نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 28 : کہ قاضی سلمہ بن عمرو نے منبر پر کہا کہ اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا ہے۔


 اعتراض نمبر 28 :
 کہ قاضی سلمہ بن عمرو نے منبر پر کہا کہ اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا ہے۔

كتب إلي عبد الرحمن بن عثمان الدمشقي، حدثنا عبد العزيز بن أبي طاهر قال: أخبرنا أبو الميمون البجلي، حدثنا أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو، أخبرني محمد بن الوليد قال: سمعت أبا مسهر يقول: قال سلمة بن عمرو القاضي - على المنبر -: لا رحم الله أبا حنيفة! فإنه أول من زعم أن القرآن مخلوق

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ ابن عساکر کی تاریخ میں الفاظ یہ ہیں لا رحم الله ابا فلان کہ اللہ تعالیٰ ابو فلاں پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے یہ نظریہ دیا کہ بیشک قرآن مخلوق ہے۔[1] تو جو خبر یہاں بیان کی گئی ہے اس میں ابو فلاں کی جگہ ابو حنیفہ کر دیا گیا ہے۔ اور ان لوگوں کو کیسے معلوم ہو گیا کہ روایت میں ابو فلاں سے ابو حنیفہ مراد ہے حالانکہ روایات اس پر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں کہ بیشک سب سے پہلے یہ نظریہ " الجعد بن درہم " نے دیا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور ان لوگوں کے ہاں ایک کلمہ دوسرے کی جگہ بدلنا آسان کام ہے اور جو چیز اہل علم کے ہاں تواتر سے ثابت ہے اس کے خلاف کہنا بھی ان کی نظر میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ اور میں نے " ابن قتیبہ" کی "کتاب الاختلاف في اللفظ" پر جو حاشیہ لکھا ہے اس میں اس مسئلہ میں جو کلام کا حق تھا وہ میں نے ادا کر دیا ہے۔ اور میں نے وہاں جو کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب 《الرد على الجهمیه》 میں کہا ہے کہ میں نے احمد بن عبد الله الشعرانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے سعید بن رحمت سے سنا جو کہ ابو اسحاق الفزاری کے ساتھی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ جہم 130ھ میں نکلا تو اس نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو جب علماء کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے اس مسئلے کو عظیم سمجھا پھر اس پر اتفاق کیا کہ بیشک اس نے کفر کا کلمہ بولا ہے ۔ [2] اور اسی طرح اس نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہ سب سے پہلے جس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا وہ الجعد بن درہم ہے جس کی وفات 120ھ سے کچھ اوپر سن میں ہوئی۔ پھر جہم بن صفوان ہے پھر ان دونوں کے بعد بشر بن غیاث ہے الخ [3]۔ اور ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کے خروج کا سن جو وہ ذکر کیا گیا ہے، اس میں کسروں کو اگلی دہائی کے ساتھ پورا کر دیا گیا ہو ورنہ جہم کا خروج سن 130ھ سے چند سال اوپر ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

اور اللالکائی نے اپنی کتاب شرح السنہ میں کہا اور امت کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ بیشک قرآن کو سب سے پہلے مخلوق کہنے والا الجعد بن درہم ہے جو سن 120ھ سے چند سال اوپر گزرا ہے الخ۔[4] اور جہم کی گرفتاری 128ھ میں ہوئی اور اسی سال اس کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ اس روایت کے مطابق جو ابن جریر نے ذکر کی ہے مگر بیشک اللا کائی کہتے ہیں کہ اس کا قتل 132ھ میں ہوا اور ان تاریخوں میں اضطراب ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور جہم کا قتل قرآن کے بارے میں اس کی رائے پھیل جانے کی وجہ سے ہی ہوا۔ پس اس کی وجہ سے لوگ آزمائش میں پڑ گئے۔ اس کی اشاعت کرنے والے اشاعت کرنے لگے ۔ اور نفرت کرنے والوں نے اس سے نفرت کی۔ تو جانبداری تجاوز کر کے افراط اور تفریط کی طرف چل نکلی حالانکہ اس بدعتی کے مقصد کو ان کی اکثریت نہیں پہچانتی تھی۔ کچھ لوگوں نے کلام نفسی کے بارے میں اس کی طرف ناحق باتیں منسوب کر کے اس کو پریشان کیا اور کچھ لوگوں نے اس کے بر عکس کلام لفظی کے بھی قدیم ہونے کا قول کر لیا اور جب ابو حنیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو معاملہ کی اصلاح کی اور حق کو واضح کیا۔ پس فرمایا کہ قرآن کریم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مخلوق کے ساتھ ۔ جس حیثیت کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے، وہ غیر مخلوق ہے ۔ اور جس کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے، وہ مخلوق ہے (یعنی قرآن کریم کی ایک حقیقت ہے جس کو کلام نفسی کہتے ہیں۔ اس کا تعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور قدیم ہے۔ اور دوسری حیثیت اس کے الفاظ ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرنے والے ہیں جن کو مخلوق پڑھتی پڑھاتی اور سنتی سناتی ہے۔ اس کو کلام لفظی کہتے ہیں۔ اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے اور یہ حادث اور مخلوق ہے۔ جیسے آگ ایک عنصر ہے۔ اس کی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت پر دلالت کرنے والے الفاظ نار آگ وغیرہ ہیں۔ تلفظ کرتے وقت حقیقت پر بات کرنے والے الفاظ کا تلفظ آدمی کرتا ہے، آگ کی حقیقت اس کی زبان میں نہیں آتی ورنہ تو زبان جل کر راکھ ہو جائے۔ اسی طرح مخلوق کلام نفسی پر دلالت کرنے الفاظ کا تلفظ کرتی ہے) اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کا کلام اس لحاظ سے کہ اس کا قیام اللہ تعالٰی کے ساتھ ہے، اس اعتبار سے وہ اس کی صفت ہے۔ جیسا کہ اس کی باقی تمام صفات قدیم ہیں تو اسی طرح یہ بھی قدیم ہے۔ اور بہر حال جس کی تلاوت زبانیں کرتی ہیں اور حافظوں کے ذہنوں میں جو محفوظ ہوتا ہے اور مصاحف میں جس کی آوازیں سنی سنائی جاتی ہیں اور

جس کی صورت اور نقوش ذہن میں آتے ہیں تو وہ مخلوق ہیں جیسا کہ اس کو حاصل کرنے

والے مخلوق ہیں تو اس کے بعد اہل علم و فہم کی آراء اسی پر پختہ ہو گئیں اور جہم کے نظریہ

کے خلاف تابعین کا اجماع صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ

اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے، اس سے مباین نہیں ہے اور محال ہے کہ قدیم حادث میں سما جائے تو لازم آتا ہے ان پر کہ وہ اس کی اس حیثیت کو جس کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے، اس کا مخلوق ہونا تسلیم کریں لیکن ابو حنیفہ کی شخصیت ایسی تھی کہ لوگ ان کے ساتھ خواہ مخواہ حسد کرتے تھے تو ان حاسدوں نے ان کے بارے میں یہ مشہور کر دیا کہ

وہ جہم کے مطابق نظریہ رکھتے تھے اور یہ چیز امام صاحب سے کیسے صادر ہو سکتی ہے؟ (حالانکہ انہوں نے ہی حق بات کو واضح کر کے لوگوں کو غلط نظریہ سے بچایا) [5]

امام کوثری رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہوا۔ 


[1۔] قال أبو زرعة البصري: سمعت محمد بن الوليد: سمعت أبا مسهر يقول: قال سلمة بن عمرو القاضي: لا رحم الله فلانا، فإنه أول من زعم أن القرآن مخلوق.

(تاريخ الإسلام - الذهبي - ج ١١ - الصفحة ١٤٣)

[2]۔ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أحمد بن عبد اللّه الشّعرانيّ، يقول: سمعت سعيد بن رحمة، صاحب إسحاق الفزاريّ يقول: " إنّما خرج جهمٌ، عليه لعنة اللّه، سنة ثلاثين ومائةٍ، فقال: القرآن مخلوقٌ، فلمّا بلغ العلماء تعاظمهم فأجمعوا على أنّه تكلّم بالكفر، وحمل النّاس ذلك عنهم ".). 

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 423)

[3]۔ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)

[4]۔قال أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري اللالكائي (ت: 418هـ): 

 ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)

[5]۔خلاصہ یہ ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قرآن کو مخلوق سب سے پہلے کہا ، یہ سند ضعیف اور منکر ہے۔ 

تاریخ بغداد کی روایت میں "قاضی سلمہ بن عمرو" مجہول الحال ہے ، غالی سلفی شیخ مقبل ہادی جو کہ راوی قاضی سلمہ کی توثیقی روایت پیش کرتے ہیں وہ روایت خود سخت ضعیف اور منکر ہے ۔

تاریخ دمشق مین قاضی سلمہ کی توثیقی روایت:

ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ اﻟﺤﻨﺎﺋﻲ ﻭﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﻤﻮاﺯﻳﻨﻲ ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ اﻟﻔﺮاء ﻗﺎﻟﻮا ﺃﻧﺎﺳﺒﻂ ﺗﻜﻴﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ح ﻭﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ اﻟﺰاﻏﻮﻧﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺼﻘﺮ ﻗﺎﻻ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻤﻴﻊ ﻗﺎﻝ اﻟﻤﻮاﺯﻳﻨﻲ ﻭﺃﺟﺎﺯﻩ ﻟﻲ اﺑﻦ ﺟﻤﻴﻊ ﺃﻧﺒﺄ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻫﻮ اﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ ﻧﺎ ﺃﺑﻲ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﻭﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺩﻣﺸﻖ ﻳﺤﺪﺙ ﺑﺤﻀﺮﺓ اﻷﻭﺯاﻋﻲ

(تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج ٢٢ - الصفحة ١٠٧)

 یہ سخت ضعیف اور منکر ہے ، کیونکہ اس میں 

"یحیی بن حمزہ" قدری ہے اور اس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جوتے کی عبادت جیسا گھٹیا الزام لگایا تھا ، 

2۔اس کا بیٹا "محمد بن یحیی" مختلط تھا۔ 

3۔جبکہ پوتا "أحمد بن محمد بن يحيى بن حمزة بن واقد" سخت ضعیف ہے۔

أبو أحمد الحاكم : فيه نظر

امام ابو حاکم فرماتے ہیں کہ اس میں غور و فکر کی ضرورت ہے

أبو الجهم البغدادي : فيه نظر، أخبرنا عنه بأحاديث بواطيل عن أبيه عن جده عن مشايخ ثقات لا يحتم لونها، ومرة: كان يلقن ما ليس من حديثه فيتلقن

ابو جھم بغدادی کہتے ہیں کہ اس نے اپنے والد اور دادا کے واسطے سے ہمیں ثقہ مشائخ سے باطل احادیث بیان کیں جو کہ گنجائش ہی نہیں کہ وہ ثقہ مشائخ بیان کریں۔ اور وہ تلقین قبول کرتا تھا ( یعنی حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی اس راوی کو لقمہ دیتا مثلا کسی نے کہا آپ کی یہ حدیث اس طرح ہے ، تو یہ راوی اس کی بات مان لیتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے خود حدیث یاد نہیں ہوتی تھیں ، بلکہ دوسروں کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔ یہ جرح مفسر ہے )۔

أبو حاتم بن حبان البستي : كان يدخل على حديث أبيه ما ليس منه

امام ابن حبانؒ کہتے ہیں یہ اپنے والد سے ایسی چیزین بیان کرتا تھا جو اس کے والد کی روایتوں میں نہ ہوتی تھیں۔

ابن حجر العسقلاني : له مناكير

الذهبي : له مناكير

 امام ذہبیؒ اور ابن حجرؒ فرماتے ہیں وہ منکر روایتیں بیاں کرتا تھا۔

___________________________

صحیح روایات سے ثابت ہیکہ قرآن کو مخلوق سب سے پہلے الجعد بن درہم نے کہا تھا ۔

ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)

ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)

___________________________

صحیح روایات سے ثابت ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے عقیدہ خلق قرآن کی تردید کی ہے۔

1.. أخبرنا الخلال، قال: أخبرنا الحريري، أن علي بن محمد النخعي، حدثهم قال: حدثنا محمد بن الحسن بن مكرم، قال: حدثنا بشر بن الوليد، قال: سمعت أبا يوسف، يقول: قال أبو حنيفة: صنفان من شر الناس بخراسان، الجهمية والمشبهة، وربما قال: والمقاتلية

امام ابو یوسف فرماتے ہیں میں نے امام ابو حنیفہ فرماتے تھے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بد ترین خراساں کے جہمیہ اور مشبہ ہیں 

[تاریخ بغداد ، جلد ۱۵، ص ۵۱۴، وسند صحیح]

2... امام بیھقی الاسماء والصفات میں اپنی سندصحیح سے بیان کرتے ہیں :

أنبأني أبو عبد الله الحافظ , إجازة , أنا أبو سعيد أحمد بن يعقوب الثقفي , ثنا عبد الله بن أحمد بن عبد الرحمن بن عبد الله الدشتكي , قال: سمعت أبي يقول: سمعت أبا يوسف القاضي , يقول: كلمت أبا حنيفة رحمه الله تعالى سنة جرداء في أن القرآن مخلوق أم لا؟ فاتفق رأيه ورأيي على أن من قال: القرآن مخلوق , فهو كافر قال أبو عبد الله رواة هذا كلهم ثقات

محمد بن سابق کہتے ہیں میں نے ابو یوسف سے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں ؟ تو انہوں (ابو یوسف) نے کہا استغفراللہ نہ ہی انہوں نے ایسا کہا نہ ہی میں کہتا ہوں راوی کہتا ہے میں نے پھر پوچھا کیا ابو حنیفہ کا عقیدہ جہم والا تھا ؟ تو ان (ابویوسف) نے فرمایا نہ ہی انکا عقیدہ ایسا تھا اور نہ ہی میرا 

امام بیھقی کہتے ہیں اس روایت کے سارے رجال ثقہ درجے کے ہیں 

[الأسماء والصفات للبيهقي، برقم:۵۵۱]

3... خبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم وقال النخعي: حدثنا محمد بن شاذان الجوهري قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، ومعلى بن منصور الرازي يقولان: ما تكلم أبو حنيفة ولا أبو يوسف، ولا زفر، ولا محمد، ولا أحد من أصحابهم في القرآن، وإنما تكلم في القرآن بشر المريسي، وابن أبي دؤاد، فهؤلاء شانوا أصحاب أبي حنيفة.

محمد بن شازان جوہری کہتے ہیں میں نے سلیمان جوزجانی ، معلی بن منصور سے سنا وہ کہتے ہیں : کہ ابو حنیفہ نے، ابو یوسف نے کلام نہیں کیا اور نہ ہی زفر نے ، نہ ہی محمد شیبانی نے اور اصحاب ابو حنیفہ میں سے کسی نے بھی قرآن کے (مخلوق ہونے )کے مسلے پر کلام نہیں اور جس نے قرآن کے مسلے پر کلام کیا وہ بشر المریسی ، ابن ابو داود ہیں اور یہ (دو) ابو حنیفہ کے اصحاب تھے

[تاریخ بغداد ، جلد ۱۵ ، ص ۵۱۶وسند جید ]

أخبرنا الخلال، قال: أخبرنا الحريري وقال النخعي: حدثنا نجيح بن إبراهيم، قال: حدثني ابن أبي كرامة وراق أبي بكر بن أبي شيبة، قال: قدم ابن مبارك على أبي حنيفة، فقال له أبو حنيفة: ما هذا الذي دب فيكم؟ قال له: رجل يقال له: جهم، قال: وما يقول؟ قال: يقول: القرآن مخلوق، فقال أبو حنيفة: {كبرت كلمة تخرج من أفواههم إن يقولون إلا كذبا}

اسکا مفہوم مختصر یہ ہے کہ ابن مبارک ابو حنیفہ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ایک شخص جہمی ہے تو ابو حنیفہ پوچھتے ہیں وہ کیا کہتا ہے ؟ تو ابن مبارک نے کہا کہ وہ قرآن کو مخلوق کہتا ہے تو ابو حنیفہ نے فرمایا ایسے بڑے کلمات جو انکے منہ سے نکلتے ہیں سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں ہیں .

[تاریخ بغداد جلد ۱۵ ، ص ۵۱۷، وسند حسن]

فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، حدثنا علي بن أحمد بن محمد القزويني، حدثنا أبو عبد الله محمد بن شيبان الرازي العطار- بالري- قال: سمعت أحمد بن الحسن البزمقي قال: سمعت الحكم بن بشير يقول: سمعت سفيان بن سعيد الثوري والنعمان بن ثابت يقولان: القرآن كلام الله غير مخلوق.

امام حکم بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری اور ابو حنیفہ سے سنا وہ دونوں کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے 

(تاریخ بغداد ، جلد ۱۵ ، ص ۵۱۷)

بحکم محقق سند حسن!

النعمان سوشل میڈیا سروسز

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...