نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تنقیصِ صحابہ کرام اور آلِ غیرمقلدیت

 


تنقیصِ صحابہ کرام اور آلِ غیرمقلدیت

مفتی رب نواز ، احمد پورشرقیہ

(ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

            [ بندہ نے غیرمقلدین کی کتابوں کے مطالعہ کے دَوران صحابہ کرام کی گستاخیوں پر مشتمل عبارات کو جمع کیا ،پھر انہیں چھ سات عنوان میں تقسیم کرکے مختلف رسالوں میں شائع کرایا۔ اُن میں سے ایک عنوان ’’ تنقیصِ صحابہ کرام اور آلِ غیرمقلدیت ‘‘ ہے جواَحباب کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے۔ اس طرح کے دیگرمضامین بندہ کی زیر ترتیب کتاب ’’ مقدسات کی شان میں غیرمقلدین کی گستاخیاں ‘‘ میں شامل ہیں جو عن قریب منظر عام پہ آنے والی ہے، ان شاء اللہ۔ ( رب نواز عفا اللہ عنہ ) ]

دو تین کتابیں پڑھنے والا مجتہد صحابہ سے زیادہ علم والا

امام آلِ غیرمقلدیت وحید الزمان صاحب لوگوں کو تقلیدسے نکلنے کا فار مولابتاتے ہوئے لکھتے ہیں :

             ’’جو کوئی نیل المرام اور تلخیص یا منتقی اخبار کو خوب یاد کر لیوے وہ کتاب وسنت سے بخوبی واقف ہو سکتا ہے اور اس کا علم ان صحابہ کے برابر پہنچ جاتا ہے بلکہ زیادہ ہو جاتا ہے جن کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد جائز رکھا، صرف اتنا اور ضرور ہے کہ صحابہ اہلِ زبان تھے ان کو نحو اور صرف کی لغت کی حاجت نہ تھی۔اگر یہ شخص عربی نہ ہو تو بقدر ضرورت علم ِ عربیت اور لغت بھی حاصل کر لیوے اور اتنا اجتہاد شرعی اور تقلید سے نکلنے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘

(رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجۃ: ۲؍۲۵۷)

وطی فی الدبر کے جواز کی نسبت

 علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

            ’’سنیوں کا یہ اعتراض شیعوں پر کہ اُن کے نزدیک وطی فی الدبر جائز ہے، محض لغو ہے کس لیے کہ بعض اکابر اہلِ سنت اور صحابہ سے بھی اُس کا جواز منقول ہے۔‘‘

(لغات الحدیث :۱؍ ۲۶، خر)

تنبیہ: وطی فی الدبر کا مطلب پاخانہ کے راستہ سے ہم بستری کرنا ہے۔

سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ پر فسق کا الزام

            امام آلِ غیرمقلدیت وحید الزمان نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا:

’’بعض اعمال ِ مفسقہ ان سے صادر ہوئے ہیں۔‘‘

(مؤطا مالک مترجم صفحہ ۳۳۷)

            وحید الزمان صاحب نے نزل الابرار ۳؍۳۹۳ پر پانچ صحابہ کرام کو فاسق کہا ہے۔ (استغفراللہ)

صحابیہ کو بدقسمت، بد نصیب، بے وقوف،کم بخت اور شیطان کی سواری کہنا

علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

             ’’ آنحضرت ؐ نے ایک جَون قبیلہ کی عورت سے نکاح کیا جب خلوت میں اُس کے پاس گئے تو فرمایا اپنی تئیں مجھ کو بخش دے یعنی مجھ کو جماع کی اجازت دے وہ بے وقوف کیاکہنے لگی بھلا ملکہ یعنی رانی شاہزادی پادشاہ بیگم کہیں اپنی تئیں بازاری لوگوں کو یا رعایا کو بخش دیتے ہیں۔ (معاذ اللہ ) کیا بد قسمت، بد نصیب عورت تھی۔ ‘ ‘

( لغات الحدیث :۲؍۲۱۲، سو )

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

            ’’کیا کم بخت عورت تھی ... یہ آپ ہی کا حلم اور کرم تھا اگر کوئی دوسرا ہوتا تو دھڑ سے جوتا لگاتا اور زبر دستی اس کو گرا کر اس سے جماع کرتا۔کم بخت ہماری جورو ہو کر ہم ہی سے لگی زبان درازی کرنے لیکن اس پر تو شیطان سوار تھا۔ ‘‘

( تیسیر الباری شرح بخاری :۷؍۱۶۷،۱۶۸)

صحابہ کے لیے ’’رضی اللہ عنہم‘‘ نہ کہنے کی ترغیب

علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’یستحب الترضی للصحابۃ غیر ابی سفیان و معاویۃ و عمرو بن العاص و مغیرۃ بن شعبۃ و سمرۃ بن جندب۔“

( کنز الحقائق صفحہ ۲۳۴)

” صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہم کہنا مستحب ہے مگرابو سفیان، معاویہ، عمرو ابن العاص، مغیرہ بن شعبہ اور سمرہ بن جندب کے لیے مستحب نہیں۔“

رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ان دونوں کتابوں[نزل الابرار، کنز الحقائق (ناقل)]میں صرف پانچ صحابہ کی بابت کہا گیا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہم مستحب نہیں ہے۔ ‘‘

(سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۶۳۲)

            ان دو کتابوں:نزل الابرار، کنز الحقائق کے متعلق غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا ہے:

            ’’ یہ کتابیں بھی فقہ اہلِ حدیث کے موضوع پر ہیں اور عوام میں بہت مقبول ہیں۔‘‘

(اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات صفحہ ۶۲)

 صحابہ کرام کی طرف متعہ کے جواز کی نسبت

علامہ وحید الزمان صاحب نکاحِ متعہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی حرمت بر سر منبر بیان کی جب سے لوگوں نے متعہ کرنا چھوڑدیا مگر بعض صحابہ ؓ اس کے جواز کے قائل رہے جیسے جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن مسعود اور ابو سعید اور معاویہ اور اسماء بنت ابی بکر اور عبد اللہ بن عباس اور عمرو بن حویرث اور سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہم۔ ‘‘

 (مؤطا مالک مترجم صفحہ ۳۷۴)

حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’حضرت ابن ِ عباس سے بھی متعہ کا جواز مروی ہے اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان پر اس مسئلہ میں سخت تنقید کی ہے۔‘‘

(نور العینین صفحہ ۳۹)

محمد رئیس ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’بعض صحابہ نکاح متعہ کے قائل تھے۔ ‘‘(سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۶۶۱)

صحابہ کے سچے ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد کہتے ہیں:

            ’’ ابو بکر صدیق ہوں، حضرت عمر ہوں، حضرت عثمان ہوں، حضرت علی رضی اللہ عنہم ہوں، کوئی ہو اللہ نے کسی کی کوئی گارنٹی نہیں دی کہ جب بولتا ہے تو سچ بولتا ہے۔ ‘‘

( خطبات بہاول پوری :۵؍۹۳)

            حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے :اولٰئک ھم الصّٰدقون ،یہ لوگ یقینا سچے ہیں۔صحابہ کرام کو اگرسچا نہ مانیں تو ان کا روایت کردہ سارا دین مشکوک ہو جائے گا۔

صحابہ کرام کے ذہنوں کی بابت نظریہ

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری صاحب کہتے ہیں:

            ’’جنگ اُحد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔مسلمانوں کے دل ہل گئے۔ ہائے ! ہائے! ایسا نقصان ...چلوکوئی بوڑھا ہوتا تو بات کچھ اور تھی ۔اب کسی کام کا نہیں۔ ابھی جوانی ہے۔ اور پھر جرأت اور جسارت ہائے! ہائے ! وہ شہید ہوگیا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ شہید ہو گئے ۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات کہ اللہ کو پتہ لگ جاتا تو اللہ کبھی جان نہ نکالتا۔‘‘

( خطبات بہاول پوری :۴؍۱۱۶ ، مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد)

بہاول پوری صاحب نے صحابہ کرام کے ذہنوں کی طرف اللہ کی ذات کے متعلق کیسی بات منسوب کر دی !!!

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے نہیں تھے

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد کہتے ہیں:

            ’’ابوجہل خدا کو پیارا نہیں تھا۔ ابولہب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا وہ خدا کو پیارا نہیں تھا۔ بلال کالا، حبشی موٹے موٹے نقوش والا وہ خدا کو پیارا نہیں لگتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب خدا کو پیار ا نہیں تھا۔ ‘‘

(خطبات بہاول پوری :۵؍۵۰۴، مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )

صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف گالیاں دینے کی نسبت !!

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری صاحب کہتے ہیں:

            ’’بخاری شریف ، مسلم شریف اور حدیث کی تمام کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی نے کسی بات پر اپنی ایک لونڈی کو تھپڑ مار دیااور گالیاں والیاں بھی دیں۔ ‘‘

( خطبات بہاول پوری :۵؍۹۱ ، مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )

صحابہ کرام کی طرف مال لوٹنے کی نسبت

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری صاحب کہتے ہیں:

            ’’اَب جنگ اُحد ہوئی، جنگ اُحد میں پہلے مسلمانوں کو فتح ہوئی، لیکن صحابہ ؓ سے کچھ غلطی ہوگئی۔ مال لوٹنے لگ گئے۔‘‘

( خطبات بہاول پوری :۵؍۸۴ ، مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد )

صحابہ کرام کی طرف مشت زنی کی نسبت

نواب نور الحسن غیرمقلد مشت زنی کے جواز پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’احادیث واردہ در منع از نکاح بدست ثابت و صحیح نشدہ بلکہ بعض اہلِ علم نقل این استمناء از صحابہ نزد غیبت از اہلِ خود کردہ اند ودر مثل ایں کار حرجے نیست بلکہ ہمچو استخراج دیگر فضلات موذیہ بدن ست۔‘‘

 (عرف الجادی صفحہ ۲۰۷)

            ترجمہ: ہاتھ کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی ممانعت پر وارد ہونے والی حدیثیں ثابت اور صحیح نہیں بلکہ بعض اہلِ علم نے نقل کیا ہے کہ صحابہ گھروں سے دُور ہونے کے وقت یہ مشت زنی کر لیا کرتے تھے اور اس جیسے کام میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو بدن سے دوسرے تکلیف دہ فضلات نکالنے کی طرح ہے۔

 حرام و معصیت فعل کا مرتکب قرار دینے کی جسارت

 رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اس سے قطع نظر ایک وقت کی طلاق ِ ثلاثہ کو متعدد صحابہ اگرچہ واقع مانتے ہیں مگر وہ بھی ایک وقت میں تینوں طلاقیں دے ڈالنے والے فعل کو نصوص کتاب وسنت کے خلاف اور حرام و معصیت قرار دینے پر متفق ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت جو فعل حرام و معصیت ہو اور جس کے کرنے کی اجازت نہ ہو اسے کسی صحابی یا متعدد صحابہ کا لازم و واقع مان لینا دوسروں کے لیے بلا دلیل شرعی حجت کیوں کر ہو سکتا ہے؟ خصوصًا جب کہ فرمانِ نبوی ہے کہ جو کام ہماری اجازت و حکم کے بغیر کیا گیا وہ مردود ہے۔ ‘‘

 ( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۵۴)

صحابی کا فتوی خلاف نصوص ہونے کی وجہ سے مردود !!!

رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’ظاہر ہے کہ جس صحابی یا تابعی نے ایسی بدعی طلاق کو ایک سے زیادہ غیر رجعی طلاق قرار دیا یا اس میں نیت کو دخیل مانا اس نے اجتہادی غلطی کی بنا پر نصوص کتاب و سنت کے خلاف فتویٰ دیا اس لیے اس صحابی یا تابعی کا یہ فتویٰ خلاف نصوص ہونے کے سبب قابل ِ رد ہے۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ۹۲ )

قرآن و حدیث سے بے نیازی کا الزام

ندوی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ اگر کسی صحابی کی طرف ایک وقت کی طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے فتوی کا انتساب صحیح ہے تو یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا فتویٰ قرآن وحدیث کے کسی نص سے ماخوذ ہے۔‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۱۰۳)

غصہ سے مغلوب ہوکر غلط فتوے دینے کا الزام

ندوی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ ظاہر ہے کہ حضرت علی نے یہ بات محض غصہ میں کہی تھی ... یہی غصہ والی بات ان صحابہ کے فتاویٰ میں بھی کار فرما تھی جنہوں نے ایک وقت میں ایک سے زیادہ دی ہوئی طلاقوں کو واقع بتلایا۔‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۱۰۳)

 ابن عباس کا عمل حدیثوں کے خلاف ہے !!!

رئیس محمد ندوی غیرمقلدی لکھتے ہیں:

            ’’ہم حدیث کے متبع ہیں ابن عباس کے نہیں۔ اور نہ امام احمد کے۔ کتنی حدیثوں کے خلاف امام احمد و ابن عباس کا عمل ہے۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۴۳۷)

صحابہ و تابعین پر قرآن کی مخالفت کا الزام

ندوی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’بہت سے صحابہ و تابعین بہت سی آیات کی خبر رکھنے اور تلاوت کرنے کے باوجود بھی مختلف وجوہ سے سے ان کے خلاف عمل پیرا تھے۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۴۵۹)

 سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشی

رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کے لیے خاندان ِ نبوت کے لوگوں اور دوسرے صحابہ سے بیعت کرنے پر دباؤ ڈالا اور خاندانِ رسالت کے بہت سارے لوگوں بالخصوص حکام علی مرتضیٰ کو قتل کرایا، حتی کہ مدینہ منورہ پر بھی بسر بن ارطاۃ کے ذریعہ حملہ کرا کے بہت سے لوگوں کو تہہ تیغ کرایا، جن میں بہت سے صحابہ و خاندان ِ نبوت کے لوگ تھے۔ حضرت علی کے ربیب محمد بن ابی بکر کو عجیب ڈھنگ سے قتل کرایا، حضرت حسن بن علی مرتضیٰ نے جب زمامِ خلافت سے دستبردار ہو کر خلافت امیر معاویہ کے سپرد کردی تو حضرت حسن کو کس طرح بذریعہ زہر قتل کرایا گیا؟ کیا یہ سب خاندانِ رسالت کے ساتھ خوب اچھا سلوک ہے؟‘‘

(سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۶۸۵)

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ پر ایک الزام

 حکیم فیض عالم صدیقی غیرمقلد نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا الزام لگاتے ہوئے لکھا:

 ’’ کیا حذیفہ کے ان الفاظ سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس سازش سے باخبر تھے اور اگر یہ سازش صرف یہود یا مجوس کی تیار کردہ تھی تو حذیفہ کو تمام واقعات بیان کرنے سے کون سا امر مانع تھا، اس حذیفہ کا بیٹا محمد اور محمد بن ابو بکر دونوں مصر میں اِبن سبا کے معتمد خاص تھے۔ ‘‘

(شہادت ذو النورین صفحہ ۷۱)

سیدنا ابو ذررضی اللہ عنہ کمیونسٹ نظریہ سے متاثر؟

            حکیم فیض عالم صدیقی غیرمقلدنے علامہ اقبال کے ایک شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ اس شعر میں دوسرے نمبر پر حضرت ابو ذر غفاری ؓ کا نام ہے جو اِبن سبا کے کیمونسٹ نظریہ سے متاثر ہو کر ہر کھاتے پیتے مسلمان کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگ اُٹھتے تھے۔ ‘‘

( خلافت ِ راشدہ صفحہ ۱۴۳)

اجماعِ صحابہ کی مخالفت کو اسلام کی روح قرار دینے کی جسارت

پروفیسر قاضی مقبول احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اجماع صحابہ بعض معاملات میں حجت نہیں ہے ایسا اجماع وقتی قانون کی وجہ سے تھا مثلاً... حضرت عمر ؓ نے ام ولد لونڈی کی بیع کی ممانعت کر دی۔ تین طلاقوں کو نافذ کر دیا۔ شراب نوشی کی سزا چالیس سے بڑھاکر اسی کوڑے کر دی۔ یہ اور اس کے قسم کے قانونی اجتہادات پر ایک عہد میں صحابہ کا اجماع ہوا جو صرف وقتی قانونی اجماع تھا۔ اس اجماع کے خلاف قانون سازی ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ اجماع ایک وقتی مصلحت اور ضرورت کے تحت تھا۔ ہر خلیفہ اور ہر حکومت اپنی ضرورت مصلحت کے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے، یہی اسلام کی روح ہے۔ تعزیراتی سزاؤں میں صحابہ کا اجماع حجت نہیں ہے۔‘‘

( اسلام اور اجتہاد صفحہ ۴۸، مکتبہ قدوسیہ لاہور )

            پروفیسر صاحب نے اس عبارت میں اجماع صحابہ کرام کی مخالفت کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے ’’ اسلام کی روح ‘‘ تک کہہ دیا ۔افسوس !!

صحابہ کرام معیار حق نہیں

مولانا فاروق الرحمن یزدانی غیر مقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اب یہ کام آخری پیغمبر و رسول کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے کہ وہی مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز و محور ہے اور اسی کاقول و فعل معیار حق ہے ،اس کے سوا کسی شخصیت کا خواہ وہ کسی درجہ کے علم و عمل سے متصف ہو، حتی کہ وہ اگر عشرہ مبشرہ سے ہو یا خلفائے راشدین سے، بلکہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کیوں نہ ہو، وہ معیار ِحق نہیں ہے۔ ‘‘

( احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف صفحہ ۴۴۱)

تنبیہ: یزدانی صاحب کی اس کتاب کا جواب حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن دام ظلہ نے ’’ انکشاف حقیقت ‘‘ نام سے لکھ دیاہے اور وہ شائع بھی ہو چکا۔

صحابی کے عمل کو حرام اور گناہ کہنے کی جسارت

ابن بشیر الحسینوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ داڑھی رکھنا،بڑھانا سنت نہیں بلکہ فرض ہے، واجب ہے اور داڑھی کٹانا فرض اور واجب کی خلاف ورزی ہے، نافرمانی ہے، حرام ہے اور گناہ ہے۔ ‘‘(مقالات نور پوری ص ۲۷۸) مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنا بالکل غلط ہے: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی جاتی ہے وہ ان کا اپنا عمل ہے اور ان کا عمل دین میں دلیل نہیں بنتا۔ صحابی کا اپنا قول اور اپنا عمل دلیل نہیں بنتا۔صحابی رضی اللہ عنہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل اورنبی کی تصویب تقریر بیان کریں تو وہ دلیل ہے صحابی کا اپنا عمل اور قول دلیل نہیں، جب یہ دلیل نہیں تو اس سے گنجائش کیسے ملی؟‘‘

( شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۱۵۸،تقدیم حافظ صلاح الدین یوسف ...تخریج و تحقیق الشیخ زبیر علی زئی )

سیدنا معاویہ پر کتاب و سنت چھوڑ کر رائے پر عمل کرنے کا الزام

مولانا ابو الاشبال شاغف غیرمقلد نے ’’رائے اور اجتہاد‘‘ کی مذمت بیان کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ پھر امیر معاویہ نے اجتہاد و قیاس کا سہارا لیا اور یزید کی بیعت لی اور صریح کتاب و سنت کو اس باب میں چھوڑ دیا، اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پس اے امت مسلمہ کتاب و سنت کے صریح احکام پر عمل کرنے پر اکتفاء کرو۔ اس کے اند ر ڈوب کر ست نکالنے کی فکر میں مت پڑو۔ اجتہاد و قیاس کی ضرورت نہیں، غلط فہمی میں مت پڑو۔ یہ شیطانی وسوسے ہیں اور ان ہی وساوس پر عمل کرنے کے یہ نتائج ہیں کہ امت مسلمہ متفرق فرقوں میں بٹ کر تباہ وبرباد ہو رہی ہے۔ ‘‘

( مقالات ِ شاغف صفحہ ۲۸۲)

صحابہ کی طرف نسبت کہ انہوں نے سیدنا ابوبکر کو ا َذَل قبیلہ کا کہا

 غرباء اہلِ حدیث کے امام عبد الوہاب دہلو ی نے کہا:

            ’’میری بیعت مثل ابو بکر صدیق ؓ کے ہوئی ہے جیسے ابو بکر صدیق کی بیعت پر صحابہ باتیں بناتے تھے کہ یہ اذل قبیلہ کا ہے لائق ِ امام بیعت نہیں بلکہ دوسرا اس کا مستحق ہے ایسے ہی لوگ مجھ کو کہتے ہیں۔‘‘

(مقاصدالامامۃ صفحہ۷ ، مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول)

 مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی غیرمقلد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

            ’’آپ فرماتے ہیں کہ صحابہ نے ابو بکر صدیق ؓ کو اذل قبیلہ کا کہا مولوی صاحب لفظ صحابہ جو جمع کے معنیٰ دیتا ہے آپ نہ فرمائیے۔ آپ کی نسبت صحابہ نے ایسا نہیں کہا بلکہ شاید کسی صحابی نے ایسا کہا ہوگا جو حسد پر مبنی تھا۔ اس لئے جس کے سامنے یہ لفظ بولا گیا تھا اس نے فورا رَد کر دیا۔ پس مولوی صاحب جو بات کہ مردود شدہ ہے اُس کو آپ پیش کرکے کیوں مغالطہ دیتے ہیں ذرا انصاف سے کام لیجئے۔ ‘‘

(مقاصدالامامۃ صفحہ۷ ، مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول)

اگلے صفحہ پر لکھا:

            ’’ آپ اپنی بیعت کے انکار پر ابو بکر صدیق کی نسبت یہ قول صحابہ کی جانب منسوب نہ کیجئے ۔‘‘

(مقاصدالامامۃ صفحہ۸ ، مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول)

صحابی پر الزام کہ انہوں نے حدیث پر باپ دادا کی رائے کو ترجیح دی

 آصف عباس حماد غیرمقلدلکھتے ہیں:

            ’’سیدنا سعید بن مسیب کے دادا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: ’’حزن ‘‘ یعنی غم۔ آپ نے فرمایا تیرا نام سہل (آسانی ) ہے، اس نے کہا کہ نہیں، میرے والد نے میرا نام حزن رکھا ہے۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ رائے کے مطابق نام نہیں بدلا بلکہ مخالفت کی اور اپنے باپ دادا کی بات کو ترجیح دی۔ ‘‘

( دامن ِ حدیث چھوٹنے نہ پائے صفحہ ۵۴، دار العلوم ممبئی )

            یاد رہے کہ آصف صاحب نے اس عبارت کو ’’ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے عذاب کا اندیشہ ‘‘ عنوان کے تحت لکھاہے۔

 صحابہ نے نص کے مقابلہ میں رائے قیاس سے کام لیا

مولانا داود راز غیرمقلد نے غزوہ اُحد میں دَرے پر تعینات صحابہ کرام کے متعلق لکھا:

            ’’ یہ جنگ اُحد کا واقعہ ہے۔ ان تیر اندازوں کی نافرمانی کی پاداش میں سارے مسلمانوں کو نقصان عظیم اُٹھانا پڑا کہ ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ ان تیر اندازوں نے نص کے مقابلہ میں رائے قیاس سے کام لیا تھا، اس لیے قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے رائے قیاس پر چلنا اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غداری کرنا ہے۔‘‘

( شرح بخاری داود راز :۶؍۱۲۸)

 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف سورہ فاتحہ کے انکار کی نسبت

غیرمقلدین کی طرف سے شائع شدہ ’’سنن دارمی مترجم ‘‘ میں لکھا ہے :

            ’’ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک سورۃ الفاتحہ قرآن میں سے نہیں ہے۔ ‘‘

 (سنن دارمی مترجم: ۵۱۹)

صحابی نے سنت سے غفلت برتی

مولانا حافظ محمد گوندلوی غیرمقلد نے اختلافی مسائل پر بحث کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح نماز پڑھی ہو۔ جس طرح کسی نے دیکھا اور آگے جا کر نماز پڑھی، پھر اس کو دیکھنے والوں سے اسی طرح طریقہ چلا آیا، یہاں تک یہ زمانہ آیا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی ہو، مگر دیکھنے والوں میں سے بعض نے سنت سمجھ کر غفلت کی بناء پر چھوڑ دیا ہو، پھر وہاں سے سلسلہ چل کر اس زمانہ تک پہنچ گیا ہو۔ یہ حال دوسرے اُمور اختلافیہ کا ہے۔ ‘‘

 ( دوام ِ حدیث صفحہ۲۸۰)

 سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر تنقید

حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ حضرت حسین ؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ مکہ میں قیام پذیر تھے اور شاید سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے اَب میدان صاف ہے، چنانچہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کاروائیوں میں مصروف تھے۔‘‘

( ماہ محرم اورموجودہ مسلمان صفحہ ۳۶ بحوالہ قادیانی اور غیرمقلدین صفحہ ۳۷)

’’ قادیانی اور غیرمقلدین‘‘ یہ کتاب حضرت مولانا عبد الحق خاں بشیر دام ظلہ ( گجرات ) کی ہے ۔

صحابہ کرام کو ظالم اور فاسق کہنے کی جرأت

علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ہم اہلِ سنت اور جماعت معاویہ ؓ اور عمرو ابن العاص اورحجاج وغیرہم کی تکفیر نہیں کرتے اور نہ ان پر لعنت کرنا بہتر جانتے ہیں، بلکہ ان کو ظالم اور فاسق سمجھتے ہیں اور ان کامعاملہ اللہ کے سپر د کرتے ہیں، اگر وہ چاہے گا تو بخش دے گا، کیوں کہ وہ ارحم الراحمین ہے اور جن لوگوں نے معاویہ اور عمرو بن العاص کو صحابیت کی وجہ سے واجب التعظیم اور واجب المدح سمجھا ہے انہوں نے غلطی کی ہے۔ ‘‘

( وحید اللغات بحوالہ بنات اربعہ صفحہ ۴۴۰)

بندہ نے یہ حوالہ ’’ قادیانی اور غیرمقلدین ‘‘صفحہ ۳۶ سے لیا ہے ۔

صحابہ کی طرف کبیرہ گناہوں کی نسبت

نواب صدیق حسن خان غیرمقلد کہتے ہیں:

            ’’ بعض صحابہ ؓ فاسق تھے ، جیسے حضرت معاویہ کہ انہوں نے ارتکاب کبائر اور بغاوت کی۔‘‘

( البیان المرصوص صفحہ ۱۸۴ بحوالہ قادیانی اور غیرمقلدین صفحہ ۳۵)

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت اور دعائیہ کلمات نہ کہے جائیں

جناب محمد فصیح غیرمقلد کہتے ہیں:

             ’’ حضرت علیؓ کے مقابلے میں جہاں امیر معاویہ ؓ کا تذکرہ ہو وہاں لفظ حضرت یا دعائیہ الفاظ کہنا درست نہیں کیوں کہ انہوں نے آخری خلیفہ راشدکے خلاف بغاوت کی ہے۔لہذا ان کو خطاء کار اور باغی سمجھنا چاہیے۔‘‘

(تاریخ اہلِ حدیث :۱؍۲۵۳، ترتیب :ڈاکٹر بہاء الدین )

اس حوالہ کی نشاندہی مولانا عبد الرحمن حفظہ اللہ ( پشاور ) نے فرمائی ہے،جزاہ اللہ تعالیٰ ۔


  

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...