اعتراض نمبر 35: کہ ابن ابی لیلی نے اشعار میں ابو حنیفہ کو برے آدمی کا کافر شیخ کہا ہے۔
أخبرنا محمد بن عبيد الله الحنائي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن إبراهيم الشافعي، حدثني عمر بن الهيصم البزاز، أخبرنا عبد الله بن سعيد - بقصر ابن هبيرة - حدثني أبي أن أباه أخبره. أن ابن أبي ليلى كان يتمثل بهذه الأبيات:
إلى شنآن المرجئين ورأيهم * عمر بن ذر، وابن قيس الماصر وعتيبة الدباب لا نرضى به * وأبو حنيفة شيخ سوء كافر.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ عمر بن ذر تو بخاری نسائی اور ترمزی اور ابو داؤد کا راوی ہے [1]، وہ بھی اور اس کا باپ بھی عبادت گزار بندوں میں سے تھے [2]۔ یہ دونوں اس کا انکار کرتے تھے کہ ایمان قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔ اور انہوں نے یہ نظریہ اس لیے اختیار کیا تا کہ امت کو معصیت کے ارتکاب اور طاعت میں کوتاہی کی وجہ سے ایمان سے خارج کرنا لازم نہ آئے تو اس نے ان دونوں کو ارجاء کے ساتھ منسوب کر دیا اور یہ برے لقب سے پکارنا ہے اور ایسی بات (ان کو ارجاء کی طرف منسوب کرنا) صرف قدری یا خارجی سے ہی صادر ہو سکتی ہے جیسا کہ اس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔ اور اس عمر بن ذر نے ابو حنیفہ سے تین سال بعد وفات پائی۔
اور عمر بن قیس الماصر تو علم اور پرہیز گاری میں بلند مرتبہ تھے[3]۔ اور اس کا باپ پہلا شخص ہے جس نے دجلہ اور فرات کے شہر کو بسایا۔ اس طرح کہ بیشک اس نے سواریوں کی جانچ پڑتال کے لیے ان کے ساحلوں کے درمیان ایک لمبی رسی کھینچ دی جیسا کہ اس کا ذکر ابن السمعانی نے الانساب میں الماصر کے ضمن میں کیا ہے۔ اور ابو الشیخ کی تاریخ اصبہان میں اس کا اور اس شہر کے رہنے والوں کا تفصیلی ذکر ہے۔
اور عتیبہ الدباب تو ابراہیم النخعی کا ساتھی اور الحکم کاباپ ہے۔
اور ابو حنیفہ تو امام اعظم ہیں[4] جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے اور طاغوت کا انکار کرتے ہیں اور اگر یہ نہ ہوتے تو قدریہ اور خوارج اور ان کے جاہل پیروکار ناقلین جمہور مسلمانوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے اور ان کو راہ راست سے ہٹا دیتے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کو توفیق بخشی کہ انہوں نے ان کے گمراہ کن نظریات کو واضح کیا یہاں تک کہ جمہور مسلمانوں کے سامنے ان کی گمراہی واضح ہو گئی تو وہ مسلمان گمراہی سے بچ کر ایک امین کی حفاظت میں ہو گئے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کی شخصیت بہت بلند ہے اس بات سے کہ اس قسم کے گھٹیا اشعار پڑھے جن کا کہنے والا جہنم کے کتوں خارجیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا جن کا نظریہ یہ ہے کہ جو ان کے نظریہ کا مختلف ہے، وہ کافر ہے۔ اور اللہ تعالی کے لیے ہی خوبی ہے کہ ابو حنیفہ کا سینہ کس قدر وسیع ہے جب ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو ان کو کافر کہتا تھا تو انہوں نے کہا کہ جو مجھے کافر کہتا ہے، میں اس کو کافر نہیں کہتا لیکن اس کو جھوٹا کہتا ہوں جیسا کہ العالم والمتعلم میں ہے جو ابو مقاتل حفص بن سلم کی ان سے کی گئی روایت میں ہے.
اور تاریخ بغداد کے تینوں مطبوعہ نسخوں میں 《إلى شنآن》 کے الفاظ ہیں مگر یہ درست نہیں اس لیے کہ اس صورت میں شعر کا معنی ہی نہیں بنتا اور شعر کے اصل الفاظ 《انی شنئت 》 ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیے ہیں۔ اور آخری طبع میں 《ابو حنیفہ》 کے الفاظ ہیں مگر درست 《ابا حنيفة》 ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور یہی ظاہر ہے۔
اور میں نہیں جان سکا کہ خطیب نے اپنے لیے ان ائمہ کے بارے میں اس فحش اور کم فہمی پر مشتمل کلام کو لکھنا کیسے جائز سمجھ لیا۔ ایسی سند کے ساتھ جو کہ ساقط ہے باوجودیکہ اس کو ان حضرات کا مرتبہ علم اور ورع میں معلوم ہے اور اگر خطیب حضرت عمر کے زمانہ میں ہوتا تو وہ ضرور اس پر درہ لے کر اٹھتے یا اس کو تعزیرا قید کر دیتے جیسا کہ انہوں نے الحطیئہ کے ساتھ کیا تھا جبکہ اس نے زبرقان کی اس سے بھی کم الفاظ میں توہین کی تھی۔[5]
اس نے اس کے بارے میں اپنے اشعار میں کہا تھا تو
دعِ المكارمَ لا ترحلْ لبُغيتها
واقعدْ فإنك أنت الطاعمُ الكاسي
توں قابل قدر کاموں کو چھوڑ دے اور ان کے حصول کے لیے سفر نہ کرے اور بیٹھا رہ کیونکہ تو پیٹو لباس پہنے والا ہے (یعنی تجھے کھانے اور پہننے کی فکر ہے) .
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کئ سال قید کیے رکھا یہاں تک کہ اس نے توبہ کی اور معافی مانگی اور ان کی جانب
ماذا تَقولُ لِأَفراخٍ بِذي مَرَخٍ
حُمرِ الحَواصِلِ لا ماءٌ وَلا شَجَرُ
أَلقَيتَ كاسِبَهُم في قَعرِ مُظلِمَةٍ
فَاِغفِر عَلَيكَ سَلامُ اللَهِ يا عُمَرُ
حماقت کا مظاہرہ کرنے والے کے ان بچوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جو کمزور پوٹوں والے (کہ بھوک کی وجہ سے ان کے پوٹے کمزور ہو چکے ہیں) اور ایسی جگہ میں ہیں جہاں نہ پانی ہے اور نہ کوئی درخت ان کے لیے کمانے والے کو آپ نے تاریک کمرے میں ڈال دیا ہے۔ اے عمر! آپ پر اللہ کی جانب سے سلامتی ہو، پس آپ معاف کر دیں.[6]
تو حضرت عمر نے اس کو معاف کر دیا اور اس کو آزاد کر دیا اور یہ واقعہ فقہ کی کتابوں میں باب التعزیر میں مشہور ہے، صرف ادب کی کتابوں میں نہیں ہے تو جب ان اشعار کا کہنے والا سزا کا مستحق ہے کہ اس کو کئی سال تک قید میں رکھا جائے تو اس شخص کی سزا کی مقدار کتنی ہوگی جو ان اشعار کا کہنے والا ہے (جو ابو حنیفہ وغیرہ کی گستاخی پر مشتمل
ہیں) اور ان اشعار کی غلطی پر آگاہ بھی نہیں کرتا۔
اور ان اشعار میں شریعت کے خلاف جو بغاوت اور کھلے جرائم کا ارتکاب ہے، وہی آپ کے لیے کافی ہے کہ اس بارہ میں سند کے لحاظ سے بحث نہ کی جائے کیونکہ معلوم ہو چکا کہ یہ خبر کلام کے لحاظ سے ہی ساقط ہے . لیکن ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پس میں کہتا ہوں کہ ابن الہیثم اور اس سے نچلے راویوں کے بارہ میں تو کلام ہی
چھوڑ دیں. اور اس میں جو عبد اللہ بن سعید راوی اپنے باپ سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کر رہا ہے۔ اگر یہ " ابو عباد المقری" ہے تو اس کے بارے میں امام بخاری نے کہا ہے کہ حضرات محدثین نے اس کو ترک کر دیا تھا۔ اور اگر وہ "ابو سعید الاشج" ہے تو اس کی کوئی روایت 《عن ابيه عن جدہ 》 کی سند سے معروف نہیں ہے نیز یہ کہ اس کے باپ اور اس کے دادا کا حال معلوم نہیں ہے اور اگر یہ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ بھی اور اس کا باپ بھی اور اس کا دادا بھی مجہول ہیں اور "شیخ سوء کافر" کا جملہ ترکیب میں ایسے ہی ہے جیسے "جحر ضب خرب" ہے اور اس کا قائل صرف وہی ہو سکتا ہے جو خود برے آدمی کا کافر استاد ہو۔
[1]۔ عمر بن ذر بن عبد الله بن زرارة ۔
آپ سے صحیح بخاری میں 5 روایات ( 3218 ، 6246،4371 ، 6452، 7455 ) سنن ابو داود میں 1 (3397) ، سنن نسائی میں 1 (958) جبکہ سنن ترمذی میں 2 روایات ( 3158 ، 2477 ) روایت کی گئیں ہیں۔
[2]۔ ذر بن عبد الله بن زرارة
الرتبة : ثقة
[3]۔ عمر بن قيس
الشهرة : عمر بن أبي مسلم الماصر
الرتبة: ثقة
[4]۔ الحكم بن عتيبة
الشهرة : الحكم بن عتيبة الكندي
الرتبة : ثقة ثبت
[5]۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ غیر مقلد اہلحدیثوں نے بھی امام اعظم کے لقب سے کیا ہے۔
جیسا کہ
1۔ آئمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع صفحہ 92 ، مصنف : نواب صدیق حسن خان قنوجی غیر مقلد ، مترجم :محمد اعظمی ۔

2۔صلوہ النبی صلی اللہ علیہ وسکم صفحہ 111 ، مصنف : محمد ابراہیم میر سیالکوٹی غیر مقلد
3۔معیار الحق صفحہ 29 ، 150، نذیر حسین دہلوی غیر مقلد

4۔فتاوی علمائے حدیث جلد 12 صفحہ 18 ،مکتبہ سعیدیہ خانیوال

5۔صلوہ الرسول صفحہ 146 ،حکیم محمد صادق سیالکوٹی
6۔ الحیاتہ بعد المماتہ صفحہ 295، مکتبہ اثریہ

7۔ رسائل ثنائیہ صفحہ 291 ، مکتبہ ربانیہ
8.تاریخ اہلحدیث صفحہ 79 ، ابراہیم سیالکوٹی

[5]۔ الزبرقان بن بدر بن امرئ القيس بن خلف بن بهدلة بن عوف بن كعب بن سعد بن زيد مناة بن تميم البهدلي السعدي التميمي رضی اللہ عنہ۔
يكنى أبا عياش، وقيل: يكنى أبا سدرة .
[6] ▪︎(اسد الغابه - ط العلميه ، ابن الأثير عزالدین جلد : 2 صفحہ : 303)
▪︎ تاريخ المدينة - ابن شبة النميري - ج ٢ - الصفحة ٥٢٦
▪︎ ( الاستيعاب - ابن عبد البر - ج ٢ - الصفحة ٥٦٢)
▪︎ (الشعر والشعراء ، الدِّينَوري، ابن قتيبة جلد : 1 صفحہ : 316)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں