غیرمقلدین
کاحضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کو خراجِ تحسین
مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ
(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
تھانوی لوگ علمی کاموں میں مصروف
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’دیوبند میں کچھ تھانوی ہیں اور کچھ مدنی ...
تھانوی علمی اور اصلاحی کام میں ہیں جب کہ مدنی ملکی سیاست سے متعلق رہتے ہیں ۔ ‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ ۳۷۸)
تصوف کے میدان میں
مجدد
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’تصوف کی تاریخ میں دو شخصیات ایسی ہو گزری ہیں
کہ جنہیں تصوف کے میدان میں مجدد کا مقام حاصل ہے ۔ ان میں سے ایک شیخ احمد سرہندی
رحمہ اللہ متوفی ۱۰۳۴ھ ہیں اور دوسرے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ متوفی
۱۹۴۳ھ ہیں۔ شیخ ابن عربی متوفی ۶۳۸ھ کی شطحیات (Ecstatic utterance)سے تصوف کے
ادارے میں وحدت الوجود کاجو نظریہ عام ہوگیا تھا،اس کی اصلاح کاکام شیخ احمد
سرہندی رحمہ اللہ سے لیا گیا جب کہ عملی تصوف میں جن غیر اسلامی اعمال کی آمیزش ہو
گئی تو ان کی بہت حد تک اصلاح مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمائی ۔ ‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ ۴۳۹)
کاش دوچار تھانوی اور پیدا ہوجاتے
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ’’ تجدید تصوف اور مولانا
اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’تصوف کے ہزار سالہ لٹریچر کے مطالعہ کے بعد جب
کوئی شخص مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی ان تحریروں کا مطالعہ کرتا ہے جو
تصوف کی اصلاح میں لکھی گئی ہیں تو فکر صالح اور علم راسخ ہو تو بلاشبہ اس نتیجے
تک پہنچ سکتا ہے کہ اگر تصوف کے ادارے کو دو چار اورحکیم الامت رحمہ اللہ مل جاتے
تو یہ تصوف خیر القرون کے منہج پر استوار ہو جاتا لیکن افسوس کہ ان کے خلفاء میں
سے کسی میں وہ شجاعت نہیں ہے کہ وہ ان کی اصلاحِ تصوف کی تحریک کو دو چار قدم ہی
آگے لے جائے۔ ‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ ۴۴۲)
شیخ ابن عربی پر
فوقیت
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’تصوف کے ادارے کی تاریخ میں حکیم الامت مولانا
اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ بہت بڑی شخصیت ہیں اور شیخ ابن عربی وغیرہ تو ان کے آگے
کچھ بھی نہیں بلکہ وہ تو شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ سے بھی بڑے آدمی ہیں۔ مثلا
ً جو عاجزی حکیم الامت رحمہ اللہ کی تحریروں میں نظر آتی ہے وہ شیخ ابن عربی اور
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی تحریروں میں نہیں ملتی۔ اور یہ وہی عاجزی ہے جو
ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ادعیہ ماثورہ میں نظر آتی ہے ۔ اپنے آپ کو
خاتم اولیاء کہنا اور قطب عالم ہونے کا دعویٰ کرنا نبوی مزاج تھوڑا ہے ؟ ‘‘
( صالح اور مصلح ۴۴۳)
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ سے بڑھ کر
ڈاکٹر حافظ
محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’جہاں تک علوم دینیہ کی بات ہے تو بلاشبہ یہ
بات درست ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ، حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے بہت
بڑی شخصیت ہیں جب کہ تزکیہ اور اخلاق ایک دوسرا میدان ہے۔ اس میدان میں حضرت
تھانوی رحمہ اللہ کی خدمات اور مقام حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی خدمات اور مقام سے
بہت بڑھ کر ہے۔ اگر موازنہ کرنا چاہیں تو شاہ صاحب رحمہ اللہ کی ’’ فیوض الحرمین
‘‘ اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ’’ شریعت و طریقت ‘‘ پڑھ کر دیکھ لیں۔ پس فقہی
مسائل میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی رائے زیادہ صائب معلوم ہوتی ہے
اور اصلاح نفس کے ذرائع میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی رائے زیادہ
درست معلوم ہوتی ہے۔بعض دوستوں نے اس تحریر پر تبصرہ کیا کہ آپ نے یہ کیا ظلم کیا
کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ پر ترجیح دے دی۔ ‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ ۴۴۳)
ملفوظات
ڈاکٹر حافظ
محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’مراقبہ کا مقام نماز ہے اور نماز میں بھی خاص
طور پر تہجد کی نماز جب کہ مکمل خاموشی ہوتی ہے کیوں کہ فرض نمازوں میں کامل توجہ
کی کیفیت حاصل ہونا مشکل ہے۔ فرض نمازوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بچے
کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دیتے تھے۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے
لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرائض میں استغراق مطلوب نہیں ہے ۔ شریعت و
طریقت صفحہ ۳۱۴۔ ‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ۴۸۸،۴۸۹)
مراقبہ نماز کا تذکرہ
ڈاکٹر حافظ
محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے مراقبہ
نماز کا اہتمام سے ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے مراقبہ کے ساتھ مشارطہ اور محاسبہ دو اور
اصطلاحات بھی نقل کی ہیں۔ ان سے پہلے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی یہ اصطلاحات
بیان کی ہیں۔ ‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ ۴۹۰)
مولانا دریا آبادی سے خط کتابت
ڈاکٹر حافظ
محمد زبیر لکھتے ہیں:
’’حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی جو کتابت مولانا
دریا بادی رحمہ اللہ سے ہوئی ہے تو اس میں مولانا دریا بادی رحمہ اللہ نے حضرت
تھانوی رحمہ اللہ سے اصرار کیا کہ آپ صاحب کشف ہیں اور مجھے بتلا دیں کہ آپ صاحب
کشف ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے جواب میں لکھا کہ لوگوں نے عام کر دیا، میں آپ
کو سچ بتلا رہا ہوں کہ میں صاحب ِ کشف نہیں ہوں، میں اس پرقسم کھانے کو بھی تیار
ہوں،لیکن آپ یقین نہیں کریں گے کیوں اس وقت آپ میرے بارے میں یہی سمجھنے کے موڈ
میں ہیں۔‘‘
( صالح اور مصلح صفحہ ۵۵۲)
صراط مستقیم
والے
مولانا عبد
الغفور اثری جہلمی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ وہ [بریلوی لوگ ( ناقل )] کہتے ہیں کہ ...
مولانا نانوتویؒ ، فاضل گنگوہی ، علامہ عثمانی ؒ ...مولانا تھانوی ؒ...اکابر جیسی
یگانہ روز گار ہستیوں کے ساتھ میل جول جائز نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پھر بتایا
جائے کہ اور کون لوگ ہیں جن کے نقشِ قدم پرچل کر صراط مستقیم تلاش کی جا سکتی ہے
‘‘
(پاکستان میں امامین حرمین کی
آمد صفحہ ۲۳ بحوالہ فقہی مذہب مؤلفہ مولانا عبد الحق خاں بشیر )
علمی خدمات
اور مقام و مرتبہ
مولانا محمد
اسماعیل سلفی صاحب لکھتے ہیں:
’’ حضرت مولانا اشرف علی رحمہ اللہ کا احترام ،
ان کی علمی خدمات، ان کا تصوف میں اپنا مقام ہے‘‘
( مقالات و فتاویٰ صفحہ ۲۴۶)
مولانا
سلیمان ندوی حضرت ؒکی بعیت میں
صلاح الدین مقبول احمد ( کویت ) لکھتے ہیں:
’’ مولانا سید سلیمان ندوی مولانا اشرف علی
تھانوی رحمہما اللہ سے بیعت ہوکر ان کے حلقہ ٔ ارادت میں داخل ہو گئے تھے۔ ‘‘
( ارمغان مولانا محمد اسحاق
بھٹی صفحہ ۹۴ تالیف حمیداللہ خان عزیز )
التکشف کے مطالعہ کی تاکید
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے مولانا داود غزنوی کے
متعلق لکھا:
’’اپنی نشست سے اُٹھے اور حضرت مولانا
اشرف علی تھانوی کی مشہور کتاب التکشف جو تصوف سے متعلق ہے ، ازراہ کرم میرا نام لکھ کر مجھے
عنایت فرمائی اور اس کے مطالعہ کی تاکید کی۔ ‘‘
( نقوش عظمت رفتہ صفحہ ۲۳)
فقہ کے ذخیرہ میں امدادا الفتاوی
بھٹی صاحب
لکھتے ہیں:
’’مولانا داود غزنوی کے کتب خانے میں فقیہات کا بہت بڑا
ذخیرہ موجود تھا۔ ایک دن مجھ سے کہا کہ ذخیرے میں بعض کتب فتاویٰ کی کمی ہے۔ آئیے
ادارہ اسلامیات سے ان کتابوں کا پتا کرتے ہیں۔ ہم وہاں گئے تو مولانا مفتی محمد
شفیع صاحب کے فرزند گرامی جناب ذکی صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی۔ وہ نہایت احترام سے
پیش آئے۔ مولانا سے پوچھا : ’’آپ کے پاس امداد الفتاویٰ ہے؟‘‘ کہا: ’’حضرت! مُبَوّب چاہیے یا
غیر مُبَوّب؟‘‘ میم پر پیش ،ب پر زبراور واؤ مشدد ... یہ لفظ میں نے پہلی دفعہ سنا
تھا۔ اس درجے ثقیل اور بھاری بھر کم لفظ سن کر ایک دم دماغ چکرا گیا ۔ پھر فورا
سمجھ گیا کہ اس کا مطلب ’’ تبویب‘‘ ہے۔ مولانا نے جواب دیا : مُبَوّب دیجیے۔‘‘
( نقوش عظمت رفتہ صفحہ۴۵)
ترجمہ قرآن کی خصوصیات
بھٹی صاحب لکھتے ہیں:
’’مولوی فتح محمد جالندھری ، شیخ الہند مولانا
محمود حسن، مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا احمدعلی اور بعض دیگر تراجم قرآن کی خصوصیات
زیر بحث آئیں۔ ‘‘
( نقوش عظمت رفتہ صفحہ۳۴۵)
مفسر قرآن
علامہ عبد الرشید عراقی نے مفسرین کے طبقات بیان
کرتے ہوئے بارہویں طبقہ کے تحت لکھا:
’’ مولانا اشرف علی تھانوی... مولانا شبیر احمد
عثمانی ...مولانا احمد علی لاہوری ...مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی ’‘‘
( علمائے اہلِ حدیث کی تفسیری
خدمات صفحہ ۲۱)
بڑی قیمتی
لعل و گوہر انسان
علامہ عبد الرشید عراقی صاحب لکھتے ہیں :
’’ دار العلوم دیوبند نے ہر دَور میں بڑے قیمتی
لعل و گوہر انسان پیدا کئے۔ جن کی علمی،دینی اور سیاسی خدمات سے ایک دنیا پُر نور
رہی، جہاں گئے اپنے اخلاص اور پُر جوش عمل سے چھا گئے۔ مثلاً شیخ الحدیث مولانا
محمود الحسن اسیر مالٹا، مولانا عبید اللہ سندھی ،مولانا سید امحمد انور شاہ کشمیری
، شیخ الادب مولانا اعزاز علی، مولابا حبیب الرحمن عثمانی، شیخ الاسلام مولانا
شبیر احمد عثمانی ، مولانا حفظ الرحمن سیہار وی، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی،
مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا محمد اشرف علی تھانوی، مولانا محمد منظور
احمدنعمانی ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا خلیل احمد سہارن پوری، شیخ
التفسیر مولانا احمد علی لاہوری، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا عبد الحق اکوڑہ
خٹک ، مولانا مفتی محمود ، مولانا سعید اکبر آبادی ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحہم اللہ اجمعین۔ یہ تمام علمائے کرام دار
العلوم دیوبند کے روشن ستارے تھے۔ ‘‘
( مطبوعات القاسم اکیڈمی
نمبرصفحہ ۲۴۹)
تھانوی کی
عبارت سے علم غیب کشید
خواجہ محمد قاسم نے جآء الحق کے مصنف کے متعلق
لکھا:
’’ مفتی صاحب مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ
علیہ اور مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ نانوتوی کا حوالہ بھی دیا مگر اس میں تو
کوئی علم غیب والی بات نظر نہیں آئی۔‘‘
(معرکہ حق و باطل صفحہ ۱۴۴
مکتبۃ الحرمین گوجرانوالہ )
ہزار کتابوں
کے مصنف ، مفسر و فقیہ
جناب خلیل الرحمن چشتی کہتے ہیں:
’’مولانا اشرف علی تھانوی ؒ مفسر اور فقیہ تھے۔
۸۲ سال عمر تھی کہ ۱۹۴۳ء میں انتقال ہوا۔ مولانا مملوک علی ؒ اور شیخ الہند مولانا
محمود الحسن ؒ کے شاگرد ہیں۔ ان کے شاگردوں میں مفتی محمد حسن ؒ، مولانا خیرمحمد
جالندھری ، قاری طیب ؒ ، مفتی محمد شفیع ؒ ، مولانا رسول خان ؒ اور مولانا ظفر
احمد تھانوی ؒ کے علاوہ بے شمار افراد شامل ہیں۔ تقریبا ایک ہزار (۱۰۰۰) چھوٹی بڑی
کتابیں لکھیں۔ بیان القرآن، بہشتی زیور اور التکشف ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ‘‘
( حدیث کی ضرورت و اہمیت صفحہ ۲۶۰)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں