اعتراض نمبر 52 : کہ ابو حنیفہ کے سامنے جب 《البيعان بالخيار ما لم يتفرقا》 والى حديث بیان کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ رجز (شعر کی ایک قسم ہے)۔ اور جب یہودی کے سر کوٹنے والی حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ غیر معقول بات ہے۔
اعتراض نمبر 52 : کہ ابو حنیفہ کے سامنے جب 《البيعان بالخيار ما لم يتفرقا》 والى حديث بیان کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ رجز (شعر کی ایک قسم ہے)۔ اور جب یہودی کے سر کوٹنے والی حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ غیر معقول بات ہے۔
أخبرنا محمد بن أبي نصر النرسي، أخبرنا محمد بن عمر بن محمد ابن بهتة البزاز، أخبرنا أحمد بن محمد بن سعيد الكوفي، حدثنا موسى بن هارون ابن إسحاق، حدثنا العباس بن عبد العظيم - بالكوفة - حدثني أبو بكر بن أبي الأسود عن بشر بن المفضل قال: قلت لأبي حنيفة: نافع عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا " قال: هذا رجز.
قلت: قتادة عن أنس أن يهوديا رضخ رأس جارية بين حجرين، فرضخ النبي صلى الله عليه وسلم رأسه بين حجرين. قال: هذيان.
الجواب : میں کہتا ہوں کہ محمد بن احمد بن محمد بن حسنون النرسی خطیب کا شیخ ہے اور اس کے نزدیک ثقہ ہے۔ اور جس صاحب نے طبع ثانیہ میں حاشیہ میں اس پر جرح کی ہے تو اس کو وہم ہوا ہے۔
اس لیے کہ متکلم فیہ یہ نہیں بلکہ اس کا استاد ابن بہتہ ہے اور وہ محمد بن عمر بن محمد بن بہتہ البزاز شیعی ہے۔ خطیب اس کو پسند نہیں کرتا تھا۔
اور اس کا راوی احمد بن سعید جو ہے وہ ابن عقدہ الکوفی ہے جو کہ تیز طرار شیعہ تھا۔ اور اس کے بارہ میں خطیب کا کلام سخت ہے[1]۔
تو اس پر لازم تھا کہ اس روایت کا اعتبار نہ کرتا۔
اور ابوبکر بن ابی الاسود جو ہے وہ عبد اللہ بن محمد بن حمید ابن اخت عبد الرحمن بن مہدی ہے۔
ابن ابی خیثمہ نے کہا کہ ابوبکر بن ابی الاسود کے بارہ میں ابن معین اچھی رائے نہ رکھتے تھے۔ تو اس جیسی سند کے ساتھ ابو حنیفہ سے یہ واقعہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے ؟ (مگر) خطیب کے ہاں محفوظ اس جیسی روایت ہی ہوتی ہے۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ قول ان سے ثابت ہے تو رجز کا وہ معنی نہیں جو مخالف بیان کرتے ہیں بلکہ رجز کا معنی وہ ہو گا جو حضرت ابن مسعود کے قول میں مراد لیا جاتا ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا
مَن قرَأ القُرْآنَ في أقلَّ مِن ثلاثٍ، فهو راجِزٌ. [2]
کہ جس نے تین دن سے اسے کم مدت میں قرآن پڑھا تو ایسا شخص راجز ہے
یعنی معنی کو سمجھے بغیر ہی الفاظ کو زبان پر جاری کرنے والا ہے جیسا کہ راجز کرتا ہے ( تو اس لحاظ سے ابوحنیفہ کے قول کا معنی یہ ہوگا کہ
البَيِّعانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا
کے قول کو جس طرح تو بیان کر رہا ہے یہ رجز ہے یعنی معنی کو سمجھے بغیر زبان پر الفاظ جاری کر رہا ہے)
تو رجز کا لفظ استعمال کرنے میں ان کے لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نمونہ ہے اور اس حدیث کی وجہ سے خیار مجلس کا قول حدیث کے معنی کو سمجھے بغیر زبان پر الفاظ کو جاری کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس خیار کو جب خیار مجلس پر محمول کیا جائے تو یہ کتاب اللہ کی نص کے مخالف ہے۔
اس لیے کہ جب باہمی رضا کے ساتھ بائع اور مشتری عقد کرلیں تو عقد میں بائع ثمن کا اور
مشتری مبیعہ کا مستحق بن جاتا ہے اور نص سے ثابت ہے کہ متعاقدین میں سے ہر ایک جس کا مستحق ٹھہرتا ہے وہ اس میں تصرف کر سکتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ”اے ایمان والو ! آپس میں مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ مگر دوسرے یہ کہ تمہاری باہمی رضا سے تجارت ہو۔"[3]
(تو حدیث کو جب خیار مجلس پر محمول کریں گے تو معنی یہ ہو جائے گا کہ مجلس کے اختتام تک بائع ثمن میں اور مشتری مبیعہ میں تصرف نہ کرے اور یہ مفہوم نص قرآنی کے مخالف ہے) اس کے برخلاف اگر اس خیار کو خیار رجوع پر محمول کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ بائع اور مشتری میں سے جس نے ایجاب کیا ہے تو دوسرے کے مجلس میں قبول کرنے سے پہلے پہلے ، اس کو ایجاب سے رجوع کرنے کا اختیار ہے اور جب دوسرے نے مجلس ختم ہونے سے پہلے پہلے قبول کر لیا تو ایجاب کرنے والے کو رجوع کا حق نہ رہے گا خواہ ایجاب کرنے والا بائع ہو یا مشتری۔ (اگر بائع کہتا ہے کہ میں تجھ پر یہ چیز اتنے کی بیچتا ہوں تو بائع ایجاب کرنے والا ہو گا اور اگر مشتری کہتا ہے کہ میں تجھ سے یہ چیز اتنے کی خریدتا ہوں تو اس صورت میں مشتری ایجاب کرنے والا ہوگا اور اگر دوسرے فریق نے قبول کر لیا تو بیع تام ہو جائے گی کیونکہ بیع کے ارکان ایجاب اور قبول ہیں اور یہ پائے گئے) تو یہ معنی کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف نہ ہو گا اور اس صورت میں حدیث کے اندر المتبايعان کا لفظ حقیقتاً ہوگا اس لیے کہ بے شک یہ لفظ حالت عقد پر محمول ہے۔
اور متعاقدین (بائع اور مشتری) سے دونوں کلمات (ایجاب و قبول) صادر ہو جانے کے بعد کی حالت پر اس کو محمول کرنا اس کو مجاز کونی بناتا ہے۔
(اور جب تک حقیقت کا اعتبار ہو سکے تو اس کا اعتبار بہتر ہوتا ہے) اور حدیث کا فائدہ یہ ہے کہ
بے شک رجوع ان دونوں کے لیے اس وقت تک ثابت ہے جب تک کہ ان میں سے ایک ایجاب کرتا ہے اور دوسرے نے مجلس میں ابھی تک قبول نہیں کیا۔
یہ ایسے نہیں ہے جیسا کہ عورت کا مال دے کر خلع کرنا یا مالک کا اپنے غلام سے مال لے کر غلام کو آزاد کرنا۔
اس لیے کہ خاوند اور مالک کو عورت اور غلام کے قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں رجوع کا حق نہیں ہے۔
اور امام محمد بن الحسن نے الموطا میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ ہمارا نظریہ اس حدیث کے مطابق ہے۔ اور اس کی تفسیر ہمارے نزدیک وہی ہے جو ابراہیم نخعی کی ہم تک پہنچی ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ متبایعان کو اختیار ہے جب تک کہ وہ بیع کی کلام سے فارغ نہیں ہوتے۔
جب بائع نے کہا کہ بے شک میں یہ چیز تجھ کو بیچتا ہوں تو جب تک دوسرا نہیں کہتا کہ میں نے خرید لیا تو اس وقت تک بائع کو رجوع کا اختیار ہے یا مشتری نے کہا کہ میں تجھ سے اتنے کی یہ چیز خریدتا ہوں تو جب تک بائع نہیں کہتا کہ میں نے بیچ دیا تو اس وقت تک اس کو رجوع
کا اختیار ہو گا اور یہی قول ہے ابو حنیفہ کا اور ہمارے اکثر فقہاء کا۔ الخ
(فقہاء کرام کے درمیان مالم یتفرقا میں جو تفرق ہے اس کے بارہ میں اختلاف ہے کہ اس سے تفرق بالابدان مراد ہے یا تفرق بالاقوال۔ احناف کہتے ہیں کہ اس سے تفرق بالاقوال مراد ہے اور اسی صورت میں قرآن کی نص اور قیاس کے مطابق معنی موافق بنتا ہے اور شوافع حضرات اس سے تفرق بالابدان مراد لیتے ہیں۔
اور تفرق بالاقوال مراد لینا کوئی نئی بات نہیں بلکہ تفرق بالاقوال کا معنی کتاب و سنت میں عام پایا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
《وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا 》
اور اللہ تعالی کی رسی (دین) کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ بازی نہ کرو۔"
(یہاں لا تفرقوا میں تفرق سے مراد تفرق بالاقوال ہے) اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
《وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَاب》
اور اہل کتاب نے تفرق نہیں کیا مگر کتاب مل جانے کے بعد ۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
《 وان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ》
اور اگر میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کومستغنی کر دے گا۔
اور حدیث میں ہے
افترقت اليهود
کہ یہود نے تفرقہ بازی کی۔
ان تمام آیات میں تفرق سے مراد تفرق بالاقوال ہے)
بلکہ تفرق بالابدان کی حالت تو یہ ہے کہ شریعت میں یہ عقود کو پورا کرنے کا نہیں بلکہ ان کو فاسد کرنے کا باعث بنتا ہے۔
جیسا کہ اگر دو آدمیوں نے آپس میں بیع صرف کی تو ان میں سے ہر ایک جب تک قبضہ نہیں کر لیتا اس وقت تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے اور اگر وہ علیحدہ ہوگئے تو ان کا یہ تفرق بالابدان اس عقد صرف کو فاسد کر دے گا اور اس طرح بیع سلم میں راس المال پر قبضہ کرنے سے پہلے اور قرضہ کے بدلہ میں قرضہ میں ان میں سے ایک کی تعین سے پہلے اگر تفرق بالابدان ہو گا تو یہ عقود فاسد ہو جائیں گے۔
نیز ما لم يتفرقا والی حدیث کو تفرق بالابدان پر محمول کرنے کی صورت میں قواعد سے خروج اور کتاب اللہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور اگر تفرق بالاقوال پر محمول کریں تو نہ قواعد سے خروج لازم آتا ہے اور نہ ہی کتاب اللہ کی مخالفت اور تفرق بالاقوال کا قرآن و سنت میں استعمال مشہور بھی ہے۔ اور حضرت ابن عمر کی جس روایت میں ہے کہ وہ مجلس عقد سے اٹھ جاتے تھے تو اس میں کوئی صراحت نہیں کہ ان کا مذہب ہی یہ تھا بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ ان کے ساتھ معاملہ کرنے والا خیار مجلس کا قائل ہے تو اس کے رجوع کے حق کو ختم کرنے کے لیے ایسا کرتے ہوں۔
اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقدمہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا جو کہ مبیعہ میں عیوب سے براءت سے متعلق تھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے عقود میں دوسروں کی آراء کی رعایت رکھنے لگے اور یہ فیصلہ سیرت کی کتابوں میں معروف ہے۔
اور اس مسئلہ میں ہمارے اصحاب کے پاس ٹھوس دلائل ہیں جو ان کی کتابوں کے موجود ہیں۔
اور ان میں سے سمجھنے میں سب سے آسان کتاب السيد المرتضی الزبیدی کی عقود الجواهر المنيفة في ادلة مذهب الامام ابی حنیفہ اور ابوبکر الرازی کی احکام القرآن میں
اور ان دونوں نے مسئلہ میں بہت تفصیلی بحث کی ہے۔
اور اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ اکیلے نہیں بلکہ امام دار الحجرت (امام مالک) بھی ان کے ساتھ ہیں۔
اور جس مسئلہ میں امام اہل عراق اور امام اہل الحجاز متفق ہوں تو اس مسئلہ کو کمزور خیال کرنے والا غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
اور عجیب بات ہے کہ بے شک ان (مخالفین) میں سے ایک سے روایت کی گئی ہے کہ جب اس کو کہا گیا کہ بے شک
امام مالك المتبايعين والی حدیث کو نہیں لیتے۔ اس معنی میں کہ وہ خیار مجلس کا نظریہ نہیں رکھتے تو اس نے کہا کہ اس سے توبہ طلب کی جائے۔ پس اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے۔
(گویا کہ اس کے نزدیک) وہ اس کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے توبہ طلب کی جاتی ہے یا قتل کیا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی اپنی مخلوق میں مختلف حالتیں ہیں۔
اس بحث سے واضح ہو گیا کہ امام ابو حنیفہ نے حدیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ حدیث کے الفاظ ما لم يتفرقا کا مفہوم متعین کرنے میں فقہاء سے اختلاف کیا ہے
اور ایسی مثالیں تو باقی ائمہ کے مسائل میں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں، اور رہی بات سر کچلنے والی حدیث کی تو وہ حضرت انس سے جو ہشام بن زید کی سند سے ہے اور اس میں ابو قلابہ عنعنہ سے روایت کرتے ہیں۔ تو اس میں ہے کہ یہ قتل کا حکم گواہوں کے بغیر صرف مقتول کی بات کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ اور یہ طریقہ تو شریعت میں معروف نہیں۔
اور جو راویت حضرت انس سے قتادہ نے کی ہے تو اس میں ہے کہ قاتل کا اقرار تھا لیکن قتادہ کا عنعنہ . ( اور یہ ان کا عنعنہ) حضرات محدثین کے ہاں متکلم فیہ ہے۔ نیز سر کچلنے والی روایت کرنے
میں حضرت انس رضی اللہ منفرد ہیں اور انہوں نے یہ روایت اپنے بڑھاپے کے دور میں کی۔
جیسا کہ اونٹوں کا پیشاب پینے والی روایت کرنے میں وہ منفرد ہیں اور وہ روایت بھی ان سے
قتادہ کرتے ہیں۔ اور حجاج بن یوسف نے جو کہ مشہور ظالم ہے اس نے اپنی سزاؤں کے جواز
میں عرنیین قبیلہ والوں کو دی جانے والی سزا کو بھی دلیل بنایا تھا۔
جبکہ اس سے پوچھا گیا کہ تم
سخت ترین سزائیں کیوں دیتے ہو تو کہنے لگا کہ اس جیسی سزا تو نبی کریم ﷺ نے بھی دی
تھی۔
یہاں تک کہ اس کی وجہ کی وجہ سے حضرت حسن بصری کبیدہ خاطر رہنے لگے اور جب ان کو یہ بات پہنچی کہ حجاج عرنیین والی حدیث بیان کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس کو نہ بیان کیا کرے۔
اور عرنیین والی روایت کو امام مالک نے الموطا میں نہیں لیا۔
اور ابو حنیفہ کا نظریہ یہ ہے کہ بے شک ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم: عادل : ہونے کے باوجود
امی ہونے کی وجہ سے یا بڑھاپے کی وجہ سے قلت ضبط سے معصوم نہیں ہیں تو تعارض کے
وقت ان میں سے فقیہ کی روایت کو دوسرے پر ترجیح ہوگی۔
اور اسی طرح غلطی کے گمان کو دور کرنے کے لیے بوڑھے کی روایت پر دوسرے کی روایت کو ترجیح ہوگی۔
اور ابو حنیفہ کا یہ بھی نظریہ ہے کہ قاتل سے قصاص صرف تلوار کے ساتھ ہی لیا جائے تا کہ کتاب اللہ میں جس مماثلت کا ذکر ہے اس سے خروج ثابت نہ ہو۔
اور اس بارہ میں جو آثار وارد ہیں وہ ان کی اتباع کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالی کی پناہ کہ وہ کسی ایسی حدیث کے بارہ میں کہیں کہ یہ ہزیان ہے جو حدیث ان کے نزدیک صحیح ہو۔
اور وہ تو لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں زبان کو انتہائی پرہیز گاری سے چلانے والے تھے۔
تو اس جیسے مقام میں وہ اس طرح کی کام کیسےکر سکتے ہیں ؟
اور بے شک ان کی جانب منسوب یہ کلام اس راوی کی طرف لوٹنے والا ہے جو اس کو بیان کرتا تھا۔
اور اس واقعہ کی سند میں جو کمزوریاں ہیں ان کو پیش نظر رکھنے کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی شک نہیں گزرتا کہ بے شک نا معقول بات کرنے والا وہ ہے جو اس (ابو حنیفہ) کی طرف اس جیسی سند کے ساتھ ہذیان کی نسبت کرتا ہے۔
انتھی
[1]۔ ابن عقدہ غیر مقلدین کے ہاں چور ، گندہ آدمی ، منکر روایتیں بیان کرنے والا غالی شیعہ اور رافضی ہے.
( فتاوی علمیہ توضیح الاحکام 2/365 ، مقالات ارشاد الحق اثری 4/64)
لہذا ابن عقدہ رافضی کی روایت اہل السنت کے امام صاحب کے خلاف کیسے قابل قبول ہے جبکہ غیر مقلدین امام صاحب کو امام اہل السنت مانتے ہیں (تاریخ اہلحدہث ص 77) ۔
[2]۔ عن عبدِ اللهِ بنِ مسعودٍ قال: مَن قرَأ القُرْآنَ في أقلَّ مِن ثلاثٍ، فهو راجِزٌ.»
المصدر: الأحكام الكبير 3/200
الراوي: أبو عبيدة عامر بن عبدالله بن مسعود
المحدث: ابن كثير
خلاصة حكمه: إسناد صحيح
[3]۔ ياأيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم
(النساء 29)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں