فقہِ اکبر پر کرامیہ الجدد کے اعتراضات کا علمی جواب
ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ جس طرح کرامیہ اپنے آپ کو حنفیت سے منسوب کرتے تھے، اسی طرح موجودہ دور میں بھی کرامیہ الجدد کی پیدائش کراچی میں ہو چکی ہے۔ اھل السنہ کے برخلاف کرامیہ اور معتزلہ کو امام ابو حنیفہ سے مروی پانچ کے قریب رسالوں سے خاص بغض ہے چونکہ معتزلہ اور کرامیہ کی اکثریت فروعا حنفی تھی مگر اعتقاد میں ان کے معتقدات امام ابو حنیفہ کے عقائد سے بالکل مختلف تھے۔
کتاب فقہِ اکبر کے بارے میں کچھ ظن ہونا، یہ کوئی نئی بات نہیں، حتی کہ اگر کوئی تکنیکی بنیاد پر اس کی نسبت کو نا مانے تو بھی عقیدے کا مسئلہ نہیں۔ مگر کرامیہ الجدد کا مسئلہ نا فنی ہے نا کچھ اور، ان کو مسئلہ ان عبارات سے ہے جو نا صرف فقہ اکبر میں ہیں بلکہ دیگر رسائل میں بھی ہیں اور جن کو امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ اور یہ چودہ صدیوں سے اشاعرہ، ماتریدیہ، صوفیہ اور اثریہ کی روایت میں بنیادی عقائد کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان سے اختلاف صرف روافض میں مشبہ، کرامیہ، اور حافظ ابن تیمیہ کے مسلک نے کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کو حدود و غایات، مقدار، اور حوادث سے منزہ کرنا۔
خیر، یہ لوگ البتہ فقہِ اکبر پر بعض اعتراضات اٹھاتے رہتے ہیں۔ ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ کتاب میں یہ عقیدہ درج ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال ایمان پر کیا، اب بھلا یہ کوئی عقیدے میں لکھنے کی بات ہے؟ تو ہم نے فقہِ اکبر کے کئی مخطوطات حاصل کئے جن میں وہ مخطوطہ بھی ہے جس کو امام زاہد الکوثری نے ترجیح دی ہے، یہ مدینہ کے متکبہ عارف حکمت کا نسخہ ہے۔ اکثر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے، یہ معلوم ہے کہ ملا علی القاری تک جو نسخہ پہنچا تھا وہ صحیح ترین نا تھا۔
اصل عبارت میں امام صاحب کا یہ مقصد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمحے کے لئے بھی شرک نہیں کیا اور نا صغیرہ کیا نا کبیرہ کیا۔ یہ عبارت یقینا با مقصد عبارت ہے اور اھل سنت کے عقیدے کو ظاھر کرتی ہے۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کے بعض نسخ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں "ماتا علی الکفر" ہے جبکہ دیگر میں اس کے الٹ ہے، یعنی ما ماتا علی الکفر، تو بعض نسخوں سے "ما" کا ساقط ہونا کوئی عجیب نہیں۔ پھر عارف حکمت کے نسخے میں لفظ "فطرت" ہے۔ اور اگر پہلی رائے کو بھی علمی طور پر تسلیم کیا جائے کہ اصل "ماتا علی الکفر" ہے تو یہ کوئی گستاخی نہیں بلکہ حدیث کے ظاھر پر ہی عمل ہے۔تو اس میں اصلا مطعون اگر کسی کو ہونا چاہئے تو محدثین کو اگرچہ ہمارے نزدیک یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک "فطرت پر مرنے" کے قول کو ترجیح ہے اس قرینے کی بنیاد پر کہ اس جملے کو ابو طالب سے علیحدہ لکھا گیا ہے جس سے متبادر ہوتا ہے حکم کا اختلاف زیادہ قریبِ قیاس ہے جبکہ اگر امام صاحب کا مقصد رسول اللہ کے والدین پر بھی وہی حکم لگانا تھا جو ابو طالب پر لگایا تو ان دونوں کو ایک ہی جملے میں جمع کرنے کا امکان زیادہ ہے۔
درحقیقت امام صاحب کا مسلک یہ ہے کہ اھلِ فطرت اللہ کی معرفت کے مکلف ہیں اور شرک پر کوئی معذور نہیں۔ لیکن، اس مسلک کو متعین افراد جیسا کہ رسول اللہ کے والدین پر لاگو کرنا بھی امام صاحب کے اصولوں کے خلاف ہے چونکہ حقیقی اعتبار سے اللہ ہی جانتا ہے اھلِ فطرت میں فلاں شخص شرک پر ہی مرا۔ تو اس قول کا دارومدار محدثین کے اصولوں پر ہے، اگر ان کا قول یہ ہے کہ روایات ایک جانب کی درست ہیں تو قول اس جانب کا درست ہو سکتا ہے اگرچہ رہے گا وہ پھر عقائد کی ڈومین سے باہر، ایسے مواقع پر امام صاحب کے اصول توقف کے قریب ہیں جیسا کہ امام صاحب نے مشرکین کی اولاد پر توقف کیا اس کے بعد کہ حکمت الاھیہ کے تحت ان کو دائمی عذاب دینا درست نہیں۔ اس سے آگے کیا ہوگا، کیا مشرکین کے بچوں کا دوبارہ امتحان ہو گا یا ڈائریکٹ جنت جائیں گے، ہم اس پر توقف کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ کتابوں کے نسخ میں اختلافات کوئی نئی شہ نہیں ہے بلکہ مستشرقین نے چند دہائیوں پہلے جو حملہ صحیح البخاری پر کیا تھا وہ یہی تھا کہ اس کے نسخوں میں اتنے اختلافات ہیں۔ ظاھر ہی بات ہے کہ ان اختلافات کی بناد پر پوری بخاری غیر معتبر نہیں ہو جاتی ہے بلکہ علمی منھج یہ ہے کہ بعض مسائل میں قرائن کی بنیاد پر ترجیح قائم کی جاتی ہے۔
اور بخاری کے نسخوں میں اختلاف بھی بعض جگہ بہت اہم مسائل میں ہے، مثلا:
- حدیثِ عمار بن یاسر۔ یہ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور وہ ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہوں گا اور وہ ان کو جھنم کی طرف۔ یہ روایت بخاری کے بعض نسخوں میں ہے، بعض میں نہیں۔ یہ روایت روافض اور ان کے ہمنوا بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔
- ضحک کی تاویل، اس پر بھی سلفیہ کو مسئلہ ہے۔
- کیا توارۃ و انجیل میں تحریف کے امام بخاری قائل تھے۔
یہ بہت اہم مسائل ہیں اور صرف چند مثالیں ہیں، اس کے علاوہ بخاری کے نسخ میں اور بھی نوع کے اختلافات ہیں۔
اسی طرح محدثین اور عامت الفقھاء کا ہی قاعدہ ہے کے مختلف طرق سے ایک ہی بات نقل ہو تو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہے، بلکہ علمِ یقین بھی دے سکتی ہے۔ اسی طرح فقہِ اکبر میں اگچہ کمی بیشی نسخ میں واقع ہوئی ہے، البتہ جو بنیادی عقائد امام صاحب کے دیگر رسائل اور خاص کر امام طحاوی نے عقیدۃ الطحاویہ میں نقل کئے ہیں اور امام صاحب و صاحبین کی منتشر روایات سے اسی کی تائید ہوتی ہے، وہ ہمارے نزدیک قابلِ اعتبار عقیدہ ہیں، جبکہ کرامیہ الجدد اور معتزلہ کو انھیں عبارات سے مسئلہ رہا ہے۔ وگرنہ پھر کرامیہ الجدد کو غامدی کے نقشِ قدم پر چل کر اکتسابی تواتر کا ہی انکار کر دینا چاہئے اور ساتھ میں منھجِ محدثین اور فقہاء کے اصول کا بھی رد کر دینا چاہئے۔
دوسری بات لوگ یہ کرتے ہیں کہ فقہ اکبر امام صاحب نے خود نہیں لکھی بلکہ مروی ہے۔ تو اپنے ہاتھ سے نا لکھنے میں کون سی قباحت ہے؟ اس سے کیسے ثبوت پر حرف آتا ہے؟ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے راوی کے تصرف کی گنجائش ہوتی ہے مگر اگر راوی پر جرح ساقط ہو جائے اور اس پر شک نا ہو تو الفاظ یسیرہ کے علاوہ روایت ٹھیک ہی سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ ابو مطیع البلخی پر جرح کے بارے میں لوگ لکھ چکے ہیں کہ وہ درست نہیں جبکہ عقائد ابو مطیع اور حماد دونوں سے علیحدہ علیحدہ مروی ہیں۔
تحریر: محمد صبیح
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں