نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تقلید اور تراویح ’’ الکلام الصریح فی اثبات التقلید وعشرین رکعۃ من التراویح ‘‘ پہ لکھی گئی تقریظ


 

مسئلہ تقلید اور تراویح

مفتی رب نواز ، احمد پور شرقیہ

(ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت) 

[ حضرت مولانااحمد سعید صاحب دام ظلہ ( درہ پیزو، لکی مروت ) کی کتاب ’’ الکلام الصریح فی اثبات التقلید وعشرین رکعۃ من التراویح ‘‘ پہ لکھی گئی تقریظ]

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

            قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کے ذریعہ سے علوم کو محفوظ کرکے دور دراز تک پہنچایا جاتا ہے۔قدیم زمانے سے اہلِ علم نے قلم کو استعمال میں لا کر دعوت دین کا کام کیا ہے۔قرآن کریم کے نزول سے صدیوں پہلے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو خط لکھ کر اسلام لانے کی دعوت دی، اُن کے خط کا مضمون قرآن مجید میں موجود ہے۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے خطوط لکھوا کر مختلف لوگوں کو اسلام لانے کی دعوت دی۔ اسی طرح صحابہ کرام نے قرآن و حدیث کو لکھا، باہمی خط کتابت بھی کی۔

            بعد وا لوں نے بھی قلم کے ذریعے علوم کو محفوظ کرکے اگلی نسل تک پہنچایا۔کتابت کے ذریعہ اشاعت ِ دین کا کام آج بھی جاری ہے اور جب تک اللہ چاہے گا آئندہ بھی یہ کام جاری رہے گا ۔

            قلم کے ذریعے سے اشاعت ِ دین کا کام کرنے والوں میں ایک صاحب جامعہ حلیمیہ درہ پیزو کے مدرس ’’ حضرت مولانا احمد سعید دام ظلہ ‘‘ ہیں۔ انہوں نے بہت عرصہ پہلے ’’ الکلام الصریح فی اثبات التقلید وعشرین رکعۃ من التراویح ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ تحریر فرمایا جو چونسٹھ صفحات پر مشتمل ہے ۔

’’الکلام الصریح ‘‘پر ایک نظر

            بندہ کو اس رسالہ کا پہلا ایڈیشن پڑھنے کا اتفاق ہوا ، اس کی جن خوبیوں پر مطلع ہوا وہ درج ذیل ہیں۔

 (۱)یہ اک مختصر رسالہ ہے جو لوگ ضخیم کتابوں کو پڑھنے کا وقت نہیں پاتے یا ہمت نہیں رکھتے ان کے لیے اس کا مطالعہ مفید رہے ان شاء اللہ ۔

(۲)اس رسالہ میں ’’مسئلہ تقلید ‘‘... اور ...’’ مسئلہ تراویح ‘‘کا بیان ہے۔ نفس مسئلہ کے ساتھ دلائل بھی درج کئے ہیں۔

(۳)ان دو مسئلوں پر تحقیقی دلائل کے ساتھ اپنی تائید میں فریق ِ مخالف کے حوالے بھی پیش کر دئیے ہیں۔

(۴)مسئلہ تقلید کو مدلل کرنے کے ساتھ اس پر وارد شدہ اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے ۔

(۵) اسی طرح بیس رکعات تراویح پردلائل دیتے ہوئے مخالف کے شبہات کا ازالہ بھی کیا ہے ۔

(۶)رسالہ کے شروع میں حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ کا جاندار اور پُر مغز مقدمہ شامل کیا ہے جس سے رسالہ کی اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔

(۷)موقع محل کی مناسبت سے کہیں کہیں اشعار درج ہیں جس کی وجہ سے تحریر کی چاشنی بڑھ گئی ہے ۔

(۸)رسالہ کا مرکزی مضمون تو مسئلہ تقلید و تراویح ہیں مگر ضمناً غیرمقلدیت کے تعارف پر مشتمل اور کئی مفید باتیں آگئی ہیں جو قاری کی معلومات میں اضافہ کے باعث بنیں گی ان شاء اللہ ۔

مسئلہ تقلید

ِ          تقلید کی عام فہم تعریف یہ ہے : قرآن وسنت پر ائمہ کرام کی تشریحات کے مطابق عمل کرنا تقلید ہے۔

غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری نے تقلید کی پانچ تعریفیں نقل کرنے کے بعد آخر میں لکھا :

            ’’ ان سب تعریفات کا مفہوم مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے یوں ادا کیا ہے : تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حُسنِ ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلاوے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا ‘‘

 ( فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۲۶۰ )

             اہلِ حدیث کہلانے والے لوگ عمومًا تقلید کا انکار کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ تقلید سے اپنا پلہ چھڑا نہیں سکے۔اس کی تفصیل تو میری کتابوں:’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘...اور ... ’’غیرمقلد ہو کر تقلید ہوکر کیوں ؟‘‘ میں دیکھیں تاہم دو چار حوالے یہاں بھی درج کر دیتا ہوں۔

            مولانا حماد الحق نعیم صاحب غیرمقلد نے الاعتصام کا اداریہ لکھا اور اس کاعنوان ’’قابلِ تقلید ‘‘ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت اہلِ حدیث کے طرز عمل کولائق اتباع کہاہے۔

 ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۱۶ صفر ۱۴۴۰ھ صفحہ ۳)

نواب صدیق حسن خان غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ عوام میں ایمان تو عصر نبوت ہی سے تقلیدی چلا آ رہا ہے ۔ ‘‘ ( ابقاء المنن صفحہ ۶۳)

نواب صاحب ہی لکھتے ہیں:

            ’’عامی اور مقلد جاہل جو قرآن و حدیث کے دلائل نہ جاننے کی بنا پر کتاب و سنت پر براہِ راست عمل نہیں کر سکتا اور کتب فقہ سے بھی منتفع نہیں ہو سکتا، اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ مسائل میں قول غیر کو قبول کرے۔ یاد رہے محقق علماء نے اگرچہ ایسے انسان کے لیے اس کی جہالت کی وجہ سے تقلید کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ کسی خاص مذہب کی اس انداز میں تقلید نہ شروع کردے کہ دوسرے مذاہب سے وابستہ علماء کی بات کو غلط سمجھے۔

( ابقاء المنن  صفحہ ۶۳،۶۴)

            نواب صاحب نے اگرچہ خاص مذہب کی مشروط تقلید کہ دوسرے مذاہب والوں کو غلط سمجھنے لگے کو تسلیم نہیں کیا تاہم مطلق تقلید کو جائز قرار دیا ہے۔

            کسی صاحب نے کہا کہ اہلِ حدیث تقلید شخصی کو شرک کہتے ہیں ۔ اہلِ حدیث ہونے کے دعوے دار مولانا واصل واسطی صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

            ’’اہل حدیث لوگ ہر تقلید کو شرک نہیں کہتے، بلکہ اس کی بعض صورتوں کو شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم ذیل میں اپنے اکابر کی چند عبارات پیش کرتے ہیں اور احباب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ غور و تامل سے اس پر نظر فرمائیں گے۔ ‘‘

(عقیدۂ سلف پر اعتراضات کاعلمی جائزہ: ۲۷)

            اس کے بعد انہوں نے اپنے تین اکابر: نواب صدیق حسن خان (ابقاء المنن : ۶۳)، میاں نذیر حسین دہلوی( معیار الحق: ۸۰) اور مولانا محمد گوندلوی صاحب ( الاصلاح ۱؍۱۵۹)کی عبارتیں پیش کرکے لکھا :

            ’’اب جب تین بڑے مشائخ اور بزرگوں کی عبارتوں سے ثابت ہوگیا کہ اہلِ حدیث ہر تقلید شخصی کو شرک اور ہر تقلید کو حرام نہیں کہتے تو ہم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ اہلِ حدیث کا دعویٰ ہے کہ ائمہ مجتہدین کی تقلید شخصی شرک ہے ، ان پر افتراء محض ہے جس پر کم از کم استغفار کا ورد ضرور کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ روز قیامت باعث شرمندگی بن جائے ‘‘

 (عقیدۂ سلف پر اعتراضات کا علمی جائزہ: ۲۹)

             اس حوالہ سے ثابت ہوا کہ اہل ِ حدیث ہونے کے دعوے دار اب اپنے آپ کواعلانیہ ’’ تقلیدی ‘‘ کہہ کر تقلید کے انکار کی نسبت کو افتراء قرار دے رہے ہیں۔

یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ اہلِ حدیث کہلانے والوں میں تقلید کی وجہ سے فرقے بھی بن گئے ہیں ۔

چنانچہ حکیم خالد سیف اللہ محمدی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’اہلِ حدیث پہلے بھی کئی فرقوں میں تقسیم ہیں۔ امامیہ ، غیرامامیہ۔جھنڈوی، غیر جھنڈوی۔ مرکزی، غیرمرکزی۔ جہادی، غیر جہادی۔ روپڑی، غزنوی، ثنائی۔ اب دعائی اور غیر دعائی بھی قائم ہو گئے ہیں ‘‘

 ( فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کی اہمیت صفحہ۵)

 حکیم صاحب آگے لکھتے ہیں:

            ’’اب اہلِ حدیث بھی اپنے قریبی اور مانوس علماء کی بات کو فوقیت دے کر در اصل تقلید کے پھندے میں پھنس کر کئی فرقوں میں تقسیم ہو کر باہمی لڑائی جھگڑا اور دوسرے اہلِ حدیث کو بدعتی کہنے کا مفتی اور مبلغ بن بیٹھا ہے ‘‘

( فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کی اہمیت صفحہ۵)

             بندہ کا مستقبل میں ایک ایسی کتاب مزید لکھنے کا ارادہ ہے جس میں تقلید کی حمایت میں غیرمقلدین کی عبارات کو یک جا جمع کیاجائے گا ان شاء اللہ ۔ اس لیے اثبات ِ تقلید میں مزیدعبارات پیش کرنے کی بجائے اب مسئلہ تراویح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

مسئلہ تراویح

            بیس تراویح کے اثبات میں رسالہ میں دلائل موجود ہیں۔ غیرمقلدین کی کتابوں میں بھی بیس تراویح کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنے متعدد مضامین میں ان حوالوں کو جمع کر دیا ہے یہاں بھی کچھ درج کر دیتے ہیں۔

غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ کوئی یہ وہم نہ کرے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے[ تراویح کی جماعت مقرر کرکے (ناقل )]دین میں ایک بات شریک کردی جس کا اختیار ان کو نہ تھا ، اسی طرح بیس رکعت تراویح کا حکم اپنی رائے سے دے دیا۔ حاشا وکلّا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا کرتے بلکہ انہوں نے طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ایک ہی امام کے پیچھے سب نے تراویح پڑھی۔ ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ایک ہی وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کبھی نہ نہیں ہوئیں۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیس رکعتیں تراویح کی بھی پڑھتے دیکھاہوگا۔گو ہم تک یہ روایت بہ سند صحیح نہیں پہنچی۔ اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان منکر الحدیث ہے۔مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ اس سے بہت پہلے تھا۔ ان کو بہ سند صحیح یہ پہنچ گئی ہوگی یا انہوں نے خود دیکھا ہوگا۔ ‘‘

(لغات الحدیث۴؍۴۵مادہ وزع )

غیرمقلدین کے ’’شیخ الاسلام ‘‘ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی صاحب نے لکھا :

’’ جماعت اہلِ حدیث بیس پڑھنے والوں پر معترض نہیں ‘‘

( آثارِ حنیف بھوجیانی :۴؍۴۵۸،۴۵۹)

            بیس پڑھنے والوں پر جماعت معترض نہیں اب اگر افراد اعتراض کرتے ہیں تو جماعت کی بات کو ان پر فوقیت ہونی چاہیے۔

مولانا عبد اللہ دانش غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تعداد مقرر نہیں کی ہے کہ تراویح آٹھ (8) سے زائد نہ پڑھی جائے بلکہ وسعت ہے جتنا کسی کو توفیق ملے پڑھے ....اگر کوئی کہے کہ امام کعبہ اور مسجد نبوی کے امام بیس (20) پڑھاتے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لئے حجت نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ وہ امام جنہیں افضل المساجد کی امامت کا منصب قدرت کی طرف سے نصیب ہوا ہے ، اگر وہ دلیل نہیں ہیں تو کیا رنجیت سنگھ کو دلیل بنائیں گے ؟‘‘

(مقالات ِ دانش ۲؍۱۲۱)

            غیرمقلدلوگ سعودی علماء کو اہلِ حدیث قرار دیتے ہیں اس لیے ایک حوالہ سعودی عالم کا بھی ملاحظہ فرمالیں۔

سعودیہ کے عالم الشیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل شیخ لکھتے ہیں:

            ’’ ذھب اکثر اھل العلم کالامام احمد والشافعی وابی حنیفۃ الی ان صلٰوۃ التراویح عشرون رکعۃ لان عمر رضی اللّٰہ عنہ لما جمع الناس علی ابی بن کعب کان یصلی بھم عشرین رکعۃ وکان بمحضرۃ من الصحابۃ فیکون کالاجماع وعلی ھذا الناس الیوم الآن‘‘

( فتاویٰ شیخ محمد بن ابراہیم ۲؍۲۴۴)

            ترجمہ : اکثر اہل علم مثلا امام احمد ، شافعی اور ابوحنیفہ اس طرف گئے ہیں کہ نماز تروایح کی بیس رکعتیں ہیں اس لیے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کیا تو وہ انہیں بیس رکعتیں پڑھا یا کرتے تھے، چونکہ یہ عمل صحابہ کی موجودگی میں ہوا اس لیے اجماع کی طرح ہے اور تب سے آج تک لوگوں کا یہی عمل ہے۔

            باقی رہیں وہ روایتیں جن سے مخالف آٹھ رکعات کا سہارا لیتا ہے اُن میں ایک حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے جو تہجد کے بارے میں ہے۔حکیم صادق سیالکوٹی صاحب غیرمقلد اِس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کا غالب معمول یہ تھا کہ آپ آٹھ رکعت تہجد چار چار رکعات کی نیت سے دو سلام میں پڑھتے تھے اور پھر تین وتر ‘‘

( صلوٰۃ الرسول صفحہ ۳۷۰)

            دو روایتیں عیسی بن جاریہ کی سند سے مروی ہیں ۔مولانا عبد الرؤف صاحب غیرمقلد نے اِن دونوں روایتوں کو ضعیف قرار دیتے ہوئے ہر ایک روایت کے تحت ڈنکے کی چوٹ لکھ دیا:

 ’’ اس کی سند عیسیٰ بن جاریہ کی وجہ سے ضعیف ہے ‘‘

( القول المقبول صفحہ ۶۰۷،۶۱۰)

            مزید تفصیل اس موضوع پر لکھے گئے بندہ کے اک مضمون میں دیکھی جا سکتی ہے جو دوماہی مجلہ المصطفی بہاول پور شعبان رمضان ۱۴۳۵ھ میں شائع ہواہے۔

کچھ مؤلف رسالہ کے بارے میں

            مؤلف رسالہ حضرت مولانا احمد سعید صاحب دام ظلہ اپنے علاقہ کے با اعتماد عالم ہیں۔اہلِ علاقہ طویل عرصہ سے ان کی تدریسی و تقریری خدمات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ الکلام الصریح رسالہ بھی اگرچہ اہلِ علاقہ کے لیے لکھا گیا مگر بیرون شہروں کے لوگوں نے بھی اس سے استفادہ کیا جن میں بندہ راقم الحروف بھی شامل ہے۔

            حضرت مولانا صاحب امت کا درد رکھنے والے فکر مند عالم ہیں اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ جب صبغۃ اللہ نامی کسی غیرمقلد نے فوٹو اسٹیٹ خط کے ذریعہ سے سادہ لوح عوام کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت نے اس کے وساوس کا ازالہ ضروری سمجھا۔ اگرچہ انہوں نے اس سے پہلے کوئی رسالہ نہیں لکھا مگر امت کی خیر خواہی کے جذبہ نے انہیں اس میدان میں لا کھڑا کیا ۔ کتابوں کی کمی کے باوجود اپنے طور پر رسالہ کو مدلل بنانے کی کوشش فرمائی اور اس میں کافی حد تک کامیاب رہے الحمد للہ۔

مؤلف رسالہ ماشاء اللہ وسیلہ کے قائل ہیں،چنانچہ وہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ جل مجدہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ان کو دارین کی سعادت سے سرفراز فرمائیں اور میرے لیے اس رسالہ کو ذریعہ نجات بنائے ۔ آمین فامین ثم آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔‘‘

            آج کل ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دوسروں کی کتابوں سے حوالے نقل کرتے ہیں اور دسیوں حوالے جات نقل کر جاتے ہیں مگر کسی ایک جگہ بھی منقول عنہ کا حوالہ نہیں دیتے۔مگر زیرتبصرہ رسالہ کے مؤلف ایسے نہیں، ماشاء اللہ انہوں نے دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے لکھ دیا کہ میں نے زیادہ تر حوالے حضرت مولاناسرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتابوں سے نقل کئے ہیں اور کچھ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کی کتب سے۔

 مؤلف نے رسالہ میں وسعت ظرفی سے کام لیتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ:

            ’’مجھے اپنی کم علمی کا اقرار ہے بلکہ من آنم کہ من دانم ۔ اس کے ساتھ اُردو میری مادری زبان بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس رسالہ میں کافی اغلاط ہوں گی۔‘‘

             اس عبارت سے مقصود یہ ہے کہ اگر رسالہ میں غلطیاں ہوں تو ان کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ اسی طرح مجھے تقریظ لکھنے کا حکم فرمایا تو یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:

’’ رسالہ میں اگر کوئی غلطیاں رہ گئی ہوں تو ان کی نشاندہی فرما دیں۔ ‘‘

اس لئے اُن کی فرمائش کے مطابق انہیں بعض جگہ عبارات کی تعبیر بدلنے کا اور کہیں بعض جملوں کو حذف کردینے کا مشورہ دیا ہے۔ اُمید ہے کہ میرے مشورہ کو قبول کیا جائے گا ان شاء اللہ۔

            مؤلف نے یہ رسالہ ابتدائے جوانی میں لکھاجیسا کہ پیشِ لفظ میں خود انہوں نے اس کا اظہار فرمایا ہے۔ مگر ماشاء اللہ اسے اس قدر مدلل اور سلجھے ہوئے انداز میں تحریر کیا کہ اگر وہ خود اس کا اظہار نہ کرتے تو رسالہ  پڑھنے سے کسی کو اندازہ نہ ہوسکتا کہ یہ کسی نوجوان کی کاوش ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اس کاوش کو قبول فرما کر ان کے لیے ذریعہ نجات اور لوگوں کے لئے سبب ہدایت بنائے آمین ۔

رب نواز عفااللہ عنہ                                              

مدیر اعلیٰ مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ                      

مدرس دار العلوم الفتحیہ احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور

۴؍رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...