نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مقلد بنو ورنہ اپنے آپ میں شرائطِ اجتہاد پیدا کیجئے

 

مقلد بنو ورنہ اپنے آپ میں شرائطِ اجتہاد پیدا کیجئے

مولانا ثناء اللہ صفدر صاحب حفظہ اللہ   (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)  

            جس طرح کسی انسان کیلئے انسانیت کے اندر اندر دو انواع میں سے کسی ایک نوع میں ہونا ضروری ہے یعنی یا تو مرد ہوگا یا عورت،یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان تو ہو لیکن نہ عورتوں کی نوع میں سے ہو اور نہ ہی مردوں کے نوع میں سے۔بالکل اسی طرح امت محمدیہ میں شامل افراد کیلئے ضروری ہیں کہ یا تو مقلد ہو یا مجتہد۔(کسی ماہر شریعت امام کی رہنمائی میں دین پر عمل کرنے کو مقلد کہا جاتا ہے اور قرآن وسنت سے مسائل نکالنے والے کو مجتہد کہا جاتا ہے)۔لیکن غیرمقلدین کہتے ہیں کہ ہر آدمی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ازخود ہی قرآن وحدیث سے مسائل نکالیں کسی امام ومجتہد کے رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں۔امام ابوحنیفہ ،امام شافعی،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ یہ سارے ائمہ کرام ہمارے جیسے انسان تھے ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے انہی کی طرح عقل دی ہے لہذا ہم خود ہی قرآن وحدیث سے مسائل نکالیں گے ۔

            دراصل غیرمقلدین دعویٰ اجتہاد اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ لوگ مذہبی پابندیوں سے چھٹکارا پاکر خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائیں۔لیکن یاد رہے اجتہاد بازار میں لینے کی کوئی سستی سبزی نہیں کہ ہر ایک اسکو خرید سکے۔بلکہ اس کیلئے جید اور محققین علماء کرام نے انتہائی سخت اور کڑی شرائط لگارکھی ہیں جس طرح امام کیلئے شرائط کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کا دعویٰ باطل ہوگا اسی طرح مجتہد کیلئے شرائط اجتہاد کا ہونا ضروری ہیں ورنہ دعویٰ اجتہاد باطل ہے۔

شرائطِ اجتہاد

            آنے والے سطور میں جو شرائطِ اجتہاد ہم ذکر کرنے والے ہیں یہ انتہائی اہم شرائط ہیں ہرمقلد کیلئے اس کو یاد کرکے ذہن میں محفوظ رکھنا لازمی ہے تاکہ بروقت کام آسکے۔

            علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی مشہور زمانہ کتاب "تقریر الاستناد فی تفسیر الاجتہاد"میں محققین علماء کرام سے شرائطِ اجتہاد نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قلت وحاصل ذالک اَن العلوم المشترط فی الاجتهاد بضعةَ عشر

یعنی اجتہاد کیلئے دس سے زائد علوم کا جاننا ضروری ہیں۔

شرط نمبر۱ :

پہلی شرط کے متعلق علامہ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

احدها علوم الکتاب وهی کثيرة جدًا وقد جمعت فی اصولها کتاب الاتقان فی علوم القرآن وکلها او اکثر مما يتوقف عليه الاجتهاد

یعنی اجتہاد کا شرط اول کتاب اللہ کے علوم کا جاننا ضروری ہے۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے ایک ضخیم تفصیلی کتاب بنام"الاتقان فی علوم القرآن"لکھی ہے فرماتے ہیں کہ صرف کتاب اللہ کے علوم اسی (80)اقسام پر مشتمل ہیں اور ان علوم میں سے اکثر کا تعلق اجتہاد کے ساتھ ہیں۔

یہاں اکثر کا اطلاق کم ازکم چالیس سے اوپر پر ہوتا ہے یعنی صرف کتاب اللہ کے متعلق چالیس سے زائد علوم کا جاننا مجتہد کیلئے ضروری ہے۔اب فیصلہ آپ ہی کیجئے کیا غیرمقلدین میں  کوئی ایسی شخصیت موجود ہیں جو کتاب اللہ کے اسی (80) اقسام کو جانتا ہوں ؟

 یقین سے کہتا ہوں کہ اسی علوم کا جاننا تو دور کی بات ہیں انکو اسی (80)علوم کے نام تک بھی نہیں آتے۔

 شرط نمبر۲ :

الثانی:علم اصول الحدیث

وهی مأة علم شرحها فی الکتب الّتی اَلّفتُها فی علوم الحديث

یعنی علوم حدیث سو اقسام پر مشتمل ہیں جسکی تفصیل علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب بنام"علوم الحدیث" میں دیکھ سکتے ہیں۔

 شرط نمبر۳  :

الثالث: علم اصول الفقه وهو اهم مما بعده لاجل کيفية الاستدلال وتقديم بعض الادلة علی بعض والجمع بينهما عند معارضتهما

یعنی تیسری شرط علم اصول فقہ سے واقف ہونا پڑے گا۔

شرط نمبر۴:

علم اللغة:یعنی مجتہد کو علم لغت پہ عبور حاصل کرنا ہوگا۔

شرط نمبر۵:علم النحو

شرط نمبر۶:علم الصرف

شرط نمبر۷:علم المعانی

شرط نمبر۸: علم المنطق

علم کيفية استفادة التصورات والتصديقات من مادتها وهو علم المنطق

یعنی مجتہد کیلئے علم منطق کا جاننا ضروری ہے۔

شرط نمبر ۹:علم الجرح والتعديل

مجتہد کیلئے علم الجرح والتعدیل کا جاننا ضروری ہے کہ کہاں پر راوی پر جرح کیا جاتا ہے اور کہاں راوی کی تعدیل کی جاتی ہے۔

شرط نمبر ۱۰:علم الناسخ والمنسوخ

مجتہد کیلئے علم الناسخ والمنسوخ پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے یعنی اس کو یہ معلوم ہو کہ کونسے آیات مبارکہ اور احادیث منسوخ ہیں اور کونسے ناسخ۔

شرط نمبر ۱۱:علم الحساب

 جبکہ غیرمقلدین تو ریاضی یعنی فن حساب میں حد درجے تک کمزور ہیں کیونکہ تین طلاق کو پوری امت تین ہی کہتے ہیں مگر غیرمقلدین کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ تین ایک ہے حالانکہ یہ بات تو چھوٹے بچے بھی جانتے ہیں کہ تین تین ہی ہیں۔

شرط نمبر ۱۲:فقه النفس

یعنی مجتہد کیلئے ضروری ہے کہ وہ فقہ میں بھی ماہر ہو جبکہ غیرمقلدین کا فقہ کے ساتھ انتہائی سخت دشمنی ہے۔

شرط نمبر۱۳:علم الاجماع والخلاف

مجتہد کیلئے علم الاجماع والخلاف کا جاننا بھی ضروری ہے یعنی کس مسئلے میں مجتہدین کا اتفاق ہیں اور کونسے مسئلے میں

  اختلاف ؟اگر مجتہد نہ ہو اور دعویٰ اجتہاد کرکے بیٹھے تو امکان اس بات کی موجود ہے کہ وہ کسی اتفاقی مسئلے پر ریسرچ شروع کرکے انکو اختلافی نہ بنائیں۔

شرط نمبر۱۴: علم التواريخ ليتبين المتقدم والمتاخر

یعنی مجتہد کیلئے علم التاریخ پر بھی عبور حاصل کرنا ہوگا تاکہ مسئلے کی اصل حقیقت ان کو معلوم ہوسکے۔

            اب فیصلہ آپ ہی کیجئے کیا دنیا میں کوئی ایسا غیر مقلد موجود ہے جس میں شرائطِ اجتہاد تمام کے تمام موجود ہو؟ تمام تو دور کی بات ہے بلکہ کوئی غیرمقلد صرف تین علوم میں ماہر فن ہونے کا دعویٰ کریں اور وہاں ہمیں امتحان لینے کا موقعہ بھی دیں اگر بالفرض وہ اس میں پاس ہوا تو منہ مانگا نقد انعام دونگا یقین سے کہتا ہوں صبح قیامت آسکتی ہے مگر ایسا غیر مقلد پیدا نہیں ہوسکتا۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...