نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

 اعتراض نمبر 30:  کہ دس ثقہ آدمیوں نے کہا کہ ابو حنیفہ قرآن کریم کو مخلوق ماننے کا نظریہ رکھتے تھے۔


 اعتراض نمبر 30: 
کہ دس ثقہ آدمیوں نے کہا کہ ابو حنیفہ قرآن کریم کو مخلوق ماننے کا نظریہ رکھتے تھے۔

أخبرني محمد بن علي المقرئ، أخبرنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ قال: سمعت محمد بن صالح بن هانئ يقول: سمعت مسدد بن قطن يقول: سمعت أبي يقول: سمعت يحيى بن عبد الحميد يقول: سمعت عشرة كلهم ثقات يقولون: سمعنا أبا حنيفة يقول: القرآن مخلوق.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ راوی کا یہ کہنا کہ میں نے ثقہ سے سنا ہے (اور اس کا نام ذکر نہ کرنا) مجھول سے روایت کرنا شمار کیا جاتا ہے۔ اور یہی حال ہے کہ جب ثقہ کی بجائے ثقات کہے۔

 نیز اس کا راوی "یحیی بن عبد الحمید" متکلم فیہ ہے یہاں تک کہ اس کو کذاب بھی کہا گیا ہے ۔ اور "ابو مسدد قطن بن ابراہیم بن عیسی نیسابوری" [1] نے دباغت کے بارے میں ابراہیم بن عمان کی حدیث اس سند سے بیان کی عن ایوب عن نافع عن ابن عمر تو اس سے حضرات نے اصل کا مطالبہ کیا تو اس نے ان کے سامنے حوالہ پیش کیا حالانکہ (یہ بات اس اصل میں موجود نہ تھی بلکہ) اس نے خود اس بات کو حاشیہ میں لکھا ہوا تھا تو یہ حالت دیکھ کر مسلم نے اس سے روایت لینا چھوڑ دیا [2]۔ حالانکہ مسلم اس کی طرف مائل تھے اور اس سے بہت سی روایات لی تھیں اور اس پر الزام تھا کہ اس نے حفص کی حدیث محمد بن عقیل سے چوری کی ہے۔ اور عبد الغنی نے کہا کہ نسائی نے اس کو ترک کر دیا تھا۔ اور اس کی حالت قطن بن نسير العنبری البصری سے بھی بری ہے جس پر ابن عدی نے حدیث چوری کرنے کا الزام لگایا تھا اور یہاں قطن سے قطن بن نسیر مراد نہیں ہے (بلکہ قطن بن ابراہیم ہے ) جیسا کہ یہ گمان الملک المعظم کو ہوا ہے اور الملک المعظم کی کتاب میں نسیر کی جگہ بشیر جو واقع ہوا ہے تو یہ تصحیف ہے۔ اور اسی طرح طبع ثانی میں بشر واقع ہے، وہ بھی نسیر سے تصحیف ہے۔ اور پھر اس وہم کرنے والے کی پیروی میں دوسرے بھی اس قطن بن نسیر سمجھتے رہے حالانکہ یہاں ابن نسیر کا کوئی تعلق نہیں، اس سے مراد ابو مسدد قطن بن ابراہیم ہی ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور قطن بن نسیر کا کوئی ایسا بیٹا تھا ہی نہیں جس کا نام مسدد ہو (اور اس کے نام سے اس کی کنیت ابو مسدد ہو) اور اس بے بنیاد افسانہ کا اتنا رد ہی کافی ہے۔

حدثنا أبو عبد الله الحسين بن شجاع الصوفي، أخبرنا عمر بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي، حدثنا يعقوب بن يوسف المطوعي، حدثنا حسين بن الأسود، حدثنا حسين بن عبد الأول، أخبرني إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة قال، هو قول أبي حنيفة: القرآن مخلوق.

اور خطیب نے ابو عبد اللہ الحسين بن شجاع الصوفی، عمر بن جعفر بن محمد بن سلم المختلی، یعقوب بن یوسف المطوعی، حسین بن الاسود، حسین بن عبد الاول، اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ کی سند نقل کر کے کہا کہ اسماعیل بن حماد نے کہا کہ ابو حنیفہ کا یہی نظریہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ایک تو انقطاع ہے (اس لیے کہ اسماعیل بن حماد کی ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سماعت نہیں) اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اس میں ایک راوی الحسین بن عبد الاول ہے[3]۔ ابو زرعہ نے کہا کہ میں اس سے حدیث بیان نہیں کرتا۔ اور ابو حاتم نے کہا کہ لوگ اس کے بارے میں کلام کرتے ہیں۔ اور ذہبی نے کہا کہ ابن معین نے اس کو جھوٹا کہا ہے۔ اور اس واقعہ کے مردود ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔

[1] . قطن بن إبراهيم بن عيسى بن مسلم بن خالد بن قطن بن عبد الله بن غطفان

مسلم بن الحجاج النيسابوري : ترك الكتابة عنه

أحمد بن شعيب النسائي : فيه نظر

ابن حجر العسقلاني : صدوق يخطئ

الذهبي : فيه مقال

[2]. وبه، قال: أخبرنا أحمد بن علي الحافظ ، قال: أخبرنا محمد بن أحمد بن يعقوب، قال: أخبرنا محمد بن نعيم وهو الحاكم أبو عبد الله الحافظ، قال: سمعت أبا علي الحافظ يقول: سمعت محمد بن إسحاق بن خزيمة يقول: سمعت محمد بن عقيل يقول: جاءني قطن بن إبراهيم فقال: أي حديث عندك أغرب من حديث إبراهيم بن طهمان؟ فقلت: حديث أيوب عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أيما أهاب دبغ فقد طهر ". فذهب إلى بغداد فحدث عن حفص

.وبه قال: أخبرنا أحمد بن علي ، قال: أخبرنا محمد بن أحمد بن يعقوب، قال: أخبرنا محمد بن نعيم، قال: أخبرني عبد الله بن محمد بن عبد الرحمان الرازي، قال: سمعت إبراهيم ابن محمد بن سفيان يقول: صار مسلم بن الحجاج إلى قطن بن إبراهيم وكتب عنه جملة وازدحم الناس عليه حتى حدث بحديث إبراهيم بن طهمان، عن أيوب فطالبوه بالأصل فأخرجه وقد كتبه على الحاشية فتركه مسلم. زاد غيره: قال وقال: غروابي غروابي.

(تهذيب الكمال - المزي - ج ٢٣ - الصفحة 612،613)

[3]۔ الأسم : حسين بن عبد الأول

الشهرة : الحسين بن عبد الأول الأحول

أبو زرعة الرازي : روى أحاديث لا أدري ما هي؟ ولست أحدث عنه، ولم يقرأ علينا حديثه

يحيى بن معين : كذبه

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...