اعتراض نمبر 17:
کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے
أخبرنا أبو القاسم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله السراج - بنيسابور - أخبرنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن عبدوس الطرائفي، حدثنا عثمان بن سعيد الدارمي، حدثنا محبوب بن موسى الأنطاكي قال: سمعت أبا إسحاق الفزاري يقول: سمعت أبا حنيفة يقول: إيمان أبي بكر الصديق، وإيمان إبليس واحد، قال إبليس يا رب، وقال أبو بكر الصديق يا رب. قال أبو إسحاق: ومن كان من المرجئة ثم لم يقل هذا. انكسر عليه قوله.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ عثمان بن سعید الدارمی اور محبوب ( بن موسی انطاکی ابو صالح الفراء) جن کا ذکر [عتراض نمبر 2: امام ابو حنیفہ اور ان کے والد نصرانی پیدا ہوئے تھے۔ ] ہو چکا ہے اور الفزاری ابو حنیفہؒ کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا ، اور ان سے دشمنی اس وجہ سے رکھتا تھا کہ اس کے بھائی نے ابراہیم کی وزارت کے خلاف فتویٰ دیا تھا جو کہ منصور کے زمانہ میں عہدیدار تھا تو وہ لڑائی میں قتل کر دیا گیا تو الفزاری نے اس ابراہیم کے شیخ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے خلاف جہالت کی وجہ سے زبان درازی شروع کر دی جیسا کہ اس کی تفصیل ابن ابی حاتم کی الجرح والتعدیل کے مقدمہ میں ہے. اور وہ شخص اتنی استطاعت نہیں رکھتا تھا کہ ان فتووں کے بارے میں ابو حنیفہؒ سے چشم پوشی کرے جن کو علمی مقام میں ید بیضاء حاصل ہے۔ حاشا وکلا ابو حنیفہؒ جیسا آدمی اس قدر کمزور بات نہیں کہہ سکتا۔ اور شوافع، جس کا پیرو کار خود خطیب بھی ہے، ان کا مذہب دشمن کی گواہی اور اس کی روایت کے بارے میں مشہور ہے کہ (اس کی گواہی قابل قبول نہیں) تو سند کے آخر میں الفزاری کا ہونا ہی اس خبر کے مردود ہونے کے لیے کافی ہے تو ایسی خبر کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ جبکہ اس کی سند میں الدارمی اور محبوب بھی موجود ہیں جو عقیدہ میں ابو حنیفہؒ کے مخالفین میں سے ہیں اور اسی ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن الفزاری کے متعلق ابن سعد نے الطبقات الکبری میں کہا ہے کہ وہ حدیث میں اکثر و غلطی کرتا تھا اور ابن قتیبہ نے المعارف میں کہا کہ وہ اپنی حدیث میں بہت غلطیاں کرتا تھا اور اسی کے مثل محمد بن اسحاق الندیم نے فہرست ابن ندیم میں لکھا ہے ۔ لیکن ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارے میں اس کی زبان درازی کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی روایات ان لوگوں میں مشہور ہو گئیں جو اغراض والے تھے. تو یہ اس کے لیے باعث اجر نہیں بلکہ اس کی وجہ سے اس پر وبال ہے۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہ جو آدمی اپنی حدیث میں اکثر غلطیاں کرنے والا ہو، اس کی حدیث سے اعراض واجب ہے چہ جائیکہ وہ روایت کرنے میں منفرد بھی ہو. اور وہ صاحب اصطرلاب نہیں ہے (یعنی یہ ابو اسحاق ابراہیم بن محمد وہ نہیں ہے جس نے گرمی اور سردی معلوم کہ کرنے کا آلہ ایجاد کیا تھا) اگرچہ علامہ ابن حجر کو یہ وہم ہوا ہے جس کا اظہار انہوں نے تہذیب التہذیب میں کیا ہے اور ان کو وہم صرف اس لیے ہوا کہ ان دونوں کا نام اور نسبت ایک ہی ہے حالانکہ ان دونوں کے زمانوں اور پیشیوں میں بہت فرق ہے۔ اور زمین پر رینگ کر چلنے والا اس کے مقابل کیسے ہو سکتا ہے جو اپنے علم کے ساتھ آسمان پر گھومتا ہے۔
اور شاید کہ ابن حجر نے جب یہ دیکھا کہ ابن ندیم نے الفہرست میں الفزاری کا ذکر ص 387 میں اس عنوان کے تحت کیا ہے طبقة اخرى وهم المحدثون تو ہو سکتا ہے کہ ابن حجر نے اس سے سمجھا ہو تو ابن حجر نے اس محدث الفزاری کو فلسفی سمجھ لیا اس وجہ سے کہ بیشک الفزاری جو اس کا علم رکھتا تھا، وہ وہی ہے حلانکہ یہ لفظ المحدثون "تحدیث" سے نہیں بلکہ "الحداثة" سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آدمی ابن ندیم صاحب الفہرست کے قریبی زمانے کا ہے۔ اور ابن ندیم نے اس کے بعد صراحت سے ذکر کیا ہے 《 وهو ابو اسحاق ابراهيم بن حبیب الفزاری 》 تو اس صراحت کے بعد ابن حجر نے جو وہم کیا ہے، اس کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اس لیے کہ جو الفزاری فلسفی ہے، اس کے باپ کا نام "حبیب" ہے اور جو الفزاری محدث ہے، اس کے باپ کا نام "محمد" ہے اور جو محدث ہے، وہ "دوسری" صدی کا ہے اور جو فلسفی ہے وہ "چوتھی" صدی کا ہے ۔
اور ان لوگوں میں سے ہے جو ابن ندیم کے زمانہ کے قریب قریب ہیں، قدیم لوگوں میں سے نہیں ہے۔ اور خطیب نے اس کے بعد جو خبر نقل کی ہے
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبد الله بن جعفر، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثنا أبو بكر الحميدي عن أبي صالح الفراء عن الفزاري قال: قال أبو حنيفة: إيمان آدم، وإيمان إبليس واحد. قال إبليس: * (رب بما أغويتني) * [الحجر 39]، وقال: * (رب فأنظرني إلى يوم يبعثون) * [الحجر 36] وقال آدم: * (ربنا ظلمنا أنفسنا) * [الأعراف 23].
، اس کی سند میں (عبداللہ بن جعفر)ابن درستویہ الدراہمی ہے اور آپ اس کے حال سے بخوبی واقف ہیں تو ایسی خبر جس کی سند میں الفزاری اور ابو صالح اور ابن درستویہ جیسے لوگ ہوں، اس سے ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب بات ثابت نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا ایمان ایک جیسا ہے.
نعوذ بالله من الخذلان
ہم رسوائی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
![]() |
امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے |
وقال أبو عبيد الآجري، عن أبي داود: ثقة لا يلتفت إلى حكاياته إلا من كتاب
(تهذيب الكمال 27/265 ، سوالات ابی عبید الآجری 2/258)
الفزاري
ابو اسحاق فزاری کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف بات قابلِ قبول نہیں سمجھی جا سکتی، کیونکہ وہ اپنے بھائی کی شہادت کا ذِمَّہ دار امام ابو حنیفہؒ کو سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فزاری کے دل میں امام ابو حنیفہؒ کے خلاف سخت عداوت اور دشمنی موجود تھی، اور اصولِ جرح و تعدیل کے مطابق دشمنی یا تعصب کی بنیاد پر کی جانے والی جرح قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ محدثین نے اس اصول کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور اہلِ علم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ متعصب کی جرح معتبر نہیں ہوتی۔ ابو اسحاق فزاری کا امام ابو حنیفہؒ کے خلاف تعصب بھی بالکل واضح ہے۔جیسا کہ روایت میں آتا ہے:
قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَأنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ إِجَازَةً قَالَ نَا جَدِّي قَالَ نَا مُحَمَّد بن مُسلم قَالَ سَمِعت اسماعيل ابْن دَاوُد يَقُول كَانَ ابْن الْمُبَارك يذكر عَن أَبى حنيفَة كل خير ويزكيه ويقرضه ويثنى عَلَيْهِ وَكَانَ أَبُو الْحسن الفزازى يَكْرَهُ أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانُوا إِذَا اجْتَمَعُوا لَمْ يجترىء ابو اسحق أَنْ يَذْكُرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِحَضْرَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ بشئ
امام عبداللہ بن مبارکؒ جب امام ابو حنیفہؒ کا تذکرہ کرتے تو ہمیشہ آپ کی خوبیاں بیان کرتے، آپ کی توثیق اور تعریف فرماتے۔ اس کے برعکس ابو اسحاق فزاریؒ امام ابو حنیفہؒ کو پسند نہیں کرتے تھے، لیکن جب یہ دونوں اکٹھے ہوتے تو ابو اسحاق فزاری کو ہرگز جرأت نہ ہوتی کہ امام عبداللہ بن مبارکؒ (جو کہ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد اور امیر المؤمنین فی الحدیث تھے) کی موجودگی میں امام ابو حنیفہؒ کے خلاف کوئی بات کریں۔ (الانتقاء – سند میں کوئی خرابی نہیں ہے)
یہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ فزاری کی دشمنی کس حد تک شدید تھی، لیکن چونکہ امام عبداللہ بن مبارکؒ، امام ابو حنیفہؒ کے شاگردِ رشید تھے، اس لیے شاگرد کے سامنے فزاری کو استاد کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
مزید برآں، خود ابو اسحاق فزاری کے بارے میں جرح بھی موجود ہے کہ وہ حدیث میں کثرت سے غلطیاں کرنے والے تھے:
-
امام ابن سعد فرماتے ہیں:"كان ثقة فاضلا صاحب سنة وغزو، كثير الخطأ في حديثه"(تهذيب التهذيب 1/80)
-
ابن قتیبہ دینوری لکھتے ہیں:"إبراهيم بن محمد بن الحارث بن أسماء بن خارجة، كان خيّرا فاضلا، غير أنه كان كثير الغلط في حديثه"(المعارف 1/514)
لہٰذا، ابو اسحاق فزاری نہ صرف امام ابو حنیفہؒ کے سخت مخالف اور متعصب تھے، بلکہ کثرتِ خطا کے بھی مرتکب تھے۔ اسی وجہ سے ان کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جرح یا روایت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
اور یہ فَزاری، امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں بہت زیادہ زبان درازی کرتا تھا، اور ہر مجلس میں ان کی مخالفت کرتا تھا، نیز خلفاء کے قریب ہونے کے لیے ان پر یہ الزام لگاتا تھا کہ وہ عباسی خلفاء کے خلاف خروج کے قائل ہیں۔ اور اس کا سبب — جیسا کہ کہا جاتا ہے — یہ تھا کہ امام ابو حنیفہؒ نے اس کے بھائی فَزاری کو حضرت ابراہیم بن عبداللہ طالبی کی مدد کرنے کا فتویٰ دیا تھا، جنہوں نے بصرہ میں ابو جعفر منصور کے خلاف خروج کیا تھا۔ اس جنگ میں فَزاری کا بھائی ابراہیم کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا گیا، تو وہ اپنے بھائی کی موت پر صبر نہ کر سکا اور اس کا دماغ ماؤف ہو گیا۔ اس نے امام ابو حنیفہؒ کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھا، اور جہالت میں امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں انتہائی بدزبانی کرنے لگا، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں