نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مولانا ارشاد الحق صاحب اثری کے علمی جائزہ کا تحقیقی جائزہ

 


مولانا ارشاد الحق صاحب اثری کے علمی جائزہ کا تحقیقی جائزہ

بسم الله الرحمن الرحیم

 نحمده ونصلى على رسوله الكريم - اما بعد۔

 مسلک اہل حدیث کے ایک جریدہ ہفت روزہ الاعتصام ربیع الاول ۱۳۱۷ ھ میں غیر مقلدین حضرات کے نامور قلمکار مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کا ایک مضمون تین قسطوں میں شائع ہوا تھا ۔ جس کا عنوان انہوں نے

 " علامہ الکوثری کے بدعی افکار "

 قائم کیا ۔ جس کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اس مضمون کا مقصد کسی علمی مسئلہ کی تحقیق یا خیر خواہی پر مبنی تنقید نہیں بلکہ محض علامہ کوثری کی کردار کشی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس مضمون میں زیر بحث لائے جانے والے ہر مسئلہ میں انتہائی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے ۔ اس طرز تنقید کی حوصلہ شکنی کے لیے احقر نے محترم جناب اثری صاحب کے اس مضمون کا تفصیلی جواب لکھا جو ماہنامہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ محرم ۱۳۱۸ ھ میں

 " احناف دشمنی کا خمار یا علامہ الکوثری کے بدعی افکار " کے عنوان سے شائع ہوا ۔ محترم اثری صاحب نے اپنے مضمون کے دفاع اور ہمارے مضمون کے جواب میں پھر الاعتصام میں علامہ کوثری کے بدعی افکار کے دفاع کا علمی جائزہ کے عنوان سے پانچ قسطوں میں مضمون شائع کیا جس میں بفضلہ تعالیٰ انہوں نے کئی باتوں میں دبے لہجہ میں ہمارے موقف کی تائید اور اپنے مضمون کی کمزوری کو تسلیم کیا ہے ۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے بحث کو ہمارے مضمون کے علمی جائزہ کے دائرہ میں ہی رکھنے کی بجائے خواہ مخواہ ادھر ادھر کی باتیں بڑھا کر اپنے مضمون کو طوالت دی تاکہ کہا جا سکے کہ پانچ قسطوں میں علمی جائزہ پیش کیا گیا ہے حالانکہ اس مضمون کے ایک طویل حصہ میں بالکل زائد اور نئی بحث چھیڑ کر مسئلہ کو الجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور متعلقہ امور میں بحث کرتے ہوئے بھی خواہ مخواہ طوالت سے کام لیا گیا ہے۔ جبکہ اثری صاحب کا حق اور اخلاقی فریضہ یہی تھا کہ کسی نئی بحث اور مسئلہ کو ذکر کئے بغیر ہمارے مضمون کا ہی علمی جائزہ پیش کرتے جیسا کہ انہوں نے عنوان قائم کیا تھا مگر بحث کو الجھا کر اصل مسئلہ سے توجہ ہٹا کر ہی ان کا الو سیدھا ہوتا تھا اس لیے انہوں نے یہی کام سر انجام دیا ۔ ہم نے اپنے پہلے مضمون میں بھی کہا اور اب بھی کہتے ہیں کہ محترم اثری صاحب کو کئی مسائل میں علامہ کوثری رحمہ اللہ کے ساتھ واقعی اختلاف ہے وہ ان مسائل میں ان کا رد کر کے بھی اپنا چسکہ پورا کر سکتے تھے اور اپنے حلقہ سے داد تحسین وصول کر سکتے تھے ۔ ان کو غلط بیانی کا سہارا نہیں لینا چاہئے تھا۔ اور ہم نے محترم اثری صاحب کے مضمون میں سے ان کی غلط بیانیاں واضح کیں ۔ جن کا جواب دینے سے وہ یکسر قاصر رہے بلکہ بعض باتوں کو دبے لہجہ میں تسلیم کرلیا۔

 "كتاب التوحید کو کتاب الشرک قرار دیا"

محترم اثری صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ علامہ کوثری رحمہ اللہ نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی "کتاب التوحید" کو "کتاب الشرک" قرار دیا ہے حالانکہ خود انہوں نے اس کتاب کو صحیح ابن خزیمہ کا حصہ قرار دیا ہے الخ۔ ہم نے اس کے جواب میں لکھا کہ محترم اثری صاحب نے جو حوالہ جات دیئے ہیں ان مذکورہ صفحات میں قطعا یہ بات نہیں ہے کہ علامہ کوثری نے كتاب التوحید کو کتاب الشرک قرار دیا ہے اور یہ بھی درست نہیں کہ علامہ کوثری نے کتاب التوحید کو صحیح ابن خزیمہ کا حصہ قرار دیا ہے ۔ ہماری اس گرفت کے جواب میں محترم اثری صاحب نے علمی جائزہ میں یہ تسلیم کیا کہ جو حوالہ جات انہوں نے دیئے تھے وہ درست نہ تھے ۔ مگر اپنی خفت مٹانے کے لیے مقالات کوثری سے دو عبارتیں پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قارن صاحب نے محض حوالہ جات کے صفحات بدل جانے کو جھوٹ سے تعبیر کیا ہے ۔ حالانکہ محترم اثری صاحب نے جس مقصد کے لیے یہ عبارات پیش کی ہیں وہ قطعا حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ دونوں عبارتیں محترم اثری صاحب کے موقف ہی کا رد کر رہی ہیں ۔ پہلی عبارت انہوں نے مقالات ص ۳۳۰ کی پیش کی 

ولهذين الكتابين ثالث في مجلد ضخم يسميه مؤلفه إبن خزيمة كتاب التوحيد وهو عند محققي أهل العلم كتاب للشرك

 (الاعتصام ص ۱۸ - ۱۹ مستمر 199۷ ء) 

اس عبارت میں تو محترم اثری صاحب کی دو باتوں میں تردید ہو رہی ہے ۔ اثری صاحب کا اصرار تھا کہ علامہ کوثری نے کتاب التوحید کو صحیح ابن خزیمہ کا حصہ قرار دیا ہے ، حالانکہ اس عبارت میں تو ثالث مجلد کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ یہ مستقل کتاب ہے اور پھر یہ بھی صراحتنا مذکور ہے کہ اس کے مولف ابن خزیمہ نے اس کا نام کتاب التوحید رکھا ہے اگر علامہ کوثری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ صحیح ابن حزیمہ کا حصہ ہوتی تو ثالث مجلد کہنے اور اس کا مستقل نام رکھنے کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اتنا ہی کافی تھا کہ یہ صحیح ابن خزیمہ کی کتاب التوحید ہے ۔ نیز محترم اثری صاحب نے دعوی کیا تھا کہ علامہ کوثری نے کتاب التوحید کو کتاب الشرک قرار دیا ہے حالانکہ اس عبارت سے تو واضح ہوتا ہے کہ علامہ کوثری یہ دعوی کر رہے ہیں کہ محققین اہل علم کے نزدیک یہ کتاب الشرک ہے اور اس کی دلیل انہوں نے دوسری عبارت میں دے دی جو خود محترم اثری صاحب نے ذکر کی ہے

" وعنه يقول صاحب التفسير الكبير في تفسير قوله تعالى ليس كمثله شيئى إنه كتاب الشرك، فلا حب ولا كرامة "

"اور اس کتاب التوحید کے بارہ میں صاحب التفسير الكبير والے (امام رازی) نے لیس کمثله شیء کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ کتاب الشرک ہے ۔"

 اس عبارت میں علامہ کوثری نے اپنے اس دعوی کی دلیل دے دی جو دعوی پہلی عبارت میں تھا کہ محققین میں سے امام رازی رحمہ اللہ نے اس کو کتاب الشرک کہا ہے ۔ اگر محترم اثری صاحب یوں فرماتے کہ علامہ کوثری نے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی کتاب التوحید کو کتاب الشرک کہنے والوں کی تائید کی ہے تو عبارت کا پیش کرنا ان کے لیے سود مند ہوتا مگر انہوں نے تو یہ فرمایا کہ علامہ کوثری نے اس کو کتاب الشرک قرار دیا ہے اور پھر اس کو بدعی افکار کے تحت ذکر کرنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ صرف علامہ کوثری نے ہی کہا ہے حالانکہ وہ تو امام رازی کی تفسیر کے حوالہ سے نقل کر رہے ہیں اتنی واضح عبارت کے باوجود محترم اثری صاحب کا اس کو بدعی افکار کے تحت ذکر کرنا کہاں کی دیانت ہے ؟ اس کا فیصلہ خود قارئین کرام فرما ئیں ۔

" کتاب السنہ کو کتاب الزیغ کہا "

محترم اثری صاحب نے لکھا تھا کہ علامہ کوثری رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے عبد اللہ رحمہ اللہ کی "کتاب السنہ" کو "کتاب الزیغ" کہا ہے ۔ اس پر ہم نے اپنے مضمون میں واضح کیا کہ علامہ کوثری نے خود فرمایا ہے کہ 

"ہم کتاب السنہ کی بعض عبارات پیش کرتے ہیں تاکہ اس کے مولف کے والد (امام احمد) کی شہرت کی وجہ سے لوگ غلطی کا شکار نہ ہو جائیں " اور انہوں نے کئی عبارات پیش بھی کی ہیں ۔ اور یہ ایک قسم کی خیر خواہی کی بات ہے مگر محترم اثری صاحب کو یہ بات بھی پسند نہ آئی اور علمی جائزہ میں بحث کو خواہ مخواہ طول دیا اور امام عبد اللہ کے بارہ میں ائمہ کے تعریفی کلمات نقل کئے حالانکہ اس بارہ میں تو کوئی بحث ہی نہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے انہوں نے کیا کچھ سیکھا اور علم حدیث میں ان کا کیا مقام ہے بلکہ بحث تو ان کی کتاب السنہ میں بیان کردہ بعض مسائل میں ہے ۔ پھر محترم اثری صاحب اپنے جوش تحریر میں یوں چیلنج پر اتر آئے اور لکھا کہ " علامہ کوثری تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہم جناب قارن صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ ذرا ہمت کریں اور بتلائیں کہ کتاب السنہ میں کونسا غلط عقیدہ ہے " (الاعتصام ص 19 - 19 ستمبر 1994 ء ) 

ہم اہل علم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ علامہ کوثری کے اس مقالہ کو پڑہیں جس میں انہوں نے خود حوالے دیئے ہیں اور اغلاط کی نشاندھی کی ہے ۔ جب علامہ کوثری نے خود یہ کام کر دیا ہے تو محترم اثری صاحب کا قارن کو ہمت کرنے کی دعوت دینا کیا صرف اپنے ناخواندہ حواریوں کو خوش کرنے کا ناکام بہانہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ علامہ کوثری نے باحوالہ لکھا ہے کہ کتاب السنہ میں ہے کہ رب تعالٰی جب کرسی پر بیٹھتا ہے تو چار انگلی برابر جگہ بچ جاتی ہے ۔ اور رب تعالی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے پہلو میں اپنے رسول کے لیے جگہ چھوڑتا ہے ۔ نیز رب تعالی کی آواز کو رعد کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے

 (ملاحظہ ہو مقالات کوثری ص ۳۲۵ تا ص ۳۲۷)

 کیا یہ عقیدہ سنت کے مطابق ہے ؟ اور کیا جمہور اہل السنت والجماعت اور محدثین کرام اس کے قائل ہیں؟ علامہ کوثری نے اگر ان جیسی عبارات کو ملحوظ رکھ کر اس کتاب کو کتاب الزيغ (یعنی) راہ راست سے ہٹی ہوئی کہہ دیا ہے تو کونسا جرم کر دیا ہے ؟ پھر تعجب کی بات ہے کہ اس کتاب السنہ سے مکمل طور پر متفق اور مطمئن خود محترم اثری صاحب بھی نہیں ہیں وہ خود لکھتے ہیں امام عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ نے کتاب السنہ میں دیگر مسائل سنہ کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کی بھی وضاحت فرمائی اور "الرد علی الجہمیہ" کے مستقل عنوان سے اس کی تفصیل بیان کی ۔ اس باب کی بعض روایات پر بلاشبہ کلام ہے کیونکہ اس میں انہوں نے صحت کا الزام نہیں کیا

 (الاعتصام ص 19 - 19 ستمبر (۱۹۹۷) 

جب خود محترم اثری صاحب کو اعتراف ہے کہ صحت کا الزام نہیں کیا تو پھر اس کتاب کی غیر صحیح باتوں کی وجہ سے اس کو کتاب الزیغ کہنے سے کیوں غصہ میں آپے سے باہر ہوگئے ہیں ۔ 

"قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر مسجدیں وغیرہ تعمیر کرنے کا مسئلہ"

اپنے مضمون میں محترم اثری صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ علامہ کوثری کے نزدیک قبروں کو پختہ بنانا جائز ہے ۔ جب ہم نے اس کا تعاقب کیا اور علامہ کوثری کی عبارات کی روشنی میں ثابت کیا کہ علامہ کوثری رحمہ اللہ قطعا قبروں کو پختہ بنانے یا ان عمارات تعمیر کرنے کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ وہ تو مختلف آئمہ کے اقوال اور روایات میں تطبیق دیتے ہوئے آخری درجہ میں پہنچ کر بھی حدیث میں نہی کو "کراہت تنزیہی" پر محمول کرتے ہیں تو بفضلہ تعالی محترم اثری صاحب کو یہ تسلیم کرنا پڑا مگر بات کا رخ دوسری طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں علامہ کوثری نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر قبوں اور عمارتوں کو تعمیر کرنے کی ممانعت کو جونہی تحریمہ پر محمول کیا ہے یہ بھی حنفی مذہب کے خلاف ۔

 (الاعتصام ص ۹ - ۲۳ جمادی الاولی ١٤١٨ )

 در اصل علامہ کوثری رحمہ اللہ نے قبروں کے پختہ بنانے یا نہ بنانے کے بارہ میں نہیں بلکہ جن قبروں کو پختہ بنا دیا گیا ہے ان کو گرانے کے بارہ میں بحث کی ہے اور غیر مقلدین میں سے جو طبقہ اس بارہ میں سخت رویہ رکھتا ہے اس کا انہوں نے رد کیا ہے ۔ اسی بحث کے دوران ہم نے اپنے مضمون میں لکھا کہ متشددانہ نظریہ امیر صنعانی اور قاضی شوکانی رحمہ اللہ کا ہے ۔ اس پر محترم اثری صاحب نے توجہ دلائی کہ اس مسئلہ میں امیر یمانی قاضی شوکانی کے ہمنوا نہیں ہیں تو ہم کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں قاضی شوکانی رحمہ اللہ کے ساتھ امیر یمانی کا ذکر کرنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہے مگر اصل بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ متشددانہ نظریہ امیر یمانی کا نہ سہی قاضی شوکانی غیر مقلد کا تو ہے اور اسی متشددانہ نظریہ کی تردید علامہ کوثری نے کی ہے ۔ بلکہ خود محترم اثری صاحب کو اعتراف ہے کہ امیر یمانی اور برصغیر کے نامور عالم مولانا محمد حسین بٹالوی کو بھی اس مسئلہ میں قاضی شوکانی سے اختلاف ہے

 (ملاحظہ ہو ہفت روزہ الاعتصام ص ۱۳ - ۱۰ اکتوبر ملخصا )

 باقی رہا یہ کہ علامہ کوثری نے اس بارہ میں ممانعت والی حدیث میں نہی کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے حالانکہ دیگر حضرات اس کو مکروہ تحریمی پر محمول کرتے ہیں تو اس کو بدعی فکر سے تعبیر کرنے کی بجائے اس مسئلہ میں ان کا تفرد بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ عموم بلوی اور قرن در قرن ان قبروں اور عمارتوں کے پائے جانے کیوجہ سے ان کے گرانے کے بارہ میں دوسرے علماء سے کچھ نرم رویہ رکھتے ہیں ۔ اور بعض بعض مسائل میں اہل علم کے تفردات عموما پائے جاتے ہیں اور پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس بارہ میں وارد احادیث کے مفہوم میں ائمہ نے اختلاف کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان احادیث کا مفہوم مجتهد فیہ ہے ۔ مبارکپوری صاحب نے اس اختلاف کا تفصیل سے ذکر کیا ہے

 (ملاحظہ ہو تحفة الاحوذی ج ۲ ص ۱۵۴ - ۱۵۵) اسی طرح قبر پر کوئی چیز لکھنے کے بارہ میں جب ایک غیر مقلد مفتی صاحب نے فتوی دیا کہ لکھنا جائز ہے تو اس پر ان کا تعاقب کیا گیا کہ  

وان يكتب عليها ۔ 

نهی کی حدیث موجود ہے تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ آپ نے قبر کے لفظ پر غور نہیں کیا جو حدیث کا لفظ ہے قبر کوہانی شکل کا نام ہے پتھر اس سے الگ منفصل چیز ہے الخ

 (فتاوی علمائے حدیث ج ۵ ص ۲۷۷)

 اس عبارت سے واضح ہے کہ 《ان يكتب عليها》 کی حدیث کے مفہوم میں غیر مقلد مفتی صاحب نے باقی علماء سے علیحدہ رائے اختیار کی ہے۔ ان احادیث میں مفہوم مجتہد فیہ ہونے کے باوجود حق اور رائج مذہب وہی ہے جو جمہور کا ہے مگر دوسرے نظریہ کے حامل ائمہ پر بدعی افکار کا لیبل نہیں لگایا جاتا بلکہ ان کے لیے مناسب الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح قبور کو پختہ بنانے اور ان پر عمارات تعمیر کرنے کے بارہ میں حق مذہب جمہور ہی کا ہے کہ قبور کو پختہ بنانا اور ان پر عمارات تعمیر کرنا مکروہ تحریمی اور ممنوع ہے اور سلطان اسلام پر ان کا گرانا واجب ہے مگر بڑے مفسدہ کو پیش نظر سے علامہ کوثری نے اگر اس میں اختلاف کیا ہے اور حدیث میں نہی کو تنزیہہ پر محمول کیا ہے تو ان پر بدعتی افکار کا لیبل لگانے کی بجائے مناسب الفاظ استعمال کرنا چاہیں ۔ ہاں جو لوگ ایسا مفہوم بیان کرتے ہیں جس کا حدیث کے الفاظ اور مفہوم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ حدیث میں پائی جانے والی ممانعت کے بالکل برعکس ہے تو اس کو بدعتی نظریہ ہی قرار دیا جائے گا جیسا کہ اہل بدعت کا نظریہ جو قبور کو پختہ بنانے اور ان پر عمارات تعمیر کرنے کو جائز اور مستحب سمجھتے ہیں حالانکہ حدیث میں اس کی نفی ہے ۔ باقی محترم اثری صاحب نے راہ سنت، اتمام البرھان اور فتاوی رشیدیہ وغیرہ کے جو حوالے دیئے ہیں وہ بالکل غیر متعلق ہیں وہ اثری صاحب کے لیے تب سود مند ہوتے جب کہ ہم نے ان کی مخالفت کی ہوتی محترم اثری صاحب نے بحث کا رخ دوسری جانب پھیرنے کی کوشش کی ہے اور خواہ مخواہ مضمون کو طول دیا ہے ۔ ہم نے اپنے مضمون میں صراحت کی تھی کہ علامہ کوثری نے مختلف ائمہ کرام کے اقوال اس مسئلہ میں ذکر کر کے تطبیق کی یوں صورت پیش کی ہے اور پھر ہم نے کہا کہ علامہ کوثری کی اس تطبیق سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خود ہمیں بھی اختلاف ہے ۔ اس پر محترم اثری صاحب رقمطراز ہیں جب اختلاف ہے تو ان کی وکالت کا مقصد کیا ہے ؟ 

(الاعتصام ص ۹ - ۲۳ جمادی الاولی (۱۳۱۸ھ)

محترم اثری صاحب کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ جس سے ذرا بھی اختلاف ہو اس کی وکالت نہیں کرنی چاہئے اس کو مخالفین کے سپرد کر دینا چاہئے وہ جیسے چاہیں اس کو تختہ مشق بنالیں

  لا حول ولا قوة الا باللہ

 حالانکہ اہل علم اور ارباب دانش کا کبھی یہ طریق نہیں رہا بلکہ جس حد تک اختلاف ہو اسی میں اختلاف کیا جاتا ہے ۔ حیرانگی کی بات ہے کہ محترم اثری صاحب ہم پر اعتراض کرنے کے باوجود خود بھی اسی ڈگر پر چلتے ہیں مثلا انہوں نے علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے متعلق لکھا 

" ان کے اس موقف کو درست قرار نہ بھی دیا جائے تو یہ ان کی اجتہادی خطا ہے مگر وہ اس میں متفرد نہیں"

 (الاعتصام ص ۱۴ ۳۰ جمادی الاولی ۱۳۱۸ )

 محترم اثری صاحب علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے موقف سے اختلاف اور پھر ان کی اجتہادی خطا قرار دے کر ان کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔ اگر اسی طرح ہم علامہ کوثری کی بیان کردہ تطبیق سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ یہ ان کا تفرد ہے اس کو ان کے تفردات میں شمار کر لیا جائے مگر بدعی افکار کا لیبل لگا کر ان کی کردار کشی نہ کی جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟

"چوری اور سینہ زوری"

ہم نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ بلند قبروں کو گرانا تو اثری صاحب کا اپنا حلقہ بھی واجب نہیں بلکہ مستحب سمجھتا ہے جیسا کہ مبارکپوری صاحب 《يستحب الهدم》 كے الفاظ نقل کرتے ہیں تو محترم اثری صاحب نے اپنے علمی جائزہ میں چوری اور سینہ زوری کا عنوان قائم کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ قارن صاحب نے محدث مبارکپوری کا غلط حوالہ دیا ہے ۔ حالانکہ ہم نے حوالہ بقید صفحہ دیا تھا جو ہر آدمی تحفة الاحوذی ج ۲ ص ۱۵۴ میں دیکھ سکتا ہے ۔ اثری صاحب نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے دو باب بعد کی ایک عبارت پیش کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ قبر کے اوپر جو عمارت بنائی جاتی ہے وہ جگہ اگر بنانے والے کی ملکیت ہو تو عمارت بنانا مکروہ ہے اور اگر عام قبرستان میں ہو تو حرام ہے ۔ اور علامہ شوکانی نے اس تفصیل کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ہر حال میں حرام ہے تو مبارکپوری صاحب اس مسئلہ میں قاضی شوکانی کا ساتھ دیتے ہیں ۔ ہم نے جو عبارت پیش کی وہ اونچی بنائی گئی قبروں کو گرانے سے متعلق ہے اور 《 باب ما جاء في تسوية القبر》 میں ہے اور مبارکپوری صاحب نے پورے باب میں اس کا رد نہیں کیا جو ان کی تائید پر دال ہے اور محترم اثری صاحب نے جو عبارت پیش کی ہے وہ 《 باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور والكتابة عليها 》 کے باب میں ہے اور قبر پر بنائی گئی عمارات کے بارہ میں ہے ۔ اثری صاحب نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو پہلی عبارت کے ساتھ پیوند لگا کر اعتراض کی بنیاد رکھی اور کہا کہ مبارکپوری صاحب ، علامہ شوکانی کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کے نزدیک قبروں کو بلند کرنا حرام ہے۔ تو مبارکپوری صاحب کے نزدیک بھی حرام ہے اور حرام کا گرانا واجب ہے ۔ حالانکہ مبارکپوری صاحب کی یہ عبارت صرف امام شافعی کی تفصیل کے مقابلہ میں قاضی شوکانی کی تائید میں ہے ورنہ یا تو وہ صراحت کرتے کہ تمام بحث میں ہماری تائید قاضی شوکانی کو ہے یا پھر آخر میں یہ فرماتے جو اس پر دلالت کرتا کہ تمام بحث میں تائید کر رہے ہیں حالانکہ یہ عبارت تو درمیان میں ہے نیز اگر محترم اثری صاحب کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ مبارکپوری صاحب ان تمام ابواب میں مذکور بحث میں علامہ شوکانی کی تائید کر رہے ہیں تب بھی ہمارے موقف کی تائید اور محترم اثری کے اعتراض کا غلط ہونا واضح ہے اس لیے کہ علامہ شوکانی اس مسئلہ میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں-

 *" والظاهر : أن رفع القبور زيادة على القدر المأذون فيه محرم ، وقد صرح بذلك أصحاب أحمد وجماعة من أصحاب الشافعي ومالك .والقول بأنه غير محظور لوقوعه من السلف والخلف بلا نكير كما قال الإمام يحيى والمهدي في " الغيث " لا يصح لأن غاية ما فيه أنهم سكتوا عن ذلك والسكوت لا يكون دليلا إذا كان في الأمور الظنية وتحريم رفع القبور ظني"* 

(نیل الاوطار ج ۲ ص 90 )

" اور ظاہر یہ ہے کہ جس قدر قبر کو بلند کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے زیادہ بلند کرنا حرام ہے اور امام احمد کے اصحاب اور امام شافعی اور امام مالک کے اصحاب کی ایک جماعت نے اس کو صراحت سے ذکر کیا ہے اور یہ قول کرنا کہ رفع القبور ممنوع نہیں اس لیے کہ سلف اور خلف سے بلانکیر یہ واقع ہوا ہے جیسا کہ امام یحیی اور مھدی نے غیث میں کہا تو یہ قول صحیح نہیں اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ اس بارہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس بارہ میں خاموشی اختیار کی ہے ۔ اور امور ظنیہ میں سکوت جواز کی دلیل نہیں ہوتا اور رفع القبور کی تحریم ظنی ہے۔ "

 قارئین کرام علامہ شوکانی کی اس عبارت پر غور فرمائیں کہ وہ تسلیم کر رہے ہیں کہ رفع القبور کے عمل پر خلف و سلف سے سکوت ثابت ہے اور اس سے ملتی جلتی عبارت علامہ کوثری کی ہے وہ فرماتے ہیں

 ومع كون التسوية غير معمول بها مدى الدهور.

(مقالات ص ۱۵۹)

 کہ عرصہ دراز سے تسوية القبور پر عمل نہیں ہے ۔ دونوں عبارتوں کا مفہوم ایک ہی ہے مگر محترم اثری صاحب نے نہ جانے کس لیے علامہ کوثری کی تردید کو اپنے لیے ضروری سمجھ لیا ۔ اور پھر علامہ شوکانی رفع القبور کی تحریم کو ظنی قرار دے رہے ہیں اور لازمی بات ہے کہ حرام قطعی اور حرام ظنی کا حکم ایک نہیں ہو سکتا ۔ ہمارا گمان مبارکپوری صاحب کے بارہ میں یہی ہے کہ انہوں نے اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے الازهار کی عبارت نقل کی ہے اور بلند بنائی گئی قبور کو گرانے کے بارہ میں استحباب نقل کیا ہے ۔ ہم نے تو علامہ شوکانی اور مولانا مبارکپوری کی عبارات پر خوب غور کر کے ان کی عبارت نقل کی تھی مگر اثری صاحب نے اپنی خفت مٹانے کے لیے خواہ مخواہ ہم پر اعتراض کیا ہے ۔ نیز فتاوی نذیریہ میں پختہ قبر بنانے کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ہے

 الجواب پختہ بنانا قبر کا اینٹ اور پتھر وغیرہ سے درست نہیں ہے اور بلند قبروں کا جو ایک بالشت سے زیادہ بلند ہوں پست کرنا درست ہے یہاں تک کہ بقدر ایک بالشت کے بلندی باقی رہ جاوے اور جو قبریں کہ پتھر سے سنگین اور پختہ بنائی گئی ہوں ان کو منہدم کر کے پھر علیحدہ کرلینا درست ہے اور چونکہ وہ پتھر متعلق قبرے نہیں ہے اس لیے اس کا بیع کرنا شرعا درست ہے (فتاویٰ نذیریہ ج ١ ص ٧١١)

  قارئین کرام جواب پر غور فرمائیں کہ مفتی صاحب واجب ہے نہیں کہہ رہے بلکہ درست ہے فرمارہے ہیں ۔ آگے انہوں نے بھی ان والی روایت نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ قبر پختہ بنانے اور قبر پر عمارت بنانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ قبر پختہ بنانا ممنوع ہے اور گرانے کا حکم یہ ہے کہ اس کا گرانا درست ہے ۔ مفتی صاحب کے اس جواب کی روشنی میں بھی ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ محترم اثری صاحب کے اپنے طبقہ کے ہاں بھی بلند قبروں کو گرانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ورنہ مفتی صاحب فرماتے کہ ان کو منہدم کر کے پھر علیحدہ کرلینا واجب ہے ۔ محترم اثری صاحب نے اپنے علمی جائزہ میں کئی بار ذکر کیا کہ بتلایا جائے ترک واجب کا احناف کے ہاں کیا حکم ہے ؟ ہم محترم سے گزارش کرتے ہیں کہ یہ سوال کرنے کی بجائے علامہ شوکانی کی کتابوں سے ان کے نظریہ کی روشنی میں تلاش کر کے عوام الناس کو بتائیں کہ جن امور میں تحریم ظنی ہوتی ہے ان امور میں تحریم کی بجائے کراہت کا قول کرنے والے پر کیا حکم لگایا جاتا ہے ۔ کیا اس کو بدعی افکار کا حامل گردانا جا سکتا ہے ؟

 "اصحاب کہف اور مسجد"

علامہ کوثری رحمہ اللہ کے مقالہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بڑے مفسدہ سے بچنے کے لیے قبروں پر بنائی گئی عمارات کے بارہ میں تشدد نہیں کرنا چاہئے اس لیے کہ نیک لوگوں کی قبور کے پاس عبادت خانے تعمیر کرنا بعض حضرات کے نزدیک جائز ہے اور وہ حضرات اپنی تائید میں جو دلائل ذکر کرتے ہیں ان میں اصحاب کہف کے غار پر مسجد تعمیر کرنا بھی ہے اس پر گرفت کرتے ہوئے محترم اثری صاحب نے لکھا یعنی اس عزم کا اظہار مسلمانوں اور ان کے مسلمان بادشاہ نے کیا حالانکہ اس عزم کا اظہار کرنے والے موحد مسلمان نہیں بلکہ عیسائی تھے مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جن لوگوں نے معتقد ہو کر وہاں مکان بنایا وہ نصاری تھے

 (الاعتصام ص ۱۹ - ۹ ربیع الاول ۱۳۱۷)

  محترم اثری صاحب کی اس گرفت پر ہم نے عرض کیا کہ مسجد بنانے والوں کو مسلمان کہنے والے صرف علامہ کوثری نہیں بلکہ تقریبا تمام تفاسیر میں وہی کچھ لکھا ہے جو علامہ کوثری نے کہا ہے ۔ اور مولانا عثمانی کی عبارت کو پیش کرنا اثری صاحب کے لیے تب فائدہ مند ہوتا جبکہ نصاری پر مسلمان کا اطلاق نہ ہو سکتا حالانکہ تمام تفاسیر میں یہ موجود ہے۔ ہماری اس عرض کے جواب میں محترم اثری صاحب نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ نصاری پر مسلمان کا اطلاق ہو سکتا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں نصاری مسلمان ہیں یا نہیں ؟ پہلے انبیاء کرام اور ان کی امتیں بھی مسلمان تھے بگاڑ تو بعد میں پیدا ہوا (الاعتصام ص ۱۵- ۳۰ جمادی الاولی ۱۳۱۸)

 جب محترم اثری صاحب نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ نصاری پر مسلمان کا اطلاق ہو سکتا ہے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اثری صاحب نے علامہ عثمانی کی عبارت بالکل بے محل پیش کی تھی اگر محترم اثری صاحب کو غصہ ہے کہ علامہ کوثری نے اصحاب کہف کے غار کے پاس مسجد بنانے والوں کو مسلمان کہا ہے تو یہ صرف علامہ کوثری نے ہی نہیں بلکہ بہت سے حضرات نے کہا ہے بلکہ اثری صاحب کے اپنے حلقہ کے معتبر عالم دین علامہ وحید الزمان مرحوم نے تو ان کو ایمان والے کہا ہے جو کہ حدیث کی کئی کتابوں کے مترجم ہیں اور اثری صاحب کا حلقہ ان کی ان خدمات پر فخر کرتا ہے چنانچہ انہوں نے امام بیضاوی کی عبارت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا جس میں یہ الفاظ بھی ہیں لیکن اگر کوئی شخص کسی ولی یا بزرگ کے مزار کے پاس مسجد بنائے اور اس سے مقصود برکت ہو نہ کہ نماز میں اس کی تعظیم اور نہ اس کی طرف توجہ کرے تو وہ اس (لعنت والی) وعید میں داخل نہیں ۔ امام بیضاوی کی عبارت مکمل کرنے کے بعد لکھتے ہیں اور حق تعالی نے ایمان والوں سے سورۃ کہف میں نقل کیا قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ مترجم کہتا ہے کہ ہمارے زمانے میں بت پرستی اور گور پرستی پھر ایسی پھیل گئی ہے کہ معاذ اللہ ہزاروں نام کے مسلمان قبروں پر جا کر ان کو سجدہ کرتے ہیں اس وقت بھی یہی حکم مناسب ہے کہ قبروں کے پاس مطلقاً مسجد بنانے کی اجازت نہ دی جائے والله اعلم

 ( تیسیر الباری ترجمہ اردو صحیح بخاری ج ۲ ص ۲۹۸ - ۲۹۹ )

قارئین کرام غور فرمائیں کہ علامہ وحید الزمان مرحوم نے ایک تو امام بیضاوی رحمہ اللہ کی عبارت کی تائید کی کیونکہ اس کی مخالفت اور تردید نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علی الاطلاق قبروں کے پاس مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت نہیں بلکہ شرکیہ افعال کا ذریعہ بننے کی وجہ سے اس سے روکا جائے گا۔ اور یہ بھی عبارت سے واضح ہے کہ انہوں نے اصحاب کہف کے غار پر مسجد بنانے والوں کو ایمان والے کہا ہے ۔ اگر علامہ کوثری رحمہ اللہ کے ان کو مسلمان کہنے پر محترم اثری صاحب کو غصہ ہے تو علامہ وحید الزمان مرحوم نے تو

اس سے بھی بڑھ کر ان کو ایمان والے کہا ہے اس لیے محترم اثری صاحب کو اپنے گھر کی پہلے خبر لینی چاہئے ورنہ ان کے اعتراض کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ 

صحیح مسلم کی حدیث اور علامہ کوثری

محترم اثری صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ علامہ کوثری نے مسلم کی روایت کو ابوالزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اور پھر اپنے اسی مضمون میں لکھا ۔ مگر اس سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ شیخین کی تمام مسند احادیث صحیح اور انہیں تلقى بالقبول حاصل ہے ۔ علامہ البانی نے صحیح مسلم کی بعض روایات پر نقد کیا ان میں نقد کا ایک سبب یہی ابوالزبیر کی تدلیس ہے (الاعتصام ص ۱۱ - ۱۲ اگست ۱۹۹۶ ء)

 محترم اثری صاحب کی اس عبارت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب اس روایت میں ابوالزبیر کی تدلیس موجود ہے اور اسی تدلیس کی وجہ سے علامہ البانی نے نقد کیا ہے تو اس روایت میں بھی نقد ہے ورنہ اس مقام میں اس عبارت کو ذکر کرنے کا کیا مطلب؟ اسی مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنے مضمون میں لکھ دیا کہ اگر اثری صاحب کو علامہ کوثری پر غصہ ہے تو پہلے اپنے گھر کی خبر لیتے وہاں تسلی نہ ہوتی تو دوسری طرف رخ کرتے ۔ محترم اثری صاحب اپنے علمی جائزہ میں فرمانے لگے کہ علامہ البانی نے اس حدیث میں تدلیس کا دفاع کیا ہے اور آگے لکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں پر جناب قارن صاحب کو غلط فہمی ہوئی یا انہوں نے ڈبل غلط بیانی سے کام لیا ہے

(الاعتصام ص ۱۷ - ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۷ء )

حقیقت یہی ہے کہ اثری صاحب کی عبارت سے جو مفہوم مترشح ہوتا تھا ہم نے اسی کو ملحوظ رکھا اگر ان کے بے محل عبارت ذکر کرنے سے مغالطہ لگ گیا ہے تو اس کو وہ غلط فہمی کا نام دیں یا کوئی اور ۔ مگر ہمارا اصل اشکال باقی ہے کہ اگر محترم اثری صاحب کو علامہ کوثری پر غصہ ہے کہ انہوں نے مسلم شریف کی اس روایت پر نقد کیا ہے تو اثری صاحب کو یہ بھی تو اعتراف ہے کہ علامہ البانی نے مسلم شریف کی بعض روایات پر نقد کیا ہے تو علامہ کوثری پر غصہ جھاڑنے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لیتے جب وہاں سے فارغ ہو جاتے تو پھر دوسری طرف رخ کرتے ۔ کیا علامہ البانی کو معلوم نہیں کہ مسلم شریف کی مسند روایات صحیح ہیں اور انہیں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے ۔ اگر صرف یہ کہہ کر مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ علامہ البانی کا یہ نقد خلاف اجماع ہے تو علامہ کوثری کے لیے یہی الفاظ کیوں کفایت نہیں کرتے ؟ ان پر بدعی افکار کا لیبل لگانے کی کیا ضرورت تھی۔؟

تسویة القبور کے بارہ میں محترم اثری صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا کہ علامہ کوثری تسوية القبور کے حکم کو مطلقاً برابری کے معنے میں لیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے مضمون میں اس جانب توجہ نہ دی تو اثری صاحب اپنے علمی جائزہ میں علامہ کوثری کی ایک اور غلطی کا عنوان قائم کر کے 

آخر میں لکھتے ہیں کہ قارن صاحب نے یہاں بھی خاموشی اختیار کرکے گویا اعتراف کیا کہ علامہ کوثری کا معنوی اعتبار سے موقف بھی غلط ہے علامہ کوثری کی وکالت کہاں گئی ۔

(الاعتصام ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۷ء)

 ہم اہل علم قارئین کرام سے عرض کرتے ہیں کہ علامہ کوثری کا اس بارہ میں مکمل مقالہ پڑھیں اس میں کہیں بھی اس کا اشارہ تک موجود نہیں کہ وہ تسوية القبور میں قبر کو زمین کے ساتھ برابر کر دینے کا معنے لیتے ہیں اور نہ محترم اثری صاحب نے علامہ کوثری کی ایسی کوئی عبارت پیش کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو ۔ محترم اثری صاحب نے علامہ کوثری کی جس عبارت سے مطلب کشید کیا ہے وہ عبارت یوں ہے 

وحدیث ابی الهياج في اسناده اختلاف مع عنعنة حبيب بن ابي ثابت ومع كون التسوية غير معمول بها مدى الدهور 

(مقالات ص ۱۵۹) 

" ابوالھیاج کی سند میں اختلاف کے ساتھ ساتھ حبیب بن ثابت کا عنعنہ ہے اور عرصہ دراز سے تسویہ پر عمل بھی نہیں ہے ۔" 

اس عبارت میں زمین کے ساتھ برابر کرنے کا معنے کہاں ہے ۔ اور علماء نے تصریح کی ہے کہ تسوية سے مراد یہ ہے کہ قبر جتنی بلند کرنے کی اجازت ہے اس سے زائد بلند نہ کی جائے 

(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفة الاحوذی ج ۲ ص ۱۵۴)

 اور علامہ کوثری کی عبارت میں صرف یہ ہے کہ عرصہ دراز سے تسوبة پر عمل نہیں اس کا معنے اور مفہوم یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کا معمول یہ ہے کہ جتنی مٹی قبر کھود نے کے دوران نکلتی ہے وہ ساری اوپر ڈال دی جاتی ہے اور تسوبة کا جو مفہوم علماء نے بتلایا ہے اس پر عرصہ دراز سے عمل نہیں ہے ۔ اثری صاحب نے تسوية کا جو مفہوم بیان کرکے علامہ کوثری کی جانب منسوب کیا ہے آخر اس پر کوئی قرینہ یا اس مفہوم پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ تو عبارت میں ہونا چاہئے ۔ خواہ مخواہ مفہوم کشید کر کے بہتان تراشی محترم اثری صاحب کا وطیرہ ہے ۔

 عذر گناه بد تر از گناه

اپنے پہلے مضمون میں محترم اثری صاحب نے علامہ کوثری کی ایک عبارت " ما اقرت الامة " كا غلط ترجمہ کیا جب ہم نے اس پر گرفت کی تو اپنے علمی جائزہ میں محترم اثری صاحب نے اپنے پہلے کئے ہوئے ترجمہ کو چھوڑ کر ہمارا بتلایا ہوا ترجمہ کیا ہے جو اس پر دال ہے کہ اثری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے مگر مصداق *ملاں آن باشد که چپ نہ شود* یوں گویا ہوئے غور فرمائے امت برقرار نہ رکھتی یا امت اس پر عمل نہ کرتی میں جوہری فرق کیا ہے ؟ اگر محترم اثری صاحب کو اس میں فرق نظر نہیں آتا تو ہم واضح کر دیتے ہیں کہ اثری صاحب کے کئے ہوئے غلط ترجمہ کا نتیجہ وہ ہے جو انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا مگر علامہ کوثری کے نزدیک یہ دونوں احادیث ضعیف قبروں پر قبے بنانے اور ان پر کتبے لکھنا جائز بلکہ سنت متوارثہ ہے

 (الاعتصام ۲ اگست ۱۹۹۶ ء )

ما اقرت الامہ امت اس پر عمل نہ کرتی اس ترجمہ کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ فعل صرف جائز ہی نہیں بلکہ سخت متوارثہ ہے حالانکہ علامہ کوثری قطعا اس کے قائل نہیں ہیں اور " ما اقرت الامة " امت اس کو برقرار نہ رکھتی ۔ اس ترجمہ کی روشنی میں فعل کے جائز ہونے کی بحث نہیں بلکہ جو قبروں پر قبے وغیرہ بنا دیئے گئے ہیں ان کو برداشت کرنے کی بحث ہے کہ جب امت برداشت کرتی چلی آئی ہے تو ان کا گرانا واجب نہیں ہے اور یہی علامہ کوثری کا نظریہ ہے اور اسی کو وہ بیان کر رہے ہیں ۔ اس کے باوجود اگر محترم اثری صاحب کو دونوں مفہوموں کا جوہری فرق نظر نہیں آتا تو اس کا علاج ہمارے پاس نہیں ہے۔

استعانت اور استغاثہ

محترم اثری صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں استعانت و استغاثہ کا عنوان قائم کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ علامہ کوثری اہل بدعت کی طرح غیر اللہ سے استعانت و استغاثہ کے قائل ہیں ہم نے اس پر گرفت کی اور علامہ کوثری رحمہ اللہ کی عبارات کی روشنی میں ثابت کیا کہ وہ مخلوق سے استعانت اسباب کے درجہ میں مانتے ہیں اور اہل بدعت کا نظریہ اس سے یکسر مختلف ہے اس لیے علامہ کوثری کے نظریہ کو اہل بدعت کے نظریہ کی طرح قرار دینا انتہائی غلط بیانی ہے ۔ ہماری اس وضاحت کے بعد محترم اثری صاحب اپنے علمی جائزہ میں یوں گویا ہوئے

 قارن صاحب نے حسب معمول یہاں بھی بڑی ہوشیاری کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ کوثری مرحوم کی یہ اختراع ہی نہ سمجھ سکے کہ توسل ، استغاثہ اور استعانت میں کوئی فرق نہیں

 (الاعتصام ص ۱۸ - ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۷ ء)

 محترم اثری صاحب سے گزارش ہے کہ بفضله تعالى قارن علامہ کوثری کی عبارات کو بھی خوب سمجھا ہے اور جہاں آپ نے اپنا کرتب دکھاتے ہوئے چکر دینے کی کوشش کی ہے اس کو بھی خوب سمجھا ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں علامہ کوثری کی عبارات کی روشنی میں ذرا تفصیل سے ذکر کر دیا جائے تا کہ محترم اثری صاحب کے الزام کی حقیقت بھی واضح ہو جائے اور علامہ کوثری کا نظریہ بھی قارئین کرام کے سامنے واضح ہو جائے ۔

علامہ کوثری نے توسل کے بارہ میں لکھے گئے مقالہ میں تین باتیں نمایاں طور پر ذکر کی ہیں پہلی بات یہ کہ انبیاء و صالحین کا توسل ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی جائز ہے اور اس پر انہوں نے دلائل ذکر کئے ہیں ۔ اور یہ صرف علامہ کوثری رحمہ اللہ کا نظریہ نہیں بلکہ پہلے علماء کرام بھی اس کے قائل رہے ہیں جیسا کہ مبارکپوری صاحب نے اس بارہ میں کئی اقوال نقل کئے ہیں ان میں سے ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی توسل جائز ہے اگرچہ مبارکپوری صاحب نے اپنا نظریہ اس کے خلاف لکھا ہے مگر علماء کی ایک جماعت کا یہ قول ضرور نقل کیا ہے 

(ملاحظہ ہو تحفة الاحوذی ج ۲ ص ۲۸۲ - - ۲۸۳) 

اور توسل بالاموات کے مسئلہ کو علامہ وحید الزمان مرحوم نے علماء کے درمیان مختلف فیہ قرار دیا ہے اور اس میں تشدد کو درست قرار نہیں دیا

 (ملاحظہ ہو هدية المهدى ص ۱۱۸) دوسری بات علامہ کوثری نے یہ واضح کی کہ جس ذات کو وسیلہ بنایا جاتا ہے کیا اس سے دعا کروانا مقصود ہوتا ہے اور توسل دعا کروانے ہی کو کہتے ہیں تو علامہ کوثری نے فرمایا کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے اور اس پر دلائل ذکر کرنے کے بعد فرمایا

 ﻭ ﻛﻼﻡ ﺍﳊﺎﻓﻈﲔ ﻳﻘﻀﻰ ﻋﻠﻰ ﻭﻫﻢ ﻣﻦ ﻳﻬﻢ ﻗﺎﺋﻼﹰ ﺇﻥ ﺍﻟﺘﻮﺳﻞ ﺑﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﷲ ﻋﻠﻴﻪ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻫﻮ ﻃﻠﺐ ﺍﻟﺪﻋﺎﺀ ﻣﻨﻪ، ﻭ ﺃﻳﻦ ﺍﻟﺘﻮﺳﻞ ﻣﻦ ﺍﻟﺪﻋﺎﺀ؟ نعم قد يدعوا المتوسل به للمتوسل ، ولكن ليس هذا مدلولاً لغوياً ولا شرعياً للتوسل

 ( مقالات ص ۳۸۷) 

" اور دینی محافظوں کی عبارات ان لوگوں کے وہم کے خلاف فیصلہ کرتی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کو وسیلہ بنانے کا مطلب ان سے دعا کروانا ہے ۔ اور توسل میں دعاء کروانا کہاں ضروری ہے ؟ ہاں کبھی وہ ذات جس کو وسیلہ بنایا جاتا ہے وہ وسیلہ بنانے والے کے حق میں دعا کرتی ہے لیکن توسل کے لیے یہ مدلول نہ لغوی ہے اور نہ شرعی یعنی متوسل بہ سے دعاء کروانا توسل کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ صرف اس کی ذات کے ذریعہ سے برکت حاصل کی جاتی ہے ۔

اور پھر اس کے بعد علامہ کوثری نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی جس میں ہے کہ حضور تم نے ان کو دعاء سکھائی اور اس میں الفاظ میں

 *اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي"*۔

 اے اللہ بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی کو متوجہ کرتا ہوں (سفارشی بناتا ہوں) جو نبی رحمت ہیں اے محمد میں آپ کو اپنی حاجت پورا کرنے میں اپنے رب کی طرف متوجہ کرتا ہوں (سفارشی بناتا ہوں)

 اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد علامہ کوثری نے فرمایا 

وفيه التوسل بنات النبي صلى الله عليه وسلم وبجاهه ونداء له في غيبته (مقالات ص ۳۸۹)

 اور اس میں نبی کریم ﷺ کی ذات کو اور ان کے مرتبہ کو وسیلہ بنانا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عدم موجودگی میں پکارنا ہے۔ محترم اثری صاحب نے مقالات کی اسی عبارت کو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ علامہ کوثری اہل بدعت کی طرح حضور علیہ السلام کو غائبانہ طور پر پکارنے کے قائل ہیں حالانکہ علامہ کوثری تو توسل میں متوسل بہ سے دعاء کروانے کو بھی ضروری نہیں سمجھتے چہ جائیکہ وہ اہل بدعت کی طرح پکارنے کو جائز سمجھتے ہوں ۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ حدیث کے الفاظ میں یا محمدانی توجهت بک الی ربی کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ کو حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی ذکر کرنا علامہ کوثری نے جائز کہا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اس کو پڑھتے اور اس کی تعلیم دیتے رہے اور اسی پر : علامہ کوثری نے لکھا کہ وهذا توسل به ونداء بعد وفاته صلوات الله عليه وعمل متوارث بين الصحابة رضوان الله عليهم اجمعین (مقالات ص (۳۹) اور یہی آپ کی ذات کے ساتھ توسل اور آپ کی وفات کے بعد پکارتا ہے اور یہ عمل حضرات صحابہ کرام کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اب اس میں نہ تو غلط قسم کی نداء کا تصور کسی صحابی سے کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی علامہ کوثری اس کو ثابت کر رہے ہیں بلکہ یہی واضح کر رہے ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد ندائیہ کلمات میں نداء کا مفہوم یہی ہے جو صحابی کے عمل سے ثابت ہے اور وہ صرف تبرک کے لیے ان کلمات کو ادا کرتا ہے اور ان کلمات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ادا کرنا کسی نے بھی ناجائز نہیں کہا خود غیر مقلدین حضرات کے مفتی صاحب نے اس بارہ میں ایک سوال کے جواب میں کہا۔ اور اب ان الفاظ کو حکایت حال ماضی کے طور پر پڑھ دیتے ہیں جیسے نماز کے التحیات میں پڑھتے ہیں (فتاویٰ نذیریہ ج اص ۱۰)

 یعنی جس طرح التحیات میں 《 السلام علیک ایھا النبی》 خطاب کے صیغہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اسی طرح اس دعا میں *"یا محمد انی توجهت الی ربی"* پڑھتے ہیں ۔ علامہ کوثری کے الفاظ سے بھی صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ آپ کی عدم موجودگی میں نداء ہے ۔ یہ نداء کس نوعیت کی ہے حکایت حال ماضی کے طور پر ہے یا آپ کو اہل بدعت کی طرح پکارنا ہے تو علامہ کوثری کے مقالہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ الفاظ بھی محض برکت کے طور پر ہیں اور ان کا مفہوم وہی ہے جو صحابی نے سمجھا مگر محترم اثری صاحب نے خواہ مخواہ اس کو غلط رنگ دے دیا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ بھلا جو آدمی توسل میں متوسل بہ سے طلب دعاء کو نہ مدلول لغوی سمجھتا ہے اور نہ ہی مدلول شرعی تو وہ ما فوق الاسباب استعانت کا قائل کیسے ہو سکتا ہے ؟

اور علامہ کوثری نے اپنے اس مقالہ میں تیسری بات یہ واضح فرمائی کہ توسل کے لیے

استغاثہ اور استعانت کے الفاظ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں جب کہ ان سے توسل کا ارادہ ہو اس لیے کہ بخاری شریف میں الفاظ میں اسْتَغَاثُوا بآدَمَ، ثُمَّ بمُوسَى، ثُمَّ بمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ

  کہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے شفاعت چاہیں گے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ جب شفاعت کے باب میں استغاثہ کا لفظ ہے تو توسل اور شفاعت کے لیے استغاثہ کا لفظ استعمال کرنا درست ہے۔ علامہ کوثری فرماتے ہیں

 وهذا يدل على جواز استعمال لفظ الاستغاثة في صدد التوسل

 اور یہ دلالت کرتا ہے اس بات پر کہ توسل کے ارادہ کی صورت میں استغاثہ کا لفظ استعمال کرنا جائز ہے ۔

اس پر اشکال ہو سکتا تھا کہ جو شخص استعانت کا لفظ توسل کے لیے استعمال کرے گا تو اس کی عبارت اس طرح ہو جائیگی استعين بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بناتا ہوں حالانکہ حضور علیہ السلام کا ارشاد یہ ہے اذا استعنت فاستعن بالله جب تو مدد طلب کرے تو صرف اللہ تعالی سے مدد طلب کر ۔ اس اشکال کا جواب علامہ کوثری نے دیا 

حملا على الحقيقة  كـہ حديث 《اذا استعنت》 میں استعانت سے مراد اس کا حقیقی معنے ہے نہ کہ توسل کا معنی ۔ 

اور آگے لکھتے ہیں  فالمسلم لا ینسی سبب الاسباب عند ما يستعين بسبب من الاسباب۔ کیونکہ مسلمان جب کسی بھی سبب سے مدد مانگتا ہے تو وہ مسبب الاسباب کو نہیں بھولتا ۔ اور آگے لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت عباس کو استسقاء کے لیے وسیلہ بنایا اور اس وقت یہ الفاظ فرمائے 

اللهم فاسقنا

 اے اللہ تو ہمیں بارش سے سیراب کر 

وهذا هو الادب الاسلامی 

(مقالات ص ۳۹۵ ۳۹۹)

 اور یہی اسلامی طریقہ ہے ۔

 قارئین کرام غور فرمائیں کہ اگر علامہ کوثری رحمہ اللہ کے نزدیک غیر اللہ سے استعانت کی ذرا بھی گنجائش ہوتی تو وہ اس قدر تفصیل سے ذکر نہ کرتے اور پیدا ہونے والے اشکال کا رد نہ کرتے اتنے واضح اور واشگاف الفاظ اور صراحت کے بعد بھی اگر محترم اثری صاحب علامہ کوثری کے نظریہ کو اہل بدعت کی طرح قرار دینے کا ادہار کھائے بیٹھے ہیں تو اسکا کوئی علاج نہیں ہے ۔

علامہ کوثری نے تو فرمایا کہ اگر توسل کا ارادہ ہو تو استغاثہ اور استعانت کا لفظ استعمال کرنا درست ہے اور توسل کا مفہوم وہ پہلے بیان کر چکے کہ صرف متوسل یہ کی ذات اور اس کے مرتبہ سے برکت حاصل کرنا ہے ۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ توسل اور استعانت اور

استغاثہ میں غیر اللہ کو مافوق الاسباب میں پکارنا درست ہے مگر محترم اثری صاحب استعانت اور

استغاثہ کا حقیقی مفہوم لے کر علامہ کوثری کی جانب غیر اللہ سے استعانت کا نظریہ منسوب کر

رہے ہیں اور ان کا نظریہ اہل بدعت کے نظریہ کی طرح ثابت کرنا چاہتے ہیں اس سے بڑھ کر اور دھاندلی کیا ہو سکتی ہے ؟ محترم اثری صاحب نے اس سلسلہ میں ذکر کی گئی روایات پر نقد و جرح کی بحث صرف مضمون کو طول دینے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے کی ہے ورنہ جب اصل اور بنیاد ہی غلط ہو تو اس پر تعمیر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

"میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ"

محترم اثری صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علامہ کوثری محفل میلاد کے انعقاد کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بات بھی پہلی باتوں کی طرح بالکل من گھڑت اور صرف اثری صاحب کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔ علامہ کوثری نے اپنے مقالہ میں حضور علیہ السلام کی ولادت کے دن کے بارہ میں بحث کی ہے کہ وہ کونسا دن ہے اس بارہ میں مختلف اقوال نقل کیے اور اپنا رجحان ۹ ربیع الاول کی طرف بتایا اور اس سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے لکھا 

وقال عنه الحافظ عمر بن دحية في كتابه التنوير في مولد سراج المنير الذى اجازه علیه مظفر الدین صاحب اربل بالف دينار

 (مقالات ص (۴۰۶)

 اور ۹ ربیع الاول کے دن ولادت کا قول ابو بکر محمد بن موسی سے حافظ عمر بن دحیہ نے اپنی کتاب التتوبر میں کیا جس کتاب پر صاحب اربل مظفر الدین نے اس کو ہزار دینار انعام دیا تھا اور آگے چل کر لکھتے ہیں 

والملک المعظم مظفر الدین كوكبوري الذئب الازرق التركماني صاحب اربل مبتكر ذالك الاحتفال البالغ بمولد حضرت المصطفى صلوات الله وسلامه الخ 

(مقالات ص (۴۰۸) 

اور بڑا بادشاہ مظفر الدین کوکبوری نیلی آنکھوں والا بھیڑیا ترکمانی صاحب اربل جو ان محافل کا موجد اور حضور علیہ السلام کا میلاد منانے میں مبالغہ کرنے والا تھا وہ بھی کبھی ۹ ربیع الاول کو اور کبھی ۱۲ ربیع الاول کو محفل منعقد کرواتا ۔ اور پھر آگے لکھتے ہیں

 والعادة المتبعة في البلاد الاسلامية الاحتفاء بالمولد الشريف فى اليلة الثانية عشرة من شهر ربيع الأول (مقالات ص ۴۱۳) 

اور بلاد اسلامیہ میں یہ عادت لگاتار چلی آرہی ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول کو میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں ۔

 ان عبارات میں کہیں بھی بلکہ پورے مقالات میں کہیں بھی اشارہ تک نہیں کہ محفل میلاد جائز ہے مگر محترم اثری صاحب فرماتے ہیں کہ علامہ کوثری محفل میلاد کو جائز سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے کہا کہ عمر بن دحیہ کو مظفر الدین نے ہزار دینار انعام دیا ۔ اور مظفر الدین کو الملک المعظم کہہ کہ اس کی تعریف کی اور اس کو صرف المبتکر البالغ کہا جس سے ثابت ہوا کہ علامہ کوثری محفل میلاد کو جائز سمجھتے ہیں لا حول ولا قوة الا بالله - علامہ کوثری کے اس مقالہ کا مطالعہ کرنے والا ہر آدمی جان سکتا ہے کہ عمر بن دحیہ کو انعام کا تذکرہ محض ضمنا کیا گیا ہے اور مظفر الدین کو علامہ کوثری نے صرف الملک المعظم ہی نہیں کہا بلکہ الذئب الازرق نیلی آنکھوں والا بھیڑیا بھی کہا ہے ۔ نیز علامہ کوثری نے اس کو المبتکر کہا ہے اور ہم نے مقالات ص 111 کے حوالہ سے اپنے پہلے مضمون میں واضح کر دیا تھا کہ علامہ کوثری ابتکار کا معنی بدعت کرتے ہیں ۔ اس لیے المبتکر کا معنی المبتدع ہے کہ وہ اس بدعت کا ایجاد کرنے والا ہے ۔ ان عبارات میں کسی صاحب بصیرت کو تو مظفر الدین کی نہ تعریف نظر آتی ہے اور نہ محفل میلاد کے انعقاد کا جواز ملتا ہے مگر اثری صاحب کی ضد اور بے جا اصرار کا علاج ہمارے پاس نہیں ۔ نیز محترم اثری صاحب کو یہ غصہ بھی ہے کہ علامہ کوثری نے محافل میلاد کو بلاد اسلامیہ کی عادت متبعہ کہا ہے حالانکہ یہ تو عام سی عبارت ہے اس بارہ میں مضامین لکھنے والے اور بحث کرنے والے عموما لکھ دیتے ہیں کہ یہ اسلامی ممالک میں ہوتا ہے اس لیے کہ یہ محافل ہندو سکھ یا دہرئیے تو نہیں مناتے بلکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والے مناتے ہیں اور یہ محافل ان ہی ممالک میں ہوتی ہیں جہاں مسلمان آباد ہیں اس لیے بلاد اسلامیہ کی عادت متبعہ کہنے پر کسی صاحب عقل کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔

الاعتصام کے جس رسالہ میں محترم اثری صاحب کے مضمون علامہ الکوثری کے بدعی افکار کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی اسی مضمون سے پہلے ایک مضمون یوم میلاد کی محفلیں اور رسومات قرآن و سنت اور تعامل اسلاف کی روشنی میں شائع ہوا جس کے بارہ میں لکھا تھا کہ یہ سماحة الشيخ عبد العزيز بن باز کی تالیف ہے اور اس کا ترجمہ مولانا سیف الرحمان صاحب ایم اے علوم اسلامیہ نے کیا ۔ اس مضمون میں محافل میلاد کے بارہ میں بحث کرتے ہوئے لکھا ہے ایک صاحب فرد اور دانشمند کو یہ لائق نہیں کہ وہ اس بات سے دھوکا میں آجائے کہ اسلامی ممالک میں لوگ اسے کثرت سے کرتے ہیں کیونکہ حق و باطل کی تمیز کا معیار کسی شیئی کی کثرت سے نہیں الخ 

(ہفت روزہ الاعتصام ۲۶ جولائی ۱۹۹۶ ء )

 اگر اثری صاحب کو غصہ ہے کہ علامہ کوثری نے محافل میلاد کے انعقاد کو بلاد اسلامیہ کی عادت متبعہ کہا ہے اور پھر یوں فرماتے ہیں اور کیا علماء دیوبند اسے عالم اسلام کی عادت تسلیم کرتے ہیں؟ تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اثری صاحب کے سماحة الشیخ بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ اسلامی ممالک میں لوگ اسے کثرت سے کرتے ہیں ۔ کیا آپ لوگ اس کو عالم اسلام کی کثرت کا عمل تسلیم کرتے ہیں ؟

 ما هو جوابكم فهو جوابنا ۔ 

علامہ کوثری نے تو محافل میلاد کی ذرا بھی حوصلہ افزائی نہیں کی البتہ محترم اثری صاحب کے اپنے حلقہ کے جید عالم دین علامہ وحید الزمان مرحوم نے ان محافل کی خوب حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اور علامہ وحید الزمان کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ حدیث کی کئی کتابوں کے مترجم اور غیر مقلدین کے قابل فخر عالم ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں " ولا يجوز الانكار على امور مختلفة فيها بين العلماء كغسل الرجل ومسحه في الوضوء والتوسل بالاموات في الدعاء والدعاء الله عند قبور الاولياء والانبياء وارسال اليدين في الصلوة ووطى الازواج والاماء في الدبر والمتعة والجمع بين الصلوتين واللعب بالشطرنج والغناء والمزامير والفاتحة المرسومة او مجلس الميلاد وهو المنقول عن امامنا احمد بن حنبل "

 اور جن امور میں علماء کا اختلاف ہے ان میں سختی سے تردید کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ وضوء میں پاؤں دھونا یا ان کا مسح کرنا اور دعاء میں مردوں کو وسیلہ بنانا اور انبیاء اور اولیاء کی قبور کے پاس اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔ نماز میں ہاتھ کھلے چھوڑ دینا اور اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے وطی فی الدبر کرتا ( نعوذ باللہ من ذالک) اور متعہ کرنا اور دو نمازوں کو جمع کرنا اور شطرنج کھیلتا اور گانا باجا بنتا اور مروجہ فاتحہ یا مجلس میلاد اور یہی ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے ۔

 اور آگے لکھتے ہیں 

وقيل يجوز الانكار باليسر والسهولة بان يقراء الحديث على فاعلها ولا يعنف ولا يزجر ولا يشدد ولا ينهر (کتاب حدیثہ المحمدی ص ۱۸) 

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرام اور نرمی سے ان امور کی تردید کرنا جائز ہے اس طرح کہ ان افعال میں نے کسی فعل کے کرنے والے کے سامنے حدیث پڑھ دی جائے (جس میں اس کی تردید ہو) اور چہرہ پر غصہ نہ لایا جائے اور اس فعل کے کرنے والے کو نہ ڈانٹا جائے اور نہ تشدد کیا جائے اور نہ ہی جھڑ کا جائے۔

محترم اثری صاحب کو علامہ کوثری کی نہیں بلکہ علامہ وحید الزمان مرحوم کی فکر کرنی چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ مروجہ فاتحہ اور مجلس میلاد ہی نہیں بلکہ گانے سننے اور شطرنج کھیلنے اور بیویوں سے وطی فی الدبر جیسے واہیات کاموں کو دیکھ کر چہرہ پر ناراضگی کے اثرات بھی نہ لانے چاہیں۔

 لا حول ولا قوة الا باللہ

 اب اس کا فیصلہ خود قارئین کرام فرمائیں کہ محافل میلاد کی حوصلہ افزائی کرنے والے علامہ کوثری ہیں یا کہ محترم اثری صاحب کے اپنے حلقہ کے پیشوا علامہ وحید الزمان مرحوم ہیں ۔

" نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے "

" نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں "

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...