نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مختصر تعارف صاحب التحقیق و التصنیف حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ


                               صاحب التحقیق و التصنیف
حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ

مختصر تعارف(ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)

مفتی رب نواز حفظہ اللہ ،مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پورشرقیہ               (۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء بروز جمعۃ المبارک)

  

           مولانا نے ۱۹۴۶ھ میں مولانا عبد اللہ صاحب کے گھر بستی خاناں شریف ڈیرہ اسماعیل خاں میں جنم لیا۔ مڈل تک بستی خاناں کے قریب پرویا میں تعلیم حاصل کی، نڑھال نزد کبیر والا میں مولانا منظور الحق صاحب کے پاس درسِ نظامی حاصل کرتے رہے۔ دورۂ حدیث نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کیا۔ فراغت کے بعد حفظ ِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ خاناں شریف پڑھاتے رہے۔ بعدا زاں خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف میں تین سال تک تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ پھر کم و بیش تیرہ سال نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں استاذِ حدیث کے منصب پر فائز رہے۔ پھر بعض حالات کے باعث اپنے مدرسہ حبیب العلوم میں چار سال پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی نوسال تک شیخ الحدیث رہے۔ پھر شوال ۱۴۲۷ھ سے اپنے مدرسہ میں پڑھا رہے تھے۔ کم و بیش چھتیس کتب کے مصنف تھے۔ پسماندگان میں بیوہ، سات بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔

[ مجلہ نور بصیرت،ذوالقعدہ و ذوالحجہ ۱۴۲۸ھ ،تحریر مولانا جمیل الرحمن عباسی ]

 حضرت کے نام سے شناسائی اور نور الصباح کتاب کا مطالعہ

          قریباً۲ ۰ ۲۰ء کی بات ہے کہ بندہ حصول ِعلم کے سلسلہ میں جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی میں مقیم تھا، تب ایک رسالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مسئلہ ترک ِ رفع یدین بھی درج تھا۔ اس رسالہ میں متعدد مقامات پر عبارتوں کو نقل کرکے بحوالہ نور الصباح لکھا ہوا تھا۔ جس سے بندہ کو اندازہ ہوا کہ ’’ نور الصباح ‘‘ کوئی اہم کتاب ہے ۔ مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کتاب کے مصنف کون ہیں ؟کچھ عرصہ بعد ’’ نور الصباح ‘‘ کہیں سے عاریۃ مل گئی ۔ کتاب پر پورا نام ’’ نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح‘‘ درج تھا اور مصنف کے طور پر نام ’’ مناظر اسلام مولانا حافظ محمد حبیب اللہ ڈیروی، شیخ الحدیث جامعہ قاسم العلوم فقیر والی ضلع بہاول نگر، ناشر: جامعہ اسلامیہ حبیب العلوم بلال آبادڈیرہ اسماعیل خان ‘‘ لکھا ہوا تھا۔

          اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں غیرمقلد مصنف عبد الرشید انصاری کے بارے میں لکھاتھا کہ انہوں نے چھ سوال کئے اور ہر سوال کے جواب پر تین سو روپیہ انعام مقرر کیا ۔ حضرت ڈیروی صاحب نے ان کے ہر سوال کا جواب دیا ہر سوال کے جواب پر تین تین سو وصول کرتے رہے، یہاں تک چھ سوالوں کے جواب مکمل ہوئے ۔

          مسئلہ ترک رفع الیدین پر معلومات سے پُریہ کتاب تھی جس کا مطالعہ اس وقت نصیب ہوا تھا۔نور الصباح طبع دوم میں حضرت ڈیروی کے درج ذیل الفاظ مطالعہ سے گزرے :

          ’’ غیرمقلدین حضرات کی صفوں میں تو اس کتاب نے کھلبلی مچا دی ہے۔چنانچہ اس کا اعتراف غیرمقلد عالم محمد سلیمان صاحب انصاری یوں کرتے ہیں : اس اکتشاف سے کچھ کھلبلی سی مچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

 [گذارش احوال واقعی مسئلہ رفع الیدین پر ایک نئی کاوش کا تحقیقی جائزہ :۳]

          اس کتاب میں محمد جونا گڑھی کے چیلنج کا جواب بھی درج ہے۔ انہوں نے ترمذی میں ترک رفع یدین کے باب ہونے کو جھوٹ قرار دیا اور پھر علمائے احناف پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے بہت کچھ کہا جس میں درج ذیل عبارت بھی ہے :

          ’’ تمہیں تمہارے رب کی قسم اگر ذرا بھی تم میں دین و دیانت ایمان و امانت ہے تو تم پر روٹی کھانا بھی حرام ہے جب تک ترمذی میں سے یہ دونوں باب نہ دکھا دو۔ ‘‘

[ دلائل محمدی : ۳۹]

          ڈیروی صاحب نے جونا گڑھی صاحب کا چیلنج نقل کیا اور پھر ترمذی کے مختلف نسخوں سے ترک رفع یدین کا ثبوت پیش کرکے لکھا:

          ’’ ناظرین کرام! غیرمقلدین حضرات کے بزرگ مولوی محمد صاحب غیرمقلد نے احناف حضرات کو بُرا بھلا کہا ہے اور ہمیں رب کی قسم دے کر ہم پر روٹی کھانا بھی حرام کر دیا تھا جب تک ترک رفع الیدین کا باب ترمذی سے ان کو نہ دکھا دیا جائے۔ بحمد اللہ ہم نے ترمذی ہی کے نسخہ سے جو اُن کے گھر سے نکلا ہے ترک رفع الیدین کاباب دکھادیا ہے ۔ہماری روٹی پہلے بھی حلال تھی اور اب تو احل الحلال ہو گئی ہے ۔ اور جو انہوں نے ہمیں بُرا بھلا کہا ہے اور پوشیدہ خیانتیں کرنے کے ساتھ متہم کیا ہے اس کے وہ خود مستحق ہیں اور منصف مزاج غیرمقلد علامہ احمد شاکر غیر مقلد نے اس چوری کو ظاہر کر دیا ہے اور ہمیشہ چوری چور ہی کے گھر سے نکلتی ہے ۔ ع وہ الزام ہم کو دیتے تھا قصور اپنا نکل آیا ‘‘

 [ نور الصباح ـ:۱۰۳]

          نور الصباح جلد اول کے ۲۴۴ ؍صفحات ہیں اُس دَور میں مسئلہ ترک رفع الیدین پر اس قدر ضخیم کتاب کوئی اور بندہ کی نظر سے نہیں گزری تھی۔

          حضرت ڈیروی صاحب کا طرز ہے کہ وہ رجال اور اُصول حدیث پر خوب بحث کیا کرتے ہیں نیز اپنی تائید میں فریق مخالف کی عبارات بھی نقل کیا کرتے ہیں ۔یہی طرز اس کتاب نور الصباح میں بھی قائم ہے۔ بعد میں اس کتاب کی دوسری جلد بھی شائع ہو گئی مگر اس وقت صرف پہلا حصہ تھا اس پر بھی جلد اول درج نہیں تھا۔ پھر عرصہ بعد مرکز اہل سنت سرگودھا والوں نے نور الصباح دونوں حصوں کا عکس لے کر شائع کیا تھا۔

          مسئلہ ترک رفع یدین پر اب بڑی ضخیم اور تحقیقی کتب : تسکین العینین مؤلفہ مولانا نیاز احمد اکاڑوی اور جز ترک رفع الیدین مؤلفہ مولانا عبد الغفار ذہبی رحمہ اللہ کی منظر عام پر آ چکی ہیں مگر دیکھا جائے تو بعد والی کتابوں کے لیے بنیاد کا پتھر حضرت ڈیروی صاحب کی کتاب ہے۔ بعد میں کوئی مؤلف بھی اس موضوع پر لکھنا چاہے وہ نور الصباح سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ واقعۃ ً یہ کتاب ’’ الفضل للمتقدم ‘‘ کی مصداق ہے ۔

          بہرحال بندہ حضرت ڈیروی صاحب کی تحقیق سے متاثر ہوا تو ان کی دیگر کتب کی جستجو ہونے لگی۔ کہیں سے معلوم ہوا کہ نماز میں آمین آہستہ کہنے پر حضرت کی کتاب ’’ اظہار التحسین فی اخفاء التامین ‘‘ مطبوع ہے ۔ وہ خریدنے کا شوق ہوا تو کراچی کے متعدد مکتبوں سے پتہ کیا مگر کہیں سے دسیتاب نہ ہو سکی۔

حضرت سے ایک ملاقات

          ۲۰۰۴ ء میں بندہ کا دَورہ حدیث تھا۔ فراغت کے بعد اپنے شہر کی معروف دینی درس گاہ ’’ دارالعلوم

  فتحیہ  احمد پور شرقیہ ‘‘ میں تدریس کی خدمت میسر ہوئی۔ کچھ سال بعد ۲۰۰۷ ء کے کسی مہینہ میں محترم مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ نے اطلاع دی کہ جامعہ مدنیہ بہاول پو رمیں مولانا حبیب اللہ ڈیروی صاحب تشریف لارہے ہیں۔ آپ آ جائیں ان سے ملاقات کر لیں۔ بندہ نے اس موقع کو غنیمت جانا، بتائے ہوئے وقت پر جامعہ مدنیہ پہنچا۔ حضرت دوسری منزل کے ایک کمرہ میں تشریف فرما تھے۔ حضرت کا بھاری جسم، مناسب قد، سفید داڑھی، موٹی پنڈلیاں تھیں۔ سادہ سا لباس پہنے ہوئے تھے اور بیگ کی بجائے کپڑے کا سلا ہوا تھیلا پاس رکھا ہوا تھا۔ جسمانی ساخت میں صحت مند پٹھان محسوس ہوتے تھے مگر زبان خالص سرائیکی بول رہے تھے۔ سرائیکی زبان ان کے بارے میں پٹھان ہونے کے وہم کا ازالہ کر رہی تھی۔

           جامعہ مدنیہ کے استاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب دام ظلہ اپنے گھر سے حضرت کے لیے ناشتہ لائے۔ ناشتہ کی اطلاع پاکر بندہ وہاں سے اُٹھنے لگا، ارادہ تھا کہ مولانا عباسی دام ظلہ کے کمرہ میں چلا جاؤں مگر حضرت مفتی صاحب نے فرمایا بیٹھو! ناشتہ کرو۔ عرض کیا : مولانا عباسی صاحب کے ہاں ناشتہ کر لوں گا۔ فرمایا: ’’کبھی ہمیں بھی موقع دے دیا کریں ‘‘یاد رہے کہ بندہ حضرت مفتی صاحب کے شاگردوں کا شاگرد ہے۔ یوں ناشتہ کی فرمائش کرنا ان کی طرف سے ذرہ نوازی تھی۔ اُن کی اِس شفقت بھری فرمائش کی تعمیل کرتے ہوئے بندہ نے حضرت ڈیروی صاحب کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھایا۔

          حضرت کی خدمت کے لیے دو طالب علم مقرر تھے، اُن میں سے ایک توحضرت کے علاقہ کا رہنے والا تھا، شاید دوسرا بھی ان کے علاقہ کا باشندہ ہو۔ ایک اور نوجوان طالب علم جو ٹانگوں سے معذور تھا، یہ تو معلوم نہیں جامعہ مدنیہ کا تھا یا کسی اور مدرسہ کا۔ وہ گھسٹتا ہوا اوپر کی منزل میں حضرت کو ملنے آیا۔ اس کے پُر تکلف ملنے سے انداز ہ ہورہا تھا کہ حضرت ڈیروی صاحب سے ان کی جان پہچان پہلے سے ہے۔ ان پر رشک آیا کہ معذور ہونے کے باوجود دوسری منزل میں حضرت کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے۔ناشتہ کے بعد حضرت ڈیروی صاحب سے مجھے کچھ دیر استفادہ کا موقع ملا۔ اس مجلس کی چند باتیں درج ذیل ہیں:

          میرے پاس اپنی کسی کتاب کا مسودہ تھا، میں نے عرض کیا : حضرت ! اس کتاب کے لیے کچھ کلمات تحریر فرما دیتے۔فرمایا: مولانا ! میرا مزاج ہے کہ کتاب مصنف کے زور دار دلائل کی بنیاد پر لوگوں میں مقبولیت حاصل کرے۔ اسے تقاریظ کی بیساکھیاں نہ لگائی جائیں۔ اس لیے میں نے اپنی کتابوں پر تقاریظ نہیں لکھوائیں۔ نور الصباح کے شروع میں جوحضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تقریظ ہے وہ میں نے نہیں لکھوائی ، حضرت نے از خود تحریر فرما دی تھی۔

          بندہ نے حضرت سے عرض کیا: آپ کی کتاب ’’ اظہار التحسین‘‘ کا کراچی کے متعدد کتب خانوں سے پتہ کیا اور ایک سے زائد بار کوشش کی مگر یہ کتاب مجھے حاصل نہیں ہو سکی۔فرمایا: اس کا پہلا ایڈیشن نصرۃ العلوم ( گوجرانوالہ )والوں نے شائع کیاتھا، اس کے بعد دوبارہ یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی۔‘‘

          حضرت کا یہ جواب سن کر بندہ نے مارکیٹ سے اسے تلاش کرنا چھوڑ دیا۔ راولپنڈی سے آتے ہوئے کھاریاں [ گجرات] میں بھائی محمد انور سرفرازی صاحب کے پاس حاضر ہوئی۔ انہوں نے چند کتابیں ہدیۃً عنایت فرمائیں ان میں ’’ اظہار التحسین ‘ ‘بھی تھی جزاہ اللہ۔ مطالعہ کرنے سے محسوس ہوا کہ حضرت نے اسے بھی بہت محنت اور عرق ریزی اور مخالف کی کئی کتابیں کھنگالنے کے بعد تصنیف فرمایا ہے۔

          خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے ایک رسالہ بہ نام ’’ ہدایہ عوام کی عدالت میں‘‘ لکھا۔ حضرت ڈیروی صاحب نے اس رسالہ کا جواب ’’ ہدایہ علماء کی عدالت میں ‘‘ کے نام سے دیا۔نام میں بھی یہ تاثر موجود ہے کہ ’’ہدایہ‘‘ مسائل کی کتاب ہے، اس کا فیصلہ عوام کے بس میں نہیں، فیصلہ علماء کو کرنا چاہیے۔ ڈیروی صاحب نے اس کتاب میں خواجہ صاحب کو جواب دیا اور ساتھ ہی غیرمقلدین کے اوہام بھی درج کر دئیے۔ چونکہ غیرمقلدین امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ بہت زیادہ عقیدت مندی کا دعوٰی کیا کرتے ہیں، اس لیے حضرت ڈیروی صاحب نے اسی کتاب میں ضمناً امام بخاری رحمہ اللہ کے بھی چند اوہام علماء حدیث کے حوالے سے درج کر دئیے ۔ مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے کتاب کا جو اَصل موضوع تھا یعنی ہدایہ کا دفاع اس سے کچھ تعرض نہیں کیا بلکہ اس کتاب میں غیرمقلدین کی غلط بیانیاں درج کی گئیں ان کا دفاع بھی بھول گئے ،بس انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کی فکر پڑ گئی ۔لہٰذا انہوں نے ’’ امام بخاری پر بعض اعتراضات کا جائزہ ‘‘ عنوان سے ایک رسالہ لکھ دیا ۔

           حضرت ڈیروی صاحب نے اس مجلس میں مجھ سے فرمایا :’’ میں نے ارشاد الحق اثری کے اس رسالہ کا جواب لکھنے کا عزم کیا ہوا ہے، مگر ہمارے اپنے کہہ رہے ہیں کہ غیرمقلدین کی تردید میں امام بخاری رحمہ اللہ کو بیچ میں نہ لاؤ ۔‘‘اس کے بعد حضرت کی بہت جلد وفات ہو گئی تھی۔

          یہاں یہ بات جانتے چلیں کہ امام بخاریؒ کے بارے میں خود غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ ان سے متعدد مقامات پرغلطیاں ہوئیں۔یہ غلطیاں ان کی عام کتابوں میں بھی ہیں اور صحیح بخاری میں بھی۔صحیح بخاری میں موجود غلطیوں کو حضرت مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن دام ظلہ نے علامہ وحید الزمان غیرمقلد کی زبانی ’’ بخاری شریف غیرمقلدین کی نظر میں ‘‘ عنوان سے لکھے گئے اپنے رسالہ میں جمع کر دیا ہے۔

           کئی غیرمقلد علماء نے بخاری و مسلم کی بہت سی احادیث پر ضعف کی چھاپ لگائی اور متعدد رایوں پر جرح کے نشتر چلائے۔ ان غیرمقلدین میں شیخ البانی پیش پیش رہے ہیں، جنہوں نے بخاری و مسلم کی حدیثوں کو سلسلہ ضعیفہ و موضوعہ میں شامل کر دیا ہے۔بندہ نے غیرمقلدین کی کتابوں میں درجنوں عبارات پر نشان لگا رکھے ہیں، جن میں انہوں نے بخاری و مسلم پر جرح کی ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان عبارات کو بہت جلد منظر عام پہ لایا جائے گا۔ان شاء اللہ

          اس مجلس میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ احسن الکلام ‘‘ کا ذکر خیر آیا تو فرمایا: حضرت نے جس زمانے میں یہ کتاب لکھی تھی اس زمانے میں بہت سی کتب قلمی شکل میں مختلف کتب خانوں میں تھیں جن تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی۔ اب ماشاء اللہ بہت سی قلمی کتابیں شائع ہو چکیں، ان کتابوں میں فاتحہ کے مسئلہ پر احناف کے مزید دلائل موجود ہیں جو ’’ احسن الکلام ‘‘ میں نہیں آ سکے۔

حضرت ڈیروی صاحب ’’ احسن الکلام ‘‘ کو بہت سراہتے تھے چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں:

          ’’قارئین کرام! فاتحہ خلف الامام کے بارے میں ہمارے استاد محترم محقق وقت شیخ الحدیث ابوالزاہد مولانا محمد سرفراز خاں صاحب صفدر دام مجدھم نے احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام لکھ کر غیرمقلدین حضرات کو پریشانی کے عالم میں مبتلا کر دیا ہے، فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء اور رفع الیدین کے بارے میں بندہ کی یہ کتاب حاضر خدمت ہے ع گر قبول افتد زہے عزو شرف۔ اور مسئلہ آمین کے بارے میں مسودہ جمع کیا جا چکا ہے ۔ ‘‘

[نو ر الصباح : ۲۰]

ڈیروی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

          ’’ہمارے شیخ مکرم محدث اعظم حضرت مولانا محمد سر فراز خان صاحب صفدر دامت برکاتہم العالیہ نے احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام جیسی ٹھوس مدلل کتاب تحریر فرما کر ہم اہلِ سنت والجماعت پر احسان ِ عظیم کیا اور غیرمقلدین حضرات کی صفوں میں کھلبلی سی مچا دی ہے۔ ‘‘

[ توضیح الکلام پر ایک نظر: ۹]

          بندہ نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں فون پر آپ سے رہنمائی لیا کروں گا۔ فرمایا جی ٹھیک ہے آپ بات کر لیاکرنا ۔ حضرت کے موبائل میں وارد کی سم تھی، بندہ نے خاص ان سے رابطہ کی خاطر وارد کی سم خریدی۔ اس سم کے ذریعہ کال کرکے اپنا تعارف کرایااور عرض کیا آپ سے رہنمائی لینے اور کال کرنے کی بندہ نے اجازت لی تھی۔فون پران سے میری یہ بات شعبان کے مہینے میں ہورہی تھی۔ فرمایا: جی جی، آپ رمضان کے بعد سے رابطہ میں رہنا ‘‘مگر افسوس کہ رمضان آکر گزر گیا اور حضرت کی اچانک وفات ہوگئی۔ میں ان سے فون پر استفادہ کرنے سے محروم ہی رہا۔

           حضرت ڈیروی صاحب سے میری یہ ملاقات جامعہ مدنیہ بہاول پور میں ہوئی۔حضرت جب یہاں سے تشریف لے جانے لگے تو مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ نے اپنے زیر ادارت نکلنے والے رسالے ’’ نور بصیرت‘‘  کے چند شمارے انہیں ہدیہ میں پیش کئے اورپھر اُن شماروں کوپاس رکھے ہوئے ان کے تھیلے میں رکھ دیا۔

ڈیرویؒ  گرفت اور اثری رجوع

          حضرت ڈیروی صاحب نے مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کی کتاب ’’ توضیح الکلام ‘‘ پر نقد و تنقید کی جو ’’توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ حضرت نے اس مجلس میں اپنی اس کتاب کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’فی الحال اس کا جواب نہیں آیا۔‘‘

          بعد میں اثری صاحب کی طرف سے جواب الجواب ’’ تنقیح الکلام فی تائید توضیح الکلام‘‘ کے عنوان سے مارکیٹ میں آیا ۔ اسے پڑھ کر حضرت ڈیروی صاحب کی مضبوط گرفت کا اندازہ ہوا۔ڈیروی گرفت کی تاب نہ لا کر اثری صاحب کو توضیح الکلام سے بہت سی عبارتیں حذف کرنا پڑیں اور کئی مقامات پر ترمیم کے لیے مجبور ہوئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ متعدد جگہوں پر اعتراف بھی کیا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، آئندہ ایڈیشن میں اسے حذف یا درست کردوں گا۔ ذیل میں چند ایسے مقامات ملاحظہ فرمائیں جہاں اثری صاحب نے ڈیروی گرفت کے سامنے سرجھکا لیا ۔

(۱) اثری صاحب نے حضرت ڈیروی صاحب کی گرفت کے جواب میں کہا:

’’ دوسرے ایڈیشن میں ہم نے حدثنا کو حذف کر دیا ہے ۔ ‘‘

 [ تنقیح الکلام : ۱۶۲]

(۲)اثری صاحب نے لکھا:

          ’’ امام بخاری فرماتے ہیں کہ عکرمہ ثقہ ہے۔ ‘‘

ڈیروی صاحب نے اس پر گرفت کی تو اثری صاحب نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:

          ’’ بلا ریب صراحۃً امام بخاری سے توثیق منقول نہیں۔ اسی لئے دوسرے ایڈیشن میں ہم نے امام بخاری کا نام حذف کر دیا ہے۔ ‘‘

[ تنقیح الکلام :۱۶۴]

(۳)اثری صاحب نے ایک سند کے متعلق لکھا تھا:

          ’’ اس میں عون بن موسی در اصل سفیان بن موسی ہے اور وہ صدوق ہے ۔‘‘

حضرت ڈیروی صاحب نے اس پر گرفت کرتے ہوئے لکھا:

          ’’ اسے سفیان بن موسی بنانا اور اس کی توثیق کرنا اثری صاحب کا کارنامہ ہے ۔‘‘

[توضیح الکلام پر ایک نظر : ۲۸۱]

اثری صاحب نے اس گرفت کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے اور کھلے لفظوں میں تسلیم کیا:

          ’’ بلاشبہ عون بن موسی کو متعین کرنے میں اس ناکارہ سے غلطی ہوئی ۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۱۹۳]

(۴)اثری صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ توضیح (ج ۱ ص ۲۶۶ ) میں لکھا گیا ہے کہ امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ امام مالک ، ابن اسحاق کو پہچانتے ہی نہیں ، جس پر ہمارے مہربان [ ڈیروی صاحب ( ناقل )]فرماتے ہیں : ’’یہ اثری

  صاحب کا خالص جھوٹ ہے۔ (ایک نظر : ۲۸۳) بلاشبہ یہ قول امام ابو زرعہ کا نہیں ۔ ‘‘

 [تنقیح الکلام : ۲۰۲]

(۵)اثری صاحب نے توضیح الکلام میں نقل کیا:

          ’’محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ابن اسحاق صدوق ہے۔ ‘‘

[ توضیح الکلام :۱؍۲۲۵]

حضرت ڈیروی صاحب نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:

          ’’ یہ محض جھوٹ ہے کہ تمام محدثین کرام متفق ہیں ۔ ‘‘

اثری صاحب نے اس کے جواب میں لکھا:

          ’’ یہاں لفظ کبار ساقط ہو گیا ۔ یعنی کبار محدثین ہے صرف محدثین نہیں ۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۲۰۳]

(۶)اثری صاحب نے ڈیروی صاحب کے بارے میں لکھا:

          ’’ انہوں نے توضیح (ج ۲ ص ۲۰۱) سے یہ بھی نقل کیا کہ یہاں ان ھو الا ذکر للذاکرین کو قرآن کی آیت باور کروایا گیا ہے حالانکہ یہ آیت اس طرح نہیں ۔ ( ایک نظر: ص ۲۵۲،۲۵۳) بلاشبہ ان الفاظ سے یہ آیت نقل کرنے میں خطا ہوئی۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۲۳۸]

(۷)اثری صاحب ایک اور جگہ ڈیروی گرفت کے سامنے جھکتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ’’ بلاشبہ امام یحییٰ بن معین نے ابن اسحاق پر امام مالک کی جرح کا جواب نہیں دیا۔ نئے ایڈیشن میں اسے درست کر دیا گیا ہے۔ ‘‘

[تنقیح الکلام :۲۴۷]

(۸) ایک اور اعترافِ خطا ملاحظہ فرمائیں۔ اثری صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ علامہ شوکانی کی عبارت کو سمجھنے میں یہاں اس ناکارہ سے خطا ہوئی جس کا ازالہ دوسرے ایڈیشن میں کر دیا گیا ہے ۔ ‘‘

 [تنقیح الکلام : ۲۸۵]

(۹)چلیں ایک اور حوالہ بھی پڑھیں ۔ اثری صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ جزء القراء ۃ ( ص۱۵) مطبوعہ پریس لاہور میں بھی اسی طرح قال ثنا صدقہ بن خالد ہے ۔ جس سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ امام بخاری بھی اسے صدقہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسے ہشام بن عمار ہی سے روایت کرتے ہیں جیسا کہ خلق افعال العباد (ص ۶۷) سے عیاں ہوتا ہے اور ہشام کا واسطہ جزء القراء ۃ کے نسخہ سے گرا ہوا ہے ۔ توضیح کے دوسرے ایڈیشن میں راقم نے اس کا ازالہ کر دیا ہے ۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۲۸۶]

 (۱۰)لیجئے !دسویں عبارت بھی حاضر ہے ۔ اثری صاحب نے لکھا :

          ’’ التلخیص کے مطبوعہ نسخہ میں اسی تصحیح کی نسبت جو امام ابو داؤد کی طرف منسوب ہوگئی ہے ۔ وہ طباعتی غلطی کا نتیجہ ہے ۔ توضیح الکلام کی طبع اول میں خود یہ ناکارہ اس کا تتبع نہ کر سکا ۔ اس لیے التلخیص کی عبارت سے تصحیح کی نسبت امام ابو داود کی طرف ہوگئی ۔ ‘‘

 [تنقیح الکلام : ۳۱۸]

          یہ وہ مقامات ہیں جہاں اثری صاحب نے ڈیروی صاحب کے تنبیہ کرنے پر اپنی غلطیوں کااعتراف کیا ہے۔ جب کہ بہت سی جگہوں میں اعتراف کئے بغیر چپکے سے بھی عبارتوں کو غائب کر دیا۔ مثلاًانہوں نے مکحول کی حدیث کے بارے میں لکھا تھا:

’’ اس حدیث میں اضطراب کا راز کھلا تو صرف حضرات علماء احناف پر، آخر کیوں۔ آپ ہی اپنی کج بینی پر غور کریں۔‘‘

 [ توضیح الکلام :۱؍۳۵۵طبع قدیم ]

          حضرت ڈیروی صاحب نے اثری صاحب کی اس بات کو غلط بیانی قرار دیتے ہوئے علامہ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ کا حوالہ التمہید :۱۱؍۴۶ سے نقل کیا کہ انہوں نے بھی اس حدیث میں اضطراب بتایا ہے ۔

[ توضیح الکلام پر ایک نظر :۱۰۲]

          حضرت ڈیروی کے تعاقب کرنے پر اثری صاحب نے توضیح الکلام طبع جدید:۳۲۹ پر مذکورہ عبارت کو خاموشی سے حذف کردیا ۔

الزامِ تحریف سے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی براء ت

          شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی کتاب ایضاح الادلہ میں سہوا ًایک آیت غلط درج ہو گئی تھی۔محمد حسین بٹالوی سے لے کر ارشاد الحق اثری تک غیرمقلدین سے اس کتاب کا جواب نہیں بن پڑا۔ البتہ اس کتاب کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے یہ شور مچاتے چلے آئے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے قرآنی آیت میں تحریف کردی ہے۔ غیرمقلدین کی درجنوں کتابوں خاص کر تقلید کی تردید میں لکھی گئی قریباً ہر تحریر میں بندہ نے ان کا یہ واویلا دیکھا کہ شیخ الہند نے جان بوجھ کر آیت کو غلط لکھا ہے۔یہاں تک کہ اثری صاحب نے بھی یہی راگ الاپ دیا کہ شیخ الہند نے مذہبی حمیت میں ایک خود ساختہ آیت لکھ دی ہے۔

[توضیح الکلام طبع قدیم: ۱؍۲۵۳]

          حضرت ڈیروی صاحب نے اپنی کتاب ’’توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘کے ’’باب التحریفات‘‘ میں اثری صاحب کی کتاب توضیح الکلام سے متعدد آیات نقل کرکے نشان دہی فرمائی کہ یہ آیتیں غلط لکھی ہوئی ہیں۔ جب الزام خود اثری صاحب پر الٹ پڑا تب انہیں تسلیم کرنا کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:

          ’’سیدھے ہاتھوں یہ اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا کہ یہ حضرت شیخ الہند سے چوک ہوئی ... اللہ تعالیٰ بھلا کرے سید [ سعید ( ناقل ) ]احمد پالن پوری صاحب کا کہ انہوں نے بالآخر تسہیل الادلہ کاملہ کے پیش لفظ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ : یہ سبقت قلم ہے ... ( تسہیل الادلہ کاملہ: ص ۱۸،۱۹) مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے خط میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ فی الواقع یہ خطا مولانامحمود الحسن سے ہوئی اور یہ سبقت قلم کا نتیجہ ہے ۔ ملاحظہ ہو ’’ الرودود ‘‘ مؤلفہ بکر بن عبد اللہ ابو زید کا حاشیہ ص ۲۴۲‘‘

[ تنقیح الکلام :۶ ۲۳]

          مولانا محمد جونا گڑھی اور مولانا عبد القادر حصاروی سے لے کر دَور حاضر کے تک کے غیر مقلد لکھاری عناداً حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے سہو کو تحریف کہتے چلے آئے ہیں، میری معلومات کے مطابق سب سے پہلے اثری صاحب نے اسے تحریف کی بجائے سہو قرار دیا۔ اس کے پیچھے حضرت ڈیروی رحمہ اللہ کی محنت، کاوش اور گرفت کا دخل ہے، ورنہ اس گرفت سے پہلے خود اثری صاحب بھی اس پر تحریف کا لیبل لگا چکے ہیں۔

          اثری صاحب جب ایضاح الادلہ میں درج آیت کو تحریف کی بجائے سہو تسلیم کر چکے ہیں تو اب انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ وہ توضیح الکلام طبع جدید میں تحریف قرار دینے کی ساری بحث کو حذف کر دیتے، مگرافسوس کہ انہوں نے اسے حذف نہیں کیا۔ آپ توضیح الکلام طبع جدید :۲۴۰،۲۴۱ کھول کر دیکھ لیجئے !یہ بحث وہاں اب بھی موجود ہے۔

          مولانا عمر فاروق قدوسی غیرمقلد نے بھی ایضاح الادلہ کی عبارت کو سہو قرار دیا، چنانچہ انہوں نے دیوبندیوں کے متعلق لکھا:

          ’’ انہوں نے طویل عرصہ تک اس غلطی کو درست نہیں کیا... جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن سے ہوئی تھی ... مولانا موصوف سے تو سہواً ایسا ہوگیا ۔ ‘‘

[ اہلِ حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں : ۱۸۵]

ڈیروی صاحب علماء کرام کی نظر میں

 ڈیری صاحب کے استاذِ مکرم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے لکھا:

          ’’ فاضل نوجوان، عالمِ اجل، نکتہ رس، ذہین و فطین، وسیع النظر اور کثیر المطالعہ حضرت مولانا حافظ محمد حبیب اللہ صاحب دام مجدہم ڈیروی فاضل نصرت العلوم گوجرانوالہ ‘‘

[ تقریظ نور الصباح : ۱۲]

           حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ کوخط لکھا ۔ خط کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں:

          ’’ ہدیہ سنیہ یعنی کتاب مستطاب نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح وصول ہوئی، ممنون فرمایا،جزاکم اللہ تعالیٰ عنی و عن سائر اھل العلم خیرا. مطالعہ کرکے مسرت ہوئی کہ آپ کے مدرسہ نصرت العلوم سے ایسے فضلاء نکلے جو اس طرح دادِ تحقیق دیتے ہیں کثر اللہ امثالھم. ‘‘

[ نور الصباح : ۱۷]

حضرت مولانا مفتی محمد انور اکاڑوی دام ظلہ لکھتے ہیں:

          ’’ غیرمقلدین کی ان جیسی بے اعتدالیوں کے پیش ِ نظر مولانا حبیب اللہ صاحب ڈیروی مدظلہ نے ایک کتاب نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح لکھی جس میں اس علاقے کی متواتر ترک رفع یدین والی نماز کو صحیح ثابت کیا ... بہرحال اس کتاب نور الصباح سے عوام کے اکثر مغالطات دُور ہوئے اور ان کو اپنی نماز کے بارہ میں اطمینان قلبی حاصل ہوا۔‘‘

 [ تجلیات انور :۱؍۳۵۷،۳۵۸]

حضرت مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ لکھتے ہیں:

          ’’ مولانا ایک جید عالم دین، نامور محقق، قابلِ فخر مناظر، مایہ ناز مصنف، لائقِ رشک نکتہ دان و نکتہ بیں، کہنہ مشق مدرس، فن اسماء الرجال کے بحر ناپیدا کنار، بہترین نقاد، امام اہلِ سنت کے تلمیذ ارشد و معتمد خاص، اہلِ سنت و الجماعت کے لائق افتخارترجمان، بزم احناف کے تابندہ چراغ اور مسلک حق کی نظریاتی سرحدوں کے چاک و چوبند محافظ تھے، آپ کے قلم کی صداقت رقم کی ذرا سی جنبش سے گمراہی کے مراکز لرزا بر اندام ہو جاتے۔ آپ کی ہر تحریر بدعت کے ایوانوں پر بجلیاں گراتی، ہر تحقیق دجل و تلبیس اور الحاد و زندقہ کی عمارتوں کو پیوند خاک کر دیتی۔ ان گوناں گوں اوصاف حسنہ کی جامع شخصیت ہونے کی باوصف عاجزی آپ پر بس تھی اور انکساری آپ پر ختم ‘‘

[مجلہ نورِ بصیرت بہاول پور شمارہ: ۲۳، ذوالقعدہ و ذو الحجہ ۱۴۲۸ھ اداریہ ]

عباسی صاحب نے حضرت ڈیروی کی کتاب ’’ نور الصباح ‘‘ پر باقاعدہ تبصرہ بھی تحریر کیا تھا اس تبصرہ کی کچھ سطریں درج ذیل ہیں:

          ’’محقق العصر حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی نور اللہ مرقدہ تحقیق کے میدان کے مسلم شہسوار گذرے ہیں۔ مسلکی دفاع اور رد فرق باطلہ و ضالہ میں ان کے کارنامے آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ آپ کے جاندار قلم سے جہاں دیگر وقیع کتب منصہ شہود پر آئی ہیں وہاں نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ... جیسی معرکۃ الآراء کتاب بھی منظر ِ عام پر آئی ... قارئین کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس مایہ ناز کتاب سے ضرور مستفید ہوں خصوصا وہ حضرات جو لامذہبیت کی طرف سے پھیلائی گئی تارکیوں میں بھٹک رہے ہیں وہ اس نور الصباح سے ضرور روشنی حاصل کریں۔ ‘‘

[ نور بصیرت بہاول پور جمادی الاولی۱۴۲۹ھ : ۴۷]

 حافظ ظہور احمد الحسینی صاحب دام ظلہ لکھتے ہیں:

          ’’ علامہ حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے اپنی کتاب ’’ تنبیہ الغافلین علی تحریف الغالین‘‘ میں ان [غیرمقلدین ( ناقل )]کی تحریفات کی خوب نقاب کشائی کی ہے ۔ یہ کتاب قابل دید و لائق مطالعہ ہے ۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء ‘‘

[ علمائے دیوبند پر زبیر علی زئی کے الزامات کے جوابات :۲۰۹]

اللہ تعالی کا فضل

          فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’ہدایہ ‘‘ میں مسائل کے ساتھ بطور دلائل احادیث بھی درج ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احادیث ِ ہدایہ کی تخریج فرمائی، مگر کہیں کہیں یہ بھی لکھ دیا :لم اجدہ ... یا... ما وجدناہ یعنی اس حدیث کومیں نہیں پا سکا ۔ انہوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ حدیث ذخیرہ احادیث میں نہیں بلکہ صرف اپنی بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں پا سکا۔ غیرمقلدلکھاریوں نے ہدایہ پر اعتراضات کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ‘‘ کو سامنے رکھا ۔جہاں انہوں نے لکھا کہ یہ حدیث مجھے نہیں ملی ،اسے اپنی تحریر میں نقل کیا اورپھر دعویٰ کر دیا کہ یہ حدیث کسی کتاب میں موجود نہیں اور یہ کہ اسے حدیث باور کرانا صاحب ِ ہدایہ کا بہتان ہے وغیرہ ۔

          حضرت ڈیروی صاحب نے ایسی احادیث کو کتب ِ حدیث سے تلاش کیا۔کتاب میں جگہ جگہ ’’ اللہ تعالیٰ کا فضل ‘‘ عنوان قائم کرکے ایسی حدیثوں کو درج کیااور پھر ہر حدیث کے بعد ’’ محدث اعظم صاحب ہدایہ زندہ باد‘‘ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ لکھتے چلے گئے۔ دیکھئے ہدایہ علماء کی عدالت میں :۲۴۱؍ سے آخر کتاب تک ۔اس بارے میں حضرت کی درج ذیل تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں:

          ’’ جب حافظ ابن حجر کے الدرایہ کا مطالعہ کیا تو اس میں حافظ صاحب بعض اوقات فرما جاتے لم اجدہکہ یہ حدیث مجھے نہیں ملی اور پھر نصب الرایہ علامہ زیلعی کا مطالعہ کیا تو اس سے پتہ چلا کہ صاحب ہدایہ نے جو احادیث ہدایہ میں بیان کی ہیں وہ اکثر احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، صرف چند احادیث ایسی ہیں جو نہیں مل سکیں۔ علامہ عینی و حافظ ابن ہمام کو بھی وہ احادیث نہیں مل سکیں۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہوا کہ چند چیزیں جو اِن حضرات کو نہ مل سکتی تھیں اس عاجز کو حدیث کی کتابوں سے مل گئی ہیں ۔ اس سے صاحب ہدایہ کا وقار راقم الحروف کے دل میں بہت بڑھ گیا ہے وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء.‘‘

[ ہدایہ علماء کی عدالت میں : ۸۱]

محمد بن اسحاق اور حضرت ڈیروی صاحب

          حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اعتراض کیا کہ ڈیروی صاحب نے محمد بن اسحاق راوی کو ’’ مشہور دلا‘‘ کہہ کر بازاری قسم کی گالی ہے ۔ [ علمی مقالات:۱؍۵۸۲]

جب کہ علی زئی صاحب نے دوسرے مقام پر تسلیم کیا ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

          ’’ حبیب اللہ ڈیروی نے امام المغازی محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا... در اصل محمد بن اسحاق ہے جوکہ مشہور دلا ہے ۔( توضیح الکلام پر ایک نظر :۱۱۷) حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے ہمارے پاس خود آ کر کہا تھا کہ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے ۔‘‘

[ علمی مقامات: ۳؍۵۵۷]

          علی زئی صاحب کی مذکورہ عبارت ان کے اس مضمون کا حصہ ہے جس میں انہوں نے یہ بتانا چاہا کہ کاتب کی غلطی ، مصنف کاسہو اور کمپوزنگ کی غلطیاں قابلِ اعتراض نہیں ہوتیں۔

حضرت ڈیروی کے ایک مباحثہ کا تذکرہ

حضرت ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ راقم الحروف مکتبہ حنفیہ اردو بازار گوجرانوالہ میں گیا۔ وہاں قاضی عبد الرشید صاحب غیرمقلد آف جلہن گوجرانوالہ، مولانا محمد یعقوب قصوری حنفی اور اس کے رفقاء کے ساتھ یہ بحث کر رہا تھا کہ مولانا سر فراز خان صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ قاضی شوکانی شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا تو راقم الحروف نے جواب دیا کہ حضرت صفدر صاحب دام مجدہم قاضی شوکانی کو غیرمقلد لکھتے ہیں، شافعی تحریر نہیں کرتے۔ اس پر قاضی عبد الرشید صاحب نے ضد کیا کہ مولانا سرفراز خان نے اپنی کتابوں میں قاضی شوکانی کو شافعی لکھا ہے۔ تو راقم الحروف نے کہاکہ میرے پاس اس وقت نو سو روپے نقد موجود ہیں۔اگر آپ حضرت صفدرصاحب کی کسی تصنیف سے قاضی شوکانی کا شافعی ہونا دکھادیں تو نو سو نقد آپ کو بطور انعام دئیے جائیں گے۔ اس پر قاضی عبد الرشید صاحب خاموش ہو گئے۔ پھر دوسرا مسئلہ آمین بالجہر چلا تو راقم الحروف نے کہا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک آمین بالجہر کے قائل نہیں ہیں۔حتی کہ امام شافعی کتاب الام میں فرماتے ہیں کہ مقتدی آمین بالجہر نہ کہیں۔ میں مقتدیوں کے لئے آمین بالجہر پسند نہیں کرتا۔ اس پر قاضی عبدالرشید صاحب نے کہا کہ کتاب الام میں یہ بات امام شافعی نے تحریر نہیں کی۔ اس پر راقم الحروف نے مؤاخذہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ غیرمقلدین کے کتب خانہ سے کتاب الام لے آئیں۔ اگر اس میں یہ مسئلہ اس طرح تحریر نہ ہو تو پھر بھی نو سو روپے آپ کو انعام ملے گا۔ اس پر قاضی عبد الرشید صاحب نے کہاکہ آپ مولانا حبیب اللہ ڈیروی معلوم ہوتے ہیں۔ راقم الحروف نے کہا: وہ کیسے؟ تو قاضی صاحب نے کہا: یہ وہی آواز ہے جو مولانا یونس نعمانی کے ساتھ مناظرہ کی کیسٹ میں مَیں نے سنی ہے۔ اس کے بعد قاضی عبد الرشید صاحب نے کہا مولانا سرفراز صاحب نے اپنی تصانیف میں قاضی شوکانی کو کہیں بھی شافعی نہیں لکھا ، میں ان حضرات کے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔‘‘

[ توضیح الکلام پر ایک نظر : ۹،۱۰]

ڈیروی صاحب کی تصانیف

۱)۔ نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح (دو جلدیں)

          یہ کتاب مسئلہ ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ہے۔ اس پر غیرمقلدین نے اشکالات اٹھائے تو جواب کے لیے حضر ت نے نور الصباح جلد دوم تحریر فرمائی۔پہلی جلد کے ۲۴۴ ...اور دوسری جلد کے ۳۶۲؍ صفحات ہیں ۔ نور الصباح جلد : ۲؍۲۲۷؍ پر حضرت ڈیروی کے ایک خط کا عکس بھی شائع ہے ۔

۲)۔ توضیح الکلام پر ایک نظر ۔

          یہ کتاب ، مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کی کتاب ’’ توضیح الکلام فی وجوب القراء ۃ خلف الامام ‘‘ پر رد و تنقید ہے۔ ’’توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘بڑے سائز کے تین سو پندرہ صفحات پر مشتمل ہے ۔

۳)۔ ہدایہ علماء کی عدالت میں

          اس میں فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’ ہدایہ ‘‘ پر اُٹھائے گئے اعتراضات کا جواب ہے ۔

۴)۔ تنبیہ الغافلین علی تحریف الغالین

          اس کتاب میں غیرمقلدین کی کتابوں سے ان آیات کو جمع کیا گیا ہے جنہیں ان لوگوں نے غلط درج کیاہوا ہے ۔

۵)۔ اظہار التحسین فی اخفاء التامین

          یہ کتاب ۱۸۱؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں آمین آہستہ کہنے کے دلائل دئیے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ رجال پر بھی خوب بحث ہے۔

۶)۔ ضرب المہند

          اس کتاب میں منکرین حیات قبر کی اصلاح پر مشتمل مواد ہے ۔

۷)۔ قہر حق بر صاحب ندائے حق

          محمد حسین نیلوی مماتی صاحب نے مماتیت کے پرچار و دفاع کے لئے ’’ نداء حق ‘‘ کتاب لکھی تھی۔ قہر حق اسی نداء حق کا جواب ہے۔

 ۸)۔ قربانی صرف تین دن ہیں۔

          اس کا عنوان کتابچہ کے نام سے ہی ظاہر ہے۔

۹)۔ الشئ العجاب فی حلۃ الضراب

          اس کتابچہ کا بندہ مطالعہ نہیں کر سکا۔

          حضرت کی کتاب ’’ توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘ کے پچھلے ٹائیٹل پر حضرت رحمہ اللہ کی چند زیر طبع کتابوں کی فہرست ہے ۔ان کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔

٭... مسئلہ رفع الیدین پر انعام یافتہ تحریری مناظرہ ۔

          قاضی عبد الرشید غیرمقلد نے چھ سوالات کئے اور ہر سوال کے جواب پر تین سو روپے انعام کا وعدہ کیا ۔ حضرت ڈیری صاحب نے ان سوالوں کا جواب دیا ۔ اندازہ یہی ہے کہ حضرت کا یہ رسالہ انہی سوالات و جوابات پر مشتمل ہے ۔

 ٭...مناظرہ تحریری برفاتحہ خلف الامام

          یہ مناظرہ حضرت ڈیروی اور غیرمقلد عالم ابو البرکات کے درمیان ہوا۔

٭احقاقِ حق یعنی فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات

٭... نفحات العطر فی ابحاث الوتر

          نام سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس میں نماز وتر کے حوالے سے بحث ہے ۔

 ٭... العروج بالفروج یعنی غیرمقلدین کی ترقی کا راز

          رسالہ کے نام سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس میں یہ ظاہر کرنا ہے کہ غیرمقلدین کی ترقی میں ایک وجہ عورتیں ہیں۔

 ٭...نذر لغیر اللہ حرام ہے ( بریلوی حضرات کا فتوی )

٭... بریلوی حقائق بجواب دیوبند حقائق

          حضرت رحمہ اللہ کے وارثوں سے گذارش ہے کہ ان کی جو غیرمطبوعہ کتابیں؍ مسودات ہیں انہیں محفوظ رکھیں اور اشاعت کا کوئی انتظام کریں۔

وفات؍ سفر آخرت

          ۲۰۰۷ ء... ۵ نومبر کو صبح کے وقت میں جامعہ فتحیہ احمد پور شرقیہ میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد المجید دامت برکاتہم کے ساتھ کھڑا تھا۔ انہوں نے فرمایا: مولانا حبیب اللہ ڈیروی صاحب فوت ہوگئے ہیں!!‘‘بات کے انداز سے کچھ خبر اور کچھ سوال محسوس رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا: مجھے علم نہیں۔ فرمایا : ’’ اسلام اخبار میں ان کی وفات پر کسی کا مضمون شائع ہوا ہے۔ ‘‘ بندہ نے وہیں کھڑے کھڑے مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ کو فون کرکے اس بارے میں تصدیق چاہی۔ انہوں نے فرمایا : مجھے کچھ علم نہیں، ٹھہرو ! ابھی میں ڈیروی صاحب کے بیٹے مولانا احسان اللہ سے رابطہ کرکے بتاتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پتہ کرکے تھوڑی دیر بعد بتایا کہ پرسوں[ ۳ نومبر] کو حضرت کی وفات ہو گئی ہے۔ حضرت نے عشاء کی نماز کے لیے وضو کیا اور پھر کلمہ پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے ہی تھے کہ دل کی حرکت بند ہونے کے باعث فوت ہو گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

          عباسی صاحب نے نور بصیرت مجلہ میں ’’ مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی کا سانحہ ارتحال ‘‘ عنوان سے دو صفحات پر مشتمل مضمون تحریر فرمایا جس کے کچھ اقتباسات بندہ نے اوپر نقل کر دئیے ہیں۔

          دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ڈیروی رحمہ اللہ کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر ان کے درجات بلند کرے اور ان کی تمام خدمات کو قبول فرمائے ۔ آمین     

           مولانا نے ۱۹۴۶ھ میں مولانا عبد اللہ صاحب کے گھر بستی خاناں شریف ڈیرہ اسماعیل خاں میں جنم لیا۔ مڈل تک بستی خاناں کے قریب پرویا میں تعلیم حاصل کی، نڑھال نزد کبیر والا میں مولانا منظور الحق صاحب کے پاس درسِ نظامی حاصل کرتے رہے۔ دورۂ حدیث نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کیا۔ فراغت کے بعد حفظ ِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ خاناں شریف پڑھاتے رہے۔ بعدا زاں خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف میں تین سال تک تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ پھر کم و بیش تیرہ سال نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں استاذِ حدیث کے منصب پر فائز رہے۔ پھر بعض حالات کے باعث اپنے مدرسہ حبیب العلوم میں چار سال پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی نوسال تک شیخ الحدیث رہے۔ پھر شوال ۱۴۲۷ھ سے اپنے مدرسہ میں پڑھا رہے تھے۔ کم و بیش چھتیس کتب کے مصنف تھے۔ پسماندگان میں بیوہ، سات بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔

[ مجلہ نور بصیرت،ذوالقعدہ و ذوالحجہ ۱۴۲۸ھ ،تحریر مولانا جمیل الرحمن عباسی ]

 حضرت کے نام سے شناسائی اور نور الصباح کتاب کا مطالعہ

          قریباً۲ ۰ ۲۰ء کی بات ہے کہ بندہ حصول ِعلم کے سلسلہ میں جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی میں مقیم تھا، تب ایک رسالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مسئلہ ترک ِ رفع یدین بھی درج تھا۔ اس رسالہ میں متعدد مقامات پر عبارتوں کو نقل کرکے بحوالہ نور الصباح لکھا ہوا تھا۔ جس سے بندہ کو اندازہ ہوا کہ ’’ نور الصباح ‘‘ کوئی اہم کتاب ہے ۔ مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کتاب کے مصنف کون ہیں ؟کچھ عرصہ بعد ’’ نور الصباح ‘‘ کہیں سے عاریۃ مل گئی ۔ کتاب پر پورا نام ’’ نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح‘‘ درج تھا اور مصنف کے طور پر نام ’’ مناظر اسلام مولانا حافظ محمد حبیب اللہ ڈیروی، شیخ الحدیث جامعہ قاسم العلوم فقیر والی ضلع بہاول نگر، ناشر: جامعہ اسلامیہ حبیب العلوم بلال آبادڈیرہ اسماعیل خان ‘‘ لکھا ہوا تھا۔

          اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں غیرمقلد مصنف عبد الرشید انصاری کے بارے میں لکھاتھا کہ انہوں نے چھ سوال کئے اور ہر سوال کے جواب پر تین سو روپیہ انعام مقرر کیا ۔ حضرت ڈیروی صاحب نے ان کے ہر سوال کا جواب دیا ہر سوال کے جواب پر تین تین سو وصول کرتے رہے، یہاں تک چھ سوالوں کے جواب مکمل ہوئے ۔

          مسئلہ ترک رفع الیدین پر معلومات سے پُریہ کتاب تھی جس کا مطالعہ اس وقت نصیب ہوا تھا۔نور الصباح طبع دوم میں حضرت ڈیروی کے درج ذیل الفاظ مطالعہ سے گزرے :

          ’’ غیرمقلدین حضرات کی صفوں میں تو اس کتاب نے کھلبلی مچا دی ہے۔چنانچہ اس کا اعتراف غیرمقلد عالم محمد سلیمان صاحب انصاری یوں کرتے ہیں : اس اکتشاف سے کچھ کھلبلی سی مچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

 [گذارش احوال واقعی مسئلہ رفع الیدین پر ایک نئی کاوش کا تحقیقی جائزہ :۳]

          اس کتاب میں محمد جونا گڑھی کے چیلنج کا جواب بھی درج ہے۔ انہوں نے ترمذی میں ترک رفع یدین کے باب ہونے کو جھوٹ قرار دیا اور پھر علمائے احناف پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے بہت کچھ کہا جس میں درج ذیل عبارت بھی ہے :

          ’’ تمہیں تمہارے رب کی قسم اگر ذرا بھی تم میں دین و دیانت ایمان و امانت ہے تو تم پر روٹی کھانا بھی حرام ہے جب تک ترمذی میں سے یہ دونوں باب نہ دکھا دو۔ ‘‘

[ دلائل محمدی : ۳۹]

          ڈیروی صاحب نے جونا گڑھی صاحب کا چیلنج نقل کیا اور پھر ترمذی کے مختلف نسخوں سے ترک رفع یدین کا ثبوت پیش کرکے لکھا:

          ’’ ناظرین کرام! غیرمقلدین حضرات کے بزرگ مولوی محمد صاحب غیرمقلد نے احناف حضرات کو بُرا بھلا کہا ہے اور ہمیں رب کی قسم دے کر ہم پر روٹی کھانا بھی حرام کر دیا تھا جب تک ترک رفع الیدین کا باب ترمذی سے ان کو نہ دکھا دیا جائے۔ بحمد اللہ ہم نے ترمذی ہی کے نسخہ سے جو اُن کے گھر سے نکلا ہے ترک رفع الیدین کاباب دکھادیا ہے ۔ہماری روٹی پہلے بھی حلال تھی اور اب تو احل الحلال ہو گئی ہے ۔ اور جو انہوں نے ہمیں بُرا بھلا کہا ہے اور پوشیدہ خیانتیں کرنے کے ساتھ متہم کیا ہے اس کے وہ خود مستحق ہیں اور منصف مزاج غیرمقلد علامہ احمد شاکر غیر مقلد نے اس چوری کو ظاہر کر دیا ہے اور ہمیشہ چوری چور ہی کے گھر سے نکلتی ہے ۔ ع وہ الزام ہم کو دیتے تھا قصور اپنا نکل آیا ‘‘

 [ نور الصباح ـ:۱۰۳]

          نور الصباح جلد اول کے ۲۴۴ ؍صفحات ہیں اُس دَور میں مسئلہ ترک رفع الیدین پر اس قدر ضخیم کتاب کوئی اور بندہ کی نظر سے نہیں گزری تھی۔

          حضرت ڈیروی صاحب کا طرز ہے کہ وہ رجال اور اُصول حدیث پر خوب بحث کیا کرتے ہیں نیز اپنی تائید میں فریق مخالف کی عبارات بھی نقل کیا کرتے ہیں ۔یہی طرز اس کتاب نور الصباح میں بھی قائم ہے۔ بعد میں اس کتاب کی دوسری جلد بھی شائع ہو گئی مگر اس وقت صرف پہلا حصہ تھا اس پر بھی جلد اول درج نہیں تھا۔ پھر عرصہ بعد مرکز اہل سنت سرگودھا والوں نے نور الصباح دونوں حصوں کا عکس لے کر شائع کیا تھا۔

          مسئلہ ترک رفع یدین پر اب بڑی ضخیم اور تحقیقی کتب : تسکین العینین مؤلفہ مولانا نیاز احمد اکاڑوی اور جز ترک رفع الیدین مؤلفہ مولانا عبد الغفار ذہبی رحمہ اللہ کی منظر عام پر آ چکی ہیں مگر دیکھا جائے تو بعد والی کتابوں کے لیے بنیاد کا پتھر حضرت ڈیروی صاحب کی کتاب ہے۔ بعد میں کوئی مؤلف بھی اس موضوع پر لکھنا چاہے وہ نور الصباح سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ واقعۃ ً یہ کتاب ’’ الفضل للمتقدم ‘‘ کی مصداق ہے ۔

          بہرحال بندہ حضرت ڈیروی صاحب کی تحقیق سے متاثر ہوا تو ان کی دیگر کتب کی جستجو ہونے لگی۔ کہیں سے معلوم ہوا کہ نماز میں آمین آہستہ کہنے پر حضرت کی کتاب ’’ اظہار التحسین فی اخفاء التامین ‘‘ مطبوع ہے ۔ وہ خریدنے کا شوق ہوا تو کراچی کے متعدد مکتبوں سے پتہ کیا مگر کہیں سے دسیتاب نہ ہو سکی۔

حضرت سے ایک ملاقات

          ۲۰۰۴ ء میں بندہ کا دَورہ حدیث تھا۔ فراغت کے بعد اپنے شہر کی معروف دینی درس گاہ ’’ دارالعلوم

  فتحیہ  احمد پور شرقیہ ‘‘ میں تدریس کی خدمت میسر ہوئی۔ کچھ سال بعد ۲۰۰۷ ء کے کسی مہینہ میں محترم مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ نے اطلاع دی کہ جامعہ مدنیہ بہاول پو رمیں مولانا حبیب اللہ ڈیروی صاحب تشریف لارہے ہیں۔ آپ آ جائیں ان سے ملاقات کر لیں۔ بندہ نے اس موقع کو غنیمت جانا، بتائے ہوئے وقت پر جامعہ مدنیہ پہنچا۔ حضرت دوسری منزل کے ایک کمرہ میں تشریف فرما تھے۔ حضرت کا بھاری جسم، مناسب قد، سفید داڑھی، موٹی پنڈلیاں تھیں۔ سادہ سا لباس پہنے ہوئے تھے اور بیگ کی بجائے کپڑے کا سلا ہوا تھیلا پاس رکھا ہوا تھا۔ جسمانی ساخت میں صحت مند پٹھان محسوس ہوتے تھے مگر زبان خالص سرائیکی بول رہے تھے۔ سرائیکی زبان ان کے بارے میں پٹھان ہونے کے وہم کا ازالہ کر رہی تھی۔

           جامعہ مدنیہ کے استاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب دام ظلہ اپنے گھر سے حضرت کے لیے ناشتہ لائے۔ ناشتہ کی اطلاع پاکر بندہ وہاں سے اُٹھنے لگا، ارادہ تھا کہ مولانا عباسی دام ظلہ کے کمرہ میں چلا جاؤں مگر حضرت مفتی صاحب نے فرمایا بیٹھو! ناشتہ کرو۔ عرض کیا : مولانا عباسی صاحب کے ہاں ناشتہ کر لوں گا۔ فرمایا: ’’کبھی ہمیں بھی موقع دے دیا کریں ‘‘یاد رہے کہ بندہ حضرت مفتی صاحب کے شاگردوں کا شاگرد ہے۔ یوں ناشتہ کی فرمائش کرنا ان کی طرف سے ذرہ نوازی تھی۔ اُن کی اِس شفقت بھری فرمائش کی تعمیل کرتے ہوئے بندہ نے حضرت ڈیروی صاحب کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھایا۔

          حضرت کی خدمت کے لیے دو طالب علم مقرر تھے، اُن میں سے ایک توحضرت کے علاقہ کا رہنے والا تھا، شاید دوسرا بھی ان کے علاقہ کا باشندہ ہو۔ ایک اور نوجوان طالب علم جو ٹانگوں سے معذور تھا، یہ تو معلوم نہیں جامعہ مدنیہ کا تھا یا کسی اور مدرسہ کا۔ وہ گھسٹتا ہوا اوپر کی منزل میں حضرت کو ملنے آیا۔ اس کے پُر تکلف ملنے سے انداز ہ ہورہا تھا کہ حضرت ڈیروی صاحب سے ان کی جان پہچان پہلے سے ہے۔ ان پر رشک آیا کہ معذور ہونے کے باوجود دوسری منزل میں حضرت کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے۔ناشتہ کے بعد حضرت ڈیروی صاحب سے مجھے کچھ دیر استفادہ کا موقع ملا۔ اس مجلس کی چند باتیں درج ذیل ہیں:

          میرے پاس اپنی کسی کتاب کا مسودہ تھا، میں نے عرض کیا : حضرت ! اس کتاب کے لیے کچھ کلمات تحریر فرما دیتے۔فرمایا: مولانا ! میرا مزاج ہے کہ کتاب مصنف کے زور دار دلائل کی بنیاد پر لوگوں میں مقبولیت حاصل کرے۔ اسے تقاریظ کی بیساکھیاں نہ لگائی جائیں۔ اس لیے میں نے اپنی کتابوں پر تقاریظ نہیں لکھوائیں۔ نور الصباح کے شروع میں جوحضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تقریظ ہے وہ میں نے نہیں لکھوائی ، حضرت نے از خود تحریر فرما دی تھی۔

          بندہ نے حضرت سے عرض کیا: آپ کی کتاب ’’ اظہار التحسین‘‘ کا کراچی کے متعدد کتب خانوں سے پتہ کیا اور ایک سے زائد بار کوشش کی مگر یہ کتاب مجھے حاصل نہیں ہو سکی۔فرمایا: اس کا پہلا ایڈیشن نصرۃ العلوم ( گوجرانوالہ )والوں نے شائع کیاتھا، اس کے بعد دوبارہ یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی۔‘‘

          حضرت کا یہ جواب سن کر بندہ نے مارکیٹ سے اسے تلاش کرنا چھوڑ دیا۔ راولپنڈی سے آتے ہوئے کھاریاں [ گجرات] میں بھائی محمد انور سرفرازی صاحب کے پاس حاضر ہوئی۔ انہوں نے چند کتابیں ہدیۃً عنایت فرمائیں ان میں ’’ اظہار التحسین ‘ ‘بھی تھی جزاہ اللہ۔ مطالعہ کرنے سے محسوس ہوا کہ حضرت نے اسے بھی بہت محنت اور عرق ریزی اور مخالف کی کئی کتابیں کھنگالنے کے بعد تصنیف فرمایا ہے۔

          خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے ایک رسالہ بہ نام ’’ ہدایہ عوام کی عدالت میں‘‘ لکھا۔ حضرت ڈیروی صاحب نے اس رسالہ کا جواب ’’ ہدایہ علماء کی عدالت میں ‘‘ کے نام سے دیا۔نام میں بھی یہ تاثر موجود ہے کہ ’’ہدایہ‘‘ مسائل کی کتاب ہے، اس کا فیصلہ عوام کے بس میں نہیں، فیصلہ علماء کو کرنا چاہیے۔ ڈیروی صاحب نے اس کتاب میں خواجہ صاحب کو جواب دیا اور ساتھ ہی غیرمقلدین کے اوہام بھی درج کر دئیے۔ چونکہ غیرمقلدین امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ بہت زیادہ عقیدت مندی کا دعوٰی کیا کرتے ہیں، اس لیے حضرت ڈیروی صاحب نے اسی کتاب میں ضمناً امام بخاری رحمہ اللہ کے بھی چند اوہام علماء حدیث کے حوالے سے درج کر دئیے ۔ مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے کتاب کا جو اَصل موضوع تھا یعنی ہدایہ کا دفاع اس سے کچھ تعرض نہیں کیا بلکہ اس کتاب میں غیرمقلدین کی غلط بیانیاں درج کی گئیں ان کا دفاع بھی بھول گئے ،بس انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کی فکر پڑ گئی ۔لہٰذا انہوں نے ’’ امام بخاری پر بعض اعتراضات کا جائزہ ‘‘ عنوان سے ایک رسالہ لکھ دیا ۔

           حضرت ڈیروی صاحب نے اس مجلس میں مجھ سے فرمایا :’’ میں نے ارشاد الحق اثری کے اس رسالہ کا جواب لکھنے کا عزم کیا ہوا ہے، مگر ہمارے اپنے کہہ رہے ہیں کہ غیرمقلدین کی تردید میں امام بخاری رحمہ اللہ کو بیچ میں نہ لاؤ ۔‘‘اس کے بعد حضرت کی بہت جلد وفات ہو گئی تھی۔

          یہاں یہ بات جانتے چلیں کہ امام بخاریؒ کے بارے میں خود غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ ان سے متعدد مقامات پرغلطیاں ہوئیں۔یہ غلطیاں ان کی عام کتابوں میں بھی ہیں اور صحیح بخاری میں بھی۔صحیح بخاری میں موجود غلطیوں کو حضرت مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن دام ظلہ نے علامہ وحید الزمان غیرمقلد کی زبانی ’’ بخاری شریف غیرمقلدین کی نظر میں ‘‘ عنوان سے لکھے گئے اپنے رسالہ میں جمع کر دیا ہے۔

           کئی غیرمقلد علماء نے بخاری و مسلم کی بہت سی احادیث پر ضعف کی چھاپ لگائی اور متعدد رایوں پر جرح کے نشتر چلائے۔ ان غیرمقلدین میں شیخ البانی پیش پیش رہے ہیں، جنہوں نے بخاری و مسلم کی حدیثوں کو سلسلہ ضعیفہ و موضوعہ میں شامل کر دیا ہے۔بندہ نے غیرمقلدین کی کتابوں میں درجنوں عبارات پر نشان لگا رکھے ہیں، جن میں انہوں نے بخاری و مسلم پر جرح کی ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان عبارات کو بہت جلد منظر عام پہ لایا جائے گا۔ان شاء اللہ

          اس مجلس میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ احسن الکلام ‘‘ کا ذکر خیر آیا تو فرمایا: حضرت نے جس زمانے میں یہ کتاب لکھی تھی اس زمانے میں بہت سی کتب قلمی شکل میں مختلف کتب خانوں میں تھیں جن تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی۔ اب ماشاء اللہ بہت سی قلمی کتابیں شائع ہو چکیں، ان کتابوں میں فاتحہ کے مسئلہ پر احناف کے مزید دلائل موجود ہیں جو ’’ احسن الکلام ‘‘ میں نہیں آ سکے۔

حضرت ڈیروی صاحب ’’ احسن الکلام ‘‘ کو بہت سراہتے تھے چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں:

          ’’قارئین کرام! فاتحہ خلف الامام کے بارے میں ہمارے استاد محترم محقق وقت شیخ الحدیث ابوالزاہد مولانا محمد سرفراز خاں صاحب صفدر دام مجدھم نے احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام لکھ کر غیرمقلدین حضرات کو پریشانی کے عالم میں مبتلا کر دیا ہے، فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء اور رفع الیدین کے بارے میں بندہ کی یہ کتاب حاضر خدمت ہے ع گر قبول افتد زہے عزو شرف۔ اور مسئلہ آمین کے بارے میں مسودہ جمع کیا جا چکا ہے ۔ ‘‘

[نو ر الصباح : ۲۰]

ڈیروی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

          ’’ہمارے شیخ مکرم محدث اعظم حضرت مولانا محمد سر فراز خان صاحب صفدر دامت برکاتہم العالیہ نے احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام جیسی ٹھوس مدلل کتاب تحریر فرما کر ہم اہلِ سنت والجماعت پر احسان ِ عظیم کیا اور غیرمقلدین حضرات کی صفوں میں کھلبلی سی مچا دی ہے۔ ‘‘

[ توضیح الکلام پر ایک نظر: ۹]

          بندہ نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں فون پر آپ سے رہنمائی لیا کروں گا۔ فرمایا جی ٹھیک ہے آپ بات کر لیاکرنا ۔ حضرت کے موبائل میں وارد کی سم تھی، بندہ نے خاص ان سے رابطہ کی خاطر وارد کی سم خریدی۔ اس سم کے ذریعہ کال کرکے اپنا تعارف کرایااور عرض کیا آپ سے رہنمائی لینے اور کال کرنے کی بندہ نے اجازت لی تھی۔فون پران سے میری یہ بات شعبان کے مہینے میں ہورہی تھی۔ فرمایا: جی جی، آپ رمضان کے بعد سے رابطہ میں رہنا ‘‘مگر افسوس کہ رمضان آکر گزر گیا اور حضرت کی اچانک وفات ہوگئی۔ میں ان سے فون پر استفادہ کرنے سے محروم ہی رہا۔

           حضرت ڈیروی صاحب سے میری یہ ملاقات جامعہ مدنیہ بہاول پور میں ہوئی۔حضرت جب یہاں سے تشریف لے جانے لگے تو مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ نے اپنے زیر ادارت نکلنے والے رسالے ’’ نور بصیرت‘‘  کے چند شمارے انہیں ہدیہ میں پیش کئے اورپھر اُن شماروں کوپاس رکھے ہوئے ان کے تھیلے میں رکھ دیا۔

ڈیرویؒ  گرفت اور اثری رجوع

          حضرت ڈیروی صاحب نے مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کی کتاب ’’ توضیح الکلام ‘‘ پر نقد و تنقید کی جو ’’توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ حضرت نے اس مجلس میں اپنی اس کتاب کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’فی الحال اس کا جواب نہیں آیا۔‘‘

          بعد میں اثری صاحب کی طرف سے جواب الجواب ’’ تنقیح الکلام فی تائید توضیح الکلام‘‘ کے عنوان سے مارکیٹ میں آیا ۔ اسے پڑھ کر حضرت ڈیروی صاحب کی مضبوط گرفت کا اندازہ ہوا۔ڈیروی گرفت کی تاب نہ لا کر اثری صاحب کو توضیح الکلام سے بہت سی عبارتیں حذف کرنا پڑیں اور کئی مقامات پر ترمیم کے لیے مجبور ہوئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ متعدد جگہوں پر اعتراف بھی کیا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، آئندہ ایڈیشن میں اسے حذف یا درست کردوں گا۔ ذیل میں چند ایسے مقامات ملاحظہ فرمائیں جہاں اثری صاحب نے ڈیروی گرفت کے سامنے سرجھکا لیا ۔

(۱) اثری صاحب نے حضرت ڈیروی صاحب کی گرفت کے جواب میں کہا:

’’ دوسرے ایڈیشن میں ہم نے حدثنا کو حذف کر دیا ہے ۔ ‘‘

 [ تنقیح الکلام : ۱۶۲]

(۲)اثری صاحب نے لکھا:

          ’’ امام بخاری فرماتے ہیں کہ عکرمہ ثقہ ہے۔ ‘‘

ڈیروی صاحب نے اس پر گرفت کی تو اثری صاحب نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:

          ’’ بلا ریب صراحۃً امام بخاری سے توثیق منقول نہیں۔ اسی لئے دوسرے ایڈیشن میں ہم نے امام بخاری کا نام حذف کر دیا ہے۔ ‘‘

[ تنقیح الکلام :۱۶۴]

(۳)اثری صاحب نے ایک سند کے متعلق لکھا تھا:

          ’’ اس میں عون بن موسی در اصل سفیان بن موسی ہے اور وہ صدوق ہے ۔‘‘

حضرت ڈیروی صاحب نے اس پر گرفت کرتے ہوئے لکھا:

          ’’ اسے سفیان بن موسی بنانا اور اس کی توثیق کرنا اثری صاحب کا کارنامہ ہے ۔‘‘

[توضیح الکلام پر ایک نظر : ۲۸۱]

اثری صاحب نے اس گرفت کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے اور کھلے لفظوں میں تسلیم کیا:

          ’’ بلاشبہ عون بن موسی کو متعین کرنے میں اس ناکارہ سے غلطی ہوئی ۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۱۹۳]

(۴)اثری صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ توضیح (ج ۱ ص ۲۶۶ ) میں لکھا گیا ہے کہ امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ امام مالک ، ابن اسحاق کو پہچانتے ہی نہیں ، جس پر ہمارے مہربان [ ڈیروی صاحب ( ناقل )]فرماتے ہیں : ’’یہ اثری

  صاحب کا خالص جھوٹ ہے۔ (ایک نظر : ۲۸۳) بلاشبہ یہ قول امام ابو زرعہ کا نہیں ۔ ‘‘

 [تنقیح الکلام : ۲۰۲]

(۵)اثری صاحب نے توضیح الکلام میں نقل کیا:

          ’’محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ابن اسحاق صدوق ہے۔ ‘‘

[ توضیح الکلام :۱؍۲۲۵]

حضرت ڈیروی صاحب نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:

          ’’ یہ محض جھوٹ ہے کہ تمام محدثین کرام متفق ہیں ۔ ‘‘

اثری صاحب نے اس کے جواب میں لکھا:

          ’’ یہاں لفظ کبار ساقط ہو گیا ۔ یعنی کبار محدثین ہے صرف محدثین نہیں ۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۲۰۳]

(۶)اثری صاحب نے ڈیروی صاحب کے بارے میں لکھا:

          ’’ انہوں نے توضیح (ج ۲ ص ۲۰۱) سے یہ بھی نقل کیا کہ یہاں ان ھو الا ذکر للذاکرین کو قرآن کی آیت باور کروایا گیا ہے حالانکہ یہ آیت اس طرح نہیں ۔ ( ایک نظر: ص ۲۵۲،۲۵۳) بلاشبہ ان الفاظ سے یہ آیت نقل کرنے میں خطا ہوئی۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۲۳۸]

(۷)اثری صاحب ایک اور جگہ ڈیروی گرفت کے سامنے جھکتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ’’ بلاشبہ امام یحییٰ بن معین نے ابن اسحاق پر امام مالک کی جرح کا جواب نہیں دیا۔ نئے ایڈیشن میں اسے درست کر دیا گیا ہے۔ ‘‘

[تنقیح الکلام :۲۴۷]

(۸) ایک اور اعترافِ خطا ملاحظہ فرمائیں۔ اثری صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ علامہ شوکانی کی عبارت کو سمجھنے میں یہاں اس ناکارہ سے خطا ہوئی جس کا ازالہ دوسرے ایڈیشن میں کر دیا گیا ہے ۔ ‘‘

 [تنقیح الکلام : ۲۸۵]

(۹)چلیں ایک اور حوالہ بھی پڑھیں ۔ اثری صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ جزء القراء ۃ ( ص۱۵) مطبوعہ پریس لاہور میں بھی اسی طرح قال ثنا صدقہ بن خالد ہے ۔ جس سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ امام بخاری بھی اسے صدقہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسے ہشام بن عمار ہی سے روایت کرتے ہیں جیسا کہ خلق افعال العباد (ص ۶۷) سے عیاں ہوتا ہے اور ہشام کا واسطہ جزء القراء ۃ کے نسخہ سے گرا ہوا ہے ۔ توضیح کے دوسرے ایڈیشن میں راقم نے اس کا ازالہ کر دیا ہے ۔ ‘‘

[تنقیح الکلام : ۲۸۶]

 (۱۰)لیجئے !دسویں عبارت بھی حاضر ہے ۔ اثری صاحب نے لکھا :

          ’’ التلخیص کے مطبوعہ نسخہ میں اسی تصحیح کی نسبت جو امام ابو داؤد کی طرف منسوب ہوگئی ہے ۔ وہ طباعتی غلطی کا نتیجہ ہے ۔ توضیح الکلام کی طبع اول میں خود یہ ناکارہ اس کا تتبع نہ کر سکا ۔ اس لیے التلخیص کی عبارت سے تصحیح کی نسبت امام ابو داود کی طرف ہوگئی ۔ ‘‘

 [تنقیح الکلام : ۳۱۸]

          یہ وہ مقامات ہیں جہاں اثری صاحب نے ڈیروی صاحب کے تنبیہ کرنے پر اپنی غلطیوں کااعتراف کیا ہے۔ جب کہ بہت سی جگہوں میں اعتراف کئے بغیر چپکے سے بھی عبارتوں کو غائب کر دیا۔ مثلاًانہوں نے مکحول کی حدیث کے بارے میں لکھا تھا:

’’ اس حدیث میں اضطراب کا راز کھلا تو صرف حضرات علماء احناف پر، آخر کیوں۔ آپ ہی اپنی کج بینی پر غور کریں۔‘‘

 [ توضیح الکلام :۱؍۳۵۵طبع قدیم ]

          حضرت ڈیروی صاحب نے اثری صاحب کی اس بات کو غلط بیانی قرار دیتے ہوئے علامہ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ کا حوالہ التمہید :۱۱؍۴۶ سے نقل کیا کہ انہوں نے بھی اس حدیث میں اضطراب بتایا ہے ۔

[ توضیح الکلام پر ایک نظر :۱۰۲]

          حضرت ڈیروی کے تعاقب کرنے پر اثری صاحب نے توضیح الکلام طبع جدید:۳۲۹ پر مذکورہ عبارت کو خاموشی سے حذف کردیا ۔

الزامِ تحریف سے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی براء ت

          شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی کتاب ایضاح الادلہ میں سہوا ًایک آیت غلط درج ہو گئی تھی۔محمد حسین بٹالوی سے لے کر ارشاد الحق اثری تک غیرمقلدین سے اس کتاب کا جواب نہیں بن پڑا۔ البتہ اس کتاب کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے یہ شور مچاتے چلے آئے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے قرآنی آیت میں تحریف کردی ہے۔ غیرمقلدین کی درجنوں کتابوں خاص کر تقلید کی تردید میں لکھی گئی قریباً ہر تحریر میں بندہ نے ان کا یہ واویلا دیکھا کہ شیخ الہند نے جان بوجھ کر آیت کو غلط لکھا ہے۔یہاں تک کہ اثری صاحب نے بھی یہی راگ الاپ دیا کہ شیخ الہند نے مذہبی حمیت میں ایک خود ساختہ آیت لکھ دی ہے۔

[توضیح الکلام طبع قدیم: ۱؍۲۵۳]

          حضرت ڈیروی صاحب نے اپنی کتاب ’’توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘کے ’’باب التحریفات‘‘ میں اثری صاحب کی کتاب توضیح الکلام سے متعدد آیات نقل کرکے نشان دہی فرمائی کہ یہ آیتیں غلط لکھی ہوئی ہیں۔ جب الزام خود اثری صاحب پر الٹ پڑا تب انہیں تسلیم کرنا کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:

          ’’سیدھے ہاتھوں یہ اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا کہ یہ حضرت شیخ الہند سے چوک ہوئی ... اللہ تعالیٰ بھلا کرے سید [ سعید ( ناقل ) ]احمد پالن پوری صاحب کا کہ انہوں نے بالآخر تسہیل الادلہ کاملہ کے پیش لفظ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ : یہ سبقت قلم ہے ... ( تسہیل الادلہ کاملہ: ص ۱۸،۱۹) مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے خط میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ فی الواقع یہ خطا مولانامحمود الحسن سے ہوئی اور یہ سبقت قلم کا نتیجہ ہے ۔ ملاحظہ ہو ’’ الرودود ‘‘ مؤلفہ بکر بن عبد اللہ ابو زید کا حاشیہ ص ۲۴۲‘‘

[ تنقیح الکلام :۶ ۲۳]

          مولانا محمد جونا گڑھی اور مولانا عبد القادر حصاروی سے لے کر دَور حاضر کے تک کے غیر مقلد لکھاری عناداً حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے سہو کو تحریف کہتے چلے آئے ہیں، میری معلومات کے مطابق سب سے پہلے اثری صاحب نے اسے تحریف کی بجائے سہو قرار دیا۔ اس کے پیچھے حضرت ڈیروی رحمہ اللہ کی محنت، کاوش اور گرفت کا دخل ہے، ورنہ اس گرفت سے پہلے خود اثری صاحب بھی اس پر تحریف کا لیبل لگا چکے ہیں۔

          اثری صاحب جب ایضاح الادلہ میں درج آیت کو تحریف کی بجائے سہو تسلیم کر چکے ہیں تو اب انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ وہ توضیح الکلام طبع جدید میں تحریف قرار دینے کی ساری بحث کو حذف کر دیتے، مگرافسوس کہ انہوں نے اسے حذف نہیں کیا۔ آپ توضیح الکلام طبع جدید :۲۴۰،۲۴۱ کھول کر دیکھ لیجئے !یہ بحث وہاں اب بھی موجود ہے۔

          مولانا عمر فاروق قدوسی غیرمقلد نے بھی ایضاح الادلہ کی عبارت کو سہو قرار دیا، چنانچہ انہوں نے دیوبندیوں کے متعلق لکھا:

          ’’ انہوں نے طویل عرصہ تک اس غلطی کو درست نہیں کیا... جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن سے ہوئی تھی ... مولانا موصوف سے تو سہواً ایسا ہوگیا ۔ ‘‘

[ اہلِ حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں : ۱۸۵]

ڈیروی صاحب علماء کرام کی نظر میں

 ڈیری صاحب کے استاذِ مکرم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے لکھا:

          ’’ فاضل نوجوان، عالمِ اجل، نکتہ رس، ذہین و فطین، وسیع النظر اور کثیر المطالعہ حضرت مولانا حافظ محمد حبیب اللہ صاحب دام مجدہم ڈیروی فاضل نصرت العلوم گوجرانوالہ ‘‘

[ تقریظ نور الصباح : ۱۲]

           حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ کوخط لکھا ۔ خط کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں:

          ’’ ہدیہ سنیہ یعنی کتاب مستطاب نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح وصول ہوئی، ممنون فرمایا،جزاکم اللہ تعالیٰ عنی و عن سائر اھل العلم خیرا. مطالعہ کرکے مسرت ہوئی کہ آپ کے مدرسہ نصرت العلوم سے ایسے فضلاء نکلے جو اس طرح دادِ تحقیق دیتے ہیں کثر اللہ امثالھم. ‘‘

[ نور الصباح : ۱۷]

حضرت مولانا مفتی محمد انور اکاڑوی دام ظلہ لکھتے ہیں:

          ’’ غیرمقلدین کی ان جیسی بے اعتدالیوں کے پیش ِ نظر مولانا حبیب اللہ صاحب ڈیروی مدظلہ نے ایک کتاب نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح لکھی جس میں اس علاقے کی متواتر ترک رفع یدین والی نماز کو صحیح ثابت کیا ... بہرحال اس کتاب نور الصباح سے عوام کے اکثر مغالطات دُور ہوئے اور ان کو اپنی نماز کے بارہ میں اطمینان قلبی حاصل ہوا۔‘‘

 [ تجلیات انور :۱؍۳۵۷،۳۵۸]

حضرت مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ لکھتے ہیں:

          ’’ مولانا ایک جید عالم دین، نامور محقق، قابلِ فخر مناظر، مایہ ناز مصنف، لائقِ رشک نکتہ دان و نکتہ بیں، کہنہ مشق مدرس، فن اسماء الرجال کے بحر ناپیدا کنار، بہترین نقاد، امام اہلِ سنت کے تلمیذ ارشد و معتمد خاص، اہلِ سنت و الجماعت کے لائق افتخارترجمان، بزم احناف کے تابندہ چراغ اور مسلک حق کی نظریاتی سرحدوں کے چاک و چوبند محافظ تھے، آپ کے قلم کی صداقت رقم کی ذرا سی جنبش سے گمراہی کے مراکز لرزا بر اندام ہو جاتے۔ آپ کی ہر تحریر بدعت کے ایوانوں پر بجلیاں گراتی، ہر تحقیق دجل و تلبیس اور الحاد و زندقہ کی عمارتوں کو پیوند خاک کر دیتی۔ ان گوناں گوں اوصاف حسنہ کی جامع شخصیت ہونے کی باوصف عاجزی آپ پر بس تھی اور انکساری آپ پر ختم ‘‘

[مجلہ نورِ بصیرت بہاول پور شمارہ: ۲۳، ذوالقعدہ و ذو الحجہ ۱۴۲۸ھ اداریہ ]

عباسی صاحب نے حضرت ڈیروی کی کتاب ’’ نور الصباح ‘‘ پر باقاعدہ تبصرہ بھی تحریر کیا تھا اس تبصرہ کی کچھ سطریں درج ذیل ہیں:

          ’’محقق العصر حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی نور اللہ مرقدہ تحقیق کے میدان کے مسلم شہسوار گذرے ہیں۔ مسلکی دفاع اور رد فرق باطلہ و ضالہ میں ان کے کارنامے آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ آپ کے جاندار قلم سے جہاں دیگر وقیع کتب منصہ شہود پر آئی ہیں وہاں نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ... جیسی معرکۃ الآراء کتاب بھی منظر ِ عام پر آئی ... قارئین کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس مایہ ناز کتاب سے ضرور مستفید ہوں خصوصا وہ حضرات جو لامذہبیت کی طرف سے پھیلائی گئی تارکیوں میں بھٹک رہے ہیں وہ اس نور الصباح سے ضرور روشنی حاصل کریں۔ ‘‘

[ نور بصیرت بہاول پور جمادی الاولی۱۴۲۹ھ : ۴۷]

 حافظ ظہور احمد الحسینی صاحب دام ظلہ لکھتے ہیں:

          ’’ علامہ حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے اپنی کتاب ’’ تنبیہ الغافلین علی تحریف الغالین‘‘ میں ان [غیرمقلدین ( ناقل )]کی تحریفات کی خوب نقاب کشائی کی ہے ۔ یہ کتاب قابل دید و لائق مطالعہ ہے ۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء ‘‘

[ علمائے دیوبند پر زبیر علی زئی کے الزامات کے جوابات :۲۰۹]

اللہ تعالی کا فضل

          فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’ہدایہ ‘‘ میں مسائل کے ساتھ بطور دلائل احادیث بھی درج ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احادیث ِ ہدایہ کی تخریج فرمائی، مگر کہیں کہیں یہ بھی لکھ دیا :لم اجدہ ... یا... ما وجدناہ یعنی اس حدیث کومیں نہیں پا سکا ۔ انہوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ حدیث ذخیرہ احادیث میں نہیں بلکہ صرف اپنی بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں پا سکا۔ غیرمقلدلکھاریوں نے ہدایہ پر اعتراضات کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ‘‘ کو سامنے رکھا ۔جہاں انہوں نے لکھا کہ یہ حدیث مجھے نہیں ملی ،اسے اپنی تحریر میں نقل کیا اورپھر دعویٰ کر دیا کہ یہ حدیث کسی کتاب میں موجود نہیں اور یہ کہ اسے حدیث باور کرانا صاحب ِ ہدایہ کا بہتان ہے وغیرہ ۔

          حضرت ڈیروی صاحب نے ایسی احادیث کو کتب ِ حدیث سے تلاش کیا۔کتاب میں جگہ جگہ ’’ اللہ تعالیٰ کا فضل ‘‘ عنوان قائم کرکے ایسی حدیثوں کو درج کیااور پھر ہر حدیث کے بعد ’’ محدث اعظم صاحب ہدایہ زندہ باد‘‘ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ لکھتے چلے گئے۔ دیکھئے ہدایہ علماء کی عدالت میں :۲۴۱؍ سے آخر کتاب تک ۔اس بارے میں حضرت کی درج ذیل تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں:

          ’’ جب حافظ ابن حجر کے الدرایہ کا مطالعہ کیا تو اس میں حافظ صاحب بعض اوقات فرما جاتے لم اجدہکہ یہ حدیث مجھے نہیں ملی اور پھر نصب الرایہ علامہ زیلعی کا مطالعہ کیا تو اس سے پتہ چلا کہ صاحب ہدایہ نے جو احادیث ہدایہ میں بیان کی ہیں وہ اکثر احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، صرف چند احادیث ایسی ہیں جو نہیں مل سکیں۔ علامہ عینی و حافظ ابن ہمام کو بھی وہ احادیث نہیں مل سکیں۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہوا کہ چند چیزیں جو اِن حضرات کو نہ مل سکتی تھیں اس عاجز کو حدیث کی کتابوں سے مل گئی ہیں ۔ اس سے صاحب ہدایہ کا وقار راقم الحروف کے دل میں بہت بڑھ گیا ہے وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء.‘‘

[ ہدایہ علماء کی عدالت میں : ۸۱]

محمد بن اسحاق اور حضرت ڈیروی صاحب

          حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اعتراض کیا کہ ڈیروی صاحب نے محمد بن اسحاق راوی کو ’’ مشہور دلا‘‘ کہہ کر بازاری قسم کی گالی ہے ۔ [ علمی مقالات:۱؍۵۸۲]

جب کہ علی زئی صاحب نے دوسرے مقام پر تسلیم کیا ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

          ’’ حبیب اللہ ڈیروی نے امام المغازی محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا... در اصل محمد بن اسحاق ہے جوکہ مشہور دلا ہے ۔( توضیح الکلام پر ایک نظر :۱۱۷) حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے ہمارے پاس خود آ کر کہا تھا کہ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے ۔‘‘

[ علمی مقامات: ۳؍۵۵۷]

          علی زئی صاحب کی مذکورہ عبارت ان کے اس مضمون کا حصہ ہے جس میں انہوں نے یہ بتانا چاہا کہ کاتب کی غلطی ، مصنف کاسہو اور کمپوزنگ کی غلطیاں قابلِ اعتراض نہیں ہوتیں۔

حضرت ڈیروی کے ایک مباحثہ کا تذکرہ

حضرت ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

          ’’ راقم الحروف مکتبہ حنفیہ اردو بازار گوجرانوالہ میں گیا۔ وہاں قاضی عبد الرشید صاحب غیرمقلد آف جلہن گوجرانوالہ، مولانا محمد یعقوب قصوری حنفی اور اس کے رفقاء کے ساتھ یہ بحث کر رہا تھا کہ مولانا سر فراز خان صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ قاضی شوکانی شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا تو راقم الحروف نے جواب دیا کہ حضرت صفدر صاحب دام مجدہم قاضی شوکانی کو غیرمقلد لکھتے ہیں، شافعی تحریر نہیں کرتے۔ اس پر قاضی عبد الرشید صاحب نے ضد کیا کہ مولانا سرفراز خان نے اپنی کتابوں میں قاضی شوکانی کو شافعی لکھا ہے۔ تو راقم الحروف نے کہاکہ میرے پاس اس وقت نو سو روپے نقد موجود ہیں۔اگر آپ حضرت صفدرصاحب کی کسی تصنیف سے قاضی شوکانی کا شافعی ہونا دکھادیں تو نو سو نقد آپ کو بطور انعام دئیے جائیں گے۔ اس پر قاضی عبد الرشید صاحب خاموش ہو گئے۔ پھر دوسرا مسئلہ آمین بالجہر چلا تو راقم الحروف نے کہا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک آمین بالجہر کے قائل نہیں ہیں۔حتی کہ امام شافعی کتاب الام میں فرماتے ہیں کہ مقتدی آمین بالجہر نہ کہیں۔ میں مقتدیوں کے لئے آمین بالجہر پسند نہیں کرتا۔ اس پر قاضی عبدالرشید صاحب نے کہا کہ کتاب الام میں یہ بات امام شافعی نے تحریر نہیں کی۔ اس پر راقم الحروف نے مؤاخذہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ غیرمقلدین کے کتب خانہ سے کتاب الام لے آئیں۔ اگر اس میں یہ مسئلہ اس طرح تحریر نہ ہو تو پھر بھی نو سو روپے آپ کو انعام ملے گا۔ اس پر قاضی عبد الرشید صاحب نے کہاکہ آپ مولانا حبیب اللہ ڈیروی معلوم ہوتے ہیں۔ راقم الحروف نے کہا: وہ کیسے؟ تو قاضی صاحب نے کہا: یہ وہی آواز ہے جو مولانا یونس نعمانی کے ساتھ مناظرہ کی کیسٹ میں مَیں نے سنی ہے۔ اس کے بعد قاضی عبد الرشید صاحب نے کہا مولانا سرفراز صاحب نے اپنی تصانیف میں قاضی شوکانی کو کہیں بھی شافعی نہیں لکھا ، میں ان حضرات کے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔‘‘

[ توضیح الکلام پر ایک نظر : ۹،۱۰]

ڈیروی صاحب کی تصانیف

۱)۔ نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح (دو جلدیں)

          یہ کتاب مسئلہ ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ہے۔ اس پر غیرمقلدین نے اشکالات اٹھائے تو جواب کے لیے حضر ت نے نور الصباح جلد دوم تحریر فرمائی۔پہلی جلد کے ۲۴۴ ...اور دوسری جلد کے ۳۶۲؍ صفحات ہیں ۔ نور الصباح جلد : ۲؍۲۲۷؍ پر حضرت ڈیروی کے ایک خط کا عکس بھی شائع ہے ۔

۲)۔ توضیح الکلام پر ایک نظر ۔

          یہ کتاب ، مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کی کتاب ’’ توضیح الکلام فی وجوب القراء ۃ خلف الامام ‘‘ پر رد و تنقید ہے۔ ’’توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘بڑے سائز کے تین سو پندرہ صفحات پر مشتمل ہے ۔

۳)۔ ہدایہ علماء کی عدالت میں

          اس میں فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’ ہدایہ ‘‘ پر اُٹھائے گئے اعتراضات کا جواب ہے ۔

۴)۔ تنبیہ الغافلین علی تحریف الغالین

          اس کتاب میں غیرمقلدین کی کتابوں سے ان آیات کو جمع کیا گیا ہے جنہیں ان لوگوں نے غلط درج کیاہوا ہے ۔

۵)۔ اظہار التحسین فی اخفاء التامین

          یہ کتاب ۱۸۱؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں آمین آہستہ کہنے کے دلائل دئیے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ رجال پر بھی خوب بحث ہے۔

۶)۔ ضرب المہند

          اس کتاب میں منکرین حیات قبر کی اصلاح پر مشتمل مواد ہے ۔

۷)۔ قہر حق بر صاحب ندائے حق

          محمد حسین نیلوی مماتی صاحب نے مماتیت کے پرچار و دفاع کے لئے ’’ نداء حق ‘‘ کتاب لکھی تھی۔ قہر حق اسی نداء حق کا جواب ہے۔

 ۸)۔ قربانی صرف تین دن ہیں۔

          اس کا عنوان کتابچہ کے نام سے ہی ظاہر ہے۔

۹)۔ الشئ العجاب فی حلۃ الضراب

          اس کتابچہ کا بندہ مطالعہ نہیں کر سکا۔

          حضرت کی کتاب ’’ توضیح الکلام پر ایک نظر ‘‘ کے پچھلے ٹائیٹل پر حضرت رحمہ اللہ کی چند زیر طبع کتابوں کی فہرست ہے ۔ان کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔

٭... مسئلہ رفع الیدین پر انعام یافتہ تحریری مناظرہ ۔

          قاضی عبد الرشید غیرمقلد نے چھ سوالات کئے اور ہر سوال کے جواب پر تین سو روپے انعام کا وعدہ کیا ۔ حضرت ڈیری صاحب نے ان سوالوں کا جواب دیا ۔ اندازہ یہی ہے کہ حضرت کا یہ رسالہ انہی سوالات و جوابات پر مشتمل ہے ۔

 ٭...مناظرہ تحریری برفاتحہ خلف الامام

          یہ مناظرہ حضرت ڈیروی اور غیرمقلد عالم ابو البرکات کے درمیان ہوا۔

٭احقاقِ حق یعنی فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات

٭... نفحات العطر فی ابحاث الوتر

          نام سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس میں نماز وتر کے حوالے سے بحث ہے ۔

 ٭... العروج بالفروج یعنی غیرمقلدین کی ترقی کا راز

          رسالہ کے نام سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس میں یہ ظاہر کرنا ہے کہ غیرمقلدین کی ترقی میں ایک وجہ عورتیں ہیں۔

 ٭...نذر لغیر اللہ حرام ہے ( بریلوی حضرات کا فتوی )

٭... بریلوی حقائق بجواب دیوبند حقائق

          حضرت رحمہ اللہ کے وارثوں سے گذارش ہے کہ ان کی جو غیرمطبوعہ کتابیں؍ مسودات ہیں انہیں محفوظ رکھیں اور اشاعت کا کوئی انتظام کریں۔

وفات؍ سفر آخرت

          ۲۰۰۷ ء... ۵ نومبر کو صبح کے وقت میں جامعہ فتحیہ احمد پور شرقیہ میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد المجید دامت برکاتہم کے ساتھ کھڑا تھا۔ انہوں نے فرمایا: مولانا حبیب اللہ ڈیروی صاحب فوت ہوگئے ہیں!!‘‘بات کے انداز سے کچھ خبر اور کچھ سوال محسوس رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا: مجھے علم نہیں۔ فرمایا : ’’ اسلام اخبار میں ان کی وفات پر کسی کا مضمون شائع ہوا ہے۔ ‘‘ بندہ نے وہیں کھڑے کھڑے مولانا جمیل الرحمن عباسی دام ظلہ کو فون کرکے اس بارے میں تصدیق چاہی۔ انہوں نے فرمایا : مجھے کچھ علم نہیں، ٹھہرو ! ابھی میں ڈیروی صاحب کے بیٹے مولانا احسان اللہ سے رابطہ کرکے بتاتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پتہ کرکے تھوڑی دیر بعد بتایا کہ پرسوں[ ۳ نومبر] کو حضرت کی وفات ہو گئی ہے۔ حضرت نے عشاء کی نماز کے لیے وضو کیا اور پھر کلمہ پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے ہی تھے کہ دل کی حرکت بند ہونے کے باعث فوت ہو گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

          عباسی صاحب نے نور بصیرت مجلہ میں ’’ مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی کا سانحہ ارتحال ‘‘ عنوان سے دو صفحات پر مشتمل مضمون تحریر فرمایا جس کے کچھ اقتباسات بندہ نے اوپر نقل کر دئیے ہیں۔

          دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ڈیروی رحمہ اللہ کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر ان کے درجات بلند کرے اور ان کی تمام خدمات کو قبول فرمائے ۔ آمین     

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...