اعتراض نمبر 18: کہ ایک نشے میں مست آدمی نے ابو حنیفہؒ کو مرجئہ کہا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تیرے ایمان کو جبرئیل کے ایمان جیسا قرار دیا ہے اور تو اس کا یہ صلہ مجھے دے رہا ہے
اعتراض نمبر 18:کہ ایک نشے میں مست آدمی نے ابو حنیفہؒ کو مرجئہ کہا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تیرے ایمان کو جبرئیل کے ایمان جیسا قرار دیا ہے اور تو اس کا یہ صلہ مجھے دے رہا ہے
حدثنا أبو طالب يحيى بن علي بن الطيب الدسكري - لفظا بحلوان - أخبرنا أبو يعقوب يوسف بن إبراهيم بن موسى بن إبراهيم السهمي - بجرجان - حدثنا أبو شافع معبد بن جمعة الروياني، حدثنا أحمد بن هشام بن طويل قال: سمعت القاسم بن عثمان يقول: مر أبو حنيفة بسكران يبول قائما، فقال أبو حنيفة: لو بلت جالسا؟ قال: فنظر في وجهه، وقال: ألا تمر يا مرجىء؟ قال له أبو حنيفة: هذا جزائي منك؟ صيرت إيمانك كإيمان جبريل!
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ القاسم بن عثمان الرحال کا کلام منقطع کلام ہے (کیونکہ اس نے اوپر اپنی سند بیان نہیں کی) اور اس کے بارے میں العقیلی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی حدیث کا کوئی متابع نہیں پایا جاتا ۔
اور اس روایت کا ایک راوی معبد بن جمعہ کو ابو زرعہ الکشی نے کذاب کہا ہے اور پھر اس سند میں کئی مجہول راوی ہیں (مگر افسوس ہے کہ) خطیب کے ہاں محفوظ اسی قسم کی روایت ہوتی ہے۔
أخرجه الحافظ أبو بشر الدولابي عن إبراهيم بن جنيد عن داود بن أمية المروزي قال: سمعت عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد يقول: جاء رجل إلى أبي حنيفة وهو سكران فقال له: يا مرجئ فقال له أبو حنيفة: لولا أني أثبت لمثلك الإيمان ما نسبتني إلى الأرجاء ولولا أن الأرجاء بدعة ما باليت أن أنسب إليه
اور وہ واقعہ جو الحافظ ابو بشر الدولابی نے ابراہیم بن جنید، داؤد بن امیہ المروزی کی سند سے نقل کیا ہے کہ داؤد بن امیہ نے کہا کہ میں نے عبد المجید بن عبد العزیز بن ابي رواد سے سنا وہ کہتے تھے کہ ابو حنیفہ کے پاس ایک نشئ آیا تو اس نے آپ سے کہا اے مرجی تو ابو حنیفہ نے اس کو کہا کہ اگر میں تیرے جیسے آدمی کا ایمان ثابت نہ مانتا تو تو ارجاء کی طرف میری نسبت نہ کرتا اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بیشک ارجاء بدعت ہے تو میں اس کی طرف نسبت کی کوئی پرواہ نہ کرتا الخ
اور ابن ابی العوام رحمہ اللہ نے الدولابی سے انہی الفاظ سے روایت کی ہے [1]۔
اور اس کلام کا اس کلام سے کیا تعلق جو خطیب نے بیان کیا ہے؟ (یعنی دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے) اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ کو پریشان کرنے کے لیے مخالفین خوارج میں سے کسی نے اس نشئ کو آپ کی طرف بھیجا تھا اور حقیقت میں گم کردہ عقل اس کو بھیجنے والا تھا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ حشویہ اور خوارج کے اکثر پیروکار امام ابو حنیفہ کی ارجاء کی طرف نسبت کرتے تھے ، اس لیے کہ وہ عمل کو ایمان کا رکن اصلی شمار نہیں کرتے تھے اور اس میں استثناء (ان شاء اللہ وغیرہ کی) درست نہیں سمجھتے تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے ان کے بارے میں ایسی کہانیاں گھڑ لیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کو گھڑنے والا جہالت کے انتہائی گہرے گڑھے میں گرا ہوا ہے۔ اور عرصہ دراز سے بہتان تراشی اور جھوٹ سے مسلسل خوارج اور ان کے پیروکار اہل حق کو ارجاء کی طرف منسوب کرتے رہے اور اس کی وجہ سے ابو حنیفہ پر کوئی عیب نہیں ہے۔
اور ابن ابی العوام نے ابراہیم بن احمد بن سهل الترمزي، عبد الواحد بن احمد الرازي بشار بن قیراط کی سند نقل کر کے کہا ہے کہ بشار بن قیراط ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک انہوں نے کہا کہ میں اور علقمہ بن مرثد حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس گئے تو ہم نے اس کو کہا اے ابو محمد بیشک ہمارے علاقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کو پسند نہیں کرتے کہ کہیں انا مؤمنون کہ بیشک ہم مومن ہیں۔ تو عطاء نے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو ہم نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ ہم مومن ہیں تو پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہم اہل جنت میں سے ہیں۔ تو عطاء نے کہا کہ وہ نحن مؤمنون ہم مومن ہیں تو ضرور کہیں مگر یہ نہ کہیں کہ ہم اہل جنت ہیں۔ پس کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل نہیں مگر اللہ تعالی کے لیے اس پر حجت ہے، اگر چاہے گا تو اس کو سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو معاف کر دے گا۔ پھر عطاء نے کہا اے علقمہ بیشک تیرے اصحاب اپنا نام اہل الجماعۃ رکھتے تھے یہاں تک کہ جب نافع بن الازرق آیا تو اس نے ان کا نام المرجئہ رکھ دیا۔ القاسم بن غسان المروزی نے کہا کہ میرے باپ نے بتایا کہ ہماری معلومات کے مطابق ان کو المرجئہ صرف اس وجہ سے کہا جانے لگا کہ اہل السنت میں سے ایک آدمی سے ایک آدمی نے بات چیت کی تو اس سے پوچھا کہ تو آخرت میں کافروں کا ٹھکانہ کہاں سمجھتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ دوزخ میں۔ تو اس نے کہا کہ تو مومنوں کا ٹھکانہ کہاں سمجھتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ مومن دو طرح کے ہیں۔ ایک نیک پرہیز گار تو وہ جنت میں ہوں گے اور دوسرے وہ مومن جو گنہگار بدحال ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اگر چاہے گا تو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو ان کے ایمان کی وجہ سے معاف کر دے گا۔ اس نے کہا کہ تو ان کا کیا ٹھکانہ سمجھتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں ان کو کسی مقام میں نہیں اتارتا لیکن
" ارجی امرہ الى الله عز وجل "
میں اس کا معاملہ اللہ تعالی کی طرف سونپتا ہوں۔
تو وہ کہنے لگا "فانت مرجئ"
کہ "پس تو مرجی ہے"۔ [2]
اور جب ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب گنہگار مومن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رکھنے کا نظریہ نہیں رکھتے تو ان کے مخالفین نے ان کو بھی ارجاء کی طرف منسوب کر دیا۔ اور اپنے بارے میں ظاہر کر دیا کہ وہ حقیقت میں خوارج کے طرفدار ہیں اور اس طرح انہوں نے ارادہ تو ابو حنیفہ کی مذمت کا کیا تھا مگر اپنی نافہمی سے اپنے اس طریق کار سے ان کی مدح کر رہے ہیں (کیونکہ وہ ثابت کر رہے ہیں کہ امام صاحب کا خوارج سے کوئی تعلق نہیں اور یہ چیز امام صاحب کی تعریف کے زمرہ میں آتی ہے)
![]() |
ایک نشے میں مست آدمی نے ابو حنیفہؒ کو مرجئہ کہا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تیرے ایمان کو جبرئیل کے ایمان جیسا قرار دیا ہے اور تو اس کا یہ صلہ مجھے دے رہا ہے |
[1] "فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه " لابن ابی العوام ت لطیف الرحمن البهرائجي القاسمي ، صفحہ 131 ،
[2] ایضا صفحہ 132،133 ، نیز اس روایت کے ابتدائی مضمون کی روایات متعدد اسانید کے ساتھ کتب میں موجود ہیں ۔ جن کو "الموسوعہ الحدیثیہ لمرویات ابی حنیفہ " جلد 4 میں مولانا لطیف الرحمن قاسمی بہرائچی مدظلہ نے جمع کیا ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں