نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اہلِ حدیث کا ترک رفع یدین کی حدیث کوثابت مان کر ترک کی تائید کرنا اوراس پہ عمل پیرا ہونا


ترک رفع یدین کو قسمیں اُٹھاکر غیرثابت کہنے والے غیرمقلد خطیبوں : یوسف پسروری اور سبطین شاہ کو منہ توڑ جواب

 غیرمقلدین کا ترک رفع یدین کی حدیث کوثابت مان کر

ترک کی تائید کرنا اوراس پہ عمل پیرا ہونا

 مفتی رب نواز حفظہ اللہ ،مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

           حدیثوں کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر اونچ نیچ ، سجدوں میں اور بوقت رکوع رفع یدین کرنا ثابت ہے مگر بعد میں ان سب مقامات کے رفع یدین کو چھوڑ دیا تھا صرف شروع والا رفع یدین اختیار فرمایا۔ترک رفع یدین پر لکھی گئی کتب میں ایسی حدیثوں کو جمع کر دیا گیا ہے جن سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف شروع میں رفع یدین کیا ، پھر نہیں کیا۔دیکھئے درج ذیل کتب:

۱۔ نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ، تالیف حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ ۔

۲۔جزترک رفع یدین مؤلفہ حضرت مولانا عبد الغفار ذہبی رحمہ اللہ۔

۳۔تسکین العینین فی ترک رفع الیدین تالیف : مولانا نیاز احمد اوکاڑوی حفظہ اللہ۔

          ہم اپنے اس مختصر مضمون میں ترک رفع یدین کی حدیثوں کا استیعاب نہیں کر سکتے۔ اس لیے صرف ایک حدیث درج کرکے اس کی تصحیح غیرمقلدین کی زبانی نقل کریں گے۔ پھر مزید یہ کہ غیرمقلدین کی طرف سے ترک رفع یدین کی تائید اور اُن کا اس پر عمل پیرا ہونا خود اُن کی اپنی تحریروں سے ثابت کریں گے ان شاء اللہ۔اُمید ہے کہ غیرمقلدین کے یہ حوالہ جات یوسف پسروری اور سبطین شاہ وغیرہ غیرمقلد خطیبوں کی قسموں کو بے حیثیت اور فضول ظاہر کے لیے کافی ہیں۔یوسف پسروری اور سبطین شاہ میں اگر ہمت ہے تو ہمارے اس مضمون کا جواب لکھیں ۔

حدیث نبوی :

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 الا اُصلّیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلّٰی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلَّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ ۔                                                  ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دوسرا نسخہ ۱؍۳۵)

ترجمہ: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھاؤں؟پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ رفع یدین کیا۔

حدیث ابن مسعود کے صحیح ہونے پرابن حزم اور غیرمقلدین کے حوالے

          اس حدیث کو بہت سے محدثین نے صحیح قرار دیا مگر ہم’’ والفضل ما شھدت بہ الاعداء ،فضیلت تو وہی ہے جس کی مخالف بھی گواہی دے ‘‘ کے پیش نظرغیرمقلدین کے حوالہ جات نقل کرتے ہیں۔ ان حوالہ جات سے پہلے علامہ ابن حزم ظاہری کا حوالہ بھی اس وجہ سے نقل کر دیتے ہیں کہ غیرمقلدین نے انہیں اپنا ’’غیرمقلد‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔

 (۱)علامہ ابن حزم ظاہری اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

’’اِنَّ ھذا الْخبْر صحِیْحٌ ، بلاشبہ یہ حدیث صحیح ہے ‘‘(المحلی: ۴؍۸۸)

          چوں کہ اُن کے نزدیک ترک رفع یدین کی حدیث صحیح ہے اس لیے ترک رفع یدین والی نماز کوانہوں نے ’’ نماز ِ نبوی ‘‘ قرار دیا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں ـ:

          ’’اِنْ لَّمْ نرْفعْ فقدْ صلّیْنا کما کان رسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصلی، اگر ہم رفع یدین نہ کریں تو یقینا ہم نے ایسی نمازپڑھی جیسی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے ۔

(المحلی: ۳؍۲۳۵)

          ابن حزم کو عام لوگ ظاہری کہتے ہیں مگر غیرمقلدین انہیں اپنا ہم مذہب کہتے ہیں۔ حافظ زبیر علی زئی نے انہیں ’’ غیرمقلد ‘‘ لکھا ہے۔( مقالات :۲؍۲۴۵)

(۲)محمد ناصر الدین البانی غیرمقلدنے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا:

          ’’ والْحقُّ انَّہ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَ اسْنادُہ صحِیْحٌ علی شرْطِ مُسْلِمٍ وَّ لمْ نجدْ لِمنْ اعلَّہ حُجَّۃ یَّصْلُحُ التَّعلُّقُ بِھا وَرُدَّ الْحدِیْثُ مِنْ اجلھا ۔‘‘

 ( تحقیق مشکوۃ المصابیح :۱؍۲۵۴)

          ترجمہ: اور حق بات یہی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور جن لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ہمیں ان کی کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے استدلال درست ہو اور اس کی وجہ سے حدیث کو رد کیا جا سکے۔

(۳)علامہ احمد شاکر غیرمقلداِس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

          ’’ ھُوَ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَحسَّنہُ التّرْمِذِیُّ، یہ حدیث صحیح ہے اور اسے ترمذی نے حسن قرار دیا ہے ۔

 (حاشیہ محلی ابن حزم :۴؍۸۷)

علامہ احمد شاکر دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

          ’’ ھذا الْحدِیْثُ صحَّحہُ ابْنُ حزْمٍ وَّغَیْرُہٗ مِن الْحُفَّاظِ وَھُوَ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَما قالوْہ فِیْ تعْلِیْہ لَیْس بِعِلَّۃٍ۔‘‘

 ( شرح ترمذی :۳؍۳۵)

          ترجمہ: اس حدیث کو ابن حزم وغیرہ حفاظ حدیث نے صحیح کہا اور واقعۃًیہ حدیث صحیح ہے اور لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف بنانے کے لیے جو کچھ کہا وہ ضعف کی دلیل نہیں ہے۔

          حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زیر ادارت نکلنے والے رسالہ ’’ الحدیث ‘‘ میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ترک رفع یدین کی حدیث کے بارے میں لکھاہے :

          ’’ امام ابن حزم رحمہ اللہ، علامہ البانی رحمہ اللہ ، علامہ احمد شاکررحمہ اللہ نے اس کی تصحیح یا تحسین کی ہے ۔ ‘‘

(مقالات الحدیث :۴۶۵)

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

’’ شیخ احمد شاکر اور البانی وغیرھما کا صحیح قرار دینا ‘‘(توضیح الاحکام :۲؍۸۱)

          مذکورہ عبارتیں نقل کرنے کی غرض یہ بتانا ہے کہ علی زئی کو بھی معلوم تھا کہ ابن حزم، البانی اور احمد شاکر نے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو صحیح کہا ہے۔

          البانی اور احمد شاکر نے نہ صرف یہ کہ ترک رفع یدین کی حدیث ابن مسعود کو صحیح تسلیم کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یوں بھی لکھ دیا کہ جن لوگوں نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کا دعویٰ کیا ہے اُن کے پاس ضعف کی ایک بھی دلیل نہیں۔ یاد رہے کہ غیرمقلدین نے اپنی کتابوں میں اعتراف کیا ہوا ہے کہ جرح وہی معتبر ہوتی ہے جو مفسراور مبین السبب ہو ، لہذا جو لوگ اس حدیث کے ضعیف ہونے کا دعوی رکھتے ہیں اُن سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس حدیث کی سند پر جرح مفسر ، مبین السبب پیش کریں۔

(۴)محمد خلیل ہراس غیرمقلد اِس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

          ’’ ھُوَ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَحسَّنہُ التّرْمِذِیُّیہ حدیث صحیح ہے ،ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ ‘‘

 ( حاشیہ محلی ابن حزم :۲؍۲۹۲)

(۵،۶) زہیر الشاویش غیرمقلد اِس حدیث کے متعلق کہتے ہیں:

          ’’ حسَّنہ التّرْمِذِیُّ وَ صحَّحہُ غیْرُوِاحِدٍ مِن الْحُفَّاظِ وَما قالُوْہ فِیْ تعْلِیْلِہ  لَیْسَ بِعِلَّۃٍ ۔

           امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور بے شمار حفاظ حدیث نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور جو بعض لوگوں نے اس حدیث میں علتیں نکالی ہیں وہ غلط ہیں کیوں کہ اس میں کوئی بھی علت نہیں۔‘‘

( شرح السنۃ ۳؍۲۴بحوالہ نور الصباح :۱؍۹۲)

(۸)ابو عبد الرحمن محمد عبد اللہ پنجابی غیرمقلد کہتے ہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ سے رفع یدین چھوڑنے کی روایت صحیح ہے محصلہ۔( عقیدہ محمدیہ :۲؍۶۱۱بحوالہ نور الصباح :۱؍۹۴)

(۷)شیخ عبد المحسن العباد غیرمقلد اِس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :

          ’وَاسْنادُ ھذا الْحدِیْثِ مُسْتقِیْمٌ ... فیَکُوْن الْحدِیْثُ حسنا‘‘ اور اس حدیث کی سند صحیح ہے پس یہ حدیث حسن درجہ کی ہے ۔

( شرح ابی داود للعباد ۱؍۲۵۴بحوالہ تسکین العینین صفحہ ۲۷۴)

(۹)عقیل احمد بن حبیب اللہ غیرمقلد (فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ )اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

          ’’اس کی سند صحیح ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے ...شیخ البانی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ثابت ہے اس کی سند میں کوئی کلام نہیں ہے۔ ‘‘

(تخریج و تعلیق حدیث ِ نماز :۲۳۱ طبع سلفی دار الاشاعت دہلی )

(۱۰)حافظ عمران ایوب غیرمقلد نے پہلے علامہ ابن حزم ظاہری سے نقل کیا: ’’ یہ خبر صحیح ہے ‘‘ پھر اپنی طرف سے لکھا:

’’ حدیث صحیح ہے۔‘‘ ( فقہ الحدیث :۱؍۳۹۹)

لاہوری صاحب نے اس مقام پر حاشیہ میں لکھا:

 ’’ شیخ احمد شاکر ؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔ [ التعلیق الترمذی(۲؍۴۱) شیخ شعیب ارنوؤط ،شیخ عبد القادر ارنوؤط اور زھیر شاویش وغیرہ نے بھی اسے صحیح کہاہے۔ [ التعلیق علی شرح السنۃ (۳؍۲۴) ‘‘

 (حاشیہ: فقہ الحدیث :۱؍۳۹۹)

 (۱۱)غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی کہتے ہیں:

          ’’علمائے حقانی پر پوشیدہ نہیں کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع یدین کرنے میں لڑنا جھگڑنا تعصب سے خالی نہیں ہے کیوں کہ مختلف اوقات میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں ثابت ہیں اور دونوں طرح کے دلائل موجود ہیں۔ ‘‘

(فتاویٰ نذیریہ :۱؍۴۴۱)

 آگے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا:

          ’’ ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہااور ترمذی نے حسن۔ قصہ مختصر رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونوں مروی ہیں۔ ‘‘

(فتاویٰ نذیریہ :۱؍۴۴۴... فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۱۶۰)

غیرمقلدین کی زبانی میاں صاحب کا مقام ملاحظہ فرماتے چلیں:

          ’’ شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کا ثانی متاخرین محدثین میں اب تک کوئی نہیں پیدا ہوا۔ ‘‘

 ( فتاویٰ علمائے حدیث : ۳؍۲۳۶)

(۱۲،۱۳)مذکورہ بالا فتویٰ میاں صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ اس پر محمد عبد القادر اور محمد اسماعیل نامی دو شخصوں کے دستخط بھی ہیں ۔

(۱۴)غرباء اہلِ حدیث کے ’’امام ‘‘ عبد الستار لکھتے ہیں:

          ’’اہلِ حدیث کے نزدیک تو صحاح ستہ کی کل احادیث اپنے اپنے موقع پر قابل عمل و لائق تسلیم ہیں۔ ‘‘

( فتاویٰ ستاریہ :۲ ؍۵۷ )

 فتاویٰ ستاریہ کی مذکورہ عبارت حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی نقل کی ہے۔ (علمی مقالات :۲؍۲۸۰)

 (۱۵)صحیفہ اہلِ حدیث میں لکھا ہے:

          ’’ کتب ِ صحاح ستہ اسلام کے دفاتر اور اصول ہیں۔شرق و غرب نے ان کی صحت پر اتفاق کیا ہے ‘‘

(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ ذیقعدہ صفحہ۳۱)

          ترک رفع یدین کی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحاح ستہ میں سے نسائی، ابوداو اور ترمذی میں موجود ہے جب کہ ابو داود :۱؍۱۰۹ میں ترک رفع یدین کی سیدنا براء ابن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی ہے اور غرباء اہلِ حدیث کے امام مولانا عبد الستار کے نزدیک صحاح ستہ کی سب حدیثیں صحیح اور قابل عمل ہیں۔

          اسی طرح صحیفہ اہلِ حدیث کی تصریح کے مطابق صحاح ستہ کی حدیثوں کے صحیح ہونے پر مشرق اور مغرب کے محدثین کا اتفاق ہے۔

(۱۶)غیرمقلدین کے ترجمہ و تخریج سے شائع ہونے والی نسائی میں ترک رفع یدین کی حدیث ابن مسعود کے بارے میں ’’ صحیح ‘‘ لکھا ہے۔ ( نسائی مترجم،حدیث:۱۰۲۷، باب ترک ذلک صفحہ ۶۳۹... اشراف مراجع، تقدیم عبد الرحمن بن عبد الجبار الفریوائی،مکتبہ بیت السلام )

ترک رفع یدین کی تائید غیرمقلدین کے قلم سے

(۱)ابو شاکر اللہ عبد الرحیم بن طالب جان صاحب غیرمقلد (مہمند ایجنسی ) لکھتے ہیں:

          ’’رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح ہے کیوں کہ یہ حق ہے یعنی رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہے۔ ‘‘

 (تنبیہ الغافلین صفحہ ۱۹، ناشر ایوب مکتبہ پشاور بحوالہ دو ماہی ترجمان پشاور جمادی الاول و جمادی الثانی ۱۴۴۰ھ )

(۲)غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

          ’’ابو حنیفہ ؒ نے جو روایت کی وہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر ہاتھ اُٹھائے مگر شروع میں اوراس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رفع یدین مستحب نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر نکلتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی اس کو ترک کیا اور مستحب وہی کام ہوتا ہے جس کو کبھی آپ ؐ نے کیا، کبھی ترک کیا۔ کیوں کہ اگر ہمیشہ آپ ؐ اس کو کرتے اورکبھی ترک منقول نہ ہوتا تو رفع یدین واجب ہو جاتا... امام طحاوی ؒ علماء حنفیہ میں سے اس مطلب کو سمجھ گئے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث سے استدلال کیا عدم وجوب رفع پر اور یہ استدلال صحیح ہے اور اہلِ حدیث رفع یدین کے استحباب کے قائل ہیں۔ ‘‘

 ( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۱؍۴۳۷)

علامہ وحید الزمان دوسری جگہ   لکھتے ہیں:

          ’’ بھلا رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین پکار کریا آہستہ کہنا،ہاتھ زیر ناف یا سینے پرباندھنا یہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے لیے مسلمان سے فتنہ و فساد اور ان کی عزت اور جان پر صدمہ پہنچایا جاوے۔ ارے احمق! ذرا تم غور کرو یہ تو سب طرح ہماری شریعت میں جائز ہے اور ہر ایک طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔پھر کیا تم سنت نبوی پر عمل کرنے والوں کو مارنا چاہتے ہو۔‘‘

 ( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۳۷۴)

 وحید الزمان دوسری جگہ لکھتے ہیں:

          ’’ شیطان کا تسلط اُس پر ہے جو مستحبات اور مندوبات اور سنن کا ادا کرنا واجب کی طرح لازم سمجھے اور نہ کرنے والے کو ملامت کرے مثلاً رفع یدین نہ کرنے والے یا آمین بالجہر نہ کہنے والے کو یا دسترخوان پر نہ کھانے والے کو یا بیعت توبہ نہ کرنے والے کو کیوں کہ یہ سب امور مستحب اور مندوب ہیں اگر کسی نے نہ کیا تو اُس پر کچھ ملامت نہیں۔ ‘‘

( لغات الحدیث :۱؍۶۳، جع )

 وحیدالزمان ہی لکھتے ہیں:

          ’’ محبت اور اتفاق اور ہمدردی کے ساتھ جو اختلاف ہو وہ ضرر نہیں کرتا جیسے صحابہ اورتابعین کا طریق تھا کوئی رفع یدین کرتا، کوئی نہ کرتا۔ کوئی آمین پکارکر کہتا، کوئی آہستہ کہتا۔ کوئی سینہ پر ہاتھ باندھتا، کوئی ناف پر۔ کوئی آٹھ رکعت تراویح پڑھتا، کوئی بیس رکعت۔کوئی جوتے اُتارکر نماز پڑھتا ،کوئی جوتے سمیت اور اس اختلاف کے ساتھ آپس میں وہ ہمدردی اور محبت تھی کہ ایک مسلمان دوسرے پرجان دیتا تھا اُس کو اپنا بھائی سمجھتا تھا۔ ‘‘

 ( لغات الحدیث : ۱؍۱۱۵ ،خل )

(۳)رئیس محمد ندوی غیرمقلدنے سجدوں کے رفع یدین کے اثبات اور ترک کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے لکھا:

          ’’یہ معلوم ہے کہ بعض صحابہ کی طرف منسوب روایات میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ بوقت تحریمہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے مگر تحریمہ کے علاوہ نماز میں کہیں اور جگہ دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ان روایات کے مختلف جوابات میں سے ایک جواب اہلِ علم نے یہ دیا ہے کہ بوقت رکوع رفع الیدین فرض و واجب نہیں صرف مسنون و غیرمؤکدہ سنت جس کا کبھی کبھار ترک کر دینا بلاکراہت درست و جائز ہے اس لیے آپ ؐ فی الواقع کبھی کبھار بوقت رکوع رفع الیدین نہیں کرتے ہوں گے جسے دیکھنے والے نے سمجھ لیا کہ یہی آپ کا ہمیشہ والا معمول ہے اور آپ ہمیشہ رکوع کے وقت رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے اور معمول رکھتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ بوقت رکوع رفع الیدین کی نفی والی روایات اور اثبات والی احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت سب سے زیادہ بہتر ہے جس کی بدولت نفی و اثبات والی احادیث میں سے کسی کا رد وابطال لازم نہیں آتا اور دونوں قسم کی احادیث اپنی جگہ پر بر قرار رہی ہیں۔بعینہ یہی موقف ہماری نظر میں تحریمہ و رکوع کے علاوہ نماز کے دوسرے مواقع پر رفع الیدین کے اثبات و نفی میں وارد شدہ بظاہر مختلف و متعارض احادیث کے سلسلے میں ہے اور یہی موقف ہماری نظر میں صحیح و درست ہے جس کے ذریعہ اس سلسلے میں وارد شدہ اثبات و نفی والی جملہ احادیث اپنی جگہ پر برقرار رہتی ہیں اور مردود و باطل و متروک نہیں قرار پاتیں۔‘‘

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاصحیح طریقہ ٔ نماز صفحہ ۳۵۴)

           ندوی صاحب نے بالآخر تسلیم کر ہی لیا کہ رکوع کے رفع یدین کو چھوڑ دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

(۴)کسی منکرحدیث نے طعنہ دیا:

          ’’پھر نماز کے اندر بار بار اختلاف کی بھر مار۔ کبھی نیت کبھی ہاتھ باندھنے کے متعلق علی صدرہ اورکہیں تحت السرۃ، آمین بالجہر ، رفع یدین، فاتحہ خلف الامام وغیرہ۔سوال پیدا ہوتا ہے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پچاسوں قسم کی نماز رنگ برنگ پڑھتے ہوں گے؟ ان ہی ملاؤں نے مذہب اسلام کوپارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے اور اپنی الگ الگ ٹولی، ایک اینٹ کی الگ مسجد بنا ڈالی ہے۔ ‘‘

 اس منکر حدیث کو جواب دیتے ہوئے مولانا صفی الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’باقی رہا نماز کے بعض جزوی اور فروعی مسائل میں ہمارے درمیان بالکل معمولی اور ناقابل ذِکر قسم کا اختلاف تو ایسے اختلاف کا اچھالنا اور اسے پچاسوں قسم کی ’ ’ رنگ برنگ ‘‘ نماز سے تعبیر کرنا منکرین حدیث کی فطرت کی کجی کی علامت ہے۔ دنیا کا کوئی انسان جو سمجھ بوجھ اور فطرت کی سلامت روی سے محروم نہ ہو اس بات سے انکار کی جرآت نہیں کر سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے تئیس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں اگر گنجائش اور بیان جواز کے لیے نماز کے بعض عمل کی دو دو صورتیں اختیار کی ہوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں بلکہ عین ممکن ہے ۔ خود قرآن مجیدمیں قسم کے کفارے میں کی تین تین صورتیں رکھی گئی ہیں۔ کفارۂ ظہار کے لیے بھی تین صورتیں رکھی گئی ہیں۔ نماز تہجد کے لیے تین اختیاری اوقات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حاجی کے لیے یوم النحر (دس ذی الحجہ ) کے بعد منٰی میں دو دن ٹھہرنا بھی درست قرار دیا گیا ہے اور تین دن ٹھہرنا بھی۔ پس اگر ایک عمل کے لیے ایک سے زیادہ صورتوں کا جواز کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو قرآن کے بیان کئے ہوئے ان مسائل کی بابت کیا ارشاد ہے؟ اگر قابل اعتر اض نہیں تو پھر ہماری [ مسلمانوں کی ( ناقل )] نماز کے ان معمولی اور ناقابلِ ذِکر اختلاف کو اُچھا ل کر اس پر جملہ بازی کرنا اگر فطرت کی کجی کی علامت نہیں تو پھر اسے علم ودیانت کے کس خانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟۔‘‘

( انکار ِ حدیث حق یا باطل؟ صفحہ۹۵، تنظیم الدعوۃ الی القرآن والسنۃ راولپنڈی )

          مبارک پوری صاحب نے صاف اعتراف کیا ہے کہ رفع یدین اور اس کا ترک وغیرہ کئی مسائل ہیں جن کے دونوں پہلو شریعت سے ثابت ہیں۔

          مبارک صاحب کی اس عبارت کے پیشِ نظر ہم کہتے ہیں کہ جس طرح منکرین حدیث کا ان مسائل پر جملہ بازی کرنا علم و دیانت کے خلاف ہے ،اسی طرح غیرمقلدین کا ان میں سے ایک پہلو کو اختیار کرکے دوسرا پہلوکے عاملین کومخالف حدیث کہنا اس سے بھی زیادہ علم و دیانت کی خلاف ورزی ہے۔ اور قسم اُٹھاکر دوسری قسم کی حدیثوں کی نفی کرنا قبیح ترین حرکت ہے۔

(۵)غیرمقلدین کی کتاب ’’ درس بخاری ‘‘ میں لکھا:

          ’’ یہاں یہ سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کہ اگرتبدیلی ممکن نہیں تو پھر اختلاف کیسے ظہور پذیر ہوا۔ جو آ ج ہم دیکھتے ہیں۔مسلمان مختلف مکاتیب فکر کے پیرو ہیں۔ اسی نماز ہی کو دیکھ لیں اس میں کوئی آمین بالجہر کا قائل ہے تو کوئی آہستہ آمین کہنے پر مُصر ہے۔ کسی نے حالت ِ نماز میں ہاتھ سینے پرباندھ رکھے ہیں، کسی نے زیر ناف ہاتھ باندھنے ضروری قرار دے رکھا ہے اور کسی نے سرے سے باندھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔ کچھ ایسے ہیں کہ رفع الیدین کرتے ہیں اور کچھ دوسرے نہیں کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سارے کام فعل ہیں اور سنت سے ثابت ہیں... اسی طرح اذان، اقامت کے مسائل ہیں۔ ان تمام مسائل میں اختلاف جواز کا نہیں بلکہ اختیار کا ہے اور دونوں طرح جائز ہے کوئی اِس طرح کرے اور کوئی اُس طرح کرے۔ ‘‘

( درس بخاری صفحہ ۸۱ افادات مولانا محمد گوندلوی،مرتبہ منیر احمد السلفی، ناشر اسلامک پبلیشنگ ہاؤس قذافی سٹریٹ اردو بازار لاہور)

(۶)مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ اگر اہلِ حدیث بوجہ تحقیق رفع الیدین نہ کرے اور آمین بالجہر نہ کہے یا فاتحہ خلف الامام میں تشدد نہ کرے تو بھی اہلِ حدیث ہی رہتا ہے۔ ‘‘

 ( الاصلاح صفحہ ۱۳۲ طبع دوم جنوری؍۲۰۱۱ء ، ام القری پبلی کیشنز )

          غیرمقلدین کے ہاں ’’ اہلِ حدیث ‘‘ کا مطلب حدیث پر عمل کرنے والا ہے۔لہذا رفع یدین نہ کرنے، آہستہ آمین کہنے اور فاتحہ نہ پڑھنے کی صورت میں بھی انسان حدیث پر عامل ہے۔

 گوندلوی صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ اس [ نماز ( ناقل )] کے محسوس حصہ میں کچھ اختلاف بھی ہے مثلاً ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے اور رفع یدین کرنے اور نہ کرنے، آمین بالجہر کہنے اور آہستہ کہنے اورہاتھ زیر ناف باندھنے یا اوپر باندھنے، مگر یہ سب امور سب کے نزدیک سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح سے نماز پڑھی ہو۔ جس طرح کسی نے دیکھا اور آگے جا کر نماز پڑھی، پھر اس کو دیکھنے والوں سے اسی طرح طریقہ چلا آیا، یہاں تک یہ زمانہ آیا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی ہو، مگر دیکھنے والوں میں سے بعض نے سنت سمجھ کر غفلت کی بناء پر چھوڑ دیا ہو، پھر وہاں سے سلسلہ چل کر اس زمانہ میں پہنچ گیا ہو۔ یہی حال دوسرے امور اختلافیہ کا ہے۔ ‘‘

( دوام حدیث : ۲؍ ۲۸۰)

          گوندلوی صاحب کی تصریح کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوطرح سے نماز پڑھی رفع یدین کے ساتھ اور ترک رفع یدین کے ساتھ بھی۔

(۷)حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ صرف نماز کا اختلاف ہی دیکھ لیجئے۔ہاتھ باندھنے کی صورت میں : سینے پہ باندھنے جائیں یا ناف کے نیچے یا چھوڑ کر نماز پڑھی جائے ؟ رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے ؟ اعتدال ارکان ضروری ہے یا نہیں کسی کے نزدیک ضروری ہے ،کسی کے نزدیک نہیں ۔خلف الامام سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں ؟ ایک کے نزدیک فرض ہے ، جب کہ دوسروں کے نزدیک غیرضروری ۔ اسی طرح مرد اور عورت کی نماز کا مسئلہ ہے ایک فریق ان کے طریقہ نماز میں فرق کا قائل ہے جب کہ دوسرا فریق سوائے دو تین باتوں کے ارکان نماز ادا کرنے میں کسی فرق کا قائل نہیں ... اگر نماز کا اثبات صرف عملی تواتر سے ہوتا تو طریقہ نماز میں یہ اختلاف قطعاً نہیں ہوتا۔ فریقین دلائل کا انبار اور کتابوں کا ڈھیر جمع نہ کرتے۔ پھر تو ان کی صرف ایک ہی دلیل ہوتی کہ نماز کا فلاں عمل یا فلاں طریقہ نسل در نسل ، جیلا بعد جیل ،ا سی تواتر سے نقل ہوتا آرہا۔‘‘

( فتنہ غامدیت ،ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ صفحہ ۶۷)

          اس عبارت میں ’’ فریقین دلائل کا انبار ‘‘ پہ نگاہ رہے۔ اس میں اعتراف ہے کہ ترک رفع یدین والے فریق کے پاس دلائل کا انبار ہے۔

(۸)مولانانور حسین گرجاکھی غیرمقلد نے نسائی :۱۵۹، بیہقی :۲؍۷۸، ابو داودصفحہ ۱۱۶، کنزالعمال :۴؍ ۲۱۱ اور حازمی صفحہ ۸۵ سے حدیث نقل کی پھر یوں تبصرہ کیا:

          ’’ اس حدیث سے نماز کی ابتدائی حالت معلوم ہو گئی کہ شروع[ زمانہ کی ( ناقل )] نماز میں رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ کے وقت تھا اور رکوع میں تطبیق تھی۔ اس حدیث پر عبد اللہ بن مسعود ؓ اور ان کے بعض اصحاب کا عمل رہا۔ اب اس کے بعد جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تطبیق کو منسوخ فرما کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم صادر فرمایا اور بحکم خدا تعالیٰ رکوع جانے اور سر اُٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا شروع کیا تو ... جن کو حکم ثانی نہ پہنچا وہ ابتدائی دونوں حکموں پر تازندگی خود بھی عامل رہے اور یہی تعلیم دوسروں کو بھی دیتے رہے جیسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔ ‘‘

( قرۃ العینین صفحہ ۹۵)

          گرجاکھی صاحب کے بقول شروع زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کا رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ لہذا’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر کبھی رکوع کا رفع یدین نہیں چھوڑا ‘‘ دعویٰ کرنا غلط ہوا، پھر اسی دعویٰ کو حلفیہ بیان کرنا مزید جسارت ہے۔

(۹)مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد نے ترمذی والی حدیث ابن مسعود کے جواب میں لکھا:

          ’’ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مسعود ؓ کی حدیث سے نسخ ہونا ثابت نہیں ہوتا،اس لیے کہ ممکن ہے ابن مسعودؓ کے نزدیک جیسا کہ ہمارا مذہب ہے رفع یدین ایک مستحب عمل امر ہو جس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر نماز کی صحت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ ‘‘

 ( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۷۳ )

یہ عبارت’’ فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۱۵۴، مکتبہ اصحاب الحدیث ‘‘ میں بھی درج ہے ۔

امرتسری صاحب آگے لکھتے ہیں ـ:

          ’’ اگر اس قسم کی روایات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہو ں کہ حضور ؐ نے سوائے اول دفعہ رفع یدین نہیں کی تو بھی نسخ نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ سنت خاص کر مستحب امر کے لیے تو دوام فعل ضروری نہیں۔ دوام تو موجب وجوب ہے۔ سنت یا مستحب تو وہی ہوتا ہے کہ فعل مرۃ و ترک اخری ( کبھی کیا ہو، اور کبھی چھوڑا ہو ) جس کو اہلِ معقول کی اصطلاح میں مطلقہ عامہ کہنا چاہیے اور یہ تو ظاہر ہے کہ مطلقہ عامہ کی نقیض مطلقہ عامہ نہیں ہوتا فافہم۔‘‘

 ( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۷۴)

مذکورہ عبارت’’ فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۱۵۵، مکتبہ اصحاب الحدیث ‘‘ میں بھی ہے۔

(۱۰)غیرمقلدین کی طرف سے شائع شدہ نسائی مترجم میں سیدنا عبد اللہ ابن مبارک والی سندسے مروی حدیث ابن مسعود کی بابت ’’ صحیح ‘‘ لکھا ہے ۔ اور پھر ’’فائدہ ‘‘عنوان قائم کرکے لکھا:

          ’’ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرتے رہے ہوں، کیوں( کہ ) یہ فرض و واجب تو ہے نہیں، اس لیے ممکن ہے بیان جواز کے لیے کبھی آپ نے رفع الیدین نہ کیا ہو، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی حالت میں آپ کو دیکھا ہو۔ ‘‘

( نسائی مترجم :۱؍۳۹ ۶ حدیث: ۱۰۲۷... اشراف ، مراجعہ اور تقدیم عبد الرحمن بن عبد الجبار الفریوائی )

(۱۱)غیرمقلدین کے فتاویٰ میں لکھاہے :

          ’’ حافظ ابن قیم ؒنے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ قنوت کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اور یہ اختلاف اختلاف مباح سے ہے اس کے کرنے والے اور نہ کرنے والے پرکوئی ملامت نہیں ہے جیسے نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا اور مانند اختلاف تشہد اور اذان او راقامت کے اَور مانند اختلاف حج کے جو افراد اور قران اور تمتع ہے۔ سلف صالحین نے دونوں طرح کیا ہے ۔اور دونوں فعل ان میں مشہور اور معروف تھے۔ بعض سلف صالحین نماز جنازہ میں قراء ت پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے جیسے کہ بسم اللہ کو نماز میں کبھی اونچی پڑھتے اورکبھی آہستہ دعاء افتتاح پڑھتے، کبھی رفع یدین رکوع کو جاتے اور اُٹھتے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تینوں وقت کرتے، کبھی نہ کرتے۔کبھی دونوں طرف سلام پھیرتے،کبھی ایک طرف۔ کبھی امام کے پیچھے قراء ت پڑھتے، کبھی نہ پڑھتے۔ اور نماز جنازہ میں کبھی سات تکبیریں کہتے، کبھی پانچ، کبھی چار۔ سلف صالحین میں ہر طرح کے کرنے والے موجود تھے۔ یہ سب اقسام اصحاب رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔ ‘‘

 (حاشیہ : فتاویٰ علمائے حدیث : ۳ ؍ ۱۵۲ ، مکتبہ اصحاب الحدیث )

          اس عبارت میں منجملہ باتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام اور اسلاف سے ترک رفع یدین پر عمل پیرا رہنا ثابت ہے ۔

(۱۲)مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ رفع یدین ارکان نماز میں سے نہیں،اس کا کرنا نہ کرنا برابر ہے، نماز کی صحت پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ....‘‘

 ( حاشیہ :اُسوۂ حسنہ ترجمہ ھدی الرسول صفحہ ۹۰)

(۱۳)قاری کفایت اللہ ( غیرمقلد) نے حافظ زبیر زئی علی زئی کو خط لکھا:

          ’’ میں نے درس بخاری میں علامہ گوہر رحمن صاحب مرحوم ( غیرمقلد)سے مسئلہ رفع الیدین میں استفادہ کیا تھا، ان کی تقریروں سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ رفع الیدین و عدم رفع الیدین دونوں کی حیثیت مساوی ہے۔ مگر آپ کی کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ مقابلہ 70 اور 30 کا ہے۔‘‘

 ( اشاعۃ الحدیث ، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۶۱۱،مکتبہ اسلامیہ)

          گوہر صاحب سے کئے گئے استفادہ کے مطابق رفع یدین کی طرح اس کا ترک بھی ثابت ہے، حیثیت میں دونوں برابر ہیں۔ عبارت کے اگلے حصہ میں تیس فی صد مان لینا بھی غنیمت ہے۔

(۱۴)غیرمقلدین کی ایک عربی کتاب میں لکھا ہے:

          ’’ فنقُوْلُ انَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم شرَع کُلَّ مِن الْھیْئاتِ الثّلاثِ الرَّفْعُ عِنْد تکْبِیْرَۃِ الْاِحْرَامِ فقطْ لِحدِیْثِ ابْنِ مسْعُوْدٍکما ھُوَ مذْھبُ الْحنفِیَّۃ وَالرَّفْعُ عِنْد الرُّکُوْعِ وَالرَّفْع مِنْہُ وِعِنْد الْقِیَامِ اِلی الرَّکْعۃ الثَّالِثۃ ایْضا لِحدِیْثِ ابْنِ عُمرَ کما ھُوَ مذْھبُ الْجُمْھُوْرِ وَالرَّفْعُ عِنْد کُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ لِحدِیْثِ مالِکٍ فالْکُلُّ سُنَّۃٌ ولا تثْرِیْبَ علی منْ رَفعَ اوْ لمْ یَرْفعْ ۔

(الْاِخْتِیَارَاتُ الْفِقْھِیَّۃُ مِنْ خِلالِ کِتابِ صَفۃُ صلوۃِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۴۴، دار ابن حزم)

          ترجمہ:ہم کہتے ہیں کہ بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں حالتوں میں سے ہر ایک کو مشروع فرمایا: رفع یدین فقط تکبیرۃ تحریمہ کے وقت ،حدیث ابن مسعود کی وجہ سے جیسا کہ وہ حنفیہ کا مذہب ہے۔ اور رفع یدین رکوع کے وقت اور اس سے اُٹھتے ہوئے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت، حدیث ابن عمر کی وجہ سے جیسا کہ یہ جمہور کا مذہب ہے۔ اور رفع یدین ہر جھکنے اور اُٹھنے کے وقت حدیث مالک کی وجہ سے۔ پس یہ سب طریقے سنت ہیں ،لہذا اس پر کوئی الزام نہیں جو رفع یدین کرے یا نہ کرے۔

فائدہ:مولانا شاہ اسماعیل دہلوی صاحب لکھتے ہیں :

          ’’ فلایلام تارکہ وان ترکہ مدۃ عمرہ ۔‘‘

( تنویر العینین بحوالہ الروضۃ الندیۃ صفحہ۹۶ )

          ترجمہ: رفع یدین کے تارک کو ملامت نہیں کی جا سکتی اگرچہ ساری عمر اسے چھوڑے رکھے ۔

           غیرمقلدین کے ہاں مولانا شاہ اسماعیل دہلوی ’’ اہلِ حدیث ‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ اس پر اُن کی بیسیوں عبارتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

 غیرمقلدین کے ہاں ترک رفع یدین پر عمل

 (۱) مولانا ثناء اللہ مدنی غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’والدین کی دلجوئی کے لیے ترک رفع الیدین کی گنجائش ہے ...ہمارے بعض اسلاف تبلیغی مصلحت کے پیشِ نظر ترک ِرفع پر عامل تھے۔ ‘‘

( الاعتصام مئی ۱۹۹۰ء صفحہ۹ بحوالہ حدیث اور اہلِ حدیث صفحہ۱۱۴)

          یہاں یہ بات قابل ِ غور ہے کہ رفع یدین کے چھوڑنے پر غیرمقلد مفتی نے محض بعض اسلاف کا عمل پیش کیا ہے۔ بعض اسلاف کی پیروی میں رفع یدین چھوڑ دینا غیرمقلدین کے ہاں اتباع کہلائے گا یا وہ اسے تقلید کا نام دیں گے ؟

          اس عبارت میں یہ بھی ہے کہ ترک رفع یدین پر عمل پیرا عام غیرمقلد نہیں بلکہ اُن کے اسلاف ہیں۔

 (۲)خواجہ عطاء الرحمن غیرمقلد لکھتے ہیں ـ:

          ’’مولاناخالد صاحب(گرجاکھی) نے بتایا ہے کہ والد ( نور حسین گرجاکھی )صاحب نے ایک دن تہجد کی نماز میں اپنے استاد مولانا علاؤ دین صاحب کے ساتھ باجماعت ادا کی تومولانا علاؤ دین صاحب کو تہجد میں رفع الیدین کرکے نماز پڑھتے دیکھا، حالاں کہ مولانا دن کی نمازوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے۔میں نے پوچھا تو فرمانے لگے بیٹا یہ سنت سے ثابت ہے لیکن میں دن کو اس لیے نہیں کرتا تاکہ لوگ بدک نہ جائیں، کہنے لگے ایک دن میں اپنے استاد حضرت مولانا غلام رسول ؒ صاحب قلعوی کے ساتھ اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے بھی رفع الیدین کیا۔ میں نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا بیٹایہ سنت رسولؐ ہے۔ ہم لوگ صرف اس لیے نہیں کرتے کہ لوگ بدک نہ جائیں اور ہماری تبلیغ میں رکاوٹ نہ ہو۔ ‘‘

 (سوانح مولانا نور حسین گرجاکھی صفحہ ۱۲ بحوالہ حدیث اور اہلِ حدیث صفحہ۱۱۴)

(۳)غیرمقلدین کے ہاں ’’امیر المجاہدین ‘‘ کا لقب پانے والے فضل الٰہی وزیر آبادی ایک عرصہ تک اپنی مسلکی سنتوں؍اپنے امتیازی مسائل کے تارک رہے اور انہوں نے اس کا خودہی اعتراف و اعلان کیا۔ وہ کہتے ہیں :

          ’’ میں نے ریفرنڈم جیتنے اور شمالی سرحدی صوبہ کو پاکستان میں شامل کرنے کی غرض سے رفع الیدین، سینے پر ہاتھ باندھنے، آمین اونچی کہنا چھوڑ دیا۔ میرے متعلق کہا گیا کہ امام کی اقتداء میں فضل ِ الہی کا اگر مُنہ ہلتا ہے تو یہ سورۃ فاتحہ پڑھتا ہوگا اور یہ پکاوہابی ہے لہٰذا میں نے کچھ عرصہ کے لیے فاتحہ خلف الامام بھی چھوڑ دی۔‘‘

 (علمائے دیوبند اور انگریز صفحہ ۱۵۳بحوالہ توضیح الکلام پر ایک نظر صفحہ ۱۴)

 (۴)ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ میں رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں اور یہی درست سمجھتا ہوں کہ رفع یدین کرنا چاہیے لیکن بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی حنفی مسجد میں امام مسجد موجود نہیں ہے، بعض نمازیوں نے مجھے نماز کے لئے آگے کر دیا تو اَب میں نے ان کا لحاظ کیا اور حنفی طریقے سے نماز پڑھا دی۔یہ منہاج کی نرمی ہے۔ ‘‘

 (آسان دین صفحہ ۲۳، دار الفکر الاسلامی لاہور)

(۵)مولانا عنایت اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

          ’’ مولوی عبد الوہاب نے مجھ سے فرمایا کہ مولوی عبد الحکیم نصیر آبادی جب فلاں جگہ جاتے ہیں تو وہاں کے احناف کی خاطر رفع الیدین چھوڑ دیتے ہیں۔ ‘‘

(الجسر البلیغ صفحہ ۲۳مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )

 (۶)قاضی عبد الاحد خان پوری غیرمقلد کے حالات میں لکھا ہے:

          ’’ احناف کی مساجد میں وہ آمین بالجہر اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے کیوں کہ اصل مقصد آپ کے سامنے توحید تھا۔ ایک دفعہ ایک طالب علم خان پور سے آیا۔آپ نے اس سے کہاکہ اس مسجد میں آمین بالجہر نہ کہنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر اور رفع یدین کی وجہ سے ہجرت نہیں کی تھی بلکہ توحید کی خاطر کی تھی۔ ‘‘

(تذکرہ علمائے خان پور صفحہ ۳۸)

          مذکورہ عبارت محمد اسحاق بھٹی غیرمقلد کی کتاب ’’ چمنستان حدیث صفحہ ۲۱۸‘‘ میں بھی منقول ہے۔بھٹی صاحب نے اس کی تردید نہیں کی۔حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کا اصول ہے کہ کوئی مصنف کسی عبارت کو نقل کرکے اس کی تردید نہ کرے تو اس کی طرف سے موافقت ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

          ’’حافظ ابن حجر نے حافظ ابن حزم کی مخالفت نہیں کی لہذا یہ اُن کی طرف سے ابن حزم کی موافقت ہے۔‘‘

(علمی مقالات :۶؍۱۳۰)

(۷)علی حسن خان غیرمقلد اپنے والد نواب صدیق حسن خان کے متعلق لکھتے ہیں:

          ’’ والا جاہ مرحوم نماز پنجگانہ حنفی طریقہ پر پڑھتے تھے البتہ ان کو فاتحہ خلف الامام اور اول وقت کا خاص اہتمام مد نظر رہتا تھا۔ ‘‘

(مآثر صدیقی :۴؍۶۳)

          علی حسن خان کی تصریح کے مطابق فاتحہ خلف الامام اور اول وقت نماز پڑھنے کے علاوہ باقی نماز نواب صاحب حنفی طریقہ کے مطابق پڑھتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ رکوع کا رفع یدین نہیں کرتے ہوں گے۔اس عبارت کے پیش نظر دوسرے مسائل :ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا، آہستہ آمین کہنا،سجدہ جاتے ہوئے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنا، جلسہ استراحت نہ کرنااور تورک نہ کرنا وغیرہ مسائل بھی نواب صاحب کے مختار شمار ہونے چاہئیں۔

          مآثر صدیقی کے حوالہ کے بعد’’ نزہۃ الخواطر‘‘ کی عبارت بھی پڑھ لیں ۔ اس میں نواب صاحب کے متعلق لکھا ہے:

          ’’ العجب انہ کان یصلی علی طریقۃ الاحناف فلایرفع الایدی فی المواضع غیر تکبیرۃ التحریمۃ و لا یجھر بآمین بعد الفاتحۃ ولایضع یدہ علی صدرہ ۔

 ( نزہۃ الخواطر:۸؍ ۱۹۱بحوالہ نور الصباح :۲؍۲۲۰)

          ترجمہ:تعجب کی بات ہے کہ وہ احناف کے طریقہ پر نماز پڑھا کرتے تھے اس لئے تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مقامات میں رفع یدین نہیں کرتے تھے، نہ ہی فاتحہ کے بعد آمین اونچی کہتے اور نہ ہی ہاتھ سینے پر باندھتے۔

          بلکہ نواب صاحب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے صاحب زادے شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ سے نقل کیا:

          ’’ ان آخر الامرین ترک الرفع ولا یدری مدۃ الترک فیحتمل انہ ترکہ فی ایام المرض۔ ‘‘

 ( الروضۃ الندیۃ صفحہ ۹۵)

          ترجمہ: دو امروں( رفع یدین کرنے اور چھوڑنے)میں سے ترک رفع یدین آخری عمل ہے ، رفع یدین کے ترک کی مدت معلوم نہیں۔ احتمال یہ ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مرض الوفات میں اسے چھوڑ دیا تھا۔

 (۸)مولانا عبد الغفار دہلوی غیرمقلد مسئلہ رفع یدین کے متعلق لکھتے ہیں:

          ’’آہ! آج بعض اہلِ حدیث بھی اس سنت کو چھوڑے بیٹھے ہیں یعنی اس طرح رفع یدین کرتے ہیں جیسے کسی کو اشارہ سے بلا رہے ہوں۔ ‘‘

 ( رفع الیدین صفحہ ۴) 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...