اعتراض نمبر 40: قیس بن ربیع کہتے ہیں کہ یوسف بن عثمان نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی کہ کفر سے توبہ کرے
اعتراض نمبر 40:
قیس بن ربیع کہتے ہیں کہ یوسف بن عثمان نے ابو حنیفہ سے توبہ طلب کی کہ کفر سے توبہ کرے
أخبرنا علي بن طلحة المقرئ والحسن بن علي الجوهري قالا: أخبرنا عبدالعزيز بن جعفر الخرقي، حدثنا علي بن إسحاق بن زاطيا، حدثنا أبو معمر القطيعي، حدثنا حجاج الأعورعن قيس بن الربيع قال: رأيت يوسف بن عثمان أمير الكوفة أقام أبا حنيفة على المصطبة يستتيبه من الكفر.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ یہ ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کے معاملہ میں تیسرا من گھڑت افسانہ ہے لیکن معلوم نہیں ہو سکا کہ اس زمانہ میں کوفہ کے والیوں میں سے یوسف بن عثمان کون ہے جیسا کہ مصری دونوں مطبوعہ نسخوں اور ہندی نسخہ اور دار الکتب کے قلمی نسخہ میں ہے۔ پس شاید کہ لفظ عمر میں تصحیف کر کے عثمان کر دیا گیا ہو کیونکہ عثمان کے درمیان الف کو حذف کر دیا جائے تو وہ رسم الخط میں عمر کے مشابہ ہے جیسا کہ پرانے لوگوں کا رسم الخط تھا۔ تو اس صورت میں یہ وہی یوسف بن عمر الثقفی ہو گا جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نہ کہ یوسف بن عثمان۔ تو توبہ طلب کرنے کا قصہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں اس کے اور خالد القسری کے درمیان دائر ہوگا (اور اس کے متعلق بحث پہلے ہو چکی ہے) [1]
رہی اس افسانہ کی سند تو اس میں ابن زاطیا ہے اور وہ کوئی قابل تعریف آدمی نہ تھا جیسا کہ خود خطیب نے اس کا اقرار کیا ہے[2] اور اس کا راوی ابو معمر القطیعی جو ہے وہ اسماعیل بن ابراہیم بن معمر الہروی ہے اور اس کے بارے میں ابن معین نے کہا کہ اس پر اللہ کی رحمت نہ ہو کہ جب وہ رقہ شہر کی طرف گیا تو پانچ ہزار احادیث بیان کیں تو ان میں سے تین ہزار میں غلطیاں کیں الخ۔ اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے قرآن کے بارے میں آنے والے ابتلائی دور میں حکومتی موقف کو تسلیم کر لیا تھا تو جب نکلا تو کہنے لگا ہم نے کفر کیا تو ہم بچ نکلے الخ ۔
اور اس کا ایک راوی حجاج الاعور بہت ہی سخت اختلاط کا شکار تھا۔ اور قیس بن الربیع کو بہت سے اہل نقد نے چھوڑ دیا تھا اس سے احادیث نہیں لیتے تھے اور اس کا بیٹا لوگوں سے احادیث لیتا، پھر اپنے باپ کی کتاب میں شامل کر دیتا پھر وہ ان کو روایت کرتا [3]۔ اور اس واقعہ کی سند کی قدر و قیمت کی اتنی وضاحت ہی کافی ہے۔ اور ایسے موقع پر ایک اور عجیب روایت کی جاتی ہے جس کے گھڑنے والے نے اس پر وضع کا حکم نہیں لگایا اور وہ اس کے معاملے پر غور نہیں کر سکا یہاں تک کہ ہر دیکھنے والے کے سامنے اس کا پردہ چاک ہو گیا۔ اور وہ روایت وہ ہے جس کو هبة الله الطبری نے شرح السنہ میں محمد بن احمد بن سهل الاصباغی، محمد بن احمد بن الحسن ابی علی الصواف محمد بن عثمان، محمد بن عمران بن ابی لیلی کی سند سے نقل کیا ہے کہ عمران بن ابی لیلی نے کہا کہ میرے باپ نے مجھے بیان کیا کہ جب یہ آدمی (یعنی ابو حنیفہ ) محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کے پاس آیا تو حماد بن ابی سلیمان وغیرہ نے اس کے خلاف گواہی دی کہ بیشک وہ قرآن کو مخلوق کہتا ہے۔ اور دیگر حضرات نے بھی حماد بن ابی سلیمان کی طرح گواہی دی۔ پھر مجھے خالد بن نافع نے بتایا کہ ابن ابی لیلی نے ابو جعفر کی طرف لکھا جبکہ وہ مدینہ میں تھا اور اس میں وہ کچھ لکھا جو یہ شخص کہتا ہے اور اس کے خلاف ان کی شہادتوں کا بھی ذکر کیا اور یہ بھی لکھا کہ اس نظریہ کے متعلق اس کا اپنا اقرار بھی موجود ہے تو ابو جعفر نے اس کی طرف لکھا کہ اگر وہ شخص اپنے نظریہ سے رجوع کرلے تو فیہا ورنہ اس کی گردن اتار دے اور اس کو آگ میں جلا دے الخ۔[4]
تو اس روایت کے مطابق ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کا قصہ حماد بن ابی سلیمان کی وفات سے پہلے 120 سے بھی پہلے ثابت ہوتا ہے جبکہ ہشام بن عبد الملک الاموی کے دور ابو جعفر منصور العباسی مدینہ میں غائب تھا اور یہ عباسی حکومت سے کافی عرصہ پہلے ہوا ہے۔ پس اس خلط ملط اور رسوا کن من گھڑت افسانے کو بیان کرنے سے شرم آنی چاہئے۔ پس اس واقعہ کے خلافت امویہ میں ہونے یا خلافت عباسیہ میں ہونے کے متعلق راویوں کے اس قدر خلط ملط کرنے کے بعد بھی اس سند کے راویوں کے بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ اور اس سند میں ان لوگوں نے ابو حنیفہ کے خلاف گواہی دینے والوں کے زمرہ میں حماد بن ابی سلیمان کو بھی شامل کر دیا ہے پس پاک ہے وہ ذات جو عقلوں کو تقسیم کرنے والی ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[2] ۔ كتب عنه ولم يكن بالمحمود.
(تاریخ بغداد ت مصطفی جلد 11/350)
[3]۔ قيس بن الربيع
اسم الشهرة:
قيس بن الربيع الأسدي
الجرح والتعدیل:
محمد بن إسماعيل البخاري :
لا أكتب حديثه ولا أروي عنه
أحمد بن شعيب النسائي :
ليس بثقة، ومرة: متروك الحديث
أحمد بن حنبل :
لينه وقال روى أحاديث منكرة، ومرة: كان يتشيع، ويخطىء في الحديث
ابن حجر العسقلاني :
صدوق تغير لما كبر، وأدخل عليه ابنه ما ليس من حديثه فحدث به
يحيى بن معين :
ليس بشيء، ومرة: ضعيف، ومرة: لا يكتب حديثه، ومرة: كان يتشيع، وكان كثير الخطأ، وله أحاديث منكرة، ومرة لم سئل عن آفته: آفته البخت
[4]. اس روایت میں صراحت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر ہی نہیں ہے
أخبرنا محمد بن أحمد بن سهل قال : حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن قال : حدثنا محمد بن عثمان قال : حدثنا محمد بن عمر ، أن ابن أبي ليلى قال : حدثني أبي قال : لما قدم ذلك الرجل إلى محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى شهد عليه حماد بن أبي سليمان وغيره أنه قال : القرآن مخلوق ، وشهد عليه قوم مثل قول حماد بن أبي سليمان . فحدثني خالد بن نافع قال : كتب ابن أبي ليلى إلى أبي جعفر وهو بالمدينة بما قاله ذلك الرجل وشهادته عليه وإقراره . فكتب إليه أبو جعفر : إن هو رجع وإلا فاضرب رقبته واحرقه بالنار . فتاب ورجع عن قوله في القرآن .
، دوسری بات یہ کہ 120ھ سے قبل ابو جعفر منصور ، عباسی خلیفہ نہیں تھا بلکہ اس کی خلافت تو بہت بعد میں شروع ہوئی تھی پھر کس حیثیت سے اس کو خط لکھا گیا ؟
تیسری بات امام حماد رحمہ اللہ کی وفات ہی فتنہ خلق قرآن سے قبل ہوئی ۔
چوتھی بات پہلا شخص الجعد بن درھم تھا جس نے فتنہ خلق قرآن پھیلایا ، مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
النعمان سوشل میڈیا سروسز
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں