نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

صحت سند صحت عمل کی دلیل نہیں


صحت سند صحت عمل کی دلیل نہیں 
محترم عادل زمان فاروقی صاحب حفظہ اللہ فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی 

اللہ رب العزت نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے وحی کا نورانی سلسلہ شروع فرمایا۔ اس وحی مبارکہ کو سمجھانے کے لیے حضرات انبیاء کرام السلام کا مقدس سلسلہ شروع فرمایا ۔اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو قرآن و حدیث وحی کی صورت میں عطا فرمایا قرآن و حدیث منزل من السماء ہے۔ قرآن بھی وحی ہے ،حدیث بھی وحی ہے قرآن بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور حدیث بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہے قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو ہے۔ وحی متلووہ جس کی بطور قرآت قرآت کی جائے  وحی غیر متلو وہ جس کی بطور قرآت قرآت نہ کی جائے  -قرآن میں الفاظ و معنی مراد اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور حدیث میں الفاظ حضرت محمد ﷺ کی طرف سے ہیں معنی و مراد اللہ تعالی کی طرف سے ہیں قرآن جس معاشرے میں نازل ہوا وہ تمام اہل عرب تھےقرآن بھی عربی زبان میں ہےاللہ جل مجدہ نے قرف قرآن کریم کو نازل نہیں کیا بلکہ سمجھانے کے لیے امام الانبیاءحضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا-حضور ﷺ نے احادیث کی صورت میں قرآن کریم کی تشریح فرمائی حضور ﷺ نے قرآن و حدیث حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے کیا انہوں نے تابعین تبع تابعین کے حوالہ کیا۔

             امت مسلمہ کے مفسرین ،محدثین ،مجتہدین، متکلمین، نے قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے اور عمل کرنے کے لیے اصول و ضوابط کو مرتب کیا تا کہ ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی روشنی میں قرآن و سنت پر عمل کیا جا سکے ۔یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہر فن میں ماہرین فن کی رائے  کا اعتبار ہے دوسرے کسی فن والے کی رائے  کا کوئی اعتبار نہیں مثلاً میڈیکل میں ڈاکٹر کی رائے  کا اعتبار ہوگا اب ایک آدمی کہے کہ میں نے بھی تعلیم حاصل کی ہے مجھے بھی انگریزی آتی ہے دوائی پر نام لکھا ہوتا ہے میں خود پڑھ کر دوائی استعمال کر سکتا ہوں اور لوگوں کا علاج کر سکتا ہوں اگر یہ آدمی کلینک کھول کر بیٹھ جائے  تو لوگوں کو صحت ملے یا نہ ملے قبر کی طرف سفر جلدی کروائے  گا کیونکہ یہ ماہر نہیں ہے لوگوں کو جانی مالی نقصان سے دو چار کرے گااسی طرح انجینئرنگ کے مسئلے میں انجینئر کی ،زراعت کے مسئلہ میں ماہرین زراعت کی ،گرائمر میں ماہرین صرف و نحو کی ،لغت میں ماہرین لغت کی ،اور احادیث کی صحت و ضعف میں ماہرین حدیث کی رائے  معتبر ہوگی۔ پھر ماہرین حدیث کی دو قسمیں ہیں   !

   (١) محدثین

(٢) مجتہدین       

محدثین کی تحقیق کا دائرہ کار:

محدثین کی تحقیق کا دائرہ کار حدیث کی اسناد تک محدود ہے سند کا درجہ متعین کرتے ہیں موضوع ہے یا غیر موضوع صحیح ہے یا غیر صحیح پھر غیر صحیح ہو کر حسن ہے یا ضعیف صحت اور ضعف کس درجہ کا ہے ۔

                مجتہدین کی تحقیق کا دائرہ کار:                               

مجتہدین کی تحقیق کا دائرہ کار     اس سے وسیع تر ہے   وہ پانچ امور میں تحقیق کرتے ہیں ۔

(١) ثبوت وعدم ثبوت یعنی موضوع یا غیر موضوع۔

(٢) احادیث کے معانی کی تشریح و توضیح۔

(٣) حدیث معمول بہ ہے یا غیر معمول بہ ،درجہ عمل میں متروک ہے یا غیر متروک    ۔

    (٤)  حدیث سے ثابت شدہ حکم کی شرعی حیثیت کا تعین یعنی وہ فرض ہے یا واجب سنت ہے یا مستحب مباح ہے یا مکروہ مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی یا حرام۔

     (٥) حدیث سے متعارض دوسری احادیث کے تعارض وتضاد کو دور کرنا                            (بارہ مسائل ،صفحہ 16،17)  

            یہ تو نہیں کہ ایک آدمی دن کو سموسے بیچتا ہے مزدوری کرتا ہے  روڈ چھاپ ہے ڈاکٹر ہے انجینئر ہے  پروفیسر ہے وغیرہ ۔ تحقیق احادیث کے بارے میں کرتا ہے احادیث کے بارے اپنی رائے  دیتا ہے اپنے کام کو چھوڑ کر محدثین و فقہا کا جوکام تھا اس میں اپنے اٹکل پچو کرتے ہیں احادیث مبارکہ کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے ان کی رائے  کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔جس طرح میڈیکل کے شعبہ میں انجینئر اور انجینئرنگ کے شعبہ میں ڈاکٹر کی رائے  کا کوئی اعتبار نہیں کیوں اس لیے کہ یہ ماہر فن نہیں ہے اسی طرح مفسرین کی محدثین کی فقہا کی متکلمین کی اپنے فن میں رائے  معتبر ہے وہ الگ بات ہے کہ ایک آدمی ان تمام میں ماہر ہے تو اس کی بات کا وزن ہوگا اور یہ بھی ہوتا ہے ایک آدمی محدث ہوتا ہے اس درجہ کا فقہی نہیں ہوتا اسی پر آپ ہر فن کو قیاس کرسکتے ہیں ۔

            آمدم برسر مطلب یہ ہے کہ اصول سے نابلد لوگوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ یہ عمل کرنا چاہیے کیوں کیا بات ہے آگے سے کہتا ہے صحیح حدیث میں ہے اس پر عمل کرنا چاہیے اب یہ آدمی اصول سے ناواقف ہے اس کے متعلق اس کا علم ناقص ہے اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر اس بات کی آگے تشہیر کرتا ہے اس کے سامنے تمام اصول ہوتے نہیں ہے بس جہاں بھی دیکھ لیا کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر خود بھی عمل شروع کر دیتا ہے اور آگے بھی اس کو بے ڈھڑک نقل کر دیتا ہے اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ اس صحیح حدیث کے بارے میں اصول کیا ہے۔ امت مسلمہ کے فقہا و محدثین نے کیا اصول مرتب کیے ہیں کسی حدیث کا صحیح ہونا الگ بات ہے ،عمل کے اعتبار سے صحیح ہونا یہ الگ بات ہے ۔جس طرح ایک مسئلے پر قرآن کریم کی متعدد آیات مبارکہ کا نزول ہوتا ہے اب تلاوت ان تمام  آیات مباکہ کی کرنی ہے عمل کس پر کریں گے وہ آخری آیت مبارکہ پر کرنا ہے ۔

            متکلم اسلام استاذی المکرم حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب اس کی مثال قرآن کریم سے دیتے ہیں فرماتے ہیں کہ

شراب کے متعلق تین آیتیں نازل ہوئیں۔

(پہلی آیت مبارکہ) یسئالونک عن الخمر والمیسر قل فیھمااثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما (سورة البقرہ:219) ترجمہ :آپ سے شراب کے بارےمیں پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے :شراب میں فائدہ بھی ہے نقصان بھی ہے لیکن نقصان اس کا نفع سے زیاہ ہے -اب اس آیت مبارکہ میں حرام نہیں فرمایا صرف یہ فرمایا کہ شراب نقصان دہ چیز ہے۔

(دوسری آیت مباکہ ) یآ یھا الذین آمنوا لا تقربو ا الصلاة وانتم سکاری حتی تعلموا ما تقولون (سورة النسا :43) ترجمہ: اے ایمان والو نشے کی حالت میں ہو تو نماز نہ پڑھا کرو نشہ اتر جائے  تو نماز پڑھا کرو شراب کو حرام اب بھی نہیں فرمایا صرف یہ فرمایا کہ شراب نشہ آور چیزہے ۔

(تیسری آیت مبارکہ ) یآ یھا الذین آمنو ا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (سورة المائدہ : 90) ترجمہ: اے ایمان والو بے شک شراب جوا بت پانسے شیطان کے عمل میں سے ہےاس سے اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔اب جاکے شراب حرام ہوئی ہے اس کے بعد ذرہ برابر بھی شراب استعمال نہیں کی جاسکتی ۔ مسئلہ شراب پر تین قسم کی آیتیں ہیں لیکن آخری یہ ہے۔

دوسری مثال صحیح بخاری سے دیتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب قائم کیا ہے -باب مایذکر فی الفخذ " پہلے ” الفخذ عورة “نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ران ستر ہے ۔

پھر دوسری حدیث لائے  کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ سفر کیا اس میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضورﷺ  کے گھٹنے سے میرا گھٹنا ملا تو نبی کریمﷺ کا جو تہبند مبارک تھا وہ تھوڑا اترا تو ران مبارک کو دیکھتا رہا ۔ اب بتاؤ ادھر حضور ﷺ ستر فرما رہے ہیں ادھر ستر دیکھا رہے ہیں ۔ اب اگر ستر ہے تو دیکھایا کیوں اگر دیکھایا تو ستر کیوں ایسی صورت میں فقہا لوگوں کو گمراہی سے بچاتے ہیں فقیہ یہ نہیں کہتا کہ ہم دونوں کو نہیں مانتے وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس میں حدیث پہلی کون سی ہے بعد کی کون سی ہے احتیاط کس میں ہے کس میں احتیاط نہیں ہے ۔ خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : حدیث انس  اسند "حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ نبی ﷺ کی ران کو دیکھا تھا اس حدیث کی سند بہت مضبوط ہے- لیکن دوسری میں فرمایا : حدیث جرھد احوط" سند اس کی مضبوط ہے عمل کرنا اس پہ۔ ٹھیک ہے یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا خود کا فیصلہ ہے ۔

            لوگ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر قرآن موجود ہے اس مسئلے پرحدیث موجود ہے - اس سے ہم لوگ تو جلدی متاثر ہوتے ہیں کہ فلاں مسئلہ حدیث میں ہے فلاں مسئلہ قرآن میں ہے اس سے متاثر نہ ہوا کریں جب بندہ کہے فلاں مسئلہ حدیث میں ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس حدیث کے مد مقابل کوئی اور حدیث ہے یا نہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے پھر یہ دونوں میں سے پہلے دور کی کون سی ہے اور بعد کے کون سی ہے عمل تو تب ہوگا ہم اسی سے پریشان ہوجاتے ہیں اب پورا مسئلہ چونکہ علم میں نہیں ہوتا ہم صرف بخاری کی حدیث دیکھتے ہیں اور اس پرکہتے ہیں بخاری نےکہا ہے۔ اب اگر کوئی بندہ کہہ دے کہ قرآن میں ہے شراب پی لو جب نشہ اتر جائے  تو نماز پڑھ لو قرآن میں ہے تو کیا شروع کر دیں گے نہیں کریں گے۔ صحیح بخاری میں حدیث کا ہونا س بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس پر عمل کرنا بھی ضروی ہے بعض اوقات سند صحیح ہوتی ہے عمل کرنا صحیح نہیں ہوتا ۔

(دروس القرآن ،ج،2، ص،35،36،37،38)

         شرح نخبہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح لذاتہ حدیث کی تعریف کرتے ہیں فرماتے ہیں خبر الاحاد بنقل عدل تام الضبط متصل السند غیر معلل ولا شاذ ھو الصحیح لذاتہ( شرح نخبة الفکر ،ص45):خبر آحاد جب ایسے راوی کی نقل کے ساتھ آئے  جو روایت میں عادل اور کامل الضبط ہو اس حال میں کہ اس خبر کی سند متصل ہو اور نہ اس سند میں علل قادحہ ہوں نہ شذوذ ہوں - یہ شرائط حدیث صحیح کے لیے ہیں ۔

صاحب منار رحمہ اللہ نے خبر واحد کے حجت ہونے کے لیے چار ایسی چیزیں ہیں جن کا راوی میں ہونا ضروری ہیں اور چار چیزیں ایسی ہیں جن کا روایت میں پایاجانا ضروری ہے فرماتے ہیں : انما جعل الخبر حجة بشرائط فی الراوی ھی اربعة العقل والضبط والعدالة والاسلام ،یہاں سے بیان فرماتے ہیں فرماتے ہیں کہ راوی میں چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے -(1) راوی عاقل ہو (2) کامل الضبط ہو (3)  راوی عادل ہو (4) راوی مسلمان ہو چار چیزیں روایت کے لیے ضروری ہیں -(1) کتاب اللہ کے مخالف نہ ہو (2) سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو (3) عموم بلوی کے مخالف نہ ہو (4) خیر القرون کے متعلق نہ ہو                    آٹھ شراط ہونگی تو وہ روایت حجت بنے گی ورنہ اس پر عمل نہیں کیا جائے  گا یہ جو دعوی لوگوں کا ہے کہ صحیح حدیث میں یہ بات آئی ہے اس پر عمل کیا جائے  صرف اس بات  پراکتفا نہیں کیا جائے  گا بلکہ اصول و شرائط کا لحاظ کیا جائے  گا اور ماہر فن کی طرف رجوع کیا جائے  گا اور حدیث پر عمل کرنے میں مجتہدین فقہا کی رائے  کا اعتبار ہوگا جن حدیثوں کو معمول بہ قرار دیا ان پر عمل کیا جائے  گا جن احادیث مبارکہ کو غیر معمول بہ قرار دیا ہے ان پر عمل نہیں کیا جائے  گا -اگر ہم ان اصولوں کی روشنی میں احادیث مبارک پر عمل کریں گے تو جہالت پر مبنی گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ماہرین فن پر اعتماد کرنے کی توفیق عطا فرمائے    آمین۔


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...