نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 56 : کہ ابو حنیفہ سے رکوع جاتے وقت رفع یدین سے متعلق پوچھا گیا تو اس نے کہا اڑنا چاہتا ہے تو رفع یدین کر لے۔


 اعتراض نمبر 56 :
 کہ ابو حنیفہ سے رکوع جاتے وقت رفع یدین سے متعلق پوچھا گیا تو اس نے کہا اڑنا چاہتا ہے تو رفع یدین کر لے۔

أخبرنا الخلال، حدثنا عبد الله بن عثمان الصفار، حدثنا محمد بن مخلد، حدثنا العباس بن محمد بن إبراهيم بن شماس قال: سمعت وكيعا يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أبو حنيفة: يريد أن يطير، فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية. فسكت أبو حنيفة ولم يقل شيئا. 



الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ تینوں مطبوعہ نسخوں میں العباس بن محمد بن ابراہیم بن شماس ہے مگر درست العباس بن محمد عن ابراہیم بن شماس ہے جیسا کہ ہم نے اس کو درج کیا ہے۔ 

اور فقہی مسائل میں تو ابن المبارک کا قاعدہ یہ تھا کہ اس مسئلہ کو لیتے تھے جس پر اس کے دو استاد ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ کا اتفاق ہوتا تھا[1]۔

 لیکن یہاں اس کا قائدہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ دونوں کی اس مسئلہ میں مخالفت کر رہا ہے۔ حالانکہ ابن المبارک رحمہ اللہ کی رائے کے خلاف حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں حجت واضح ہے[2] تو ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس سے مزاح کیا۔ اور اس مسئلہ میں ان کے ساتھ امام مالک بھی ہیں۔ جیسا کہ ابن القاسم کی روایت میں ان کا مسلک مروی ہے اور اسی پر مالکیہ کا عمل ہے[3]۔ 

کیونکہ رکوع جاتے وقت رفع یدین کی احادیث کی سندوں میں سے کوئی سند بھی علت (کمزوری) سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ رفع کے بارہ میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے سوائے حضرت ابن عمر کی حدیث کے مگر ان کا خود اس پر عمل نہ تھا۔ 

جیسا کہ ابو بکر بن عیاش کی روایت میں ہے[4] اور راوی کا اپنی مروی روایت کو ترک کرنا ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور مالک رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب اور اہل نقد میں سلف کے نزدیک اس روایت کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے۔

 اور اہل علم میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جو اس مسئلہ کو ان مسائل میں شمار کرتے ہیں جن کے دلائل مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں میں برابر ہیں۔

 اور فریقین میں سے جو غیر

متعصب ہیں ان پر تو کوئی ملامت نہیں ہے۔ اور ایسے اختلافی مسائل میں جو دور صحابہ سے لگا تار چلے آرہے ہیں ان میں کسی ایک فریق کا اپنی جانب کو متواتر کہنے کا دعوی بالکل قابل سماعت نہیں ہو سکتا کیونکہ تواتر سے تو یہ ثابت ہے کہ بے شک صحابہ کی ایک جماعت رفع یدین نہ کرتی تھی اور ان میں سے ایک جماعت رفع یدین کرتی تھی۔

 تو یہ تخییر اصلی پر دلالت کرتی ہے۔ اور ان کا اختلاف صرف افضل ہونے میں ہے۔ جیسا کہ اس کو ابوبکر الرازی نے بہت عمدہ تفصیل کے ساتھ احکام القرآن میں مثالوں سمیت ذکر کیا ہے۔ اور یہ بحث بہت طویل ہے اس کے بارہ میں دونوں جانبوں سے مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔

 اور اس باب میں سب سے عمدہ تالیف نیل الفرقدين اور بسط الیدین ہیں[5]۔ یہ دونوں کتابیں مولانا علامہ علم کے سمندر محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی ہیں۔

 اور انہوں نے ان دونوں کتابوں

میں اس مسئلہ کا لب لباب نکال کر پیش کیا ہے اور اس پر شافی و کافی بحث کی ہے۔ 

[6]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ اسنادہ صحیح

▪︎ تاریخ بغداد ت بشار 15/470 


امام عبداللہ اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی زبردست تعریف و توثیق ثابت ہے ، قارئین اس مضمون کو النعمان سوشل میڈیا سروسز کی موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں پڑھ سکتے ہیں۔


 نام : امام ابو حنیفہ امام عبداللہ کی نظر میں pdf

کیٹیگری : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ


بعض متعصب متشدد لوگ یہ جھوٹ پھیلاتے ہیں کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام صاحب کو آخر میں ترک کر دیا تھا ، اس کا مسکت جواب الاجماع شمارہ جات 

میں موجود ہے ، قارئیں دفاع احناف لائبریری ایپ سے اس کو پڑھ سکتے ہیں۔


نام : ثقہ ثبت حافظ الحدیث امام ابو حنیفہ جلد سوم pdf

کیٹیگری : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ


[2]۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ پر غیر مقلدین کے تمام شبہات کا جواب کتاب نصر المعبود pdf میں دیا گیا ہے۔ قارئین دفاع احناف لائبریری سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں ، مزید یہ کہ یہ مکمل کتاب یونیکوڈ کی صورت میں النعمان کے بلاگ پر پڑھی جا سکتی ہے اور اس کے سکین حوالہ جات بلاگ اور ایپ دونوں میں موجود ہیں۔

بلاگ لنک :

النعمان سوشل میڈیا سروسز بلاگ

[3]تفصیل اس لنک پر دیکھیں

رفع یدین کے سلسلہ میں امام مالک رحمة الله عليه کے مذہب کی تحقیق


[4]. تفصیل اس لنک پر دیکھیں

 حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک رفع الیدین کی حدیث پر زبیر علی زئی صاحب کےاعتراضات کا تحقیقی جائزہ


[5].نیل الفرقدین pdf دفاع احناف لائبریری میں موجود ہے.


[6]. رفع الیدین والے واقعے پر جمشید صاحب کی ایک عمدہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے جس میں انہوں نے بہت احسن طریقے سے اس واقعے کی حقیقت بیان کی ہے۔ 

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

" عبداللہ بن المبارک اور رفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر "

رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اور فروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض و واجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی ، جیسا کہ حمیدی اور بعض دیگر روات سے منقول ہے۔


وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ الْحُمَيْدِيُّ فِيمَنْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الصَّلَاةَ فَاسِدَةٌ أَوْ نَاقِصَةٌ وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ

(التمہید لابن عبدالبر 9/226)

اوزاعی سے منقول ہے اورحمیدی کا بھی قول ہے کہ جس نے ابن عمر کی حدیث پر رفع یدین نہیں کیا اس کی نماز فاسد یا ناقص ہے اوربعض نے نماز لوٹانے کی بھی بات کہی ہے۔


لیکن ظاہر ہے کہ یہ قول دلیل سے عاری اور خالی ہے کسی چیز کا مسنون ہونا الگ شے ہے اور کسی چیز کا فرض و واجب ہونا الگ بات ہے۔ مخالف کے زعم اور زور میں سنت کو فرض و واجب قرار دے دینا علمی منہج نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن عبدالبر ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

وَلَيْسَ هَذَا بِصَحِيحٍ عِنْدَنَا لِمَا ذَكَرْنَا لِأَنَّ إِيجَابَ الْإِعَادَةِ إِيجَابُ فَرْضٍ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا بِحُجَّةٍ أَوْ سُنَّةٍ لَا مُعَارِضَ لَهَا أَوْ إِجْمَاعٍ مِنَ الْأُمَّةِ۔


اوریہ چیز ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کے دلائل ماقبل میں ذکر کئے۔ اس لئے اعادہ کو واجب قرار دینا کسی چیز کو فرض قراردینا ہے اور فرائض دلیل قطعی یا پھر ایسی سنت سے ثابت ہوتے ہیں جس کا کوئی معارض نہ ہو یا اس پر امت کا اجماع ہو ۔


اوزاعی تو اس مسئلہ میں اتنے گرم ہو گئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔


أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "

سنن بیہقی 2/117


اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیا ہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طور پر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اور طریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔


وَقَدْ أَكْثَرَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكَلَامِ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَفَرَطَ بَعْضُهُمْ فِي عَيْبِ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ وَلَا وَجْهَ لِلْإِكْثَارِ فِيهِ

التمہید لابن عبدالبر 9/228

اہل علم نے اس باب میں بہت زیادہ کلام کیا ہے اوران میں سے بعض نے ترک رفع کرنے والوں کے خلاف حد سے تجاوز کیا ہے جب کہ اس کی کوئی ضرورت اوروجہ نہیں ہے۔


اس تعلق سے عمومی طور پر ایک قصہ اور واقعہ ابن المبارک اور امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کا بھی بیان کیاجاتا ہے ۔ دور حاضر کے غیر مقلدین اس واقعہ کو خوب اچھالتے اور نمایاں کرتے ہیں اورایسا سمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ بن المبارک کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر کوئی طنز ،طعن اور تعریض تھا حالانکہ اس واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ استاد و شاگرد کے درمیان ایک قسم کی خوش طبعی تھی اوربس !

واقعہ کیا ہے؟

اس واقعہ کو متعدد محدثین نے نقل کیا ہے ذرا ذیل میں ان تمام پر ایک نگاہ ڈالی جائے واقعہ کی جزئیات میں اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کو ذرا واضح کرتے ہیں کہ کس نے کیسے اور کس طور پر نقل کیاہے۔

امام بخاری نقل کرتے ہیں۔


وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: كُنْتُ أُصَلِّي إِلَى جَنْبِ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ فَقَالَ: مَا خَشِيتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَقُلْتُ إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ قَالَ وَكِيعٌ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ كَانَ حَاضِرَ الْجَوَابِ فَتَحَيَّرَ الْآخَرُ

قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ ص 37


عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں


حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْعَطَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: " قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ كَأَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَطِيرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا، قَالَ وَكِيعٌ جَادَّ مَا حَاجَّهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ "

السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ص 276


ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔

وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟

فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث 1/106


ابن حبان نقل کرتے ہیں

- أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي من أهل سامرا يروي عَن أبي نعيم والعراقيين حَدَّثنا عَنهُ حَاجِب بن أركين وَغَيره ثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ ثَنَا أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي ثَنَا أَبُو هِشَام الرِّفَاعِي قَالَ سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ فَقَالَ يُرِيد أَن يطير فَأَجَابَهُ بن الْمُبَارك إِن يطر فِي الثَّانِيَة فَهُوَ يُرِيد أَن يطير فِي الأولى

الثقات لابن حبان 8/45


امام بیہقی سنن کبری میں نقل کرتے ہیں


أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ

سنن بیہقی 2/117


خطیب بغدادی لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عثمان الصفار، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد، قَالَ: حَدَّثَنَا العباس بن مُحَمَّد، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن شماس، قال: سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أَبُو حنيفة: يريد أن يطير فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية، فسكت أَبُو حنيفة ولم يقل شيئا

15/530تاریخ بغداد


ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔

وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي حَنِيفَةَ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ فَلَمَّا انْقَضَتْ صَلَاتِي قَالَ لِي أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ مَنْ رَفَعَ فِي الْأُولَى يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ فَسَكَتَ

التمہید لابن عبدالبر9/299


ان کتابوں سے نقل کردہ اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے بھی نقل کیاہے روایت بالمعنی کیا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے نقل کیاہے۔


واقعہ کا قدر مشترک امر یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو اڑنے سے تعبیر کیا اورامام عبداللہ بن المبارک نے تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کو بقیہ رفع یدین کے مماثل قراردے کر کہا کہ اگر وہ اڑنا ہے تویہ بھی اڑنا ہے اوراگر وہ اڑنا نہیں ہے تو یہ بھی اڑنا نہیں ہے.


" اختلاف کہاں کہاں پر ہے؟​"


1. "پہلا اختلاف"

عبداللہ بن المبارک کو نماز پڑھتے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی تھی یاعبداللہ بن المبارک نے رفع یدین فی الرکوع کے بارے میں سوال کیا تھا تب یہ بات کہی تھی!

تاریخ بغداد اور ثقات ابن حبان میں مذکور ہے کہ ابن مبارک نے رفع یدین کے تعلق سے امام ابوحنیفہ سے سوال کیا تھا۔جس پر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی ۔

سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع

15/530تاریخ بغداد

سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ

الثقات لابن حبان8/45


2. "دوسرا اختلاف"

یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک کے جواب پر امام ابوحنیفہ کا ردعمل کیا رہا۔

بخاری کی جزء رفع الیدین اور عبداللہ بن احمد بن حنبل وکیع سے عبداللہ بن المبارک کے جواب کی تحسین نقل کرتے ہیں۔ابن قتیبہ اور ابن حبان کی روایت میں نہ جواب کی تحسین ہے اورنہ سکوت کاذکر ہے۔بیہقی کی روایت میں سکوت کا بھی ذکر ہے اورجواب کی تحسین بھی ہے۔خطیب کی روایت میں فسکت کے بعد ولم یقل شیئا کا اضافہ ہے۔ابن عبدالبر نے صرف سکوت کا ذکر کیا ہے۔


3. تیسرا اختلاف

یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک نے کیا بات کہی تھی کہ 《ان کنت انت تصیر》 یاپھر 《ان لم اطر》

یعنی جواب میں امام ابوحنیفہ کو مخاطب کیا یا اپنے تعلق سے بات کہی۔ یعنی جواب میں انہوں نے یہ کہا

إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ

جزء رفع الیدین للبخاری

یاپھر یہ کہا

إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا

(کتاب السنۃ )

اب قبل اس کے کہ اصل موضوع پر بات کی جائے ۔فورم پر ایک صاحب نے اس واقعہ کا جو ترجمہ یاترجمانی کی ہے وہ دیکھ لیں


( ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :

ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر

” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “

امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :

ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا

اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔

عبارت تو انہوں نے صرف کتاب السنۃ لعبد اللہ بن احمد بن حنبل کا نقل کیاہے اور ترجمہ میں اپنی جانب سے یہ بڑھادیا ہے کہ

اس جواب اسے طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کیلئے خاموش رہے۔ خاص طور پر یہ لفظ ہمیشہ تو کسی بھی روایت میں نہیں ہے۔جس کی بناء پر یہ بات کہا جائے کہ موصوف نے کسی دوسری کتاب جس کا حوالہ دیاگیاہے اس سے نقل کیا ہو گا۔


قابل ترجیح روایت


اب سوال یہ ہے کہ ان تمام روایات میں سب سے زیادہ قابل قبول روایت کون سی ہوسکتی ہے۔


ایک بات تو یہ ہے کہ ہم امام بخاری کی روایت کو ترجیح دیں لیکن امام بخاری کی عبداللہ بن المبارک سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔لہذا انہوں نے وکیع یا پھر اسحاق بن راہویہ یا پھر کسی دوسرے سے یہ بات سنی ہوگی۔اگر وہ اپنے ماخذ اور مصدر کی صراحت کر دیتے تو ہمارے لئے اندازہ کرناآسان تھا۔


دوسرے طرف اس کے علاوہ بقیہ دیگر محدثین ہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل تین واسطوں سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔خطیب ابن حبان ،ابن عبدالبر اورزیادہ چار پانچ چھ واسطوں سے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔

ہاں صرف ابن قتیبہ ایسے ہیں جو اس کو صرف دو واسطوں یعنی ابن اسحاق اور وکیع سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی ہی ہے۔اور واسطے جتنے زیادہ کم ہوتے ہیں اتنے ہی اس میں غلطیوں کا امکان کم ہوتاہے ورنہ واسطے جتنے زیادہ ہوتے ہیں اس میں حذف و اضافہ کا امکان مزید بڑھ جاتاہے۔اس لحاظ سے دیکھیں تو سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی روایت ہے ۔


وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟

فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث 1/106


وکیع کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کہا اس شخص کا کیاحال ہے جو ہر اٹھک بیٹھک کے وقت رفع یدین کرتا ہے کیا وہ اڑناچاہتاہے توعبداللہ بن المبارک نے کہاکہ اگر وہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہوئے اڑناچاہتا ہے تووہ دیگر مواقع رفع یدین میں بھی اڑنا چاہتا ہے۔


اس روایت میں نہ امام ابوحنیفہ کی خاموشی کا ذکر ہے ۔ نہ حیرانی کا ذکر ہے اور نہ ولم یقل شیئا مذکور ہے۔ اسی طرح اس روایت میں اس کا بھی اضافہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک کی نماز کو دیکھ کر انہوں نے نہیں بلکہ کسی دوسرے فرد کی نماز کو دیکھ کر یہ بات کہی تھی۔


اس طرح اس باب میں تین باتیں ہوگئیں۔


1:عبد اللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی

2:عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے رفع یدین کے تعلق سے سوال کیا تب انہوں نے یہ بات کہی

3:کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھتے ہوئے رفع یدین کرتے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی


اب بات صرف اتنی ہی رہ جاتی ہے کہ قتیبہ پر جرح وغیرہ کیا گیا ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اسی کے ساتھ ان کی توثیق بھی ہوئی ہے اور خاص طورپر اس صورت میں جب کہ وہ اس کو ابن اسحق سے روایت کرتے ہیں اور ابن اسحاق سے ان کو خصوصی تعلق تھا۔اور یہ روایت بھی انہوں نے ابن اسحاق سے ہی بیان کیا ہے۔


امام ابوحنیفہ کا رفع یدین کو طیر سے تعبیر کا مقصد کیا تھا؟


دوسری بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے یہ بات کس طور پر کہی تھی کیا مقصد سنت کا استخفاف تھا یا پھر محض ابن مبارک سے خوش طبعی اوردل لگی تھی جس میں مذاق میں یہ بات کہی گئی۔ہمارے نزدیک امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی یہ بات محض خوش طبعی کے طور پر تھی۔ اور عبداللہ بن المبارک نے بھی اس کو خوش طبعی سمجھ کر ہی ویساجواب دیا اورپھر عبداللہ بن المبارک کی حاضر جوابی کی تعریف کی۔


ہمارے یہ سمجھنے کی کچھ جوہات ہیں۔

عبد اللہ بن المبارک ابتداء سے ہی امام ابوحنیفہ سے وابستہ تھے اور وہی ان کی ہدایت اور ارتفاع حال کا ذریعہ اورشریک ذریعہ بنے۔


وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: لَوْلا أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَدْرَكَنِي بِأَبِي حَنِيفَةَ وَسُفْيَانَ لَكُنْتُ بِدْعِيًّا "

(مناقب الامام ابی حنیفۃ 30)

عبد اللہ بن المبارک اساتذہ کاحد درجہ ادب و احترام کرتے تھے اوراس کے متعدد واقعات کتابوں میں درج ہیں کہ کس طرح انہوں نے حماد بن زید کی محفل میں طلاب حدیث کی درخواست پر جب حدیث سنائی تو تمام احادیث حماد بن زید کے واسطے سے ہی سنائی۔ اسی طرح سفیان بن عیینہ کی مجلس میں یہ کہہ کر جواب دینے سے منع کردیا کہ ہم کو اکابر کی موجودگی میں کلام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت امام مالک کی مجلس میں آئے تو اپنے ادب کے ذریعہ ان کو بھی اپنا مداح بنالیا۔


اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک رفع یدین کے سلسلے میں کسی سخت نظریہ کے حامل اور قائل نہ تھے بلکہ عبداللہ بن المبارک تو سفیان ثوری کے شاگردی کے زمانہ میں بھی ترک رفع پر ہی عامل تھے اور وہ رفع یدین کرناچاہتے تھے لیکن ان کو خدشہ لگا رہتا تھا کہ کہیں سفیان منع نہ کردیں لہذا وہ اپنے ارادے سے باز آجاتے لیکن ایک مرتبہ پکا ارادہ کر لیاکہ اب جس چیز کو حق سمجھتا ہوں اس کو کیوں نہ کروں پھر وہ رفع یدین کرنے لگے جس پر سفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا۔

عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ سُفْيَانَ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَرْفَعَ يَدَيَّ إِذَا رَكَعْتُ وَإِذَا رَفَعْتُ فَهَمَمْتُ بِتَرْكِهِ وَقُلْتُ يَنْهَانِي سُفْيَانُ ثُمَّ قُلْتُ شَيْءٌ أَدِينُ اللَّهَ بِهِ لَا أَدَعُهُ فَفَعَلْتُ فَلَمْ يَنْهَنِي

(التمہید لابن عبدالبر)

دوسرے یہ غور کیجئے کہ کوفہ وہ شہر ہے جہاں کے تمام افراد ترک رفع پر عامل تھے۔چاہے سفیان ثوری ہوں امام ابوحنیفہ ہوں یاپھر وکیع بن الجراح اس واقعہ کے راوی ہوں سب کے سب ترک رفع یدین پر عامل تھے۔

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ مِنَ الْكِتَابِ الْكَبِيرِ لَا نَعْلَمُ مِصْرًا مِنَ الْأَمْصَارِ يُنْسَبُ إِلَى أَهْلِهِ الْعِلْمُ قَدِيمًا تَرَكُوا بِإِجْمَاعِهِمْ رَفْعَ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الْخَفْضِ وَالرَّفْعِ فِي الصَّلَاةِ إِلَّا أَهْلَ الْكُوفَةِ ۔(تمہید9/213)

لہذا ابن مبارک جن کا علماء و مشائخ کا احترام ضرب المثل ہے وہ اپنے استاد کو جواب دینے میں برابری کا انداز نہیں اپنا سکتے ۔ استاد و شاگرد میں یامعاصرین میں خوش طبعی کی اس طرح کی مثالیں کتابوں میں بہت مل جاتی ہیں۔

قَالَ سَعِيْدُ بنُ مَنْصُوْرٍ: قَدِمَ وَكِيْعٌ مَكَّةَ، وَكَانَ سَمِيْناً، فَقَالَ لَهُ الفُضَيْلُ بنُ عِيَاضٍ: مَا هَذَا السِّمَنُ وَأَنْتَ رَاهِبُ العِرَاقِ?! قَالَ: هَذَا مِنْ فَرَحِي بِالإِسْلاَمِ، فَأَفَحَمَهُ.

سیراعلام النبلاء7/568

سعید بن منصور کہتے ہیں کہ وکیع مکہ آئے (وکیع موٹے تھے) توان سے فضیل بن عیاض نے کہا آپ کو عراق کا راہب(عبادت گزار) کہاجاتا ہے اس کے باوجود یہ موٹاپا (تعجب کی بات ہے)وکیع نے جواب دیا کہ یہ موٹاپن میرے اسلام کی خوشی کی وجہ سے ہے۔تو وکیع نے یہ کہہ کر فضیل بن عیاض کو لاجواب کردیا۔ 

نوٹ: ہوسکتا ہے کہ محض ترجمہ سے بات دوسروں کی سمجھ میں نہ آئے ۔لہذا اس جملہ کی مزید وضاحت کردوں


غم موٹاپا کا دشمن ہے چاہے وہ دین کا غم ہو یا دنیا کا غم ۔تو فضیل بن عیاض کاکہنا یہ تھا کہ آپ کو عراق کا راہب عبادت گزار کہاجاتاہے(اور وکیع تھے بھی ایسے ہی ہمیشہ روزہ رکھتے اورایک رات میں پورا قرآن ختم کرتے تھے) یعنی فکر آخرت آپ پر بہت زیادہ ہے اس کے باوجود یہ موٹاپا کیوں تو وکیع نے جواب دیا کہ فکر آخرت اپنی جگہ لیکن اللہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہے اس کی خوشی ہی اتنی زیادہ ہے کہ دیگر افکار و حزن اس خوشی کے سامنے پھیکے پڑگئے ہیں اوراسی وجہ سے یہ موٹاپا ہے۔


اس میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئی علمی طور پر بات نہیں کی گئی ہے محض خوش طبعی سے فضیل بن عیاض نے ایک بات کہی اور اسی خوش طبعی سے اور ازراہ مزاح وکیع نے جواب دیا اورفضیل بن عیاض کو خاموش کردیا۔


ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ یہی خوش طبعی امام ابوحنیفہ اورعبد اللہ بن المبارک کے سوال جواب میں بھی موجود ہے۔ اوراس کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ نہ امام ابوحنیفہ نے ترک رفع کے حق میں دلیل سے بات کہی اورنہ ہی ابن المبارک نے۔ امام ابوحنیفہ نے کثرت رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا کہ بار بار ہاتھوں کو اٹھا رہے ہیں ایسالگتاہے کہ پرواز کی کوشش کی جارہی ہے اس پر ابن مبارک نے جواب دیاکہ پرواز کی کوشش تو اول مرتبہ کے رفع یدین سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور بقیہ رفع یدین اسی پہلے رفع یدین کے اتمام کی کوشش اور تتمہ ہے۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ جو بات خوش طبعی اورمزاح کے طورپر کہی گئی تھی اورجس میں دلیل نام کی کوئی شے خوردبین سے بھی ڈھونڈی نہیں جاسکتی اس میں کفایت اللہ صاحب ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑ دیکھ رہے ہیں۔ ویسے انسان جب دل میں ایک خیال قائم کر لے تو ہر چیز اسی کے مطابق دکھنے لگتی ہے۔اگر واقعتا یہ بات ہوتی کہ عبداللہ بن المبارک کے جواب میں ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑ موجود ہوتا توپھر خود وکیع کیوں رفع یدین پر عامل نہیں ہوگئے۔ کیاکسی بھی سیرت اور ترجمہ کی کتاب میں اس کا اشارہ ملتاہے کہ وکیع نے کبھی رفع یدین کیاہو ۔اورجب یہ بات ثابت ہے کہ وکیع ترک رفع پر ہی عامل تھے جیساکہ دیگر کوفی حضرات تو پھر وکیع نے ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑ ملنے کے باوجود کیوں رفع یدین شروع نہیں کردیا۔ کیا اس بات سے ان کی ثقاہت وعدالت مشتبہ نہیں ہو جائے گی۔


"امام ابو حنیفہ نے یہ بات کس کے متعلق کہی تھی؟​"


امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال صرف اتنا تشنہ رہ جاتا ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیایا پھر کسی تیسرے شخص کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیا۔


اگرکسی تیسرے شخص کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ بسا اوقات عوام الناس حدود شرعی کا خیال نہیں رکھتے۔اور جس چیز کی جتنی حد ہے اس سے بڑھا کر اس کو کرتے ہیں۔ جیساکہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کان سے لگاناضروری سمجھتے ہیں کچھ لوگ کاندھوں سے سر تک اونچا کر لیتے ہیں۔ہاتھ باندھنے میں بھی اسی قسم کی بے اعتدالی دیکھنے کو ملتی ہے کچھ لوگ ناف کے نیچے کو مزید نیچے کر دیتے ہیں اورکچھ سیدھے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اورکچھ لوگ وفور جوش میں سینے سے آگے بھی پہنچ جاتے ہیں تواس قسم کی تمام باتیں حدود شرعی سے متجاوز ہیں اگرکوئی سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو یا پھر سینے سے بھی اوپر ہاتھ باندھنے کو کسی چیز سے تعبیر کرتا ہے تویہ تعبیر حدود شرعی سے تجاوز کی ہوگی نہ کہ حدود شرعی کی۔ مثلا ایک شخص انتہائی جلدی جلدی نماز پڑھا رہاہے تواس کو نماز چور کہا جا سکتا ہے تویہ جملہ نماز چور نماز کی توہین نہیں ہے بلکہ نمازی نے غیرشرعی طریقہ پر جو نماز پڑھی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے ہے۔

اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے اشعار کو مثلہ کہاہے اس کی توجیہہ امام طحاوی نے یہ کی ہے کہ امام ابوحنیفہ نے نفس اشعار کو مثلہ کرنا نہیں کہا ہے کیونکہ وہ تو سنت ہے لیکن لوگوں نے اس میں جو بے اعتدالیاں شروع کردی تھیں اس کو انہوں نے مثلہ سے تعبیر کیاہے۔

یہی توجیہہ ہم یہاں بھی کرنا چاہیں گے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان نے مذکورہ شخص کو جب رفع یدین میں بے اعتدالی کرتے دیکھا تو اس کو طیر یعنی پرواز سے تعبیر کیا۔عبداللہ بن المبارک نے اس پر کہا کہ یہ پرواز تو اس نے تکبیر تحریمہ سے ہی شروع کررکھا ہے۔ اگراس تناظر میں اس کو دیکھا جائے تو نہ کسی طنز کی بات ہے نہ تعریض کی بات ہے اور نہ ہی کسی چھینٹا کشی کی بات ہے بلکہ عبداللہ بن المبارک کی یہ بات امام ابوحنیفہ کی محض تائید و توثیق ہی ثابت ہوتی ہے۔


اوراگر بات یہ ہو کہ امام ابوحنیفہ نے عبد اللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر یہ بات کہی تھی جیسا کہ کچھ روایات میں مذکور ہے توبھی اس سلسلے میں یہ واضح رہے عبداللہ بن المبارک ابتداء میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔رفع یدین کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا تھا لیکن اس خوف سے کہ سفیان ثوری منع کریں گے وہ رک جاتے تھے لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ جس چیز کو میں حق سمجھتا ہوں اس کو کیوں نہ کروں۔ انہوں نے رفع یدین کرنا شروع کردیا۔ اورسفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ رفع یدین کرنا نہ کرنا افضیلت کی بات ہے ۔ کفر و اسلام کا معرکہ تو نہیں ہے۔ہو سکتا ہے کہ اسی رفع یدین کے ابتداء کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ امام ابوحنیفہ کے سامنے نماز پڑھ کررفع یدین کیاہو اور جب انسان کسی چیز کو ابتداء میں کرتا ہے تو اس کی حدود کو ملحوظ نہیں رکھ پاتا۔اوراکثر و بیشتر اس سے بے اعتدالی اس سے ہوجاتی ہے۔


کبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں کو جتنا اورجیسا اٹھانا چاہئے اس سے کم یا زیادہ اٹھاتاہے اور کبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ رفع یدین جتنے اورجیسے مقامات پر کرنے چاہئے اس سے بھی زیادہ مقامات پر رفع یدین کرناشروع کردے۔


اس مقام پر کون سی بات ہوئی تھی ۔جہاں تک مجھے لگتاہے کہ انہوں نے تکبیر تحریمہ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے اٹھتے ہوئے کے علاوہ دیگر تکبرات کے مواقع پر بھی رفع یدین شروع کیا تھا جیسا کہ اس کا اشارہ امام ابوحنیفہ کے جملہ

ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر

(کتاب السنۃ)

تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ

(جزء رفع الیدین)

مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ 

(تاویل مختلف الحدیث)


سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے مطلقا رفع یدین نہیں بلکہ رفع یدین کی کثرت کی جانب بات کی ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع کیا جا رہا ہے اور ہر اٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین ہو رہا ہے اسی کو انہوں نے شاید طیر سے تعبیر کیاہے۔ ہر اٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین کرنا بعض محدثین کا مسلک بھی رہاہے۔ ایسالگتا ہے کہ ابتداء میں عبداللہ بن المبارک نے ہر مقام پر رفع یدین شروع کیا تھا جس کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کیا۔

واضح رہے کہ رفع یدین میں بے اعتدالی اورمستحقہ مقام کے علاوہ رفع یدین کو حدیث میں اذناب خیل شموس سے بھی تعبیر کیا گیا ہے یعنی سرکش گھوڑوں کی دم سے۔ ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ لِلْكُوفِيِّينَ وَمَنْ ذَهَبَ مَذْهَبَهُمْ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بن عُلَيَّةَ الْقَاضِي بِدِمَشْقَ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَسِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم مالي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيَكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلِ شَمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ لِأَنَّ الَّذِي نَهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ الَّذِي كَانَ يَفْعَلُهُ لِأَنَّهُ مُحَالٌ أَنْ يَنْهَاهُمْ عَمَّا سَنَّ لَهُمْ وَإِنَّمَا رَأَى أَقْوَامًا يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ وَيَرْفَعُونَهَا فِي غَيْرِ مَوَاضِعِ الرَّفْعِ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ وَكَانَ فِي الْعَرَبِ الْقَادِمِينَ وَالْأَعْرَابِ مَنْ لَا يَعْرِفُ حُدُودَ دِينِهِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا وَبَعَثَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلِّمًا فَلَمَّا رَآهُمْ يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ فِي الصَّلَاةِ نَهَاهُمْ وَأَمَرَهُمْ بِالسُّكُونِ فِيهَا

(التمہید 9/222)


لہذا اگر امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے رفع یدین میں بے اعتدالی کو دیکھ کر اس کو طیر سے تعبیر کیا تو یہ بھی ایک لحاظ سے حدیث کی ہی موافقت ہوئی ہے۔جیساکہ حدیث میں رفع یدین میں بے اعتدالی کو" سرکش گھوڑوں کی دموں" سے تعبیر کیا گیا ہے۔


یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ امام ابوحنیفہ نے جس چیز کو طیر سے تعبیر کیاہے وہ نفس رفع یدین نہیں بلکہ کثرت رفع یدین ہے۔ جس کو بیشتر محدثین حضرات منسوخ یا حدیث ابن عمر سے مرجوح مانتے ہیں لہذا اگر منسوخ چیز پر عمل کرنے کو امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کر دیا تواس میں شور مچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔


یہاں تک تو ہماری بحث اس بات پر تھی کہ اس روایت کا کیا مطلب نکل سکتا ہے اور امام ابوحنیفہ کے قول کا کیا محمل اور پہلو ہے۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...