اعتراض نمبر 39: کہ خالد القسری نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی تھی تو اس معاملہ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے ابو حنیفہ فقہ میں شروع ہو گئے
اعتراض نمبر 39:کہ خالد القسری نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی تھی تو اس معاملہ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے ابو حنیفہ فقہ میں شروع ہو گئے
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثني الوليد قال: حدثني أبو مسهر، حدثني محمد بن فليح المدني عن أخيه سليمان - وكان علامة بالناس -: أن الذي استتاب أبا حنيفة خالد القسري. قال:فلما رأى ذلك أخذ في الرأي ليعمى به.
وروى أن يوسف بن عمر استتابه، وقيل إنه لما تاب رجع أظهر القول بخلق القرآن، فاستتيب دفعة ثانية فيحتمل أن يكون يوسف استتابه مرة، وخالد استتابه مرة والله أعلم.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ ابن درستویہ جو اس روایت میں راوی ہے وہ عبد اللہ بن جعفر ہے جس کے بارے میں البرقانی اور اللالکائی نے بہت کچھ کہا ہے [1] ۔ اور اس کا راوی محمد بن فلیح ہے جس کے بارے میں ابن معین نے کہا کہ وہ ثقہ نہیں ہے [2] اور سلیمان بن فلیح[3] کے بارے میں ابو زرعہ کہتے ہیں کہ میں اس کو نہیں پہچانتا اور نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ فلیح کا محمد اور یحیی کے علاوہ کوئی بیٹا تھا۔ الخ۔
پس ہائے اللہ کی شان کہ خالد بن عبد اللہ القسری خلق قرآن کے مسئلے میں اس نظریہ کے رونما ہونے سے پہلے ہی فقیہ ملت ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرتا ہے اور یہ القسری وہ ہے جس نے اپنی ماں کے لیے گرجا بنایا تھا جس میں وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ اور یہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عید الاضحی کے دن الجعد بن درہم نے اس کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کیا تھا[4]۔ اور یہ واقعہ مشہور ہونے اور پھیل جانے کے باوجود ثابت نہیں ہے کیونکہ اس میں القاسم بن محمد بن حمید المعمری روایت کرنے میں منفرد ہے اور اس کے بارے میں ابن معین نے کہا کہ وہ کذاب خبیث تھا جیسا کہ علامہ ذہبی کی میزان الاعتدال میں ہے۔
اگر یہ واقعہ خالد سے فرض کر لیا جائے تو اس زمانہ میں دین کے شعائر میں سے کسی ایک کی توہین پر علماء خاموش نہ رہے اور جس آدمی کا قتل واجب ہے، اس کا خون بہانا اور چیز ہے اور اس کی جانب سے قربانی کا جانور ذبح کرنا اور بات ہے۔ (کیونکہ جس کا قتل واجب ہو اس کا خون بہانا اس کی توہین ہے جبکہ اس کی جانب سے قربانی کا جانور ذبح کرنا تو اس کا اعزاز ہے) اور تاریخ اسلام میں خالد کا کردار تو عجیب اور عار ہے[5]۔ اور ابن کثیر نے الجعد کا قتل 124ھ ذکر کیا ہے جبکہ القسری عراق کی ولایت سے چار سال پہلے ہی معزول ہو چکا تھا اور الجعد کے اس بدعت کو ایجاد کرنے کی تاریخ کے
بارے میں ابن ابی حاتم اور اللاکائی نے جو ذکر کیا ہے وہ آپ کے پیش نظر ہونا چاہئے[6]۔ اور اس کو بھی دیکھنا چاہئے جو خطیب نے یہاں ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں ایسے لوگ ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کا واقعہ ہشام بن عبد الملک کے زمانہ میں 120 سے پہلے پیش آیا جبکہ القسری اس سال میں ولایت سے علیحدہ ہو چکا تھا۔ پھر خطیب نے سند بیان کیے بغیر کہا کہ روایت کی گئی ہے کہ بیشک یوسف بن عمر نے اس سے توبہ طلب کی تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشک جب اس نے توبہ کی تو رجوع کر لیا۔ اور زیادہ واضح بات یہ ہے کہ خلق قرآن کے مسئلے میں اس سے دوبار توبہ طلب کی گئی تو اس کا احتمال ہے کہ ایک مرتبہ یوسف نے اور دوسری مرتبہ خالد نے توبہ طلب کی۔ واللہ اعلم۔
اور اس نے پہلی روایت کو دوسری روایت سے متعارض کر کے روایت میں اضطراب نہیں مانا بلکہ توبہ طلب کرنے کے واقعہ میں تکرار پر محمول کیا لیکن اس جیسی جمع تب ہی ہو سکتی ہے جبکہ دونوں سندیں صحیح ہوں اور دونوں خبروں کو اس طرح جمع کرنے کے ارادہ میں خطیب کی کاروائی انتہائی تعجب کی بات ہے اس لیے کہ ان دو خبروں میں سے ایک کی سند اس نے لکھی ہے اور دوسری خبر کی بالکل کوئی سند ہی نہیں بتائی۔ اور یوسف بن عمر الثقفی وہ ہے جو عبد الملک کے زمانے میں خالد کے بعد 120ھ میں عراق کا والی بنا اور شاید کہ معزز قارئین اس کو نہ بھولے ہوں جو ہم نے خلق قرآن کے رونما ہونے کی تاریخ کے بارے میں ابن ابی حاتم اور اللالکائی جیسے حافظین سے نقل کیا ہے تو الجعد کا قتل یوسف الثقفی کے زمانے میں تھا نہ کہ خالد القسری کے زمانہ میں[7]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ أبو بكر البرقاني : ضعفوه لأنه لما روى كتاب التاريخ عن يعقوب بن سفيان أنكروا عليه وقالوا له إنما حدث يعقوب بهذا الكتاب قديما فمتى سمعته؟
هبة الله بن الحسن الطبري : ضعيف
[2]۔ محمد بن فليح بن سليمان الأسلمي أبو عبد الله۔
▪︎ قال أبو حاتم: ما به بأس.
وليس بذاك القوى.
ابن معين: ليس بثقة.
( میزان الاعتدال ، دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - لبنان-ط 1 1963 , ج: 4- ص: 1)
▪︎ محمد بن فليح بن سليمان أبو عبد الله الأسلمي
يروي عن موسى بن عقبة قال يحيى ليس بثقة وقال أبو حاتم الرازي ليس بذاك القوي
( الضعفاء والمتروکین لابن جوزی دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان-ط 1 1986 , ج: 3- ص: 1)
[3]غیر مقلدوں کے مشہور محدث اعظم شیخ ناصر الدین البانی یورپی نے بھی فلیح بن سلیمان کو ضعیف کہا ہے۔
"فلیح بن سلیمان ، اگر چہ اس سے شیخین (بخاری و مسلم ) نے احتجاج کیا ہے مگر اس کے حفظ میں ضعف ہے"
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة للألباني، 14/1037، الناشر: دار المعارف ۔
الثمر المستطاب ، ج 2 ص 528، کتاب الصلاۃ۔ )
[4]۔ یہاں فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص424 پر مشہور غیر مقلد دماغی مریض شیخ زبیر علی زئی صاحب نے علامہ عبدالقدوس خان قارن مدظلہ پر اعتراض کیا ہے کہ ان میں علمی قابلیت نہ تھی۔
جواب:
《 انه ذبح الجعد بن درھم》
اگرچہ اس عبارت میں الجعد مفعول به بنتا ہے یعنی انھوں نے جعد بن درھم کو ذبح کیا تھا ، لیکن علامہ قارن کو یہاں غلط فہمی ہوگئی ہے کہ شائد 《ذبح》 اور《 الجعد》 کے بیچ حرف 《 مِن》 محذوف ہوگا اور اسکی وجہ پرانے نسخوں میں حروف کی غلطیاں اھل علم پر مخفی نہیں ، تاہم حقیقت وہی ہے کہ "قسری نے الجعد کو عید الاضحٰی کے دن بطور قربانی ذبح کیا تھا نہ کہ قسری نے الجعد کی طرف سے قربانی کی"۔
یہ کوئی ایسی بات نہی تھی جس کو مخالف لے کر خوش ہو رہا ہے ، ایسا تراجم کے وقت قاری کے ساتھ ہوتا ہے ، ورنہ اہلحدیث جدید غیر مقلدین حضرات کی گھر کی خبر لی جائے تو سنابلی صاحب مسئلہ یزید کی متعلق کتاب میں حافظ زبیر علی زئی صاحب کو قصدا تراجم میں تحریف کرنے کے الزامات تک سے موصوف کرتے رہیں ہیں۔ مثلا فرقہ اہلحدیث کے ہی ایک عالم جناب کفایت اللہ سنابلی ہندی اپنی کتاب "کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والے تھے؟" صفحہ 2 میں فرقہ اہلحدیث کے محدث العصر کے بارے میں لکھتے ہیں
"’’زبیر علی زئی صاحب پر ہمارا یہ اعتماد قطعاً باقی نہیں ہے، ہماری اس بات کو منسوخ سمجھا جائے جس طرح محدثین بعض رواۃ کی توثیق کردیتے ہیں اور بعد میں اصل حقائق سے آگاہی کے بعداسے مجروح قرار دیتے ہیں کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے۔ دراصل ہم نے حسن ظن کی بنیاد پر یہ باور کیا تھا کہ زبیر علی زئی صاحب محدثین وائمہ کےحوالے سے جو کچھ نقل کرتے ہیں ان سب میں پوری امانت ودیانت کا ثبوت دیتے ہوں گے اسی طرح تحقیق حدیث میں جن قواعد و اصول کو بنیاد بناتے ہیں وہ بھی محدثین سے ثابت ہوں گے۔ لیکن جب ہمارا ان سے مناقشہ ہوااور ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ان کی پیش کردہ باتوں کو اصل مراجع سے دیکھا جائے تو اس مرحلہ میں یہ اوجھل حقیقت منکشف ہوئی کہ زبیرعلی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلاًخود ساختہ اصولوں کو بلا جھجھک محدثین کا اصول بتاتے ہیں، بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے، اور کہیں محدثین کی غلط ترجمانی کرتے ہیں یابعض محدثین و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتے ہیں، اور کسی سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں۔ اور فرق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتیں۔
ان تمام کوتاہیوں کے با وجود زبیر علی زئی صاحب کے اندرایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے اقوال کی بھی چھان بین ضروری سمجھتے ہیں کہ آیا وہ ناقدین سے ثابت ہیں کہ نہیں یہ ایک اہم خوبی ہے اور محض اسی امتیاز نے راقم السطورکو ان کی تحریروں کی طرف راغب کیا لیکن افسوس کہ اس بابت بھی آنجناب کی تحقیقات پر اس لحاظ سے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ مبادا یہاں بھی موصوف نے وہی طرز عمل اختیار کیا ہوگا جس کی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا ہے‘‘۔
(زبیر علی زئی کے رد میں دوسری تحریر۔ کیایزید بن معاویہ رحمہ اﷲسنت کوبدلنے والے تھے؟: ص۲)۔
نیز قارئین کو اگر گستاخ صحابہ انجینئر محمد علی مرزا کے استاد محترم ، مزعومہ محدث العصر ، دماغی مریض جناب شیخ زبیر علی زئی صاحب کے تناقض ، جھوٹ اور مغالطے پڑھنے ہوں تو ، مواد حاضر ہے جس میں علی زئی کے 100 سے زائد تناقضات ، مغالطے بیان کئے گئے ہیں۔
تناقضات زبیر علی زئی صفحات کے سکین کے ساتھ۔
[5]۔ أبو الهيثم خالد بن عبد الله بن يزيد بن أسد بن كرز البجلي القسري الدمشقي
الجرح والتعدیل :
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : أحاديثه كلها لا يتابع عليها لا إسنادا ولا متنا وهو عندي ضعيف
امام جرجانی کہتے ہیں اسکی تمام احادیث کی متابعت نہیں کی گئی نہ سند اور نہ ہی متن کے اعتبار سے اور میرے نزدیک ضعیف ہے۔
أبو جعفر العقيلي : لا يتابع علي حديثه، وله أخبار شهيرة وأقوال فظيعة
اس کی احادیث کی متابعت نہیں کہ گئی , اس کی اخبار بہت ساری مشہور ہیں اور خراب اقوال بھی۔
أبو حاتم الرازي : ليس بقوي
یہ بالکل قوی نہیں۔
الذهبي : صدوق
حدیث میں سچا تھا۔
سيار أبو الحكم العنزي : كان أشرف من أن يكذب
یعنی یہ جھوٹ سے بری تھا
يحيى بن معين : كان رجل سوء، وكان يقع في علي بن أبي طالب
یہ برا آدمی تھا ، حضرت علی رضی اللہ پر زبان درازی کرتا تھا یعنی ناصبی تھا
[6]۔ ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔
(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
[7]۔ اسی طرح مشہور نیم رافضی و گستاخ صحابہ انجینئر محمد علی مرزا جہلمی کے استاد ، مزعومہ محدث العصر ، شیخ زبیر علی زئی اعتراض کرتے ہیں
" عبدالقدوس قارن نے مولانا ارشاد الحق اثری کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اور دوسری بات کرنے میں تو اثری صاحب نے بے تکی کی حد ہی کردی جب وہ ذرا ہوش میں آئیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ امام صاحبؒ کے جنازہ میں صرف احناف شریک تھے؟ دیگر مذاہب (مالکی، شافعی اور حنبلی وغیرہ) کے لوگ شریک نہ تھے۔ جب وہ لوگ شریک تھے اور ان کے نزدیک قبر پر جنازہ پڑھنا درست ہے اور انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق عمل کیا تو اس پر اعتراض کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟(مجذوبانہ واویلا ص۲۸۹ طبع اول جون ۱۹۹۵ مکتبہ صفدریہ نزد مدرسہ نصرۃ العلوم گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ)
تنبیہ: قارن صاحب کی عارت میں بریکٹیں ان کی طرف سے ہی لکھی گئی ہیں۔ عرض ہے کہ ۱۵۰ ہجری میں فوت ہونے والے امام ابوحنیفہ کے جنازہ میں امام شافعی (پیدائش ۱۵۰ھ) اور امام احمد (پیدائش ۱۶۴ھ) کے مقلدین کہاں سے آگئے تھے۔ کیا عالم غیب سے ان کا ظہور ہوا تھا؟ مدرسہ نصرت العلوم میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو یہ کہے کہ حضرت آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ کیا آپ ہوش میں ہیں؟
" دماغی مریض شیخ زبیر علی زئی کو جواب " :
مذاہب کی طرف نسبت کرنا بعد میں ہوا ہے ، جبکہ "مختلف فیہ مسائل" تو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور سے ہی چلتے آ رہے تھے اور لوگ ان پر عمل بھی کر رہے تھے ، تو ان مسائل کو جن جن آئمہ کرام نے تدوین کیا، راجح قرار دیا بعد میں ان مسائل پر عمل کرنے والوں کو ان آئمہ کی طرف نسبت کی وجہ سے شافعی ، مالکی ، حنبلی وغیرہ قرار دیا گیا۔
مثلا
1۔کوفہ اور مدینہ میں ترک رفع الیدین پر عمل تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور سے تھا ، لیکن تدوین فقہ کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کو حنفی یا مالکی کہا جانے لگا۔
2۔ عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت " امام عاصم بروایت حفص" رائج ہے ، اب کوئی جاہل یہ کہے کہ عاصم کوفی رحمہ اللہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں پیدا ہی نہ ہوئے تھے تو یہ قراءت کیسے وجود میں آ گئی ؟ تو ایسے جاہل کی جہالت پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ یہ قراءت کو پہلے سے موجود تھی ، جیسے قاری عاصم کوفی رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قراءت سیکھی ، اور امت تک پہنچائی ، اور اس وجہ سے ان سے منقول قراءت کو قرات عاصم کوفی کہتے ہیں ، ویسے ہی فقہی مسائل موجود تھے ، ان پر عمل کرنے والے بھی موجود تھے ، لیکن تدوین فقہ کے بعد عمل کرنے والوں کو بعد میں حنفی ، شافعی، مالکی یا حنبلی کہا جانے لگا ۔
جیسے عاصم کوفی نہ تھے لیکن قراءت تھی ، ویسے ہی امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ نہ تھے لیکن مختلف فیہ مسائل پر عامل لوگ ضرور تھے۔ ان لوگوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے جنازے میں شرکت کی ، اور انہی لوگوں کو حافظ قدوس قارن صاحب نے شافعی یا حنبلی کی طرف منسوب کیا ، لیکن دماغی مریض زبیر علی زئی کا علمی مقام اتنا نہ تھا کہ اس بات کو سمجھ سکے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں