نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا


 

فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا 

مولانا بشیر الرحمن سلفی غیرمقلد                     

                              انتخاب: مفتی رب نوا ز حفظہ اللہ

[عام غیرمقلدین پنج وقتی فرضوں کے بعد اجتماعی دعا کے قائل نہیں بلکہ ان کے متعدد افراد نے اسے بدعت بھی کہہ دیا ۔ جب کہ کئی غیرمقلدین اس عمل کو نہ صرف جائز کہتے ہیں بلکہ اسے حدیث کا مسئلہ بتاکر دوسروں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔بندہ کو ایک چند ورقی کتابچہ کی پی ڈی ایف فائل کا مطالعہ کرنا کے موقع ملا جس کے ٹائٹل پہ ’’فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ‘‘المرتب بشیر الرحمن سلفی فاضل السنۃ الاشرقیہ، ناشر الادارۃ العثمانیۃ چاندنی چوک ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ ‘‘لکھا ہوا ہے۔ قارئین کی خدمت میں یہ مضمون لفظ بہ لفظ پیش کیا جا رہا ہے ۔ اس میں قوسین کے الفاظ بھی کتابچہ ہی کے ہیں۔( رب نواز ) ]

بشیر الرحمن صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ فتنہ کے اس عظیم دَور میں جہاں بے شمار مادی فتنے جنم لے رہے ہیں ۔ وہاں مذہبی فتنوں اور نئے نئے شرعی فتووں نے اسلام کو بازیچۂ اطفال اور امت مسلمہ کو تختۂ مشق اختلاف بنا کر رکھ دیا ہے ۔ خالق کائنات سے انسان کے رشتہ و تعلقات میں رخنہ اندازی کے لیے جہاں شرک و بدعت کے قدیم و جدید مظاہرے نظر آ رہے ہیں ۔ وہاں خدائے رحیم و کریم سے دُور کرنے ، مقصد ِ عبادت اور ثمرنمازسے محروم کرنے کے لیے ، نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے سے قولا و عملا روکا جا رہا ہے ۔ حالاں کہ نبی رحمت علیہ السلام نے فرض نماز کے بعد دُعا کو عبادت کا مغز اور نہایت قابلِ قبول قرار دیا ہے ۔ گویا جو نماز کے بعد دعا نہیں کرتا وہ روح ِ نماز سے محروم رہ جاتا ہے ۔ احادیث مصطفی علیہ السلام ملاحظہ ہوں ۔

٭عن الاسود بن عامر عن ابیہ قال صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الفجر فلما اسلم انحرف ورفع یدیہ و دعا

ترجمہ : حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی تو آپ ؐ نے سلام کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ ِ انور کیا اور ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی ۔ فتاویٰ ثنائیہ ج ۱ ص ۵۰۷، فتاویٰ نذیریہ ج ۱ ص ۲۶۶مصنف ابن ابی شیبہ ۔ حل سوالات مشکلہ للنواب صدیق حسن خان البلاغ المبین ص ۲۶۵

٭عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رفع یدیہ بعد ما سلم الخ ترجمہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ امام الانبیاء علیہ السلام نے سلام کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی ۔ تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۴۲۔ تفسیر ابن جریر سورۃ النساء زیر آیت نمبر : ۹۷ابن ابی حاتم ۔ تحفۃ الاحوذی ج ۱ ص ۲۴۵

٭عن عبد اللّٰہ بن الزبیر انہ رای رجلا رافعا یدیہ قبل ان یفرغ من صلوتہ فلما فرغ منھا قال ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلوتہ ۔(رجالہ ثقات ) ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے فراغت ِ نمازسے پہلے ہی ( دعا کے لیے ) ہاتھ اُٹا دئیے ہیں جب فارغ ہوا تو صحابی ؓ رسول علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول مقبول ؑ تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے ۔ ( یہ حدیث صحیح اور قابل عمل ہے ) تحفۃ الاحوذی ض ۱ ۲۴۵، مجمع الزوائد ۔ معجم الطبرانی بحوالہ مذکور ۔ فتاویٰ ثنائیہ (شرفیہ ) ج ۱ ص ۵۰۱)

٭عن الفضل ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلوۃ مثنی مثنی و تخشع و تضرع و تمسکن ثم تقنع بیدک یقول ترفعھما الی اربک ومن لم یفعل ذالک فھو خداج ترجمہ: فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ فرمان مصطفی ہے کہ بنیادی نماز دو دو رکعت خشوع و خضوع اور عجز و مسکینی نیز بعد از نماز ہاتھ اُٹھا کر اپنے رب سے التجاء و دعا ہے ...جو شخص اس طرح نماز ادا نہیں کرے گا ۔اس کی نماز کی بے کار ہے ۔ امام بخاری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔  ترمذی شریف ج۱ص ۵۱ ۔ ترمذی مع التحفۃ ج اول ص ۲۴۶،۲۹۸۔ البلاغ المبین ص ۲۶۵۔ فتاویٰ ثنائیہ ج ۱ ص۲۰۳

            محدثین کرام کا عمل: مذکورہ بالا احادیث سے نمازوں کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا معمولات نبوی ، سنت مصطفی اور طریقہ رسول معظم علیہ السلام صاف صاف نظر آ رہا ہے ۔انکار کی گنجائش باقی نہیں ہے ۔ اسی بناپ محدث اعظم شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی ۔ مناظر اسلام حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ۔ شارح ترمذی حضرت مولانا عبید الرحمن محدث مبارک پوری ۔ شارح مشکوۃ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب محدث مبارک پوری اور دیگر بے شمار علماء اسلام نے نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرنا معمولِ حیات بنائے رکھا اور ان احادیث کو حجت قرار دیا ۔ آج جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں وہ نادان ، بے علم اور جاہل ہیں۔

            سنت نبوی پر عمل ضروری : نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا نبی اکرم علیہ السلام سے ثابت ہو جانے کے بعد امام ہو یا مقتدی سب نمازیوں کو اسی طرح دعا کرکے اُٹھنا چاہیے ۔ ہمارے لئے نبی محترم علیہ السلام کی سنت ہی قابل عمل ہے ۔ اگر صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احادیث میں بیان نہیں ہوا تو آپ کی سنت معلوم ہونے کے بعد صحابہ ؓ کا طرز عمل معلوم کرنے کی ہمیں ضرورت بھی نہیں ۔ تاہم ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ صحابہ ؓکرام بھی سنت نبوی ( اجتماعی ) پرلازما عمل پیرا ہوتے ہوں گے ۔ تحریر میں نہیں آیا تو کیا ہوا ۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑ دینے کی وضاحت بھی تواحادیث میں بیان نہیں ہوئی ۔ اگر وہاں عمل امت کی روشنی میں ہم ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں تو مذکورہ بالا اجتماعی دعا میں بھی امت کا عمل صحابہ کرام ؓ کے عمل ہی کا عکس انہی کی سنت کا آئینہ دار اور ان ہی کا یہ طریقہ مسلوکہ ہے ۔ تمام اقطار ِ عالم میں اجتماعی دعا کا یہ عمل اجماع امت کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ وباللہ التوفیق ‘‘

اس آخری صفحہ کے حاشیہ میں لکھاہے :

’’ نو ٹ: تفصیل کے لیے ہماری کتاب (مخ العبادۃ یعنی آداب و اوقات ِ دعا ) دیکھئے ۔ عنقریب منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو رہی ہے ۔ (المرتب )‘‘

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...