نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 28 : کہ قاضی سلمہ بن عمرو نے منبر پر کہا کہ اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا ہے۔


 اعتراض نمبر 28 :
 کہ قاضی سلمہ بن عمرو نے منبر پر کہا کہ اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا ہے۔

كتب إلي عبد الرحمن بن عثمان الدمشقي، حدثنا عبد العزيز بن أبي طاهر قال: أخبرنا أبو الميمون البجلي، حدثنا أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو، أخبرني محمد بن الوليد قال: سمعت أبا مسهر يقول: قال سلمة بن عمرو القاضي - على المنبر -: لا رحم الله أبا حنيفة! فإنه أول من زعم أن القرآن مخلوق

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ ابن عساکر کی تاریخ میں الفاظ یہ ہیں لا رحم الله ابا فلان کہ اللہ تعالیٰ ابو فلاں پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے یہ نظریہ دیا کہ بیشک قرآن مخلوق ہے۔[1] تو جو خبر یہاں بیان کی گئی ہے اس میں ابو فلاں کی جگہ ابو حنیفہ کر دیا گیا ہے۔ اور ان لوگوں کو کیسے معلوم ہو گیا کہ روایت میں ابو فلاں سے ابو حنیفہ مراد ہے حالانکہ روایات اس پر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں کہ بیشک سب سے پہلے یہ نظریہ " الجعد بن درہم " نے دیا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور ان لوگوں کے ہاں ایک کلمہ دوسرے کی جگہ بدلنا آسان کام ہے اور جو چیز اہل علم کے ہاں تواتر سے ثابت ہے اس کے خلاف کہنا بھی ان کی نظر میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ اور میں نے " ابن قتیبہ" کی "کتاب الاختلاف في اللفظ" پر جو حاشیہ لکھا ہے اس میں اس مسئلہ میں جو کلام کا حق تھا وہ میں نے ادا کر دیا ہے۔ اور میں نے وہاں جو کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب 《الرد على الجهمیه》 میں کہا ہے کہ میں نے احمد بن عبد الله الشعرانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے سعید بن رحمت سے سنا جو کہ ابو اسحاق الفزاری کے ساتھی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ جہم 130ھ میں نکلا تو اس نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو جب علماء کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے اس مسئلے کو عظیم سمجھا پھر اس پر اتفاق کیا کہ بیشک اس نے کفر کا کلمہ بولا ہے ۔ [2] اور اسی طرح اس نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہ سب سے پہلے جس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا وہ الجعد بن درہم ہے جس کی وفات 120ھ سے کچھ اوپر سن میں ہوئی۔ پھر جہم بن صفوان ہے پھر ان دونوں کے بعد بشر بن غیاث ہے الخ [3]۔ اور ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کے خروج کا سن جو وہ ذکر کیا گیا ہے، اس میں کسروں کو اگلی دہائی کے ساتھ پورا کر دیا گیا ہو ورنہ جہم کا خروج سن 130ھ سے چند سال اوپر ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

اور اللالکائی نے اپنی کتاب شرح السنہ میں کہا اور امت کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ بیشک قرآن کو سب سے پہلے مخلوق کہنے والا الجعد بن درہم ہے جو سن 120ھ سے چند سال اوپر گزرا ہے الخ۔[4] اور جہم کی گرفتاری 128ھ میں ہوئی اور اسی سال اس کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ اس روایت کے مطابق جو ابن جریر نے ذکر کی ہے مگر بیشک اللا کائی کہتے ہیں کہ اس کا قتل 132ھ میں ہوا اور ان تاریخوں میں اضطراب ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور جہم کا قتل قرآن کے بارے میں اس کی رائے پھیل جانے کی وجہ سے ہی ہوا۔ پس اس کی وجہ سے لوگ آزمائش میں پڑ گئے۔ اس کی اشاعت کرنے والے اشاعت کرنے لگے ۔ اور نفرت کرنے والوں نے اس سے نفرت کی۔ تو جانبداری تجاوز کر کے افراط اور تفریط کی طرف چل نکلی حالانکہ اس بدعتی کے مقصد کو ان کی اکثریت نہیں پہچانتی تھی۔ کچھ لوگوں نے کلام نفسی کے بارے میں اس کی طرف ناحق باتیں منسوب کر کے اس کو پریشان کیا اور کچھ لوگوں نے اس کے بر عکس کلام لفظی کے بھی قدیم ہونے کا قول کر لیا اور جب ابو حنیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو معاملہ کی اصلاح کی اور حق کو واضح کیا۔ پس فرمایا کہ قرآن کریم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مخلوق کے ساتھ ۔ جس حیثیت کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے، وہ غیر مخلوق ہے ۔ اور جس کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے، وہ مخلوق ہے (یعنی قرآن کریم کی ایک حقیقت ہے جس کو کلام نفسی کہتے ہیں۔ اس کا تعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور قدیم ہے۔ اور دوسری حیثیت اس کے الفاظ ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرنے والے ہیں جن کو مخلوق پڑھتی پڑھاتی اور سنتی سناتی ہے۔ اس کو کلام لفظی کہتے ہیں۔ اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے اور یہ حادث اور مخلوق ہے۔ جیسے آگ ایک عنصر ہے۔ اس کی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت پر دلالت کرنے والے الفاظ نار آگ وغیرہ ہیں۔ تلفظ کرتے وقت حقیقت پر بات کرنے والے الفاظ کا تلفظ آدمی کرتا ہے، آگ کی حقیقت اس کی زبان میں نہیں آتی ورنہ تو زبان جل کر راکھ ہو جائے۔ اسی طرح مخلوق کلام نفسی پر دلالت کرنے الفاظ کا تلفظ کرتی ہے) اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کا کلام اس لحاظ سے کہ اس کا قیام اللہ تعالٰی کے ساتھ ہے، اس اعتبار سے وہ اس کی صفت ہے۔ جیسا کہ اس کی باقی تمام صفات قدیم ہیں تو اسی طرح یہ بھی قدیم ہے۔ اور بہر حال جس کی تلاوت زبانیں کرتی ہیں اور حافظوں کے ذہنوں میں جو محفوظ ہوتا ہے اور مصاحف میں جس کی آوازیں سنی سنائی جاتی ہیں اور

جس کی صورت اور نقوش ذہن میں آتے ہیں تو وہ مخلوق ہیں جیسا کہ اس کو حاصل کرنے

والے مخلوق ہیں تو اس کے بعد اہل علم و فہم کی آراء اسی پر پختہ ہو گئیں اور جہم کے نظریہ

کے خلاف تابعین کا اجماع صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ

اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے، اس سے مباین نہیں ہے اور محال ہے کہ قدیم حادث میں سما جائے تو لازم آتا ہے ان پر کہ وہ اس کی اس حیثیت کو جس کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے، اس کا مخلوق ہونا تسلیم کریں لیکن ابو حنیفہ کی شخصیت ایسی تھی کہ لوگ ان کے ساتھ خواہ مخواہ حسد کرتے تھے تو ان حاسدوں نے ان کے بارے میں یہ مشہور کر دیا کہ

وہ جہم کے مطابق نظریہ رکھتے تھے اور یہ چیز امام صاحب سے کیسے صادر ہو سکتی ہے؟ (حالانکہ انہوں نے ہی حق بات کو واضح کر کے لوگوں کو غلط نظریہ سے بچایا) [5]

امام کوثری رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہوا۔ 


[1۔] قال أبو زرعة البصري: سمعت محمد بن الوليد: سمعت أبا مسهر يقول: قال سلمة بن عمرو القاضي: لا رحم الله فلانا، فإنه أول من زعم أن القرآن مخلوق.

(تاريخ الإسلام - الذهبي - ج ١١ - الصفحة ١٤٣)

[2]۔ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أحمد بن عبد اللّه الشّعرانيّ، يقول: سمعت سعيد بن رحمة، صاحب إسحاق الفزاريّ يقول: " إنّما خرج جهمٌ، عليه لعنة اللّه، سنة ثلاثين ومائةٍ، فقال: القرآن مخلوقٌ، فلمّا بلغ العلماء تعاظمهم فأجمعوا على أنّه تكلّم بالكفر، وحمل النّاس ذلك عنهم ".). 

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 423)

[3]۔ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)

[4]۔قال أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري اللالكائي (ت: 418هـ): 

 ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)

[5]۔خلاصہ یہ ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قرآن کو مخلوق سب سے پہلے کہا ، یہ سند ضعیف اور منکر ہے۔ 

تاریخ بغداد کی روایت میں "قاضی سلمہ بن عمرو" مجہول الحال ہے ، غالی سلفی شیخ مقبل ہادی جو کہ راوی قاضی سلمہ کی توثیقی روایت پیش کرتے ہیں وہ روایت خود سخت ضعیف اور منکر ہے ۔

تاریخ دمشق مین قاضی سلمہ کی توثیقی روایت:

ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ اﻟﺤﻨﺎﺋﻲ ﻭﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﻤﻮاﺯﻳﻨﻲ ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ اﻟﻔﺮاء ﻗﺎﻟﻮا ﺃﻧﺎﺳﺒﻂ ﺗﻜﻴﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ح ﻭﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ اﻟﺰاﻏﻮﻧﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺼﻘﺮ ﻗﺎﻻ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻤﻴﻊ ﻗﺎﻝ اﻟﻤﻮاﺯﻳﻨﻲ ﻭﺃﺟﺎﺯﻩ ﻟﻲ اﺑﻦ ﺟﻤﻴﻊ ﺃﻧﺒﺄ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻫﻮ اﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ ﻧﺎ ﺃﺑﻲ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﻭﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺩﻣﺸﻖ ﻳﺤﺪﺙ ﺑﺤﻀﺮﺓ اﻷﻭﺯاﻋﻲ

(تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج ٢٢ - الصفحة ١٠٧)

 یہ سخت ضعیف اور منکر ہے ، کیونکہ اس میں 

"یحیی بن حمزہ" قدری ہے اور اس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جوتے کی عبادت جیسا گھٹیا الزام لگایا تھا ، 

2۔اس کا بیٹا "محمد بن یحیی" مختلط تھا۔ 

3۔جبکہ پوتا "أحمد بن محمد بن يحيى بن حمزة بن واقد" سخت ضعیف ہے۔

أبو أحمد الحاكم : فيه نظر

امام ابو حاکم فرماتے ہیں کہ اس میں غور و فکر کی ضرورت ہے

أبو الجهم البغدادي : فيه نظر، أخبرنا عنه بأحاديث بواطيل عن أبيه عن جده عن مشايخ ثقات لا يحتم لونها، ومرة: كان يلقن ما ليس من حديثه فيتلقن

ابو جھم بغدادی کہتے ہیں کہ اس نے اپنے والد اور دادا کے واسطے سے ہمیں ثقہ مشائخ سے باطل احادیث بیان کیں جو کہ گنجائش ہی نہیں کہ وہ ثقہ مشائخ بیان کریں۔ اور وہ تلقین قبول کرتا تھا ( یعنی حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی اس راوی کو لقمہ دیتا مثلا کسی نے کہا آپ کی یہ حدیث اس طرح ہے ، تو یہ راوی اس کی بات مان لیتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے خود حدیث یاد نہیں ہوتی تھیں ، بلکہ دوسروں کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔ یہ جرح مفسر ہے )۔

أبو حاتم بن حبان البستي : كان يدخل على حديث أبيه ما ليس منه

امام ابن حبانؒ کہتے ہیں یہ اپنے والد سے ایسی چیزین بیان کرتا تھا جو اس کے والد کی روایتوں میں نہ ہوتی تھیں۔

ابن حجر العسقلاني : له مناكير

الذهبي : له مناكير

 امام ذہبیؒ اور ابن حجرؒ فرماتے ہیں وہ منکر روایتیں بیاں کرتا تھا۔

___________________________

صحیح روایات سے ثابت ہیکہ قرآن کو مخلوق سب سے پہلے الجعد بن درہم نے کہا تھا ۔

ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)

ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)

___________________________

صحیح روایات سے ثابت ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے عقیدہ خلق قرآن کی تردید کی ہے۔


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز "  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 4: امام اعظم ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن


اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت


اعتراض نمبر 38 : کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ معاذ اللہ جہمی تھے؟


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...