امام حسن بن صالح کے نزدیک امام ابو حنیفہ کا علمی مقام
✍️ تحریر محمد حسیب
امام حسن بن صالح فرماتے ہیں فرماتے ہیں
امام ابو حنیفہ سمجھدار عالم اور اپنے علم میں مضبوط تھے اپ کے نزدیک اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث ثابت ہو جاتی تو پھر اپ کسی اور طرف رجوع نہیں کرتے تھے
اسکو امام ابن عبد البر نے درج ذیل سند سے روایت کیا ہے
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺤﻠﺒﻲ ﻗﺎﻝ ﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﻭﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻤﻘﺮﻯ ﻗﺎﻝ ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻻ ﻧﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﻳﻘﻮﻝ ﻛﺎﻥ اﻟﻨﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻓﻬﻤﺎ ﻋﺎﻟﻤﺎ ﻣﺘﺜﺒﺘﺎ ﻓﻲ ﻋﻠﻤﻪ ﺇﺫا ﺻﺢ ﻋﻨﺪﻩ اﻟﺨﺒﺮ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪﻩ ﺇﻟﻰ ﻏﻴﺮﻩ
الانتقاء للإمام ابن عبد البر 1/128
اسکی سند کے رجال کا مختصر تعارف درج ذیل ہے
1...اسحاق بن محمد بن أحمد الحلبی صدوق درجے کا راوی ہے.... الدلیل المغنی لشیوخ الإمام ابی الحسن الدار القطنی 1/148
2... اگلہ راوی سلیمان بن سیف الحرانی ہے ابن عبدالبر کے نسخہ میں تصحیف لگتی ہے سیف کی بجائے یوسف لکھا ہے اسحاق بن احمد الحلبی کے شیوخ میں سلیمان بن سیف الحرانی کا تذکرہ ہے تو غالب امکان ہے کہ یہ سلیمان بن یوسف نہیں بلکہ سلیمان بن سیف ہی ہو.... واللہ اعلم بالصواب.
تنبیہ... آگے سلیمان بن سیف کا ثقہ متابع احمد بن یحی بھی موجود ہے کیونکہ سند کی عبارت کچھ یوں ہے
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺤﻠﺒﻲ ﻗﺎﻝ ﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ
یہ ایک سند ہے
اسکے بعد دوسری سند یہ ہے
ﻭﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻤﻘﺮﻯ ﻗﺎﻝ ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ
یہاں تک دونوں اسناد یحیی بن آدم تک آکر مل جاتی ہیں
تبھی ابن عبدالبر لکھتے ہیں؛
ﻗﺎﻻ ﻧﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﻳﻘﻮﻝ ﻛﺎﻥ اﻟﻨﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻓﻬﻤﺎ ﻋﺎﻟﻤﺎ ﻣﺘﺜﺒﺘﺎ ﻓﻲ ﻋﻠﻤﻪ ﺇﺫا ﺻﺢ ﻋﻨﺪﻩ اﻟﺨﺒﺮ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪﻩ ﺇﻟﻰ ﻏﻴﺮﻩ
تو سلیمان بن یوسف کا متابع احمد بن یحیی بنتا ہے
3...پھر اگلے راوی ابو محمد عبد الرحمن بن عبد اللہ المقری ہیں یہ بھی ثقہ ہیں سیر اعلام النبلاء 13/147 الرقم 78
4...پھر احمد بن یحی بن زکریا الکوفی ہے یہ بھی ثقہ عابد ہے تقریب التھذیب للحافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ
5...پھر یحی بن آدم الکوفی ہے جوکہ ثقہ حافظ اور فاضل ہے تقریب التھذیب ایضاً
6.....پھر امام حسن بن صالح ہے یہ بھی ثقہ امام ہیں تقریب التھذیب
اسکا ایک شاہد امام ابن ابی العوام نے فضائل ابی حنیفہ میں نقل کیا ہے
نوٹ.. اس مضمون کے اور بھی بہت سے شواہد موجود ہیں
ھذا ما عندی واللہ اعلم بحقیقة الحال
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں