نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 44: کہ ابوبکر بن داؤد نے کہا کہ امام مالک، امام اوزاعی، امام الحسن بن صالح ، امام سفیان ثوری اور امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ کا ابو حنیفہ کو گمراہ قرار دینے پر اتفاق ہے۔


 اعتراض نمبر 44: 
کہ ابوبکر بن داؤد نے کہا کہ امام مالک، امام اوزاعی،  امام الحسن بن صالح ، امام سفیان ثوری اور امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ کا ابو حنیفہ کو گمراہ قرار دینے پر اتفاق ہے۔


حدثنا محمد بن علي بن مخلد الوراق - لفظا - قال في كتابي عن أبي بكر محمد بن عبد الله بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قال: سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه،وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه. فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة.

الجواب: 

میں کہتا ہوں کہ الکامل میں ابن عدی کی عبارت یوں ہے 

《سمعت ابن ابی داود يقول الوقيعة في أبي حنيفة جماعة من العلماء》

 کہ میں نے ابن ابی داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ ابو حنیفہ سے اختلاف رکھنے میں علماء کا اجماع ہے اس لیے کہ بصرہ کے امام ایوب السختیانی ہیں اور کوفہ کے امام ثوری ہیں اور حجاز کے امام مالک ہیں اور مصر کے امام اللیث بن سعد ہیں اور شام کے امام الاوزاعی ہیں اور خراسان کے امام عبد اللہ بن المبارک ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے۔ تو دنیا کے تمام اطراف میں اس سے اختلاف کرنے میں علماء کا اجماع ہے او کما قال الخ۔ [1]

اور خطیب نے اس واقعہ کی سند میں جس ابوبکر الاسدی کا ذکر کیا ہے وہ ابو بکر محمد بن عبد الله بن محمد بن صالح الابہری المالکی ہے جو کہ علم کا پہاڑ ہے۔ اس نے صرف اس وجہ سے قاضی بننے سے انکار کر دیا کہ اس کی نظر میں اس عہدہ کا اس کی بہ نسبت زیادہ حقدار موجود تھا اور وہ ابوبکر الرازی الجصاص الحنفی تھے اور یہ قصہ مشہور ہے[2]۔ اور پختہ بات ہے کہ ابو بکر نے ابن ابی داؤد کی اس بات کو تردید کے لیے بیان کیا اور خطیب نے ابن ابی داؤد کے قول کو ابو حنیفہ کے بارے میں جرح سے متعلق احتجاج (دلیل پکڑنے) میں ذکر کر دیا اور ابن عدی نے بھی اسی طرح کیا ہے لیکن جب خطیب نے اور ابن عدی نے راوی کے حال کی طرف توجہ نہ کی تو یہ کہہ کر ہی خوش ہونے لگے کہ کیا وہ عبد اللہ بن سلیمان بن الاشعث السجستانی نہیں ہے جو کہ صاحب السنن ابو داود کا بیٹا ہے حالانکہ اس کے باپ نے اور ابن صاعد نے اور ابراہیم بن الاصبہانی نے اور ابن جریر نے اس کو جھوٹا کہا ہے [3] اور وہ ناصبی ہے  رب تعالی کے لیے جسم مانتا ہے خبیث ہے۔ اس نے زہری سے تسلق والا من گھڑت اور جھوٹا افسانہ روایت کیا اور اس کے خلاف عادل گواہوں نے شہادت دی جو کہ حفاظ ہیں یعنی محمد بن العباس الاخرم اور احمد بن علی ابن الجارود اور محمد بن یحیی بن مندہ۔ اور قریب تھا کہ اصبہان کے امیر ابو لیلی کے ہاتھوں اس کا خون بہا دیا جاتا اگر اس کو بچانے میں بعض ایسے عہدہ داروں کی کوشش نہ ہوتی جو اس کے باپ کے قدر دان تھے اور اس کے ساتھ یہ معاملہ اس لیے ہوا تا کہ ان گواہوں جیسے لوگوں کے بارے میں طعن سے اس کو نجات مل جائے اور یہ اس کا حال تھا اگرچہ اس کا معاملہ مشہور ہو گیا ان لوگوں پر جو اس کے اندرونی حالات کو نہ جانتے تھے۔ اور وہ ابو عبد اللہ الجصاص کی صف میں تھا جس کا معاملہ بغداد میں ابن جریر کے مقابلے میں بالکل واضح ہے اور اس کی خباثتوں کی وضاحت کے لیے مستقل کتاب کی ضرورت ہے اور وہ کلام میں بد ترین جھوٹ بولتا تھا اور الحافظ ابو الوليد الباجی نے المنتقى شرح الموطا ج 7 ص 300 میں اس روایت پر بحث کرتے ہوئے جو اس نے مالک سے لی ہے[4]، اس کو بہت سخت جھوٹا کہا ہے جیسا کہ ہم نے اس کی واضح عبارت المقدمہ میں نقل کی ہے اور اہل علم کے ہاں حدیث اور فقہ اور تاریخ میں الباجی " کا مرتبہ بہت بلند ہے اور اسی نے ابن حزم کا منہ بند کیا اور اس کو خاموش کر لیا تھا۔ 

اور الحسن بن صالح کا ابو حنیفہ کی تعریف کرنا تو بہت ہی مشہور ہے اور اس کو ابن عبد البر نے الانتقاء میں اپنی سند کے ساتھ ص 28 میں ذکر کیا ہے[5] اور اسی طرح سفیان ثوری کا اس کی تعریف کرنا الانتقاء ص 27 میں ذکر کیا ہے[6] اور اللیث کا اس کی تعریف کرنا ابن ابی العوام کی کتاب میں ہے[7] اور بیشک ہم نے اس کو نصب الرایہ کے مقدمہ میں نقل کیا ہے بلکہ وہ تو اس کے قابل قدر ساتھیوں میں سے تھے۔ اور اوزاعی کے ساتھ اس کا رفع یدین کے بارے میں مناظرہ کرنا اور اس کو خاموش کرانا جو کہ الحافظ ابی محمد البخاری کی مسند میں ہے[8] اور اس کا امام ابو حنیفہ کی تعریف کرنا خطیب کی تاریخ ص 338 میں گزر چکا ہے[9] اور ایوب السختیانی کا ابو حنیفہ کی تعریف کرنے کا ذکر الانتقاء ص 125 میں ہے [10] اور عبد اللہ ابن المبارک تو اس کی زندگی اور اس کے مرنے کے بعد باقی لوگوں کی بہ نسبت اس کی زیادہ طرفداری کرنے والے تھے جیسا کہ آپ اس کا ذکر خطیب کی تاریخ میں بہت سے مقامات میں پائیں گے[11]۔ اس میں صراحت سے ذکر ہے کہ وہ اس کی انتہائی تعریف کرتے تھے۔ اور الباجی نے اس کی بہت اعلیٰ درجہ کی تعریف کی ہے اور اس کی عبارت ہم نے المقدمہ میں ذکر کی ہے[12] اسی طرح عبداللہ بن مبارک کا ابو حنیفہ کی تعریف کرنے کا ذکر الانتقاء ص 132 میں ہے[13] اور امام احمد تو اس کے حق میں رحمت کی دعائیں کیا کرتے تھے اور اس کے بارے میں اچھے کلمات کہتے تھے جیسا کہ خود خطیب نے ص 327 میں نقل کیا ہے[14] اور جیسا کہ العوفی نے مختصر الروضہ کی شرح میں ابو الورد سے نقل کیا ہے جو کہ حنابلہ کے اماموں میں سے ایک امام ہیں تو اس سے واضح ہو گیا کہ ابو داؤد کے بیٹے نے ان دونوں روایتوں میں بہتان تراشی کی ہے اور دونوں خبروں میں اپنے باپ ابو داؤد پر جھوٹ باندھا ہے۔ اور ابن عبد البر نے الانتقاء ص 32 میں عبد اللہ بن محمد بن عبد المومن بن یحی، ابو بکر محمد بن بكر بن عبد الرزاق التمار جو که ابن داسہ کے ساتھ مشہور ہیں کی سند سے نقل کیا کہ ابن داسہ نے کہا کہ میں نے ابو داؤد سلیمان بن الاشعث بن اسحاق السجستانی  سے سنا وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالٰی امام مالک پر رحم فرمائے، وہ امام تھے۔ اللہ تعالٰی امام شافعی پر رحم فرمائے وہ امام تھا۔ اللہ تعالی ابو حنیفہ پر رحم فرمائے وہ امام تھے الخ ۔[15]بلکہ وہ اقوال جو ان ائمہ سے صحیح طور پر ثابت ہیں، وہ سارے کے سارے تعریف پر مشتمل ہیں جیسا کہ آپ ان کی صراحت اس کتاب میں اور ابن عبد البر اور ابن ابی العوام اور الصیمری وغیرہ کی کتابوں میں سندوں کے ساتھ پائیں گے لیکن بے عقل آدمی جو اللہ تعالٰی سے نہیں ڈرتا تو وہ جو چاہے جلد بازی میں لکھتا جائے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ سمعت ابن أبي داود -عبد الله بن سليمان الأشعث- يقول: الوقيعة في أبي حنيفة جماعة من العلماء لأن إمام البصرة أيوب السختياني وقد تكلم فيه، وإمام الكوفة الثوري وقد تكلم فيه، وإمام الحجاز مالك وقد تكلم فيه، وإمام مصر الليث بن سعد وقد تكلم فيه، وإمام الشام الأوزاعي وقد تكلم فيه، وإمام خراسان عبد الله بن المبارك وقد تكلم فيه، فالوقيعة فيه إجماع من العلماء في جميع الآفاق أوكما قال

(الكامل - عبد الله بن عدي - ج 7  صفحہ 10)

[2]۔وسئل أن يلي القضاء فامتنع، فاستشير فيمن يصلح لذلك فقال: أبو بكر أحمد بن علي الرازي

 (تاریخ بغداد ت: بشار 3/491)

[3]۔ الأسم : عبد الله بن سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو بن عمران

الشهرة : عبد الله بن أبي داود السجستاني 

وضاحت:

1)۔عبد الله بن أبي داود السجستاني کو امام إبراهيم بن أورمة الأصبهاني رحمہ اللہ نے کذاب کہا ہے۔

سمعت مُوسَى بْنَ الْقَاسِمِ بْنِ مُوسَى بْنِ الْحَسَنِ بْنِ مُوسَى الأَشْيَبِ(ثقة) يقول، حَدَّثني  أبو بكر ( ابو بکر بن ابی الدنیا: ثقة صدوق )،  قَالَ: سَمِعْتُ إبراهيم الأصبهاني (إبراهيم بن أورمة أبو إسحاق الأصبهاني :الامام ، الحافظ ،  ثقة، حافظ نبيل)

 يقول أبو بكر بن أبي داود كذاب

ثقہ امام حافظ ابراہیم الاصبہانی کہتے ہیں ابو بکر عبداللہ بن ابی داود جھوٹا ہے۔

(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي جلد : 5  صفحہ : 436)

2۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ  ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں لیکن حدیث پر کلام کرنےمیں بہت غلطیاں کرتےہیں۔

أبو عبد الرحمن السلمي: سألت الدارقطني عن ابن أبي داود، فقال: ثقة، كثير الخطأ في الكلام على الحديث (تذکرۃ الحفاظ 2/771)

3۔امام بغوی کا علم حدیث میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے وہ خدا کی قسم کھاکر عبداللہ بن ابی داود کو علم سے عاری یا خالی  قرار دیتے تھے۔

سَمِعْتُ عَبد اللَّهِ بْنَ مُحَمد الْبَغَوِيُّ يَقُولُ وَقَدْ كَتَبَ إِلَيْهِ بن أَبِي دَاوُدَ رُقْعَةٌ يَسْأَلُهُ عَنْ لَفْظِ حَدِيثٍ لِجِدِّهِ بَيَّنَ لَهُ مِنْ لَفْظِ غَيْرِهِ فِيهِ وَالْحَدِيثُ الَّذِي سَأَلَهُ جِدُّهُ عَنْ مُحَمد بْنِ قَيْسٍ أَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ، عَن أَبِي جَعْفَر الرازي عَن الرَّبِيعِ، عَن أَبِي الْعَالِيَةِ، عَن أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ جَاءَ الْمُشْرِكُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا انْسِبْ لَنَا رَبَّكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {قُلْ هُوَ الله أَحَدٌ} فَقَالَ الْبَغَوِيُّ لَمَّا قَرَأَ رُقْعَتَهُ أَنْتَ وَاللَّهِ عِنْدِي مُنْسَلِخٌ مِنَ الْعِلْمِ.

(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي جلد : 5  صفحہ : 436)

4۔ سمعت عبدان يقول: سَمعتُ أبا داود السجستاني يقول ومن البلاء أن عَبد الله يطلب القضاء

سنن ابی داود کے مولف پنے بیٹے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مصیبت کی بات یہ ہے کہ میرا بیٹا عہدہ قضا کا خواہاں ہے۔

5۔سمعت علي بن عَبد الله الداهري يقول: سَمعتُ أحمد بن مُحَمد بن عَمْرو بن عيسى كركر يقول: سَمعتُ علي بن الحسين بن الجنيد يقول: سَمعتُ أبا داود السجستاني يقول ابني عَبد الله هذا كذاب.

(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي    جلد : 5  صفحہ : 435)

امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرا بیٹا عبداللہ جھوٹا ہے۔ (اس کی سند میں کچھ کلام ہے لیکن ہم عصر امام ابن صاعد  رحمہ اللہ کے نزدیک یہ قول ابو داود رحمہ اللہ سے ثابت ہے اسی لئیے وہ بھی کچھ ایسا ہی کہتے ہیں کہ)

6۔وكان ابن صاعد يقول كفانا ما قال أبوه فيه.

(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي    جلد : 5  صفحہ : 435)

امام ابن عدی اپنے شیخ ابن صاعد کی رائے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی داود کے بارے میں اس کے والد کی رائے کافی ہے۔(یعنی عبداللہ کذاب ہے کیونکہ امام عدی نے کذاب والے قول کے بعد اسی قول کو کر کیا ہے)۔

یہاں سے ثابت ہوا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ کا قول کہ "میرا بیٹا عبداللہ کذاب ہے " صحیح ہے۔اسی لئیے تو امام ابن صاعد جو ہم عصر ہیں وہ بھی یہی فرما رہے ہیں یعنی یہ قول ان کے نزدیک ثابت تھا۔نیز ابن عدی اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ 《 ابني عَبد الله هذا كذاب》 کی کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے ورنہ اس کی تاویل وغیرہ کی کیا ضرورت تھی ؟ نہ حافظ ذہبی کو یہ کہنا پڑتا کہ جھوٹ سے مراد حدیث رسول میں جھوٹ نہیں ہے بلکہ لہجہ کا جھوٹ ہے یا عام بات چیت میں جھوٹ ہے اور نہ ابن عدی رحمہ اللہ کو یہ کہنا پڑتا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے والد نے ان کو جھوٹا کیوں کہا ؟)

7۔ عبداللہ بن ابی داود نے ایسی روایت بھی بیان کی تھی جس سے حضرت عائشہ کی گستاخی ہو رہی تھی۔ جس پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے موصوف کو  خفیف الراس یعنی دماغ کا ہلکا یا بیوقوف کہا۔

( سیر  اعلام النبلاء  13/ 229، 230)

[4]۔ قَالَ الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَعِنْدِي أَنَّ هَذِهِ الرِّوَايَةَ غَيْرُ صَحِيحَةٍ عَنْ مَالِكٍ؛ لِأَنَّ مَالِكًا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَلَى مَا يُعْرَفُ مِنْ عَقْلِهِ وَعِلْمِهِ وَفَضْلِهِ وَدِينِهِ وَإِمْسَاكِهِ عَنْ الْقَوْلِ فِي النَّاسِ إلَّا بِمَا يَصِحُّ عِنْدَهُ وَثَبَتَ لَمْ يَكُنْ لِيُطْلِقَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مَا لَمْ يَتَحَقَّقْهُ وَمِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَقَدْ شُهِرَ إكْرَامُ مَالِكٍ لَهُ وَتَفْضِيلُهُ إيَّاهُ، وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ مَالِكًا ذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِالْعِلْمِ بِالْمَسَائِلِ وَأَخَذَ أَبُو حَنِيفَةَ عَنْهُ أَحَادِيثَ وَأَخَذَ عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمُوَطَّأَ وَهُوَ مِمَّا أَرْوِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَبْدِ بْنِ أَحْمَدَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَقَدْ شُهِرَ تَنَاهِي أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْعِبَادَةِ وَزُهْدُهُ فِي الدُّنْيَا، وَقَدْ اُمْتُحِنَ وَضُرِبَ بِالسَّوْطِ عَلَى أَنْ يَلِيَ الْقَضَاءَ فَامْتَنَعَ، وَمَا كَانَ مَالِكٌ لِيَتَكَلَّمَ فِي مِثْلِهِ إلَّا بِمَا يَلِيقُ بِفَضْلِهِ وَلَا نَعْلَمُ أَنَّ مَالِكًا تَكَلَّمَ فِي أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الرَّأْيِ وَإِنَّمَا تَكَلَّمَ فِي قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: أَدْرَكْتُ بِالْمَدِينَةِ قَوْمًا لَمْ تَكُنْ لَهُمْ عُيُوبٌ فَبَحَثُوا عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ فَذَكَرَ النَّاسُ لَهُمْ عُيُوبًا وَأَدْرَكْت بِهَا قَوْمًا كَانَتْ لَهُمْ عُيُوبٌ سَكَتُوا عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ فَسَكَتَ النَّاسُ عَنْ عُيُوبِهِمْ فَمَالِكٌ يُزَهِّدُ النَّاسَ عَنْ الْعُيُوبِ وَمِنْ أَيْنَ يَبْحَثُ فِي عُيُوبِ النَّاسِ وَكَيْفَ يَذْكُرُ الْأَئِمَّةَ بِمَا لَا يَلِيقُ بِفَضْلِهِ، وَقَدْ ذَكَرْت فِي كِتَابِ فِرَقِ الْفُقَهَاءِ مَا نُقِلَ عَنْهُ مِنْ ذَلِكَ وَبَيَّنْتُ وُجُوهَهُ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ وَأَحْكَمُ.

(المنتقی شرح الموطا 7/300)

[5]۔كان النعمان بن ثابت فهما عالما متثبتا في علمه، إذا صحّ الخبر عنده عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لم يعده إلى غيره

امام حسن بن صالح رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: 

 ابو حنیفہ زبردست عالم تھے اور علم میں مضبوط. جب آپ کے نزدیک کوئی حدیث ثابت ہوجاتی تو پھر کسی اور کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

 (الانتقاء  ت :عبدالفتاح ابو غدہ صفحہ 198 ، 199 )

[6]۔  وقال أبو عمر بن عبد البر: ثنا أبو على الأسيوطى، قال: حدثنا أحمد بن محمد بن علامة الطحاوى، قال: حدثنا أحمد بن أبى عمران، قال: أخبرنا محمد بن شجاع قال: سمعت الحسن بن أبى مالك يقول: سمعت أبا يوسف يقول: سفيان الثورى أكثر متابعة لأبى حنيفة.

 وعن عبد الله أبى داود الحربى يقول: كنت عند سفيان الثورى، فسأله رجل عن مسألة من مسائل الحج فأجابه، فقال له الرجل: إن أبا حنيفة قال فيها كذا، قال: هو كما قال أبو حنيفة، ومن يقول غير هذا؟!

 (الانتقاء  ت :عبدالفتاح ابو غدہ صفحہ 197 )

[7]۔ قَالَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ: " كُنْتُ أَسْمَعُ بِذِكْرِ أَبِي حَنِيفَةَ، فَأَتَمَنَّى أَنْ أَرَاهُ، فَإِنِّي لَبِمَكَّةَ إِذْ رَأَيْتُ النَّاسَ مُتَقِصِّفِينَ عَلَى رَجُلٍ، فسَمِعْتُ رَجُلًا، يَقُولُ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ هُوَ، فَقَالَ: إِنِّي ذُو مَالٍ وَأَنَا مِنْ خُرَاسَانَ وَلِي ابْنٌ أُزَوِّجُهُ الْمَرْأَةَ وَأُنْفِقُ عَلَيْهِ الْمَالَ الْكَثِيرَ، فَيُطَلِّقُهَا فَيَذْهَبُ مَالِي، وَأَشْتَرِي لَهُ الْجَارِيَةَ بِالْمَالِ الْكَثِيرِ فَيُعْتِقُهَا، فَيَذْهَبُ مَالِي فَهَلْ مِنْ حِيلَةٍ؟ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: «أَدْخِلْهُ سُوقَ الرَّقِيقِ، فَإِذَا وَقَعَتْ عَيْنُهُ عَلَى جَارِيَةٍ فَاشْتَرِهَا لِنَفْسِكَ، ثُمَّ زَوِّجْهَا إِيَّاهُ، فَإِنْ طَلَّقَهَا رَجِعَتْ مَمْلُوكَةً لَكَ، وَإِنْ أَعْتَقَهَا لَمْ يَجُزْ عِتْقُهُ» ، قَالَ اللَّيْثُ: فَوَاللَّهِ مَا أَعْجَبَنِي صَوَابُهُ كَمَا أَعْجَبَنِي سُرْعَةُ جَوَابِهِ

امام لیث بن سعد فرماتے ہیں

میں نے امام ابو حنیفہؓ کا ذکر سن رکھا تھا اور میری یہ خواہش تھی کہ میں ان کو دیکھوں! ایک دن میں مسجد حرام میں موجود تھا میں نے ایک حلقہ دیکھا کہ بہت سے لوگ کسی کے گرد ہجوم کیے ہوئے ہیں ، میں بھی اس حلقہ کی طرف آیا (تو پتہ چلا کہ امام ابو حنیفہ کا حلقہ ہے ) تو میں نے خراسان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو دیکھا ، وہ امام ابو حنیفہ کے پاس آیا ، اس نے کہا میرا تعلق خراسان سے ہے میں ایک مالدار شخص ہوں میرا ایک بیٹا ہے جو قابل تعریف شخصیت کا مالک نہیں ہے ، لیکن اسکے علاوہ میری کوئی اولاد نہیں ہے ، جس نے مجھے پریشان کیا ہوا ہے اور عاجز کر دیا ہے امام ابو حنیفہ نے دریافت کیا وہ کیا ہے ؟ 

اس شخص نے کہا : جب میں اپنے بیٹے کی شادی کرواتا ہوں تو وہ (کچھ عرصے بعد) بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ، اگر میں اسے کوئی کنیز خرید کے دیتا ہوں تو وہ اسے آزاد کر دیتا ہے ، میں اس سے تنگ آچکا ہوں ، کیا اسکا کوئی حل ہے ؟ 

تو امام ابو حنیفہ نے اسی وقت اسے جواب دیا : اسے جو کنیز پسند آتی ہے وہ کنیز تم خود خرید لو اور پھر اس کنیز کے ساتھ اس کی شادی کردو ، اگر وہ طلاق بھی دیدے گا تو تمہاری ملکیت والی کنیز تمہارے پاس واپس آجائے گی اور اگر وہ آزاد کرتا ہے تو وہ ایک ایسی کنیز کو آزاد کرے گا جسکا وہ مالک ہی نہیں ہے (تو وہ کنیز آزاد شمار نہیں ہوگی ) 

امام لیث فرماتے ہیں اللہ کی قسم! مجھے انکے جواب پر اتنی حیرت نہیں ہوئی جتنی حیرت جواب کی تیزی پر ہوئی ۔

(فضائل ابی حنیفہ الابن ابی العوام  ت بہرائچی صفحہ 87

 مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ، صفحہ 36 ، شمس الدين الذهبي)

[8]۔ اسنادی حیثیت کیلئے دیکھیں اعلاء السنن جلد 3 صفحہ 74

[9]۔  أخبرني أبو بشر الوكيل وأبو الفتح الضبي قالا: حدثنا عمر بن أحمد الواعظ، حدثنا أحمد بن محمد بن عصمة الخراساني، حدثنا أحمد بن بسطام، حدثنا الفضل ابن عبد الجبار قال: سمعت أبا عثمان حمدون بن أبي الطوسي يقول: سمعت عبد الله ابن المبارك يقول: قدمت الشام على الأوزاعي فرأيته ببيروت. فقال لي: يا خراساني من هذا المبتدع الذي خرج بالكوفة يكنى أبا حنيفة؟ فرجعت إلى بيتي، فأقبلت على كتب أبي حنيفة، فأخرجت منها مسائل من جياد المسائل، وبقيت في ذلك ثلاثة أيام، فجئت يوم الثالث، وهو مؤذن مسجدهم وإمامهم، والكتاب في يدي، فقال: أي شئ هذا الكتاب؟ فناولته فنظر في مسألة منها وقعت عليها قال النعمان: فما زال قائما بعد ما أذن حتى قرأ صدرا من الكتاب. ثم وضع الكتاب في كمه، ثم أقام وصلى، ثم أخرج الكتاب حتى أتى عليها. فقال لي: يا خراساني من النعمان بن ثابت هذا؟ قلت: شيخ لقيته بالعراق. فقال: هذا نبيل من المشايخ، اذهب فاستكثر منه. قلت: هذا أبو حنيفة الذي نهيت عنه.

[10]۔ نا أبو حفص عمر بن شجاع الحلواني قال نا علي بن عبد العزيز قال نا عازم قال سمعت حماد بن زيد يقول أردت الحج فأتيت أيوب أودعه فقال بلغني أن فقيه أهل الكوفة أبا حنيفة يريدالحج فإذا لقيته فاقرئه منى السلام

امام حماد کہتے ہیں کہ میں نے حج پر جانے کا ارادہ کیا تو میں امام  سختیانی کے پاس آیا تا کہ ان سے الوداعی ملاقات کروں تو انہوں نے مجھے فرمایا:مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ اہل کوفہ کے فقیہ  امام ابو حنیفہ بھی حج پر جانے والے ہیں ، سو جب تمہاری ان سے ملاقات ہو تو انہیں میری طرف سے سلام کہنا۔

(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - صفحہ  115 )

 یہی روایت اخبار ابی حنیفہ للصیمری ، تاریخ بغداد اور 

فضائل أبي حنيفة لابن  ابی العوام میں بھی موجود ہے۔ 

  أخبرنا القاضي أبو جعفر محمد بن أحمد بن محمد السمناني، قال: أخبرنا إسماعيل بن الحسين بن علي البخاري الزاهد، قال: حدثنا أبو بكر أحمد بن سعد بن نصر، قال: حدثنا علي بن موسى القمي، قال: حدثني محمد بن سعدان، قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، يقول: سمعت حماد بن زيد، يقول: أردت الحج، فأتيت أيوب أودعه، فقال: بلغني أن الرجل الصالح فقيه أهل الكوفة، يعني: أبا حنيفة يحج العام فإذا لقيته فأقرئه مني السلام.

(تاريخ بغداد ت : بشار ج 15 ص459)

  حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني محمد بن سعدان قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني يقول: سمعت حماد بن زيد يقول: أردت الحج فأتيت أيوب السختياني أودعه فقال لي: بلغني أن فقيه الكوفة يريد الحج يعني أبا حنيفة فإن لقيته فاقرئه مني السلام.

( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه  لابن ابی العوام ، ص 104)

  أخبرنا عبد الله بن محمد الحلواني قال ثنا القاضي أبو بكر مكرم بن أحمد قال ثنا عبد الوهاب بن محمد قال حدثني محمد بن سعدان قال سمعت أبا سليمان الجوزجاني قال سمعت حماد بن زيد قال أردت الحج فأتيت أيوب أودعه فقال بلغني أن الرجل الصالح فقيه أهل الكوفة أبو حنيفة يحج فإن لقيته فأقرئه مني السلام.

(  أخبار أبي حنيفة وأصحابه ، الصيمري، ص79)

[11]۔  تفصیل کیلئے دیکھیں الاجماع شمارہ نمبر 22 : صفحہ 24 ، 33۔

[12]۔المنتقی شرح الموطا  7/300

[13]۔   الانتقاء مترجم صفحہ 272

[14]۔وقال النخعي: حدثنا إبراهيم بن مخلد البلخي، حدثنا محمد بن سهل بن أبي منصور المروزي، حدثني محمد بن النضر قال: سمعت إسماعيل بن سالم البغدادي يقول: ضرب أبو حنيفة على الدخول في القضاء، فلم يقبل القضاء.

قال: وكان أحمد بن حنبل إذا ذكر ذلك بكى وترحم على أبي حنيفة، وذلك بعد أن ضرب أحمد

[15]۔ وحدثنا عبد الله بن محمد بن يوسف قال حدثنا ابن دحمون قال سمعت محمد بن بكر بن داسة يقول سمعت أبا داود سليمان بن الأشعث السجستاني يقول رحم الله مالكا كان إماما رحم الله الشافعي كان إماما رحم الله أبا حنيفة كان إماما

(جامع بيان العلم وفضله - ابن عبد البر - ج ٢ - الصفحة ١٦٣)



حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد المؤمن بن يحيى رحمه الله قال أنا أبو بكر محمد بن بكر بن عبد الرازق التمار المعروف بابن داسة قال سمعت أبا داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق السجستاني رحمه الله يقول رحم الله مالكا كان اماما رحم الله الشافعي كان اماما رحم الله أبا حنيفة كان اماما

(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ٣٢)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...