فضائل اعمال
کا عادلانہ دفاع (جلددوم)
اعتراض :134...ضعیف حدیث کی قبولیت نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا
مفتی رب نوازصاحب حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ اَلْفَتْحِیَّہ احمد پور شرقیہ(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
محمد طارق
خان صاحب نے دعویٰ کیا کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث ہیں ۔پھر فضائل میں ضعیف
حدیث کی قبولیت والے نظریہ کے متعلق لکھا:
’’ قبول حدیث
کے معاملہ میں اس بے احتیاطی نے دین و ملت کو زبر دست نقصان پہنچایا ہے .... پس
حقیقت یہ ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث کے چلن نے دین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے ۔ ‘‘
( تبلیغی جماعت
عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں صفحہ ۵۳)
الجواب:
فضائل میں ضعیف احادیث کے مقبول ہونے
کی مفصل بحث غیرمقلدین کے حوالوں کے ساتھ ’’ فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع جلداول
‘‘ اعتراض : ۸۷ کے تحت مذکور ہے۔یہاں اس بحث کو دہرانے کی ضرورت نہیں البتہ چندنئی
باتیں عرض کر دیتا ہوں۔
(۱) خود طارق صاحب ہی اقرار کر چکے
ہیں:
’’ علماء کا ایک گروہ فضیلت کے باب
میں ضعیف احادیث کو نقل کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا ان کے نزدیک ایسی
احادیث ترغیب کے لئے مفید ہیں۔ ‘‘
( تبلیغی جماعت عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے
آئینہ میں صفحہ ۵۳)
یاد رہے کہ
فضائل میں ضعیف احادیث کی قبولیت کا نظریہ صرف بعض علماء کا نہیں بلکہ نامی گرامی
محدثین کا بھی ہے جیسا کہ آگے افتخار احمد غیرمقلد کی زبانی آ رہا ہے۔
(۲) غیرمقلدین بھی فضائل میں ضعیف
حدیث کی حجیت مانتے ہیں۔ بعض نے تو اپنے مخالف غیرمقلدین کو دو ٹوک اور کھری باتیں
سنا دیں۔ چنانچہ ابو مسعود سلفی غیرمقلد نے لکھا:
’’میرے وہ برادران جنہیں فضائل اعمال
والی روایت دیکھ کر قبض ہو جاتی ہے اور وہ روح اسلام اور مزاج شریف کو سمجھنے سے
قاصر ہیں۔ ‘‘
( فرض نماز وں کے بعد دعائے اجتماعی اور اہلِ حدیث کا
مسلک اعتدال صفحہ ۴۹)
(۳)بعض غیرمقلدین نے تو ضعیف حدیث کی
حجیت پر مستقل کتابیں بھی لکھیں۔ افتخار احمد تاج الدین الازہری اپنے بزرگ مولانا
بدیع الدین راشدی شاہ ( غیرمقلد) کی کتاب ’’ القول اللطیف
فی الاحتجاج بالحدیث الضعیف ‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’کیا ضعیف حدیث پر عمل کیا جا سکتا
ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر متقدمین اورمتاخرین محدثین میں شدید اختلاف
رہا کئی تو مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں اور کئی مطلقاً ناجائز قرار دیتے اور بعض
محدثین چند شروط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب
میں اسی سوال کا جواب دیا ہے اور انہوں نے چند شروط کے ساتھ حدیث ضعیف پر عمل کرنا
جائز قرار دیا ہے۔ شروع کتاب میں وہ شروط بیان کرتے ہیں اور بعد میں اپنے موقف کی
تائید میں ۱۷ محدثین کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ راقم الحروف نے جامعۃ الازھر قاہرہ
مصر میں دَوران تعلیم اس کتاب کی مکمل تخریج و تحقیق کی تھی ان شاء اللہ عن قریب
اردو ترجمہ کے ساتھ طبع کرنے کا ارادہ ہے۔ ‘‘
( مجلہ بحرالعلوم شیخ العرب و العجم نمبر بیاد مولانا
بدیع الدین شاہ راشدی صفحہ ۴۵۷)
ازہری مذکور کے متعلق ’’شیخ الحدیث جامعۃ بحر
العلوم السلفیۃ میر پور خاص
سندھ ‘‘ لکھاہوا ہے ۔ ( حوالہ مذکورہ صفحہ ۴۴۴)
راشدی صاحب
کی یہ کتاب ’’ القول اللطیف ‘‘ مقالات ِ راشدیہ :۲؍۲۳میں شامل ہے۔
بدیع الدین راشدی وغیرہ آلِ غیرمقلدیت
نے ضعیف حدیث کو حجت مان کر طارق خان صاحب کے بقول دین و ملت کو زبر دست نقصان
پہنچایا اور دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ طارق صاحب کی مہربانی ہوگی کہ آلِ غیرمقلدیت
میں سے جنہوں نے ضعیف حدیث کی حجیت مان کر دین و ملت کوزبر دست نقصان پہنچایا اور
حلیہ بگاڑا ہے انہیں قوم کے سامنے لائیں اور اس نقصان اور بگاڑ کوبھی اُجاگر کریں
جو اُن کی وجہ سے ہوا ہے تاکہ عام لوگ بھی آگاہ ہو سکیں۔قوم کی آگاہی کے لیے بڑی
کتاب نہ ہی سہی ، کوئی چھوٹا سا رسالہ لکھ دیں ۔
نیز جن محدثین نے فضائل میں ضعیف حدیث
کی حجیت کا موقف اپنا یا ہے وہ بھی طارق صاحب کے بقول دین و ملت کو زبر دست نقصان
پہچانے اور حلیہ بگاڑ والے ہیں۔ طارق صاحب کے اس اعتراضات کی زَد میں وہ شخصیات
بھی آتی ہیں جن کی عظمت کے سامنے متاخرین کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں۔
(۴)غیرمقلدین نہ صرف یہ کہ ضعیف
احادیث کو قبول کرنے کا نظریہ رکھتے ہیں بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں ۔ثبوت کے لیے
اُن کی تخریج شدہ کتابیں :صلوۃ الرسول اور حدیث ِنماز وغیرہ ملاحظہ کر لیں۔ خود
غیرمقلد حاشیہ نگاروں نے دسیوں ضعیف حدیثوں کی نشان دہی کی ہوئی ہے ۔ اس تخریج اور
حاشیہ نگاری سے عوام کو معلوم ہوگیا کہ ان کتابوں کے پیٹ ضعیف حدیثوں سے بھرے ہوئے
ہیں۔ اس لیے بعض غیرمقلدین نے اس عمل پر سختی سے ٹوک و نوک کی اور آئندہ تخریج نہ
کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
چنانچہ
ابومسعود سلفی غیرمقلد نے شیخ عبد الروف سندھو غیرمقلد کی طرف سے’’صلوۃ الرسول‘‘
پہ کی گئی تخریج پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ اس ( شیطان ملعون )نے کمال عیاری
سے احمق مخلصین کو اپنا کارکن بنا لیا اور ان سے ’’ صلوۃ الرسول صلی اللہ علیہ
وسلم ‘‘ جیسی نفع بخش کتاب کی تخریج لکھوا دی ۔ ‘‘
( فرض نماز وں کے بعد دعائے اجتماعی اور اہلِ حدیث کا
مسلک اعتدال صفحہ ۵۰)
شیخ عبد
الرووف سندھو غیرمقلد نے صلوۃ الرسول پر اپنی تخریج والے ایڈیشن کے متعلق لکھا:
’’ کچھ حضرات ایسے بھی نظر آئے کہ جن
کو اس محقق ایڈیشن سے زبر دست چڑ اور جلن ہوئی اور ان حضرات میں سر فہرست نام نہاد
سلفی ابو مسعود کا نام ہے ۔
( احناف کی چند کتب پر ایک نظر صفحہ ۷، ناشر دار الاشاعت
اشرفیہ سندھو قصور )
مولانا محمد
اسحاق بھٹی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ موجودہ دَور کے بعض اہلِ علم نے اردو میں اس باب [ تخریج
حدیث ( ناقل )] میں جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، میرے خیال میں اس پر غور کرنا
چاہیے ۔ اس سے منکرین حدیث ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اور بعض دوسرے لوگوں پر بھی
اس کا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس قسم کی بحثیں احادیث پڑھاتے وقت ضرور کی جائیں ، لیکن
میر ے خیال میں عام مضامین میں اور عام لوگوں کے سامنے اس موضوع پر گفتگو مصلحت کے
خلاف ہے موجودہ دَور کے اصحاب ِ تحقیق سے میری گزارش ہے کہ انہیں بھی اس پر غور
فرمانا چاہیے ... مصلحت بھی بسا اوقات مسئلہ بن جاتی ہے ۔ ‘‘
( گزر گئی گزران
صفحہ ۲۷۰، ۲۷۱)
(۵) ایک طرف طارق صاحب کی جسارت ہے کہ
فضائل میں ضعیف حدیث قبول کرنے کے نظریہ نے دین و ملت کو زبر دست نقصان پہنچا کر
حلیہ بگاڑ دیا ہے ،دوسری طرف یوں بھی کہتے ہیں:
’’ چوں کہ
تبلیغی جماعت کے اکابرین وہی رٹا رٹایا جملہ کہ ’’ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث
قابل قبول ہیں ‘‘ بول کر اپنی جان چھڑا لیں اس لیے اس قسم کی احادیث کی نشان دہی
یہاں کرنا بھی فضول ہے ۔‘‘
( تبلیغی جماعت عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے
آئینہ میں صفحہ ۵۳)
طارق صاحب! جب آپ کے بقول فضائل میں بھی ضعیف
احادیث کی مقبولیت دین کو زبر دست نقصان پہنچا نے اور دین کا حلیہ بگاڑنے کا سبب
ہے توآپ دلائل سے اس نظریہ کی تردید کرتے۔ آپ کا اس نظریہ کی تردید میں دلائل ذِکر
نہ کرنا بلکہ ضعیف روایات کی نشاندہی کو فضول کہنا کیا یہ اقرار نہیں کہ فضائل میں
ضعیف روایات پر اعتراض کرنا سینہ زوری ہے ؟
(۶)طارق صاحب دوسروں کو فضائل میں
ضعیف حدیث ذِکر کرنے کی اجازت نہیں دیتے اسے دینی حلیہ کے بگاڑ کا سبب قرار دیتے
ہیں۔مگر خود عقائد کے باب میں ضعیف حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں چنانچہ وہ مرجیہ کی
تردید میں ابن ماجہ اور ترمذی کے حوالہ سے حدیث ِنبوی درج کرتے ہیں:
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس امت میں دو قسم
کے لوگ ہوں گے جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ایک مرجیہ اور دوسرے قدریہ ۔ ‘‘ اس
حدیث میں ایک راوی علی بن نزار ہے جسے محدثین نے ضعیف کہا ہے لیکن اس حدیث کو امام
ترمذی نے حسن کہاہے۔‘‘
( تبلیغی جماعت عقائد ، افکار، نظریات اور مقاصد کے
آئینہ میں صفحہ ۱۸۴)
اعتراف کیا ہے کہ اس حدیث کو محدثین نے علی بن
نزار کی وجہ سے ضعیف کہا ۔ مگر اس کے باوجود طارق صاحب اس سے دلیل پکڑتے ہیں ، اس لئے
کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ۔ حالاں کہ غیرمقلدین کی کتابوں میں
درجنوں حوالے موجود ہیں کہ امام ترمذی چوں کہ متساہل ہیں اس لیے ان کی تحسین کافی
نہیں ہے۔
چنانچہ
مولانا بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ یہاں امام ترمذی کی تحسین
قابل قبول نہیں ۔‘‘ ( مقالاتِ راشدیہ : ۵؍۲۶۶)
راشدی صاحب
مزید لکھتے ہیں:
’’ واضح رہے کہ امام ترمذی کی حسن سے مراد فقط اسنا د کا
حسن ہونا ہے اور یہ متن کے نہ حسن ہونے کو مستلزم ہے اور نہ صحت کو جیساکہ اصول
میں ثابت ہو چکا ہے ۔ ‘‘
(مقالات ِ راشدیہ :۵؍۲۶۷)
مولانا ارشاد
الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حدیث کو حسن کہنے کی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی
خاص اصطلاح ہے جس کی تفصیل خود انہوں نے ’ ’العلل الصغیر‘‘ میں بیان
فرما دی ہے ۔ بلکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے النکت میں اس پر مفصل بحث کی ہے
اور بڑے تتبع سے مثالیں دے کر فرمایا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ شواہد کی
بناپر سیئ الحفظ، ضعیف،
مختلط،مدلس راویوں اور منقطع روایات کو بھی حسن کہہ دیتے ہیں ۔ دکتور خالد بن
منصور حفظہ اللہ نے بھی ’’الحدیث الحسن لذاتہ و لغیرہ ‘‘ کی جلد ثالث میں بڑی تفصیل سے
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین پر نقد و تبصرہ کیا ہے مگر یہ ہمارا موضوع
نہیں ۔ ‘‘
(اعلاء السنن فی المیزان صفحہ ۴۴،طبع ادارۃ العلوم
الاثریۃ فیصل آباد )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں