نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

20 رکعات تراویح پر امت کا عمل ہے۔



 ۲۰ رکعات تراویح پر امت کا عمل ہے۔


ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز 

پہلی صدی ھجری (۱ تا م۱۰۰؁ھ)میں حضرت عمر ؓ (م۲۲؁ھ) ، حضرت ابی بن کعبؓ(م۳۲؁ھ)،سائب بن یزید ؓ (م۹۱؁ھ)،عبد اﷲ بن سائب مخزومیؓ (بعد م۷۰؁ھ)،حضرت علی ؓ (م۴۰؁ھ)،حضرت عبد الله بن مسعودؓ (م۳۳؁ھ)وغیرہ  ۲۰ رکعات تراویح کےقائل ہیں۔(الاحادیث المختارہ:حدیث نمبر ۱۱۶۱،مسند ابن الجعد :حدیث نمبر ۲۸۲۵،طبقات الکبری لابن سعد، الطبقۃ الرابعۃ من الصحابہ:ص۱۶۰ واسنادہ حسن بالمطابعات،السنن الکبری للبیہقی:۴۲۹۲ ، واللفظ لہ،۴۲۹۱،واسنادہ حسن لغرہ ،عمدۃ القاری، ۱۱/۱۲۷، واسنادہ صحیح مرسل، مختصر قیام اللیل للمروزی،ص: ۲۲۰۔۲۲۱) اسی طرح تابعین میں  شتیربن شکلؒ، ابو البختریؒ، علی بن ربیعہؒ، سعید بن ابی الحسنؒ(م۱۰۰؁ھ) ، سوید بن غفلہؒ (م۸۰؁ھ)،وغیرہ بھی ۲۰ رکعات تراویح پڑتے، پڑھاتے تھے۔( مصنف ابن ابی شیبہ، ۵/۲۲۰۔۲۲۵، فضائل رمضان لابن ابی الدنیا ،ص: ۸۰، ۸۳، السنن الکبری للبیہقی ،۲/۶۹۹)، دوسری صدی ھجری (م۱۰۱؁ھ تا ۲۰۰؁ھ) میں عطاء بن ابی رباح ؒ(م۱۱۴؁ھ) ، ابن ابی ملیکہؒ(م۱۱۷؁ھ)، حسن البصریؒ(م۱۱۰؁ھ)وغیرہ بھی ۲۰ رکعات تراویح پڑتے، پڑھاتے تھے۔( مصنف ابن ابی شیبہ، ۵/۲۲۰۔۲۲۵، فضائل رمضان لابن ابی الدنیا ،ص: ۸۰، ۸۳، السنن الکبری للبیہقی ،۲/۶۹۹)اسی طرح امام سفیان الثوریؒ (م۱۶۱؁ھ) اور عبد اللہ ابن مبارکؒ(م۱۸۱؁ھ) بھی ۲۰ رکعات تراویح کے قائل ہے۔(سنن ترمذی: ص ۱۹۷)، تیسری صدی ھجری(م۲۰۱ ھ؁ تام۳۰۰ ھ؁ )  میں   امام شافعی ؒ (م ۲۰۴  ؁ھ ) فرماتے ہیں کہ ’’فأما قیام شھر رمضان أحب إلی عشرون ،لانہ روی عن عمرؓ ‘‘ ۔(کتاب الام ، صفحہ /۱۰۵، باب الوتر ، حدیث : ۲۴۷) چوتھی صدی ھجری (م۳۰۱؁ھ تا م۴۰۰؁ھ) میں امام ابو محمد عبد اللہ بن ابی زیاد عبد الرحمن القیروانیؒ (م ۳۸۶؁ھ ) فرماتے ہیں کہ ’’وکان السلف الصالح یقومون فیہ فی المساجد بعشرین رکعۃ‘‘۔
۷۲(متن الرسالۃ ، صفحۃ /

پانچوی صدی  ھجری (م۴۰۱؁ھ تا م۵۰۰؁ھ) میں  امام ابن عبد البر الاندلسی ؒ (م ۴۶۳؁ھ )فرماتے ہیں کہ ’’وھو قول جمہور العلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی اکثر الفقہا ء وھو الصحیح عن أبی بن کعب من غیر خلاف من الصحابۃ ‘‘۔(الاستذکار ۵/۱۵۷) مزید فرماتے ہیں ’’ وھذا ھو الاختیار عندنا وباللہ توفیقنا‘‘۔(الاستذکار ۵/۱۵۸)  اور امام شیرازی ؒ (م۴۷۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’يقوم شهر رمضان بعشرين ركعة في الجماعة التراويح‘‘۔(التنبیہ للشیرازی : ص ۳۴) چھٹویں صدی ھجری (م۵۰۱؁ھ تا م۶۰۰؁ھ) میں امام غزالی ؒ (م۵۰۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’التراویح وھی عشرون رکعۃ وکیفیتھا مشہورۃ وھی سنۃ مؤکدۃ ‘‘۔  (احیاء العلوم ۲/۳۶۴) ،امام البغوی ؒ (م۵۱۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’من السُّنن الرواتب صلاة التراويح في شهر رمضان عشرون ركعة بعشر تسليمات ‘‘ ۔ (التہذیب للبغوی: ج۲ : ص ۲۳۳)،امام ابو الحسن یحیٰ بن ابی الخیر بن سالم الیمانی  ؒ (م ۵۵۸؁ھ ) فرماتے ہیں کہ’’قیام شھر رمضان ، وھو عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات بعد العشاء‘‘۔(البیان فی مذھب الامام الشافعی ؒ  ۲/۲۷۴)، شیخ عبد القادر جیلانی  ؒ (م۵۶۱  ؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’وھی عشرون رکعۃ یجلس عقب کل رکعتین ویسلم فھی خمس ترویحات ، کل أربعۃ منھا ترویحۃ‘‘ ۔ (غنیۃ الطالبین ، صفحہ ۲۶۸) ، امام ابن رشد ؒ (م ۵۹۵؁ھ ) فرماتے ہیں کہ ’’واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بہا الناس فی رمضان ، فاختار مالک فی أحد قولیہ ، وأبوحنیفۃ والشافعی ،وأحمد وداؤد القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر ، وذکر ابن القاسم عن مالک أنہ کان یستحسن ستا وثلاثین رکعۃ والوتر ثلاث‘‘۔  (بدایۃ المجتہد ۱/۲۱۰)

ساتویں صدی ھجری (م۶۰۱ھ؁ تا م۷۰۰؁ھ) میں امام موفق الدین ابن قدامۃ (م ۶۲۰  ؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’مسألۃ : قال : (وقیام شھر رمضان عشرون رکعۃ ، یعنی صلاۃ التراویح )وھی سنۃ مؤکدۃ ‘‘۔ (المغنی ۲/۶۰۱) مزید فرماتے ہیں ’’ثم (التراویح ) وھی عشرون رکعۃ یقوم بہا فی رمضان فی جماعۃ ویوتر بعدھا فی الجماعۃ ، فإذا کان لہ تہجد جعل الوتر بعدہ ‘‘۔ (المقنع ، ص ۵۸)،امام رافعی ؒ (م۶۲۳؁ھ) کہتے میں کہ’’صلاة التراويح عشرون ركعة بعشر تسليمات‘‘۔(الشرح الكبير للرافعی : ج۴ : ص ۲۶۴)،امام ابن قطان الفاسیؒ (م۶۲۸؁ھ) رقم طراز ہیں کہ ’’عشرون ركعة، عن علي رضي الله عنه، وشتير بن شكل وهو الصحيح عن أبي بن كعب من غير خلاف من الصحابة، وهو قول الجمهور‘‘۔(الإقناع في مسائل الإجماع: ج۱ : ص ۱۷۴)، امام نووی ؒ (م۶۷۶؁ھ ) فرماتے ہیں کہ  ’’اعلم ان صلاۃ التراویح سنۃ بإتفاق العلماء ، وھی عشرون رکعۃ یسلم من کل رکعتین‘‘ ۔ (کتاب الاذکار للنووی ، صفحہ ۳۱۰) مزید فرماتے ہیں ’’مذھبنا أنہا عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات غیر الوتر، وذلک خمس ترویحات ، والترویحہ أربع رکعات بتسلیمتین ، ھذا مذھبنا ، وبہ قال ابو حنیفۃ واصحابہ ،وأحمد وداؤد وغیرھم ، ونقلہ القاضی عیاض عن جمہور العلماء ‘‘۔ (المجموع ۳/۵۲۷)  اٹھویں صدی ھجری (م۷۰۱؁ھ تا م۸۰۰؁ھ) میں امام ابن تیمیہ ؒ (م۷۲۸؁ھ ) فرماتے ہیں کہ’’فلما جمعھم عمر علی أبی بن کعب کان یصلی بھم عشرین رکعۃ ثم یوتر بثلاث‘‘ ۔(مجموع الفتاویٰ ۲۲/۲۷۲) مزید فرماتے ہیں ’’فإنہ قد ثبت أن أبی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی قیام رمضان ، ویوتر بثلاث ، فرأی کثیر من العلماء أن ذلک ھو السنۃ ، لأنہ أقامہ بین المہاجرین والانصار ، ولم ینکرہ منکر‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ ۲۳/۱۱۲) ، امام سبکی ؒ (م ۷۵۶؁ھ ) فرماتے ہیں : ’’اعلم انہ لم ینقل کم صلی رسول اللہ ﷺ تلک اللیالی ،ھل ھو عشرون أو أقل ، قال ومذھبنا أن التراویح عشرون رکعۃ‘‘ ۔ قلہ الامام السیوطی فی المصابیح (۴۱، ۴۲) نویں صدی ھجری (م۸۰۰ ؁ھ تا ۹۰۰؁ھ) میں امام زین الدین العراقی  ؒ (م ۸۰۸ ؁ھ ) جو امام ابن حجر کے استاد ہے ، فرماتے ہیں ’’لکن عمر ؓ لما جمع الناس علی صلاۃ التراویح فی شھر رمضان مقتدین بأبی بن کعب صلی بہم عشرین رکعۃ غیر الوتر وھو ثلاث‘‘ ۔ (طرح التثریب شرح التقریب ۳/۹۷)  ، امام تقی الدین ابو بکر الحسینی  ؒ (م ۸۲۹ ؁ھ ) فرماتے ہیں ’’فجمعہم علی أبی ؓ ووضب لہم عشرین رکعۃ وأجمع الصحابۃ مع علی ذلک ‘‘۔ (کفایۃ الاخیار : ص۱۱۳)                                                                             

 دسویں صدی ھجری (م۹۰۰؁ھ تا ۱۰۰۰؁ھ) میں امام جلال الدین سیوطی ؒ  (م ۹۱۱  ؁ھ ) فرماتے ہیں کہ’’ ومذھبنا ان التراویح عشرون رکعۃ ، لما روی البیہقی وغیرہ باسناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی ؓ ، قال کنا نقوم علی عھد عمر ؓ بعشرین رکعۃ والوتر ‘‘۔ (المصابیح: ص ۴۱-۴۲)شیخ الاسلام امام ابویحیی زکریا بن محمد بن زکریا الانصاری ؒ (م ۹۲۹؁ھ ) فرماتے ہیں ’’وھی عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات فی کل لیلۃ من رمضان‘‘ ۔ (اسنی المطالب شرح روضۃ الطالب ۱/۲۰۰) ،امام ابن نجیم ؒ (م ۹۷۰؁ھ ) فرماتے ہیں کہ’’وسُن فی رمضان عشرون رکعۃ … وھو قول الجمہور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعۃ وعلیہ عمل الناس شرقاوغربا‘‘ ۔(البحر الرائق ۲/۱۱۶،۱۱۷) گیارہویں صدی ھجری (م۱۰۰۱؁ھ تا م۱۱۰۰؁ھ) میں امام الفقیہ ملا علی القاریؒ (۱۰۱۴) فرماتے ہیں ’’لکن أجمع الصحابہ علی أن التراویح عشرون رکعۃ‘‘ ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۳/۳۴۶) مزید تحریر کرتے ہیں کہ’’نعم ثبت العشرون من زمن عمر‘‘ ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۳/۳۴۶)  امام منصور بن یونس بن صلاح الدین بن حسن بن ادریس البہوتی  ؒ (م۱۰۵۱؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’(والتراویح)  سنۃ مؤکدۃ سمیت بذلک لأنہم یصلون أربع رکعات ویتروحون ساعۃ أی یستریحون (عشرون رکعۃ )‘‘۔(الروض المربع /۱۱۵) ،امام محمد بن بدرالدین بن عبد الحق بن بلبان ؒ ( م۱۰۸۳؁) فرماتے ہیں’’والتراویح عشرون رکعۃ برمضان تسن والوتر معھا جماعۃ‘‘ ۔ (أخصر المختصرات /۱۱۸)  بارہویں صدی ھجری(م۱۱۰۱؁ھ تا م ۱۲۰۰؁ھ)  میں  امام عبد الرحمن بن عبد اللہ بن البعلی الخلوطی ؒ (م ۱۱۹۲؁ھ ) فرماتے ہیں کہ ’’وھی عشرون رکعۃ برمضان تسن بتأکد ویسن الوتر معھا جماعۃ‘‘ ۔ (کشف المخدرات /۱۵۶) ، امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (م۱۱۷۶؁ھ ) فرماتے ہیں کہ : ’’وعددہ عشرون رکعۃ ‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغۃ ۲/۲۹)  تیرہویں  صدی ھجری (م۱۲۰۱؁ھ تا م۱۳۰۰؁ھ) میں  امام احمد دردیر ؒ (م ۱۲۰۱  ؁ھ ) فرماتے ہیں ’’وھی (ثلاث وعشرون ) رکعۃ بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل‘‘ ۔ (حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ۱/۳۱۵) ،امام ابن عابدین شامی ؒ (م ۱۲۵۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’وھی عشرون رکعۃ ھو قول الجمہور وعلیہ عمل الناس شرقا وغربا‘‘۔ (رد المحتار ۲/۴۹۵) ، امام مصطفی بن سعد السیوطی الرحیبانی  ؒ (م۱۲۴۳؁ھ ) فرماتے ہیں کہ’’لما رویٰ مالک عن یزید بن رومان قال : کان الناس یقومون فی زمن عمر فی رمضان بثلاث عشرین رکعۃ ، (عشرون رکعۃ فی رمضان ) …… لانہ وقت جداً وھذا فی مظنۃ الشھرۃ بحضرۃ الصحابۃ فکان إجماعاً‘‘۔ (مطالب أولی النھیٰ۱/۵۶۳)       چودہویں  صدی ھجری (م۱۳۰۱ ؁ھ تا م۱۴۰۰؁ھ) میں علامہ عبد الرحمن الجزیری ؒ(م۱۳۶۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’وقد بین فعل عمرؓ أن عددھا عشرون ، حیث أنہ جمع الناس أخیراً علی ھذا العدد فی المسجد ، ووافقہ الصحابۃ علی ذلک ، ولم یوجد لھم مخالف ممن بعدھم من الخلفاء الراشدین ، وقد قال النبی ﷺ :علیکم بسنتی ، وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ ۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۱/۳۰۹)

نوٹ: فرقہ اہل حدیث عموماً یہ کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث صحابہ کرام ؓ کے دور سے آج تک موجود ہیں ۔ (تحفہ حنفیہ : ص ۲۵۴) لہذا ہم کہتے ہیں کہ جب فرقہ اہل حدیث صحابہؓ کے دور سے آج تک موجود ہیں’’ تو جس طرح ۲۰ رکعات تراویح اور اس کے عمل کو ہر صدی کے علماء سے ثابت کیا گیا ہیں ویسے ہی فرقہ اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ وہ صحابہؓ کے دور سے آج تک ہر صدی کے’غیر مقلد واہل حدیث علماء‘ سے ۸ رکعات’ تراویح یا قیام رمضان‘کو صراحتا ثابت کریں تاکہ امت کو معلوم ہوجائے کہ یہ فرقہ انگریز سے پہلے بھی موجود تھا۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...