۃ سےختم ہوجائے
بغاوت:
غیرمقلدین کا
یہ مسئلہ ہے کہ یتیم کےمال میں زکوۃ نہیں ہے
چنانچہ نواب
نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:
"وحدیث
امرباتجاردراموال یتامی تازکوتش نخور و بحجت نمی ارزد وہمچنین درآثار
مرویہ ازصحابہ حجت نیست"
(عرف الجادی ص61)
یعنی وہ حدیث
جس میں یتیموں کےمال میں تجارت کرنےکاحکم دیاگیا ہے تاکہ اس کو زکوۃ نہ کھائے(جس
سےمعلوم ہوتا ہےکہ یتیموں کےمال میں زکوۃ ہے)قابل حجت نہیں ہے اور اسی طرح اس
سلسلہ میں جوآثار صحابہ سےمروی ہیں وہ بھی لائق احتجاج نہیں ہیں۔
نوٹ: یاد رہے
یہاں اس مسئلے میں راجح قول ذکرنا نہیں صرف دوباتوں کی غرض سے یہ بات لکھی ، اول
یہ کہ غیرمقلدین کس طرح جرأت کےساتھ لکھتے ہیں کہ صحابہ کی جو آثار ہے وہ حجت نہیں
اور دوسری بات۔۔۔ ایک اختلافی مسئلہ غیرمقلدین لوگوں کو پیش کرتے ہیں کہ دیکھے اس
میں بھی دلائل آئیں ہیں جبکہ احناف پھر بھی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں(جبکہ ہمارا
اپنا موقف بھی دلائل سے خالی نہیں ہوتا۔۔) تو اسی پیش نظر ہم نے بھی ان کو بتایا
کہ اگر دلیل ایک مسئلہ پر ہو اور دوسری جانب میں بھی دلائل موجود ہو اور پھر بھی
وہ احادیث کےخلاف۔۔۔؟؟؟ تو پھر لیجئے
اپنا ہی مسئلہ اور اپنا ہی نتیجہ خود یہاں بھی فٹ کردیں۔
۲۶: فی سبیل
اللہ میں عموم
شریعت:
تمام علمائے اسلام و اہل اسلام کا اس
پر اتفاق و اجماع ہیں کہ مساجد اور عام سرکاری کنواں وغیرہ پر زکوٰۃ دینا درست
نہیں ۔
بغاوت:
لیکن غیرمقلدین کا بغاوت ملاحظہ
کیجیے، لکھتے ہیں کہ مصارف زکوٰۃ میں فی سبیل اللہ سےمراد صرف جہاد نہیں ہے بلکہ
ہرکارِ خیر فی سبیل اللہ میں داخل ہیں ۔چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں
"وسبیل اللہ مختص بجہاد نیست اگرچہ
از اعظم طرق الی اللہ است پس درہرچہ راہےبسوی خداباشد صرف زکوۃ دران صحیح ست
"(عرف الجادی ص69)
یعنی
"فی سبیل اللہ" جہاد ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے اگرچہ یہ عظیم تر فی سبیل
اللہ ہے اس لئے جوراستہ بھی خدا کا راستہ ہوگا اس میں زکوۃ کادینا صحیح ہوگا۔
پس معلوم ہوا کہ غیرمقلدین کےنزدیک
زکوٰۃ کے پیسوں سے مسجدبنانا مدرسہ بنانا کنواں تعمیرکرنا امام کو تنخواہ دینا
مدرس کو دینا یہ سب جائز اور زکوٰۃ کےمصارف میں ہیں ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۲۷: اموالِ
زکوٰۃ میں حدبندی
شریعت:
اس بات پر اجماعِ امت اور اتفاقِ امت
ہے کہ جو چیز بھی ہو لیکن سامانِ تجارت ہو خواہ وہ کپڑے ہو، گاڑیاں ہو غرض جو بھی
ہو لیکن تجارت کی مال ہو تو ان میں زکوۃ واجب ہوگی جس کی تفصیل حافظ ابن تیمیہ
رحمہ اللہ (المتوفی:728ھ) نے بھی کی ہے
(دیکھے تفصیلاً فتاوی ابن تیمیہ ج7 ص120)
اور اجماع
امت بھی شریعت کےدلائل میں سے ایک دلیل ہے۔
بغاوت:
لیکن اس کے برعکس غیرمقلدین کی بغاوت
کو دیکھ کر انکی آزادانہ خیال کو داد دیجیے، کہتے ہیں کہ جن چیزوں میں زکوٰۃ شریعت
نے واجب قرار دیاہے پس وہ متعین اور محصور ہیں ان کےعلاوہ اشیاء میں زکوٰۃ نہیں
ہے(!!)چنانچہ نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں
:واشیائےکہ دراں زکوۃ ست محدود و محصور ست پس
درماعدائے آں ھرچہ باشدچہ خصر دات دچہ جزآں زکوۃ نیست "( عرف الجادی)
یعنی جن
چیزوں میں زکوۃ ہےوہ متعین اور محدود ہیں پس ان کےماسوا میں خواہ وہ سبزیاں ہوں
یاکچھ اور ان میں زکوۃ نہیں ہے۔
اور وہ متعین اور محدود کون کون سی
اشیاء ہیں تو اس کی تفصیل غیرمقلدین کےمایہ ناز محقق وحیدالزمان صاحب نے لکھی ہے
وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ، لکھتے ہیں
"اموال الزکوۃ الذھب والفضۃ
والحنطۃ والشعیر والذرۃ من الحبوب والتمر والدبیب من الفواکہ والعسل والابل والبقر
والغنم والجاموس والضأن ولاشئ ماعداھا ولوکانت للتجارۃ "
(کنزالحقائق ص43)
یعنی اموالِ
زکوۃ یہ ہے سونا،چاندی،
گہیوں، جو،مکئ ،کھجور،منقع،شبہ،اونٹ،گائے،بھینس،بھیڑ
اس کے سوا میں زکوٰۃ نہیں اگرچہ وہ تجارت ہی کےلئے کیوں نہ ہو ۔
۲۸: غنی
اورمالداری کی حدبندی
شریعت:
سب کو معلوم ہے کہ شریعت کی اصطلاح
میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھےسات تولہ سونا یا اس کی قیمت ہو تو اس مالک کو
غنی کہاجائیگا یہ خود زکوٰۃ دےگا نہ کہ کسی سے زکوٰۃ لے گا ۔
بغاوت :
جبکہ غیرمقلدین کا اس سے بغاوت ملاحظہ
کیجیے، نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں
"قتی
کےاست کہ پنجاہ درھم یابھائے آں اززر نزد خودوار دوایں تعریف درحدیث مرفوع
آمدہ"(عرف الجادی )
یعنی غنی وہ
ہے جس کےپاس درہم یا اس کے برابر سونا کی قیمت ہو اور غنی کی یہ تعریف حدیث مرفوع
میں مذکور ہے۔
یہ ہے
غیرمقلدین کا مسلک جو من مانی اور خواہشات کی عینِ تصویر ہے ۔ عجیب ہی مسلک ہے اور
حوالے میں جو مرفوع حدیث کا تذکرہ کیا ہے وہ حدیث یہ ہے کہ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نےفرمایا کہ جس نے کسی سے سوال کیا دراں حال یہ کہ اس کےپاس دینار پیسہ ہے جو اس
کو غنی کردیتا ہے تو وہ قیامت کےروز اس حال میں آئےگا کہ اس کا چہرہ نوچا ہوا اور
زخمی شدہ ہوگا۔
لوگوں
نےپوچھا کہ یارسول اللہ کتنی مقدار سے آدمی غنی جو جاتا ہے؟
تو آپ نے
فرمایا پچاس درہم یا اس کےبرابر سونا کی قیمت (سنن الترمذی)
حالانکہ یہ روایت ثابت ہی نہیں کیونکہ
اس میں "حکیم بن جبیر"راوی ضعیف ہے تفصیلاً اسماء الرجال کی کتابوں میں
اس کی حالات دیکھیں اگر غیرمقلدین حضرات اپنی کتاب(تحفۃ الاحوذی
للمبارکفوی) بھی دیکھ
لیں امید ہے اطمینان آجائیگا۔
۲۹: عدم قدرت
کی صورت میں روزہ کافدیہ واجب نہ ہونا
شریعت :
امام بخاری رح نے ابن عباس رض سےاس آیت(وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام
مسکین) کی تفسیر
میں نقل کیا ہے کہ
"قال ابن عباس نزلت رخصۃ للشیخ
الکبیر والمرأۃ الکبیرۃ لایستطیعان الطعام فیطعمان مکان کل یوم مسکینا"(بخاری)
ترجمہ: ابن
عباس نےفرمایا کہ یہ آیت اس بوڑھے مرد اور اس بوڑھی عورت کےلئے ہےجوروزہ رکھنےکی
طاقت نہ رکھتے ھو پس انہیں ہردن کےبدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہے۔
بغاوت:
غیر مقلدین کا مذہب یہ ہے کہ جو روزہ
رکھنےپر قادر نہ ہو اس کو روزہ کا فدیہ دینا واجب نہیں ہے، چناچہ نواب نورالحسن
خان صاحب لکھتے ہیں
"وعلی
کل حال درآیۃ کریمہ (وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین)دلالت بروجوب اطعام برتارک صوم غیرمطیق نیست وھومحل
النزاع وچنانکہ درکتاب و سنت دلیلی برین سخن نیست ہمچنان درغیراین ہردوحجت نیرہ ھم
دلیلی بران یافتہ نشد پس حق عدم وجوب اطعام ست"(عرف الجادی ص80)
یعنی بہرحال
اس آیت کریمہ(ولی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام
مسکین) میں فدیہ
مسکین کی دلیل نہیں ہے اور جیسا کہ کتاب و سنت میں اس کے وجوب پرکوئی دلیل نہیں ہے
اس طرح کتاب و سنت کےعلاوہ میں بھی اس پرکوئی روشن دلیل نہیں ہے اس لئے حق یہی ہے
کہ روزہ رکھنےکی صورت میں کھانا کھلانےکا حکم واجب نہیں ہے۔
یہ وہ امت ہےکہ شریعت سن کےکہے
میں تو وہابی ہوں نہ مانوں گا یہ
فرمانِ حدیث
۳۰ : مسجد سے کچھ دور رہنےوالےپر جمعہ واجب نہیں
شریعت:
حدیث پاک میں
آتا ہے
عن عبد اللہ بن عمرو، عن النبي
صلى اللہ علیہ وسلم قال: «الجمعة على كل من سمع النداء»،
(سنن ابی داود رقم الحدیث 1056)
یعنی آنحضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعہ ہراس شخص پرواجب ہے جوجمعہ کی اذان
سنے ۔
اسی طرح بہت
سی احادیث موجود ہے لیکن صرف اسی ایک پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔
بغاوت:
جبکہ شریعت
کے اس مسئلےسے بھی غیرمقلدین کا بغاوت ملاحظہ فرمائیں ۔نواب نورالحسن خان صاحب
لکھتے ہیں :
" وبربعید المکان واجب نیست اگرچہ ندابشنود
بنا برمزی دمشقتدران"
(عَرف الجادی ص41)
یعنی جس کا
گھر مسجد سے فاصلہ پر ہو تو اگرچہ وہ اذان کی آواز سنتا ہو اس ہر مشقت کی وجہ سے
جمعہ واجب نہیں ہے۔
31.مَردوں کیلئےسونا و چاندی استعمال کرنا
شریعت :
عن عليٍّ رضي اللہ عنہ قال: رأيتُ رسولَ اللہِ ﷺأخذ حرِيرا، فجعلہ في يمينہ، وذھبا فجعلہ في شمالہ، ثم قال: «إِنَّ ھذيْن حرامٌ على ذُكُورِ
أُمَّتِي».
عن أبي
موسى الأشعري رضي اللہ عنہ : أنَّ
رسولَ اللہِﷺ قال: «حُرّم
لِباسُ الحرِيرِ والذَّھبِ على ذکورِ أُمَّتِي، وأُحِلَّ لإِناثِِھمْ».
[أبو داود،النسائي،ابن ماجہ أحمد. حديث أبي
موسى رضي اللہ عنہ: رواہ الترمذي والنسائي وأحمد]
علی رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ریشم لے کر اپنے داہنے
ہاتھ پر رکھا اور سونا لے کر اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا: ”یہ دونوں میری
امت کے مردوں پر حرام ہیں“۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ریشم کا کپڑا اور سونا میری امت کے مردوں کے
لیے حرام اور ان کی عورتوں کے لئے حلال ہیں“
بغاوت :
لیکن اس
شریعتِ محمدیہ ﷺ کےخلاف غیرمقلدین کے فقہ کا مسئلہ ملاحظہ کیجیے اور خود سوچئے کہ
کیسے شریعت سےبغاوت کرتے ہوئے غیرمقلدیت(بدون اجتھاد) مسلک کو اختیار کیے ہیں ،
چنانچہ نواب نورالحسن خان بن نواب صدیق
حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتےہیں:
"حرام
است نوشیدن وخوردن درآوندھائے زروسیم والحاق سائر استعمالات بداں نام تمام
ست"
(عرف الجادی ص50)
یعنی سونےاور
چاندی کےبرتن میں کھانا پینا حرام ہےمگر اس میں اور استعمالات کو شامل کرنا صحیح
نہیں ہے ۔
اور نواب وحیدالزمان صاحب یوں نوابی کا اظہار کرتے ہوئے
لکھتےہیں :
"ولاتکرہ الکتابۃ بقلم لاذھب
والفضۃ او من دواتھما"
(کنزالحقائق ص28)
یعنی سونے
اور چاندی کےقلم یا دوات سےلکھنا مکروہ نہیں ہے ۔
اور فتاوی نذیریہ میں ہے:
”مرد کوچاندی
کےبٹن لگانا جائزنہیں ناجائز ہونے کی وجہ
معلوم نہیں ہوئی ۔“
(فتاوی نذیریہ ج2ص352)
سبحان
اللہ! ایک طرف تو کہہ رہا ہے کہ جائزنہیں اور پھر یوں بھی کہہ رہا ہے معلوم نہیں
کہ ناجائز کیوں ہے؟معلوم ہوا کہ غیرمقلدوں کا یہ مذہب سونے اور چاندی کاستعمال
مردوں کےلئے"صرف کھانے اور پینے کےلئے حرام ہے" غلط اور باطل ہے اور
احادیثِ نبویہ کےخلاف ہے اس لئے تو بہالپوری صاحب یوں حقیقت بیان کرتے ہوئے
کہتےہیں
"وہابی صحیح دین نہیں ہے صحیح دین وہ ہے جس
پرمحمدی مہر ہے قصہ ختم۔"
(خطبات بہالپوری ج3ص315)
32. گانا بجانا حلال ہے
شریعت :
اسلام میں
موسیقی اور گانے بجانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح الفاظ میں اس
حوالے سے وعید کا تذکرہ کیاہے،چند دلائل ملاحظہ کیجیے:
اللہ تبارک وتعالیٰ
فرماتے ہیں:
"ومِن
النَّاسِ من يَّشتری لھو الحدِيثِ لِيُضِلَّ عن سبِیلِ اللّٰہِ بغیرِ عِلمٍۖ
وَّيَتَّخِذہا ہُزُوا ؕ اُولئِک لھم عذابٌ مُِّھينٌ (سورۃ لقمان آیت نمبر 6)
ترجمہ: ”اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو لھو الحدیث خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو جہالت کے ساتھ اللہ کے راستے
سے گمراہ کر دیں اور (دین اسلام سے) استہزاء کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ذلیل کرنے
والا عذاب ہو گا۔“
اس آیت مبارکہ میں لھو الحدیثکی تشریح میں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ الغناء والذي لا إلہ الا ھو ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے سوا
دوسرا کوئی الہ نہیں ہے، اس آیت میں لھو الحدیث سے مراد غناء (گانا بجانا ) ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ: 6/ 309ح21123 وسندہ حسن]
اس اثر کو امام حاکم اور ذہبی رحمہما للہ دونوں نے صحیح کہا
ہے۔ دیکھے [المستدرك:2/ 411 ح 3546]
مشہور تابعی حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ھو الغناء ‘‘ یہ غنا ( گانا) ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 310 ح
21127 وسندہ حسن]
قرآن پاک میں اللہ
تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے، جو کہ دین حق کے مخالف ہیں فرماتے ہیں:
” وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ اور تم غفلت میں پڑے ہو۔“ [53-النجم:61]
اس آیت کی تشریح میں مفسر القرآن حبر الامۃ امام عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’ ھو الغناء بالحميرية، اسمدي لنا: تغني لنا ‘‘ سامدونَ سے مراد
حمیری زبان میں گانا بجانا ہے۔ اسمدي لنا کا مطلب ہے،
”ہمارے لئے گاؤ۔“
[السنن الكبري للبیہقی:101/
223و سندہ صحیح]
سیدنا ابوعامر یا ابو مالک الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میری امت
میں ایسی قومیں ضرور پیدا ہوں گی جو زنا، ریشم، شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گی
اور بعض قومیں پہاڑ کے پاس رہتی ہوں گی اور جب شام کو اپنا ریوڑ لے کر واپس ہوں
گی۔ اس وقت ان کے پاس کوئی ضرورت مند (فقیر) آئے گا تو کہیں گے: کل صبح ہمارے پاس
آؤ اللہ تعالیٰ انہیں رات کو ہی ہلاک کر دے گا اور پہاڑ کو گرا دے گا اور باقیوں
کو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دے گا اور قیامت تک اسی حال میں رہیں گے۔“
[ صحیح بخاری: 2/ 837ح5590، صحیح ابن حبان ح
6719]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
” قال رسول اللہ ﷺ إن اللہ حرم عليكم الخمر و
الميسر و الكوبة۔۔ كل مسكر حرام ‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے تمہارے
اوپر شراب، جوا اور کُوبہ حرام کیا ہے اور فرمایا: ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے۔
[مسند احمد 2691، 350 ح 3274
وإسنادہ صحیح ح3274و سنن أبى داود:3296]
اس کے ایک
راوی علی بن بذیمہ فرماتے ہیں کہ الكوبۃ سے مراد الطبل یعنی ڈھول ہے۔
[سنن أبى داؤد: 2/ 164 و إسنادہ صحیح]
محمود بن
خالد الدمشقی نے صحیح سند کے ساتھ امام نافع سے نقل کیا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی
اللہ عنہما نے ایک دفعہ بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں اور
فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔ [سنن ابي داؤد : 2/ 326 ح 4924 و
إسنادہ حسن و المعجم الكبير للطبراني:1/ 13 و تحريم
النرود الشطرنج و الملاہي للآجري ح 65، مسند
احمد 2/ 38 ح 4965، السنن
الكبري للبيہقي:1/ 222]
سیدنا انس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ صوتان
معلونان فى الدنيا والآخرة، مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة ‘‘
دو آوازوں
پر دنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت ہے۔ خوشی کے وقت باجے کی آواز اور غم کے وقت
شور مچانا اور پیٹنا۔[كشف الاستار عن زوائد: 1/ 377]
حافظ ہیثمی نے
فرمایا : ’’ورجالہ ثقات‘‘ یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد:3/ 13]
اسی طرح گانے کے مذمت میں اور بھی کئی دلائل ہیں لیکن اس پر
اکتفاء کرتے ہیں ۔
بغاوت :
اب آئیں غیرمقلدین کا فقہ قرآن و حدیث کے خلاف
دیکھ کر ان کی بغاوت ملاحظہ کیجیے۔غیرمقلدین کی طرف سے عظیم الشان القابات کے ساتھ متصف"نواب عالی جناب،عالم
باعمل،فقیہ وقت،محبِ السنۃ
وحیدالزمان
بن مسیح
الزمان"(ھدایۃ المستفید ج1ص104)
یعنی وحیدالزمان صاحب لکھتےہیں
"وکذالک
لابأس بتتبع الرخص لقولہ فبھا ونعمت
واختیار قول أھل المدینۃ فی الغناء
۔۔۔الخ
(ہدیۃ المہدی ص112)
اسی طرح اس
میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آدمی رخصتوں کےپیچھے لگارھے اور گانے کےسلسلہ میں اہل مدینہ کا قول اختیار
کرے ۔
اور چند صفحے بعد لکھتےہیں:
"ولایجوز
الانکار علی امورمختلفۃ فیھا بین العلماء کغسل الرجل و مسحہ۔۔۔ واللعب بالشطرنج
والغناء والمزامیر "
(ص118)
اور
انکارجائز نہیں اُن مسائل میں جو علماء کے درمیان اختلافی ہیں جیسا کہ پاؤں کو
دھونا(یا) اور مسح کرنا اور شطرنج کھیلنا اور گانا بجانا اور باجا بجوانا۔
یاد رہے رئیس ندوی صاحب نے اس کتاب کو "سلفی
کتاب"کہا ہے(دیکھے: ضمیرکابحران ص288)
غیرمقلدین
کا مذہب ہی خواہش پرستی کا نام ہے جو حرام کام کے پیچھےلگ جاتےہیں اسی وجہ سےتو
غیرمقلدین کا مشہور مایہ ناز محقق مولانا ابوالاشبال احمدشاغف صاحب اپنی مذہب کی
یوں حقیقت اپنی قلم کی نوک پر لاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"دراصل
ہم لاشعوری طور پر خواہشات نفس و انانیت کےشکارہیں لیکن سمجھنےکی توفیق سےمحروم
ہیں"
(مقالاتِ شاغف ص276)
موصوف دوسری کتاب میں لکھتے ہیں
" وندب اعلان النکاح ولوبضرب
الدفوف واستعمال المزامیر والتغنی "
(نزل الابرار حصہ دوم ص3)
نکاح کا
اعلان کرنا مستحب ہے اگرچہ وہ ڈھول بجانےکیساتھ ہو اور باجا استعمال کیاجائے اور
گانا گایاجائے۔
ایک اور کتاب میں لکھتےہیں:
"جوشخص نکاح یا خوشی کی رسموں میں
باجےبجوائے اس کوفاسق کہنا شرارت اور تعصب ہے"
(اسرار اللغۃ پارہ ہشتم ص61
بحوالہ ضمیرکابحران ص347از دئیس ندوی غیرمقلد)
غیرمقلدین
کے"وکیلِ سلفیت و استاذالحدیث و محقق"رئیس ندوی صاحب وحیدالزمان صاحب
غیرمقلد کی اوپر بالا عبارت کی دفاع کرتے ہوئے ایک صاحب کو جواب دیتےہیں
"شادی
بیاہ اور دیگر خوشی کےمواقع پرمباح قسم کےباجےاور شعرخوانی یعنی گانےکو لوگ حدیث نبوی کی
متابعت میں مباح کہیں انہیں فاسق کہنا اگرظلم و شرارت و تعصب نہیں تو کیا ہے؟۔۔۔۔آپ
ﷺ نےشادی کےموقع پرلہو یعنی باجہ اور گانے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم دیا (صحیح
البخاری)۔۔۔ متواتر المعنی حدیث نبوی سےعیدین کی خوشی کےموقع پر بھی باجہ وگانےکی
اجازت صریح طور پرثابت ہے"
(ضمیر کا بحران ص347 و 348
جامعہ سلفیہ بنارس ہندوستان)
اللہ اکبر کبیرا۔صرف اسی پر بس نہیں یہی صاحب اپنی دوسری
کتاب میں یوں بھی لکھتےہیں
"مذکورہ شادی کےموقع پرگائےجانےوالے
گانےمیں جب تک اسلامی عقیدہ کےخلاف کوئی بات نہیں کہی گئ تھی تب تک آپ ﷺبذات خود
بھی عام لوگوں کی طرح یہ گانےسنتے رہے"
(تصحیح العقائد ص127)
انا للہ
وانا الیہ راجعون۔۔۔! نبی کریمﷺ بھی گانے سنتےتھے العیاذباللہ۔
غیرمقلدین
کےشیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب نے ایک جگہ گانےودف بجانے کی عدم جواز کا
فتویٰ دیاتھا تو پھر کسی غیرمقلد نے اسکا تعاقب کیا توامرتسری صاحب مرحوم اپنے
فتوی سےرجوع کیا، پورا تعاقب و جواب التعاقب ملاحظہ کیجیے
" تعاقب
: سال رواں کےنمبر19 پرچہ میں نمبر89 سوال کےجواب میں جناب تحریر فرماتےہیں
کہ اگرنکاح میں دف مذہبی رسم جان کر بجاتاہے توبدعت ورنہ لغو، اس کے متعلق عرض ہے
کہ ایک قولی حدیث میں نکاح میں دف بجانا
مشروع بلکہ نکاح کااعلان و دف
کےذریعے سے مستحب معلوم ہوتا ہے ملاحظہ ہو مشکوۃ ص273، عن
عائشۃ۔۔۔۔۔واضربوا علیہ بالدف، رواہ الترمذی وقال ھذاحدیث غریب یہ حدیث
غریب ہےمگر اس کی تائید اور تقویت ذیل کی حدیث سے ہوتی ہے وھو ھذا
، عن محمد بن حاطب الجمعی۔۔۔ (ابن ماجہ،
مشکوۃ ص272) اور یہ حدیث حسن قابل احتجاج ہے کما قال الترمذی واللہ أعلم
راقم الحروف
ابوالنعمان انیس الرحمن نعمانی مدرسہ اسلامیہ مرشدآباد بنگال
(اہلحدیث امرتسر 19 رجب 58ھ)
مفتی :.
فتوی میں سہو ہوگیا تھا تعاقب صحیح
ہے واللہ أعلم وعلمہ أتم
(اہلحدیث امرتسر 15ستمبر
1939ء).
[فتاوی ثنائیہ ج2ص287 مکتبہ
اصحاب الحدیث لاہور، و ادارہ ترجمان السنۃ لاہور)
معلوم ہوا
کہ یہ لوگ گانا بجانے کو مستحب اور خود جناب نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بھی
کتراتے نہیں کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ِبھی
گانےسنتےتھے تھے العیاذباللہ۔بس غیرمقلدین مذہب کی گمراہیاں دیکھتےجائیں،اسی وجہ
سے تو غیرمقلدین کے مشہور محقق و مناظر عبداللہ بہالپوری صاحب کہتے ہیں
"اس میں
شک نہیں اہلحدیثوں کا موجودہ کردار بڑا ہی گندہ ہے"
(خطبات بہالپوری ج3ص214)
33. فجر کی چھوٹی
ہوئی سنتوں کو طلوع سےپہلے پڑھنےکا مسئلہ
شریعت :
نماز فجر
کے بعد سے سورج نکلنے تک کوئی سنت یا نفل پڑھنا جائز نہیں، حدیث میں اس کی ممانعت
آئی ہے، اس لئے اگر فجر کی سنت چھوٹ جائے تو فرض کے بعد فوراً قضاء نہ کریں بلکہ سورج نکلنے کے بعد اشراق کے وقت
میں پڑھیں۔بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ
" لا صلوۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس ولا صلٰوۃ بعد العصر
حتی تغرب الشمس "
(بخاری شریف ج1 کتاب المواقیت
حدیث نمبر : ٥٨٦)
کہ فجر کی
نماز کے بعد کوئی نماز سورج کے بلند ہونے تک نہ پڑھی جائے، اسی طرح عصر کی نماز کے
بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے ،
عنْ أبِي ھُريْرة ، قال: قال رسُولُ اللَّہِ ﷺ:
" منْ لمْ يُصلّ ركْعتی الْفجْرِ
فلْيُصلّھما بعْد ما تقطْلعُ الشَّمْسُ"(رواہ الترمذى)
ترجمہ:حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : جس نے فجر کی
سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہئے کہ وہ سورج نکلنے کے بعد ان کو پڑھے۔
لطف کی بات
تو یہ ہے کہ اس دلیل کو غیرمقلدین کےشیخ الکل فی الکل نذیرحسین دھلوی صاحب کے
فتاوی میں بھی منقول ہیں چنانچہ ایک سائل کےجواب میں میاں نذیرحسین صاحب
فرماتےہیں:
"صورتِ
مسؤلہ میں سنتِ متروکہ کوضرور قضاء کرناچاہیے فرمایا رسول اللہﷺ نے:" منْ لمْ يُصلِّ ركْعتي الْفجْرِ
فلْيُصَلّھما بعْد ما تطْلُعُ الشَّمْسُ"
(الترمذى)
اور اس کا
ترجمہ فتاوی نذیریہ کے محشی نےیہ کیا ہے " جس نےصبح کی دوسنتیں نہ پڑھی ہوں
وہ سورج نکلنےکےبعدپڑھے"
(فتاوی نذیریہ ج1ص484)
سبحان اللہ! مجھےتو یہاں امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد کی
یہ بات یاد آئی کہ
"اکثراوقات
ایک شخص باطل پر ہوگا لیکن منہ سے حق بات نکل آئیگی"
(سیرتِ رسولﷺ ج1ص257)
غیرمقلدین میں سےکوئی یہ واویلا نہ کریں کہ یہ حدیث ضعیف ہے
کیونکہ اس کو غیرمقلدین کےشیخ الکل نے بھی نقل کی ہے جبکہ غیرمقلدین تو اپنے مذہب
کی (مصنوعی)خصوصیات میں یہ بھی بتلاتےہیں کہ ہمارے مسلک میں صرف صحیح احادیث ہیں
ضعیف اور موضوعی احادیث نہیں۔اور جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ(المتوفی:179ھ) تو ان
روایات کےبعد فرماتےہیں کہ
" والعمل علی ھذا عندأھل العلم"(ترمذی) خود فتاوی نذیریہ
میں بھی یہی حوالہ درج ہے
(دیکھے:
فتاوی نذیریہ ج1ص520)
اور جب
محدثین و فقہاء کا ایک روایت پر عمل ہو تو وہ صحیح ہوتا ہے یا نہیں خود غیرمقلدین
کو اپنا مذہب معلوم ہوگا ورنہ عدم واقفیت اور مطالبہ پر ہم انکو انہی کی کتابوں کے
حوالے حوالہ جات کےانبار لگائینگے ان شاء اللہ۔ہاں بطورِ ضیافت ایک حوالہ ذہن نشین فرمالیں کہ بعض
حضرات فرض کے فوراً بعد قضا کرنے کی دلیل میں حضرت قیس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت
سے استدلال کرتے ہیں جو سنن ترمذی میں موجود ہے حالانکہ امام ترمذی نے کہا کہ اس
روایت کی سند متصل نہیں ہے؛ لہذا صحیح احادیث کے مقابلہ میں اس پر عمل نہیں کیا
جاسکتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بغاوت :
اب اس حدیث
کےخلاف غیرمقلدین کی مذہب کو ملاحظہ کیجیے کہ کیسے احادیث کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
اپنے آبائی مسلک غیرمقلدیت کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔غیرمقلدین کے محقق حافظ
عبدالمنان نورپوری صاحب لکھتےہیں
"فجر کی
سنتیں اگر جماعت سے قبل نہ پڑھی جا سکیں تو فرض نماز کے بعد طلوع آفتاب سے قبل
انہیں پڑھنا درست ہے ۔
(احکام و مسائل ج1ص213)
نیز دیکھے (مجلّہ نورالحدیث شمارہ مارچ
و اپریل 2019 ص49، نماز نبوی از ڈاکٹرشفیق الرحمن ص272،صحیح نمازنبوی از عبدالرحمن
عزیز ص287،نماز کی کتاب از حافظ عمران ایوب لاھوری ص194)
موقع کے مناسبت سے عبداللہ بہالپوری صاحب کا یہ اعتراف بھی ملاحظہ کیجیے جو کئی سال
پہلے کر چکےتھے کہ
"اہل
حدیث کےبگاڑ کہ یہ کیفیت اور دین سےبُعد و بیگانگی بہت بڑا المیہ ہے"
(خطبات بہالپوری ج3ص15)
34. تقلید جائز یا شرک ؟
شریعت :
شریعت نے ہمیں تقلید کی اجازت دی ہے چنانچہ ہم اپنی طرف سے
حوالہ جات کےبجائے اسلاف ہی کے فہم سے قرآن وحدیث کے چندحوالہ جات نقل کرینگے ورنہ
تفصیل کےساتھ تحقیقی و الزامی مفید بحث کیلے ہماری کتاب"دروسِ مناظرہ بزبانِ
پشتو" ملاحظہ فرمائیں۔
فاسْئلُواْ أھل الذِّكْرِ إِن
كُنتُمْ لا تعْلمُون
{ترجمہ از مولانا فتح محمد جالندہری}اور ہم نے تم سے پہلے
مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو
جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’ الْاکْلیْلْ‘‘ میں فرماتے
ہیں
’’ اس آیت
سے علماء نے فروعی مسائل میں عام آدمی کے
لئے تقلید کے جواز پر استدلال فرمایا ہے۔“
(الاکلیل، سورۃ النحل، ص۱۶۳)
حافظ ابن عبدالبر(المتوفّی:463ھ) بھی اس آیت سے تقلید کی
اثبات کرتے ہوئے لکھتےہیں
" ولم تختلف العلماء أن العامّۃ
علیھا تقلید علمائھا وأنھم المرادون بقول اللہ عزّوجلّ فاسئلوا أھل الذکر ان کنتم
لاتعلمون "
(جامع بیان العلم و فضلہ
ج2ص140)
کہ اس بات
میں علماء کےآپس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عوام پر اپنے علماء کی تقلید لازم ہے اور
انہوں نے یہ دعوی اس دلیل سے پکڑی ہے کہ "فاسْئلُواْ أھل الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لا تعْلمُون"
علامہ خطیب بغدادی(المتوفّی:463ھ) بھی اس آیت سے تقلید کی
اثبات کرتے ہوئے لکھتےہیں
"فھذا یسوغ فیہ التقلید بدلیل
قول اللہ تعالی فاسئلوا أھل الذکر ان کنتم لاتعلمون
(الفقیہ والمتفقیہ ج2ص68)
کہ پس اس میں
تقلید جائز کی گئ ہے اس دلیل کی بنیاد پر فاسْئلُواْ أھل الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لا تعْلمُون
اسی طرح علامہ قرطبی (المتوفی :671ھ) بھی اس آیت سے اجماع
کےساتھ تقلید کا جواز نقل کیا ہے۔
(دیکھےتفسیرالقرطبی ج11ص272)
ابن قدامہ الحنبلی (المتوفّی:620ھ) بھی اس آیت سے تقلید کی
اثبات کی ہے۔
(دیکھے تحریم النظر فی کتب
الکلام ص51)
اور سعودی علماء نے بھی اس آیت سے تقلید کی اثبات کی ہے ۔
(دیکھے: فتاوی
نورعلی الدرب ج6ص2،فتاوی
اللجنۃ الدائمہ ج5ص44)
بلکہ خود
فرقہ اہلحدیث کے اکابرین نے بھی اس سے تقلید کی اثبات کی ہے لیکن چونکہ استیعاب
ہماری مراد نہیں بس اسی پر اکتفاء کرتےہیں۔
بغاوت :
اب شریعت کے اس مسئلے کےخلاف غیرمقلدین کی فقہ
شریعت سے بغاوت ملاحظہ فرمائیں۔
" تقلید
شرک و بدعت عمل ہے"
(التحقیق السدید
ص 69 للشیخ امین اللہ البشاوری د
تقلید حقیقت او د مقلّدینو اقسام ص 277، حقیقۃ
التقلید واقسام المقلّدین ص 243 کلاھما
لامین اللہ البشاوری)
دیکھئے یہ لوگ اس شرعی مسئلے کےخلاف ورزی کرتے ہوئے اس
کو شرک سے تعبیر کرتےہیں: حقانیت مسلکِ اہلحدیث ص402، فتاوی ثنائیہ ج1ص63، مجموعہ
رسائل از نواب صدیق حسن خان ج1ص183، مجموعہ مقالات پرسلفی تحقیقی جائزہ از رئیس
ندوی ص770،خطبات بہالپوری ج3ص210 وغیرھم۔
35.صحابہ
کےاقوال حجت ہیں یا نہیں ؟
شریعت :
شریعت نے
صحابہ کے کرام کے اقوال کو حجت قرار دیا
ہے مختصرا چند احادیث ملاحظہ فرمائیں
ارشاد نبوی
ہے: وتفترق
أمتي علی ثلاث وسبعین ملّة کلھم فی النار إلا ملة واحدة، قالوا: ومَنْ ھي یا رسول اللہ! قال: ما أنا
علیہ وأصحابي (ترمذی، رقم:
۲۶۴۱) ترجمہ: میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائے گی اور بجز ایک فرقے کے سب
فرقے جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون ہے؟ ارشاد
فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔
یہاں صاف نبی پاک ﷺ فرماتےہیں کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں وہ جنت
میں جائیگا
اسی طرح ایک اور جگہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
( اقتدوا بالذین من بعدی: ابی بکر و عمر)[ترمذی]
’’میرے بعد
ان دونوں ابو بکر و عمر کی اقتدا کرنا۔‘‘
دیگر اور بھی بکثرت سےروایات موجود ہے چنانچہ شیخ عبدالسلام
رستمی صاحب غیرمقلد حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کےحوالےسےلکھتےہیں کہ
"حافظ ابن
قیم نے 13(تیراہ) آیاتِ کریمہ اور انتیس(29)صحیح احادیث پیش کی ہے اور دیگر علماء
کرام کےچھیالیس(46) دلائل ذکر کی ہے کہ صحابی کا قول حجت ہے۔
(رسالۃ التنقید علی من افرط فی
التلقیدص51)
معلوم ہوا
کہ بقول ابن القیم رحمہ اللہ اس پر دیگر دلائل کےعلاوہ 29دلائل موجود ہیں کہ صحابہ
کے اقوال حجت ہے۔
بغاوت :
لیکن اب غیرمقلدین کے اس شرعی مسئلے کے خلاف
بغاوت ملاحظہ فرمائیں کہ یہ لوگ پھر بھی صحابہ کرام کے اقوال کو حجت نہیں مانتے۔چنانچہ
امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتےہیں کہ صحابی کا ایسا قول کہ شریعت کےخلاف نہ
ہو تب بھی حجت نہیں ہے ، اصل عبارت ملاحظہ
کیجئے
"اگر صحابی ایسی بات کہیں کہ اس کی رائےھو
اور نص کےخلاف نہ ہو لیکن اس کےساتھ نص بھی نہ ہو تو یہ حدیث موقوف کہلاتی ہے یعنی
صحابی کی بات ہوتی ہے تو آیا یہ امت پر حجت ہے یا نہیں؟ تو یہ محلِ نظرہے ظاہر یہ
ہے کہ بعد التتبع دلائل کے ہم یہ کہیں گے کہ یہ صحابی کا اجتہاد ہے اور امت پر حجت
نہیں"
(الحق الصریح ج1ص474، باب
الاعتصام بالکتاب والسنّۃ حدیث نمبر26)
اور اسی کتاب میں یہ بھی لکھتےہیں کہ
" صحابہ
کےاقوال مطلقًا حجت نہیں ہے"
(الحق الصریح ج1ص40)
فتاویٰ نذیریہ میں ہے
''دوم آنکہ
اگر تسلیم کردہ شود کہ سندایں فتویٰ صحیح ست تا ہم ازواحتجاج صحیح نیست زیرا کہ
قول صحابی حجت نیست (ص 340)یعنی دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت عبد اللہ بن عباس اور
حضرت عبد اللہ بن زبیر کا یہ فتویٰ صحیح بھی ہے تب بھی اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں
اس لئے کہ قول صحابی دلیل نہیں ہے۔
نواب نورالحسن خان صاحب نے عرف الجادی میں یوں لکھا ہے
حدیث جابر
دریں باب قول صحابی حجت نیست یعنی حضرت جابر کی یہ بات( لا صلوۃ لمن یقر اء والی حدیث ہی نماز پڑھنے والے
کیلئے ہے ) حضرت جابر کا قول ہے اور صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا ۔
(عرف الجادی ص 38)
حوالہ جات تو اس سلسلے میں بہت زیادہ ہے تاہم صرف کتاب بمع
صفحہ نشاندہی کےطور پر دیکھے
(التحقیقات فی رد الھفوات ص 595 )
بلکہ ان کی
غیرمقلدیت کی نشہ سر پر اتنی چڑھ گئی ہے کہ چیلنج دیتے ہیں کہ صحابہ کے اقوال کا
حجت قراردینے پر دلیل لاؤ۔۔۔!!
چنانچہ غیرمقلدین کے"وکیلِ سلفیت رئیس ندوی"صاحب
لکھتےہیں
"ہمارا
مطالبہ دیوبندیہ سے۔۔۔کوئی ایک دلیلِ شرعی بھی اقوال و افعالِ صحابہ کےحجت
ہونے پر
دیں مگروہ آج تک عاجز وخائب وخاسر رہے اور
تاقیامت ایسےہی رہیں گے، کس نص یاقول و فعل صحابی و اجماع امت میں ہے کہ اقوال و
افعال صحابہ کو حجت بناؤ؟ "
(مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی
جائزہ ص655)
سبحان اللہ! اس ناکام وکیل کی وکالت دیکھو کہ قول و فعلِ
صحابی کے حجت ہونے پر دلیل لاؤ کاش زندہ ہوتا تو کئی دلائل لاتا لیکن غیرمقلد سمجھدار کہاں ہوتا ہے
ان کےساتھ جب علمی بات چیت ہوتی ہے تو پیچاروں کی کیا حالت ہوتی ہے وہ خود انہی کے
مؤرخ مولانا اسحاق بھٹی صاحب سے ملاحظہ کیجئے، موصوف اپنی جماعت کےمتعلق لکھتےہیں
" جماعت
اہلحدیث کےلئے علمی اور گہری باتیں بسااوقات پریشانی کاباعث ہوتی ہے"
(قافلہ حدیث ص80)
خود تو
صحابہ کے اقوال سےبھاگتےہیں لیکن مجال ہے کہ صحابہ کےبغیر یہ لوگ اپنا ایمان ہی
ثابت کردیں ، نمک حرامی کی بھی حد ہوتی ہے مجھے تو اس خاص موقعہ پر غیرمقلدین
کےمحقق بہالپوری صاحب کی بات یاد آئی کہ
"ورأیت المنافقین یصدون عنک
صدودا تو وہ جو
منافق ہوگا ڈٹ جائےگا اور اب اللہ نےسمجھ دی ہےغور کرتےہیں تو ہم سمجھتےہیں یہ آیت
تو اہلحدیثوں پربھی فٹ آتی ہے"
(خطبات بہالپوری ج3ص85)
36.چند
اعترافی حوالہ جات
آخر میں چند اعترافی حوالہ جات ذکر کرینگے کہ
خود غیرمقلدین نے بھی مانا ہے اور اقرار کیا ہے کہ واقعی ہماری مذہب میں احادیث
صریحہ سے انکار موجود ہیں ، چنانچہ مشہور غیرمقلد عبدالحق غزنوی صاحب اپنےمسلک کے
ہیرو اور شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب کےمتعلق لکھتےہیں
"آیاتِ صریحہ اور احادیثِ صحیحہ اور اہلِ
اسلام کوچھوڑ کر قفال کامقلد بن کر عرش سےانکاری ہوا"
(الاربعین ص18)
موصوف مزید امرتسری صاحب کےمتعلق لکھتے ہیں
"چونکہ
مصنف تفسیرثنائی کےنیچرکےخلاف ہے لہذا صریح حدیث سےخلاف کیا اور اس تفسیر سےابوعلی
جبائی معتزلی کا مقلد ہوا "
(الاربعین ص19)
یہ بھی پڑھے
"چونکہ
مصنف تفسیرثنائی نے بتقلید فرقہ ضالہ معتزلہ برخلاف تفسیرنبوی وہ معنی کیا ہے جس
سےعذاب قبر اور سوال نکیرو منکر ثبوت تک نہ پہنچے
(ص 20)
اس لئے تو غیرمقلدین کےمشہور خطیب و مناظر عبداللہ بہالپوری
صاحب کہتےہیں کہ
"میرےبھائیو! صحیح دین کونساہے؟ حنفی صحیح
دین نہیں ہے وہابی صحیح دین نہیں ہے"
(خطبات بہالپوری ج3ص315)
کوئی یہ نہ کہے کہ غزنوی صاحب کا امرتسری صاحب
سےذاتی دشمنی تھا بلکہ غیرمقلدین کےبڑے محسن حسین بٹالوی صاحب بھی امرتسری صاحب کے
متعلق یوں رازفشائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"احادیث صحیحہ نبویہ مفسرہ قرآن کو چھوڑ کر
بتقلید معتزلہ و
نیچریہ قرآن کی تفسیر رائے سے کرتا ہے"
(الاربعین ص44)
عبدالمنان نورپوری صاحب غیرمقلد لکھتےہیں:
"بعض
اوقات اہلحدیث بھی تقلیدکی دعوت دیناشروع کردیتےہیں کوئی مسئلہ بیان کیاجائے قرآن
کی آیت یا رسول اللہﷺ کافرمان سنایاجائے تو کہاجاتاہے فلاں صاحب نےتویہ فتویٰ دیا ہے کیا یہ تقلید نہیں؟ دوسروں کےمتعلق
توتقلید کا مسئلہ پوچھتاہے اور خود وہ تقلید کررہاہے"
(مقالات نورپوری ص158)
الغرض۔۔۔
غیرمقلدین کا مسلک اور مسائل تو ہے ہی احادیث کےخلاف، لیکن ان کے اکابرین بھی یہ
اظھارِ حقیقت بیان کرتےہیں کہ ہمارے مسلک کے فلاں فلاں احادیث کےخلاف ہیں ، لیکن
اس کے باوجود بھی
ان لوگوں کا یہ
کوشش ہے کہ
"آپ کا
فرض ہے کہ اس دین کی لوگوں مودعوت دیں اور لوگوں کو اہلحدیث بنائیں۔۔۔ یہ سب
سےبڑاجہاد ہے"(خطبات بہالپوری ج3ص315)
41 : عصمت
انبیاء (علیہم السلام)
عصمت کا مطلب ہے گناہوں سے معصوم ہونا۔
تمام انبیاء علیہم السلام تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں، عصمت
انبیاء کے لیے لازم ہے ان سے گناہوں کا صدور نہیں ہوتا۔ملا علی قاری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں والأنبیاء علیھم السلام کلّھم منزھون
أي معصومون عن الصغائر والکبائر أي من جمیع المعاصي الخ(شرح فقہ الأکبر:68)
انبیاء کرام ؑ کی عصمت کاعقیدہ رکھنا
ضروریات دین میں سے ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی جھول ایمان کے لئے خطرناک ہوسکتی
ہے۔
شاہ اسماعیل
شہیدؒ( المتوفی :1246ھ) عصمت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"عصمت
کامعنیٰ یہ ہے کہ انبیاء کرام کے اقوال
وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اوراخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرت
کاملہ کی بدولت اُن کومداخلتِ نفس وشیطان اورخطاونسیان سے محفوظ رکھتا ہے اورمحافظ
ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے تاکہ بشریت کاغُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ
کردے اورنفس بہیمیہ اپنے بعض اموراُن پر مسلّط نہ کردے اور اگر قانون رضائے الٰہی
کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امرواقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظ حقیقی(اللہ
تعالیٰ)اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کوراہ راست
کی طرف کھینچ لاتی ہے‘‘(منصب امامت:۷۱)
اس پر دلائل
مندرجہ ذیل ہیں:
دلیل نمبر 1:
وَأَطِيْعُوا اللَّهَ
وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْا
أَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ
[المائدہ: 92]
ترجمہ: اور
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے ) بچتے رہو اور اگر
تم ( اس حکم سے) منہ موڑو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ
وہ صاف صاف طریقے سے ( اللہ کے حکم کی) تبلیغ کر ے۔
دلیل نمبر 2:
يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ
آمَنُوْا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْل
[النساء: 59]
ترجمہ: اے
ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو۔
فائدہ
: ان آیات میں
اللہ رب العزت نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دیاہے۔ اگر
رسولِ خداﷺ معصوم نہ ہوتے تو اللہ ان کی اطاعت کا کبھی حکم نہ دیتا۔
دلیل نمبر 3:
عن عبد اللّٰه بن عمروؓ قال كنت
أكتب كل شىء أسمعه من رسول اللّٰهﷺ أريد حفظه فنهتنى قريش وقالوا أتكتب كل شىء تسمعه ورسول
اللّٰهﷺ بشر يتكلم فى الغضب والرضا فأمسكت عن الكتاب فذكرت ذلك
لرسول اللّٰهﷺفأومأ
بأصبعه إلى فيه فقال «اكتب فوالذى نفسى بيده ما يخرج منه إلا حق ».
[سنن ابی داؤد ج2ص514، مسند
احمد ج2ص162 رقم الحدیث 6510]
ترجمہ: حضرت
عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ سے جو بات سنتا تھااس
کو لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کروں۔ قریش نے مجہے اس بات سے روکا اور کہنے لگے کہ آپ نبیﷺ سے سنی
ہر بات لکھ لیتے ہیں، آپﷺ بھی تو انسان ہیں، خوشی اور غمی میں کلام کرتے ہیں۔ تو
میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ میں نے یہ بات نبی کریمﷺ کو بتائی تو آپ ﷺنے اپنی انگلی کا
اشارہ اپنے منہ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا : تم لکھا کرو! قسم ہے اس ذات کی جس کے
قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔
فائدہ
: سب سے زیادہ
گناہ عموماً زبان سے صادر ہوتے ہیں۔ تو جس ذات کی زبان ہی قبضہ خدا میں ہے تو اس
شخصیت سے گناہ کا خیال کیونکر کیا جا سکتاہے؟!
دلیل نمبر4:
عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:
لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي
مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.
[مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 11ص546]
ترجمہ:نبی
کریمﷺنے فرمایا: مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔
دلیل نمبر5:
عن عائشةؓ والمغيرة بن شعبةؓ :أن النبيﷺ كان يقوم من الليل حتى
تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فقلت له: لم تَصْنَعُ هذا يا رسول الله، وقد غفر اللهُ لك ما تقدم
من ذنبك وما تأخر؟ قال: «أَفَلَا أحب أن أكونَ عبدا شَكُورًا»
(بخاری و مسلم)
عائشہؓ اور
مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ ﷺ
کے قدم پھٹ(سوج) جاتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا: آپ
ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف کر دی
ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا پھر میں شکرگزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟"
نوٹ : اس موضوع پر مزید دلائل بمع اعتراضات و جوابات کیلے ہماری
کتاب"تسکین
الأتقیاء فی مسئلة عصمة الأنبیاء" کو مطالعہ کریں۔
بغاوت :
اب اس شرعی مسئلے کےخلاف غیرمقلدین کا فقہی
مسئلہ جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے وہ ملاحظہ کیجے یعنی ان کا نظریہ یہ ہے کہ انبیاء
کرام علیہم السلام گناہوں سے معصوم نہیں بلکہ ان سے گناہ ہوجاتےہیں۔
چنانچہ امین
اللہ پشاوری صاحب غیرمقلّد(المولود:1383ھ بمطابق 1962ء) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
انبیاء قبل
النبوة و بعدالنبوة کبائر سےمعصوم ہیں البتہ صغائر ان(انبیاء کرام علیہم
السلام۔۔)سے صادر ہوئے ہیں(الحق الصریح
ج1ص320 طبع اول، ج1ص302طبع چہارم جدید، حکمۃ القرآن ج1ص389، طبع دوم و جدید ص399)
اور تعجب کی
بات یہ ہے کہ اس حوالہ کےذکر کرنے کےبعد انبیاء کرام علیہم السلام کے گناہوں کا ذکر کئے ہیں (اپنی زعم کےمطابق) جس میں یہ
بھی لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نےتین جھوٹ بولے تھے ۔
تو کیا جھوٹ
بولنا صغیرہ گناہ ہے ؟ کہ آپ نےلکھا ہے کہ "انبیاء کبائرسےمعصوم ہے" یا
کہ اصل میں آپ لوگوں کا یہی عقیدہ ہے کہ کبائرسے بھی معصوم نہیں ہے صرف عوام کو
تسلی دینے اور اپنے مسلک کو بدنام نہ کرنے کیلئے یہ واویلا کرتےہیں کہ کبائر سے
معصوم ہے؟؟؟ یا للعجب من سوء صنیع
غیرالمقلّدین
اور موصوف
مزید لکھتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے بھی گناہ صادر ہوئی ہے اور وہ گناہ بھی حرص
اور شہوت کی وجہ سے صادر ہوئی ہے العیاذباللہ
موصوف لکھتے
ہیں :
” معصیت کی
دو قسمیں ہیں ایک وہ معصیت کہ اس کی بنیاد کبر(تکبر) ہو اور دوسرا وہ معصیت کہ اس
کی بنیاد حرص اور شہوت ہو اول معصیت دوسری معصیت سے زیادہ سخت ہے ۔اول معصیت ابلیس
کا ہے اور دوسرا معصیت آدم علیہ السلام کا ہے ۔“
(حکمۃالقرآن ج1ص386، طبع دوم
ص396)
اللہ تعالی
ہمیں غیرمقلدین کی اس فقہ سے بچاکر صحیح فقہ کی اپنانے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
42: زنا کی حرمت
قرآن کریم
میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے
"ولَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى"
اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔
اِس آیت میں زنا کی حرمت و خباثت کو بیان کیا
گیا ہے ،’’زنا‘‘ اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں بدترین گناہ اور جرم قرار دیا
گیاہے ۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے
روایت ہے کہ حضور اقدسﷺنے ارشاد فرمایا:
’’جب مرد زنا
کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا
ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔“
(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب
الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۳، الحدیث: ۴۶۹۰)
بغاوت :
اب اس شرعی مسئلے کےخلاف ان کی فقہی مسئلہ
ملاحظہ۔کیجیے:
امین اللہ
پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام سےبھی زنا کی ایک قسم
صادر ہوئی ہے العیاذباللہ۔چنانچہ پشاوری صاحب لکھتے ہیں
"زنا
میں فرق ہوتا ہے بعض لوگوں کی زنا اعلیٰ (حقیقی) ہوتا ہے اور بعض کے وسط درجہ
میں ہوتا
ہے اور بعضوں کا ادنی درجہ میں
ہوتا ہے تو انبیاء کرام علیہم السلام
کے اگرچہ حقیقی زنا نہیں ہوتا لیکن"ھمّ" ہے ۔۔۔ اور یہ "ھمّ" زنا
کی ایک نوع ہے "
( الحق الصریح ج1ص336 طبع اول،
ج1ص317 طبع چہارم)
انا للہ وانا
الیہ راجعون !یعنی انبیاء کرام علیہم السلام سے "ھمّ" ہوئی
ہے اور یہ "ھمّ" زنا کی ایک قسم ہے ۔آخر اس "ھمّ" یعنی
ارادے کو کس نے زنا سے تعبیر کیا ہے معاذاللہ۔اسی وجہ سے دلیرانہ اور جرأت کےساتھ
ایک صحابی کےمتعلق تو کہتے ہیں کہ
"ہرچند
قرائن سےصاف یقین ہوتا تھا کہ مغیرہؓ بدکاری کےمرتکب ہوئے مگر چونکہ
شرع کا حکم یہ ہے کہ جب تک چاروں گواہ دخول اکو اس طرح نہ دیکھیں جیسےسلائ سرمہ
دانی میں جاتی ہے اس وقت تک زنا کی حدنہیں لگ سکتی"
( لغات الحدیث ج1ص316 مکتبہ
نعمانی کتب خانہ لاہور، مادہ ج)
43: نماز میں اذان کا جواب دینا
ابتداءِ اسلام میں دیگر احکامات میں
نرمی کی طرح نماز میں سلام اور کلام ممنوع
نہیں تھا، تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا اور احکامات نازل ہونے لگے تو نماز کے دوران
سلام اور کلام کی ممانعت آئی، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے،
عن علقمة، عن عبد اللّٰه، قال: كنا نسلم على رسول اللّٰه ﷺ وهو في الصلاة، فيرد علينا،
فلما رجعنا من عند النجاشي، سلمنا عليه فلم يرد علينا، فقلنا: يا رسول اللّٰه كنا نسلم عليك
في الصلاة فترد علينا، فقال: «إن في الصلاة شغلا»
"حضرت
عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں نماز کی حالت
میں سلام کرلیا کرتے تہے اور آپﷺ ہمیں
سلام کا جواب بھی دیا کرتے تہے ، پھر جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے تو ہم نے آپ
پر سلام کیا تو آپﷺ نے جواب نہیں دیا، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نماز
میں آپ پر سلام کرتے تہے تو آپ ہمیں سلام
کا جواب بھی دیتے تہے ! آپﷺنے فرمایا کہ نماز ہی میں مشغول رہنا چاہیے۔ (نماز میں
تسبیحات اور قرأت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنی چاہیے) "
(صحیح مسلم،
کتاب الصلوۃ، بات تحریم الکلام فی الصلوۃ، رقم الحدیث:538، ج:1، ص:382،
ط:داراحیاءالتراث العربی)
اسی طرح دیگر
ادلّہ بھی اس ہر شاہد ہیں لیکن اس پر اکتفاء کرتا ہوں ۔
بغاوت :
لیکن غیرمقلدین کا اس شرعی نظریہ سے
بالکل برعکس نظریہ ملاحظہ کیجیےامین اللہ پشاوری صاحب لکھتے ہیں:
" اس حدیث کا ظاہر
دلالت کرتی ہے کہ اذان کا جواب ہر حال میں دینا چاہیے خواہ وہ نماز میں ہی
ہو یا کسی دوسرے کام میں مصروف ہو۔۔۔
(الحق الصریح ج3ص335)
سبحان اللہ۔۔۔! سلام کا جواب جو
مسلمان کا حق ہے اس سے تو نبیﷺ منع کریں لیکن اذان کا جواب جو فرض عین نہیں اس کا
جواب نماز ہی میں دیا جائے ؟
اس کو کہتے
ہیں غیرمقلدیت بدون اجتھاد کی فقہ، جو سراسر شریعت کے خلاف ہے لیکن الزام دوسروں
کو دیتے ہیں۔موصوف دوسری جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ
"اگر
نماز میں چھینک آجائےتو الحمدللہ بغیرکسی کراہت کے پڑھ سکتے ہیں"
(الحق الصریح ج4ص484و 451)
موصوف کے
عجیب وغریب مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نماز میں باتیں کرنا نماز کی اصلاح
کےلئے یا عدم علم کی وجہ سے بالکل جائز ہے اس سے نماز باطل نہیں ہوتی (أیضا ص454)
نماز ہی میں
سلام کا جواب بھی اشارے سے دے سکتے ہو (الحق الصریح ج4ص842)
اور مطلق
اشارات بھی کرسکتے ہو، نماز میں دائیں بائیں بھی دیکھ سکتے ہو گردن پھیرنے کے
بغیر، بلکہ عمل کثیر سے بھی نماز نہیں ٹوٹتی، دیکھیے (الحق الصریح ج4ص453)
ضرورت کےوقت گردن بھی پھیرسکتے ہو(ص488)
اسی وجہ سے تکبیرتحریمہ کے بعد عینک اتھارنا اور
جیب میں رکھنا جائز ہے(ایضا ص114)
نماز میں پاک
حیوان کو اٹھاسکتے ہو(ص470)
اگر کسی امام
نے نجس کپڑوں میں نمازکرائی یا امام نے بےوضو نماز پڑھائی اور مقتدیوں کےعلم میں
یہ بات نہ تھی تو مقتدیوں کے نماز ادا ہوگئی (الحق الصریح ج5ص158)
اگر کوئ کمرے
میں ہو اور اس کو باہر سے جواب دیا جائے اور دوسرا کوئی شخص جواب دینےکےلئے نہ ہو
تو نماز ہی میں اس کو سبحان اللہ سے جواب دےسکتے ہو(ص478)
اور باہر سے عام فتحہ بھی دے سکتے ہو(الحق
الصریح ج5ص167)
اور نماز میں
دنیاوی اور اخروی دونوں دعائیں کرسکتے ہیں(الحق الصریح ج4ص297)
گلستان میں
جاکر ہر اک گل کو دیکھا
نہ تیری سی
رنگت نہ تیری سی بوھی
(اگر اللہ نے
چاہا تو نماز کے موضوع پر غیرمقلدین کےعجائب و غرائب مسائل پر تحقیقی مقالہ لکھونگا ان شاء اللہ)
44: شیرخواربچےکا پیشاب
ام المومنین
حضرت عائشہؓ نے فرمایا :
رسول اللہﷺ
کے پاس ایک بچہ (ام قیس بنت محصنؓ کا بیٹا) لایا گیا اس نے آپﷺکے کپڑے پر پیشاب
کردیا "فدعا بِماء فاتبعه إِياه" سو آپ
نے پانی منگوایا اور پیشاب پر بہا دیا۔
( بخاری، باب بول الصبیان ص ۳۵)
(۲) حضرت
عائشہؓ سے روایت ہے کہ
رسول اللہﷺ کے پاس بچے لائے جاتے۔ آپ ان کے لئے
برکت کی دُعا کرتے اور ان کو گھٹی لگاتے ایک مرتبہ بچہ لایا گیا اس نے آپﷺ پر
پیشاب کر دیا۔
"فدعا بماء فاتبعه بوله ولم
یغسلہ"
پس آپ نے
پانی منگوایا اور اس کےپیشاب پر بہایا اور اس کو (مبالغہ کےساتھ) نہ دھویا۔
(صحیح مسلم ص139)
(3) ابی
لیلیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں :
میں رسول
اللہ ﷺ کے پاس تھا حضرت حسنؓ نے آپ پر پیشاب کر دیا۔ فَلَمَّا فَرَغَ صَبَّ عَلَيْهِ الْمَاءَ - پس جب وہ
پیشاب سے فارغ ہو گئے تو اس پر پانی بہایا۔
(شرح معانی الآثار ص ۱۲۲)
اسی طرح مزید تفصیلی روایات اور بحث
کو دیکھنے کےلئے امام المحققین مولانا منیراحمد منوّر صاحب حفظہ اللہ عن کل السوء
کی کتاب"تقابلی مطالعہ" مطالعہ کیجئے ۔
بغاوت :
اب ان احادیث بالا کے خلاف غیرمقلدین کا فقہی مسئلہ
ملاحظہ کیجیے
امین اللہ
پشاوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ لڑکے کی پیشاب میں تخفیف ہے(الحق الصریح ج2ص571)
ایک اور جگہ
لکھتے ہیں
انسان کی
پیشاب نجس ہے۔۔۔سواۓ وہ بچہ جو دودھ پیتا ہو اور خوراک اب تک استعمال نہ کیا ہو
(أیضا ص148 و
149)
غیرمقلدین کی
ایک اورکتاب میں لکھا گیا ہے کہ
" اگر
شیرخوار بچہ (جس کا دودھ نہ چھڑایاگیاہو)کپڑے پر پیشاب کردے تو کپڑا دھوناضروری
نہیں ۔
(سنن ابن ماجہ مترجم ج1ص522)
45: جماعت ثانیہ فی المسجد
جناب نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ سے
ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے جو اپنے محلے میں جماعت کی گئی ہو اور پھر دوبارہ
جماعت کےطور پر نماز مسجد ہی میں کریں اس موضوع پر غیرمقلدین جو ناکام استدلال
کرتے ہیں بالکل دعوی کے مطابق ہے ہی نہیں۔
بغاوت :
لیکن غیرمقلدین کی فقہی مزاج کو
ملاحظہ کیجیے کہ ان سے جماعت ہو کر دوبارہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں جو ان
کے پاس اپنے دعوے کےمطابق ایک دلیل بھی نہیں اس لئے تو امین اللہ پشاوری صاحب بھی
لکھتے ہیں کہ حتی الوسع جماعت کی تکرار سے
بچنا چاہیے (الحق الصریح ج5ص180) اور سوشل میڈیا پر غیرمقلدین کے مناظر اعظم
عمرصدیق صاحب کا ویڈیو بھی وائرل ہوچکا ہے کہ اپنے ہی ہم مسلک ساتھیوں کو کہہ رہے ہیں کہ ایسی کوئ دلیل ہے ہی نہیں اس پر، ورنہ
ہمیں بھی ایسی کوئی دلیل سامنے لائیں ۔لہذا غیرمقلدین کا یہ عمل بھی شریعت کےخلاف
ہے
46: زانیہ کی مال سے مسجد بنانا
شریعت میں
پاک مال ہی مطلوب ہے جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ
"عن أبي هريرةؓ عن النبيﷺ قال: إِنَّ اللّٰهَ طَيِّبٌ لَا
يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا (مسلم)
ابو ہریرهؓ
سےروایت ہےکہ نبیﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول
کرتا ہے ۔
تو پاک مال
ہی اللہ کو محبوب ہے۔
بغاوت :
لیکن غیرمقلدین کا مذہب بھی ملاحظہ
کیجیے لکھتے ہیں کہ
”زانیہ کی
بنائی ہوئی مسجد مغصوب زمین کے حکم میں ہے اور نماز پڑھنا
مغصوب زمین میں مختلف فیہ ہے لیکن قول صحیح میں جائز ہے“( فتاوی نذیریہ ج1ص373)
اب قارئین
خود سوچ لیں کہ یہ فقہ اہل حدیث شریعت کےخلاف نہیں ہے؟
47:حلال جانور کی پیشاب
شریعت نے پیشاب سے مطلقا بچنے کی
تلقین کی ہے چنانچہ حضرت ابوہریرةؓ کی مرفوع حدیث میں ہے:
"عن أبي هريرةؓ مرفوعًا:
«اسْتَنْزِهوا من البول؛ فإنَّ
عامَّة عذاب القبر منه»
(سنن الدار قطنی، صحیح)
ابوہریرہؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"پیشاب (کے چھینٹوں) سے بچو؛ کیوں کہ عموما
قبر کا عذاب اسی وجہ سے ہوتا ہے۔"
بغاوت :
لیکن
غیرمقلدین کا اس شرعی حکم کےخلاف فقہی مسئلہ ملاحظہ کیجئے چنانچہ امین اللہ پشاوری
صاحب لکھتےہیں کہ
" اس
بات پر دلائل موجود ہے کہ پیشاب اور گندگی مأکول اللحم جانوروں کا پاک ہے"
( الحق الصریح ج3ص600)
دوسری کتاب
میں لکھتےہیں
"جن
جانوروں کی گوشت کھایا جاتا ہے اس کی لید اور گوبرپاک ہے اور اس کےاوپر نماز پڑھنا
جائز ہے"
(فتاوی الدین الخالص
ج1ص394پشتو)
اور مزید لکھتےہیں کہ
"مأکول اللحم جانوروں کی
پیشاب جب پانی کےساتھ مل جاۓ تو اس سے پانی پلیدنہیں ہوتی"
(فتاوی الدین الخالص ج1ص395)
48: خطبہ میں اردو اشعار
غیرمقلدین کا
یہ مسلک ہے کہ جمعہ کےدن جمعہ کےخطبہ میں اردو اشعار کی اجازت ہے (دیکھیے فتاوی نذیریہ ج1ص614)
سبحان اللہ!
غیرمقلدین کی عرب و عجم اکھٹے ہوکر صرف اور صرف ایک ہی ایسی دلیل لاۓ کہ جناب نبی
کریمﷺ نے غیرعربی زبان خطبے میں اشعار کی اجازت دی ہو ایک لاکھ ڈالر اور ایک من
کھجور انعام میں دیا جائیگا دیدہ باید۔۔۔۔
49: خود اپنےہی گھر سے ثبوت
مضمون کے آخر میں دو حوالے ان کی
گواہی کےطور پر پیش کرتےہیں کہ یہ حضرات خود ہی اپنے مسلک کے متعلق بھی گواہی دیتا
ہے کہ ہم شریعت(قرآن وحدیث) کے مطابق نہیں
ہے۔چنانچہ امین اللہ پشاوری صاحب لکھتے ہیں:
"اب تک ہم
مسلمان اللہ اور اس کےرسول کے باتوں کا تابع نہیں ہوگئے "
(الحق الصریح ج5ص189)
50 : ایک اور
ثبوت
غیرمقلدین کے مناظراعظم اور مجتہد و
مفتی عبدالقادرحصاری صاحب اپنےہی ہم مسلک لوگوں کےمتعلق لکھتےپیں:
" کس
قدر افسوس ہے کہ دعوی تو یہ ہے کہ ہم قرآن وحدیث کےعامل ہیں اور اپنےصحیفوں میں
بھی یہ شائع کیا جاتا ہے کہ "یہ شرعی جماعت ہے جس کا دستور خالص
بغیرتقلیدشخصی واقوال الرجال کےصرف قرآن وحدیث ہے" لیکن فتووں میں عمل اس
دعوی کے خلاف ہے۔
( فتاوی حصاریہ ج5ص475)
شکوے ہمارے
سارےغلط ہی سہی مگر
لوتم اب بتاؤ
ہ کس کا قصور تھا
اللہ کی فضل و کرم سے ہم نے ان کے چند
مختصر مشت نمونہ ازخروارے کے مطابق ان کے حقائق دکھادیا اب ماننا اور نہ ماننا ھر
کسی کی اپنی ذمہ داری ہے ہمارا کام صرف لوگوں کو خبردار اور لوگوں تک ان کے حقائق
پہنچانا تھا اور بس۔
انصاف کیجۓ
گا خوب دیکھ بال کے
کاغذ پہ لکھ
دیا ہے حقائق ان کے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں