غیرمقلدین کے
دعویٰ عمل بالقرآن کی حقیقت
محترم رب نواز بھٹی صاحب حفظہ اللہ ( بسلسلہ غیرمقلدین قرآن و سنت کی کسوٹی پر ) (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
” و
تکفرون ببعض “ کا مصداق
پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیر مقلد اپنے
مضمون ’’ ہر اہلِ حدیث کے نام :پڑھیے اور سوچئے!‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’آج ہمارا کردار وہ ہوگیا ہے جو کبھی یہودیوں
کا تھا کہ دین کے کچھ حصہ پر عمل ہو گیا، کچھ پر نہیں۔ جو مسئلہ دل کو اچھا لگا
اور آسان ہو اور ہماری دنیا داری میں مخل نہ ہو اس کو مان لیا، ورنہ نہیں۔اس کے
بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿افتؤمنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض﴾[۲:البقرۃ :۸۵] اے یہودیو!
تمہارایہ کیا کردار ہے کہ تم دین کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں۔ یاد
رکھوایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں بھی عذاب۔ ہماری
ذلت و رسوائی کا سبب یہی ہے کہ ہم آمین، رفع الیدین کے تو اہلِ حدیث ہیں، معاشرت،
معیشت اور سیاست کے اہلِ حدیث نہیں۔ جب عمل اور کردار کا یہ حال ہو تو بلند بانگ
دعاوی کچھ نہیں کرتے۔ یہود ﴿نحن ابناء اللہ و احباء ہ ﴾[۵:المائدہ: ۱۸]کا دعویٰ کرتے
تھے،اللہ نے ان کے کھوکھلے دعووں پر فرمایا ﴿یااھل الکتب لستم علی شی ء حتی
تقیموا التوراۃ... الخ﴾[۵:المائدہ:۶۸]اے اہلِ کتاب! جب تک تم اللہ کے دین کو قائم
نہ کرو، تمہارا کوئی دین ایمان نہیں۔‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۵۸۲،
مکتبہ اسلامیہ )
اہلِ حدیثوں کو دعوتِ ایمان
بہاول پوری
صاحب لکھتے ہیں:
’’اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے اہلِ
حدیث کو اہلِ حدیث بنایا جائے کیوں کہ آج اہلِ حدیث، اہلِ حدیث نہیں ایسے لوگوں کے
لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : ﴿یایھاالذین آمنوا آمنوا باللہ و
رسولہ﴾[۴:نساء:
۱۳۶]اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو !اپنے ایمان کواپنے دعوے کے مطابق درست کرو۔ اللہ
اور اس کے رسول ؐپر صحیح طریقہ سے ایمان لاؤ۔ اے رسمی اور نام کے اہلِ حدیثو! صحیح
معنیٰ میں اہلِ حدیث بنو۔ حدیث کے مطابق اپنے عمل اور کردار کو درست کرو۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۵۸۴،
مکتبہ اسلامیہ )
واعتصموا
بحبل للہ جمیعا کی مخالفت
بہاول پوری
صاحب’’ اہلِ حدیث کو دعوت حق و اتحاد ‘‘ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اگر اہلِ حدیث، اہلِ حدیث ہوتے اور قرآن و
حدیث ان کا موقف ہوتا تو ضرور اُن میں اتحاد ہوتا۔ اصل میں اہلِ حدیث کے ہاتھ سے
اب اتحاد کی رسی چھوٹ گئی ہے جو ﴿ترکت فیکم امرین ﴾کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ میں
تھمائی تھی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿واعتصموا بحبل للہ جمیعا﴾[ ۳:آلِ
عمران :۱۰۳] فرمایا تھا۔ آج اہلِ حدیث اللہ کی رسی کو چھوڑ کر جمہوری بن گئے ہیں۔
اب جمہوریوں کی طرح کفر کی سیاست میں ملوث ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف پارٹیوں
میں بٹ گئے ہیں۔ آج اہلِ حدیث ایسے ہی پارٹیاں بناتے ہیں جیسے لوگ سیاسی پارٹیاں
بناتے ہیں۔ اگر اہلِ حدیث اہلِ حدیث ہوتے، اللہ کی رسی ان کے ہاتھ میں ہوتی،تو وہ
ایک دینی جماعت ہوتے، کبھی کوئی پارٹی نہ بناتے۔ اسلام پارٹیاں بنانے کی اجازت کب
دیتا ہے۔ اسلام تو لا تفرقوا کہہ کر پارٹی بازی سے منع کرتا
ہے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ۵۹۸،
مکتبہ اسلامیہ )
نام قرآن و حدیث کا لیکن ...
بہاول پوری
صاحب لکھتے ہیں:
’’یہی حال اہلِ حدیث کا ہے۔ دعویٰ اہلِ حدیثی کا
کرتے ہیں، نام قرآن و حدیث کا لیتے ہیں، لیکن سیاست جمہوری لڑاتے ہیں۔ اور آپس میں وہ رسہ کشی ہے کہ اہلِ حدیث تباہ ہوئے
جارہے ہیں۔‘‘
( رسائل
بہاول پوری صفحہ ۳۰۰)
اہل حدیثو! آخر تم قرآن و حدیث پر جمع کیوں نہیں ہوتے
بہاول پوری
صاحب لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیثو! آخر تم قرآن و حدیث پر جمع کیوں
نہیں ہوتے۔ قرآن وحدیث کو اپنا حاکم کیوں نہیں مانتے، کیا تم اہلِ حدیث نہیں یا
تمہارے پاس قرآن و حدیث نہیں، تم کیوں کفر کی سیاست اپناتے ہو۔ کیوں کفر کی
عدالتوں میں جاکر اپنا ایمان کھوتے ہو۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۶۰۰)
اہل حدیث قائدین فردوہ الی اللہ پہ عمل پیرا نہیں ہوئے
بہاول پوری
صاحب لکھتے ہیں:
’’اگر علامہ احسان الہی مرحوم کو میاں فضل حق یا
مولوی معین الدین سے کوئی اختلاف تھا تو ﴿فردوہ الی اللہ والرسول﴾کے تحت قرآن و حدیث کی طرف
رجوع کرنا چاہیے تھا، لیکن اس کی توفیق کسی کو بھی نہ ہوئی۔ سب پارٹی بازی پر ڈٹے
رہے، جس کے نتیجے میں جماعت برباد ہو گئی اوریورتھ فورس وجود میں آئی جو اَب کسی
کے قابو میں نہیں۔ اب وہ غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور خطرہ ہے کہ وہ کوئی
مستقل فرقہ نہ بن جائے اور پوری جماعت کو ﴿او یلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض﴾[۶:الانعام:۶۵]کے
تحت اللہ کے مستقل عذاب میں نہ دھکیل دے جس کا وبال بانی و مبانیوں کے سر رہے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۶۰۱،
مکتبہ اسلامیہ )
اس طرح کی بات ان تینوں( احسان الہی، فضل حق اور معین الدین) کے متعلق
’’خطباتِ بہاول پوری ‘‘میں بھی ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
’’ وہ کیا
فیصلہ کریں... وہ قرآن وحدیث کے مطابق فیصلہ کریں۔ ایسا وہ تب کرتے جب وہ اہلِ
حدیث ہوتے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ گئے۔ اہلِ حدیث نہیں رہے ، بالکل نہیں
رہے ۔ ‘‘
( خطبات بہاول پوری :۴؍۴۱۷)
اہلِ حدیثو!اب بھی وقت ہے قرآن وحدیث کی طرف رُخ کر لو
بہاول پوری
صاحب لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیثو! اب بھی وقت ہے، سنبھل جاؤ۔ قرآن
وحدیث کی طرف رخ کرو۔ پیٹھ نہ کرو۔ قرآن و حدیث پرمتحد ہو کر ان کو اپنا حاکم بنا
لو۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۶۰۱،
مکتبہ اسلامیہ )
اہل ِ حدیث” انا سادتنا وکبراءنا فاضلونا السبیلا “کا مصداق
بہاول پوری
صاحب اپنے مضمون ’’ قائدین اہلِ حدیث ذرا سوچئے !‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اے اکابرین اہلِ حدیث! یہ حقیقت ہے کہ جماعت
کوبنانا اور بگاڑنا جماعت کے بڑوں کا ہی کام ہے۔ عوام ہمیشہ اپنے لیڈروں کے پیچھے
ہی چلتے ہیں، اس لیے جماعت کے بگاڑ کی ساری ذمہ داری جماعت کے لیڈروں کے سر ہی آتی
ہے۔ جب دوزخ میں دوزخیوں کو سزا ملے گی تو چھوٹے اپنے اکابرین کوہی موردِالزام
ٹھہرائیں گے اور کہیں گے ﴿انا کنا لکم تبعا فھل انتم مغنون عنا نصیبا من النار﴾[۴۰:المومن
: ۴۷]﴿وقالوا ربنا
انا اطعنا سادتنا و کبرآنا فاضلونا السبیلا﴾[۳۳ـ ا:الاحزاب: ۵۷] ہم تو تمہارے پیچھے ہی چلتے تھے،تم
نے ہی ہمیں گمراہ کیا ۔اصل میں اکابرین ہی قوم کے معمار ہوتے ہیں، قوم ان کے
ہاتھوں میں ہی کھیلتی ہے، اگر بڑے مخلص اور فعال ہوں تو وہ قوم کو بہت اونچا اڑاتے
ہیں او ر اگر وہ سیاسی شاطر ہوں اور مخلص نہ ہوں تو قوم کو قعر مذلت میں گرا دیتے
ہیں اور یہ مشاہدہ ہے کہ صحیح قیادت نہ ہونے کی وجہ سے ہی اہلِ حدیث جماعت کی یہ
حالت ہوئی ہے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۶۰۵،
مکتبہ اسلامیہ )
“”لا
تَفََّرقُْوا“ کی خلاف ورزی ...
بہاول پوری
صاحب لکھتے ہیں:
’’مرکزی جمعیت،شبان اہلِ حدیث کو پیدا کرکے خوش
ہوئی اور غیر مرکزی یوتھ فورس کو وجود میں لا کر نونہال ہوئی اور اب یہ جماعتیں
ایک دوسرے کے لیے وبال بنی ہوئی ہیں اور تقسیم در تقسیم ہوتی جارہی ہیں۔ افسوس ناک
صورت یہ ہے کہ نئی جمعیت جس میں غبارے کی طرح ہوا بھری ہوئی تھی پھٹ گئی ہے...
اکابرین کا ذہن اسلامی ہوتا، جمہوری نہ ہوتا تو کوئی ذیلی یا ظلی جماعت کبھی معرض
وجود میں نہ آتی اوریہ ایام بَد دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ اسلام دوسری جماعت کو کبھی
برداشت نہیں کرتا بلکہ ﴿ولا
تفرقوا﴾کہہ کر
دوسری جماعت بنانے پر سخت قدغن لگاتا ہے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پوری صفحہ ۶۰۸،
مکتبہ اسلامیہ )
قرآن و حدیث ردی کی ٹوکری میں ( العیاذ باللہ )
بہاول پوری
صاحب کہتے ہیں:
’’ہم قرآن وحدیث کو صرف آمین، رفع
الیدین یا علم غیب، مختار کل دو چار مسئلے بریلویوں سے رگڑے کے ہیں اور دو چار
مسئلے دیوبندیوں سے رگڑے کے ہیں اور دو چار مسئلے اپنے کام کے ہیں باقی قرآن و
حدیث بالکل ردی کی ٹوکری میں رکھنے کے لائق۔ہم اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے
ہیں ۔ ‘‘
( خطبات بہاول پوری:۱؍۲۱۳...
خطبہ نمبر:۱۰ )
” ما
انزل اللہ “سے اعراض
بہاول پوری
صاحب کہتے ہیں:
’’ اور اللہ نے سچ کہا ہے کہ واذا قیل لھم
تعالوا الی ما انزل اللہ والی الرسول جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ ! اللہ اور رسول کی طرف،
قرآن و حدیث کی طرف ورایت المنافقین یصدون عنک صدودا تو وہ جو منافق ہوگا ،ڈٹ جائے
گااور اب اللہ نے سمجھ دی ہے، غور کرتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں یہ آیت تو اہلِ
حدیثوں پربھی فٹ آتی ہے۔‘‘
( خطبات بہاول پوری ۳؍۸۵ ،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
تنبیہ: قران میں ’’ ورایت المنافقین ‘‘ کے شروع میں واؤ نہیں ہے ۔ (
سورۃ النساء ، آیت : ۶۱)
وعدہ خلافت
اور اہلِ حدیث کہلوانے والے
بہاول پوری
صاحب کہتے ہیں:
’’یہاں کسی اہلِ حدیث کو اہلِ حدیث کے
ٹکٹ پر کھڑا کرکے دیکھ لو کبھی کامیاب ہو جائے تو دیکھ لینا۔ بد نام اتنا ہے،اہلِ
حدیث اتنا بدنام ہے، اتنا بدنام ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ تو آخرکوئی خرابی ہے یہ
تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کا وعدہ جھوٹا ہے۔یہ تو قرآن ہے۔وعد اللہ
الذین آمنوا منکم و عملو االصالحات اللہ نے وعدہ کیا ایمان والوں سے۔ تم میں سے جو ایمان
لائیں گے اور نیک عمل کریں گے لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (۲۴: النور :
۵۵) کہ میں ان کو حکومت دوں گا، ان کو خلافت دوں گا اور پھر ان الذین امنوا و عملوا الصالحات
کانت لھم جنت الفردوس نزلا۔( الکہف ) وہ جنت الفردوس میں جائیں گے میں ان کی
مہمانیاں کروں گا۔ تو جب یہیں جوتے پڑ رہے ہوں تو جنت کی مہمانی کہاں ؟ تو آخر
سوچنے کی بات ہے ۔‘‘
( خطبات بہاول پوری:۳؍۳۰۵ ،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
بہاول پوری صاحب کہتے ہیں:
’’ایک دفعہ علماء کا اجتماع فیصل آباد
میں ہوا۔ میں نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا دیکھو یہاں سب عالم بیٹھے ہوئے ہیں۔
اہلِ حدیثوں کا اجتماع ہے۔ دیکھو قرآن مجید کی آیت وعد اللہ الذین آمنو منکم و عملوا
الصالحات اللہ ان
لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے وعدہ کرتا ہے لیستخلفنکم
فی الارض کما استخلف الذین من قبلکم کہ میں دنیا میں ان کو ضرور حکومت دوں گا۔ کیا اللہ اپنے
اس وعدہ سے منحرف ہوگیا ؟ کیوں نہیں اللہ اپنا وعدہ پوراکرتا؟ یا پھر ہمارا ایمان
نہیں ہے کیوں؟‘‘
( خطبات بہاول پوری :۵؍۹۵ ،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
تنبیہ: خطبات بہاول
پوری میں آیت یوں ہی درج ہے جیسا کہ اوپر منقول ہوئی ۔ جب کہ صحیح اس طرح ’’لیستخلفنھم
فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ‘‘ ہے ۔( سورۃ النور ، آیت: ۵۵)
یہاں غیرمقلد ین کے ہاں ’’ خاتم
المحدثین ‘‘ کہلائے جانے والے بزرگ نواب صدیق حسن خان کی عبارت بھی پڑھتے چلیں۔وہ
لکھتے ہیں:
’’ اہلِ حدیث تیرہ سو برس سے چلے آتے
ہیں اس میں سے کسی نے کسی ملک میں جھنڈا اس جہاد اصطلاحی حال کا کھڑا نہیں کیا اور
نہ کوئی ان میں حاکم یا بادشاہ کسی ملک کا بنا اکثر بلکہ سب کے سب زاہد و تارک دنیا تھے فتنہ و فساد غدر و قتل و
خون ریزی سے ہزاروں کوس بھاگتے تھے۔‘‘
( ترجمان وہابیہ صفحہ ۲۱مشمولہ رسائل اہلِ حدیث
جلد اول )
وہابی ہونے کی تعلیم قرآن و حدیث میں نہیں
بہاول پوری
صاحب کہتے ہیں:
’’اگر میں نے کہہ دیا کہ میں کلمہ بھی
پڑھتا تھا اور وہابی بھی تھا۔ خدا کہے گا کہ تو وہابی کیسے بن گیا، تجھے کس نے کہا
تھا وہابی بننے کے لیے۔ کیا قرآن میں تھا، حدیث میں تھا ؟ تو کوئی جواب نہیں۔ ‘‘
( خطبات بہاول پوری:۳؍۴۲۴ ،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
قرآن نے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا مگر....
بہاول پوری
صاحب کہتے ہیں:
’’قرآن کہتا ہے الرجال قوامون علی النساء ( ۴: النساء
: ۳۴) مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ ان مولویوں نے ... یہ مولوی
سراج ہو یا کوئی اور ،ہمارااہلِ حدیث بھی ہو۔ کئی اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت کو
خوش کرنے کے لیے فتوے دیتے ہیں۔‘‘
( خطبات بہاول پوری :۳؍۴۲۵ ،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
بہاول پوری
صاحب کہتے ہیں:
’’میں منڈی یزمان گیا اورکہا کہ اگر
پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے تو بے نظیر آئے گی .....ایک اہلِ حدیث کہنے لگا کہ کیا
حرج ہے۔ ‘‘
(خطبات بہاول پوری :۴؍۳۵۶،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
محمد شمشاد سلفی نے عورت کے سربراہ
مملکت بننے کے جواز پر مستقل رسالہ ’’عورت سربراہ مملکت بن سکتی ہے ؟‘‘ لکھا ۔ یہ
رسالہ’’ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم‘‘ میں شامل ہے ۔
بندہ نے غیرمقلدین کے ’’عمل
بالقرآن ‘‘پہ پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد کی عبارات نقل کردی ہیں۔جو
غیرمقلد اُن کا رَد کرناچاہتاہو تو وہ اپنے اس بزرگ کی درج ذیل عبارتیں ملاحظہ کر
لے ۔
بہاول پوری صاحب کہتے ہیں:
’’خدا کی قسم ! میں پورے تجربے سے یہ
بات کرتا ہوں کہ ہمارے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ ‘‘
( خطبات بہاول پوری :۴؍۳۷۴،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
بہاول پوری صاحب کہتے ہیں:
’’خدا کی قسم
ہماری بات کا جواب نہیں ہے۔ اس کو کوئی رَد ہی نہیں کر سکتا۔‘‘
( خطبات بہاول پوری :۵؍۴۴ ،
مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )
قرآن وحدیث کے خلاف اپنے مولوی کی پیروی
مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی ( مدرس مدرسہ اہلِ
حدیث کھنڈیلہ ضلع جے پور ) فرقہ غرباء اہلِ حدیث کے نظریات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’رفتہ رفتہ جماعت اہلِ حدیث کھنڈیلہ
میں بھی یہ خیالات پیدا ہونے لگے اور مولوی [ عبد الوہاب دہلوی ( ناقل)]صاحب کے
دعووں کی تصدیق کرنے لگے اور غیر مبایعین کو جاہلیت کی موت مارنے لگے اور اس امامت
نے ایک طرح کی تقلید ضلالت کی شکل اختیار کر لی۔ اورمولوی صاحب کے اجتہادی مسائل
کو یہ لوگ بے چوں و چرا جو خلاف قرآن و حدیث تھے تسلیم کرنے لگے مثل مرغ کی قربانی
اور دھیلی پاؤلے کا بازار سے گوشت خرید کر بانٹ دینے کا نام قربانی رکھنا اور بیع
مضاربت کوایک سودی شکل میں معاملہ کرنا اور قربانی نیاز بیت اللہ کے روپیہ کسی
دوسرے مصرف کارِ خیر مثل مسجد وغیرہ کے اپنے ملک ہندوستان میں خرچ کردینا اور
واسطے ثواب ایک لاکھ روپیہ کے ایک حیلہ تراشنا جس کی صورت یہ ہے کہ یہ روپیہ
قربانیوں کے ایک شخص مال دار کو بیت اللہ میں حوالہ کر دینا اور اُس پر یہ خیال
کرنا کہ دینے والوں کو ایک لاکھ کا ثواب ہوگیا اور پھر یہ شخص یہ روپیہ ہندوستان
میں اگر کسی مسجد وغیرہ میں لگا دے تو اس مسئلہ کو شرعی بتانا وغیرہ وغیرہ ۔‘‘
( مقاصد الامامۃ صفحہ ۳، مشمولہ
رسائل اہل حدیث جلد اول)
لا تفرقوا کی مخالفت ....شیرازہ بندی پاش
پاش
مولانا عبد
القدوس گوڑ گانوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ہمارا
خیال تھا کہ جماعت غرباء اہلِ حدیث والے اپنی پرانی روش سے قدرے ہٹ گئے ہیں مگر
ہمارے خیال کومولانا مقبول احمد مجاہد نے غلط ثابت کر دیا کہ وہ ان دنوں اپنی
جماعت کی طرف سے مختلف مقامات کا دَورہ کر رہے ہیں وہ کوٹ راد ھا کشن بھی تشریف
لائے تو انہوں نے اپنی تقریر کے دَوران مسئلہ امارت کے بارے میں ان تمام باتوں کا
اعادہ کیا جن کی وجہ سے متحدہ ہند کی جماعت اہلِ حدیث میں شدید اختلافات پیدا ہو
گئے تھے اور بالآخر جماعت اہلِ حدیث دو حصوں میں منقسم ہو گئی تھی اور پھر ہر دو
فریق کی طرف سے سخت ترین تحریریں شائع ہوئیں۔ اس طرح جماعت کی شیرازہ بندی پاش پاش
ہو کر رہ گئی اور جماعت اہلِ حدیث کی تبلیغ کو سخت نقصان پہنچا اور جماعتی ترقی یکدم
رک گئی۔ ‘‘
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور۲۹؍دسمبر ۱۹۶۷ء
صفحہ۲۷)
حکیم خالد سیف اللہ محمدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیث پہلے بھی کئی فرقوں میں
تقسیم ہیں۔امامیہ، غیر امامیہ۔ جھنڈوی، غیر جھنڈوی۔ مرکزی، غیرمرکزی۔ جہادی، غیر
جہادی۔ روپڑی، غزنوی، ثنائی۔ اب دعائی اور غیر دعائی بھی قائم ہو گئے ہیں۔ ‘‘
( فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا
کی اہمیت صفحہ۵)
غیرمقلدین میں فرقہ واریت کا اُن کے
کئی علماء نے اعتراف کیاہے ۔اس عنوان کی بہت سی تحریریں بندہ کے مطالعہ میں ہیں۔
اگر کبھی ’’ غیرمقلدین میں فرقہ واریت ‘‘ عنوان پر لکھنے کی اللہ نے توفیق بخشی تو
تفصیل سے لکھوں گا ان شاء اللہ ۔
فقہی موشگافیوں سے قرآن و سنت کو نظر انداز
ڈاکٹر عطا ء
محسن غیر مقلد اپنی جماعت کے ایک بزرگ کے سودی فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہماری حالت
یہ ہے کہ اپنی فقہی موشگافیوں سے قرآن وسنت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ‘‘
(فتاوٰی ثنائیہ مدنیہ :۱؍ ۶۵۶)
لفظ ’’فقہ‘‘ قرآن و حدیث میں اچھے مفہوم میں ہے مگر اہلِ
حدیث کو اِس سے چڑ ہے
مولانا ثناء
اللہ مدنی غیر مقلد ’’ اہلِ حدیث ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں :
’’قرآن وحدیث کے علاوہ انہیں لفظ
’’فقہ‘‘ سے چِڑ ہے، حالاں کہ لفظ ”فقہ“قرآن و
حدیث دونوں میں اچھے مفہوم میں بھی وارد ہوا ہے
جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔من یرد اللہ
بہ خیرایفقہ فی الدین یعنی جس کے ساتھ اللہ بھلائی چاہے اسے دین کی فقاہت عطا ء
کرتا ہے ‘‘
(فتاوٰی ثنائیہ مدنیہ : ۱ ؍
۶۶۱)
اجتہادِ جدید کی درانتی سے قرآن کے صریح حکم کو کا ٹنے کی
جسارت
غیر مقلدین
کے پرچہ ’’الاعتصام‘‘ میں جمعیت اہل حدیث کی مجلس عاملہ کے رکن مولانا محمد حنیف
ندوی کی کتاب ’’مسئلہ اجتہاد‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
’’اسی موضوع پر ادارہ ثقافت نے
’’مسئلہ اجتہاد‘‘ مستقل کتاب بھی شائع کی ،جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے
کہ تبدیلی احوال کی بناء پر ’’اجتہاد جدید‘‘ کی درانتی سے قرآن و حدیث کے ہر صریح
حکم (نص) کو کاٹا جا سکتا ہے۔ ‘‘
(الاعتصام:اشاعت خاص ،بیاد
مولانا عطاء اللہ حنیف بھو جیانی صفحہ ۷۷۲)
قرآن و حدیث کے صریح احکام کو تبدیل کر دینے کی ضرورت
ہے!!
مولانا حنیف
ندوی غیرمقلد کے ایک مضمون پر یوں تبصرہ مذکور ہے :
’’فرمایا گیا ہے کہ :مسئلہ وراثت
اورعورتوں سے متعلقہ قرآن وحدیث کے صریح احکام تک کو آج کے ارتقائی دور میں تبدیل
کر دینے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(الاعتصام:اشاعت خاص ،بیاد بھو
جیانی صفحہ ۷۷۲)
ندوی مذکور
کو ’’متکلم اسلام ‘‘ کہا ہے ۔
(الاعتصام:اشاعت خاص ،بیاد
مولانا عطاء اللہ حنیف بھو جیانی صفحہ ۵۱)
قرآن و حدیث سے متعلق لن ترانیاں
مولاناتنزیل صدیقی غیر مقلد نے
’’علمائے اہل حدیث سے گذارشات ‘‘ عنوان قائم کر کے جو گذارشات کی ہیں ان میں ایک
گذارش یہ ہے:
’’قرآن و
حدیث سے متعلق اپنی لن ترانیاں چھوڑ دیں ‘‘
(احناف کی تاریخی غلطیاں صفحہ
۱۴۷)
قرآن و حدیث کے خلاف فتوی!
مولانا
عبداللہ روپڑی غیر مقلد لکھتے ہیں :
’’سود کی حرمت قرآن و حدیث میں مشاہدہ
کی جائے اور اس کے متعلق جو وعید اور تشدد وارد ہے دیکھا جائے تو مومن کے رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب مجتہد امرتسری (غیر مقلد) محض قیاس سے
لوگوں کو ضرورت کے وقت جائز ہونے کا فتوی دے رہے ہیں ۔‘‘
(مظالم روپڑی صفحہ ۳۲ مشمولہ
رسائل اہلحدیث جلداول )
آیات ِ صریحہ اور احادیث ِ صحیحہ کے خلاف قفال کی پیروی
مولانا عبد الحق غزنوی غیرمقلد نے امرتسری تفسیر
پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ افسوس ہے برخلاف آیاتِ کریمہ و
اجماع ائمہ کے جا بجا اپنی تفسیر میں عرش کی تفسیر بتقلید قفال حکومت اور بادشاہت
کے ساتھ کرتا ہے اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ عرش کے انکار سے تو کفر تک نوبت پہنچتی
ہے۔‘‘
(حاشیہ الاربعین صفحہ ۱۷،مشمولہ
رسائل اہلِ حدیث جلداول)
مولانا عبد
الحق غزنوی غیرمقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا
:
’’آیات ِ صریحہ اور احادیث ِ صحیحہ
اور اہلِ اسلام کو چھوڑ کر قفال کا مقلد بن کر عرش سے انکاری ہوا۔ ‘‘
(الاربعین صفحہ ۱۸،مشمولہ رسائل
اہلِ حدیث جلداول)
مولانا عبد
الحق غزنوی غیرمقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا
:
’’چوں کہ اس آیت میں بھی معجزہ اور
کرامت ثابت ہوتا ہے جو اس کی سمجھ میں قانون قدرت کے خلاف ہے اس واسطے آیت کی
تفسیر کچھ اور کی۔ ‘‘
(حاشیہ الاربعین صفحہ ۱۸،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث
جلداول)
قرآن کے خلاف تفسیر کرنے کا ایک اور نمونہ
مولانا عبد الحق غزنوی غیرمقلد نے امرتسری تفسیر
پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’ص ۴۷۱ میں اس آیت ویحمل عرش
ربک فوقھم یومئذ ثمانیۃ کی تفسیر میں لکھا حمل الثمانیۃ کنایۃ عن عظمۃ کبریا
ۂ لقولہ تعالی لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار۔ماشاء اللہ کیا ہی تفسیر اور کیا
ہی استدلال ہے۔ انگلیوں میں لہو لگا کر شہیدوں میں ملنا چاہتے ہیں۔ مصنف تفسیر
ثنائی کے نزدیک نہ در حقیقت عرش ہے اور نہ آٹھ فرشتے عرش کے اُٹھانے والے ہیں بلکہ
صرف یہ ایک اللہ عزو جل کی عظمت اوربزرگی کا ایک کنایہ ہے۔ یہ تفسیر آیہ کریمہ الذین یحملون
العرش و من حولہ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون للذین آمنوا اور احادیث صحیحہ اور تفاسیر
معتبرہ اہلِ اسلام کے خلاف ہے ۔ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اور تفاسیر معتبرہ
سے بخوبی ثابت ہے کہ عرش عظیم اللہ عزو جل کی مخلوقات میں سے ایک بڑی مخلوق ہے۔
اور اس کے اُٹھانے والے فرشتے ہیں اور یہی تمام مسلمانوں کا اعتقاد ہے لکن من یھن
اللہ فمالہ من مکرم ۔‘‘
( الاربعین صفحہ۲۵،۲۶...مشمولہ
رسائل اہلِ حدیث جلد اول )
امرتسری تفسیر کو قرآن رد کرتا ہے
الاربعین
کتاب کی تصدیق کرنے والے بزرگ احمد علی صاحب لکھتے ہیں:
’’ثناء اللہ کی تفسیر پرصرف یہی الزام
نہیں کہ وہ سلف کے خلاف ہے بلکہ فی نفسہ مضمون قرآن مقدس بھی اس کو مردود کرتا ہے
جب عبارت قرآن شریف کی اس مدعا کو نہیں اُٹھاتی جس کو اپنی تفسیر میں مولوی ثناء
اللہ نے تحریر کیا ہے تو ظاہر ہے کہ قرآن شریف اُس کی تردیدکرتاہے ۔‘‘
( الاربعین صفحہ۴۰...مشمولہ
رسائل اہلِ حدیث جلد اول )
صاحبِ قرآن کی مخالفت
الاربعین
کتاب کے مصدّق مولانا فقیر اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ فانی وقفت
علی بعض من التفسیر المسمی بتفسیر القرآن بکلام الرحمن الذی صنفہ المولوی ثناء
اللہ الامرتسری من ابناء الزمان فطالعتہ و نظرت فیہ نظر المتامل بالتامل والامعان
فوجدتہ کاسمہ غلط مخالفا لتفسیر من نزل علیہ الفرقان۔ ‘‘
(الاربعین صفحہ۵۲ ...مشمولہ
رسائل اہلِ حدیث جلداول)
ترجمہ : میں ایک تفسیر بنام ’’تفسیر القرآن
بکلام الرحمن‘‘ پہ مطلع ہوا جسے موجودہ زمانہ کے مولوی ثناء اللہ امرتسری نے تصنیف
کیا ،میں نے اس کا مطالعہ کیا، اسے غور و گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں کی طرح
دیکھا۔پس میں نے اسے اس کے نام کے مطابق غلط اور اس ذات [ سیدنا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی (ناقل )] کی تفسیر کے مخالف پایا جس پر فرقان [ قرآن (ناقل ) ]
نازل ہوا ۔
کتاب و سنت کی تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مگن
مولانا محمد
رفیق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’یہ ہماری ہی جہادی تنظیم ہے جس نے
استیصال تعلیم کتاب و سنت اور نتیجۃً فروغ جہالت کو اپنے جہاد کا مقصد بنا لیاہے۔
‘‘
(مولانا سلطان محمود جلال پوری
صفحہ ۱۱۸)
آیات ِ قرآنیہ کے خلاف یونان کے کافروں کی پیروی
مولاناعبد
الحق غزنوی غیرمقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ناسخ و منسوخ ، تقدیر ،معجزات،
کرامات، صفات باری، دیدار الہی ، میزان، عذاب قبر ،عرش، لوح محفوظ ، دابۃ الارض ،
طلوع شمس از مغرب وغیرہ وغیرہ جو اہلِ سنت میں مسائل اعتقادیہ اجماعیہ ہیں اور
آیات قرآنیہ اُن پر شاہد ہیں اور علماء اہلِ سنت نے اپنی تفاسیر میں بالاتفاق جن
آیات کی تفاسیر ان مسائل کے ساتھ کی ہے ۔ انہوں نے اُن سب آیتوں کو بتقلید کفرۂ یونان و فرقہ ضالہ معتزلہ و قدریہ و جہمیہ خذلھم
اللہ محرف و مبدل ہوکرکے سبیل مؤمنین کو چھوڑ کر اپنے آپ کو و یتبع غیر
سبیل المؤمنین نولہ ما تولی و نصلہ جھنم وساءت
مصیرا کا مصداق
بنایا ۔‘‘
( الاربعین صفحہ۵ ،مشمولہ رسائل
اہلِ حدیث جلد اول )
آیتوں کے خلاف
قواعد سازی
مولانا عبد
الجبار غزنوی غیرمقلدنے مولانا غلام العلی قصوری غیرمقلد کو مخاطب کرکے لکھا:
’’افسوس! آپ فخر سے ایسے قواعد وضع
کرتے ہیں جو صریح آیتوں کے مخالف ہیں ۔‘‘
( اثبات الالہام و البیعۃ بادلۃ الکتاب والسنۃ صفحہ ۱۵۳)
یحبون ان یحمدو ا بما لم یفعلوا کا مصداق
حافظ عنایت
اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ہماری جمعیت جو چھوٹے چھوٹے رسائل
شائع کر رہی، یہ افراد کا کام ہے۔جمعیت کا کام یہ ہے کہ وہ حدیثوں کے متون شائع
کرے جو ابھی تک مطبوع نہیں ہوئے... جمعیت کی طرف سے ابھی تک کوئی کتاب حدیث شائع
نہیں۔ ہاں! چندوں کی بھر مار ہے جس کے لیے جلسے ہوتے ہیں اور سالانہ بیسیوں ہزار
رقوم اور ہزاروں من گندم وغیرہ کی آواز مسموع ہوتی ہے ۔ ‘‘
(حاشیہ:العطر البلیغ
صفحہ
۱۱۵،۱۱۶،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
تنبیہ: اثری صاحب نے مذکوہ بات۱۹۶۱ء کے حالات میں لکھی ہے ۔
اثری صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’اب تک جو متون و شروح شائع ہوئے ہیں
وہ سب دوسروں نے شائع کئے ہیں ۔ ‘‘
(حاشیہ: العطر البلیغ صفحہ
۲۹،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
اثری صاحب لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں جو کتب حدیث مطبو ع
ہوئی ہیں وہ سب انفرادی طور پر مطبوع ہیں، اہلِ حدیث جماعت کی طرف سے بھی حدیث کی
کتابیں طبع ہو کر منڈی میں آنی چاہئیں تھیں مگر افسوس کہ ہماری جماعت اہلِ حدیث نے
ابھی تک کوئی حدیث کی کتاب شائع نہیں فرمائی ... مولوی اسماعیل صاحب گوجرانوالہ نے
قدرے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اہلِ حدیث کاجلسہ ہے اور اہلِ حدیث ہی کو گرایا
گیا ہے۔ مگریہ اثنائے تقریر میں نہیں اور نہ اس کے بعد جلسہ گاہ میں بلکہ مسجد میں
چند دوستوں کے رو برو تو میں نے عرض کی کہ جن کی تعریف کی ہے ان کا کام بیان کیا
ہے ، آپ کے خیال میں جن کو گرایا ہے ان کی کوئی شائع کردہ حدیث کی کتاب آپ کے پیش
نظر ہے تو اسے بتائیں انہیں اُبھارا جا سکتا ہے۔ کچھ کام کئے بغیر مدح سرائی تویحبون ان
یحمدو ا بما لم یفعلوا ۔( آل عمران ) کا مصداق ہے جو ٹھیک نہیں ۔ حالاں کہ اس کا
ٹھیک تاثر یہ تھا کہ ان شاء اللہ اس کی طرف ضرور توجہ ہوگی کہ یہ بہت بڑا ضروری
کام ہے۔ افسوس ہے کہ دوسروں پر عیب گیری ہو تو خوش اور اپناجائزہ لیا جائے تو رنج
۔کیا خوب ہے !۔ ‘‘
(العطر البلیغ
صفحہ
۱۷۰،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
ایک
غیرمقلدنے مولانا محمد اسحاق چیمہ غیرمقلد کے نام کھلا خط شائع کیا، اس میں لکھا:
’’آپ
ہر ہفتہ سازشی ، تخریب کار، کینہ پرور ، حب جاہ کا دلدادہ ، حاسد، یحمدوا بما لم
یفعلوا کے زمرے کا ایک فرد ’’شیخ الحدیث ‘‘ کو گائیڈ لائن دیتے رہے حالاں کہ اسے
تخریب کاری کی وجہ سے جامعہ کے بانی حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فوری طور پر
نکال دیاتھا۔ ‘‘
( ہفت روزہ اہلِ حدیث لاہو
ر۲۱؍ستمبر ۱۹۸۴ء )
اس کا عکس
رسائل اہلِ حدیث جلداول کے آخرمیں موجود ہے ۔
قرآن پہ ہاتھ صاف کرنے کی جسارت
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے حافظ عنایت
اللہ اثری غیرمقلد کے متعلق لکھا:
’’ ممتاز عالم دین اور طلوع اسلام کی
طرح سر سید احمد کے افکار سے بہت متاثر ہیں جیسا کہ اثری کے لاحقہ سے بھی معلوم
ہوتا ہے آپ خود کو اہلِ حدیث کہلوانا پسند فرماتے تھے ... آپ بھی سر سید اور دوسرے
تمام منکرین حدیث کی طرح معجزات انبیاء کے منکر ہیں ۔ آپ نے تمام امت مسلمہ کے
مسلّمہ عقیدہ کے علی الرغم ’’ عیون زمزم فی ولادتِ عیسی بن مریم ‘‘ نامی کتاب لکھ
کر حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش کی تردید فرمائی ۔ علاوہ ازیں دو کتابیں بیان
المختار اور قول المختار لکھ کر تمام انبیاء کے معجزات سے انکار فرمایا ہے۔ حافظ
اور دوسرے منکرین حدیث میں مابہ الامتیاز فرق یہ ہے کہ تمام منکرین حدیث کا طریق
کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے احادیث کا انکار کرتے ہیں پھر بعد میں قرآن کی من مانی
تاویلات کرکے قرآن پر ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔ جب کہ حافظ صاحب تاویلات کے ذریعہ پہلے
قرآن پر ہاتھ صاف کرتے ہیں، بعدہ حدیث پر ۔گویا آپ کا کام عام منکرین حدیث سے دو
گنا بڑھ گیا۔ اورحقیقت یہ ہے کہ تاویل قرآنی کے دھندے میں حافظ صاحب موصوف نے
منکرین حدیث کے کان کتر ڈالے ہیں... حافظ صاحب نے جب واقعہ اسراء کی تاویل پیش
فرماتے ہوئے مسجد اقصیٰ سے مراد دُور کی مسجد اور مدینہ منورہ نیز واقعہ اسراء سے
مراد ہجرت نبوی کا تصور پیش کیا تو پرویز صاحب نے انہیں درج ذیل الفاظ میں ہدیہ
تبریک پیش فرمایا تھا: ’’ اگلے دنوں ایک صاحب کی وساطت سے مجھے عنایت اللہ اللہ
اثری ( وزیر آبادی ثم گجراتی ) کی کتاب ’’ حصول تیسیر البیان علی اصول تفسیر
القرآن ‘ ‘دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت اور خوشی ہوئی کہ انہوں نے
بھی مسجد اقصی کا وہی مفہوم لیا ہے جسے میں نے مفہوم القرآن میں لکھا تھا، ایک
اہلِ حدیث عالم کی طرف سے اس آیت کا وہ مفہوم جو روایتی مفہوم سے ہٹا ہوا ہو۔
واقعی باعث تعجب ( اور چوں کہ وہ مفہوم میرے نزدیک قرآن کی منشاء کے مطابق ہے اس
لیے وجہ حیرت ) ہے۔ مولانا صاحب اگر بقید حیات ہوں ( خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور
خدا ان کی عمر دراز کرے ) تو وہ میری طرف سے اس تحقیق اور حق گوئی کی جرأت پر ہدیہ
تبریک قبول فرمائیں۔ طلوع اسلام جنوری ۷۵ ء ص ۴۱‘‘
( آئینہ پرویزیت صفحہ ۱۳۰)
تنبیہ: کتاب کا صحیح نام ’’ عیون زمزم فی میلادِ عیسی بن مریم
‘‘ہے ۔
قرآن کی رُو سے سیدنا یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگل
لیا تھا مگر اثری صاحب منکر
قرآن میں سیدنا یونس علیہ السلام کی
بابت خبر ہے
’’ فالتقمہ الحوت‘‘ کہ مچھلی نے انہیں نگل لیا تھا۔
(سورۃ الصافات ، آیت:۱۴۲)
مگر حافظ
عنایت اللہ اثری غیرمقلداِس کے منکر ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۳۱ ؍ جنوری ۶۰ء کو وزیر آباد شیخ
حافظ عبد الرحیم صاحب کی دکان پر اور پھر مسجد اہلِ حدیث میں دریافت ہوا کہ قرآن
مجید نے تصریح فرمائی ہے کہ یونس علیہ الصلوۃ و السلام کو مچھلی نے نگل لیا تھا
مگر آپ نے اس کا انکار کیا ہے ۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ
۳۸،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
اثری صاحب لکھتے ہیں:
’’دوستوں نے
دریافت کیا کہ یونس علیہ الصلوٰ و السلام کے مچھلی کے پیٹ میں جانے کا آپ نے انکار
فرمایا ہے جس کا میں نے وہی جواب دیا جسے میں ۳۱؍ جنوری ۱۹۶۰ ء میں ذِکر کر آیا
ہوں۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ
۱۰۳،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
اثری صاحب
لکھتے ہیں:
’’ یونس علیہ الصلوۃ والسلام بھی
مچھلی کے پیٹ میں نہیں گرے ... میں نے ان باتوں کو تفصیل سے بیا ن کیا جسے سن کر
دوستوں نے تصویب فرمائی بلکہ اہلِ حدیث بھائی عبد اللہ صاحب نے سب کے رو برو کھڑے
ہو کر میرے سر کو چوم لیااور کہا کہ ہماری تسلی ہوگئی ۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ ۲۹،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
قرآن کی رُو سے نسخ اک مسلمہ حقیقت ہے مگر اثری صاحب اس سے
انکاری ہیں
اللہ نے
فرمایا:
ماننسخ من آیۃ او ننسھا ناْت بخیر منھآ او مثلھا۔
( سورۃ البقرۃ ، آیت: ۱۰۶)
ترجمہ: جو
منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس
کے برابر ۔ (ترجمہ شیخ الہند )
قرآن کی کئی آیتیں منسوخ ہیں مثلا شراب کا حلال
ہونا منسوخ ہے اور حرام ہونا ناسخ۔ لیکن اس حقیقت کے برخلاف حافظ عنایت اللہ اثری
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اللہ پاک کے کلام میں قطعاً نسخ
نہیں اور کہ کسی نبی ( علیہ الصلوۃ و السلام ) کی کوئی شریعت منسوخ نہیں، نسخ کا
خیال غلط ہے ۔ ‘‘
(الجسر البلیغ
صفحہ ۱۳۱
،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم)
اثری صاحب
لکھتے ہیں:
’’اس اثناء میں موصوف نے مجھ سے نسخ
کی بابت بھی دریافت فرمایا تو میں نے جواب دیا کہ میں کلام الہی میں نسخ کا قائل
نہیں، پھر موصوف نے ما ننسخ من اٰیۃ الایۃ (بقرہ ) کی بابت بھی دریافت فرمایا جس کا موصوف
کو ٹھیک مطلب سمجھایا جو کہ آیات اللسائلین میں نے شائع کر دیا ہوا ہے۔ تو آپ نے
تصویب فرمائی اور فرمایا کہ شائع شدہ نسخ پرمجھے بھی اطمینان نہیں کہ اس سے علم
الہی پر نقص لازم آتا ہے ۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ ۶۸مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
اثری صاحب
لکھتے ہیں:
’’میں نے سورہ کہف کی ابتدائی چند
آیتوں کا درس دیا اور قیّمًا کی تفسیر کرتے ہوئے نسخ کا بھی ذِکر کیا کہ کلام الہی
میں اس کا وقوع محال ہے۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ ۸۲
...مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم)
اثری صاحب لکھتے
ہیں:
’’سب محکم سے مراد غیر منسوخ اور غیر
مبدل ہے کہ ہلائے ہل نہیں سکتا ۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ ۸۴ ،مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلددوم )
اثری صاحب
لکھتے ہیں:
’’انہیں ایام میں ایک ہزاروی مولوی
صاحب نے نسخ کی بابت دریافت فرما یا کہ آپ اس کے منکر ہیں ۔ ‘‘
(العطر البلیغ صفحہ ۱۱۲ مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
سیدنا عیسی علیہ السلام کو بن باپ نہ ماننا نصوص کی
مخالفت ہے مگر...
غیرمقلدین کے
رسالہ ’’الاعتصام‘‘ میں لکھاہے :
’’حال ہی میں کہوٹہ سے دفتر ’’
الاعتصام ‘‘ میں ایک استفتاء آیا ہے جس میں حضرت
عیسیٰ
علیہ السلام کا باپ نہ ہونے کے بارے میں کوئی
حدیث طلب کی گئی ہے ۔ حالاں کہ قرآن مجید کی نصوص ِصریحہ کی موجودگی میں حدیث کا
مطالبہ سراسر بے معنی ہے ۔ ‘‘
( الاعتصام لاہور ۴؍ستمبر۱۹۷۰
صفحہ ۴)
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ نہ ماننے والے کا حکم
الاعتصام میں
لکھا:
’’باپ ماننے والے کے متعلق حکم شرعی
دریافت کیا گیا ہے ۔ سو گزارش ہے کہ اس کا حکم ظاہر ہے کہ وہی ہے جو نصوص قرآنی کے
نہ ماننے والے کاہے ۔ اس کا حکم وہی ہے جو نزول حقیقی مسیح علیہ السلام کے منکر کا
ہے۔ اس کا حکم وہی ہے جو اس شخص کا ہے جس نے قرآن کی تیس آیتوں سے وفات مسیح ثابت
کرنے کی ناکام کوشش کی تھی ۔ ‘‘
( الاعتصام لاہور ۴؍ستمبر۱۹۷۰
صفحہ ۴)
عنایت اللہ وزیر آبادی گجراتی کا سیدنا عیسی علیہ السلام کا
با پ تجویز کرنا
الاعتصام میں لکھا:
’’اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں
مسیح کا باپ بنانے کا شوق سب سے پہلے جس شخص کو چرایا تھا وہ سر سید احمد خاں علی
گڈھی تھے۔بعدمیں محمد علی لاہوری مرزائی ، پھرگجرات کے من چلے [ عنایت اللہ اثری
(ناقل)] نے اس پر ایک رسالہ [ عیون زمزم فی میلاد عیسی بن مریم ( ناقل )] ہی لکھ
ماراتھا۔ ‘‘
(الاعتصام لاہور ۴ ؍ ستمبر ۱۹۷۰
صفحہ ۴)
تنبیہ: عنایت اللہ اثری کے تارک تقلید اور اہلِ حدیث ہونے پر گواہیاں خود اُن کی اپنی کتابوں : الجسر البلیغ ، العطر البلیغ اور مجموعہ رسائل اثری میں موجود ہیں ۔
عنایت اللہ اثری غیرمقلد کا مشغلہ مخالفت ِقرآن
شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد نے اپنی
مختلف کتابوں میں جگہ جگہ قرآن کی مخالفت کا ارتکاب کیا۔ اوریہ صرف میرا دعویٰ
نہیں بلکہ متعدد غیرمقلدین نے بھی یہی اعتراف کیا۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی
غیرمقلد نے ’’عقل پرستی اور انکار معجزات ‘‘ میں متعدد مقامات میں تسلیم کیا کہ
اثری صاحب قرآن و حدیث کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں ۔ ’’ عقل پرستی اور انکار معجزات
‘‘ کتاب سے اقتباس پیش کرنے سے پہلے کیلانی صاحب کی زبانی اثری صاحب کا اہلِ حدیث
ہونا ملاحظہ فرمالیں۔
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
مؤلف مذکور شہر گجرات میں ایک جامع مسجد اہلِ حدیث کے خطیب ہیں۔ درس بھی باقاعدہ
دیتے ہیں۔اگر کوئی طالب علم ہو تو اسے حدیث بھی پڑھا دیتے ہیں۔ مجردانہ زندگی بسر
کرتے ہیں۔ بیوی بچہ کچھ نہیں ،منکسر المزاج حاضر جواب اور ظریف الطبع ہیں ۔ آپ کا
پسندیدہ شغل تصنیف و تالیف ہے ۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۱۹، مکتبۃ
السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
کیلانی صاحب’’مصنف کا مسلک ‘‘ عنوان قائم کرکے
آپ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’گو آپ کے نام کے ساتھ اثری کا لاحقہ
بھی اس بات کی کافی دلیل ہے کہ آپ مسلکاً اہلِ حدیث ہیں تاہم آپ نے اپنی تصنیف میں
بعض مقامات پر اس حقیقت کا کھل کراعتراف بھی کیا ہے مثلاً اسی کتاب بیان المختار
کے صفحہ ۱۱۹ پر فرماتے ہیں : یہ مطلب میں نے ذی علموں کی ضیافت طبع کے لیے بیان تو
کر دیا مگر میرے نزدیک صحیح نہیں کیوں کہ یہ صحیح حدیثوں کے صریحا خلاف ہے اور میں
بفضلہ تعالیٰ اہلِ
حدیث ہوں جن کے یہاں (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول )حدیث اسی طرح رسول سے تعبیر ہے
جس طرح قرآن اللہ پاک سے تعبیر ہے ۔‘‘ اس اقتباس میں جہاں آپ نے کھلے طور پر اپنے
اہلِ حدیث ہونے کا اعتراف کیا ہے وہاں یہ بھی درج فرمادیا ہے کہ آپ محض ضیافتِ طبع
کے لیے صحیح احادیث کے خلاف مطالب بیان فرما سکتے ہیں۔‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۷، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
کیلانی صاحب نے اثری صاحب کی کتاب ’’ عیون زمزم
صفحہ ۱۸۰‘‘ سے اُن کا اعتراف نقل کیا:
’’ میں بفضلہ تعالیٰ اہلِ
حدیث ہوں۔حدیث نبوی کو شرعی حجت مانتا ہوں اور محدثین عظام اور ائمہ کرام کا احترام کرتاہوں اوراُن کی خدمات کا
اعتراف کرتا ہوں مگر ان کی بات حجت نہیں اور قرآن و حدیث کے خلاف قابلِ قبول نہیں۔
خلاف خواہ انفرادی ہے یا کہ جمہوری ہے ۔ دونوں صورتوں میں مقبول نہیں۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۱۴۰، مکتبۃ
السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
کیلانی صاحب
لکھتے ہیں:
’’آپ چوں کہ اہلِ حدیث ہیں لہذا اس حدیث
کا جواب دینا بھی ضروری سمجھا۔‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۱۸۱، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
عنایت اللہ
اثری کا مسلک ملاحظہ فرما لینے کے بعد اب اُن کا مخالف قرآن ہونا پڑھئے ۔
قرآن و حدیث
کا مذاق اڑایا
’’عقل پرستی
اور انکار معجزات ‘‘ کے مقدمہ نگار محمد مدنی غیرمقلد (ناظم جامعہ علوم الاثریۃ
جہلم ) لکھتے ہیں:
’’ اب اگر ہم حافظ عنایت اللہ گجراتی
کے ان خیالات کا جائزہ لیتے ہیں جو اُنہوں نے اپنی مختلف کتب میں ظاہر کئے ہیں تو
بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان خیالات کا وجود نہ تو قرآن میں ہے ، نہ حدیث
میں، نہ صحابہ کرام ؓ کے اقوال میں، نہ فقہاء کی فقہ میں اور نہ محدثین ہی کی آراء
میں بلکہ پوری تاریخ ِ اسلام اس قسم کے آراء اور قیاس سے خالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے
کہ یہ محض ان کے یا چند جدّت پسند لوگوں کے اپنے خود ساختہ خیالات ہیں جن کا اسلام
سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان خیالات سے قرآن کی توہین ہوئی ہے اور قرآن وحدیث کا
مذاق اڑایا گیا ہے۔ قرآن پاک کی تحریف کو تفسیر کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی
قدرت و طاقت کے انکار کو انبیاء کی عصمت قرار دیا ہے بلکہ نیک اور صلحاء لوگوں پر
تہمت لگا کر اُسے ان کی پاکیزگی قرار دیا ہے۔ ام المؤمنین حضرت مریم صدیقہ طاہرہ
جن کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ وہ جنت میں میری بیوی
ہوگی۔ نام نہاد یوسف نجار نامی شخص سے نکاح کا تصور دے کر قرآن وحدیث، اللہ ،اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے ۔ ‘‘
( تقدیم
: عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۱۷، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم
جنوری ؍۱۹۹۸ء )
قرآن و حدیث
سے ثابت واقعہ کو ’’ بہت بڑا اتہام ‘‘ قرار دینا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حضرت عیسیٰ بن مریم کی بن باپ پیدائش
کا واقعہ ایسا ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع
ثابت ہے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کو تین مقامات پر آیۃ اور آیۃ للناس فرما کر واضح
کر دیا کہ یہ خرق عادت واقعہ اللہ کی قدرت کا ملہ کا اظہار ہے جو فوقتاً فوقتاً
اللہ تعالیٰ کسی مصلحت کے تحت کرتے رہتے ہیں مگر آپ [ عنایت اللہ اثری غیرمقلد
(ناقل )] اسی واقعہ کو حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر بہت بڑا اتہام سمجھتے ہیں۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۵، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
قرآن و حدیث
پر ہاتھ صاف
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اصل بات یہ ہے کہ جس طرح منکرین
حدیث احادیث کی رُکاوٹ کو دُور کر کے قرآن کی من مانی تاویلات کرتے ہیں اور اس
سلسلہ میں لغت پر انحصار کرکے دُور اَز کار مجازی اور کنائی معنیٰ تلاش کرکے قرآن
کو بازیچہ اطفال بنا دیتے ہیں اور فی الحقیقت وہ منکر حدیث ہی نہیں بلکہ منکرقرآن
بھی بن جاتے ہیں،بالکل یہی حربے جناب حافظ اثری صاحب بھی استعمال کرتے ہیں۔ فرق
صرف یہ ہے کہ منکرین حدیث تو صرف قرآن پر ہاتھ صاف کرتے ہیں جب کہ اثری صاحب کو
اثری کہلانے کی بناء پر دوہری محنت کرنی پڑگئی ہے اوروہ قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث
پر بھی ہاتھ صاف کرتے جاتے ہیں لیکن آپ کی اثریت کچھ ایسی مضبوط قسم کی ہے کہ اس
میں پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور یہ بات ہم صرف زبانی ہی نہیں کہتے بلکہ ہمارے
اس دعویٰ کے کئی جیتے جاگتے ثبوت آپ کو اس کتاب میں مل جائیں گے ۔یہاں تفصیل کا
موقع نہیں۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۹، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
زیغ قلب کا
شکار ،جس سے بچنے کی قرآن میں تعلیم ہے
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اسلام لانے کے بعد بھی چوں کہ
اندازِ فکر میں تبدیلی یا دل میں ٹیڑھ پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے لہذا مسلمانوں
کو بالخصوص یہ دُعا سکھائی گئی کہ: ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا، اے ہمارے
پرودرگار ! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا
کردینا۔ ہمارے خیال میں جناب اثری صاحب بھی اسی زیغ قلب، ہٹ دھرمی اور انداز فکر
میں تبدیلی کا شکار ہو گئے تھے۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آپ کے انداز فکر
میں یہ تبدیلی بتدریج واقع ہوئی۔بالآخر وہ اس ہٹ دھرمی میں اتنے متشدد ہو گئے اور
قرآنی آیات کی ایسی عجیب و غریب تاویلیں پیش کیں کہ منکرین حدیث کو بھی مات کر
دیا۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۳۳، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآن کی
بجائے بائیبل اوریہود سے دلیل لینا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عیسی کی پیدائش کا ذِکر تو قرآن
میں چل ہی رہا ہے لیکن حضرت مریم کے نکاح کا سراغ تک نہیں ملتا ۔ اثری صاحب کے اس
ذہن کا ماخذ بائیبل یا یہود تو ہو سکتے ہیں قرآن و حدیث یا اسلامی روایات ہرگز
نہیں جیسے کہ آپ نے خود بھی اعتراف فرمایا ہے کہ ’’ یہود اب بھی دنیا میں موجود
ہیں اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں اُن سے دریافت کر لیا جائے کہ انہوں نے کیا
اعتراض کیا تھا؟ آیا یہ اعتراض کیا تھا کہ اس نے شادی نہیں کی اور بچہ پیدا کر لیا
ہے جو کہ ناجائز ہے یا یہ اعتراض تھا کہ اس نے موجود ہ شریعت کے خلاف شادی کی ہے
جس سے یہ بچہ پیدا ہوا ہے ۔ (ع ص ۱۷) ہم اس مقام پر اس بات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ
یہود یا یہودی لٹریچر سے بھی شادی ثابت نہیں ہوسکتی اور اس بات سے بھی کہ ازروئے
قرآن اُن کا اصل اعتراض کیا تھا۔ یہاں صرف یہ بات ملحوظ رہے کہ لنجعلہ میں ہ کی ضمیر کا
مرجع نکاح قرار دینا اثری صاحب نے یہود اور ان کے لٹریچر سے اخذ کیا ہے ۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۸۰، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآنی آیت کو
تضحیک کا نشانہ
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ سرسید کی بات کہ’’ وہزی
الیک سے لے کر انسیا تک (یعنی
آیت ۲۴، ۲۵، ۲۶ )کسی انسان کا کلام ہے ، فرشتہ کا نہیں ‘‘ برحق ثابت کرنے کے لیے
اور یہ بات واضح کرنے کے لیے کہ یہ کلام درخت کے مالک کا ہے۔اثری صاحب نے قرآن کی
مذکورہ آیت کو بھی کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۸۸، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآن کی
عبارت کی اصلاح
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد’’ قرآن کی
عبارت کی اصلاح ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ اثری صاحب نے یہاں ایک اور نکتہ
بھی بیان فرما دیا۔کہتے ہیں کہ اگر عیسیٰ مشار الیہ ہوتے تو قرآن کی عبارت یوں
ہونی چاہیے تھی کہ کیف یکلمنا وھو فی المھد صبی ، کہ وہ بچہ جو گود میں ہے
ہمارے اعتراض کا کیسے جواب دے سکتا ہے ۔ گویا تکلم کا معنی بہرحال اعتراض کا جواب
دینا ہی ہے ، بات کرنا نہیں ۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۹۵، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
تلاعب
بالقرآن
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد’’ تلاعب
بالقرآن ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ فاشارت
الیہ ... اور قال
انی عبد اللّٰہ ... دونوں
متصل آیات ہیں اور دوسری آیت میں فاشارت الیہ کی تعمیل ہے لیکن اثری صاحب قاری کے
ذہن کو منتشر کرنے اور اسے دھوکہ دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ فاشارت
الیہ کی تشریح تو
صفحہ۱۴۸ پہ بیان فرماتے ہیں اور قال انی عبد اللّٰہ ... کی
تشریح درمیان میں کئی دوسری بحثیں لانے کے بعد ص ۱۴۸ پر درج فرماتے ہیں غور
فرمائیے کوئی خدا سے خوف رکھنے والا شخص ایسا کام کر سکتا ہے لیکن اثری صاحب اپنی
بات کی پچ میں آ کر ہر طرح کے ناجائز حربے استعمال کر جاتے ہیں۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۹۷، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآن سے
ہدایت لینے کی بجائے اس میں من مانی
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عام مسلمان قرآن سے ہدایت پاتے ہیں
اور ربط آیات سے جو (بات ) سمجھ آتی ہے اسے تسلیم کرتے ہیں مگر جن لوگوں کے ز اویہ
نظر میں تبدیلی ہو جاتی ہے اور ان کے دل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں وہ ربط آیات کا سلسلہ
منقطع کرکے کج بحثی شروع کر دیتے ہیں۔ وہ قرآن سے ہدایت نہیں لیتے بلکہ اس سے اپنا
مطلب کشید کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور یہی وہ مشکل ہے جس نے سرسید ، امام
الدین گجراتی اور حافظ اثری سب کو ان باتوں پر مجبور کردیا۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۹۷، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
اللہ کو اپنے
ضابطہ کا پابند بنانے کے لیے مستعد
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اب بات یوں ہوئی کہ نہ تو اللہ کو
حضرت عیسیٰ کے باپ کا علم تھا، نہ حضرت عیسیٰ کو ،نیز حضرت مریم نے شوہر کو شوہر
سمجھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ اب اگر علم ہوا تو اثری صاحب اور ان کے ہم خیالوں کو جو
ضابطہ الہی کے ٹھیکے دار اور اللہ تعالیٰ کو اپنے ضابطہ کا پابند بنانے کے لئے
مستعد ہو رہے ہیں۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۱۰۹، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآن کے مقابلہ
میں اناجیل کو ترجیح
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد’’ قرآن کے
مقابلہ میں اناجیل کو ترجیح ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ ان کے علم میں ماخذا گر ہے تو
انجیل جو یوسف کو منہ بولا باپ ہی تسلیم کرتی ہے۔ حقیقی باپ وہ بھی تسلیم نہیں
کرتی۔ لیکن اثری صاحب کا ان اناجیل پر اتنا پختہ یقین ہے کہ آپ فرماتے ہیں :’’
لیکن جسے اس کے باپ کا نسب نامہ ٹھیک طور پر معلوم ہے اور اسے اس پر اعتماد ہے تو
وہ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ کی بنا پر اسے باپ کی طرف سے ہی ابراہیم کی طرف منسوب
کرے گا جیسے کہ وہ ماں کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ( ع ص ۵۶) ... اثری صاحب کے اس
اقتباس کی پیچیدگی تب دُور ہوتی ہے یعنی جن لوگوں کو عیسیٰ کے باپ ہونے پر اعتماد
ہے وہ قرآن کریم کے ظاہری الفاظ کی پروا نہ کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ کو باپ کی طرف سے
بھی ابراہیم ؑ کی طرف منسوب کریں گے جیسے وہ ماں کی طرف سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ہے
ان لوگوں کا قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا طریق ۔‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۱۰۹، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
قرآن و حدیث
کی در گت !!!
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ پھر قرآن و حدیث کی جو در گت آپ
بناتے ہیں ان کی بھی بہت سی مثالیں ہم پیش کرچکے ہیں ۔قرآن کی من مانی تاویل آپ کے
دائیں ہاتھ کاکھیل ہے ۔ رہی حدیث تواس سے انکار کے لیے آپ کو اتنا بھی کافی ہے کہ
اس حدیث کا رفع ثابت نہیں لہذا صحیح کیسے ہوئی یعنی تابعین کا قول تو در کنار آپ
کسی صحابی کا قول بھی موقوف کہہ کر رد کر دیتے ہیں تو پھر کون سے قرآن وحدیث سے آپ
کو ثبوت کی ضرورت ہے؟ ان سب باتوں کے باوجود آپ ماشاء اللہ اہلِ حدیث بھی پکے ہیں
اور آپ کی اثریت میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۱۳۶، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
قرآن و حدیث سے کھیل
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث
کا نام غیر شعوری طور پر آپ کے زبان و قلم سے نکل جاتا ہے کیوں کہ قرآن و حدیث جو
ہمارے پاس موجود ہے وہ تو انہیں صحابہ کرام اور تابعین کی وساطت سے ملا ہے۔ اورجو
کچھ صحابہ ؓ نے قرآن سے سمجھا وہی ذہن آگے امت کو منتقل کیا۔ اب اگر صحابہ کرام کے
ارشادات کو ہی’’ غیر نبیوں کا بیان ناقابلِ حجت ہے ‘‘ کہہ کر تسلیم نہ کیا جائے تو
پھر آخر منکرین حدیث کا اور زیادہ کیا قصور ہے؟ البتہ یہ فرق ضرور رَہ جاتا ہے کہ
منکرین حدیث صحابہ کے اقوال و ارشادات کو ناقابل اعتماد قرار دے کر صرف قرآن سے
کھیلتے ہیں اور اثری صاحب اقوالِ صحابہ کو ناقابل اعتماد قرار دے کر قرآن وحدیث
دونوں سے کھیلتے ہیں ۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۱۴۱، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء )
تنبیہ: ’’ غیر
نبیوں کا بیان ناقابلِ حجت ہے ‘‘ یہ صرف عنایت اللہ اثری کا نظریہ نہیں بلکہ قریبا
ً سارے غیرمقلدین کا ہے۔ جو چاہے ہم سے اس کے حوالہ جات طلب کر سکتا ہے ۔
قرآن کی
باتیں فرضی ہیں!!
عنایت اللہ
اثری نے لکھا:’’ یہ سب فرضی باتیں ہیں ۔ ‘‘ اس پر مولانا عبد الرحمن کیلانی
غیرمقلدنے یوں تبصرہ کیا:
’’ یہ جو قرآن کریم میں یہود کے بہتان
عظیم بچہ کے متعلق شیاء فریا اور حضرت مریم کے متعلق امراء سوء اور امک بغیا کے
لفظ آئے ہیں یہ سب فرضی باتیں ہیں ان کا واقعہ کی حقیقت سے کچھ تعلق نہیں ۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۱۶۷، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآنی مضمون میں ہیر پھیر کرنے کی جسارت
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قرآن میں اکثر مقامات پر جہاں آدم
کی پیدائش کا ذِکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی حوا کی پیدائش کا بھی ذِکر آیا ہے چنانچہ
اس سلسلہ میں ہم سورہ نساء کی پہلی آیت درج کرکے اس پر تبصرہ پیش کر چکے ہیں۔ یہ
آیت اپنے مفہوم میں بالکل صاف ہے کہ حوا آدم کے جسم سے پیدا ہوئیں تھیں ،پھر
احادیث اس کی وضاحت یوں کرتی ہیں کہ حوا کی پیدائش آدم کی پسلی سے ہوئی لیکن چوں
کہ خرق عادت ہے لہذ احافظ صاحب کو کیوں کر گوارا ہو سکتی تھی ۔ تاہم آپ کو ان آیات
یا احادیث میں تاویل کرنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی، صرف چند الفاظ کے اضافہ یا
تھوڑے سے ہیر پھیر نے مسئلہ حل کر دیا۔ ‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ۱۸۳، مکتبۃ السلام و سن پورہ لاہور ، طبع دوم جنوری ؍۱۹۹۸ء)
قرآن کے ساتھ
ستم ظریفی
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد نے شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد کے متعلق لکھا:
’’ وفدینہ بذبح
عظیم کا ٹھیک
اَثری ترجمہ اور تعبیر یہ ہے کہ ’’ کوئی بہتر سے بہتر اُضحیہ لے کر ذبح کر دے ‘‘ گویا
عظیم کا معنیٰ ہے ’’ بہتر سے بہتر ‘‘ اور ذبح کا معنیٰ ہے ’’اُضحیہ ‘ اور فدینہ کا معنیٰ ’’ ہم نے فدیہ دے کر
اسمعیل کو چھڑا لیا ‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’ تو ذبح کر دے ‘‘ ہے ۔گویا اَثری صاحب نے (ا) فدینا کا معنیٰ ذبح کرنا کیا (ب) ماضی کے
فعل کو اَمر میں بدلا ( ج ) جمع متکلم کے صیغے کو واحد مخاطب میں بدلا۔ ان بلا جواز
تبدیلیوں کے بعد آپ نے جو ٹھیک تعبیر بر آمد فرمائی ہے، یہ قرآن کے ساتھ ستم ظریفی
نہیں تو اَور کیا ہے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۱۳)
قرآنی الفاظ کا مطلب اُلٹ دیا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد ’’
اثری صاحب کا اللہ تعالیٰ، حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل سب پر اتہام ‘‘ عنوان
قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ اَب دیکھئے کہ اَثری صاحب نے اس
مخترعہ ڈرامہ میں اللہ تعالیٰ پر تو یہ اتہام لگایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان ھذا لھو البلاء المبین کہ اس میں
باپ بیٹا دونوں کی صریح ازمائش تھی یعنی باپ کو یہ یقین تھا کہ میں نے خدا کے حکم
کے تحت اپنے پیارے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرکے قربانی کر دینا ہے۔ اسمعیل
ؑ کو یہ یقین تھا کہ میں نے ذبح ہو کر ختم ہو جانا ہے۔باپ بیٹے کے اس یقین ہی پر
اللہ تعالیٰ نے اسے بلاء مبین کہا ۔ لیکن اثری صاحب اللہ تعالیٰ اور دونوں انبیاء
کی نیت پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’جس قانون اور علم کی بنا پر اس کے
ذبح کرنے کے لیے اللہ پاک کا ارادہ اور حکم نہیں تھا۔اس سے ابراہیم علیہ الصلوۃ
والسلام کو بھی اس نے آگاہ فرمادیا ہوا تھا ( گویا یہ بتلادیا تھا کہ صرف گلے پر
چھری رکھنی ہے ، ذبح نہیں کرنا ) اس کے خلاف (یعنی اسمعیلؑ کے ذبح ہونے اور کرنے
دونوں کے خلاف نہ کوئی ابتلائی حکم ہے اور نہ اس کی تعمیل کی کوئی تیاری ۔ ‘‘ ( ب
۱۴۵) غور فرمایا آپ نے عصمت ِ انبیاء بیان کرنے کی آڑ میں انبیاء کی نیتوں پر کس
قدر رکیک حملے کئے جا رہے ہیں۔ تاویل کا دھند ا تو دوسرے بھی بہت لوگ کرتے رہے اور
کرتے رہیں گے مگر قرآنی آیت کے الفاظ کے علی الرغم بالکل اس کا اُلٹ مطلب بیان
کرکے ساتھ یہ بھی کہہ دینا کہ ٹھیک اس کا مطلب یا اس کی تعبیر یہ ہے ۔ یہ بس اثری صاحب
ہی کا حصہ ہے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۱۳)
قرآن سے کھیل
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلدنے اَثری صاحب
کی بابت لکھا :
’’قرآن کے ساتھ کھیلنے کا جیسا حق
قبلہ حافظ صاحب کو ہے ویسا زید کو بھی ہے ، پھر قرآن کا جو حشر ہو سکتا ہے وہ سب
سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ: ۲۲۶)
نص ِقرآن کے خلاف تاویل
شیخ عنایت
اللہ اَثری غیرمقلد نے سیدنا یوسف علیہ السلا م کے قصہ میں لکھا:
’’ برا دران یوسف ابھی ضیافت ہی اُڑا
رہے تھے کہ تلاشی لینے والے آن پہنچے اور فریقین میں گفتگو شروع ہو گئی ۔‘‘
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ اَثری صاحب کی علیحدہ اپنے کمرہ
میں ضیافت اُڑانے اور وہیں تلاشی لینے والوں کے آپہنچنے والی تاویل اس لحاظ سے غلط
قرار پاتی ہے کہ جب برادران یوسف اس واقعہ کے بعد واپس کنعان جاتے ہیں تو اپنے باپ
کو اس چوری کی یقین دہانی یوں کراتے ہیں کہ: واسئل القریۃ التی کنا فیھا والعیر التی اقبلنا فیھا
وانا لصدقون ... اور جس
بستی میں ہم تھے وہاں سے ( یعنی اہلِ مصر سے ) اور جس قافلے میں ہم آئے ہیں اسی
قافلہ سے دریافت کر لیجئے اور ہم (اس بیان میں) سچے ہیں ۔ اگر تلاشی کی واردات
کمرہ ضیافت میں ہوئی ہوتی تو برادران یوسف کو والعیرالتی اقبلنا کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ‘‘
(حاشیہ : عقل پرستی اور انکار
معجزات صفحہ ۲۲۶)
قرآنی الفاظ
’’ وابیضت عیناہ...اور... فَارْتَدَّ بَصِیْرًا ‘‘کی مخالفت
شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد نے دعویٰ
کیا کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں بے نور نہیں ہوئی تھیں، صرف نگاہ کمزور
ہوئی تھی ۔ اس پر مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’ نگاہ کچھ
کمزور ہوگئی ہوگی ۔‘‘ حالاں کہ ابیضت کا معنیٰ سفید ہونا یا بے نور ہونا ہے ۔اندھا ہونا ( کہ
آنکھیں بند ہو جائیں ) یا کمزور ہونا نہیں ۔قرآن کریم کی درج ذیل آیت بھی ان معانی
کی ہی تائید کر رہی ہے : فلما ٓان جآء البشیر القہ علی وجھہ فارتد بصیرا ... پھر جب
خوش خبری دینے والا آ پہنچا تو کرتہ یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا جس سے وہ بینا ہو
گئے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب ؑ کی آنکھیں کمزور نہیں بلکہ بے نور ہو
گئی تھیں ۔لیکن حافظ صاحب یہاں بھی اپنی عادت سے باز نہیں آئے۔ لکھتے ہیں:’’ ان کے
ہاتھ والد صاحب کے لیے ایک کرتہ بھی سلوا کر اپنی طرف سے بھیج دیا تاکہ وہ اسے پہن
کر خوش ہوں اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔‘‘ ( ص ۱۸۰)گویا فارتد بصیرا کا معنی ’’ وہ بینا ہوگیا ‘‘ کے بجائے یہ ہدایت ہے کہ
’’ آپ اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں‘‘ یہ ترجمہ غالباً آپ کو اس لیے کرنا پڑا ہے کہ
کُرتہ کے منہ پر ڈالنے سے کسی بے نور اور اندھے کا بینا ہو جانا ایک خرق عادت امر
ہے جو آپ کسی صورت ماننے کو تیار نہیں۔ اس مقام پر آپ کو اللہ پاک کی قدرت کاملہ
بھی یاد نہیں آئی ۔ اور ایک تو فعل ماضی کا ترجمہ فعل امر میں منتقل کر دیا۔ دوسرے
لغوی معنیٰ کا بھی ستیاناس کر دیا ۔تیسرے قرآنی آیات کا مفہوم بدل دیا اور بزعم خویش
ایک نبی کی عصمت بیان کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۲۹)
قصہ موسی و خضر ...اور ...اثری صاحب کی طرف سے
کتاب و سنت کی مخالفت کا ایک نمونہ
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اَب دیکھئے کتاب و سنت کی اس وضاحت
سے دو باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں : ۱۔مردہ مچھلی کا زندہ ہونا اور (۲)
دریامیں سرنگ کی طرح راستہ بنانا۔ اور یہ دونوں باتیں چوں کہ خرقِ عادت ہیں۔لہذا
اثری صاحب اہلِ حدیث کہلانے کے باوجود ان دونوں باتوں کے منکر ہیں اور جس طرح
تاویلات کے سہارے لینے شروع کر دئیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں....‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۲۳۱)
تنبیہ: کیلانی صاحب
کی اس عبارت میں اعتراف موجود ہے کہ عنایت اللہ اثری صاحب اہلِ حدیث کہلواتے تھے۔
کیلانی صاحب نے دوسری جگہ خوداَثری صاحب کا اقرار ’’ میں بفضلہ اہلِ حدیث ہوں ‘‘ نقل کیا۔
( عقل پرستی
اور انکار معجزات صفحہ۲۳۳)
کیلانی صاحب
نے اَثری صاحب کی ایک عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ گویا آپ نے اہلِ حدیث ہونے کی رعایت سے مد و
جزر والی بات کو ٹھیک نہیں سمجھا۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۳۳)
فائدہ: جس طرح غیرمقلدین
اپنی تاریخ کو مقدم جتلانے کے لیے ماضی کی کئی شخصیات کو ’’ اہلِ حدیث ‘‘ باور
کراتے ہیں ۔اسی طرح شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد بھی بہت پیچھے چلے گئے اور سیدنا
موسیٰ علیہ السلام کے دَورمیں بزعم ِ خود ایک اہلِ حدیث ڈھونڈ نکالا۔ان کے الفاظ
ملاحظہ ہوں:
’’ اِدھر سامری نے موقع پا کر
اسرائیلیوں میں ایک بچھڑا کھڑا کر دیا تاکہ وہ اس کی پرستش کریں۔ یہ شخص پہلے بہ
ظاہر اہلِ حدیث کہلاتا تھا اور موسوی حدیثوں اور فرامین پر عامل تھا مگر بعد میں
بچھڑے کی طرف متوجہ ہو کر گدی نشینی شروع کر دی اور عبد اللہ چکڑالوی کی طرح حدیث
نبوی کا منکر ہو کر مرتد ہوگیا۔ ‘‘
( ب صفحہ ۲۱۷ بحوالہ عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۰)
’’ب ‘‘ سے
مراد شاید اثری صاحب کی کتاب ’’ بیان المختار ‘‘ ہے۔
یاد رہے کہ
عبد اللہ چکڑالوی بھی پہلے اس گروہ میں سے تھا جو خود کو اہلِ حدیث کہلواتے ہیں۔
قرآن و حدیث
کی صریح مخالفت کا ارتکاب
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اَب دیکھئے کہ اثری صاحب کس طرح خضر
کو ایک عام آدمی یا علاقہ مجسٹریٹ کی سطح پر لے آئے ہیں۔ اس سے اِعجازی حیثیت تو
ختم ہو گئی مگر افسوس ہے کہ آپ کی اس تعبیر کا نہ قرآن ساتھ دیتا ہے، نہ حدیث۔
حدیث کا جس طرح آپ نے صریح انکار کیا ہے وہ آپ دیکھ چکے۔ اب دیکھئے کہ جس شخص کے
پاس اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم
نے اپنی طرف سے علم بخشا تھا اور خضر ؑ نے خود بھی موسیٰ کو فرمایا تھا کہ مجھے
ایک ایسا علم دیا گیا ہے جو آپ کو نہیں دیا گیا۔ کیا یہ تمام باتیں ایک عام آدمی
یا مجسٹریٹ سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ اللہ پاک تو ان یتیموں کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’ وہ بڑے ہو کر باپ کر خزانہ نکال لیں گے ۔ ‘‘ اور اثری صاحب یہ فرماتے ہیں کہ
میں ان لڑکوں کا متولی ہوں ’’ جب یہ لڑکے بڑے ہو جائیں گے تو ان کو خزانہ نکال دوں
گا۔ ‘‘ اپنی بات کی بیچ میں آ کر اس طرح قرآن و حدیث کی صریح مخالفت اثری صاحب کا
ہی حصہ ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۳۶)
قرآن و حدیث
کے ظاہری معانی پر عدم اعتماد
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے اثری صاحب
کے متعلق لکھا:
’’غور فرمائیے کس طرح آپ نے باطنی
فرقوں کی طرح ہر لفظ کی تہہ سے معانی نکالنے شروع کر دئیے ہیں ، نہ قرآن و حدیث کے
الفاظ کے ظاہری معانی پر اور نہ ہی کسی لغت کی کتاب پر اعتماد رَہ گیا ہے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۲۳۶)
قصہ یونس کی
قرآنی آیات کے اَصل معانی کو رَد کر دیا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اَب دیکھئے کہ ان آیات میں کئی
باتیں خرق عادت ہیں مثلاً مچھلی کے پیٹ میں جا کر یونس علیہ السلام کا زندہ
رہنا،یونس کامچھلی کے پیٹ میں تسبیح بیان کرنا اور پھر مچھلی کا یونس کو صحیح و
سالم ساحل سمندر پر پھینک دینا اور اسی وقت کدو یا اس جیسے دوسرے درخت کا پیدا ہو
کر ان پر سایہ کرنا۔لہٰذا اِن خوارق ِ عادت اُمور سے انکار کی راہ ہموار کرنے کے
لیے آپ [ عنایت اللہ اثری غیرمقلد ( ناقل )]کو اور بھی بہت سے اَلفاظ کے دُور اَز
کار معانی تلاش کرنے پڑے اور اصل معانی کو اس لئے رَد کر دیا کہ بزعم خود ان کے
خیال میں معروف معنیٰ کرنے سے یونس ؑ کی عصمت داغ دار ہوتی ہے کہ ان کی طرف کئی
خرق عادت واقعات منسوب کیے جار ہے ہیں۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۱)
قرآنی آیت پر
ہاتھ صاف کر دیا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’تیسری آیت جو حضرت یونس ؑ کے وحی کا
حکم ہجرت کا انتظار کئے بغیر نکل کھڑے ہونے پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے : فاصبر
لحکم ربک ولا تکن کصاحب الحوت:(۴۸؍۶۸) ( اے محمد ؐ!) اللہ تعالیٰ کے حکم کے انتظار
میں صبر کرو اور مچھلی والے (حضرت یونس کی طرح بے صبر ) نہ ہو جانا۔ اس آیت پر
اثری صاحب نے یوں ہاتھ صاف کیا کہ ’’ آیت کریمہ کا ٹھیک مطلب یہ ہے کہ آپ دلیر ہو
کر اللہ پاک کے حکموں کی تبلیغ کرتے جائیں۔ ولا تکن
کصاحب الحوت کا مطلب ہے
: آپ کو یونس کی طرح بہت بڑی تکلیف اُٹھانے کی
ضرورت نہیں۔‘‘ غور فرمائیے
قرآن کے کسی لفظ کا معنیٰ آپ کے ٹھیک مطلب کا
ساتھ دیتا ہے ؟‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۱)
آیت کا غلط
ترجمہ کرکے اپنا الو سیدھا کیا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اس میں پہلا معنی درست ہے کیوں کہ
کشتی والوں میں قرعہ اندازی ہو رہی تھی لہذا من المدحضین کا معنی
موقع کے لحاظ سے بنتا ہے۔مات کھا گیا یا مات کھانے والوں سے ہوگیا۔ لیکن اَثری
صاحب نے دوسرا معنی پھسلانا اختیار کیا لیکن اس میں پھسلانے کے بجائے دھکیلنا کرکے
اپنا الو سیدھا کرلیا۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۴)
قرآنی آیات
کا غلط مطلب لینا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے اثری صاحب
کے متعلق لکھا:
’’ فالتقمہ
الحوت کا ترجمہ
فرمایا: آپ کو ایسی خطر ناک جگہ پرپاؤں لٹکا کر بیٹھنا پڑا کہ مچھلیاں آ آ کر آپ
کے پاؤں کو چھونے اور بوسہ دینے لگیں ۔ زندہ باد کیا کہنے ہیں اَثری صاحب کے۔ اللہ
پاک تو ایک مچھلی (حُوْت) کی بات کرتے ہیں لیکن آپ بہت سی مچھلیوں سے یونس ؑ کے
پاؤں کو بوسہ دلوارہے ہیں،منہ کو نہیں دلواتے۔ فرماتے ہیں کہ التقم کے معنی
اگرچہ ابتلاع بھی آتا ہے یعنی کسی چیز کو منہ ڈال کر نگل لیا جائے مگر یہاں صرف
منہ رکھنا ہی مراد ہے۔ (ب۲۴۵) اس لیے کہ یہاں التقم کے معروف
معنی ابتلاع یا نگلنا لئے جائیں تو اثری صاحب کا بنا بنایا کھیل ہی بگڑ جاتا
ہے۔لہذا اثری صاحب کا مشورہ یہ ہے کہ یہاں صرف منہ رکھنا ہی مراد لیا جائے۔اَب اس
سے آگے چلئے التقام کامعنی منہ رکھنے سے بھی بات نہیں بنتی تو بے دریغ اس کا معنی
منہ رکھنے کی بجائے چھونا اور بوسہ دینا بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اب چوں کہ یونس ایک
خطرناک جگہ پر پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں لہذا التقم کے معنی ہوئے حضرت یونس ؑ کے
پاؤں کو چھونا اور بوسہ دینا اور حُوْت کے معنی ہوئے ’’بہت سی مچھلیاں ‘‘ جو شاید
تبرک سمجھ کر یہ فریضہ سر انجام دے رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کو
ذوالنون بھی اور صاحب الحوت بھی اور دونوں کامعنی ایک ہی ہے یعنی مچھلی والا کیوں
کہ آپ کو ایک مچھلی نے نگلا (فالتقمہ الحوت) لیکن اَثری
صاحب اپنے قصہ میں جہا ں بھی ذِکر فرماتے ہیں تو ایک مچھلی کی بجائے کئی مچھلیاں
کا ذِکر فرمانے لگتے ہیں۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۴،۲۴۵)
اَثری نظریہ
کا رَد آیت میں موجود ہے
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اَب دیکھئے! جو آیت اَثری صاحب اپنے
بیان کی تائید میں آخر لا رہے ہیں۔اسی آیت میں اَثری صاحب کا رَد موجود ہے مثلاً:
(۱)اثری صاحب خطرہ ظاہر کر تے ہیں کہ کہیں یونس ؑ مچھلیوں کی خوراک نہ ہوں اور آیت
میں مچھلی کے پیٹ میں جانے کے متعلق کوئی شک و شبہ نہیں۔ خطرہ اگر تھا تو یہ کہ
اگر یونس ؑ تسبیح بیان کرنے والے نہ ہوتے تو قیامت تک اُس کے پیٹ میں رہتے۔ (۲)آیت
میں فی بطنہ ٖ(اس ایک مچھلی کے پیٹ میں ) ہے لیکن اثری صاحب بہت سی
مچھلیوں کی بات کر رہے ہیں۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۲۴۵)
آیت کا ترجمہ
خلاف مزاج تھا تو اسے چھوڑ دیا
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ للبث فی
بطنہٖ (یونس ؑاس
مچھلی کے پیٹ میں رہتے ) اَثری صاحب کے ترجمہ میں نہ ہی ہمیں لبث کا کہیں
ترجمہ یا مفہوم ملا ہے اور نہ بطن کا۔ اور نہ یوم
یبعثون کا ۔ ان
حروف کاترجمہ بیان کرنا آپ کے مخالف پڑتا ہے لہذا دیدہ دانستہ چھوڑ دیا ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۵)
کیلانی صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’ لولا انہ کان من المسبحین للبث فی
بطنہٖ الی یوم یبعثون اگر وہ مچھلی کے پیٹ میں
خدا کی پاکیزگی بیان نہ کرتے تو قیامت تک اس کے
پیٹ میں رہتے۔ سے صاف ظاہر ہے کہ آ پ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے خدا کی پاکیزگی
بیان کرتے رہنے کی برکت سے وہاں سے نکلنے کی صورت اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی۔ ورنہ
تاقیامت مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔اس مفہوم کو آپ [اثری صاحب (ناقل)] نے اپنے بیان سے
حذف کر دیا ۔ پھر آپ ماشاء اللہ اہلِ حدیث بھی ہیں لہذا خود ہی درج ذیل حدیث بھی
فرماتے ہیں ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ ۲۴۶)
کیلانی صاحب
نے اعتراف کیاہے کہ اثری صاحب’’ اہلِ حدیث ‘‘ہیں۔
قرآن وحدیث کی بات تسلیم کرنے کو جی نہیں
چاہا تو!!!
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اب دیکھئے اثری صاحب کو نہ تو حضرت
یونس ؑ کا قرآن کے الفاظ للبث فی بطنہ سے مچھلی کے پیٹ میں جانا ظاہر
ہوتا ہے اور نہ حدیث کے الفاظ اذھو فی بطن الحوت سے ۔ اور
اثری صاحب کی عادت ہے کہ جہاں انہیں انکار کی کوئی وجہ نظر نہ آرہی ہو اور قرآن
وحدیث کی بات تسلیم کرنے کو جی بھی نہ چاہتا ہو تو قاری کو الفاظ کے گورکھ دھندے
میں کچھ اس طرح ڈال دیتے ہیں کہ وہ سر پیٹ کر رہ جائے اور خاک بھی نہ سمجھے۔ اس سے
بھی زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہیے کہ اگر اثری صاحب کو خود اس کی تشریح کرنے کو
کہا جائے تو وہ خود بھی سر تھام کے بیٹھ جائیں ... فرما رہے ہیں کہ فی
بطن الحوت جار مجرور
مل کر ساقط کے متعلق ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ’’ ساقط‘‘ کدھر سے آگیا ؟ اس کے لئے
کوئی دلیل بھی ہے یا فقط آپ کی آرزو کے مطابق ساقط کو محذوف تصور کر لیا جائے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۲۴۷)
کیا قرآن سے
ہدایت حاصل کرنے کا یہی طریق ہے ؟
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’پھر آگے چل کر مزید توضیح فرماتے
ہیں کہ ’’ یونس ؑ بھی اگر مچھلیوں کی خوراک بن کر
ان کے پیٹ میں چلے جاتے تو اللہ پاک انہیں بھی
بر آمد کر الیتا مگر بفضلہٖ تعالیٰ
موصوف کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ،( ایضاص ۲۴۹)ہم حیران ہیں کہ اللہ
تعالیٰ تو ایک مچھلی اور اس کے پیٹ کا ذِکر فرماتے ہیں لیکن اثری صاحب بار بار
مچھلیوں اور ان کے پیٹ کا ذِکر کیوں فرماتے ہیں ۔ خدا تو یوں فرمائے : اگر یونس ؑ
تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اس پیٹ میں پڑے رہتے اور آپ یوں فرمائیں کہ اگر مچھلیوں
کے پیٹ میں چلے جاتے تو بھی خدا انہیں بر آمد کر ا لیتا ۔ کیا قرآن سے ہدایت حاصل
کرنے کا یہی طریق ہے ؟۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۲۴۷)
قرآن کا
مفہوم اوجھل کرنے کے لئے کئی طرح کے جتن
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اَب ایک دوسرے پہلو سے حافظ صاحب کی
اس کاوش اور محنت کو داد دیجئے جس کی بنا پر انہوں نے ابق ، ساھم
، مدحضین، التقام، حوت، مسبح، نادی، ظلمت، سقیم غرض یہ کہ تقریبا تمام الفاظ کے
معروف معنی سے گریز اور بعض دفعہ مجازی اور کنائی معنی اختیار کئے اور بعض دفعہ
غلط معنی کر لئے۔ پھر بھی بات نہ بنی تو آیات کے تقدیم و تاخیر سے بھی دریغ نہ کیا
اور یہ بار بھی گردن پر اُٹھایا ۔ پھر بھی بات نہ بنی تو کچھ قرآنی الفاظ کے ترجمہ
یا مطلب کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا ۔ اَب حافظ صاحب جن جن حربوں میں اپنی مہم میں
کامیاب ہوئے اور جس حد تک کامیاب ہوئے وہ ظاہر ہے ؟ اورجس قدر امانت و دیانت کے
ساتھ انبیاء کی عصمت بیان ہو رہی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے نعوذ باللّٰہ
من شرور انفسنا ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۲۴۷)
قرآنی دلائل
کے علی الرغم ... ہر مقام پر تاویل
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اَب دیکھئے کہ اثری صاحب جمہور
مفسرین بلکہ قرآنی دلائل کے علی الرغم حضرت یونس کی ہجرت ’’بحکم الہی ‘‘ قرار دیتے
ہیں او راس مفروضہ کی وجہ وہی ایک مشکل یا خرق ِ عادت امر ہے کہ آپ مچھلی کے پیٹ
میں رہنے کے بعد زندہ کیسے نکل آئے ۔ اس مشکل نے آپ کو ہر مقام پر تاویل کے دامن
میں الجھا دیا ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۲۴۸)
طیرا کا معنی
ہوائی جہاز
عنایت
اللہ اثری غیرمقلد نے قرآنی الفاظ ’’ والطیر
محشورۃ ‘‘ کا ترجمہ
’’ طیاروں ہوائی جہازوں کا سلسلہ بھی ہر طرح سے اطمینان بخش تھا کہ وہ اپنے اپنے
اڈوں پر اُتر کر جمع ہوتے تھے ۔ ‘‘کیا۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلدنے اثری
صاحب کی مذکورہ عبارت پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’آپ نے طیر کے معنی ہوائی جہاز کرکے اور
انہیں اپنے اڈوں پر اُتار کر تاریخ سے اپنی لا علمی کا ثبوت مہیا کر دیا ہے کیوں
کہ ہوائی جہاز کی ایجاد ۱۹۰۳ء میں ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کم از کم ہماری اس دنیا میں
نہ کوئی ہوائی جہاز اُڑااور نہ کوئی ہوائی اڈا تعمیر ہوا۔ علاوہ ازیں طیر کے معنی
طیارہ کرنا لغوی لحاظ سے بھی غلط ہے ۔ عربی زبان اثری صاحب کے اجتہاد کی ہرگز
محتاج نہیں وہ اہلِ عرب کی بول چال کے تابع ہے اگر کوئی لغت ایسی ہے تو اثری صاحب
کو اس کا حوالہ پیش کرنا چاہیے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات
صفحہ۲۵۰)
قرآن کا مضمون اپنے خلاف پاکر
فرار کے بہانے
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے شیخ عنایت
اللہ اثری غیرمقلد کے متعلق لکھا:
’’اَب دیکھئے ! پرندوں اور پہاڑوں کا تسبیح بیان کرنا۔حضرت
داود کی تسبیح کے ساتھ ہم نوا ہوجانا، پرندوں کا حضرت داود کے گرد جمع ہونا یہ سب
باتیں عقل کے خلاف معلوم ہوتی ہیں لہذا ان کا اثری مفہوم ملاحظہ فرمائیے :
انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق والطیر محشورۃ کل لہ اواب... پہاڑوں
کی کھدائی اور سنگ تراشی کا بہت بڑے شاہی پیمانے پر کام ہوتا تھا تمام کاریگر اپنے
کارخانوں میں اورکلرک اپنے اپنے دفتروں میں اور جج اپنے اپنے محکموں میں اور فوجی
اپنی سراؤں اور چھاؤنیوں میں اور پولیس اپنی اپنی چوکیوں میں با ضابطہ کام کرتے
تھے۔ اور طیاروں ،ہوائی جہازوں کا سلسلہ بھی ہر طرح سے اطمینان بخش تھا کہ وہ اپنے
اپنے اڈوں پر اُتر کر جمع ہوتے تھے۔ ‘‘ اَب اس اثری مفہوم میں پہاڑوں کی کھدائی
اور سنگ تراشی یا کارخانوں کے کلرک، چھاؤنیوں کے فوجی اور پولیس افسر قرآن کے کس
لفظ کے معنی ہو سکتے ہیں یاکس لفظ سے یہ معنی مستنبط ہو سکتے ہیں؟ یہ تو اَثری
صاحب یا ان کے شاگردہی بتلا سکتے ہیں ۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ
اثری صاحب فرما رہے ہیں ۔ وہ سب ان کا اپنا بیان ہے جس کا قرآن کی مندرجہ آیت سے
اگر کچھ تعلق ہے تو اس قدر کہ اس اثری بیان میں جبال کا ترجمہ پہاڑ بھی آگیا ہے ۔
‘‘
(عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۲۵۰)
لحن ِداودی کا انکار ... اور...
الٹی سیدھی تاویلات
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اثری صاحب کا دعوی ہے کہ وہ انبیاء و صالحین کے محاسن
بیان فرما کر ان کی تحمید یا ان پر صلوۃ بھیجتے ہیں کیالحن داودی کا شمار محاسن
میں نہیں ہو سکتا ؟ اسی لحن داودی اور خوش الحانی کو اللہ تعالیٰ نے حضرت داود کی
فضیلت بتایا ہے تو اثری صاحب کویہ فضیلت بیان کرنے سے گھٹن کیوں محسوس ہوتی ہے اور
اس کی الٹی سیدھی تاویلات پر اُتر آتے ہیں ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ۲۵۰)
سیدنا سلیمان علیہ السلام کی دعا پہ اعتراض
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اَب دیکھئے ! اثری صاحب کو حضرت سلیمان ؑ کی اس دعا پر یہ
اعتراض ہے کہ انہوں نے ایسی بادشاہی کیوں طلب کی جو دوسروں کو سزا وار نہ ہو کہ یہ
اللہ کی وسیع رحمت میں بندش ہے لہذا شانِ نبوت کے خلاف ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ
ہر نبی کو چند ایسی باتیں یا معجزات عطاء ہوئے جو دوسروں کو نہیں ہوئے ۔ اور یہ
خرق ِ عادت امور کبھی تو نبی کے طلب کرنے پر عطاء ہوئے اور کبھی بلا طلب ملے ۔ پھر
اگر سلیمان نے یہ دعا کی تھی اور خدا نے وہ دعا منظور بھی فرما لی تو اس میں کسی
کو گھٹن کیوں محسوس ہو؟ چنانچہ اثری صاحب لا ینبغی لاحد من بعدی کی تفسیر یوں
فرماتے ہیں کہ لاینبغی لاحد ان یُفسد فیہ من بعدی یعنی میں اپنے ملک میں اسلامیات
کو لازم قرار دے کر اس کی اصلاح کر چکا ہوں ۔اب کوئی شخص میری اصلاح کے بعد فساد
اوربے چینی نہ پھیلا سکے ۔‘‘ (ص ۲۸۲)اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اثری صاحب کی اس
تفسیر کی کوئی بنیاد بھی ہے ؟ کیا اس تفسیر کے لئے وہ کوئی دلیل پیش فرما سکتے
ہیں۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ۲۵۲)
دعائے سیدنا سلیمان علیہ السلام
کی غلط تفسیر
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد آگے لکھتے ہیں:
’’پھراس تفسیر پر غالبا ًآپ خود بھی مطمئن نظر نہیں
آتے۔لہٰذا ایک دوسرا مطلب بھی پیش فرماتے ہیں کہ ’’خدایا ! میری توجہ کسی ایسے شان
دار ملک کی طرف پھیر جس کی طرف کوئی بڑے سے بڑا تاک لگائے بیٹھا ہے کہ اسے فتح کر
لے مگر اس سے پہلے میں فاتح ہوکر اسے دار الاسلام بناؤں ،پھروہ میرے فتح کے پیچھے
اس سے بالکل مایوس ہو جائے ۔‘‘ (ص ۲۸۲) اس مطلب کے بیان کرتے وقت غالباً ملک سبا
آپ کے پیشِ نظر تھا۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑا کون تھا جو
آپ سے پہلے اس ملک کی تاک لگائے بیٹھا تھا ؟ تاریخ سے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔
سلیمان ؒ کی فرمانروائی کا زمانہ ۹۶۵ ق م سے لے کر ۹۹۶ ق م تک تقریباً ۴۰ سال ہے ۔
اس دَور میں اہلِ سبا کی حکومت بڑی متمدن اور بڑی مال دار تھی اور ملکہ سبا کی
حکومت جنوبی یمن، حضرموت اور حبشہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ ذرائع آب پاشی کی خاطر انہوں
نے بڑے بڑے بند تعمیر کئے تھے لیکن اس دَور میں کسی ایسی بڑی حکومت کا سراغ نہیں
ملتا جو سبا پرتاک لگائے بیٹھی ہو اور حضرت سلیمان سے پہلے اسے فتح کرنے کے خواہش
مند ہو مگر اثری صاحب کو ایسی تاریخی باتوں سے کیا سروکار ؟‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ۲۵۲)
قرآنی معجزے تسخیر ہوا کا انکار
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اور سلیمان ؑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہوا کو جو مسخر کیا
تھا تو اس کے متعلق [اثری صاحب نے (ناقل )]فرمایا:’’ اور ہم نے ایسے تیز رفتار
ہوائی جہازوں کا بھی اضافہ کر دیا جو دو مہینوں کے پیدل سفر کی آمد ورفت تک کی
مقدار تک کسی طرف جہاز پہلے پہر روانہ ہوتے تو اسی دن پچھلے پہر واپس بھی ہوائی
اڈے پر اُتر آتے ۔ (ب صفحہ ۲۹۲) بتلائیے اس مطلب میں تجری بامرہ یعنی ہوا سلیمان ؑ
کے حکم سے چلتی تھی ‘‘ کا شائبہ تک بھی ملتا ہے ۔ ہوائی جہازوں کو ان کے اڈوں سے
چڑھا کر اور اُتار کر آپ نے سلیمان ؑ کی اعجازی حیثیت کو تو ختم کر دیا اور غالباً
ان کی عصمت بیان کر دی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دَور میں ہوائی جہاز ایجاد ہو
چکے تھے یا ان کے اڈے تعمیر ہو چکے تھے؟ اگر ایسی صورت ہو پھر عام لوگ بھی یقینا
ہوائی سفر کرتے ہوں گے ۔پھر اس میں حضرت سلیمان ؑ کی کیا خصوصیت رہی اوران پر
بالخصوص انعامِ الہی کیا ہوا؟ لیکن اثری صاحب تو اس زمانہ میں جمہوری انتخابات بھی
کروا سکتے ہیں ۔اگر ہوائی جہاز اڑا دئیے تو پھر کیا ہوا ؟۔‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۲۵۳)
اس عبارت میں ’’ ان کی عصمت بیان کردی
‘‘ جملہ کی وضاحت اس طرح ہے کہ اثری صاحب کہتے ہیں کہ لوگوں نے انبیاء کی طرف ایسے
امور(معجزات ) منسوب کئے جو اُن کی عصمت کے خلاف ہیں اور میں ان کی عصمت کا دفاع
کر رہا ہوں ۔ اسی تناظر میں کیلانی نے کہا انہوں نے اپنے زعم میں عصمت بیان کر دی
۔ یعنی یہ بطور الزام کہا ہے ۔ کیلانی صاحب کی اس عبارت سے تاثر ملتا ہے کہ کبھی
الزامی کی صراحت کے بغیر بھی الزامی بات کہہ دی جاتی ہے ۔
جنات کی تسخیر اور اثری صاحب
شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اور مجرموں کے لیے جیلوں اور گرفتاریوں کاسلسلہ بھی بہت
پختہ کر دیا ‘‘ ( ب صفحہ ۲۹۲)[یہ غالباً والشیطین کل بناء و غواص وآخرین مقرنین فی
الاصفادکی تفسیر شروع ہو رہی ہے ( کیلانی ) ]علاوہ اس کے لوہا ، تانبہ ، پیتل ،
قلعی، شیشہ، سکہ ، چاندی ،سونا وغیرہ دھاتوں کے پگھلانے اور مختلف چیزوں کے بنانے
کے لیے علیحدہ علیحدہ کار خانے جاری کرائے۔جن میں زیور، برتن، تلوار،چھری، چاقو و
دیگر سامان ِ ضرورت و حرب ، نقشہ جات کے مطابق تیار ہوتا اورتعمیری انجینئروں کا
کام بھی نقشوں کے مطابق ہوا کرتا تھا اور غوطہ زنی سے دریائی چیزوں کو حاصل کرنے
کا بھی انتظام موجود تھا ۔‘‘
( صفحہ ۲۹۲)
کیلانی صاحب
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ معمار اور غوطہ زن
کون لوگ تھے ؟ قرآن نے ان کی جنس بتلا دی ہے کہ وہ جن تھے تو پھر اثری صاحب کو یہ
بتلاتے ہوئے کیوں جھجھک محسوس ہوتی ہے اوران معماروں، کاریگروں اور غوطہ زنوں کی
جنس بتلانا کیوں گوارا نہیں کرتے ۔ ‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ۲۵۳)
اس لئے گوارہ نہیں کرتے اگر یہ جنات
کا مسخر ہونا مان لیں تو سید سلیمان علیہ السلام کا معجزہ ظاہر ہوتا ہے جب کہ اثری
صاحب معجزات کے انکار ی ہیں ۔ خود کیلانی صاحب نے اثری صاحب کی عبارت پہ تبصرہ
کرتے ہوئے
لکھا:
’’ اَب اثری صاحب زبان سے گو ہزار بار جنوں کے الگ مخلوق
ہونے کا اقرار کریں مگر جب جنوں سے متعلق کوئی معاملہ در پیش ہو تو فورا سر سید کے
ہم نوا بن کر ذہنی طور پر جنوں اور ان کے کاموں سے منکر بن جاتے ہیں اور ان کانام
لینا بھی گوار ا نہیں کرتے یہی صورت یہاں بھی پیش آئی ہے ۔‘‘
( عقل پرستی اور انکار معجزات صفحہ ۲۵۴)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں