اعتراض نمبر 20 : کہ امام ابو حنیفہ نے سعید بن جبیر کو مرجئہ اور طلق بن حبیب کو قدری کہا ہے
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبد الله بن جعفر، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثنا سليمان بن حرب. وأخبرنا ابن الفضل أيضا، أخبرنا أحمد بن كامل القاضي، حدثنا محمد بن موسى البربري، حدثنا ابن الغلابي عن سليمان ابن حرب قال: حدثنا حماد بن زيد قال: جلست إلى أبي حنيفة، فذكر سعيد بن جبير، فانتحله في الإرجاء. فقلت: يا أبا حنيفة من حدثك؟ قال: سالم الأفطس. قال: قلت له: سالم الأفطس كان مرجئا ولكن حدثني أيوب. قال: رآني سعيد بن جبير جلست إلى طلق، فقال: ألم أرك جلست إلى طلق؟ لا تجالسه. قال حماد: وكان طلق يرى الإرجاء. قال: فقال رجل لأبي حنيفة: يا أبا حنيفة ما كان رأى طلق؟ فأعرض عنه، ثم سأله فأعرض عنه ثم قال: ويحك كان يرى العدل - واللفظ لحديث ابن الغلابي.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ تینوں مطبوعہ نسخوں میں القدر کی جگہ العدل لکھا ہوا ہے اور یہ القدر سے مصحف (بدل کر ایسا کر دیا گیا ہے اور اس کی تصویب (صحیح لفظ) عبد القادر القرشی کی الجواہر المضئیہ میں ہے اور اس واقعہ کی سند میں عبد اللہ بن جعفر الدارہمی اور احمد بن کامل القاضی ہیں۔ اور اس کے بارہ میں دار قطنی نے کہا کہ اس کو تکبر نے برباد کر دیا۔ یہ روایت میں متساھل تھا۔ بعض اوقات یہ زبانی ان روایات کو بھی بیان کر دیتا تھا جو روایات اس کے پاس نہ ہوتی تھیں۔ جیسا کہ اس کو خطیب نے بھی بیان کیا ہے۔ اور رہا محمد بن موسی البربری تو بے شک اس کے بارہ میں دار قطنی نے کہا کہ یہ قوی نہ تھا اور اس کو دو حدیثوں کے علاوہ کچھ یاد نہ تھا اور ان دو میں سے بھی ایک حدیث اکثر محدثین کرام کے نزدیک موضوع تھی۔ اور اس کی سند میں جو ابن الغلابی ہے وہ المفضل بن حسان ہے جس نے التاریخ لکھی ہے۔ اور ابن ابی العوام نے ابوبکر محمد بن جعفر الامام ، ہارون بن عبد الله بن مردان الحمال ، سلیمان بن حرب ، حماد بن زید کی سند سے یوں لکھا ہے کہ حماد بن زید نے کہا کہ میں مکہ میں ابو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ ہمیں ایوب نے بیان کیا ہے اس نے کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے طلق بن جیب کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا تو اس نے مجھے کہا کہ میں نے تجھے طلق کے پاس بیٹھے ہوئے کیوں دیکھا ہے ؟ اس کے پاس مت بیٹھ۔ تو ابوحنیفہ نے کہا کہ طلق قدری نظریہ رکھتا تھا۔ الخ۔ [1]
اور اس روایت میں اور پہلی روایت میں فرق بالکل واضح ہے اور اس روایت میں الحمال راوی مسلم کا راوی ہے۔ اور اس سند کا مقابلہ وہ سند کیسے کر سکتی ہے جس میں ابن درستویہ یا ابن کامل اور البربری اور ان جیسے لوگ ہوں؟
اور بہرحال سالم الافلس تو وہ مشہور تابعی ہیں ان کی روایات ترمذی ، ابوداؤد اور نسائی نے بیان کی ہیں اور بہت سے حضرات نے ان کو ثقہ کہا ہے۔
اور پختہ بات ہے کہ ارجاء کی طرف ان کو منسوب کرنا اسی معنی میں ہے جس کے جمہور اہل حق ہیں۔ اور طلق بن حبیب بصری تو ابن عباس کے اصحاب میں سے ہے اور اس کی روایت مسلم اور سنن اربعہ میں لی گئی ہے۔[2] اور جس ارجاء کا وہ نظریہ رکھتا تھا وہ وہی ہے جس کا قول جمہور اہل حق کرتے ہیں۔
اور اس واقعہ کو ہالفرض مان بھی لیا جائے تو امام ابو حنیفہ نے تو بہت اچھا کام کیا که ناپسندیده بدعت کی جانب اس کی نسبت کرنے میں غور و فکر سے کام لیا۔ اس لیے کہ اس جیسی صورت میں اس جیسے آدمی پر جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرنا ہی ضروری ہے۔ اور جب سائل کے بار بار تکرار کے بعد جواب دینے میں مجبور ہوئے تو جواب دیا کہ بے شک وہ بصری تھے جو قدریہ کی جانب منسوب ہیں جیسا کہ اکثر اہل بصرہ تھے تو سعید بن جبیر کی اس بات کا سبب بھی یہی تھا جس کا پہلے ذکر ہوا ہے اس کا سبب ارجاء نہیں تھا کیونکہ وہ تو ان سب کا مشترکہ نظریہ تھا۔ اور ابو حنیفہ ، سعید بن جبیر کے نظریہ کو خوب جانتے تھے اس لیے کہ بے شک وہ بھی اہل کوفہ میں سے تھے۔ اور انہوں نے اس کا زمانہ بھی پایا ہے بخلاف حماد بن زید کے کہ وہ بصری ہیں اور سعید کے زمانہ سے متاثر ہیں۔ اور ارجاء کے جس معنی کے مطابق وہ نظریہ رکھتے تھے وہی خالص سنت ہے اور جو اس سے تجاوز کرتا ہے تو وہ لازما دانسته یا نادانسته خوارج یا معتزلہ کے مذہب میں جا گرتا ہے۔
اور یہ اس لیے تھا کہ بے شک ابو حنیفہ کے زمانہ میں اور ان کے بعد کچھ نیک لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بے شک ایمان قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے جو کہ گھٹتا بڑھتا ہے۔ اور ان لوگوں کو ارجاء کی طرف منسوب کرتے جو یہ نظریہ رکھتے تھے کہ ایمان یقین اور کلمہ کا نام ہے اور دلائل شرعیہ کو دیکھتے ہوئے خالص حق ان ہی لوگوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے 《ولما يدخل الايمان في قلوبکم 》اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا[3]۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 《الایمان ان تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره 》 "ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔"[4] یہ روایت امام مسلم نے حضرت ابن عمر سے پیش کی ہے اور اسی پر جمہور اہل السنت کا عمل ہے۔ اور یہ نیک لوگ یقینا اپنے اس اعتقاد کے ساتھ معتزلہ اور خوارج کے موافق ہو گئے اگرچہ وہ اپنے اعتقاد کے خلاف نظریہ کو بدعت اور ضلالت کہتے ہیں۔ اس لیے کہ یقینا کسی عمل میں خلل جبکہ اس عمل کو ایمان کا رکن قرار دیا جائے تو وہ ایمان میں خلل ہو گا تو جو شخص عمل میں خلل کی وجہ سے ایمان سے خارج ہو گیا تو وہ یا تو کفر میں داخل ہوگا جیسا کہ خوارج کا نظریہ ہے اور یا وہ اس میں داخل نہیں ہوگا بلکہ کفر اور ایمان کے درمیان درجہ میں ہوگا جیسا کہ معتزلہ کا نظریہ ہے اور وہ لوگ تمام لوگوں میں ان دونوں فریقوں ( معتزلہ اور خوارج) سے سب سے زیادہ بیزار تھے۔ پس جب وہ ان سے بیزار تھے تو اگر وہ اس نظریہ سے بھی ہیزار تھے جس پر ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور اس شان کے باقی ائمہ ہیں تو ان لوگوں کا کلام بے ،سوچے سمجھے نا معقول ہوگا ۔ اور بہر حال جب وہ عمل کو صرف کمال ایمان سے شمار کریں تو شرم دلانے اور دشمنی کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی لیکن ان کا اس حد تک تشدد اس پر دلالت کرتا ہے کہ بے شک وہ عمل کو صرف کمال ایمان میں سے نہیں شمار کرتے بلکہ اس کو اس کا رکن اصلی شمار کرتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔
تعجب کی بات ہے کہ ایسے لوگ جن کو حدیث میں امیر المومنین شمار کیا جاتا ہے ان میں سے ایک بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں اس شخص سے روایت درج نہیں کی جو یہ نظریہ نہیں رکھتا کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے اور گھٹتا بڑھتا ہے۔ حالانکہ اس نے حریز بن عثمان اور عمران بن حطان اور ان جیسے غالی خارجیوں سے اپنی کتاب میں روایات لی ہیں۔ اور وہ صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ بے شک وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے اور گھٹتا بڑھتا ہے تو وہ حدیث ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے ۔ اور وہ حضرات جو دائیں بائیں کی پہچان نہیں رکھتے اور تساہل برتنے والے ہیں ان کی بات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پس دلیل ظاہر ہو جانے اور مسئلہ کی وضاحت ہو جانے کے بعد اس شخص پر کیا طعن ہے جو یہ نظریہ رکھتا ہے کہ عمل ایمان کا رکن اصلی نہیں ہے اور اسی پر کتاب و سنت اور جمہور صحابہ اور تمام علماء اہل السنت ہیں جو خوارج اور معتزلہ دونوں فریقوں کی تردید کرتے ہیں۔ تو عمل کو ایمان کا رکن اصلی نہ مانتا ہی سنت ہے۔ اور بہر حال وہ ارجاء جس کو بدعت شمار کیا جاتا ہے تو وہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور ہمارے اصحاب اس قسم کی کلام سے ایسے ہی بری ہیں جیسے بھیڑیا حضرت یوسف علیہ السلام کے خون سے بری تھا۔ اور اگر اس مسئلہ میں ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب یہ نظریہ نہ ہوتا جو ان کا ہے تو جمہور مسلمانوں کو کافر قرار دینا لازم آتا جو کہ گناہوں سے معصوم نہیں ہیں اس لیے کہ وہ کسی نہ کسی وقت ، تو کسی نہ کسی عمل میں کو تاہی کر ہی جاتے ہیں ۔ اور اس میں بہت بڑی مصیبت ہے (کہ اس کی وجہ سے امت کی اکثریت کو ایمان سے خارج ماننا پڑتا ہے)
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا
[1]۔ ولفظ ابن أبي العوام: حدثني أبو بكر محمد بن جعفر الإمام قال: حدثنا هارون بن عبد الله بن مروان الحمال قال: حدثنا سليمان بن حرب بن حماد بن زيد قال: جلست إلى أبي حنيفة بمكة فقلت له: حدثنا أيوب قال: رآني سعيد بن جبير قد جلست إلى طلق بن حبيب فقال لي: ألم أرك جلست إلى طلق؟ لا تجالسه. قال أبو حنيفة: كان طلق يرى القدر
فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ، ابن ابی العوام رحمہ اللہ ت بہرائچی صفحہ 124
[2]۔تابعین کی طرف جو نسبت کی جاتی ہے کہ وہ قدری تھے یا مرجئہ تھے وغیرہ وغیرہ ، تو وہ ان کے اقوال سے استخراجا کہا جاتا ہے ۔ مثلا انہوں نے کوئی بات ایسی کہہ دی جس سے (غلط،خلاف اہل سنت،مرجوح) مفہوم نکلتا ہو تو اس وجہ سے ان کو قدری/مرجئہ/شیعہ کہا جاتا تھا۔ ورنہ متاخرین (قدریہ ،مرجئہ) والی بدعات متقدمین میں نہیں پائی جاتی تھیں۔
متقدمین مرجئہ/قدریہ اور متاخرین مرجئہ/ قدریہ وغیرہ میں فرق ہے بالکل ایسے ہی جیسے متقدمین کے ہاں شیعہ (جو خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ کے ساتھ رہتے تھے اور امیر شام سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے تھے ) ان کو بھی شیعان علی کہا جاتا تھا جبکہ متاخرین شیعہ صحابہ پر تبرا کرتے ہیں ۔
لہذا وہ احادیث و فتاوی جن میں قدریہ کی تردید ہے اس سے مراد متاخرین قدریہ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں نہ کہ متقدمین تابعین
قدریہ کی تعریف ابن حجر نے ھدی الساری میں یہ لکھی ہیکہ " جو یہ کہے کہ شر محض فعل انسانی ہے " ، یہ تعریف ان مقبول تابعین پر صادق آتی ہےجن پر قدریہ ہونے کاقول اختیارکیاگیاہے، اس نظریہ۔ میں ان کے پیش نظر اللہ تعالی کی عظمت اور مقام و مرتبہ تھا،کہ ادبا شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کرنی چاہیے،ظواھر ادلہ میں اس کے نظائرموجودہیں۔
لیکن چونکہ شریعت میں اس پراصراردرست نہیں،اس لیے کبار اہل علم نے اس کی تحسین نہیں کی،اورلوگوں کو اس غلوسے بچانےکے لئے مجالست سے منع کیا۔آسان لفظوں میں کہ سکتےہیں،کہ امام صاحب کے اس قول کے مطابق طلق میں قدریہ خفیفہ تھی،جو بیان نظریہ ہے،نہ کہ بیان جرح۔۔اسی وجہ سے طلق کےمرجئی/قدری ہونےکےباوجودمحدثین کےہاں ثقہ ہیں ۔جبکہ
متاخرین قدریہ کئی بدعات کے مرتکب ہوئے،اورضروریات تک کاانکاران کی کلام میں نکل آتاہے،اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ان کو قدریہ مشرکیہ،قدریہ ابلیسیہ وغیرہ اقسام میں منقسم کیاہے،
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو طلق بن حبیب کو قدریہ کہا ہے (جسے امام ابن ابی العوام نے روایت کیا ہے ) ، ممکن ہے انہیں کوئی ایک روایت ایسی پہنچی ہو جس میں طلق بن حبیب رحمہ اللہ نے اللہ تعالی کی طرف " شر " کی نسبت کرنے سے منع کیا ہو ، اس وجہ سے امام صاحب نے ان کو قدریہ کہا ہے ۔واللہ اعلم
[3]۔ سورہ الحجرات
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ( مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے ) حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا ۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
[4]۔ قال: فاخبرني عن الإيمان، قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره"، قال: صدقت
اس (جبرئیل ) نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔“ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔
(صحیح مسلم 93۔)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں