نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 33: کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کے نظریہ سے براءت کا اعلان کیا اور اس سے توبہ طلب کی مگر ابو حنیفہ بعد میں بھی اسی نظریہ کا پرچار کرتے رہے۔



 اعتراض نمبر 33:
کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کے نظریہ سے براءت کا اعلان کیا اور اس سے توبہ طلب کی مگر ابو حنیفہ بعد میں بھی اسی نظریہ کا پرچار کرتے رہے۔

أخبرنا إبراهيم بن عمر البرمكي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف الدقاق، حدثنا عمر بن محمد بن عيسى الجوهري، حدثنا أبو بكر الأثرم قال: حدثني هارون بن إسحاق قال: سمعت إسماعيل بن أبي الحكم يذكر عن عمر بن عبيد الطنافسي عن أبيه: أن حماد بن أبي سليمان بعث إلى أبي حنيفة: إني بريء مما تقول إلا أن تتوب؟ قال: وكان عنده ابن عيينة، فقال: أخبرني جار لي أن أبا حنيفة دعاه إلى ما استتيب منه بعد ما استتيب.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں عمر بن محمد بن عیسی السزابی الجوہری ہے جس کے بارے میں ذہبی نے کہا کہ اس کی حدیث میں بعض نامعلوم باتیں ہوتی ہیں اور یہ اس موضوع حديث القرآن كلامي ومنى خرج کو روایت کرنے میں منفرد ہے۔ تفصیل کے لیے المیزان کا وہ حصہ دیکھیں جس میں اس کی سند پر بحث ہے[1]۔ 

اور اس روایت کا راوی اسماعیل بن ابی الحکم جو ہے، وہ اسماعیل بن ابی الحکم القرشی نہیں ہے جس کی وفات 130ھ میں ہوئی کیونکہ اس کو ہارون بن اسحاق نے نہیں پایا جس کی وفات 258ھ میں ہے تو یہ اسماعیل مجہول ہے اور اگر وہی ہے تو پھر کلام منقطع ہے جیسا کہ آگے عبید الطنافسی کا کلام بھی منقطع ہے (کیونکہ اس نے حماد بن ابی سلیمان کے ابو حنیفہ کی طرف پیغام بھیجنے کا معاملہ خود نہیں دیکھا) اور تاریخ بغداد کے پہلے مطبوعہ نسخے اور ہندی نسخے میں ابن ابی غنیہ۔ اور قلمی نسخے میں ابن ابی عیینہ ہے اور مصری دوسرے مطبوعہ نسخے میں ابن عیینہ ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے دوسرے نسخے میں کیسے ابن عیینہ بنا ڈالا ہے اور الملک المعظم کی کتاب میں ابن ابی غنیہ ہی ہے اور وہ عبد الملک بن حمید بن ابی غنیہ الکوفی ہے جو کہ ابن عیینہ کے شیوخ میں سے ہے اور ہم نہیں جانتے اور نہ ہی خطیب کو معلوم ہوگا کہ وہ پڑوسی کون تھا جس نے کہا کہ ابو حنیفہ اسی نظریہ کا پرچار کرتے تھے جس سے ان سے توبہ طلب کی گئی ۔ 

اس واقعہ کا یہ حال تو سند کے لحاظ سے تھا اور بہر حال متن کے لحاظ سے یہ ہے کہ بیشک اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے سب سے پہلے قرآن کے مخلوق ہونے کا قول کیا تھا، وہ الجعد بن درہم تھا اور یہ قول اس نے 120ھ سے کچھ سال بعد کیا تھا۔[2] اور یہ واقعہ حماد بن ابی سلیمان کی وفات کے کئی سال بعد ہوا اس لیے کہ بیشک اس کی وفات 120ھ یا اس سے پہلے ہوئی۔ تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اپنے شیخ کی زندگی میں ابو حنیفہ ایسا قول کرتے پھر وہ اس کی طرف پیغام بھیج کر اس سے براءت کا اظہار کرتے۔ حالانکہ وہ تو ساری زندگی اس سے ظاہری یا نظریاتی لحاظ سے دور ہوئے ہی نہیں ، کہ پیغام کی نوبت آئے جیسا کہ خود خطیب نے ج3 ص 333 میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ ابو حنیفہ کا حماد بن ابی سلیمان سے جدا نہ ہوتا تو ایسی بات ہے کہ اس کو متواترات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

پس اس سے معلوم ہو گیا کہ بیشک حماد بن ابی سلیمان بالاتفاق "خلق قرآن" کا فتنہ رونما ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے۔ اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کے ساتھیوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ساتھی تھے۔ یہاں تک کہ وہی بالاتفاق علم میں اس کے خلیفہ بنے اور ان کو باقی ساتھیوں کی یہ نسبت حماد بن ابی سلیمان کے ساتھ زیادہ ملازمت ( رفاقت) حاصل تھی۔ اور ایسی رفاقت حاصل تھی کہ وہ ان کی وفات تک ان کی گھریلو خدمات بھی سر انجام دیتے تھے جیسا کہ صحیح سندوں سے اس کا ثبوت ہے۔ جب یہ معاملہ ہے تو ان کے درمیان پیغام رسانی کیونکر ہو سکتی ہے؟ اور اس کی تفصیل کے لیے ابو الشیخ کی تاریخ اصبہان کے حوالہ سے ہم نے 《لفت اللحظ》 میں جو نقل کیا ہے، اس کا مطالعہ کریں۔ اور جب قرآن کریم کی اس حیثیت کو لیا جائے کہ وہ کلام اللہ ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو اس معنی کو لے کر تو امام ابو حنیفہ ایسا قول کرنے سے بہت ہی زیادہ بری الذمہ تھے کہ قرآن مخلوق ہے۔ اور یہی نظریہ ان کا خلق قرآن کے نظریہ کے فتنہ کے وقت سے وفات تک رہا۔ جب معاملہ یوں ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے شیخ کی زندگی میں یہ قول کریں جس کی وفات ہی اس فتنہ کے رونما ہونے سے کئی سال پہلے ہوئی۔ جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے جو صحیح سندوں کے ساتھ ابن ابی العوام اور الصیمری اور ابن عبد البر بلکہ خود خطیب نے روایت کی ہیں۔ تو اس بحث سے واضح ہو گیا کہ جیسے اس وقعہ کی سند میں گڑبڑ ہے، اسی طرح حالات

بھی اس واقعہ کے جھوٹ ہونے کے شاہد ہیں۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ عمر بن محمد بن عيسى الجوهري هو عمر بن محمد بن عيسى بن سعيد المعروف بالسذابي قال الخطيب في بعض حديثه نكرة

 (تاريخ بغداد ت بشار ج13/ص74)

وفي حديثه بعض النكرة وذكر له هذا الحديث المنكر فقال حدثنا عبد العزيز الأرحبي ثنا أحمد بن عبد العزيز الصريفيني ثنا عمر بن محمد ثنا الحسن بن عرفة ثنا يزيد بن هارون ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا عن جبرئيل عن الله قال انا الله لا اله الا انا كلمتي من قالها أدخلته جنتي ومن أدخلته جنتي فقد امن عذابي والقرآن كلامي ومنى خرج * قلت * هذا موضوع انتهى 

(لسان الميزان، ابن حجر - ج ٤ - الصفحة ٣٢٥)

[2]۔ صحیح روایات سے ثابت ہیکہ قرآن کو مخلوق سب سے پہلے الجعد بن درہم نے کہا تھا ۔

ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)

ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)

ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أحمد بن عبد اللّه الشّعرانيّ، يقول: سمعت سعيد بن رحمة، صاحب إسحاق الفزاريّ يقول: " إنّما خرج جهمٌ، عليه لعنة اللّه، سنة ثلاثين ومائةٍ، فقال: القرآن مخلوقٌ، فلمّا بلغ العلماء تعاظمهم فأجمعوا على أنّه تكلّم بالكفر، وحمل النّاس ذلك عنهم ".

 (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 423)

قارئین مکمل تفصیلی جواب "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کے دیے گئے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

اعتراض نمبر 4: امام اعظم ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن


اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت


اعتراض نمبر 65 : امام حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ م 120ھ سے منقول فقیہ ملت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ م 150ھ پر جروحات کا جائزہ :

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...