نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض:... مُردوں کا وسیلہ بدعت ہے

 


 فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع( جلددوم )

 اعتراض:۱۳۸... مُردوں کا وسیلہ بدعت ہے

مفتی رب نواز صاحب حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمدپور شرقیہ                               (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

 شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ علامہ جزری رحمہ اللہ نے حصن حصین میں آداب دعا میں لکھا ہے وان یتوسل الی اللہ تعالیٰ بانبیاء یعنی توسل حاصل کرے اللہ جل شانہ کی طرف اس کے انبیاء کے ساتھ اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ جیسا کہ بخاری سے معلوم ہوتا ہے ۔ ‘‘

( فضائل درود صفحہ ۴۹)

            محمد طارق خان غیرمقلدمذکورہ عبارت پر اعتراض کرتے ہوئے پہلے تو یہ کہا کہ بخاری میں کسی سے دعا کرانے کی بات ہے وسیلہ کی نہیں ، پھر لکھا:

            ’’جب کہ زکریا صاحب کی ساری کوشش اسی موقف کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے مردوں سے توسل جائز ہے ۔ ‘‘

            (تبلیغی جماعت عقائد افکار ، نظریات اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۹۳)

پھر اگلے صفحہ پر لکھا:

’’ سلف میں اہلِ سنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا بدعت ہے ۔‘‘

(تبلیغی جماعت عقائد افکار ، نظریات اور مقاصد کے آئینے میں صفحہ ۹۴)

الجواب:

طارق صاحب کے اس اعتراض میں دوباتیں ہیں:

۱۔ بخاری میں کسی سے دعا کرانے کی بات ہے ، وسیلہ کی نہیں۔

 ۲۔ اہل السنت وا لجماعت کے ہاں بالاتفاق وسیلہ بدعت ہے۔

آئیے! دونوں باتوں کی تردید خود غیرمقلد علماء کی زبانی پڑھیے۔

             حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے دَورمیں قحط پڑتاتھا تووہ حضرت عباسؓ کے وسیلہ سے دعاکیاکرتے تھے اوریوں کہتے:

            ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنِّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ بِعَمِّ نَبَیِّنَا فَاَسْقِنَا فَیُسْقَوْنَ‘‘ (صحیح بخاری :۱؍ ۱۳۷)

            یااللہ ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاوسیلہ لایاکرتے تھے اورتوپانی برساتاتھا اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں سو ہم پرپانی برسا۔ راوی کہتے ہیں پھرپانی برستاتھا۔

 غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان غیرمقلد، بخاری کی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

            ’’ اس حدیث سے نیک بندوں کاوسیلہ لیناثابت ہوا، بنی اسرائیل بھی قحط میں اپنے پیغمبرکے اہل بیت کا توسل کیاکرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پانی برساتا۔ اس سے یہ نہیں نکلتاکہ حضرت عمرؓ کے نزدیک آنحضرت کا توسل آ پ کی وفات کے بعد منع تھا کیونکہ آپ تواپنی قبر میں زندہ ہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو دعاسکھائی، اس میں یوں ہے یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَسَّلُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ۔ اوران صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ دعادوسروں کوسکھلائی۔ ‘‘

(تیسیرا الباری: ۲؍ ۷۵)

 وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’حضرت عمر ؓ کے کارنامے قیامت تک صفحہ ٔ تاریخ سے مٹ نہیں سکتے، مسلمانوں کے دلوں پر ان کے احسانات کندہ ہیں،حضرت عمرؓ کے طفیل سے بہشت کاایک کونا ہی حق تعالی مرحمت فرمادے تو ہمارا بیڑا پارہے ۔

(تیسیرالباری :۷؍۱۴۳)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’ اگر کوئی کاغذ پر لکھ کر اپنے ساتھ رکھے (الٰہی بحقِ حضرت خواجہ محمد صادق ازشر طاعون نگاہدار) تووہ اللہ کے فضل وکرم سے طاعون سے محفوظ رہتاہے۔ ‘‘

( تیسیرالباری: ۷؍۴۹۸)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’ہم کو بڑی اُمید ہے کہ اللہ جل جلالہ امام حسن علیہ السلام کے صدقے ہم کو دوزخ اور عذاب قبر سے بچاوے گا ۔مرزا مظہر علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں ایک بار ایک رافضی نے جناب امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بدگوئی کی مجھ کو غصہ آیا خنجر لے کر اس کو مارنے دوڑا وہ گر پڑا عاجزی کرنے لگا امام حسن کی طفیل معاف کرو ،مجھ پر رحم کرو بمجرد (صرف) امام حسن ؑکا نام مبارک سننے کے ساتھ ہی میرا غصہ جاتارہا میں نے اس کوچھوڑدیا۔ ‘‘

(تیسیرالباری :۷؍۵۹۱)

             بخاری :کتاب اللباس ، باب ارداف الرجل خلف الرجل کی ایک حدیث کے تحت وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ دعا میں بحق محمد ؐ وآل محمد ؐ یا بحق اولیاء ک یا بحق انبیاء ک کہنا درست ہے گوحق کا معنی یہاں وجوب کا نہیں ہے۔ ‘‘

( تیسیرالباری :۷؍۶۳۰)

 وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’یااللہ حضرت پیر ومرشد شیخ عبدالقادر جیلانی کے طفیل ا س کتاب کو بھی مقبول فرمادے ۔‘‘

(لغات الحدیث:۱ ؍۱۴۴،ج )

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’ہمارے وسیلہ بارگاہ پیغمبر ؐ صاحب میں د و ہی شخص ہیں ایک جناب امام حسن علیہ السلام او ر دوسرے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ جو آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ ‘‘

(لغات الحدیث:۱ ؍۱۴۶،خ)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’ہم تیری بارگاہ میں عباس کا وسیلہ لاتے ہیں اُن کی سفارش پیش کرتے ہیں ۔یہ  حضرت عمرؓ نے استسقاء میں فرمایا حضرت عباس کا وسیلہ لیا۔ ‘‘

(لغات الحدیث: ۱؍۶۲،د)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’اگر یوں کہے تو چنداں بے جا نہیں ہوگا یااللّٰہ شیئاًبحق الشیخ عبدالقادر۔ ‘‘

(لغات الحدیث: ۲؍۸،س)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            جب حضرت عمرؓ استقاء کے لیے نکلے اورحضرت عباس ؓ کو اپنے برابرکھڑا کرکے یہ دعا کی یااللہ ہم تیرے پاس تیرے پیغمبر کے چچاکاوسیلہ لاتے ہیں یعنی اُن کے وسیلہ سے پانی برسا،حضرت عمرؓکا یہ مطلب نہیں تھاکہ پیغمبر صاحبؐ کا اب وسیلہ نہیں ہوسکتا بلکہ حضرت عباس ؓ زندہ تھے اور دعا میں شریک کرانا منظور تھا اس لئے اُن کا توسل کیا۔ ‘‘

(لغات الحدیث: ۲؍۱۲،س)

 وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’ اللھم بمحمدک نبیک وبموسیٰ نجیک یااللہ !حضرت محمد ؐ کے طفیل سے جو تیرے پیغمبر ؐ ہیں اور حضرت موسیٰ کے وسیلہ سے جن سے تو نے باتیں کیں ۔اس حدیث سے توسل بالاموات کا جواز ثابت ہوتا ہے اورجنہوں نے اس کو ناجائز کہا ہے ،انہوں نے اس حدیث پر توجہ نہیں کی ۔‘‘

(لغات الحدیث: ۴ ؍۲۷،ن)

 وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بزرگ کے حق میں وسیلہ سے دعا مانگنا درست ہے اور بہت سی حدیثوں میں حق کا لفظ وارد ہے پس جس فقیہ نے ا س لفظ کو مکروہ جانا ہے اِس کو ان حدیثوں کی خبر نہیں ہوئی۔‘‘

(رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجہ: ا؍۳۹۹)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’یااللہ تو اپنے فضل وکرم سے ہمارا خاتمہ ایمان پر کر اور اپنے نیک بندوں کی طفیل سے ہم بُروں اور روسیا ہوں کی بھی مغفرت کر۔ ‘‘

 (رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجہ: ا؍۴۰۹)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’صحابہ کرام استسقاء میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیتے اور حضرت عمرؓ نے آپ کی وفات کے بعد حضرت عباس ؓ آپ کے چچا کا وسیلہ لیا اب بھی جو اہل ِ صلاح اور تقوی ہوں ان کا توسل استسقاء میں بہتر ہے۔ ‘‘

(رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجہ: ا؍۶۲۸)

وحیدالزمان صاحب وسیلہ کے متعلق سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

            ’’شیخ عابد سندھی مدنی نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے توسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جائز ہونانکلتاہے اور یہ عام ہے آپ ؐ کی حیات میں ہو یا آپ کی وفات کے بعد اور بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھ توسل جائز نہیں ہے کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ؐ کی وفات کے بعد توسل کیا آپ ؐ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفات بھی اپنی قبرشریف میں زندہ ہیں تو جیسے توسل پہلے جائز تھا اب بھی جائز ہوگا۔ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی کلام سے اس کا عدم جواز نہیں نکلتا ،بلکہ ان کا مقصود زندوں سے توسل کرنا تھا۔ اور دلیل ہماری وہ روایت ہے جو طبرانی نے نکالی کبیر میں عثمان بن حنیف سے کہ …… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ اتنے میں ایک اندھا شخص آیا اور اپنی بینائی کا شکوہ کیا آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو صبر کر تا ہے ۔؟وہ بولا میراکوئی لے چلنے والابھی نہیں ہے اور ،مجھے بہت تکلیف ہے۔ تب آپ ؐ نے ارشادفرمایا اچھا تو وضو کے مقام پر جا اور وضوکر پھر دورکعت پڑھ پھر یہی دعا(اللّٰھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربک فتقضی حاجتی) آپ نے اس کوسکھائی۔ ابن حنیف نے کہا قسم ہے خداکی پھر ہم جدانہیں ہوئے تھے اورباتیں کررہے تھے کہ اتنے میں وہی نابینا شخص ہمارے پاس آیا گویا اس کی بینائی میں کچھ خلل بھی نہ تھا۔ اور امام بیہقی نے اس حدیث کو کئی طریقوں سے نکالا ہے اور طبرانی نے معجم کبیر اور اوسط میں ،اور اس کی اسناد میں روح بن صلاح ہے ثقہ کہا اس کو ابن حبان اور حاکم نے اور اس میں کچھ ضعف ہے باقی راوی صحیح کے راوی ہیں۔ ‘‘

(رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجہ:ا؍۶۸۴)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء اور صلحاء کا واسطہ او روسیلہ البتہ کرسکتے ہیں جیسے کوئی یوں کہے: یااللہ! بحق حضرت محمد ؐ کے یا وسیلہ حضرت محمدؐ مجھ کو شفاء عطافرما۔یہ ہمارے نزدیک درست ہے اگرچہ بعض لوگوں کو اس میں کلام ہو ۔‘‘

(رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجہ:ا؍۶۸۵)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے انبیاء اورصالحین کو وسیلہ بنانا ایک اختلافی مسئلہ ہے ،بعض اس کو مطلقاً ناجائز قراردیتے ہیں ،بعض زندوں سے وسیلہ کو جائز اورمُردوں سے ناجائز سمجھتے ہیں ،بعض کا قول مطلقاً جواز کا ہے اور بعض صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جواز کے قائل ہیں ،یہ آخری قول ابن عبدالسلام کا ہے اور مروزی نے ’’ المنسک ‘‘میں امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بناتے تھے ،علامہ ابن قیم نے دوسرا قول اختیارکیا ہے یعنی (زندوں سے جواز اور مردوں سے عدم جوازکا) اوران کے شیخ (ابن تیمیہ )سے دوروایتیں ہیں ...اور علامہ سبکی ،شوکانی اورہمارے سید (نواب صدیق حسن خان ) نے تیسراقول (یعنی مطلقاً جواز) اختیارکیاہے اوریہی قول مختارہے اس لئے کہ جب غیراللہ سے توسل کاجواز ثابت ہوگیا تو پھروہ کون سی دلیل ہے جس سے اس کو صرف زندوں کے ساتھ مختص کردیاجائے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر میں کوئی ایسی چیز نہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم )سے توسل سے ممانعت پر دلالت کرتی ہو،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تو خود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بناکر دعا میں لوگوں کے ساتھ ان کو شریک کیا تھا جب کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،اسی طرح شہداء اور صالحین بھی زندہ ہیں ۔ابن عطاء نے ہمارے شیخ ابن تیمیہ پر بہت سی چیزوں کا دعوی کیا لیکن ان میں سوائے اس کے کچھ ثابت نہ کرسکے کہ شیخ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استعانت بمعنی عبادت جائز نہیں ہے، ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وسیلہ پکڑنا جائز ہے کیونکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف نے اپنے پا س آنے والے ایک آدمی کو دعاسکھائی جس میں ہے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبینا محمد نبی الرحمۃ ...(یعنی اے اللہ !میں آپ سے سوال کرتاہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتاہوں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے و سیلہ سے )یہ حدیث امام بیہقی نے سند متصل کے ساتھ ذکر کی ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ پتہ نہیں یہ بات لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ اللہ کی قربت کے حصول کے لئے اگر اعمال صالحہ کو وسیلہ بنانا قرآن اورسنت کی نصوص سے ثابت ہے تواس پر صالحین کے توسل کو قیاس کیوں نہیں کرلیاجاتا ۔علامہ جزری ’’آداب دعا ء‘‘ کے ذکر میں فرماتے ہیں :ان آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ انبیاء اور صالحین کو اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ بنایا جائے اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم ) میں آ پ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتاہوں ۔نواب صدیق حسن خان نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے موضوع نہیں ہے ،امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قراردیا ہے اور حدیث دعا میں آیا ہے اللھم بمحمد نبیک وبموسیٰ نجیک (اے اللہ !آپ کے نبی محمد اور آپ سے سرگوشی اورکلام کرنے والے موسیٰ کے وسیلہ )ابن الاثیر نے النہایۃ میں اورعلامہ طاہر پٹنی نے دعاء آدم کی حدیث نقل کی ہے جس میں ہے یارب اسئلک بحق محمد (اے میرے رب ! محمد کے حق کے طفیل میں آپ سے سوال کرتاہوں )یہی حدیث ابن المنذر نے نقل کی ہے ا س میں ہے اللھم انی اسئلک بجاہ محمد عندک وکرامتہ علیک (اے اللہ !تیرے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاجومقام ومرتبہ ہے عزت واکرام ہے اس کے وسیلہ سے میں تجھ سے سوال کرتاہوں ۔)علامہ سبکی نے فرمایاکہ توسل ،استغاثہ اور تشفع (شفاعت وسفارش ) اچھا ہے ،قسطلانی نے مزید کہا:تضرع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے اللہ کی طرف توجہ اور تجوہ (بجاہ النبی کہنا) بہترہے، سلف اورخلف میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ،یہاں تک کہ ابن تیمیہ آئے اور انہوں نے اس کا انکار کردیا ۔ ہمارے اصحاب میں علامہ شوکانی نے فرمایا کہ توسل کے جواز کو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص کردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیساکہ شیخ عزالدین بن عبدالسلام کا خیال ہے اہل علم اور اہل فضل کو اللہ کی طرف وسیلہ بنانا درحقیقت ان کے اعمال صالحہ کو وسیلہ بناناہے ۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں :کسی بنی ،یاکسی ولی کو سیلہ بنانے اسی طرح کسی عالم کو وسیلہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ،کوئی شخص قبر کی زیارت کے لئے آکر صرف اللہ سے دعاکرے اور مردے کو وسیلہ بنائے اور کہے کہ :اے اللہ میں آپ سے سوال کرتاہوں کہ مجھے اس مرض سے شفا مل جائے اور میں اس نیک بندے کو آپ کی طرف وسیلہ پکڑتاہوں۔ تو اس کے جواز میں کوئی تردد نہیں ہے ۔ہمارے مشائخ کے شیخ مولانا اسحاق صاحب نے ’’مائۃ مسائل ‘‘میں فرمایا کہ اللہ تعالی سے یوں دعاکرنا جائز ہے کہ آدمی کہے :اے اللہ !آپ اپنے واسطہ سے میری حاجت پوری فرما یا فلاں کی حرمت کے طفیل میری یہ ضرورت پوری فرما ؛دعا استفتاح میں بحرمۃ الشھر الحرام والمشعر العظام وقبر نبیک علیہ السلام کے الفاظ مروی ہیں ۔حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے ’’تقویۃ الایمان ‘‘ میں فرمایا کہ آدمی اس طرح کہے توجائز ہے اللھم انی اسئلک بوسیلۃ فلان من الاولیاء اے اللہ! میں فلاں ولی کے وسیلہ سے آپ کا سوال کرتاہوں...‘‘

(ہدیۃ المہدی: ا؍۴۷تا ۴۹)

وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں :

            ’’التوسل الی اللّٰہ تعالی بانبیاء ہ والصالحین من عبادہ جائز یستوی فیہ الاحیاءوالاموات. اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کے بندے انبیاء اورصالحین کا وسیلہ دیا جائے تو

 جائز ہے مُردوں اورزندوں دونوں کا وسیلہ دینا جائز ہے ۔

 (نزل الابرار من فقہ النبی المختار :ا؍۵)

رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے علامہ وحید الزمان کو ’’ امام اہلِ حدیث ‘‘ کہا ہے ۔

 (سلفی تحقیقی جائزہ :۹۴۵،مؤلفہ رئیس محمد ندوی)

            غیرمقلدین نے اُن کے اہلِ حدیث ہونے پر گواہیاں دی ہیں جنہیں بندہ کی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

            حافظ محمدلکھوی غیرمقلد کے نزدیک اصحاب کہف کے ناموں کا تعویذ اور بحق مریم و عیسی ابنا صالحا طویل العمر بحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سے وسیلہ جائز ہے ۔

( فتاویٰ اہلِ حدیث : ۲؍۷۱۵، ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا )

             غیرمقلدین کے امام العصر مولانا میرمحمد ابراہیم سیالکوٹی بھی وسیلہ کے قائل ہیں۔

(دیباچہ تفسیر سورہ کہف صفحہ ۶ بحوالہ فتاوی ستاریہ : ۳؍۱۴۱)

فائدہ: ۱

مولانا ابو المکارم محمد علی مؤی لکھتے ہیں:

            ’’ یا رسول اللہ کہہ کر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا مقصود ہے تو جائز ہے، اسی طرح اگر کوئی کہے کہ یار سول اللہ ! میں فلاں مشکل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں آپ کو اللہ کی طرف وسیلہ بناتا ہوں تو بھی جائز ہے ... کیوں کہ یا محمد انی قد توجھت بک الی ربی ... والی حدیث سے مشکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ ‘‘ ( الجوابات الفاخرۃ صفحہ ۶۵)

قاضی محمد بشیر سہسوانی غیرمقلدتوسل کی قسمیں بیان کرتے ہوئے تیسری قسم یوں لکھتے ہیں:

            ’’ تیسری قسم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنایا جائے، آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہوئے۔ ‘‘

 ( صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان صفحہ ۶۵ )

            اس فائدہ کے تحت مذکور دونوں حوالے بندہ نے حضرت مولاناابو بکر غازی پوری رحمہ اللہ کی کتاب ’’ کچھ

 دیر غیرمقلدین کے ساتھ صفحہ ۲۲۰، ۲۲۴ ‘‘ سے نقل کئے ہیں۔

فائدہ: ۲

۱۔غیرمقلدین کے مسلّم پیشوا قاضی شوکانی نے وسیلہ کے جواز پر باقاعدہ کتاب ’’ الدر النضید ‘‘ تحریر کی ۔

۲۔ غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی۔

( معیار الحق صفحہ ۴۱۹)

 ۳۔غیر مقلدین کے ’’ خاتم المحدثین ‘‘نواب صدیق حسن نے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی کہ اللہ ہمیں ابن عربی کے گروہ میں اُٹھائے۔

( التاج المکلل صفحہ ۱۸۰)

            ان کتابوں کے اقتباس بندہ نے فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع جلد اول اعتراض : ۱۳ کے جواب میں نقل کر دئیے ہیں۔

 فائدہ: ۳

وسیلہ کے جواز پہ حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا شخص کو دعاسکھائی کہ یوں دعا کرو:

             اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ انی توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی۔ ‘‘

( ترمذی :۲؍۱۹۷ )

            ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو نبی الرحمۃ ہیں کے وسیلہ سے توجہ کرتا ہوں ۔‘‘

             اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابو جعفر ہے اس کی تعیین کسی نے الرازی سے اور بعض نے المدائنی سے کی جب کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق صحیح یہ ہے کہ یہ راوی ابوجعفر الخطمی ہے ۔ ( تسکین الصدور صفحہ ۴۳۱)

غیرمقلدین کے فتاویٰ میں بھی اس راوی کا تعین ’ الخطمی ‘‘ سے کیا گیا ملاحظہ فرمائیں:

            ’’امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی یہ حدیث اپنی کتاب ’’ الوسیلۃ ‘‘ میں ذِکر کی ہے لیکن اس پر

 کوئی جرح نہیں کی ، بلکہ اس کے مختلف جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن تیمیہ ؒکے نزدیک اس حدیث کی اسناد پر کوئی شبہ نہیں۔ شیخ البانی نے فرمایا : میں نے اس حدیث کی خود تحقیق کی ہے۔ اگرچہ سہسوانی کا قول صحیح ہے لیکن یہ نہ ابو جعفر رازی ہے،اور نہ ہی یہ ابو جعفر مؤذن ہے۔ یہ حدیث حاکم نے روایت کی ہے اور انہوں نے نام عمیر بن عبد العزیز لکھا ہے۔ تو یہ راوی ابو جعفر عمیر بن عبد العزیز خطمی ہے جو مسلم کا راوی ہے۔ ‘‘

( فتاوی اہلِ حدیث :۱؍۶۸۵، ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...