اسم بامسمّٰی
یعنی
[محترم و
مکرم مولانا سرفراز حسن حمزہ صاحب حفظہ اللہ کی کاوش سے ان کے دادا جان حضرت
مولانا محمد سرفراز خان صفدر علیہ الرحمۃ کی یاد میں مجلہ ’’ المصطفیٰ بہاول پور
‘‘کی اشاعت خاص کو منظر عام پہ لانے کا لائحہ عمل تیار ہوا تو حمزہ صاحب نے مضمون
لکھنے کا حکم فرمایا۔ بندہ نے ان کی تعمیل میں سولہ صفحات پر مشتمل بہ عنوان ’’
مصنف احسن الکلام رحمہ اللہ ‘‘ ایک مضمون لکھا جو ’’ المصطفیٰ ‘‘ کی اشاعت ِ خاص
کا حصہ بنا ۔ حضرت مولانا جمیل الرحمن عباسی زیدہ مجدہ مدیر مجلہ تسکین الصدور
بہاول پور نے اس مضمون کو ملاحظہ کیا تو بندہ کو حکم فرمایا جس طرح آپ نے اپنے اس
مضمون میں حضرت رحمہ اللہ کی کتاب ’’ احسن الکلام فی ترک القراء ۃخلف الامام ‘‘ کے
علمی مقام کو متعارف کرایا، اسی طرح رَدِ غیرمقلدیت پر لکھی گئی حضرت کی دیگر کتب
کا تعارف کرانے کے لیے ایک اور مضمون تحریر کریں۔ زیرِ نظر مضمون عباسی صاحب کی
اسی فرمائش کی تکمیل کا نتیجہ ہے۔ ع
گر قبول اُفتَد زہے عزو شرف
(رب نواز عفا اللہ عنہ دار العلوم فتحیہ احمد پور
شرقیہ)]
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃالی یوم القیامۃ کا تعلق اہل السنت و الجماعت سے ہے برصغیر
میں جن کے صحیح ترجمان علمائے دیوبند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دیوبندی جماعت کو علم
میں بہت بلندیاں نصیب کی ہیں، ان کے علمی مرتبہ کی گونج پوری دنیا میں پھیلی ہوئی
ہے۔ انہوں نے خداد داد علم و فراست سے دین نبوی کی نشرو اشاعت ، بقا و حفاظت کے
لیے ایسی خدمات سر انجام دی ہیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا ان شاء
اللہ ۔
گزر جائیں گے اہلِ درد ، رہ جائے گی یاد ان کی
وفا کا درس
جب بھی ہوگا ان کے ذکر پر ہوگا
علمائے
دیوبند کی منجملہ خدمات میں سے ایک خدمت ان لوگوں کی اصلاح ہے جو ترک ِ تقلید کی
اندھیری وادیوں میں بھٹک رہے ہیں مگر دعویٰ عمل بالقرآن و الحدیث کا کرتے ہیں اور
قرآن و حدیث ہی کے لبادہ میں سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انہیں
پریشان کرتے ہیں ۔ رات دن انہیں راہ ِ حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے
ہیں ۔ اہلِ السنت دیوبند نے ان لوگوں کا ایسا جاندار تعاقب کیا کہ خود مخالف کو
اُن کا علمی لوہا ماننا پڑا۔ صرف اتنا نہیں بلکہ اپنے پے در پے شکستوں کا برملا
اعتراف بھی انہوں نے کیا ہے مثلاً
غیرمقلدین کے
’’ امام العصر ‘‘ مولانا اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
’’ علماء دیوبند کو ان کی علمی خدمات
نے اتنا ہی اونچا کیا جتنا مناظرات نے ہم کو نیچا دکھایا اور ذہنی طور پر جماعت کو
قلاش کر دیا۔ ‘‘ ( نتائج التقلید
صفحہ :ق)
دیگر علمائے دیوبند کی طرح حضرت مولانا محمد
سرفراز خان صفدر علیہ الرحمۃ نے بھی غیرمقلدیت کا بھر پور تعاقب کیا اور یہ اتنا
کامیاب ثابت ہوا کہ مخالفین دفاع سے عاجز آ گئے بلکہ بعض مقامات پر اپنی شکست کو
اعلانیہ تسلیم کیا اور کچھ ایسے بھی تھے کہ جب ان سے صفدری دلائل کا کوئی جواب نہ
پڑا تو وہ اپنے مذہب کو خیر باد کہہ کر قافلہ حق میں شامل ہو گئے۔ ذیل میں اس کے
شواہد ملاحظہ فرمائیں۔
احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام
میاں نذیر حسین دہلوی متوفی ۱۹۰۲ء کے
زمانہ سے ہندوستان میں غیرمقلدین کا فرقہ وجود میں آیا اس سے پہلے یہ لوگ ہندوستان
میں نہ تھے جیسا کہ غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے اعتراف کیا ہے
۔ (اخبار اہلِ حدیث امرتسر : ۱۶، اگست
۱۹۱۸ء )
اخبار اہلِ
حدیث کے ا س حوالہ کا عکس دیکھنے کے لیے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی دام ظلہ کی
کتاب ’’ تاریخ ختم نبوۃ صفحہ ۴۳۴ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
جونہی
یہ فرقہ وجود میں آیا تو اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو امام کی اقتداء میں سورہ
فاتحہ نہ پڑھے،اس کی نماز باطل ہے اور کتابوں میں بھی یہ فتویٰ صادر کر دیا کہ :
’’ رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے
بامر اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کو فرمایا میرے پیچھے سورہ فاتحہ ضرور پڑھا کرو ورنہ
تمہاری نماز باطل ہو جائے گی۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۴۸۹)
اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے اہل
السنت و الجماعت دیوبند کو پمفلٹ و رسائل میں چیلنج دینا شروع کر دیا اور امام کی
اقتدا میں فاتحہ نہ پڑھنے والوں کو جہنمی بھی لکھ دیا۔ ایسی عبارات ’’ احسن الکلام
‘‘ میں سخن ہائے گفتنی کے تحت دیکھی جا سکتی ہیں۔
جب
ان کی چیلنج بازی اور فتویٰ سازی سے فضا مکدر ہوتی دکھائی دینے لگے تو مولانا صفدر
رحمہ اللہ میدان میں آئے اور اپنے علمی جواہر پاروں کو ’’ احسن الکلام ‘‘ کی شکل
میں امت کے سامنے پیش کر دیا۔یہ کتاب چھ سو صفحات پر مشتمل ہے اس میں قرآن ، حدیث
اور صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ مقتدی کا وظیفہ قراء ۃ کرنا
نہیں، اس کے ذمہ تو خاموش رہ کر امام کی قراء ۃ کو سننا ہے ۔
۲۸ مئی ۲۰۰۹ء کو مدرسہ نصرۃ العلوم
گوجرانوالہ میں مصنف احسن الکلام مولانا صفدر علیہ الرحمۃ کی یاد میں ایک تعزیتی
جلسہ ہوا ۔ اس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دام ظلہ نے خطاب کرتے ہوئے
فرمایا:
’’ میں اس قدر حیران ہوا کہ قراء ۃ
خلف الامام ایک مسئلہ ہے اور اس مسئلہ پر دو جلدوں میں احسن الکلام فی ترک القرا ء
ۃ خلف الامام ! تو حیرانی مجھے اس درجہ ہوئی کہ یہ ایک جزوی مسئلہ ہے، اس کے اوپر
دو جلدوں میں کتاب! اس نے اپنی جانب کھینچا ... ا س کو جب پڑھنا شروع کیا اور
پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ قراء ۃ فاتحہ خلف الامام تو ایک عنوان ہے، علوم کے
دریا بہانے کا عنوان تھا ۔ چھوٹا مسئلہ لیکن اس مسئلہ کی تحقیق اور تنقید میں کتنے
اصولی مسائل، کتنے اصولی اِفادات اس کے اندر موجود تھے۔ ‘‘
واقعی بات ایسے ہی ہے جو بھی اس کتاب
’’ احسن الکلام ‘‘ کو پڑھتا ہے تووہ مصنف کی تحقیق اور حدیث و فنون کی کتابوں کے
حوالوں کی بھرمار کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے۔ بندہ نے کئی برس پہلے اس کا مطالعہ
کیا تو حوالوں کی کثرت دیکھ کر اشتیاق ہوا کہ اس کتاب میں دئیے گئے مآخذ کتب کے
حوالوں کو شمار کروں۔ شمار کرتے کرتے کتاب کے ایک ہی باب کے اختتام صفحہ ۲۳۳ تک
پہنچا تو مآخذ کتب کی تعداد دو سو ہو چکی تھی۔ غفلت کی وجہ سے پوری کتاب کے مآخذ
شمار نہ کر سکا۔ ان دوسو مآخذ میں سے تیس کتابیں غیرمقلدین کی ہیں۔
اختلافی مسائل پر لکھنے والے مصنف کی
ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی تائید میں مخالفین کے اقتباس بھی پیش کرے۔
منجملہ خوبیوں کے یہ خوبی بھی اس کتاب میں نمایاں ہے ۔اس کی تین مثالیں ملاحظہ
فرمائیں۔
(۱) اہل
السنت و الجماعت احناف امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے پر پہلی دلیل قرآن کریم
کی آیت پیش کرتے ہیں اذا قری ٔ القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون، جب قرآن
پڑھا جائے تو اسے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس آیت کا شان ِنزول نماز ہے ۔ مصنف ’’ احسن
الکلام ‘‘ لکھتے ہیں:
’’ لیجئے ہم مبارک پوری صاحب کے ہم
مسلک اور ہم مشرب عالم سے یہ منوا دیتے ہیں ۔مولانا عبد الصمد پشاوری غیرمقلد نقل
کرتے ہیں کہ : والاصح کونھا فی الصلٰوۃ لماروی البیھقی عن الامام احمد قال
اجمعوا علی انھا فی الصلوۃ ، صحیح ترین بات یہ ہے کہ آیت واذا قرئ القرآن کا شان
نماز ہی ہے جیسا کہ امام بیہقی نے امام احمد سے نقل کیا ہے کہ اس آیت کے نماز کے
بارے میں نازل ہونے پر اجماع و اتفا ق ہے ۔‘‘
(اعلام الاعلام فی قرا ء ۃ خلف
الامام صفحہ ۱۹۰ ... احسن الکلام :۱۶۸)
(۲)مسلم شریف
میں حدیث ِ نبوی ہے اذا قرأ فانصتوا ، جب امام قراء ۃ کرے تو خاموش رہو۔
( صحیح مسلم : ۱؍۱۷۴)
غیرمقلدین نے مسلم شریف کی اس حدیث کو ضعیف کہا
تو مصنف احسن الکلام نے اس کے منجملہ جوابات میں سے ایک جواب ان الفاظ میں دیا ہے
:
’’ حافظ ابن حجر اور قاضی شوکانی
لکھتے ہیں کہ وھو حدیث صحیح اخرجہ مسلم من حدیث ِ ابی موسی الاشعری رضی
اللّٰہ تعالیٰ عنہ ۔ ( فتح الباری جلد۲ ص ۱۹۲ و نیل الاوطار :۲؍۱۰۷)
حضرت ابو
موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے اور امام مسلم نے اس کی تخریج کی ہے
۔
( احسن الکلام : ۲۶۲)
قاضی شوکانی
’’غیرمقلد‘‘ ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مسلک فقہ شافعی ہے مگر زبیر علی زئی
غیرمقلد نے انہیں ’’غیرمقلد ‘‘ قرار دیا ہے ۔ ( اوکاڑوی کا تعاقب :۵۴)
یہ حدیث ’’ اذا
قرأ فانصتوا ‘‘ حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ( سنن نسائی :۱؍ ۱۰۷)
مصنف احسن
الکلام اس حدیث کی تصحیح پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ نواب ( صدیق حسن خان) صاحب تحریر
فرماتے ہیں کہ وھذا الحدیث مما ثبت عند اھل السنن و صححہ جماعۃ من الائمۃ۔ ( دلیل
الطالب : ۲۹۴)
یہ حدیث ارباب سنن کے نزدیک ثابت اور
محقق ہو چکی ہے اور ائمہ حدیث کی ایک بڑی جماعت نے اس کی تصحیح کی ہے ۔ ‘‘
( احسن الکلام : ۲۷۲)
(۳)مصنف احسن
الکلام لکھتے ہیں:
’’ نواب صدیق
حسن خان صاحب ( غیرمقلد ) لکھتے ہیں کہ وزید بن ثابت گفتہ لا قراء ۃ مع
الامام شئی رواہ مسلم و عن جابر وھو قول علی وابن مسعود و کثیر من الصحابۃ۔
( ہدایۃ السائل صفحہ ۱۹۳ ، احسن
الکلام صفحہ ۳۷۴)
نواب صاحب نے اس عبارت میں تسلیم کیا
ہے کہ زید بن ثابت ، جابر، علی، ابن مسعود اور صحابہ کرام کی کثیر تعداد کا قول ہے
کہ امام کی اقتدا میں کسی قسم کی کوئی قراء ۃ نہیں ہے ۔
اعتراف ِ
شکست
احسن
الکلام کا شائع ہونا تھا کہ غیرمقلدین کے حلقہ میں کھلبلی سی مچ گئی، اس کا جواب
لکھنے کے لیے غیرمقلدیت ’’ رئیس المحدثین و قدوۃ السالکین ‘‘ مولانا محمد گوندلوی
آگے بڑھے مگر احسن الکلام کے ٹھوس دلائل کی تاب نہ لا تے ہوئے یہ لکھنے پہ مجبور
ہوگئے کہ:
’’ہمارا تو یہ مسلک ہے کہ فاتحہ خلف
الامام کا مسئلہ فروعی اختلافی ہونے کی بناء پر اجتہادی ہے پس جو شخص حتی الامکان
تحقیق کرے اوریہ سمجھے کہ فاتحہ فرض نہیں خواہ نماز جہری ہو یا سری
اپنی تحقیق پر عمل کرے تو اس کی نماز باطل نہیں
ہوتی ۔ ‘‘
( خیر الکلام صفحہ ۳۳ مکتبہ
نعمانیہ گوجرانوالہ )
گوندلوی صاحب کی مذکورہ عبارت لفظ بہ
لفظ ان کے مایہ ناز شاگرد مولانا ارشاد الحق اثری نے نقل کرکے مہر تصدیق ثبت کی
ہے۔( توضیح الکلام صفحہ ۴۵ طبع جدید صفحہ ۷۳)
مناظر اہلِ
سنت حافظ حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ احسن الکلام کے ٹھوس حوالہ جات پڑھ
کر جب اثری صاحب کا دماغ چکرایا تو انہوں نے احسن الکلام کی حمایت میں لکھ دیا کہ
فاتحہ خلف الامام ضروری نہیں بلکہ مقتدی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تومقتدی
کی نماز باطل و کالعدم نہیں ع مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری ۔‘‘
( توضیح الکلام پر ایک نظر صفحہ
۹)
الحمد
للہ یہ احسن الکلام کے وزنی دلائل کا نتیجہ ہے کہ غیرمقلدین کے مرکزی علماء نے
امام کی اقتداء میں فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز کے باطل ہونے کا فتوی واپس لے کر
شکست کو گلے لگا لیا۔ اس کے بعد غیرمقلدین اس قدر بو کھلا گئے کہ حنفیہ کی طرف سے
اس مسئلہ پر ’’ تدقیق الکلام ‘‘ لکھی گئی، اسی طرح ’’خاتمۃ الکلام ‘‘ بھی زیر بحث
مسئلہ پر شائع ہوئی مگر میری معلومات کے مطابق غیرمقلدین نے نہ تو ’’ تدقیق
الکلام‘ ‘کا جواب لکھا اور نہ ہی ’’خاتمۃ الکلام ‘‘کا ۔ غیرمقلدیت کو اس مسئلہ میں
سرنگوں کرنے کا سہرا مصنف احسن الکلام کے سر پر ہے رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
راقم الحروف کا ایک مضمون ’’ مصنف
احسن الکلام رحمہ اللہ ‘‘ المصطفیٰ بہاول پور ، اشاعت ِ خاص بیاد حضرت مولانا محمد
سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ میں شائع ہو چکا ۔مزید تفصیل اس میں دیکھی جا سکتی ہے ۔
الکلام المفید فی اثبات التقلید
پاک
وہند کے غیرمقلدین نے ائمہ ہدیٰ کی تقلید کو نہ صرف ناجائزو بدعت کہا بلکہ اسے کفر
تک قرار دے دیا۔ ان کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
’’ اہلِ حدیث
کی کتابیں رسالے اور فتوے دیکھیں جن میں تقلید کو نہ صرف بدعت بلکہ کفر قرار دیا
ہے۔ ‘‘ ( اہلِ حدیث امرتسر ۲۲؍ محرم ۱۳۳۳ھ صفحہ ۱۰)
اس کا عکس ابن انیس حضرت مولانا حبیب
الرحمن لدھیانوی کی کتاب ’’ تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۶۰‘‘ پہ دیکھا جا سکتا ہے ۔
تقلیدکے خلاف ناروا فتاویٰ دینے والے
غیرمقلدین کے جواب میں حضرت رحمہ اللہ نے یہ کتاب ’’ الکلام المفید ‘‘ تحریر
فرمائی جو بڑی سائز کے ۳۴۱ صفحات پر مشتمل ہے ۔ مخدوم العلماء حضرت مولانا مفتی
محمد تقی عثمانی دامت فیوضہم اس کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’ مولانا کا اسلوب یہ ہے کہ وہ جو
بات کہتے ہیں اس کی پشت پر مستند حوالوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے اور ان کی کتاب
کا ہر صفحہ اُن حوالوں سے سجا ہوا ہوتا ہے یہی اسلوب اس کتاب میں بھی پوری قوت کے
ساتھ جلوۂ گر ہے ۔ ‘‘
( الکلام المفید صفحہ : و)
حضرت شیخ صفدر صاحب نے مسئلہ تقلید کے
مثبت و منفی پہلو پر قرآن و حدیث اور آثار کی روشنی میں بہت خوب صورت بحث کی ہے۔
اس کتاب کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اہلِ سنت کے موقف کا اثبات
اور مخالفین کی تردید خود غیرمقلدین کی کتابوں سے کی گئی ہے جس کی وجہ سے
غیرمقلدیت دفاع سے عاجز رہی۔ الکلام المفید میں غیرمقلدین سے جو اقتباسات نقل کئے
ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
تقلید کا جواز
غیرمقلدین کے
شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں:
’’ دس مسئلہ کی دلیل مثلا جانتا ہے (
تو ) اور مسائل میں مقلد ہے تو یہ عجیب بات نہیں۔ درست اور حق ہے اس لئے کہ تجزی
اجتہاد میں جائز بنا بر قول حق کے جیسا کہ مولانا عبد العلی وغیرہ شرح مسلم میں
فرماتے ہیں۔ ‘‘
(معیار الحق صفحہ ۷۳ ، الکلام
المفید صفحہ ۴۳)
اس عبارت میں تقلید کے جواز کو حق کہا
ہے اس لیے آج اگر کوئی تقلید کا انکار کرے گا تو وہ بقول میاں صاحب حق سے اعراض
کرنے والا ہوگا۔
میاں صاحب نے تقلید و اجتہاد دونوں کو
جائز کہا ہے تو غیرمقلدین سے ہمارا سوال ہے کہ وہ دس مسائل ایسے پیش کریں جن میں
انہوں نے خالصۃ ً اجتہاد کیا اور کم از کم دس مسائل ایسے بھی بتائیں جن میں نری
تقلید کی ہو۔
ائمہ کرام سے تقلید کا ثبوت
نواب صدیق حسن خاں غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ قال
الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلیدا لعطاء ۔ (الجنۃ صفحہ ۶۸)
امام شافعی
نے بہت سے مقامات میں کہا ہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں یہ کہا ہے ۔ ‘‘
( الکلام المفید صفحہ ۴۱)
یہ عبارت غیرمقلدین کے بہت سے غلط
دعووں کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیرتی ہے مثلا:
(۱)غیرمقلدین
کا کہنا ہے کہ تقلید جہالت ہے اور مقلد جاہل ہوتا ہے ۔ کیا وہ امام شافعی رحمہ
اللہ کو بھی جاہل کہیں گے ؟جنہوں سے حضرت عطاء رحمہ اللہ کی تقلید کی ۔
(۲)غیرمقلدین
کہتے ہیں کہ تقلید چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ۔ مگر حضرت عطاء رحمہ اللہ کی تقلید
کرنے والے امام شافعی رحمہ اللہ چوتھی صدی سے پہلے کے بزرگ ہیں۔
(۳)غیرمقلدین
یہ بھی راگ الاپتے ہیں کہ محدثین تقلید نہ کرتے تھے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ
محدث بھی تھے اور تقلید بھی کر لیا کرتے تھے ۔
(۴)غیرمقلدین
یہ بھی لکھتے ہیں کہ آج تک کسی ایک مستند عالم نے یہ نہیں کہا کہ میں مقلد ہوں۔
(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ ۴۶، تصنیف : حافظ زبیر علی زئی )
لیکن نواب صاحب نے امام شافعی رحمہ اللہ کا
اقرار نقل کر دیا ہے کہ وہ خود فرمارہے ہیں کہ میں نے تقلید کی ہے ۔
اور بھی بہت سے علماء ہیں جنہوں نے
اپنے مقلد ہونے کا برملا اعتراف کیا۔ اس کی تفصیل اور باحوالہ بحث بندہ کی کتاب ’’
زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(۵)غیرمقلدین
لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ نے تقلید سے روکا ہے مگر نواب
صاحب کے نقل کردہ مقولہ سے ثابت ہور ہا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے خود تقلید
کی ہے جو اَئمہ اربعہ میں ایک مسلّم امام ہیں ۔ نواب صاحب نے تو یہاں تک معاملہ
صاف کردیا کہ:
’’ فلاتجد احدا
من الائمۃ الا وھو مقلد من ھو اعلم منہ فی بعض الاحکام ۔ (الجنۃ
صفحہ ۶۸) تم حضرات ائمہ کرام میں سے کسی ایک کو
بھی نہیں پا سکتے کہ وہ بعض مسائل میں اپنے سے کسی بڑے عالم کی تقلیدنہ کرتا ہو۔
‘‘
( الکلام المفید صفحہ ۴۴)
چوتھی صدی سے پہلے تقلید
نواب صدیق
حسن خاں غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اھل مصر
کانوا مالکیۃ فلما قدم الشافعی مصر تحولوا الشافعیۃ ۔
(الجنۃ صفحہ فی الاسوۃ الحسنۃ بالسنۃ صفحہ ۴۵)
اہل مصر پہلے حضرت امام مالک کے مقلد
تھے اور پھر جب حضرت امام شافعی مصر گئے تو وہ لوگ شافعی المذہب ہو گئے۔
اگر چوتھی
صدی سے قبل تقلید رائج نہ تھی تو مصر میں یہ مالکی کہاں سے پیدا ہو گئے تھے؟ اور
پھر حضرت امام شافعی کے مصر تشریف لے جانے کے بعد یہ لوگ شافعی کیسے بن گئے تھے؟
اور حیر ت ہے کہ بات بھی صرف ایک دو افراد کی نہیں ہو رہی بلکہ عام اہلِ مصر کی ہو
رہی ہے فریق ثانی کو کچھ تو غور و انصاف کرنا چاہیے کہ وہ کیا کہتا ہے
جہاں میں عام ہے میرے اَلَم کی داستان لیکن
وہ مجھ ے سن نہیں سکتے ، میں ان سے کہہ نہیں
سکتا ‘‘
( الکلام المفید صفحہ ۱۰۶)
۲۲۸ھ میں جب خلیفہ واثق باللہ العباسی
نے سد سکندری کا حال دریافت کرنے کے لئے کچھ لوگ بھیجے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں
کو حنفی المذہب پایا چنانچہ نواب صدیق حسن خان بحوالہ مسالک الممالک لکھتے ہیں:
محفاظان سد کہ دراں جا بودند ہمہ دین اسلام داشتند و مذہب حنفی
و زبان عربی و فارسی میگفتند اما از سلطنت عباسیہ بے خبر بودند ۔ سد سکندری کے
محافظ (باشندے ) بھی مسلمان اور حنفی المذہب تھے اور عربی و فارسی زبان بولتے تھے
مگر سلطنت عباسیہ سے بے خبر تھے۔ ‘‘(ریاض المرتاض صفحہ ۳۱۶)
اگر چوتھی صدی سے قبل تقلید شخصی کا
وجود نہ تھا تو شمالی علاقہ میں سد سکندری کے پاس بسنے والے یہ حنفی المسلک کہاں
سے آ گئے تھے ؟ اور بڑی حیرانی کی بات ہے کہ اس دَور میں تمام اسلامی علاقوں میں
ایک ہی خلیفہ ہوتا تھا جواِس وقت عباسی تھا اور سد سکندری کے پاس رہنے والے لوگ
اسلام اور مذہب حنفی کے تو دلدادہ تھے لیکن سلطنت عباسیہ سے شناسا نہ تھے ۔ قارئین
کرام! خود فیصلہ کریں کہ چوتھی صدی سے قبل تقلید تھی یا نہ ؟ اور یہ غلط رائے قائم
کرنے میں قصور کس کا ہے ؟
شکوے ہماے سارے غلط بھی سہی مگر
لو تم ہی اَب بتاؤ کس کا قصور تھا
نواب صاحب
انصاف کے حوالہ سے رقم طراز ہیں :
’’ نشأ ابن شریح
فاسس قواعد التقلید (الی ان قال ) ولذلک یعد من المجددین علی راس الماتین۔ امام ابن
شریح نے ہمت کی اور قواعد تقلید کی بنیاد رکھی ( پھر فرمایا کہ ) اسی لئے وہ دوسری
صدی کے مجددین میں شمار ہوتے ہیں۔ ( الجنۃ صفحہ ۳۹)
اگر چوتھی صدی سے پہلے تقلید نہ تھی
تو دوسری صدی کے مجدد کو قواعد اور ضوابط تقلید مرتب کرنے کیا مصیبت پڑی تھی ۔ ‘‘
( الکلام المفید صفحہ ۱۰۷)
تقلید کارِ ثواب ہے
غیرمقلدین کے مجدد نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
’’ اماتقلید من
جھدہ فی اتباع ما انزل اللّٰہ تعالی وخفی علیہ بعضہ فقلد فیہ من
ھو اعلم منہ فھذا محمود غیرمذم وماجور غیرمازور
کماسیاتی بیانہ عند ذکر التقلید الواجب و السائغ ان شاء اللّٰہ تعالی ۔ ( الدین
الخالص صفحہ ۵۱۵)
بہرحال جو شخص استطاعت کے مطابق اللہ
تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام کی اطاعت کرتا ہے اس میں اگر بعض چیزیں اس پر مخفی رہ
جائیں اور ان میں وہ اپنے سے زیادہ علم اور سمجھ والے کی تقلید کرے تو اس کا ایسا
کرنا پسندیدہ امر ہے ، مذموم نہیں ۔اور اس میں اس کو ثواب ملے گا، اس پر گناہ کچھ
نہ ہوگا جیسا کہ تقلید واجب اور جائز کے ذِکر میں آئندہ اس کا بیان آئے گا ان شاء
اللہ تعالیٰ ۔‘‘
( الکلام المفید صفحہ ۱۸۱)
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں
نذیر حسین دہلوی نے علامہ تاج الدین عثمانی کی کتاب ’’ جامع الفواد‘‘ کے حوالہ سے
استدلال کرتے ہوئے لکھا(ترجمہ میاں صاحب کا ہے ):
’’ جو کوئی
مجتہد کے قول پر عمل کرے گا تو وہ دونوں جہاں میں ثواب پاوے گا جب تک حدیث صحیح
متصل السند نہ پاوے اور جب حدیث پاوے تو اس پر عمل کرے ۔ ‘‘
( معیار الحق صفحہ ۶۹ ، الکلام
المفید صفحہ ۴۱۲)
غیرمقلدیت کی اصلاح پہ لکھی گئی حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرکی سات کتابوں کاتعارف
قرآن و حدیث سے تقلید کا ثبوت
میاں نذیر حسین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جس آیت کے حکم سے تقلید ثابت ہے تو وہ اسی صورت میں ہے جب کہ لاعلمی ہو قال اللّٰہ تعالیٰ فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون یعنی پس سوال کرو اہلِ ذکر سے اگر نہ جانتے ہو تم اور یہی آیت دلیل ہے وجوب تقلید پر ۔ ‘‘
( معیار الحق صفحہ ۶۷، الکلام المفید صفحہ ۲۰۹)
غیرمقلدین کے حلقہ میں ’’ خاتم المحدثین ‘‘ کہلوائے جانے وا لے مصنف نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
’’ وجب علی العامی تقلیدہ والاخذ بفتواہ وقد استفاض الخبر عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انہ لما بعث معاذ ا الی الیمن قال یا معاذ .. (لقطۃ العجلان صفحہ ۱۳۷)
ترجمہ:عامی آدمی پر مجتہد کی تقلید اور اس کے فتوی کو لینا واجب ہے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفیض اورمشہور حدیث آتی ہے کہ آپ ؐ نے جب حضرت معاذ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو فرمایا کہ اے معاذ... ‘‘
اس عبارت سے تین باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ لاعلم اور عامی آدمی پر مجتہد کی تقلید کرنا اور اس کا فتوی لینا واجب ہے ۔ دوم یہ کہ یہ بات حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے
سے ثابت ہے ۔سوم یہ کہ حدیث معاذ حدیث مستفیض اور مشہور ہے ۔
( الکلام المفید صفحہ ۲۰۵ )
میاں صاحب اور نواب صاحب کے بقول تقلید قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ مگر متعصب غیرمقلدین قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اس تقلید کو ماننے سے انکاری ہیں۔
تقلید کا وجوب
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
’’ یہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ بے علم کو عالم کی تقلید ضرور چاہیے ۔ ‘‘ ( تقلید شخصی صفحہ ۲۰)
مولانا موصوف کی یہ بات بالکل بجا ہے لیکن آج کل کے اکثر غیرمقلدوں کو کون سمجھائے کہ وہ تقلید کو نہ صرف یہ کہ ناجائز کہتے ہیں بلکہ تمام بُرائیوں کی جڑ ہی وہ تقلید کو قرار دیتے ہیں اور وہ اس نظریہ کو سویدا ء قلب میں اتارے ہوئے ہیں
خوشی کو آنے دیتی ہے ، نہ غم کو جانے دیتی ہے
در دل پر کسی کی یاد بیٹھی پاسباں ہو کر
( الکلام المفید صفحہ ۲۰۶)
میاں نذیر حسین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ باقی رہی تقلید وقت لا علمی سو یہ چار قسم ( پر ) ہے قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد کی اہل ِ سنت کی لا علی التعیین جس کو مولانا شاہ ولی اللہ کے عقد الجید میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے اور صحیح ہے باتفاق امت ۔‘‘
( معیار الحق صفحہ ۷۵ ، الکلام المفید صفحہ ۲۰۷)
میاں صاحب نے تقلید کو واجب کہا اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اس کے صحیح ہونے پرامت کااتفاق ہے ... اور ... فرمانِ نبوی ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی ۔ (مستدرک حاکم )
٭... میاں صاحب نے ’’ لا علی التعیین ‘‘ جملہ کو عِقد الجِید کی طرف مسنوب کیا ہے حالاں کہ عِقد الجِید میں یہ جملہ نہیں ہے ۔
الکلام المفید کا جواب؟
الکلام المفید میں جہاں قرآن وحدیث، صحابہ کرام اور فقہاء محدثین کے اقوال ذِکر کئے گئے، وہاں مسئلہ تقلید کے اثبات میں غیرمقلدین کی عبارتیں بھی منقول ہیں مثلاً قرآن و حدیث سے تقلید کا جواز ووجوب ، ائمہ کرام سے تقلید کا ثبوت ، چوتھی صدی سے پہلے تقلید کا وجود اور تقلید کا کارِ ثواب ہونا غیرمقلدین کی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم ذِکر کر چکے ہیں۔
چوں کہ حضرت رحمہ اللہ نے اپنے موقف کوخود غیرمقلدین کی کتابوں سے ثابت کیا ہے اس لئے بھی ان کے لیے اس کا جواب لکھنا مشکل ہو گیا ۔ الکلام المفید کو شائع ہوئے قریباستائیس [اوراب چالیس] سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر میری معلومات کے مطابق غیرمقلدین آج تک اس کا جواب شائع نہیں کر سکے اور اُمید ہے کہ آئندہ بھی وہ اس کے جواب سے عاجز رہیں گے ان شاء اللہ ۔
الکلام المفید کا مکمل جواب تو میری نظر سے نہیں گزرا لیکن بعض غیرمقلدین کی طرف سے اس کتاب کی کسی ایک آدھ بات پر تنقید کرنا سامنے آیا ہے مثلاً مشہور غیرمقلد حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’ سر فراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: اور طے شدہ بات ہے کہ اقتداء واتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے۔ ‘‘ ( المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص ۳۵ طبع نہم جمادی الثانیۃ ۱۳۹۵ھ جون ۱۹۷۵ء ) تنبیہ : اس طے شدہ بات کے خلاف سر فراز خان صاحب نے خود ہی لکھا ہے کہ ’’ تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے ۔ ‘‘ (الکلام المفید فی اثبات التقلید ص ۳۲ ) معلوم ہوا کہ وادی تناقض و تعارض میں سرفراز خان صاحب غوطہ زن ہیں۔‘‘
(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ ۱۴ ، اشاعت :جون ؍۲۰۰۶ء)
الجواب:
ہم یہا ں پر راہ سنت کی مکمل عبارت نقل کرتے ہیں ۔حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سبل السلام کے مصنف علامہ یمانی کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’’ اس عبارت میں علامہ یمانی نے علامہ برماوی کی یوں تردید کی ہے کہ حضرات علماء اربعہ میں سے ہر ایک کا قول قابلِ اقتداء ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اقتدا اور چیز ہے اور تقلید اور ۔ کچھ بھی ہو ان کامنفرد قول بھی حجت ہے ہمارے نزدیک اقتداء اتباع اور تقلید ایک ہی شی ہے۔ غیرمقلدین کے ہاں اقتداء و اتباع اورچیز ہے اور تقلید اور ہے ۔ ‘‘
( راہ سنت صفحہ ۳۵)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اتباع و اقتداء کو تقلید سے الگ قرار دینا غیرمقلدین کے مذہب کی رُو سے ہے۔ حضرت مولانا محمد سر فراز خاں صفدر رحمہ اللہ نے صراحۃ ً اس سے اپنی براء ت کا اعلان کر دیا ہے کہ ہمارے نزدیک اتباع و اقتدا اور تقلید ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں ۔ معترض نے راہ سنت طبع نہم کا حوالہ دیا ہے ۔ اس طبع کا نسخہ ہمارے پاس نہیں ہے اگر مان لیں کہ طبع نہم میں حضرت نے اقتداء و اتباع کو تقلید سے الگ باور کرایا ہو تو ان کا اس سے رجوع ہو چکا ہے کیوں کہ بعد کے ایڈیشنوں میں یہ عبارت موجود نہیں ہے۔ رجوع شدہ بات پہ طعن کرنا علی زئی صاحب کے نزدیک پروپیگنڈا کہلاتا ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’رجوع کرنے والے کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھنا... کس عدالت کا انصاف ہے۔‘‘
( نور العینین صفحہ ۴۲، طبع مکتبہ اسلامیہ ،سن اشاعت: اکتوبر؍۲۰۱۲ء)
حاصل یہ کہ وادی تناقض میں غوطہ زن کا طعنہ دینا بے جا ہے اور اپنے ناخواہدہ حواریوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کا محض ایک بہانہ ہے ۔ علی زئی صاحب خود تناقض و تعارض کے سمندر میں غرق ہیں ۔ اس وقت ہمارا یہ موضو ع نہیں کہ ہم ان کے تناقضات و تعارضات کوتفصیل سے ذِکر کریں ۔اس کے لیے ہماری کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم یہاں بھی کچھ تناقضات علی زئی ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نماز وغیرہ کے جو مسائل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے وہ آخری اور ناسخ ہیں ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ نماز کا کوئی مسئلہ راقم الحروف کے علم نہیں ہے جو کہ منسوخ ہو ۔‘‘
( نور العینین صفحہ ۳۲۸، طبع۲۰۰۶ء )
رفع یدین کے دوام کو ثابت کرنے کے لیے تومذکورہ دعویٰ کردیا مگر فاتحہ کی باری آئی تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اذا قرأ فانصتوا کے متعلق لکھا :
’’یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن منسوخ ہے ۔‘‘
( ماہ نامہ الحدیث شمارہ: ۸ ذیقعدہ ۱۴۲۵ھ )
یہی بات حاشیہ ابو داود میں لکھی ہے ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’ ھذا الحدیث منسوخ بدلیل فتویٰ ابی ھریرۃ بقراء ۃ الفاتحۃ فی الجھریۃ بعد وفاۃ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔‘‘
( تخریج سنن ابی داود : ۱؍۴۷۹م طبع دار السلام )
۲۔ زبیر علی زئی نے لکھا ہے :
’’ کسی مستند عالم سے یہ قول ثابت نہیں کہ ’’ انا مقلد‘‘ میں مقلد ہوں۔ ‘‘
(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ ۴۶)
لیکن دوسرے مقام پر ’’ اصحاب الحدیث کون ‘‘ کی سرخی لگا کر لکھتے ہیں:
’’ ابو طاہر برکۃ الحوزی الواسطی نے کہا : میں نے مالک اور شافعی کی افضلیت کے بارے میں ابو الحسن ( علی بن محمد بن محمد بن الطیب ) المغازلی( متوفی ۴۸۳ھ ) سے مناظرہ کیا چوں کہ میں شافعی المذہب تھا لہذا شافعی کو افضل قرار دیا اور وہ مالکی المذہب تھے لہذا انہوں نے مالک ( بن انس ) کو افضل قرار دیا ... ‘‘
( ماہ نامہ الحدیث شمارہ : ۵۶ محرم ۱۴۳۰ھ ، علمی مقالات :۲؍۴۹)
کیا علامہ حوزی واسطی نے اپنے آپ کو ’’شافعی المذہب ‘‘ کہہ کر اپنے مقلد ہونے کا اقرار نہیں کیا ؟
۳۔ ابن خزیمہ میں مؤمل حدثنا سفیان عن عاصم بن کلیب کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سینے پر باندھے ۔ (ابن خزیمہ :۱؍۲۴۳)
زبیر علی زئی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ یہ روایت مؤمل کی وجہ سے ضعیف نہیں بلکہ سفیان الثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ‘‘
( نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم صفحہ ۲۰)
لیکن دوسری جگہ نماز نبوی مؤلفہ ڈاکٹر شفیق الرحمن کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ میری معلومات کے مطابق اس میں کوئی ضعیف روایت نہیں ہے ۔ ‘‘
(مقدمۃ التحقیق نماز نبوی صفحہ ۲۳)
حالاں کہ نماز نبوی صفحہ ۱۴۴ ،پر ابن خزیمہ والی مذکورہ ضعیف حدیث موجود ہے مگر علی زئی صاحب بڑی معصومیت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اس کتاب میں کوئی ضعیف روایت نہیں ہے ۔
تنبیہ: زبیرعلی زئی کے تناقضات اور تضادات پر مشتمل حافظ ظہور احمد الحسینی دام ظلہ کی کتاب ’’تناقضات آل حدیث زبیرعلی زئی ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا ان شاء اللہ ۔
تقلید و اتباع کا اتحاد
اس جگہ یہ بات بھی ذہن میں رہے۔ زبیر علی زئی صاحب نے جو اتباع و تقلید کے حوالہ سے اعتراض کیا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک اتباع اور چیز ہے اور تقلید چیزے دیگر است ۔ مگر اتباع و تقلید کا شی واحد ہونا خود غیرمقلدین کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے اس کے متعلق کافی حوالہ جات بندہ کی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں مذکور ہیں ۔کچھ حوالے یہاں بھی ملاحظہ ہوں۔
(۱)میاں نذیر حسین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ معنی تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی کے کسی عالم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اسی معنیٰ عرفی میں مجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولاجاتا ہے ۔ ‘‘
( معیار الحق صفحہ ۶۶)
میاں صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ پس ثابت ہوا کہ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کو اور مجتہدین کی اتباع کو تقلیدکہنا مجوّز ہے ۔ ‘‘
( معیار الحق صفحہ ۶۷ بحوالہ الکلام المفید صفحہ ۳۱)
(۲)مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
’’ جو اس وقت کے بعض علماء نے کہا ہے کہ کتاب و سنت کا حکم پوچھ کر اس پر عمل کرنا
تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ یہ ایک لفظی نزاع ہے جس کو وہ اتباع کہتے ہیں ،اس کا دوسرے علماء تقلید نام رکھتے ہیں کیوں کہ تقلید بے دلیل بات مان لینے کا نام ہے اور عامیوں کے عمل و اتباع میں یہی امر وقوع میں آتاہے۔عامی کو جو حکم کتاب وسنت کا علماء وقت سے معلوم ہوتا ہے اس کو وہ یوں ہی بے دلیل مان لیتے ہیں جو عرفا تقلید کہلاتی ہے۔ کسی عامی کو اگر کوئی عالم یہ بھی کہہ دے کہ یہ مسئلہ قرآن وحدیث میں یوں آیا ہے تب بھی وہ اس قول کو بے دلیل تسلیم کر لیتا ہے کیوں کہ اس مسئلہ کی دلیل آیت یا حدیث کا اس کو علم حاصل نہیں ہوتا اور اگر کوئی عالم اس کو آیت قرآن یا حدیث پڑھ کر بھی سنا دے یاطوطے کی طرح یاد کرا دے تب بھی وہ آیت و حدیث کے معنی اور حدیث کی صحت تسلیم کرنے میں اس عالم کا مقلد کہلاتا ہے کیوں کہ وہ کسی دلیل سے نہیں جانتا کہ آیت یا حدیث کے وہ معنی جو اِس عالم نے اس کو بتائے ہیں کیوں کر صحیح ہیں اور اس حدیث کی صحت کیوں کر ثابت ہے۔ لہذا اس کی یہ تسلیم بلا دلیل تسلیم ہے جو تقلید کہلاتی ہے گو اس کو کوئی تقلید نہ کہے ، اتباع نام رکھے ۔ ‘‘
(اشاعۃ السنۃ :۱۱؍۳۲۰)
(۳) خود معترض زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’ لغت کی ان تعریفات و تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ دین میں بے سوچے سمجھے آنکھیں بند کر کے بغیر دلیل ، بغیر حجت اور بغیر غور وفکر کسی شخص کی جو نبی نہیں ہے پیروی واتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔ ‘‘
(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ ۸)
مذکورہ عبارت میں ہمارا محل استشہاد ’’ اتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔ ‘‘ جملہ ہے۔ ہم نے صرف اسی جملہ کی خاطر ساری عبارت نقل کی ہے کہ معترض صاحب بھی اتباع کرنے کو تقلید قرار دے رہے ہیں ۔
انقلاب
حضرت رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الکلام المفید ‘‘ نے انقلاب برپا کر دیا ہے ،اس کتاب سے جہاں اپنوں کی قلبی تسکین ہوئی وہاں مخالفین بھی سوچنے پہ مجبور ہو گئے یہاں تک کہ تقلید کے حوالے سے کئی باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں غیرمقلدین نے تسلیم کر لیا بلکہ ان میں بعض نے اعلانیہ اور اکثر نے چھپ چھپ کر تقلیدکرنا شروع کردی۔ اس اجمال کی تفصیل اوراس دعوے کی دلیل ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) غیرمقلدین تقلیدکے رد میں ایک روایت پیش کیا کرتے تھے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابع داری کرنے لگ جاؤ تو گمراہ ہو جاؤ۔ ( اہل حدیث کا مذہب صفحہ ۱۵۹) وغیرہ ۔
حضرت رحمہ اللہ نے جواب دیا ہے اس میں وعید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے پر ہے جب کہ مقلدین حضرات تو ائمہ کی تقلید کرتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر چلا تے ہیں۔ نیز یہ روایت مجالد بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ( الکلام المفید صفحہ ۳۲۳)
اب غیرمقلدین نے بھی اس روایت کو ضعیف مان لیا ہے چنانچہ ارشاد اللہ مان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ یہ روایت مجالد بن سعید ، جابر بن یزید الجعفی ، ابو شیبہ عبد الرحمن بن اسحاق الواسطی کے سخت ضعیف اور ابو عامرالقاسم بن محمد الاسدی کے غیرمعروف ہونے کی وجہ سے تمام اسانید کے ساتھ ضعیف ہے ۔ ‘‘
( تلاش حق صفحہ ۴۱۱، طبع دار الاندلس )
زبیر علی زئی بھی اسے ضعیف مانتے ہیں:
’’ وسندہ ضعیف ،فیہ مجالد بن سعید وھو ضعیف عند الجمھور ۔‘‘
( مقالات الحدیث صفحہ ۱۰۵،مکتبہ اسلامیہ ، اشاعتِ اول : ۲۰۱۱ء)
ترجمہ:اور اس کی سند ضعیف ہے ،اس میں مجالد بن سعید ہے اور وہ جمہور کے ہاں ضعیف ہے ۔
علی زئی صاحب نے اپنی دیگر کتب میں بھی اس روایت کو ضعیف کہا ہے ۔
(۲)مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے حافظ ابو شامہ ؒ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان نقل کیا:
’’میں تمام صحابہ کی تقلید کرتا ہوں اور ان کے خلاف اپنی رائے کو صحیح نہیں سمجھتا سوائے تین انس بن مالک ؓ ، ابو ھریرہ ؓ اور سمرہ بن جندب ؓ کے ۔ ‘‘
( توضیح الکلام صفحہ ۷۰۴)
غیرمقلد ٹولہ پہلے کہا کرتا تھا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے لوگوں کو تقلید سے روکاہے لیکن آج ان میں اس قدر تبدیلی آ گئی ہے کہ وہ خود امام صاحب کو مقلد کہنے سے دریغ نہیں کر رہے ۔
تقلید کو چوتھی صدی کی پیداوار قرار دینے والے لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ( متوفی ۱۵۰ھ ) کو صحابہ کرام کا مقلد باور کرا رہے ہیں۔
غیرمقلدین عرصہ دراز سے کہتے چلے آ رہے تھے کہ محدثین کسی کی تقلید نہ کرتے تھے مگر الکلام المفید کی اشاعت کے بعد ان میں تبدیلی آ چکی ہے ۔ اَب اُنہوں نے خود ہی محدثین کے مقلد ہونے کا اعتراف کر لیا ہے ۔ یہ اعتراف اگرچہ ان کی بہت سی کتابوں میں مذکور ہے مگر اس حوالے سے جامع کتاب علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد کی ہے جو ’’ کاروانِ حدیث ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے ۔ جس میں محدثین کے حالات لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقلد ہونے کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کے کچھ اقتباسات آئندہ اوراق میں حضرت رحمہ اللہ کی کتاب ’’طائفہ منصورہ ‘‘ کے تعارف میں ہم نقل کریں گے ان شاء اللہ ۔
(۴) ایک عرصہ سے مخالف فرقہ کے لوگ تقلیدکو بدعت، شرک اور کفر کہتے رہے مگر بعد میں وہ زمانہ بھی آیا کہ اسی جماعت کے لوگ تقلید کو واجب سمجھنے لگے ، جیسا کہ آگے آئے گا ان شاء اللہ ۔
(۵) نہ صرف یہ کہ وہ تقلید کے زبانی قائل ہوئے بلکہ انہوں نے عملاً تقلید شروع بھی کرد ی ۔اس کی باحوالہ بحث آئندہ عنوان ’’ مدعیان ِ اہلِ حدیثوں نے تقلید شروع کر دی ‘‘ کے تحت آرہی ہے ان شاء اللہ ۔
(۶) جو لوگ اپنی غیرمقلدیت پر فخر کیا کرتے تھے اللہ کے فضل سے وہ اب غیرمقلد پر شرمساری محسوس کرنے لگے ۔ اس پر دو حوالے ملاحظہ ہوں۔
ہندوستان سے حضرت مولانا ابوبکر غازی صاحب کی زیر ادارت دو ماہی مجلہ زمزم نکلتا رہا ہے جو پاکستان کے کئی شہروں میں آتا رہا ۔اس میں سوال و جواب کی نشست بھی ہوتی ہے ۔ سوال و جواب کے اس مجموعہ کو ’’ارمغان حق ‘‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے ۔ اسی میں سے زبیر احمد السلفی بستی یوپی صاحب کی سوالیہ عبارت نقل کرتے ہیں زبیر صاحب لکھتے ہیں:
’’ اولاًمیں صاف کردوں کہ مسلکا اہلِ حدیث ہوں،دہلی میں میری تعلیم مکمل ہوئی ہے۔ مجھے آپ سے کسی مسئلہ پر الجھنا نہیں ہے ۔ نہ بحث میرا مقصود ہے میں آپ سے صرف دو باتوں کا سوال کروں گا۔ [ دوسرے سوال کی یہ عبارت ہے ۔ (ناقل )]... آپ جماعت اہلِ حدیث کے افراد کو غیرمقلد کہتے ہیں جب کہ اس نام سے ہم اپنے کو مخاطب نہیں کرتے جو نام پسند نہ ہو تو اس نام سے ہمیں پکارنا شرعا جائز ہے یا ناجائز ہے؟آپ کی تحریروں سے متاثر ہو کر دیوبندی جماعت کے تمام پرچے اب ہمیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں کیا اس کا گناہ آپ کو نہیں ہوگا۔ ‘‘
(ارمغان حق :۱؍۳۳۵)
زبیر سلفی نے جو سوال کیا اس کا جواب تو مولانا ابو بکر غازی پوری صاحب نے ارمغان حق میں دے دیا ہے شائقین اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں لیکن میرا ان سے سوال یہ ہے کہ اہلِ حدیثوں کو اگر غیرمقلدکہنا گناہ ہے تو ان کا غیرمقلد ہونا گناہ کیوں نہیں ہوگا؟یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کسی کا غیرمقلد ہونا تو گناہ نہ ہو لیکن اسے غیرمقلد کہنا گناہ ہو۔ یہ تو ایسے ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ مشرک ہونا تو جرم نہیں مگر اسے مشرک کہنا جرم ہے یا کسی کا بدعتی ہونا تو گناہ نہ ہو لیکن اسے بدعتی کہہ دینا گناہ ہو۔
پاکستان کے مشہور غیرمقلد زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’ عرض ہے کہ ہم غیرمقلد نہیں ، بلکہ اہلِ حدیث ہیں ۔ ‘‘
( ماہ نامہ الحدیث شمارہ: ۱۷ ، ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ صفحہ ۴۸)
مذکورہ عبارت کو ہم نے زبیر علی زئی کی طرف منسوب کیا اگرچہ مذکورہ پرچہ میں ابو معاذ لکھا ہوا ہے لیکن معاذ زبیر صاحب کے بیٹے ہیں۔ ( نور العینین صفحہ ۱۳)
نیز یہ کہ الحدیث کے مدیر زبیر علی زئی صاحب ہیں انہوں نے یہ لکھا:
’’ ماہ نامہ الحدیث میں ہر تحریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری ہے اور اختلاف کی صورت میں صراحتًا یا اشارۃ ً وضاحت کر دی جاتی ہے ۔ ‘‘
( ماہ نامہ الحدیث شمارہ : ۲ صفحہ ۳۵)
اس تحریر کے پیش نظر نقل کردہ مذکورہ عبارت کو زبیرعلی زئی کی طرف منسوب کرنا درست ہے ۔
[بعد میں علی زئی کی تحریر یں مستقل کتابیں شکل میں شائع ہوئیں اُن میں کئی بار علی زئی نے لفظ غیرمقلد سے بیزاری کا اظہار کیا یہاں تک اس لفظ کو ’’ گالی ‘‘ کا نام دیا ۔ حوالہ جات بندہ کی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ حاشیہ :۱…… میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ]
زبیرصاحب اگر غیرمقلدنہیں تو کیا مقلدہیں؟آخر غیرمقلد ہونے کو اتنا بُرا کیوں سمجھا جا رہا کہ اعلانیہ اس سے براء ت کی ضرورت پیش آرہی ہے ۔
مدعیان ِ اہلِ حدیثوں نے تقلید شروع کر دی
تقلید کے اثبات پر علمائے امت صد یوں سے عربی زبان میں لکھتے چلے آئے ہیں ۔پھر اُردو زبان میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ علمائے دیوبند میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے سبیل الرشاد میں ، شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ نے ’’ ادلہ کاملہ ، ایضاح الادلہ ‘‘ میں ، حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’’الاقتصاد فی التقلید و الاجتھاد ‘‘ میں ، حضرت مولانا مرتضی حسن چاند پوری رحمہ اللہ نے ’’ تنقیح التقلید ‘‘ میں ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ نے ’’ خیر التنقید ‘‘میں ، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دام ظلہ نے’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ میں ، مولانا محمد اسماعیل سنبھلی رحمہ اللہ نے تقلید ائمہ اور مقام امام ابوحنیفہ ؒ ‘‘ میں اورحضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرر حمہ اللہ نے ’’ الکلام المفید ‘‘ میں تقلید کے جواز پر بحث کی ہے ۔ اللہ ان سب سے راضی ہو۔
عرب و عجم کے علماء کی محنتوں سے اس قدر انقلاب آیا کہ اہلِ حدیث کہلوانے والے تقلید کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔ان کے تقلید ی ہونے پر خود ان کی گواہیاں حاضر خدمت ہیں۔
(۱)فریق ثانی کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی کے حالات پر مشتمل کتاب میں لکھا ہے ـ:
’’ میاں صاحب ے فرمایا کہ بناء علی التجزی فی الاجتھاد میں بعض مسائل میں مقلد ہوں اور بعض میں مجتہد ۔ ‘‘
( الحیات بعد الممات صفحہ ۳۹۵)
مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
’’ حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین صاحب جن کا تمام عمر یہی عمل رہا جو اِس خاکسار کاعمل ہے میاں صاحب کے بہت سے شاگرد اوران کے دیکھنے والے زندہ ہیں وہ ایمانی شہادت دے سکتے ہیں کہ منصوصات میں ان کا عمل قرآن و حدیث پر تھا اور غیرمنصوص مسائل میں کتب فقہ ہدایہ ، عالمگیری وغیرہ پر عمل اورفتوی تھا۔ ‘‘
( اشاعۃ السنہ :۲۳؍۱۷)
بٹالوی صاحب کی تصریح کے مطابق میاں صاحب کا غیر منصوص مسائل میں فتوی و عمل فقہ حنفی پر تھا ۔ ان کا عمل بٹالوی صاحب کے عمل کی طرح تھا اور بٹالوی صاحب کا تقلید کے متعلق کیا نظریہ تھا یہ آئندہ سطور میں آر ہا ہے ان شاء اللہ ۔
(۲)وکیل اہلِ حدیث مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
’’ ہم لوگ جو اس گروہ سے علم کی طرف منسوب ہیں منصوصات میں قرآن و حدیث کے پیرو ہیں اور جہاں نص نہ ملے وہاں صحابہ تابعین و ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں خصوصاً ائمہ مذہب حنفی کی جن کے اصول وفروع کی کتب ہم لوگوں کے مطالعہ میں رہتی ہیں۔اگر ہم کو عام مسلمانان اہلِ سنت سے ممتاز کرکے کوئی خصوصیت کے ساتھ خطاب دینا ہے تو اہلِ حدیث کا خطاب دیا جاوے۔اس سے بھی زیادہ خصوصیت کرنی ہوتو اہلِ حدیث حنفی کہا جائے ۔ ‘‘
( اشاعۃ السنہ : ۲۳؍۲۹۰)
اس کا عکس مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی دام ظلہ کی کتاب ’’ تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۵۵ ‘‘ پہ دیکھا جا سکتا ہے ۔
بٹالوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ جس مسئلہ میں حدیث ِ صحیح مجھے نہیں ملتی اس مسئلہ میں ، مَیں اقوال ِ مذہب امام سے کسی قول پر صرف اس حسن ظنی سے کہ اس مسئلہ کی دلیل ان کو پہنچی ہوگی تقلید کر لیتا ہوں ۔ ایسا ہی ہمارے شیخ و شیخ الکل [میاں نذیر حسین دہلوی (ناقل )] کا مدت العمری عمل رہا۔ ‘‘
( اشاعۃ السنۃ :۲۲؍۳۱۰)
اس کا عکس بھی تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۳۸ پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
بٹالوی صاحب ہی لکھتے ہیں:
’’ ہم اکثر مسائل میں امام الائمہ ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی تقلید کرتے ہیں اور مع ہذا بعض مسائل میں دیگر ائمہ مجتہدین کی پیروی و تقلید بھی کرتے ہیں ۔ ‘‘
( اشاعۃ السنہ : ۲۳؍صفحہ ۱۲۸)
(۳)علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
’’ بعضے اہلِ حدیث ایسے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید سے بھاگے لیکن ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شوکانی اورمولوی اسماعیل صاحب دہلوی اور نواب صدیق حسن خان مرحوم کی تقلید اندھا دھند کرتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ وَقَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ۔ ‘‘
( لغات الحدیث :۱؍۱۲، کتاب :د)
(۴)شیخ عنایت اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ غزنوی بزرگ خصوصاً اور دیگر اہلِ حدیث عموماً امام ابن تیمیہ ؒ کی عملاً تقلید کرتے ہیں۔‘‘
( العطر البلیغ صفحہ ۱۵۹، مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
(۵)غیرمقلدین کے ’’ فضیلۃ الشیخ ‘‘ ابو الاشبال شاغف لکھتے ہیں:
’’ آج کل جماعت اہلِ حدیث کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو چکی ہے جو ناصرالدین البانی کی تقلید کو واجب سمجھتی ہے اور جو کچھ ناصرالدین البانی نے لکھ دیا ان کے نزدیک حرفِ آخر کی حیثیت سے مِن و عَن قبول ہے ۔ ‘‘
( مقالاتِ شاغف صفحہ ۲۶۶)
(۶)مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلدنے اپنی جماعت کے مایہ ناز عالم مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی کے متعلق لکھا:
’’مولانا نے [ اصحاب کہف کے ( ناقل )] ان ناموں سے جو توسل بالفعل کیا ہے اور استمداد ظاہر کی ہے جس سے ان ناموں میں نفع اور دفع ضرر کی تاثیر ظاہر ہوتی ہے ... شرع سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے عالم کی تقلید کی ہے ۔ ‘‘
( فتاوی ستاریہ :۳؍۱۴۱)
(۷)پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد نے قومہ کی حالت میں سینے پر ہاتھ باندھنے والے اہلِ حدیثوں کا رَد کرتے ہوئے لکھا:
’’ جب ہم ماضی قریب و بعید کی طرف نظر کرتے ہیں تو جوں جوں آپ اوپر چلے جائیں گے ، آپ کو ہاتھ باندھنے والوں کی تعداد کم ہوتی نظر آئے گی حتی کہ خیر القرون میں آپ کو کوئی ایسا ایک فرد بھی نہیں ملے گا جو وضاحت یا اشارہ کے ساتھ ہاتھ باندھنے کا اثبات کرے ۔ البتہ آج کے دَور میں جو کہ تقلید شخصی اور فتنوں کا دَور ہے دن بدن ہاتھ باندھنے والوں کی تعداد بڑھتی نظر آتی ہے۔لیکن ہماری معلومات کے مطابق آج سے تقریبا چالیس پچاس برس قبل ہمارے علاقوں میں اور دوسرے علاقہ جات میں کوئی ایک فرد بھی ہاتھ باندھنے نہ تھا ۔ البتہ آج کل دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی ہاتھ باندھنے والوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ‘‘
( رسائل بہاول پور ی صفحہ ۸۲۸)
یعنی بہاول پوری صاحب کے نزدیک قومہ میں ہاتھ باندھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تقلید شخصی کا نتیجہ ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ قومہ میں سینے پر ہاتھ باندھنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ اس عبارت میں یوں بھی کہا گیا کہ ہاتھ باندھنے والوں کا اضافہ ہور ہا ہے جب کہ وہ غلط موقف والے ہیں ۔ اس سے پتہ چلا کہ جو گروہ بڑھ رہا ہو لازمی نہیں کہ اس کی آراء حق ہوں ۔
(۸)ایک صاحب نے اپنے اہلِ حدیثوں کے متعلق لکھا کہ وہ :
’’ مذہبی نعرے بازوں کے مقلد ہیں۔ ‘‘
( نماز کے بعد دعائے اجتماعی صفحہ ۶۶)
غیرمقلدین کے مذکور بالا حوالے ایک واضح اعتراف اورثبوت ہیں کہ اہلِ حدیث کہلوانے والے لوگوں نے تقلید کو سینے سے لگا لیا ۔ یہ الگ بحث ہے کہ انہوں نے جن کو چاہا اپنا مقتدا بنا کر ان کی تقلید شروع کر لی ۔ تقلید کے لیے مقتدی کا انتخاب ان کی اپنی پسند ہے ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم نے تو بس یہ ثابت کرنا ہے کہ مدعیان اہلِ حدیث تقلیدی لوگ ہیں۔
طائفہ منصورہ کتاب
حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر نور اللہ
مرقدہ کی کتابوں میں ایک کتاب ’ ’ طائفہ منصورہ ’’ ہے۔ اس کے ۱۴۸ صفحات ہیں ...
طائفہ منصورہ کا معنی نجات یافتہ جماعت ہے ۔ احادیثِ نبویہ میں ایک جماعت کو جماعت
ِ حقہ بالفاظِ دیگر نجات یافتہ جماعت کہا گیا ہے ۔غیرمقلدین نے سر توڑ کوشش کرکے
یہ باور کرانا چاہا کہ ’’طائفہ منصورہ ‘‘ہماری جماعت اہلِ حدیث بمعنیٰ غیرمقلدہے ۔
حضرت مولانا نے اس کتاب میں نجات یافتہ جماعت کی نشان دہی فرمائی ہے۔ پیش ِ لفظ
میں منجملہ باتوں کے یہ بھی لکھا:
’’ غیرمقلدین کی مرکزی کتاب نتائج
التقلید میں پورے زور
کے ساتھ مؤلف نتائج التقلید نے صفحہ ۲ سے لے کئی صفحات تک یہ بحث کی ہے کہ طائفہ
منصورہ اور فرقہ ناجیہ بس ہمارا ہی گروہ ہے اور بخیال اور او ما بدولت کے بغیر کسی
کو اس طائفہ کے فراخ دائرہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔اس لیے ہم طائفہ منصورہ
کی تشریح اور تفصیل بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہر ایک منصف مزاج اور حق کا
متلاشی یہ سمجھ لے کہ طائفہ منصورہ کی کیا کیا علامات ہیں اور وہ کن حضرات میں
پائی جاتی ہیں ؟ اگر عقلی رنگ میں یہ درست ہے کہ ہر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا
ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ طائفہ منصورہ اپنی نشانیوں سے نہ پہچانا چائے ۔ ‘‘
(طائفہ منصورہ صفحہ ۱۲)
نجات یافتہ جماعت کی پہلی نشانی
فرقہ ناجیہ کی حدیث پاک میں پہلی علامت یہ
بتلائی گئی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے جو فقاہت فی الدین کی خوبی سے مالا مال ہوں
گے ۔ (بخاری :۱؍۱۶)
مولانا صفدر
حمہ اللہ مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فرقہ ناجیہ فقاہت فی الدین اور قتال علی الحق کی بہترین
خصلتوں کے ساتھ متصف ہوگا جب ہم ٹھنڈے دل کے ساتھ اس طائفہ منصورہ کو تاریخ کے
سنہری اوراق میں تلاش کرتے ہیں تو دیگر ائمہ دین اور ان کے مقلدین عموما اور حضرت
امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین خصوصًا ان صفات میں پیش پیش نظر آتے ہیں تفقہ فی
الدین کا جو بلند مقام من جانب اللہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے تلامذہ و
متبعین کو حاصل رہا ہے وہ تاریخ کے ٹھوس حوالہ جات کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب ’’مقام
ِ ابی حنیفہ ‘ ‘ میں با حوالہ عرض کر دیا ہے اور غیرمقلدین حضرات کو تو فقہ اور
اہلِ فقہ سے جو تنفر اور عناد ہے ،وہ بھی اظہر من الشمس ہے ۔‘‘
( طائفہ منصورہ صفحہ ۱۶)
مذکورہ
عبارت میں کہا گیا ہے کہ طائفہ منصورہ کی علامتوں میں سے ایک علامت فقاہت فی الدین
کی خوبی سے متصف ہونا ہے اوریہ خوبی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ میں بدرجہ اتم پائی
جاتی ہے اور غیرمقلدین اس خوبی سے محروم ہیں ۔ذیل میں ان دو باتوں پر مخالف کی
گواہی ملاحظہ فرمائیں۔
پروفیسر طالب الرحمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام ابوحنیفہ ؒ (جن کا نام نعمان بن ثابت ہے ) کو فقیہ
العراق کہا گیا ہے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک (الناس فی الفقہ عیال ابی حنیفٰۃ )
لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں ۔ ‘‘
( اصلی نماز محمدی صفحہ ۱۵)
غیرمقلدین کے فتاویٰ میں بغیر
کسی تردید کے نقل کیا گیا ہے:
’’ امام ابوحنیفہ ؒ کو خدا نے اجتہاد اور استنباط مسائل اور
استخراج فروعات کی ایک خاص قسم کی استعداد (عطاء کی ) تھی اوروہ زہد و ورع میں بھی
کامل تھے ۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ : ۱؍۲۴۷)
اس کے
بالمقابل مدعیان اہلِ حدیث کی فقہی بصیرت ملاحظہ فرمائیں۔ غیرمقلدین کے امام العصر
محمد اسماعیل سلفی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی چند عبارات نقل کرنے کے بعد ان سے
حاصل ہونے والے فوائد میں لکھا:
’’ اہلِ حدیث نے بھی حدیث کی
طرف بے توجہی کی ہے وہ تقریبا اسے ایک رسم کے طور پر کر
رہے ہیں ۔استنباط اور اجتہاد کے نقطہ نظر سے
نہیں کرتے، نہ تفقہ کی کوشش کرتے ہیں ۔ ‘‘
( تحریک آزادی ٔ فکر صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲)
مذکورہ بالا عبارت میں جو کچھ کہا گیا
ہے بالکل صحیح اور بجا ہے مگر اس کے باوجود اپنے آپ کو ’’ فرقہ ناجیہ ‘‘ قرار دینے
کی کاوش میں ہمہ تن مصروف ہیں جب کہ فرقہ ناجیہ تو وہی جماعت ہے جو فقاہت فی الدین
کی دولت سے فیض یاب ہو۔
بلکہ بعضے
غیرمقلدین کو تو فقہ سے چٹر ہے جیسا کہ مولانا ثناء اللہ مدنی غیرمقلدنے اس کا یوں
اعتراف کیا:
’’ الاعتصام کے مذکورہ بالا
شمارہ میں حیدر آباد سندھ کے ایک دوسرے صاحب کا تعاقب بھی شائع ہوا ہے ۔ جو بعض
اہلِ حدیث کی جذباتی روش سے متاثر معلوم ہوتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے علاوہ انہیں
لفظ فقہ سے چڑ ہے حالاں کہ ’’ فقہ ‘‘ قرآن و حدیث دونوں میں اچھے مفہوم میں بھی
وارد ہوا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’ من
یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین یعنی جس کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی چاہے ، اسے دین کی
فقاہت عطاء کرتا ہے ۔‘‘ لہذا اہلِ حدیث کو تقلید سے بچانے کا علاج فقہی بصیرت مہیا
کرنا ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ :۱؍۶۶۱)
اگر تقلید سے بچانے کا علاج فقہی
بصیرت ہے تو ان پڑھ عوام کو تقلید سے کیسے بچاپائیں گے کیا انہیں فقہی بصیرت حاصل
ہے ؟
نجات یافتہ جماعت کی دوسری
نشانی
حدیث
ِ نبوی میں نجات یافتہ جماعت کی دوسری علامت یقاتلون علی
الحق ہے کہ وہ حق
کی خاطر جنگ و قتال کرتی رہے گی ۔ (مسلم :۲؍۱۴۴)
حضرت مولانا صفدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس حدیث میں تفقہ فی الدین کے بعد یقاتلون علی الحق کی
صفت نمایاں طور پر موجود ہے اس لئے اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے بلاشک مسلمانوں کے
جملہ فرقوں نے ہر دَور اور ہر ملک میں اپنی اپنی صواب دید کے مطابق جہاد اور یقاتلون
علی الحق حق کی صفت پر
عمل کیا ہے اور بقدر وسعت و استطاعت ہر ایک نے اپنا اسلامی فریضہ ادا کیا ہے لیکن
نواب [ صدیق حسن خان غیرمقلد (ناقل )] صاحب کے بیان کے مطابق بزعم خود اہلِ حدیث
حضرات ے کبھی جہاد نہیں کیا ... اس لئے وہ طائفہ منصورہ اور فرقیہ ناجیہ کا مصداق
کسی صورت میں نہیں ہو سکتے کیوں کہ اس گروہ کے لیے یقاتلون علی
الحق کی صفت بھی
بیان کی گئی ہے اور وہ غیرمقلدین حضرات میں حسب تحقیق و بیان نواب صدیق موجود نہیں
ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ نواب صاحب کا یہ بیان غلط ہو کیوں کہ کلام الملوک ملوک
الکلام زبان زَد خلائق ہے اور ع زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو ! چنانچہ نواب صاحب
ارقام فرماتے ہیں کہ : ’’ بلکہ اہلِ سنت و حدیث اس دن سے ہے جس دن سے دنیا میں اسلام
آیا ۔ کسی تاریخ سے یہ ثابت نہیں کہ کسی محدث کو کسی نے وہابی کہا ہو یا کسی محدث
نے کسی ملک میں فساد کیا ہو یا کسی بادشاہ و حاکم وغیرہ سے بنام جہاد لڑا ہوبلکہ
ساری کتب طبقات و تواریخ اس امر پر متفق ہیں کہ ہمیشہ طریقہ ان لوگوں کا ترک دنیا
و شغل عبادت و علم رہا ۔ بعض ان میں درویش تھے جن کو صوفی و فقیر و زاہد کہتے ہیں
ان کو لڑائی سے کیا واسطہ ؟ وہ تو دنیا دار لوگوں سے ملاقات بھی نہیں کرتے ۔ ‘‘
( ترجمان وہابیہ صفحہ ۵۹)
نواب صاحب دوسرے مقام پریوں تحریر فرماتے ہیں:
’’ اہلِ حدیث تیرہ سو برس سے چلے آرہے ہیں ان میں سے کسی نے
ملک میں جھنڈا اس جہاد اصطلاحیہ حال کا کھڑا نہیں کیا ۔ اور نہ کوئی ان میں حاکم
یا بادشاہ کسی ملک کا بنا اکثر بلکہ سب کے سب زاہد تارک دنیا تھے فتنہ و فساد و
قتل و خون ریزی سے ہزاروں کوس بھاگتے تھے ۔‘‘
( ترجمان وہابیہ
صفحہ ۲۱ ، طائفہ منصورہ صفحہ ۲۰)
ترجمان
وہابیہ اب رسائل اہلِ حدیث جلد اول میں شامل ہو کر شائع کر دی گئی ہے ۔ اس کے
علاوہ مولانا محمد حسین بٹالوی غیرمقلد نے ’’ الاقتصاد فی مسائل الجھاد ‘‘ میں
جہاد کی خوب مخالفت کی ہے ۔
چوں کہ غیرمقلدین نے بہ اعتراف خود
کبھی جہاد نہیں کیا جب کہ طائفہ منصورہ والی حدیث میں یقاتلون علی
الحق کے الفاظ تھے
تو نتائج التقلید کے مؤلف حکیم محمد اشرف سندھو غیرمقلد نے حدیث میں گڑ بڑ
کر دی۔
حضرت مولانا صفدر رحمہ اللہ اس تحریف کی نشان
دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ لطیفہ : مؤلف نتائج التقلیدنے صفحہ ۲ پر
یہ روایت یقاتلون علی الحق نقل کرکے اپنی جماعت کے لئے ’’گمراہ فرقوں سے تحریری و
تقریری لڑتی جھگڑتی رہے گی یہاں تک قیامت برپا ہو ۔‘‘ (انتھی ) یہ ہے
یقاتلون علی الحق کا من بھاتا
معنی؟حیرت ہے کہ اس کھلی ہوئی تحریف معنوی پر بھی پوری جماعت نے اس کی تائید کی ہے
فواسفا !!‘‘
(طائفہ منصورہ صفحہ ۲۲)
نجات یافتہ جماعت کی تیسری
نشانی
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ
جماعت قیامت تک رہے گی ۔ ( بخاری :۱؍۱۶، مسلم : ۲؍۱۴۴)
یعنی اسلام کے شروع دَور سے آخر زمانہ
تک قیامت تک رہے گی .. . مگر غیرمقلدین کا نومولود ہونا خود انہی کی کتابوں سے
ثابت ہے ۔ دیکھئے الحطہ فی ذکر الصحاح الستۃصفحہ ۱۵۲، فتاویٰ علمائے حدیث
؛۷؍ ۸۰، الارشاد الی سبیل الرشاد صفحہ ۱۳۔
غیرمقلدین کے
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری لفظ ’’ وہابی ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’ اہلِ حدیث پر یہ لفظ حضرت میاں[ نذیر حسین دہلوی (ناقل
)] صاحب سے شروع ہوا کیوں کہ حضرت موصوف سے پہلے اہلِ حدیث کا گروہ بحیثیت غیرمقلد
ہندوستان میں نہ تھا جن لوگوں کو ان سے پہلے لوگ وہابی کہا کرتے تھے وہ مسائل
توحیدیہ کی وجہ سے کہتے تھے، نہ کہ مسائل ِ ترک تقلید وغیرہ کی وجہ سے۔ ‘‘
( اخبار اہلِ حدیث امرتسر ، ۸؍ ذی قعدہ ۱۳۳۶ھ ، بمطابق
اگست؍ ۱۹۱۸ء )
اس کا عکس
مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی کتاب’’ تاریخ ختم نبوت صفحہ ۴۳۴‘‘ پر دیکھا جا
سکتا ہے ۔
مولانا محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ نے
بھی ’’ زمانہ حال کے اہلِ حدیث کا آغاز‘] کا عنوان قائم کرکے ان کے نومولود ہونے
پر کئی صفحات میں بحث کی ہے ۔ (طائفہ منصورہ صفحہ ۹۸ تا ۱۰۹)
طائفہ منصورہ والی حدیث اور
حجیت ِ اجماع
اس حدیث میں جماعتِ حقہ کے لیے یہ بیان ہوا کہ
وہ قیامت تک ہر دَور میں رہے گی جس سے اجماع کی حجیت ثابت ہوتی ہے ۔ وضاحت اس کی
یہ ہے کہ جب کسی دَور میں ساری امت کسی بات پر اتفاق کرے گی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ
جماعت ِ حقہ بھی اس مجموعہ میں شامل ہی ہوگی ۔ عام امت کے ساتھ جماعتِ حقہ کااتفاق
کرنا اس مسئلہ کے حق ہونے کی دلیل ہے ۔ اگر وہ بات حق اور حجت نہ ہو تی تو جماعت
حقہ باقی امت کے ساتھ اتفاق نہ کرتی۔ کسی
مسئلہ کو جماعت حقہ کا قبول کر لینا اس مسئلہ کی حقانیت اور اجماع کی حجیت کی دلیل
ہے ۔
افسوس ہے کہ غیرمقلدین طائفہ منصورہ
والی حدیث کو اپنے اوپر چسپاں کرنے میں تو ہمہ تن کوشاں ہیں مگرا س سے جو اجماع کی
حجیت اور اس کا حق ہونا ثابت ہوتا ہے، اس کا انکار کر دیتے ہیں۔مولانا ثنا ء اللہ
امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بہت سے اہلِ حدیث ایسے ہیں
جو اجماع کے قائل نہیں بلکہ بعض قیاس کے بھی نہیں ۔ ‘‘
( اخبار اہلِ
حدیث امرتسر ، ۱۱؍جون ۱۹۱۵ء )
اس کا عکس ’’ تاریخ ختم نبوۃ صفحہ ۴۶۳‘‘ پر دیکھ
سکتے ہیں ۔
اہلِ حدیث اور تقلید
آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ طائفہ
منصورہ والی حدیث میں موجود علامتیں غیرمقلدین میں نہیں پائی جاتیں۔ مگر غیرمقلدین
کو حوالہ ہاتھ لگ گیا کہ فلاں نے کہا ہے کہ نجات یافتہ جماعت سے مراد اہلِ حدیث ہے
۔بس پھر کیا تھا انہوں نے نہ آؤ دیکھا ، اور نہ تاؤ جھٹ سے طائفہ منصورہ کا مصداق
اپنی جماعت غیرمقلدین کو قرار دینے لگ گئے ۔
حضرت مولانا صفدر رحمہ اللہ نے اپنی
اس کتاب میں تفصیل سے بحث کی ہے کہ پچھلے زمانہ میں اہلِ حدیث کا لفظ محدث کے لیے
بولا جاتا تھا خواہ وہ فقہی طور پر حنفی ہو یا مالکی، شافعی ہویا حنبلی۔ بلکہ کتب
رجال میں اہلِ حدیث یا محدث کا لفظ ان کے لیے بھی استعمال ہوا جو مذہبا شیعہ تھے ۔
جب بات یونہی ہے تو غیرمقلدین کو لفظ ’’ اہلِ حدیث ‘‘ سے بلا وجہ خوشی نہیں ہونی
چاہیے ۔
اب غیرمقلدین کو چاہیے تھا کہ وہ ثابت
کرتے کہ کتب رجال میں شیعوں کو اہلِ حدیث نہیں کہا گیا یا
احناف ،موالک، شوافع اور حنابلہ کو اہلِ حدیث
سے موسوم نہیں کیا گیا مگر یہ کام انتہائی مشکل ہے ،اس لئے غیرمقلدین میری معلومات
کے مطابق آج تک طائفہ منصورہ کا جواب نہیں لکھ سکے ، بلکہ اپنی تحریروں میں طائفہ
منصورہ کے مضمون کی تائید کر دی کہ اہلِ حدیث محدثین کو کہاگیا ہے ۔
طائفہ منصورہ کی تائید
غیرمقلدین کے قریباً سبھی علماء کا اتفاق ہے کہ
اہلِ حدیث اور محدث دونوں مترادف ہیں یعنی اہلِ حدیث کا مصدق محدث اور محدث ہی کو
اہلِ حدیث کہتے ہیں ۔اَب ذیل میں محدثین کا مقلد ہونا پڑھئے ۔
طائفہ منصورہ کتاب میں حضرت شیخ صفدر رحمہ اللہ
نے جو کچھ لکھا ہے اس کا اکثر حصہ محدثین کے مقلد ہونے پر مشتمل ہے ۔غیرمقلدین سے
نہ صرف یہ کہ اس کا جواب نہیں بن سکا بلکہ انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ہاں
محدثین بھی تقلید کیا کرتے تھے ۔ ان کا یہ اعتراف غیرمقلدین کی کئی کتب میں بکھرا
پڑا ہے ، اختصار کے پیش نظر ہم صرف چند حوالے علامہ عبدا لرشید عراقی غیرمقلد کی
کتاب ’’ کاروانِ حدیث ‘‘ سے پیش کرتے ہیں وباللہ التوفیق۔
۱۔ عراقی صاحب ’’ امام بخاری ؒ کا مسلک ‘‘ عنوان
قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ علامہ تقی الدین سبکی نے ان کو شافعی لکھا ہے۔ نواب صدیق
حسن خان نے بھی علامہ سبکی کی تائید میں ان کو شافعی مسلک کو پیرو قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر کی بھی ہی رائے ہے کہ امام بخاری شافعی مسلک کے تھے ۔ ‘‘
( کاروان ِ حدیث صفحہ ۶۶)
۲۔ عراقی صاحب ’’امام مسلم کا مسلک ‘‘ عنوان
قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ مولانا سید نواب صدیق حسن خان ( م ۱۳۰۷ھ) نے امام مسلم
کا مسلک شافعی لکھا ہے .. علامہ طاہر الجزائیری کہتے ہیں کہ : امام مسلم اصولی طور
پر شافعی تھے انہوں نے امام شافعی سے بہت کم اختلاف کیا ہے ۔ ‘‘
(کاروان ِحدیث صفحہ ۷۵)
۳۔ عراقی صاحب نے امام محمد بن نصر مروزی رحمۃ
اللہ علیہ متوفی ۲۹۴ھ کے متعلق لکھا:
’’امام مروزی فقہی اعتبار سے
امام شافعی کے مسلک سے وابستہ تھے ۔ ‘‘
( کاروان حدیث صفحہ ۱۰۵)
۴۔ عراقی
صاحب ’’امام نسائی کا مسلک ‘‘ عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’ علامہ تقی الدین سبکی نے ان کو شافعیہ میں شمارکیا ہے،
حضرت شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں: او شافعی المذہب بود چنانچہ مناسک او
برآں دلالت می کنند ،آپ کے مناسک سے پتہ چلتا ہے کہ آپ شافعی المذہب تھے۔ محی
السنہ مولانا نواب صدیق حسن رئیس بھوپال لکھتے ہیں : امام نسائی شافعی المذہب تھے
۔ حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: امام نسائی کا تعلق شافعی
مذہب سے تھا۔ ‘‘
( کاروان ِ حدیث صفحہ ۱۳۷)
۵۔ عراقی صاحب نے امام ابو عوانہ اسفرائنی رحمہ
اللہ متوفی : ۳۱۶ھ کے متعلق لکھا:
’’فقی مسلک میں امام شافعی کے مذہب سے وابستہ تھے اور ان کی
بدولت اسفرائن میں مذہب شافعی کی ترویج و اشاعت ہوئی۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۱۴۹)
۶۔ عراقی صاحب نے امام دارقطنی رحمہ اللہ متوفی
:۳۸۵ھ کے متعلق لکھا:
’’مسلک کے اعتبار سے امام دار قطنی شافعی المذہب تھے لیکن
اس کے ساتھ ان کا شمار صاحب الوجوہ فی المذہب فقہاء میں بھی ہوتا ہے ۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث
صفحہ۱۶۷)
۷۔عراقی صاحب نے امام خطابی رحمہ اللہ متوفی
:۳۸۸ھ کے متعلق لکھا:
’’امام خطابی اگرچہ خود اجتہادی بصیرت اور فقہی ژرف نگاہی
می ممتاز تھے تاہم وہ امام شافعی ؒ کے مسلک پر کاربند تھے ۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۱۷۱)
۸۔عراقی صاحب نے امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ
اللہ متوفی : ۴۳۰ھ کے متعلق لکھا:
’’فقہ میں امام شافعی کے مذہب
سے وابستہ تھے ۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۱۸۲)
۹۔عراقی صاحب
نے امام بیہقی رحمہ اللہ متوفی : ۴۵۸ھ کے حالات میں’’ فقہی مذہب ‘‘ کا عنوان قائم
کرکے متعلق لکھا:
’’ امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی کا شمار شافعی مذہب کے
اکابر ائمہ میں ہوتا ہے ان کو اس مذہب سے غیرمعمولی شغف تھا اور اس مذہب کی نشرو
اشاعت اور اس کی تہذیب و تنقیح میں انہوں نے اہم اور نمایاں کارنامے انجام دئیے،
شافعی مذہب کو امام بیہقی کی ذات سے بڑا فائدہ پہنچا، علمائے فن ، ارباب سیر اور
تذکرہ نگاروں نے مذہب کی ترقی و ترویج میں امام بیہقی کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے
۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۱۸۹)
۱۰۔ عراقی
صاحب نے امام ابن عبد البر رحمہ اللہ متوفی : ۴۶۳ھ کے حالات میں ’’ فقہی مذہب ‘‘
عنوان قائم کرکے متعلق لکھا:
’’حافظ ابن عبد البر فقہی مسلک میں امام مالک بن انس سے
وابستہ تھے۔ اوران کا شمار فقہ مالکیہ کے اکابر فقہاء میں ہوتا ہے لیکن وہ جامد
مقلد نہ تھے۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۱۹۹)
۱۱۔عراقی
صاحب نے امام ابو بکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ متوفی :۴۶۳ھ کے حالات میں ’’ فقہی
مذہب... ‘‘ عنوان قائم کرکے متعلق لکھا:
’’خطیب شافعی المذہب تھے اور ان کا شمار اکابر شافعیہ میں
ہوتا تھا۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۲۱۰)
۱۲۔عراقی صاحب نے امام بغوی رحمہ اللہ متوفی
:۵۱۹ھ کے حالات میں ’’ فقہی مذہب ‘‘ عنوان قائم کرکے متعلق لکھا:
’’امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ مجتہدانہ اوصاف کے باوجود امام
محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ
علیہ کے مذہب سے وابستہ تھے اور ان کا شمار
اکابر شوافع میں ہوتا ہے ۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ۲۲۲)
۱۳۔ عراقی
صاحب نے امام ابن العربی رحمہ اللہ مصنف احکام القرآن ... و .. .عارضۃ الاحوذی ،
متوفی :۵۴۳ھ کے حالات میں فقہی مذہب کا عنوان قائم کرکے متعلق لکھا:
’’امام ابن العربی امام مالک کے
فقہی مسلک سے وابستہ تھے ۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۲۳۰)
۱۴۔عراقی صاحب نے امام قاضی عیاض مالکی رحمہ
اللہ متوفی :۵۴۴ھ کے حالات میں ’’فقہی مذہب ‘‘ عنوان کے تحت لکھا:
’’قاضی عیاض،امام دار الہجرۃ مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ کے
مذہب سے وابستہ تھے اور ان کا شمار مالکی مذہب کے اکابرین میں ہوتا تھا۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۲۳۵)
۱۵۔ عراقی
صاحب نے امام ابن اثیر جزری رحمہ اللہ متوفی : ۶۰۶ھ کے حالات میں ’’ فقہی مذہب ‘‘
عنوان قائم کیا اوریوں لکھا:
’’علامہ مجدد الدین بن اثیر ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے
مذہب سے وابستہ تھے ۔ ‘‘
(کاروانِ حدیث صفحہ ۲۴۱)
عراقی صاحب نے ان کے علاوہ دیگر علمائے حدیث
یعنی محدثین کی بھی تقلیدی نسبتیں لکھی ہیں۔مثلاً
امام منذری شافعی تھے ۔
(کاروانِ حدیث صفحہ ۲۴۸)
امام نووی شافعی تھے ۔
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۲۵۳)
مشکوۃ کے مصنف خطیب تبریزی شافعی المسلک تھے۔
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۲۸۵)
ہندوستان کے نامور محدث شاہ عبدا لحق محدث دہلوی
حنفی ہیں۔
(کاروانِ حدیث صفحہ ۲۹۲)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ مسلکاً شافعی تھے ۔
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۳۲۳)
امام زیلعی رحمہ اللہ حنفی المسلک ہیں۔
(کاروانِ حدیث صفحہ ۳۲۹)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ متشدد شافعی ہیں۔
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۳۳۹)
ملاعلی قاری رحمہ اللہ حنفی المسلک تھے ۔
(کاروانِ حدیث
صفحہ ۳۴۹)
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ محدثین
بھی تقلید کرتے تھے لہذا اگر بعض نے طائفہ منصورہ کا مصداق محدثین کو قرار دیا ہے
تویہ غیرمقلدین کو مفیدنہیں ، اہلِ حدیث کا مصداق بھی محدثین ہی ہیں ، نہ کہ مادر
پدر آزاد غیرمقلد۔
تنبیہ: محدثین کے
سنین وفات بھی ہم نے ’’ کاروان ِ حدیث ‘‘ ہی سے لکھے ہیں۔
مقامِ ابی حنیفہ
اہلِ حدیث کہلوانے والے لوگوں میں بہت سے ایسے
افراد پائے جاتے ہیں جو ائمہ مجتہدین اور بزرگان دین کی توہین اور گستاخی کیا کرتے
ہیں ۔ ان کے گستاخ ہونے شکوہ جہاں اہلِ سنت احناف کو ہے ،وہاں خود ان کے اپنے کئی
علماء کو بھی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ علامہ وحیدا لزمان نے اپنے دَور کے اہلِ
حدیثوں کے متعلق لکھا:
’’ اگلے ائمہ دین جیسے امام ابوحنیفہ ، امام شافعی وغیرہ یا
دوسرے اولیاء اللہ یا صوفیہ کرام ہیں، ان کی توہین کرتے ہیں ۔ ‘‘
( تیسیرا لباری : ۶؍۴۹۹، نعمانی کتب خانہ )
علامہ صاحب دوسری جگہ اہلِ حدیث
کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ بعضے اگلے اماموں اور مجتہدین اور پیشوایان دین پر جیسے
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ ہیں طعن کرتے ہیں ۔ ‘‘
( لغات الحدیث :۱؍۲۱، کتاب :د)
علامہ صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ بعضے عوام اہلِ حدیث کا یہ
حال ہے کہ انہوں نے صرف رفع یدین اور آمین بالجہر کو اہلِ حدیث ہونے کے لیے کافی
سمجھا ہے ۔باقی اور آداب اور سنن اور اخلاقِ نبوی سے کچھ مطلب نہیں۔ غیبت ، جھوٹ
،افتراء سے باک نہیں کرتے۔ائمہ مجتہدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء اور
حضرات صوفیہ کے حق میں بے ادبی اور گستاخی کے کلمات زبان پر لاتے ہیں۔ ‘‘
( لغات الحدیث : ۲؍۹۱، کتاب: ش )
۲۔نواب صدیق حسن خان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اس زمانہ کی آفات میں سے ایک یہ آفت بھی ہے کہ تقلید کے
ردّ و قدح میں حضرات ائمہ عظام تک طعن وتشنیع کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ ‘‘
( مآثر صدیقی :۴؍۲۲)
۳۔ غیرمقلدین کے شیخ الکل فی
الکل میاں نذیر حسین دہلوی اپنے غیرمقلدین کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ کچھ تو ائمہ مجتہدین کو گالی وغیرہ دیتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ ہم اپنے آپ کو حنفی یا شافعی کہنا شراب نوشی اور زنا کاری سے بھی بڑا گناہ
سمجھتے ہیں۔ ‘‘
( فتاویٰ نذیریہ : ۱؍۱۸۳)
مذکورہ عبارت حیدر علی صاحب کی
ہے مگر میاں صاحب نے اس پر دستخط کئے ہیں ۔
۴۔ غیرمقلدین کے مایہ ناز بزرگ مولانا داود
غزنوی نے کہا:
’’ دوسرے لوگوں [ مقلدین (ناقل
)] کی یہ شکایت کہ اہلِ حدیث حضرات ائمہ اربعہ کی توہین کرتے ہیں ، بلاو جہ نہیں
۔میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے علاقہ میں عوام اس گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہیں اور
ائمہ اربعہ کا اقوال کا تذکرہ حقارت کے ساتھ بھی کر جاتے ہیں۔ “
مولانا داود غزنوی نے یوں بھی
کہا:
’’ جماعت اہلِ حدیث کو حضرت امام ابوحنیفہ کی روحانی بدد عا
لے کر بیٹھ گئی ہے ،ہر شخص ابو حنیفہ ابوحنیفہ کہہ رہاہے ،کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے
تو امام ابوحنیفہ کہہ دیتا ہے،پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین
حدیثیں جانتے تھے، یازیادہ سے گیارہ ۔اگر کوئی بہت بڑا احسان کرے تو انہیں سترہ
حدیثوں کا عالم گردانتا ہے جو لوگ اتنے بڑے جلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطہ
نظر رکھتے ہوں ان میں یکجہتی و اتحاد کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے یا
غربۃ الاسلام انما اشکو بثی و حزنی الی اللّٰہ ۔ ‘‘
( مولانا داود غزنوی صفحہ ۱۳۶)
ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ
غیرمقلدین ائمہ مجتہدین و اولیاء کرام خصوصا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی
توہین اور گستاخی کیا کرتے ہیں۔ ان حضرات میں ایک شخص حکیم محمد اشرف سندھو ( قصور
) ہیں جنہوں نے امام صاحب پر بے جا اعتراضات کرکے انہیں مطعون کیا ہے ۔ مقام ابی
حنیفہ کتاب انہی کے جواب میں لکھی گئی ۔ مصنف کتاب،سبب تالیف ذِکر کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’ نتائج التقلید[مؤلفہ حکیم
محمد اشرف سندھو(ناقل )]کے نام سے ان کی ایک مرکزی کتاب کچھ عرصہ سے شائع ہوئی ہے
جس پر ان کی ثنائی اور روپڑی پارٹی کے تقریباسبھی حضرات کی تصدیقات موجود ہیں چوں
کہ فریق ثانی اس طرز و طریق سے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ
، آپ کے اصحاب اور کتب فقہ حنفی سے عوام کو متنفر کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے
۔اس لئے ہم نے اس کتاب کا نام مقام ابی حنیفہ ؒ تجویز کیا ہے اور پورے بسط کے ساتھ
ہم نے اپنے دعاوی پر ٹھوس حوالہ جات نقل کئے ہیں۔‘‘
(مقام ابی حنیفہ
صفحہ ۳۴)
حضرت مولانا
محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے مقام ابی حنیفہ کا تعار ف ان الفاظ میں کرایا ہے :
’’ مولانا کا اسم گرامی تو عرصہ سے کانوں میں پڑ تا رہا
لیکن ان کو سمجھنے کا موقع اس کتاب ( مقامی ابی حنیفہ ؒ ) سے ملا۔ اکثر حصہ حرفاً
حرفاً دیکھا ۔ماشاء اللہ امام اعظم رحمہ
اللہ کے مختلف گوشے ، فقہ میں نادرہ عالم اور فقیہ امت ہونے کے نقول، حفظ حدیث و
دقت نظر، کثرت مرویات، قلت روایت کا منشاء پرموثوق مآخذ سے غرر النقول آگئے اور
تقریبا اکثر ابحاث پر استیفاء کے ساتھ سیر حاصل تبصرہ بصیرت افروز محققانہ انداز
سے ہوگیا اور معترضین و ناقدین کے شکوک و شبہات و وساوس و اوہام کا نہایت خوش
اسلوبی سے استیصال کیا گیا ۔اندازِ تحریر عالمانہ ہے، اردو شگفتہ ہے، اسلوب بیان
مؤثر ہے، کہیں کہیں ادیبانہ ہے۔ ‘‘
( مقام ابی حنیفہ صفحہ ۲۴)
۲۸۴ صفحات کی
کتاب پہ حضرت مولانا بنوری رحمہ اللہ نے جچا تلا تبصرہ کر دیا ۔
اس کتاب کی منجملہ خوبیوں میں ایک
خوبی یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنے دعویٰ پر جہاں اہلِ سنت حضرات
کی عبارات
نقل کی ہیں وہاں غیرمقلدین کی عبارتیں بھی کئی جگہ نقل کی ہیں۔
مقام ابی حنیفہ کا مخالفین میں
اثر
مصنف
علیہ الرحمۃ نے یہ کتاب ’’ مقام ابی حنیفہ ؒ ‘‘ ۱۳۸۱ھ میں تحریر کی ۔ اس کی اشاعت
کو قریبا چونسٹھ سال کا طویل عرصہ ہو چلا ہے مگر اَب تک مخالفین کی طرف سے اس کا
جواب نظروں سے نہیں گزرا ۔ نہ صرف یہ کہ غیرمقلدین اس کے جواب سے عاجز رہے ہیں
بلکہ اس کے بہت سے مضامین کو قبول کرکے مہر تصدیق ثبت کی ہے ۔ ذیل میں اس کے شواہد
ملاحظہ ہوں ۔
امام ابوحنیفہ کا فقہی مقام
حضرت
مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان نقل
کیاکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خوشہ چین اور عیال ہیں۔ (مقام
ابی حنیفہ صفحہ ۷۴)
غیرمقلدین نے
بھی امام صاحب کے فقہی مقام کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ پروفسیر طالب الرحمن غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ امام ابوحنیفہ ؒ ( جن کا نام نعمان بن ثابت ہے ) کو فقیہ
العراق تسلیم کیا گیا ہے اورامام شافعی ؒ کے نزدیک (الناس فی الفقھ
عیال ابی حنیفۃ ) لوگ فقہ
میں امام ابوحنیفہ ؒ کے محتاج ہیں ۔ ‘‘
( اصلی نماز ِ
حنفی صفحہ ۱۵)
مولانا محمد اسحاق بھٹی
غیرمقلدنے اہلِ حدیث کے متعلق لکھا:
’’ وہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فراست فقہی ،
فطانت علمی اور اجتہادی صلاحیتوں کا دل کی گہرائیوں سے اعتراف کرتے ہیں اور جس
نہیج سے انہوں نے قصر ِ فقاہت کو ہم کنار ِ رفعت کیا وہ ان کی ذہانت اور علم و
دانش کی گہرائی و گیرائی کا بین ثبوت ہے ۔ ‘‘
( برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد صفحہ ۱۶۶)
امام ابوحنیفہ کی استقامت
مولانا صفدر رحمہ اللہ نے تاریخ کی
مختلف کتب سے نقل کیا ہے کہ حاکم وقت نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو عہدہ پیش کیا
مگر انہوں نے حکومت وقت کے ظلم وجور اور بے اعتدالیوں کے پیش ِ نظر اس عہدہ کو
قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ (مقام ابی حنیفہ صفحہ ۹۰)
قریباً اسی طرح کی بات غیرمقلدین کے ’’ حافظ ‘‘
عبد الرحمن مدنی نے کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ امام ابوحنیفہ ؒ تو اس [امام مالک ؒ (ناقل )] سے بھی بڑھ
کر محتاط تھے ۔ قاضی کا اجتہاد اگرچہ شریعت کی ایک خاص تعبیر ہوتا ہے اور وہ غلطی
کے امکان کے باوجود لاگو بھی ہوتا ہے ۔ تاہم امام ابوحنیفہ ؒ نے منصب قضاکو قبول کرنے
سے صرف اس خطرے کی بناپر انکار کر دیا کہ قضاء و قانون کے میدان میں مبادہ ، ان پر
دباؤ ڈالا جائے اور حکومت وقت انہیں اپنی خواہشات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرے ۔
‘‘
( ماہ نامہ محدث
اپریل ؍۲۰۰۵ء صفحہ ۳۱)
بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ حاکم ِ وقت
نے انہیں اس انکار کے جرم میں شہید کر ادیا مگر انہوں نے آخرت کی سزا پر دنیا کی
سزا سہنے کو ترجیح دی ۔ یوں استقامت کے باب میں ایک روشن مثال ثابت ہوئے ۔
امام ابوحنیفہ کی فقہ شورائی
مولانا
صفدررحمہ اللہ نے لکھاکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جو فقہ مدون کرائی وہ ان کی ذاتی
رائے نہ تھی بلکہ وہ شورائی فقہ تھی اس کام پر ایک مستقل ایک جماعت تھی ۔ (مقام
ابی حنیفہ ؒ صفحہ ۱۰۲)
مولانا محمد اسحاق بھٹی غیرمقلد نے
بھی تسلیم کرلیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تدوین فقہ کے میدان میں ایک جماعت
سمیت اترے ۔ بھٹی صاحب کے الفاظ یہ ہیں:
’’ تدوین فقہ کے سلسلے میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ
علیہ کا نام نامی سر فہرست نظر آتا ہے وہ پہلے جلیل القدر بزرگ ہیں جو اقتدار بنو
امیہ کے خاتمے کے بعد اپنے تلامذہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس میدان میں اُترے ۔ ‘‘
( برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمدہ صفحہ ۲۲۲)
امام ابوحنیفہ ؒکی تابعیت
مولانا صفدر علیہ الرحمۃ نے لکھاکہ امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے ۔ ( مقام ِ ابی حنیفہ صفحہ ۸۲،۱۰۸)
امام صاحب کی تابعیت کو بعض نامور
غیرمقلدین نے بھی مان لیا ۔میرے سامنے اس وقت امین اللہ پشاوری صاحب غیرمقلد کی
کتاب ’’ حقیقۃ التقلید و اقسام المقلدین ‘‘ ہے ۔ اس میں ایک سے زائد
جگہ پر امام
صاحب کو
تابعی کہا گیا ہے۔ ایک جگہ لکھاہے :
’’ امام ابوحنیفہ ؒ تابعی ہیں لیکن من حیث
الرؤیۃ لا من حیث الروایۃ ۔ یعنی امام ابوحنیفہ ؒ ایسے تابعی ہیں جنہوں نے صغر سنی
(بچپن )میں صحابہ کرام کو دیکھا ہے لیکن ان سے روایت نقل نہیں کر سکے ۔ ‘‘
( حقیقۃ التقلیدصفحہ ۵۴)
ایک اور جگہ لکھا ہے :
’’ بذات ِ خود امام ابوحنیفہ ؒ کے عظمت ِمقام کے ضرور قائل
ہیں کیوں کہ آپ تابعی تھے اور خیرا لقرون سے آپ کا تعلق تھا۔ ‘‘
( حقیقۃ
التقلیدصفحہ ۶۶)
ایک مقام پر یہ عبارت تحریر ہے
:
’’ جہاں تک امام صاحب کے تابعی
ہونے کا تعلق ہے تو وہ تابعی ضرور ہیں ۔‘‘
( حقیقۃ
التقلیدصفحہ ۶۷)
امام ابوحنیفہ متقی تھے
مولانا
صفدر رحمہ اللہ نے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا کہ امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ متورع اور متقی تھے ۔ ( مقام ِ ابی حنیفہ صفحہ ۷۲)
امام صاحب کی
اس خوبی کو غیرمقلدین نے بھی تسلیم کرلیا ہے چنانچہ غیرمقلدین کے مایہ ناز مصنف
زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’ امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے فرمایا : ادرکت
الناس فما رائت احدا اعقل ولا افضل ولا اورع من ابی حنیفۃ ،میں نے لوگوں کو دیکھا تو ابو
حنیفہ سے زیادہ عقل مند، افضل اور زیادہ پرہیز گار دوسرا کوئی نہیں دیکھا ۔ (
تاریخ بغداد و سندہ صحیح ، الاسانید الصحیحۃ فی اخبار الامام ابی حنیفۃ قلمی ص ۷۴)
معلوم ہوا کہ امام یزید بن ہارون سے امام ابوحنیفہ کی تعریف ثابت ہے ۔ ‘‘
( فتاویٰ علمیہ :۲؍۳۸۲)
مولانا داود ارشد غیرمقلد نے بھی امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو متقی اور پرہیز گار تسلیم کیا ہے اور مولانا یحییٰ گوندلوی غیرمقلد نے تو امام صاحب کو تقوی و ورع
میں بے مثال قرار دیا ہے۔ حوالہ جات آگے منقول ہوں گے ان شاء اللہ ۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث ِ رسول کے
فدائی تھے
مولانا صفدر رحمہ اللہ نے لکھا کہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث کے فدائی تھے، حدیث سن کر فورا گردن جھکا دیتے تھے ۔
( مقام ابی حنیفہ صفحہ ۱۳۸)
دَور ِ حاضر
کے غیرمقلدین نے کھلے لفظوں امام صاحب کا عامل بالحدیث ہونا تسلیم کر لیا ہے مثلاً
ابو صہیب محمد داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ ہم امام صاحب کو مسلمان،
پرہیز گار، متقی، اللہ کو یاد کرنے والا، قرآن کا خادم، حدیث رسول کا فدائی، اسلام
کا محسن، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تصور کرتے ہیں اور ان کے بعض اجتہادات
کو دیگر ائمہ کی نسبت ترجیح دیتے ہیں لیکن انہیں معصوم تسلیم نہیں کرتے۔ ‘‘
(دین الحق : ۱؍۵۱۷)
ابو انس یحی گوندلوی غیرمقلد
لکھتے ہیں :
’’ امام الفقہاء امام ابوحنیفہ فقاہت میں لاثانی، تقویٰ و
ورع میں بے مثال،حدیث پر عمل کرنے، ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم سمجھنے والے تھے ...
خدا ان پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کی قبر کو منور فرمائے وہ ان مقدس
ہستیوں میں تھے جنہوں نے قیاس کو عند الحاجت (مجبوری کے وقت ) استعمال کیا لیکن
حدیث کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ، آپ عامل بالحدیث تھے ۔‘‘
( مقلدین ائمہ کی عدالت میں صفحہ ۱۰۳)
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے
بارے میں ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وہ حدیثیں مانتے تھے ۔ ‘‘
( دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ ۲۱)
امام ابوحنیفہ کا طریق استنباط
عرصہ
دراز سے متعدد غیرمقلدین یہ پرو پیگنڈا کرتے چلے آئے ہیں کہ امام ابوحنیفہ قرآن و
حدیث کے خلاف محض اپنی رائے سے فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ مولانا صفدر علیہ الرحمۃ نے
اس کی تردید کرتے ہوئے تاریخ بغداد سے امام صاحب کا فرمان نقل کیا کہ میں مسئلہ
کتاب اللہ سے لیتا ہوں ۔اس میں نہ ملے تو حدیثِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )سے اور
اگر حدیث میں نہ ملے تو پھر صحابہ کی طرف آتاہوں اور اگر صحابہ سے مسئلہ کا حل نہ
ملے تو پھر اجتہاد کرتا ہوں۔ (مقام ابی حنیفہ صفحہ ۱۸۳)
اَب بعض غیرمقلدین نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا
ہے مثلاً مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں:
’’ امام ابوحنیفہ کامسائل دینی میں طریق استنباط یہ تھا کہ
پہلے جواب مسئلہ کتاب اللہ سے تلاش کرتے وہ جواب کتاب اللہ کی عبارۃ النص سے ہو،
دلالۃ النص سے ہو ، اشارۃ النص سے ہو یا اقتضاء النص سے ۔ اگر اس میں کامیاب ہو
جاتے تو اسی کا تعین کرتے۔اگر اس کا کتاب اللہ سے سراغ نہ ملتا یا کتاب کی روشنی
میں بات کا فیصلہ نہ ہو سکتا ہو تو سنت مشہورہ کی طرف رجوع فرماتے ۔ اگر سنت
مشہورہ کے ذریعے کسی نتیجہ پر نہ پہنچ پاتے تو اہلِ فتویٰ صحابہ اور تابعین کے
اقوال اور قضایامیں اس کی تلاش شروع کرتے ۔ ‘‘
( برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد صفحہ ۲۲۳)
غیرمقلدین
کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو امام الفقہاء ، بڑی شان کا مالک، تابعی، عقل مند
،افضل ، پرہیز گار ، اللہ کو یاد کرنے والا، قرآن کا خادم ، حدیث رسول کا فدائی ،
اسلام کا محسن ، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ، فقاہت میں لاثانی، تقووی
و ورع میں بے مثال، ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم سمجھنے والا وغیرہ خوبیوں سے متصف
تسلیم کر لینا مقام ابی حنیفہ وغیرہ کتب کا ثمرہ ہے والحمد للہ ۔
مقام ابی حنیفہ کی طرف غلط
انتساب
مقام
ابی حنیفہ کتاب کے تعارف میں ایک غلط بیانی کی نشان دہی بھی کرتا چلوں ۔ نوشہرہ
ورکاں ضلع گوجرانوالہ کے ایم حسن محمد غیرمقلد نے کہا:
’’ فقہ حنفی کے اکثر مسائل قرآن
و حدیث کے مخالف ہیں اس امر کا اعتراف مولانا محمد سرفراز
آف گکھڑوی کی کتاب مقام ابی
حنیفہ ؒ میں بھی موجود ہے ۔ ‘‘
( ہم اہلِ حدیث
کیوں ہوئے ؟صفحہ ۳۱۰)
حسن صاحب کی مذکورہ بات غلط ہے ،حضرت
مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ نے نہ یہ اعتراف کیا اور نہ ہی اس قسم کی
بات انہوں نے لکھی ہے بلکہ اس کے برعکس فقہ حنفی کی برتری کو ثابت کیا ہے ۔ ( مقام
ابی حنیفہ صفحہ ۱۰۲)
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایم
حسن صاحب تو فقہ حنفی کے اکثر مسائل کو قرآن و حدیث کے خلاف سمجھتے ہیں جب کہ وکیل
اہلِ حدیث کہلائے جانے والے بزرگ مولانا محمد حسین بٹالوی نے لکھا ـ:
’’ ہم اکثر مسائل میں امام
الائمہ ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی تقلید کرتے ہیں۔ ‘‘
( اشاعۃ السنہ :۲۳؍۱۲۸)
بٹالوی صاحب
پر کیا فتویٰ لگائیں گے جو اکثر مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرنے
کے دعوے دار ہیں۔
غیرمقلدین کے
رسالہ ’’ الاعتصام ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ اہلِ حدیث یا غیرمقلدین کے ہاں فقہ حنفی کو علوم میں بہت
ہی اونچا درجہ حاصل ہے ۔ ان کے مدارس میں یہ باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے ان کے نصابِ
تعلیم میں داخل ہے اور قدوری سے لے کر ہدایہ تک تمام کتابیں بالالتزام طلباء کو
پڑھائی جاتی ہیں ان کے ہاں اسے مسائل سمجھنے کے لئے اس کی تعلیم کو ضروری سمجھتے
ہیں۔ ‘‘
( الاعتصام
فروری ؍۱۹۶۲ء بحوالہ مقام ابی حنیفہ صفحہ ۲۶۷)
غیرمقلدین
کے اس جماعتی رسالہ کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حسن صاحب نے فقہ حنفی کے
متعلق جو اپنا تجزیہ پیش کیا، وہ غلط ہے ۔
عمدۃ الاثاث فی حکم الطلقات
الثلاث
۱۲۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب طلاق ثلاثہ کے مسئلہ
پر لکھی گئی ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔حضرت مولانا علیہ الرحمۃ نے اس کے پہلے باب
میں قرآن کی ایک آیت اور انیس احادیث ِ مرفوعہ و موقوفہ کو پیش کیا کہ ایک مجلس یا
ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں اور اس کتاب کے دوسرے باب میں
فریق مخالف کے شبہات کا ازالہ کیا ہے ۔
اجماع ِصحابہ
شافعی المسلک بزرگ حافظ ابن حجر
عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تحریم متعہ اور اس طرح تین طلاقوں کے تین ہونے پر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اتفاق و اجماع واقع ہو چکا ۔
( فتح الباری :۹؍۲۹۳بحوالہ عمدۃ
الاثاث صفحہ ۳۴)
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ کو ’’ غیرمقلد ‘‘ لکھا ہے ۔ ( اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۵۴)
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کی
تحقیق یہ ہے کہ تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ۔ ( فتاویٰ
ثنائیہ :۲؍۲۱۹، بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۱۰۰)
ائمہ اربعہ کا مسلک
قاضی شوکانی غیرمقلد اور شمس الحق
عظیم آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں کہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین
طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔
( نیل الاوطار ۶؍۲۴۵، التعلیق المغنی :۲؍۴۴۴،
بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۳۸)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک
امام بخاری
رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔
(بخاری :۲؍۷۹۱، فتح الباری : ۹؍۳۶۵ )
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ایک مجلس کی تین طلاق میں ہم
اہلِ حدیث بخاری وغیرہ کے خلاف ہیں ۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ
حدیث : ۱؍۷)
علامہ ابن حزم ظاہری کا مسلک
اہلِ
ظواہر کے امام علامہ ابن حزم ظاہری کے نزدیک بھی مجلس واحد کی تین طلاقیں تین شمار
ہوتی ہیں۔
( محلی ابن حزم :۱۰؍۲۰۷)
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا کہ علامہ ابن حزم ظاہری اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کے وقوع
کومانتے ہیں ۔
( اغاثۃ
اللہفان :۱؍۳۲۹)
علامہ ابن تیمیہ کی رائے
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے اپنے غیرمقلد
کے فتوی کا رد کرتے ہوئے لکھا:
’’ مجیب مرحوم نے جو لکھا ہے کہ تین طلاق مجلس واحد کی
محدثین کے نزدیک ایک کے حکم میں ہیں یہ مسلک صحابہ ، تابعین و تبع تابعین و غیرہ
ائمہ محدثین متقدمین کا نہیں ہے۔ یہ مسلک سات سو سال کے بعد کے محدثین کا ہے جو
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے فتوی کے پابند اور ان کے معتقد تھے ۔یہ فتوی شیخ
الاسلام نے ساتویں صدی کے آخر یا اوائل آٹھویں میں دیا تھا تو اس وقت کے علماء
اسلام نے ان کی سخت مخالفت کی تھی ۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۲۱۹ بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۱۰۳)
حافظ ابن تیمیہ کی پیروی
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کی
تصریح کے مطابق تین طلاقوں کو ایک قرار دینا صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، ائمہ
محدثین متقدمین کا مسلک نہیں ہے ۔لیکن اہلِ حدیث کہلوانے لوگ ان سب کے خلاف اس
مسئلہ میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پیرو ہیں اور خود متعدد غیرمقلد علماء نے
اعتراف کیا ہے کہ اہلِ حدیث لوگ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیروی کیا کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم ان کی عبارتیں ’’ الکلام المفید ‘‘ کے تعارف میں نقل کر چکے ہیں ۔ایک
نظر پھر انہیں وہاں ملاحظہ فرما لیں۔
غیر مقلدین کی بے اعتدالیاں
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کے تین
ہونے کو نافذ فرمایا ۔غیرمقلدین اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ
عنہ کا یہ فیصلہ شرعی نہ تھا، بلکہ سیاسی تھا ۔
سیدنا
عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کو شرعی نہ ماننا غیر مناسب عمل ہے۔ خود غیرمقلد عالم
مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی صاحب نے اس کی یوں تردید کی:
’’ حضرت عمر ؓ کی نسبت یہ تصور دلانا کہ انہوں نے معاذ اللہ
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدل ڈالا، بہت بڑی جرأت ہے واللہ اس عبارت
کو نقل کرتے وقت ہمارا دل دہل گیا اور حیرانی ہوگئی کہ ایک شخص جو خود مسئلہ کی
حقیقت نہیں سمجھا وہ خلیفہ رسول اللہ کی نسبت یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ سنت کے بدلنے
میں اس قدر جری تھا... آخرمیں ہم پھر دہراتے ہیں کہ متقدمین میں سے امام مالک کا
مؤطا، پھر امام شافعی کی کتاب الام، پھر متاخرین میں سے شاہ ولی اللہ صاحب کی
ازالۃ الخفا ملاحظہ فرمائیے ... ان سب کتب میں حضرت عمر ؓ کی موافقت دلائل شرعیہ
سے کی گئی ہے ۔ ‘‘
( اخبار اہلِ حدیث امر تسر ، ۱۵؍ نومبر ۱۹۲۹ بحوالہ عمدۃ
الاثاث )
سیالکوٹی صاحب تو سیدنا عمر رضی اللہ
عنہ پر سنت بدل دینے کے الزام پر حیران ہو رہے ہیں حالاں کہ رئیس محمد ندوی
غیرمقلد نے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر قرآنی فیصلہ تبدیل کرنے کا الزام عائد کر
دیا ہے۔ چنانچہ وہ ان کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ موصوف نے بہ اعتراف خویش اس قرآنی حکم میں ترمیم کر دی،
اس قرآنی حکم میں موصوف نے یہ ترمیم کی کہ تین ( طلاقیں ) قرار پانے لگیں۔ ‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلہ الطلاق صفحہ ۴۸۷)
مزیدکئی
بے اعتدالیاں غیرمقلدین سے سر زد وہوئیں ہیں مثلا رئیس محمد ندوی نے اپنی کتاب
’’تنویر الآفاق‘‘ میں تین طلاقوں کے قائل صحابہ کرام پر جارحانہ حملے کئے ہیں جسے
یہ کتاب میسر نہ ہو وہ حضرت مولانا محمد ابوبکر غازی پوری صاحب کی کتاب ’’
غیرمقلدین کا صحابہ کرام کے بارے میں نقطہ ٔ نظر ‘‘ کا مطالعہ کرے اس میں ان کی
جارحانہ عبارتوں کو نقل کرکے رد کیا گیا ہے ۔
عمدہ الاثات مختصر اور جامع کتاب ہے
غیرمقلدین کی بے اعتدالیوں کے جواب میں کئی
کتابیں معرض ِ وجود میں آئیں مثلا حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی ’’ الازھار المربوعۃ ‘‘ ، حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب کی دو
کتابیں: تاریخ طلاقِ ثلاثہ ... اور .. تین طلاقیں اور حلالہ مشمولہ تجلیاتِ صفدر
جلدچہارم طبع ملتان وغیرہ ۔ مگر ان میں سب سے زیادہ مشہور ’’ عمدۃ الاثاث ‘‘ ہے جو
دَور حاضر کے ایک معرکۃ الآراء مسئلہ پر لکھی گئی ہے مگر نہایت اختصار کے ساتھ ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
رحمہ اللہ ( جو مصنف عمدۃ الاثاث کے استاد بھی ہیں ) نے اس کتاب کوموضوع کے حوالہ
سے کافی بتایا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا فیصلہ اس پر شاہد ہے کہ اظہار ِ غضب کے باوجود آپ ؐ نے تین طلاقوں کو نافذ
فرمایا جس کے بہت سے واقعات کتب حدیث میں مذکور ہیں اور جن علماء نے اس مسئلہ پر
مستقل کتابیں لکھی ہیں اُن میں ان واقعات کو جمع کر دیا ہے ۔حال میں مولانا ابو
االزاہد محمد سر فراز صاحب کی کتاب ’’ عمدۃ الاثاث ‘‘ بھی اس مسئلہ پر شائع ہو گئی
ہے جو بالکل کافی ہے۔‘‘
( معارف القرآن :۱؍۵۶۳)
مسئلہ قربانی
رد غیرمقلدیت پر لکھی گئی کتابوں میں سے حضرت
مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’مسئلہ قربانی ‘‘ ہے۔ مولانا
عبد الحق خاں بشیر صاحب حفظہ اللہ نے اس کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:
’’ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس رسالہ میں منکرین حدیث کے اس
طبقہ کا رد کرتے ہوئے جو خود کو اہلِ قرآن کہلاتا ہے اور قربانی کو خلاف اسلام اور
جانوروں کا ضیاع قرار دیتا ہے ، ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قربانی ایک مسنون
عمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہلِ حدیث حضرات کے موقف کے جواب میں، جو تین دن کی بجائے
چار دن تک قربانی کا قائل ہے یہ واضح کیا ہے کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک قربانی کے
تین ہی ایام ہیں۔ اس رسالہ کے جواب میں حافظ محمد ابراہیم غیرمقلد نے ’’ ایام
قربانی ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا تو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی
زید مجدہم نے اس کا جواب ’’ سیف یزدانی ‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا جو ’’ مسئلہ
قربانی ‘‘ کی طبع دوم کے ساتھ ہی شائع ہوا۔ ’’
( الشریعہ خصوصی
اشاعت، بیاد امام اہلِ سنت صفحہ ۱۴۷)
بشیر صاحب نے ایام قربانی کا مصنف حافظ محمد
ابراہیم بتلایا ہے مگر مسئلہ قربانی میں مندرج ’’سیف یزدانی‘‘ کے مطالعہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ ایام قربانی حافظ محمد قاسم کا لکھا ہوا رسالہ ہے واللہ اعلم ۔
حضرت مولانا محمد سر فراز خاں صفدر علیہ الرحمۃ
لکھتے ہیں:
’’ ہماری طرف سے اس کے جواب الجواب میں ایک چھوٹا رسالہ
شائع ہوا جس کا نام ’’ سیف یزادانی ‘‘ ہے جس کا جواب تادم ِ تحریر ہماری نظر سے
نہیں گزرا ۔ ‘‘
( مسئلہ قربانی صفحہ ۳)
سیف
یزدانی کا جواب میری نظر سے بھی نہیں گزرا ۔ اس کے برعکس غیرمقلدین کے مصنف شیخ
زبیر علی زئی نے بجائے تردید کے جمہور کے مسلک کے مطابق قربانی کے تین دن ہی قرار
دئیے ہیں اور چوتھے دن قربانی والے نظریہ کا انکار کر دیا ہے ۔ اور بھی کئی
غیرمقلدین مثلا ًشیخ غلام مصطفی ظہیر،شیخ فاروق رفیع اور خرم شہزاد محمدی بھی تین
دن کے قائل ہیں اورچوتھے دن سے انکاری۔ حوالہ جات بندہ کی کتابوں ’ ’ زبیر علی زئی
کا تعاقب ‘‘ وغیرہ میں منقول ہیں۔
(۱)بخاری و
مسلم میں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ تم میں سے جو
شخص قربانی کرے تو تیسری رات کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت کی ایک بوٹی بھی
نہیں ہونی چاہیے۔
( بخاری : ۲؍۸۳۵،مسلم :۲؍۱۵۸)
حضرت مولانا
محمد سر فراز خان صفدر صاحب نے علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا
:
’’ ہماری دلیل وہ حدیث ہے جس میں رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ
وسلم نے تین دن سے زائد قربانی کا گوشت ذخیر رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے کیوں کہ جس
وقت تک قربانی کا گوشت رکھنا درست نہیں ، اس وقت قربانی کرنا بھی صحیح نہیں ہے ۔
‘‘
( مسئلہ قربانی صفحہ ۲۷)
شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں تین دن سے
زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا ۔ بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ یہ
ممانعت اس کی دلیل ہے کہ قربانی تین دن ہے والا قول ہی راجح ہے ۔‘‘
( فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الکلام : ۲؍۱۸۱)
۲۔ حضرت
مولانا محمد سر فراز خاں صفدر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عمر، سیدنا انس بن مالک،
سیدنا عبد اللہ بن عباس ، سید ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کا موقف نقل کیا کہ وہ تین
دن قربانی کرنے کے قائل تھے ۔ ( مسئلہ قربانی )
شیخ
زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی انہی صحابہ کرام سے تین دن قربانی کا مسلک نقل کیااور
ان آثار کو سنداً صحیح یا حسن تسلیم کیا ہے۔ ( فتاویٰ علمیہ )
۳۔ حضرت
مولانامحمد سرفراز صاحب نے تین دن قربانی کو جمہور کا موقف بتلایا ہے ۔ ( مسئلہ
قربانی صفحہ ۲۵)
شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے بھی اس موقف کو جمہور صحابہ کرام کا مسلک بتایا ہے۔ ان کے الفاظ یہ
ہیں:
’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جمہور صحابہ کرام کا یہی قول
ہے کہ قربانی کے تین دن ( عید الاضحیٰ اور دو دن بعد ) ہیں ہماری تحقیق میں یہی
راجح ہے اورامام مالک وغیرہ نے بھی اسے ترجیح دی ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ علمیہ :۲؍۱۸۱)
۴۔ غیرمقلدین
ایک روایت پیش کیا کرتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ایام
تشریق ذبح کے دن ہیں۔‘‘ پھر کہتے ہیں کہ ایام تشریق میں آخری دن تیرہویں ذوالحجہ
کا ہے لہذا قربانی کے دن چار ہوئے۔ حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ
نے اس کے ضعف پر دلائل نقل کئے۔ ( مسئلہ قربانی صفحہ ۳۳)
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی اسے
ضعیف قرار دیا چنانچہ وہ اس روایت پر دو صفحات میں جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ خلاصہ التحقیق : ایام تشریق میں ذبح والی روایت اپنی
تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہذا اسے صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ علمیہ : ۲؍۱۷۹)
ینابیع اردو ترجمہ رسالہ تراویح
حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ نے
مسئلہ تراویح پر کتاب لکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے لکھاتھا:
’’ تراویح کے مسئلہ پر الگ
رسالہ کی ترتیب پیشِ نظر ہے اس لیے ہم اس پر یہاں بحث نہیں کرنا چاہتے۔ اس میں ہم
بفضلہٖ تعالیٰ بتائیں گے کہ آیا صلوٰۃ التراویح کا حضرات خلفائے راشدین سے ثبوت ہے
یا نہیں؟ اور جب انہوں نے اس پر عمل شروع کیا تو کیا اس پر انہوں نے مواظبت کی تھی
یانہیں؟ یہ اور اس قسم کے اور کئی مسائل ان شاء اللہ وہاں ہی عرض ہوں گے ۔‘‘
( الکلام المفید صفحہ ۲۶۰)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت صفدر رحمہ
اللہ تراویح کے عنوان پہ کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر میری معلومات کے مطابق
حضرت کواس عنوان پہ کتاب لکھنے کاموقع
نہیں ملا ۔ اگر لکھ لیتے توعوام و خواص کو بہت فائدہ ہوتا۔ اگرچہ اَب کئی سالوں سے
حضرت مولانا حافظ ظہور احمد الحسینی صاحب کی کتاب ’’ رکعات ِ تراویح ایک تحقیقی
جائزہ ‘‘ منظر عام پہ آ گئی ہے جس سے علماء ، طلبہ اور عوام فائدہ اُٹھا رہے ہیں
۔لیکن پھر بھی حسرت باقی ہے کہ اس عنوان پہ ہم حضرت مولانا صفدر رحمہ اللہ کے علمی
شہ پاروں سے محروم ہی رہے۔
حضرت
اگرچہ تراویح پر کوئی مستقل کتاب تحریر نہیں کر پائے مگر اتنی بات ضرور ہے کہ
انہوں نے اس موضوع پر لکھے گئے ایک رسالہ کا اردو میں ترجمہ کرکے شروع میں مقدمہ
کا اضافہ کردیا۔ ذیل میں اسی رسالہ کا تعارف کرانا مقصود ہے وباللہ التوفیق ۔
صحابہ
کرام کے دَور سے اُمت کا تعامل یہی چلا آ رہا کہ اُمت بیس رکعات تراویح پڑھتی چلی
آ رہی ہے۔ غیرمقلدین نے جہاں اور بہت سے دینی مسائل میں الگ راہ اختیار کی ہے وہاں
بیس رکعات تراویح کا انکار کر دیا بلکہ بعض نے تو اسے بدعت بھی کہہ دیا ۔ انہیں
میں سے ایک نمایاں نام مولانا محمد حسین بٹالوی کا ہے جو اپنے حلقہ میں وکیل اہلِ
حدیث کہلائے جاتے ہیں۔ مولانا عبد المجید سوہدروی غیرمقلد نے ان کے متعلق لکھا:
’’ لاہور میں آٹھ تراویح کی ترویج آپ ہی سے ہوئی .. . حکومت
کی خدمت بھی کی اور انعام میں جاگیر پائی ۔ ‘‘
( حاشیہ : سیرت ثنائی صفحہ ۴۵۲)
بٹالوی صاحب نے جب آٹھ رکعات تراویح
کی تشہیر کے ساتھ ساتھ بیس رکعات کو بدعت قرار دیا تو ان کے خلاف خودان کے اپنے
غیرمقلد عالم مولانا غلام رسول صاحب میدان میں آ گئے ۔ اگراہلِ سنت میں سے کوئی ان
کی تردید کرتا تو غیرمقلدین یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ یہ تحقیق نہیں ہے ، یہ تو اپنے
امام کا بھرم رکھنے کے لیے لکھی گئی ہے اور اس میں دلائل کی بجائے کی اپنے متبوع
امام کا پاس و لحاظ رکھا گیامگر اللہ کی مرضی کہ اس نے غیرمقلدین ہی کے بزرگ کواس
کا رد لکھنے کی توفیق بخشی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی کی تحریر کے مطابق مولانا غلام
رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے ۱۲۲۸ھ میں پیدا ہوئے ، ۶۳
سال عمر پاکر ۱۲۹۱ھ میں فوت ہوئے ۔ ( برصغیر کے اہلِ حدیث خدام قرآن صفحہ ۴۲۲)
اورغیرمقلدین کی تصریح کے مطابق وہ
میاں نذیر حسین دہلوی کے شاگرد بھی ہیں۔( الحیاۃ بعد المماۃ صفحہ ۶۹۰، تاریخ اہلِ
حدیث صفحہ ۴۸۲)
مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:
’’ حضرت میاں سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی سند پر
لکھا تھا کہ مولوی عبد اللہ المعروف غلام رسول نہایت ذہین طبع، بے حد نیک، بلند
اخلاق و عالی کردار شخص ہیں۔ ‘‘
( اہلِ حدیث خدام قرآن صفحہ ۴۲۳)
مولانا غلام رسول صاحب کو غیرمقلدین صاحب کرامت
بزرگ کہا کرتے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں ولی اللہ کہلائے جانے والے بزرگ آٹھ تراویح کی
بجائے بیس کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس پرانہوں نے مستقل رسالہ بھی تحریر کیا ۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی ان کی تصانیف کا ذکر
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ مولانا غلام رسول نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں
فتاویٰ مولوی غلام رسول اور فارسی میں ’’ رسالہ تراویح ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ‘‘
( اہلِ حدیث خدام قرآن صفحہ ۴۲۵)
مولانا غلام رسول صاحب نے جب بٹالوی
صاحب کی تردید میں ’’ رسالہ تراویح ‘‘ لکھا تو اس میں بیس رکعات تراویح کو ثابت
کرنے کے ساتھ ساتھ بٹالوی صاحب کو غالی قرار دیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ فعل صحابہ و تابعین و ائمہ اربعہ و فعل سواد اعظم مسلمین
شرقا و غربا از عہد عمر فاروق تا ایں وقت ہمہ بیست و سیہ
میخوانند بخلاف ایں مفتی غالی کہ بدعت و مخالف سنت میگوید و راسہ افراط مے پوید “
حضرات صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ اور مسلمانوں کی عظیم جماعت
کا عمل یہ ہے کہ وہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک مشرق و مغرب میں
تئیس رکعات (بیس تراویح اور تین وتر ) ہی پڑھتے رہے بخلاف اس غالی مفتی کے کہ وہ
اس کو بدعت اورمخالف سنت کہتا ہے اور افراط کی رہ پہ چلتا ہے ۔ ‘‘
( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع صفحہ ۲۸)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے دَور سے لے کر ۱۲۹۰ھ تک جس میں مولانا غلام رسول صاحب نے یہ رسالہ لکھا ہے
موصوف کے علم میں کوئی بیس رکعت تراویح کے خلاف نہ تھا اور سبھی بیس ہی کو سنت
سمجھتے اور ادا کرتے تھے مگر محمد حسین صاحب اوراسی طرز کے بعض اور غلو پسند لوگوں
نے امت مسلمہ کی وحدت میں افتراق کی راہ پیدا کردی ۔ ( ینابیع صفحہ ۹)
مولانا غلام رسول صاحب نے آٹھ کی
تردید اوربیس کے اثبات میں جو ’’ رسالہ تراویح ‘‘ لکھا ہے وہ فارسی زبان میں ہے اس
دَور میں لوگ فارسی زبان اس قدر سمجھ اوربول سکتے تھے جس طرح آج اہلِ پاکستان اردو
بولتے اور سمجھتے ہیں۔حضرت مولانا محمد سرفراز صاحب رحمہ اللہ نے اس رسالہ کا
فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے اور شروع میں بیس صفحات پر مشتمل مقدمہ بھی لکھا
ہے، اپنے اس اردو ترجمہ کا نام ’’ ینابیع ‘‘ رکھا۔ مگر فارسی متن بھی باقی رکھا
ہے۔ ہماری دانست کے مطابق آٹھ رکعات تراویح کے قائل غیرمقلد لوگ نہ تو مولانا غلام
رسول صاحب کے رسالہ تراویح کا جواب لکھ سکے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اب تک حضرت
مولانا صفدر رحمہ اللہ کے مقدمہ کا جواب شائع کیا ہے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے مولانا
غلام رسول صاحب کے حالاتِ زندگی پر اک مستقل کتاب بنام ’’ تذکرہ مولانا غلام رسول
قلعوی ‘‘ لکھی۔ اس میں بھی ’’ رسالہ تراویح ‘‘ کا ذِکر ہے۔ اس میں بھٹی صاحب نے نہ
صرف بیس تراویح کو ٹھیک کہا بلکہ بیس پڑھنے والوں کو قرآن کا عامل تسلیم کیا ۔
چنانچہ انہوں نے تراویح کی تعداد پر بحث کرتے ہوئے لکھا:
’’ اگرعلمائے کرام جھگڑنے کے موڈ میں نہ ہوں تو اس مسئلے پر
ایک اور طریقہ سے بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ تروایح بیس ہوں یا آٹھ، دونوں صورتوں
میں حفاظِ قرآن بالعموم ایک پارہ پڑھتے ہیں اور مقتدی سنتے ہیں۔ آٹھ پڑھیں گے تو
قیام زیادہ ہوگا اور اس میں اللہ کے اس حکم پر عمل کیاجائے گا وقوموا
للّٰہ قانتین۔ (ا لبقرۃ
:۲۳۸)’’اوراللہ کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑے رہو۔‘‘بیس تراویح پڑھیں گے تو رکوع و
سجود زیادہ ہوں گے، یہ بھی اللہ کے حکم پر عمل ہوگا۔ ﴿یایھاالذین
آمنوا ارکعوا وسجدوا واعبدوا ربکم﴾(الحج: ۷۷)’’ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور
اپنے رب کی عبادت کرو۔ ‘‘
(حرف چند تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی :۵۸)
اس عبارت میں بھٹی صاحب نے بیس تراویح
پڑھنے والوں کو قرآن کی آیت : ’’ ارکعوا وسجدوا الخ‘‘پہ عمل
کرنے والا کہا ہے ۔
بھٹی صاحب نے
آگے لکھا:
’’ کوئی بیس پڑھے، چالیس پڑھے، ساری رات پڑھتا رہے، آٹھ
پڑھے ہمارے نزدیک سب ٹھیک ہے۔ ‘‘
(حوالہ مذکورہ:۵۹)
آخری گذارش
ہم نے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ
اللہ کی تصنیفی خدمات کے حوالہ سے جو یہ مضمون لکھا
ہے اس میں
غیرمقلدیت کی اصلاح میں لکھی گئی کتابوں کا تعارف اور ان کے دلائل کا وزن بیان
کرنا مقصود تھا، اسی لیے ان کی دیگر تصانیف کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ ہماری
معلومات کے مطابق اصلاح غیرمقلدیت کے حوالہ سے ان کی صرف یہی کتابیں ہیں :
ا۔ احسن الکلام، ۲۔ الکلام المفید، ۳۔ طائفہ
منصورہ۔۴۔ مقام ابی حنیفہ ۔ ۵۔ عمدۃ الاثات۔ ۶۔ مسئلہ قربانی ۔۷۔ ینابیع ترجمہ
رسالہ تراویح ۔ جن کے متعلق ہم اپنے تاثرات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ اصلاح غیرمقلدیت
کے حوالہ سے ہم ان کی کسی اور کتاب پرمطلع نہیں ہو سکے ۔
تنبیہ:
بندہ کا یہ مضمون قریباً دس سال پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ اسی وقت یہ مضمون ایک
رسالہ میں اشاعت کے لئے بھیجا تھا ۔ کچھ عرصہ بعد اس کا تذکرہ ہوا تو مدیر صاحب نے
اس سے لاعلمی ظاہر کی یعنی یہ مضمون انہیں پہنچا ہی نہیں یا پھر اُن سے گم ہوگیا
ہوگا۔ بہرحال اس کی کاپی میرے پاس موجود تھی اس کاپی کو سامنے رکھ کر اسے کمپوزنگ
کے مراحل سے گزار ا اور دو تین حوالوں کا اضافہ بھی کیا ۔دعا ہے کہ اللہ اس کاوش
کو قبول فرمائے ، آمین۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں