۸ رکعت کے راوی محمد بن یوسفؒ نے بیس رکعت کی طرف رجوع کیا ہے۔(کفایت اللہ کو جواب)
الاجماع
فاوٓنڈیشن
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
امام ابوبکرعبداللہ بن محمد النیشاپوریؒ (م۳۲۴ھ) اپنے کتاب ’’فوائد‘‘
میں فرماتے ہیں:
’’حدثنا یوسف بن سعید، ثنا حجاج، عن ابن جریج، حدثنی اسماعیل بن
امیۃ ان محمد بن یوسف ابن اخت السائب بن یزید، اخبرہ ان السائب بن یزید اخبرہ
قال:جمع عمر بن الخطاب الناس علی ابی بن کعب، وتمیم الداری، فکانا یقومان بمائۃ فی
رکعۃ فما ینصرف حتی نری او نشک فی فروع الفجر، قال فکنا نقوم باحد عشر قلت أو
واحد وعشرین، قال: لقد سمع ذلک ابن السائب بن یزید بن خصیفۃ، فسألت یزید بن
خصیفۃ، فقال حسبت ان السائب قال احدی وعشرین، قال محمد:
أو قلت لاحدی وعشرین۔‘‘
محمد بن یوسفؒ (م۱۴۰ھ) کو سائب بن یزیدؓنے کہا
کہ: حضرت عمر بن الخطابؓ نے لوگوں کو ابی بن کعبؓ اور تمیم داریؓ پر جمع کیا، وہ دونوں
گیارہ رکعت (جس میں آٹھ ر کعت تراویح ہے، اسے) پڑھتے تھے۔
جب یہ روایت محمد بن یوسفؒ اپنے شاگرداسماعیل بن امیہؒ
(م۱۴۴ھ)
سامنے بیان فرمائی تو ان کے شاگرد اسماعیل بن امیہ نے (ان کو ٹوکتے ہوئے) کہا: (گیارہ
رکعت) یا اکیس رکعت؟
محمد
بن یوسفؒ نے کہا: یقینا اسی طرح وہ بات (یعنی گیارہ رکعت والی بات) ابن خصیفہؒ نے سائب
بن یزیدؒ سے سنا ۔اسماعیل
ابن امیہؒ کہتے ہیں کہ میں نے (اس بارے میں)
یزید بن خصیفہؒ سے پوچھا: تو یزید بن خصیفہؒ نے کہا: مجھے تو لگتا ہے کہ سائب بن یزیدؒ
نے ۲۱؍
رکعت کہا (تھا، جس میں ۲۰
رکعت
تراویح ہے)
نوٹ: غیر مقلدین اہلِ حدیث علماء یہاں تک ہی اس روایت
کو نقل فرماتے ہیں ، آگے کا جملہ وہ حضرات کیوں چھپاتے ہیں، اللہ بہتر جانتا ہے؟
دیکھئے:
الالبانی
کے الفاظ :’’الثانی:
ان ابن خصیفۃ اضطرب فی روایتہ العدد، فقال اسماعیل بن امیۃ ان محمد بن یوسف ابن
اخت السائب بن یزید اخبرہ: قلت: فذکر مثل روایتۃ مالک عن ابن یوسف ثم قال بن امیۃ:
قلت: او واحد وعشرین؟ قال: (یعنی محمد بن یوسف): لقدسمع ذلک من السائب بن یزید ابن
خصیفۃ؟ فسألت (السائل ھو اسماعیل بن امیۃ)یزید بن خصیفۃ؟ فقال: حسبت ان السائب
قال: احد وعشرین، قلت وسندہ صحیح‘‘۔(صلاۃ التراویح : ص۵۸)
اسکین :
اور کفایت اللہ صاحب نے بھی آگے کا جملہ چھپالیا ہے۔ان
کے الفاظ یہ ہیں : حدثنا یوسف بن سعید، ثنا حجاج،
عن ابن جریج، حدثنی اسماعیل بن امیۃ ان محمد بن یوسف ابن اخت السائب بن یزید،
اخبرہ ان السائب بن یزید اخبرہ قال:جمع عمر بن الخطاب الناس علی ابی بن کعب، وتمیم
الداری، فکانا یقومان بمائۃ فی رکعۃ فما ینصرف حتی نری او نشک فی فروع الفجر، قال
فکنا نقوم باحد عشر قلت أو واحد وعشرین، قال: لقد سمع ذلک ابن السائب بن یزید بن
خصیفۃ، فسألت یزید بن خصیفۃ، فقال حسبت ان السائب قال احدی وعشرین۔
(مسنون رکعات تراویح:
ص۶۸)
اسکین ملاحظہ فرمائے :
حالانکہ آگے اسی روایت میں ہے کہ: (پھر) محمد بن یوسفؒ
نے کہا: ’’قال محمد: أو قلت
لاحدی وعشرین‘‘ بلکہ میں کہتا ہوں یقیناَ َ ۲۱ رکعات ۔ (فوائد ابوبکر النیشاپوری: مخطوطہ، حدیث نمبر:۱۶) اسکین
ملاحظہ فرمائے :
کفایت اللہ صاحب نے بھی جو فوائد ابوبکر النیشاپوری کا مخطوطہ
پیش کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ صاف نظر آرہےہے۔لیکن موصوف نے اسے چھپالیا۔(مسنون
رکعات تراویح: ص۱۱۳)
اسکین ملاحظہ فرمائے :
الغرض اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں کہ:
(۱) جب
اسماعیل ابن امیہؒ نے محمد بن یوسفؒ سے سوال کیا کہ تراویح آٹھ رکعت ہے یہ بیس رکعت؟
تو محمد بن یوسفؒ نے اپنی
بات کی تائید میں یزید بن خصیفہؒ کو پیش کیا۔
(۲) یزید
بن خصیفہؒ سے اسماعیلؒ نے جو اب سنا کہ وہ (ابن خصیفۃ ؒ) تو بیس رکعت کہتے ہیں( غالب
گمان یہی ہے کہ ابن امیہؒ نے جب یہ بات محمد بن یوسفؒ کو بتائی کہ ابن خصیفہؒ بیس رکعت
کہتے ہیں تو)محمد بن یوسف نے بیس رکعت کی طرف رجوع کیا اور اخیر میں بیس رکعت تراویح
ہی بتایا ہے، جیسا کہ روایت میں ذکر ہے۔
(۳) اس
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؒ نے آٹھ رکعت کا حکم نہیں بلکہ بیس رکعت تراویح
کا حکم دیا تھا۔ اور
آٹھ رکعت والی بات محمد بن یوسف ؒ کی غلطی ہے۔
نوٹ: خود
اہلِ حدیث علماء نے تسلیم کیا ہے کہ ثقہ راوی سے بھی کبھی کبھار غلطی ہوتی ہے ۔
چنانچہ زبیرعلی
زئی صاحب ایک راوی پر کی جانے والی جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ثقہ راویوں
سے بھی (بسا اوقات) خطا لگ جاتی ہے۔ (
نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام: ص۳۱)
لہٰذا جب اہلِ حدیث حضرات کے نزدیک ثقہ سے غلطی ہوسکتی ہے
تو پھر محمد بن یوسفؒ کی غلطی پر کوئی تعجب نہیں ہے، جب کہ اس کی دلیل بھی موجود ہو۔
اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابو بکر النیشاپوریؒ فرماتے
ہیں کہ: ’’ھذا حدیث حسن‘‘یہ
حدیث حسن ہے۔[1]
مشہور اہلِ حدیث محدث ناصر الدین البانی نے اس روایت کو
صحیح کہا ہے۔ (صلاۃ التراویح:ص۵۸)
اور غالی غیر مقلد عالم کفایت اللہ سنابلی صاحب نے بھی اس
روایت کو صحیح کہا ہے، دیکھئے: مسنون رکعات تراویح ص ۸۷ ۔
وضاحت :
کفایت اللہ صاحب
کا یہ دھوکا جب ہمارے ایک ساتھی نے ذکر کیا اور ان کی حدیث کی ترجمانی میں گڑبڑی کو بھی واضح کیا تو جواب میں کفایت اللہ صاحب نے
ایک مضمون تو لکھا۔لیکن انہونے ’’ قال محمد: أو قلت لاحدی وعشرین
‘‘ کے الفاظ کوکیوں چھپایا،اس کے بارے میں اپنے مضمون
میں خاموشی کو ہی غنیمت جانا۔
ان کے مضمون کا جواب :
اسماعیل بن امیہ نے اپنے استاد محمد بن
یوسف کو کیوں ٹوکااوریہ سوال کیوں کیاکہ گیارہ یا اکیس؟ اسکا جواب دیتے ہوئے خود فرقہ
ٔ اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ : ’’یقینا یہ بات اسماعیل
بن امیہ تک پہنچی ہوگی اور انہوں نے یہ سن رکھا ہوگا کہ محمد بن یوسف ؒ نے اکیس رکعت
بیان کی ہے ، لیکن جب انہوں نے اپنے استاد محمد بن یوسف سے براہ راست یہ روایت سنی
تو محمد بن یوسف نے اکیس کی تعداد نہیں بتلائی جیسا کہ لوگوں نے ان کے حوالہ سے بیان
کر رکھا تھا بلکہ گیارہ کی تعدا دبتلائی ، ظاہر ہے کہ ان کے شاگرد کو حیرانی ہوگی کیونکہ
انہوں نے اپنے اسی استاد کے حوالہ سے اکیس کی تعداد سنی تھی ، لہذا انہوں نے فوراً
سوال اٹھا دیا کہ گیارہ رکعات یا اکیس رکعات؟‘‘۔
الحمدللہ کفایت اللہ صاحب نے خود ہی
مان لیا کہ بخاری ومسلم کے راوی، عظیم محدث حضرت اسماعیل بن امیہ ؒ کو محمد بن یوسفؒ کی اکیس رکعت والی روایت بھی یقینی طور پرپہنچی
ہوگی۔
اور
اتنے یقینی طور پر پہنچی کہ جب انہوں نے گیارہ رکعت سنی تو نہ صرف حیران ہوئے بلکہ
اپنے استادکو اس اختلافی بیان پر ٹوک بھی دیا۔ (اختلافی بیان یعنی اسماعیل بن امیہ
کومحمد بن یوسف سے پہلے اکیس کی روایت پہنچی تھی اب وہ گیارہ بیان کر رہے ہیں )
اوراس
قدر یقینی طور پر پہنچنا کہ اسکے خلاف سننے سے حیرانی ہو یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب
کہ ان کے پاس معتبر ثقۃ راوی سے محمد بن یوسفؒ کی ۲۱ والی روایت پہنچی ہو۔
الغرض کفایت صاحب کے ارشاد کی روشنی میں
معلوم ہوا کہ محمد بن یوسفؒ کی۲۱ والی روایت میں اسماعیل بن امیہؒ بھی داود بن قیسؒ اور دوسرے رواۃ کی تائدکرہےہے۔لہذا کفایت اللہ صاحب داود
بن قیسؒ کی روایت کو منکر بتاکر ضعیف قرار دینا مردود ہے۔[2]
ابن امیہ ؒ کی ٹوکنے کی صحیح وجہ :
اسماعیل ابن امیہؒ(م۱۴۴ھ)کے ٹوکنے کی اصل وجہ یہ
تھی کہ ان کے استاذ محمد بن یوسفؒ کو تعدادرکعات
صحیح طرح یاد نہیں تھی۔اس لئے ان کے شاگرد نے ان کو ٹوک دیا۔چنانچہ ڈاکٹرشیخ کمال قالمی
نے اپنے رسالے ’’فصل الخطاب ‘‘ میں کہتے ہیں کہ:
فهذا
النّص يشعر بأن محمد بن يوسف لم يكن بذاك الضابط المتقن للعدد؛ ولذلك جعل إسماعيل
بن أمية يراجعه ويستوثقه بقوله: «أو واحد وعشرين وكأنّه سمع ذلك من غيره.
اس نص (دلیل) سے پتہ چلتاہے کہ محمد بن یوسفؒ کو تعداد صحیح
طرح یاد نہیں تھی۔اس لئے ان کے شاگرد نے ان کو ٹوک دیا۔ (فصل الخطاب في بيان عدد ركعات
صلاة التراويح في زمن عمر بن الخطاب رضي الله عنه للشيخ دکتور كمال قالمي)
اور یہ بات روایت سے صاف طور سے معلوم ہورہی
ہے۔اور اس کا انکار کفایت اللہ نےمحض اپنے مسلک کے تعصب میں کیا ہے، جو کہ باطل
ومردود ہے۔
اور حافظ المغرب
امام ابن عبدالبرؒ (م۴۶۳ھ)
نے بھی محمد بن یوسفؒ کی ۸
رکعت کی روایت کو غلط (وہم اور ضعیف) قرار دیا ہے۔ (الاستذکار: ص۱۵۶ج۵)[3]
ابن یوسفؒ کے دفاع کی ناکام کوشش :
جب اس روایت سےمحمد بن یوسفؒ کا تعدادرکعات صحیح طرح یاد
نہ ثابت ہوگیا۔توابن یوسفؒ کے دفاع کی ناکام کوشش کرتے ہوئےکفایت اللہ صاحب کہتے ہیں
: محمد بن یوسف نے اس سے(یعنی ۲۱
رکعات سے) برآت ظاہرکردی ہے۔ اور’’لقد سمع ذلک ابن السائب بن یزید بن خصیفۃ‘‘ سے دلیل دیتے ہوئے کہتے میں:
(جب ابن امیہؒ نے ابن یوسف کو ٹوکا کہ ’۱۱ رکعات یا ۲۱ رکعات)اس
پران کے استاذنے بتلایا کہ ۱۱
ہی رکعات اور ۲۱ اکیس والی تعداد تو دوسرے
صاحب یزید بن خصیفہ بیان کرتے ہیں۔( مسنون رکعات تراویح :ص۷۰)
الجواب :
محمد بن یوسفؒ نے کہا :’’ لقد سمع ذلک من السائب ابن
خصیفۃ‘‘ یعنی یقینا وہ بات سائب بن یزید ؓ سے یزید
بن خصیفہ ؒ نے سنی ہے ۔اس جملہ میں ایک لفظ ہے ’’لقد‘‘جس کی وضاحت یہ ہے کہ
یہ لفظ بہت ہی زیادہ تاکیداور مضبوطی بتانے کیلئے آتا ہے ۔
سعود
ی عرب سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ جنہیں فرقہ اہل حدیث
والے بھی اپنا امام مانتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں :(لقد کے ساتھ کہا گیا ) یہ جملہ تین
تاکیدوں کے ذریعہ مضبوط اور مؤکد کیا گیا ہے ایک ’’ لام ‘‘ دوسری ’’ قد ‘‘ اورتیسری
تاکید ’’قسم محذوف ‘‘ یعنی
چھپی ہوئی قسم۔(تفسیر
العثیمین ، سورۃ الکہف ، آیت /۴۸) یعنی
لقد کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہیے کہ اللہ کی قسم ، یقینا و قطعاً ۔
اسی
طرح اس جملہ میں ایک لفظ ہے ’’ ذلک ‘‘اسے عربی لغت میں ’اسم اشارہ بعید‘ کہا
جاتا ہے۔ (مصباح اللغات/۲۵۹) فرقہ اہل حدیث کے امام جناب
ابن عثیمینؒ { ذلک
الکتاب لا ریب فیہ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ذا ، اسم
اشارہ ہے اور لام بُعد کیلئے ہے ، پس جس چیز کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے وہ دور ہو تو
اس لام کو لاتے ہیں جسے ہم لام بُعد کہتے ہیں۔(تفسیر العثیمین ،البقرۃ)
یعنی لفظ’’ ذلک ‘‘کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ
کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ، چاہے وہ چیز حقیقت میں دور ہو یا اس کی عظمت و اہمیت
بتانے کیلئے اسے اس طرح تعبیر کیا جائے ، جس کا ترجمہ عام طور سے ’’ وہ ‘‘ سے
کیا جاتا ہے ۔
تو
سوال یہ ہے کہ محمد بن یوسف ؒاپنے اس جملہ میں ’’ذلک ‘‘سے کس بات کی طرف اشارہ
کرنا چاہ رہے ہیں ؟
ہمارا
کہنا ہے کہ ا س جملہ میں ’’ ذلک ‘‘ سے گیارہ رکعت کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے
ہیں ۔
اس
صورت میں’’
لقد سمع ذلک من السائب ابن خصیفہ ‘‘کا ترجمہ یہ ہوگا کہ
یقینا یزید بن خصیفہ نے بھی حضرت سائب ؓ سے گیارہ رکعت ہی سنی ہے ۔ (یعنی میری طرح انہوں نے بھی گیارہ ہی سنی ہے اکیس
نہیں)
جبکہ
فرقہ اہل حدیث کے کفایت اللہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہاں ذلک سے اکیس رکعت کی طرف اشارہ
ہے ۔
لہذا ان کے نزدیک ’’ لقد سمع ذلک من السائب ابن
خصیفہ ‘‘ کا ترجمہ یہ ہیں کہ اس طرح کی بات(یعنی اکیس
رکعت کی بات) ابن خصیفہ
حضرت سائب ؓ سےسنی ہے ۔
تنبیہ : کفایت اللہ صاحب نے یہاں پر ’لقد‘ کا ترجمہ ہی حذف
کردیاہے۔لیکن اگر ہم ’لقد‘کے ترجمہ اور ’ذلک‘
سےمراد اکیس رکعت لےجیسا کہ کفایت اللہ صاحب
مانتے ہیں تو ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’ لقد سمع ذلک من السائب ابن
خصیفہ ‘‘
قطعاً و یقینا اس طرح کی بات(یعنی اکیس رکعت
کی بات) ابن خصیفہ نے حضرت سائب ؓ سےسنی ہے
۔
تو جب کفایت اللہ صاحب کے نزدیک محمد بن
یوسف ؒنے خود ہی یہ کہہ دیا کہ حضرت سائب ؓسے ابن خصیفہؒ نے اکیس رکعت سنی ہے اور وہ
بھی بہت ہی تاکید کے ساتھ ،تو اتنی بات تو معلوم ہوئی کہ ابن یوسفؒ خود ہی مان رہے
ہیں کہ حضرت سائب ؓ نے اکیس رکعت بیان کی تھی ،تب ہی تو خد اللہ کی قسم کھاکر[4] اور
اتنے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ قطعاً و یقینا یزید
بن خصیفہؒ نے اکیس رکعت سنی ہے ۔
اتنی
زیادہ تاکید سے کہنا خود بتاتا ہے کہ سائب ؓ نے کہا تھا
اور ابن خصیفہ ؒ نے خوب اچھی طرح اور صحیح سنا تھا ۔[5]
محمدبن یوسف ؒ جن کوکفایت اللہ صاحب بہت
ہی زیادہ اور انتہائی اعلیٰ درجہ کا ثقہ اور حافظ راوی مانتے ہیں ، بلکہ دو عظیم محدثین
کے حوالہ سے انہیں ثقہ ہونے کی ڈبل ڈگری دی ہے ،وہ عظیم ترین محدث محمد بن یوسف
ؒ اللہ کی قسم کھاکراور’’ لام ‘‘اور
’’قد ‘‘کی دوہری تاکید کے ساتھ یہ بات نقل
کر رہے ہیں کہ اللہ کی قسم ، قطعاً و یقینا
حضرت سائبؓ سے یزید بن خصیفہؒ نے اکیس رکعت سنی ہے ۔
تو جس طرح پہلے کفایت صاحب کے ارشاد کی
روشنی میں معلوم ہوا تھا کہ محمد بن یوسفؒ کی۲۱ والی روایت میں اسماعیل بن امیہؒ بھی داود بن قیسؒ اور دوسرے رواۃ کی تائدکرہےہے۔ اسی طرح یہاں بھی
کفایت صاحب کے ارشاد سے معلوم ہوتاہے کہ یہی عظیم ترین ثقہ راوی محمد بن یوسف ؒ کی
گواہی سے ’کہ اللہ کی قسم ، قطعاً و یقینا
حضرت سائبؓ سے یزید بن خصیفہؒ نے اکیس رکعت سنی ہے ‘ اسماعیل بن امیہؒ کی طرح
یزید بن خصیفہؒ بھی مصنف میں موجود محمد بن
یوسف کی ۲۱
والی د اود بن قیسؒ اور دوسرے رواۃ کی روایت کی تائدکرہےہے۔تو
کفایت اللہ صاحب کے اپنے ارشاد کی روشنی میں ان کا داود بن قیسؒ کی روایت کو منکر بتاکر
ضعیف قرار دینا مردود ہے۔
اسی
کو کہتے ہیں: ’الحق
بما شہد ت بہ الاعداء ‘یعنی حق تو وہ ہے جس کے حق ہونے کی گواہی
دشمن بھی دیدے ۔
کفایت
اللہ صاحب نے اس حق گوئی سے بچنے کیلئے ’’لقد ‘‘ کا ترجمہ ہی اڑا دیا ، مگر حق بات
ان کے منہ سے نکل کر رہی ۔
کفایت اللہ صاحب کا ’ذلک‘ سے ۲۱ رکعات
مراد لیناصحیح نہیں ہے :
ہم جو ذلک سے گیارہ رکعت کی طرف اشارہ مان رہے ہیں اس کی
۲ وجہ ہے :
پہلی
وجہ : استاد(محمد بن یوسفؒ) کا جملہ جو پہلے ہے اس میں گیارہ ہے اور شاگرد(‘ اسماعیل
بن امیہؒ) کا جملہ جو بعد میں ہے اس میں اکیس ہے ،(اور پہلے ہم بتاچکے ہیں کہ ذلک سے
دور کی طرف اشارہ ہوتا ہے )لہذا یہاں بھی گیارہ کی طرف اشارہ ہے(اسلئے کہ وہ اکیس کے
جملہ کے مقابلہ میں دور ہے )
دوسری
وجہ:محمد بن یوسف ، یزید بن خصیفہ کو اپنا سپورٹر بتارہے ہیں ، کہ میری طرح وہ
بھی گیارہ ہی بیان کرتے ہیں ۔
اس دوسری وجہ کی وضاحت :
شاگر د کے اعتراض کرنے پر کہ گیارہ رکعت یا اکیس رکعت ؟
استاد محمد بن یوسف ؒ اپنے شاگرد اسماعیل بن امیہؒ کو یہ کہہ رہے ہیں کہ جو گیارہ رکعت
میں نے حضرت سائب ؓکے حوالہ سے بیان کی ہے یہی گیارہ رکعت یزید بن خصیفہ نے بھی حضرت
سائبؓ سے سنی ہے ، اس لئے تم مجھ پر اعتراض
نہ کرو ،یزید بن خصیفہ بھی میری تائید اور سپورٹ میں ہیں۔
یہ جملہ محمد بن یوسف ؒ نے قسم کھا کر اور بہت ہی
زیادہ تاکید کے ساتھ کہا کہ یقینا وقطعاً وہ ۱۱ رکعات
والی بات یزید بن خصیفہ نے سائب ؓ سے سنی ہے ۔
کسی
کے زہن میں یہ سوال ہوگا کہ یہ جملہ انہوں نے اتنی زیادہ تاکید کے ساتھ کیوں کہا؟
اِس
کا جواب یہ ہے کہ وہ بہت ہی تاکید کے ساتھ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ گیارہ رکعت بتانے
میں میں تنہا نہیں ہوں بلکہ ابن خصیفہ بھی میرے ساتھ ہیں، جب انسان کسی کو اپنا
حمایتی بتاتا ہے تو پوری قوت کے ساتھ یہ بات کہتا ہے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں فلاں
شخص بھی یقینا اس بات میں میرا حمایتی اور سپورٹر ہے ۔
پس
محمد بن یوسف ؒ بھی اپنے شاگرد اسماعیل بن امیہ سے کہہ رہے ہیں میرے ساتھی ابن خصیفہ
بھی گیارہ بیان کرنے میں میری حمایت ہی کرینگے ، انہوں نے بھی یقینا ہمرے استاد حضرت
سائب ؓ سے گیارہ رکعت ہی سنی ہے ۔
ورنہ
اگر محمد بن یوسف ؒ صرف اتنا کہنا چاہ رہے ہوتے (جیسا کہ کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں
) کہ اکیس رکعت والی بات میں نے نہیں ابن خصیفہ نے حضرت سائبؓ سے سنی ہے ، تو
یہ بات کوئی اتنا زیادہ زوردے کرکہنے کی نہیں ہے ، عام بول چال میں بھی یہ جملہ زیادہ
زور دے کر نہیں کہا جاتا ہے کہ یہ بات میں نے نہیں انہوں نے سنی ہے ۔
لہذا
معلوم ہوا یہاں ذلک سے گیارہ رکعت کی طرف اشارہ ہے ، اور محمد بن یوسف ؒ یہ کہنا چاہ
رہے ہیں کہ ابن خصیفہ ؒ نے بھی گیارہ رکعت ہی سنا ہے ۔
’ذلک‘ سے اکیس ماننے سے (جیسا کہ کفایت اللہ صاحب
نے ماناہے ) کیا خرابی لازم آتی :
اصل
میں محمد بن یوسف ؒ کو تعداد بیان کرنے میں اضطراب ہوگیا تھا (یعنی تعداد الگ الگ بیان
کرتے تھے جیسا کہ ابھی اوپر گذرا) انہوں نے پہلے گیارہ رکعت بیان کی پھر بعد میں رجوع
کرلیااور اکیس رکعت کہا (جسے آگے ہم ثابت کریں گے) تو اس میں غلطی کی نسبت انہیں کی
طرف ہو رہی ہے ، کہ ان سے بھول ہوگئی پہلے گیارہ کہا تھا پھر اکیس کہا ، صحابی ؓ کے
حافظہ پر آنچ نہیں آرہی ہے ۔
مگر
فرقہ اہل حدیث کے ریسرچرکفایت اللہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس جملہ میں ’’ ذلک‘‘ سے اکیس
رکعت کی طرف اشارہ ہے ۔
یعنی
استاد محمد بن یوسف ؒ اپنے شاگر د اسماعیل بن امیہؒ کو یہ کہہ رہے ہیں کہ ا ٓ پ جو
اکیس رکعت کی بات کر رہے ہو وہ بات اللہ کی قسم یقینا وقطعاً حضرت سائب ؓ سے یزید بن
خصیفہؒ نے سنی ہے ۔
مگر
ہمارے نزدیک کفایت اللہ صاحب کا یہاں ذلک سے اکیس رکعت مراد لینا صحیح نہیں ہے۔
جس کی وجہ یہ ہے کہ :
اس سے صحابی رسول کے حافظہ پر سوال اٹھنے لگے گا کہ انہوں
نے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں پڑھی جانے والی نماز تراویح کی رکعات کی تعداد کسی کوگیارہ
رکعت بتائی اور کسی کو اکیس رکعت ۔
کفایت
اللہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں محمد بن یوسف ؒ نے گیارہ رکعت بیان کی ،جب ان سے سوال
ہوا کہ گیارہ یا اکیس تو انہوں نے کہا :سائب ؓسے ابن خصیفہؒ نے یقینا اکیس سنی ہے ،
گویا صحابی رسول حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما نے دو الگ الگ باتیں بیان کیں ،
محمد بن یوسف کو گیارہ بیان کیا اور ابن خصیفہ ؒ کو اکیس۔
یہ معنی لینے کی وجہ سے جب کفایت اللہ صاحب پر اعتراض
ہوا کہ آپ صحابی ؓ کے حافظہ پر کلام کر رہے ہو،توکہنے لگے محمد بن یوسف نے یہاں صرف
یہ کہا ہے کہ ایسا ابن خصیفہ نے سنا ہے لیکن یہ ہرگز نہیں کہا کہ صحیح طور پرسنا
ہے ۔
عجیب
بے تکی بات ہے ، کیا جب بھی کوئی راوی کسی کے حدیث سننے کا تذکرہ کرتا ہے تو کیا یہ
بھی کہتا ہے کہ اس نے صحیح سنا ہے ؟
کیا
بخاری ومسلم کی سند میں ہر راوی اپنے استاد کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ انہوں نے فلاں
سے سنا ہے اور صحیح سناہے؟ لہذا کفایت صاحب کا اعتراض باطل اور مردود ہے۔نیز اگر محمد
بن یوسف ؒ صرف اتنا کہنا چاہ رہے ہوتے (جیسا کہ کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں ) کہ اکیس
رکعت والی بات میں نے نہیں ابن خصیفہ نے حضرت سائبؓ سے سنی ہے ، تو یہ بات کوئی اتنا زیادہ زوردے کرکہنےوالے بات بھی نہیں ہے ، عام
بول چال میں بھی یہ جملہ زیادہ زور دے کر نہیں کہا جاتا ہے کہ ’’یہ بات میں نے نہیں
انہوں نے سنی ہے ۔ ‘‘
پھر
اگر ہم ’ذلک‘ سےمراد اکیس رکعت لےجیسا کہ کفایت
اللہ صاحب مانتے ہیں تو اس سےابن خصیفہؒ بھی مصنف میں موجود محمد بن یوسف کی ۲۱ والی
داود بن قیسؒ اور دوسرے رواۃ کی روایت کی تائدکرےنگے جیسا کہ تفصیل اپر گذرچکی۔الغرض
کفایت صاحب کا’ذلک‘ سے ۲۱
مراد لینا مردود ہے۔
کفایت صاحب کا ابن خصیفہؒ کے لفظ’حسبت‘ پر اعتراض:
اسماعیل بن امیہ ؒ کہتے ہیں کہ جب محمد بن یوسف ؒنے یہ کہا
کہ یزید بن خصیفہ ؒ نے وہ روایت حضرت سائبؓ سے سنی ہے، ’’
سألت
یزید بن خصیفۃ، فقال حسبت ان السائب قال احدی وعشرین‘‘
تو میں ابن خصیفہ ؒ سے معلوم کیا، تو انہوں نے کہا کہ’’ حسبت
‘‘ میرا گمان ہے کہ حضرت سائبؓ نے اکیس رکعات بیان کی تھی ۔
یزید
بن خصیفہ کے اس جملہ پر کہ ’’ میرا گمان ہے ‘‘ کفایت اللہ صاحب نے کہا کہ ان
کی بیان کی ہوئی تعداد (اکیس رکعات ) مشکوک ہے، یعنی اس میں شک ہے کہ انہوں نے صحیح
کہا ہے یا نہیں ۔
الجواب :
جہاں
تک ’’حسبت‘‘ میرا گمان ہے، کہنا ہے تو بہت سی مرتبہ راوی احتیاط کے طور پر ایسا کہہ
دیتا ہے،ورنہ حقیقت میں اسے شک نہیں ہوتا۔
مثلا سنن ابن ماجہ کی روایت ہے، صحابی
رسول حضرت انس بن مالک ؓ خودحسبت کے لفظ سے حدیث بیان کر رہے ہیں: عن انس بن مالک ؓ قال قال رسول
اللہ ﷺ : من کذب علیّ ۔ حسبتہ قال : متعمدا۔
فلیتبوأ مقعدہ من النار ۔ (سنن ابن ماجہ / رقم الحدیث
۳۲)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے مجھ پر جھوٹ بولا ، (میرا گمان ہے کہ) آپ ﷺ نے فرمایا
وہ جان بوجھ کرایسا کرے ، تووہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔ دیکھئے یہاں خود صحابی احتیاط کے طور پر کہہ رہے
ہیں کہ میرا گمان ہے آپ ﷺ نے ایسا کہا ۔
نیزابن ماجہ کےعلاوہ حضرت انس بن مالک سے یہی روایت اکثر
مقامات پر بالجزم آئی ہے۔مثلا
مسند ابن الجعد کے الفاظ : حدثنا أحمد بن إبراهيم
العبدي، نا عثمان بن عمر، نا شعبة، عن حماد قال: سمعت أنس بن مالك يقول: قال أبو
القاسم صلى الله عليه وسلم:ن كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار۔
مسند ابن الجعد کی دوسری سند کے الفاظ : حدثنا علي، أنا شعبة، أخبرني
عتاب قال: سمعت أنس بن مالك يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من كذب علي
متعمدا فليتبوأ مقعده من النار۔(مسند ابن الجعد: حدیث نمبر
: ۳۳۷،۱۴۸۰)
مسند احمد میں بھی ۷ سندوں
سے حضرت انس بن مالک سے یہی روایت بالجزم آئی ہے۔اسی طرح ا لبحر الزخار،الكنى والٔسماء
للدولابي،شرح مشكل الآثار،صحيح ابن حبان،طرق حديث من كذب علي
متعمداللطبراني،المعجم الأوسط للطبرانی،مسند أبي يعلی،صحيح مسلم،سنن
الدارمي،السنن الكبرى للنسائي وغیرہ کتابوں میں حضرت انس بن مالک سے یہی روایت بالجزم آئی ہے۔
تو تمام روایتوں کو سامنے رکھ کر یہی کہاجائےگا کہ یہاں
ابن ماجہ کی روایت میں صحابی نے احتیاط کے طور پر کہہ رہے ہیں کہ میرا گمان ہے آپ
ﷺ نے ایسا کہا ۔نہ کہ شک کے طور پر۔
بلکل اسی طرح یہاںفوائد
ابوبکر النیشاپوری کی روایت میں بھی یزید بن خصیفہ ؒ نے احتیاط کے طور پر کہہ رہے ہیں
کہ میرا گمان ہےکہ حضرت سائبؓ نے اکیس رکعات بیان کی تھی ۔ اور کفایت اللہ صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ ابن خصیفہ
نے بعض دفعہ بالجزم بیان کیا ہے۔(مسنون رکعات تراویح /۷۲)
نوٹ : ہم کہتے ہیں کہ بعض
جگہ نہیں بلکہ فوائد ابوبکر النیشاپوری کےعلاوہ ہر جگہ ابن خصیفہ ؒنے اسے بالجزم بیان
کیا ہے۔
مسند
ابن الجعدکے الفاظ: حدثنا علي، أنا ابن أبي ذئب،
عن يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد قال: كانوا يقومون على عهد عمر في شهر رمضان
بعشرين ركعة، وإن كانوا ليقرءون بالمئين من القرآن۔(حدیث نمبر ۲۸۲۵)
فضائل
الأوقات للبيهقي کے الفاظ: أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن
الحسين الدينوري، حدثنا أحمد بن محمد بن إسحاق السني، حدثنا عبد الله بن محمد بن
عبد العزيز، حدثنا علي بن الجعد، حدثنا ابن أبي ذئب، عن يزيد بن خصيفة، عن السائب
بن يزيد، قال: كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب في شهر رمضان بعشرين ركعة، قال:
وكانوا يقرءون بالمائتين، وكانوا يتوكئون على عصيهم في عهد عثمان بن عفان من شدة
القيام۔(حدیث نمبر ۱۲۷)
السنن
الصغير للبيهقي کے الفاظ : أخبرنا أبو طاهر الفقيه،
أنا أبو عثمان عمرو بن عبد الله البصري، نا محمد بن عبد الوهاب، أنا خالد بن
مخلد، نا محمد بن جعفر، حدثني يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد، قال: كنا نقوم في زمان عمر بن الخطاب رضي الله عنه
بعشرين ركعة والوتر۔(حدیث نمبر ۸۲۱)
الصيام
للفِرْيابِي کے الفاظ : حدثنا تميم بن المنتصر،
أخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا ابن أبي ذئب، عن ابن خصيفة، عن السائب بن يزيد قال
كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب في۱ رمضان عشرين ركعة، ولكن كانوا
يقرءون بالمائتين في ركعة حتى كانوا يتوكئون على عصيهم من شدة القيام۔(حدیث نمبر ۱۷۶)[6]
لہذا تمام روایتوں کو سامنے رکھ کر یہی کہاجائےگا کہ
یہاںفوائد ابوبکر النیشاپوری کی روایت میں بھی یزید بن خصیفہ ؒ نےاحتیاط کے طور پر
کہا ہیں کہ میرا گمان ہےکہ حضرت سائبؓ نے اکیس رکعات بیان کیا۔نہ کہ شک کے طور پر۔
تو کفایت صاحب کا اسے مشکوک قرار دینا اور یا ان کی رٹ
’کہ ابن خصیفہ کوتعداد ِرکعات پر پوری طرح وثوق نہیں تھا‘ باطل اور مردود ہے۔
اگر (حسبت ) یعنی ’میرا خیال‘ کہنے سے روایت مشکوک ہوجاتی
ہے تو بخاری اور مسلم سے دس سے زیادہ مثال دی جاسکتی ہے کہ راوی ’’حسبت ‘‘کا لفظ استعمال
کرتے ہوئے حدیث بیان کرتا ہے ، مثال کے طور پر دیکھئے بخاری شریف کی حدیث نمبر (۴۵۰) :
حدثنا یحي بن سلیمان، حدثنی
ابن وہب، اخبرنی عمرو،أن بکیراً، حدثہ أن عاصم بن عمر بن قتادۃ حدثہ، أنہ سمع
عبید اللہ الخولانی ، أنہ سمع عثمان بن عفانؓ ، یقول عند قول الناس فیہ حین بنی
مسجد رسول اللہ ﷺ : إنکم أکثرتم ، وإنی سمعت النبی ﷺ یقول :’’ من بنی مسجداً -
قال بکیر : حسبت أنہ قال : یبتغی بہ وجہ اللہ - بنی اللہ لہ مثلہ فی الجنۃ ۔
اس
حدیث میں ایک راوی بکیر
’حسبت‘ کہہ رہے ہیں کہ میرا خیال ہے میرے استاد نے یہ جملہ ’یبتغی بہ وجہ اللہ ‘ بھی کہاہے ، اور بقول شارح بخاری علامہ حافظ ابن
حجر ؒجن کو فرقہ اہل حدیث والے بھی اپنا سلف مانتے ہیں،ان کا قول ہے کہ اس حدیث کی
کسی سند میں یہ اضافہ نہیں ہے یعنی بکیر اس جملہ کو بڑھانے میں منفرد اور ہیں ،مگر
اس کے باوجود امام بخاری ؒ کو ان کی حدیث کے صحیح ہونے میں شک نہیں ہے اسی لئے وہ اسے
اپنی کتاب میں اسے بیان کر رہے ہیں ۔ اسی طرح دیکھئے بخاری شریف کی یہ حدیثیں (۷۳۱) (۷۴۵) (۲۲۶۷)(۲۳۶۴)(۳۰۰۵) وغیرہ
۔
کیا
ان تمام راوی کا حافظہ کم زور ہو گا ، اور کیا ان کی بیان کی ہوئی بخاری کی حدیثوں
میں شک ہوگا؟ ہرگز نہیں ،بلکہ بعض مرتبہ راوی احتیاط کے طور پر میرا خیال ہے کا لفظ
استعمال کرلیتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی وہ روایت
ہرگز ضعیف نہیں ہوجاتی ۔
اور
یہاں پر ابن خصیفہ ؒ سے دوسری سندوں سے ان کا جزم اور یقین کے ساتھ بغیر کسی شک وشبہ
کے اکیس رکعت کہنا بھی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ تفصیل اوپر گزرچکی، نیز ان کے متابعت
میں یعنی سپورٹ میں بہت سی روایتیں موجود ہیں[7] جن
کو شیخ ابن باز ؒ کے شاگرد شیخ عبد اللہ الدویش نے اپنی کتاب تنبیہ القاری میں حدیث
نمبر ۵۸
کے تحت ذکر کیا ہے ۔
خود محمد بن یوسف نے ان کے ’حسبت‘ کہنے کی وجہ سے ان کی
روایت کو رد نہیں کیا بلکہ اس کو اتنا معتبر مانا کہ خود اپنے گیارہ رکعت کے قول سے
رجوع کرلیا ۔ (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
اور اسماعیل بن امیہؒ جنہوں نے محمد بن یوسف ؒ کو ۱۱ رکعات
بیان کرنے پر ٹوکاتھا،انہونے بھی یزید بن خصیفۃ ؒ کو ’’حسبت‘‘ اور ’’اکیس رکعات ‘‘
کہنے پر نہیں ٹوکا۔
الغرض یہ تمام باتیں دلالت کر رہی ہیں کہ یزید بن خصیفۃ
ؒنے یہاں پر احتیاط کے طور پر’’حسبت‘‘ کہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دکتور کمال قالمی کہتے ہیں : کہ ’’لا يضره إن شاء الله؛ لأنّ
الراوي ربما قال ذلك احترازاً وتحفظاً لا شكاً ومهما يكن فقد رواه عنه الجماعة على
الجزم كما سبق‘‘کہ ضروری نہیں ہے کہ یہ شک کے لئے استعمال
کیا ہو بلکہ ممکن ہےکہ احتیاط کے لئے کہا ہو اور دیگر رواۃ نے تو بالجزم اسے روایت
کیا ہے۔ (فصل
الخطاب في بيان عدد ركعات صلاة التراويح في زمن عمر بن الخطاب رضي الله عنه للشيخ
دکتور كمال قالمي)
لیکن کفایت صاحب
اپنے مسلک کو بچانے کے لئےاس کا بھی انکار کرتے ہیں جو کہ باطل اور مردود ہے۔
کفایت اللہ صاحب کی ایک اور خیانت :
جب اسماعیل بن امیہؒ پوچھ کر آئے تو ، محمد بن یوسفؒ نے
کہا :’’ اَوْ قلتُ: لَإحدیٰ وعشرین‘‘
یعنی محمد بن یوسف ؒ نے کہا: بلکہ میں (بھی) یقیناََ اکیس رکعت کہتا ہوں۔
کفایت اللہ صاحب نے اپنی کتاب مسنون رکعات تراویح
: ص ۶۷-۶۸ میں
یہ حدیث ذکر کی ہے مگر آخر کا یہ جملہ ’’
اَوْ قلتُ: لَإحدیٰ وعشرین‘‘ اڑا دیا ،حالانکہ جس مخطوطہ کا انہوں نے اپنی کتاب
میں حوالہ دیا ہے ا س مخطوطہ میں یہ عبارت موجود اور نظر بھی آرہی ہے۔[8]
اس سے ان کی علمی امانتداری اور تحقیقی
دیانتداری کا پتہ چلتا ہے، صحیح وجہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسی خیانت
کیوں کی ، اپنی عوام کو دھوکہ دینا مقصد تھا، یا ان کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے
مصلحتاً ایسا کرلیا یا شیخ البانی ؒ کی تقلید کر رہے تھے کیونکہ شیخ البانیؒ نے
بھی اس جملہ کو اڑادیا ۔
کفایت اللہ صاحب پر مزید تعجب اس لئے بھی ہورہاہےکہ
موصوف کو مکتبہ شاملہ میں موجود ـ’’حسنت‘‘
کی جگہ’’احسنت‘‘ کی غلطی نظر آئی جس سے وہ دھوکہ نہ کھانے کی ہدایت دے رہےہے۔(مسنون
رکعات تراویح : ص ۷۱-۷۲)لیکن
اسی مکتبہ شاملہ میں موجود ’’حسنت‘‘ کےأگے لکھی ہوئی وہ عبارت جس کو کفایت اللہ صاحب
نے اڑادیا ،یعنی ’’ اَوْ قلتُ: لَإحدیٰ وعشرین‘‘کیوں
نظر نہیں أیا ؟
جو لوگ اس طرح کی عبارتیں حدیث سےحذف کرسکتےہیں،
اڑادسکتے ہیں۔ کیا وہ ترجمہ میں گڑبڑی نہیں کرسکتے؟
نیز
کفایت اللہ صاحب کا یہ دھوکا جب ہمارے ایک ساتھی نے ذکر کیا اور ان کی حدیث کی ترجمانی
میں گڑبڑی کو بھی واضح کیا تو جواب میں کفایت اللہ صاحب نے ایک مضمون تو لکھ مارا۔لیکن
انہونے ’’ قال
محمد: او قلت لاحدی وعشرین ‘‘ کے الفاظ کوکیوں چھپایا،اس
کے بارے میں اپنے مضمون میں خاموشی کو ہی غنیمت جانا۔
پھر
ان کے ٹوکنے پر نہ چاہتے ہوئے اسے نقل کیا مگر اس میں تحریف کردی تاکہ معنی کچھ کا
کچھ ہوجائے ۔
اس جملہ(یعنی’’قال محمد: او قلت لاحدی وعشرین ‘‘ ) میں دو
لفظ ہیں ان کی بھی مختصر سی وضاحت پیش ہے :
پہلا لفظ ہے ’ او ‘الیف اور واو ہے۔
یہ’اَوْ‘ہو
تو اس کےایک معنی ہوتا ہے’ یا ‘ جیسے’ ہذا اوْ ہذا ‘یہ
چیز یا یہ چیز ۔ دوسرے
معنی ہوتا ہے ’ بلکہ‘ یعنی
’یہ نہیں بلکہ وہ‘ ۔ خود قرآن کریم میں اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں { وارسلناہ
الی مائۃ الف او یزیدون } ابن عباس ؓ فرماتے ہیں
یہاں او بلکہ کے معنی میں ہے ۔ (تفسیر الطبری ۲۱ /۱۱۵)
اوراگر یہ’
اَوَ‘ہو تو ، اس صورت میں یہ سوال کیلئے ہوتا ہے
، جیسے ’اَوَ ہذا‘ یعنی
کیا یہ ؟
اور
کہاں پر یہ ’اَوْ‘،
اور کہاں ’اَوَ‘ پھڑنا
ہے اس کو آگے پیچھے کا سینٹینس() دیکھ کر معلوم کیا جاتا ہے ۔
دوسرا حرف ہے لام ہے ’ لإحدی وعشرین ‘
میں :
یہ لام تاکید کیلئے آتا ہے جس کے
معنی ہوتے ہیں ’یقینا‘
جیسے ’لانتم‘
یعنی یقینا تم ۔
اوریہ بات بالکل واضح ہے کہ جہاں سوال ہوگا وہاں یقین
نہیں ہوگا اس لئے کہ سوال ہوتا ہی وہاں جہاں شک ہو ،یقینی بات معلوم نہ ہو ، اگر کوئی
بات یقینی طور پر معلوم ہوتو وہاں سوال کے کیا معنی ؟
کفایت
اللہ صاحب کہتے ہیں یہ لفظ ’’ اَوْ‘‘
نہیں بلکہ ’’
اَوَ ‘‘ ہے،
یعنی یہ سوالیہ جملہ ہے کہ :کیا میں نے اکیس کہا ؟
پہلی بات یہ ہے کہ مخطوطہ میں کوئی اعراب
لگاہوا نہیں ہے ، کفایت اللہ صاحب نے اپنا مطلب نکالنے کے لئے یہ اعراب لگایا ہے ،
اور عبارت کو اپنے مطلب کے مطابق بنانے کیلئے اور سچ بات کو چھپانے کیلئے ایک
حرف یعنی لام تاکید کا ترجمہ کھاگئے ؟
اگر یہ ’’
اَوَ ‘‘ ہے
، یعنی محمد بن یوسف سوال کر رہے ہیں تو احدی وعشرین پر لام تاکید کیوں ہے ؟
کفایت
اللہ صاحب کے مطابق یہ سوال توانکار کیلئے ہے،یعنی محمد بن یوسفؒ یہ کہنا چاہ رہے ہیں
کہ میں نے کب کہا اکیس رکعت ؟ یعنی میں نے اکیس رکعت نہیں کہا۔
اگر ’’ اَوَ ‘‘
کے ساتھ لام تاکید
کا بھی ترجمہ کرےنگے تو بالکل بے تکا سا ترجمہ ہوگا کہ محمد بن یوسفؒ نے کہا ’’ کیا میں نے: یقینا اکیس رکعت کہا ‘‘ ۔ یعنی
اس ترجمہ میں محمد بن یوسف سوال بھی کر رہے ہیں کہ ’ کیا میں نے کہا ‘ اور یہ بھی کہہ
رہے ہیں ’’ یقینا اکیس رکعت ‘‘ جب کہ سوال اور یقین دونوں ایک ساتھ نہیں ہوسکتے ۔
اس طرح کے ترجمہ سے بچنے کےلئے کفایت اللہ صاحب نے لام تاکید
کا ترجمہ ہی اڑادیااور اپنے مطلب کا ترجمہ کیا کہ محمد بن یوسفؒ نے کہا ’’کیا میں نے ۲۱ رکعات
کہا ؟ ‘‘جو کہ باطل اور مردود ہے۔معلوم ہوا یہاں ’’اَوَ‘‘
نہیں بلکہ ’’اوْ‘‘
ہےاور لا م تاکید کوسامنے رکھتے ہوئے اس عبارت کا صحیح ترجمہ
یہی ہوگا کہ :’’ بلکہ یقینا میں ۲۱ رکعت کہتا ہوں ‘‘۔
خود قرآن کریم
میں کلمہ ’’ اوْ ‘‘
’بلکہ‘
کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ تو محمد بن یوسف ؒ جنہوں نے پہلے گیارہ رکعت بیان کی
تھی ، انہوں نے ابن خصیفہؒ کی طرف سے۲۱
رکعت بات سن کر خود اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہوئے ۲۱ رکعت
کو مان لیا۔
دکتور کمال قالمی کے نزدیک بھی محمد بن یوسفؒ نے’’ ۱۱ رکعات‘‘
سے ’’ ۲۱
رکعات‘‘ کی طرف رجوع کیا ہے۔ [9] دیکھئے
(فصل
الخطاب في بيان عدد ركعات صلاة التراويح في زمن عمر بن الخطاب رضي الله عنه للشيخ
دکتور كمال قالمي)
الغرض فوائد نیشاپوری کی اس روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے
کہ محمدبن یوسفؒ نے ۸ رکعت کی تعداد کے بارے میں غلطی ہوئی اور آخر انہوں نے ۲۰؍ رکعت تراویح کو صحیح مانا
ہے۔[10]
[1] سند کے رواۃ کی تحقیق:
(۱) امام
ابو بکر النیشاپوریؒ (م۳۲۴ھ)
ثقہ حافظ فقیہ ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم:ج۶ص۱۰۹)
(۲) امام
یوسف بن سعیدؒ (م۲۷۱ھ)
بھی ثقہ حافظ ہیں۔ (تقریب، رقم:۷۸۶۶)
(۳) امام
حجاج بن محمدؒ (م۲۰۶ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ وہ مضبوط ہیں۔
(تقریب، رقم:۱۱۳۵)
(۴) امام
ابن جریجؒ (م۱۵۰ھ)
صحیحین کے راوی اور ثقہ اور فقیہ، فاضل ہیں۔
(تقریب، رقم: ۴۱۹۳)
(۵) امام
اسماعیل بن امیہؒ (م۱۴۴ھ)
بھی ثقہ ہیں۔ (تقریب، رقم:۴۲۵)
(۶) امام
محمد بن یوسفؒ (م۱۴۰ھ)
بھی ثقہ مضبوط ہیں۔ (تقریب، رقم: ۶۴۱۴)
نوٹ: اگرچہ محمد بن یوسفؒ ثقہ ہیں لیکن یہاں اس (گیارہ رکعت والی راویت میں ان)سے غلطی ہوئی ہے
، جیساکہ تفصیل اوپر گذر چکی، نیز علماء اہل حدیث نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ثقہ سے غلطی
ہو سکتی ہے، لہٰذا اس روایت میں آٹھ رکعت کا ذکر ان کی غلطی کی وجہ سے ہے۔
(۷) سائب
بن یزیدؒ (م۹۱ھ)
صحابیٔ رسول ﷺ ہیں ۔ (تقریب)
(۸) حضرت
عمربن خطابؓ (م۲۲ھ)
بھی مشہور صحابی اور خلیفہ راشد ہیں۔ (تقریب)
لہٰذا یہ سند صحیح ہے۔
[2] امام عبدالرزاق الصنعانیؒ (م۲۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’عن داؤد بن قیس، وغیرہ،
عن محمدبن یوسف، عن السائب بن یزید، ان عمرؒ جمع الناس فی رمضان علی ابی بن کعب،
وعلی تمیم الداری علی احدی وعشرین رکعۃ۔‘‘ محمد بن یوسفؒ نے سائب بن یزیدؒ سے
روایت کیا ہے کہ حضرت عمرؓاور تمیم داریؓ (کی امامت) کے ساتھ ۲۱؍ رکعت پر جمع کیا ہے، (جس
میں۲۰؍ رکعت
تراویح ہے)۔ (مصنف عبدالرزاق: رقم الحدیث:۷۷۳۰) اس روایت کے سارے راوی ثقہ
ہیں اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کے ہیں اور یادرہے کہ: امام عبدالرزاق نے یہ
روایت داؤد بن قیسؒ (ثقہ) کے علاوہ، دوسرے لوگوں کو بھی بیان کی ہے ، جیسا کہ وہ فرمارہے
ہیں کہ : ’’داود بن قیس وغیرہ‘‘۔
کفایت صاحب کا اس پر یہ اعتراض کرنا کہ
مصنف عبد الرزاق کی یہ حدیث ضعیف ہے ،بالکل غلط ہے ،اس حدیث کو مصنف کے زمانہ سے
لے کر آج تک کسی بھی محدث نے ضعیف نہیں کہا ہے۔
بلکہ خودسلفی علما ء نے بھی اس حدیث کی سند
کو صحیح کہا ہے اور اس حدیث کو معتبرمانا ہے : مثال کے طور پر:
(۱) مصر کے مشہورسلفی عالم شیخ مصطفی العدوی نے
بھی اپنی کتاب میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔
(عدد رکعات قیام اللیل/۳۹))
(۲)شیخ ابن باز ؒ کے شاگرد ، شیخ عبد اللہ بن
محمد الدویش ؒ نے اپنی کتاب تنبیہ القاری میں اس حدیث کو معتبر مانا ہے ۔ (ج ۱: ص ۴۱
، حدیث نمبر ۵۸)
(۳) اسی طرح شارح بخاری ، حافظ ابن حجر ؒ ، جن
کا انتقال ۸۵۲ ھ میں یعنی ۵۸۶
پہلے ہوا ہے ، اور انہیں فرقہ اہل حدیث والے بھی اپنا سلف مانتے ہیں ان کا قول
اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں ، انہوں نے بھی اپنی مشہور زمانہ بخاری کی شرح فتح
الباری میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس پر سکوت کیا ہے یعنی اس کوصحیح یا ضعیف
نہیں کہا ہے ، اور خود کفایت اللہ صاحب ابن حجر ؒ کے سکوت کے بارے میں کہتے ہیں کہ
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح یا کم از کم
حسن ہے ۔(انوار البدر /۱۴۵) اسی طرح عبد
المنان نور پوری نے بھی یہ بات کہی ہے ۔ (تعداد تراویح ۲۲۷)
اسی طرح کفایت صاحب کا مصنف عبد الرزاق کی
اس حدیث پر یہ دو اعتراض بھی درست نہیں کہ:
(۱) یہ روایت اسحاق بن ابراہیم الدبری کے واسطے
سے ہے ، اور انہونے عبد الرزاقؒ سے اختلاط
کے بعد سنا ہے ۔
(۲) امام
عبد الرزاق ؒ اخیر عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا، اسلئے
ان کی یہ حدیث معتبر نہیں ۔ یہ دونوں اعتراض اس لئے صحیح نہیں کیونکہ :
جو حدیث امام عبد الرزاق ؒ کی کتابوں میں
ہے ا س کے بارے میں یہ دونوں اعتراض محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ۔ کیونکہ امام الحافظ
مسلمہ بن قاسم ؒ (م۳۵۳ھ) ،حافظ الذہبیؒ(م۷۴۸ھ)، حافظ صلاح الدین الصفدیؒ(م۷۶۴ھ) اور حافظ قاسم بن قُطْلُوْبَغَاؒ (م۸۷۹ھ) نے وضاحت فرمائے ہیں کہ الدبریؒ نے مصنف کو امام عبدالرزاق الصنعانیؒ
(م۲۱۱ھ) سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔ ان کا ان سے سماع صحیح ہے۔
(کتاب الثقات للقاسم بن قُطْلُوْبَغَا: ج ۲ : ص ۳۰۰،تاريخ
الاسلام للذہبی :ج۶:ص۷۱۴،سير أعلام
النبلاء للذہبی :ج۱۳:ص۴۱۶،الوافي بالوفيات للصفدی : ج۸ : ص ۲۵۶) امام
احمد بن حنبل ؒ جو امام بخاری ؒ کے استاذ ہیں فرماتے ہیں :’’ من سمع من الکتب فہو اصح‘‘ ۔
یعنی جس نے امام عبد الرزاق کی کتابوں سے (حدیث) سنی ہے وہ زیادہ صحیح ہے : (تہذیب
التہذیب (۶/۳۱۲) تہذیب الکمال(۱۸/۵۸) تاریخ
دمشق(۳۶/۱۸۲)
اور یہ حدیث امام
عبد الرزاق کی مشہور کتاب مصنف عبد الرزاق میں موجود ہے ۔ معلوم ہوا محمد بن یوسف سے اکیس رکعت تراویح
ثابت ہے جسے اسماعیل بن امیہ ؒ ،داؤد بن قیس اور دوسرے محدثین نے صحیح سند سے نقل
کیا ہے۔
[3] ان کے الفاظ یہ ہیں : وقد روى مالك عن
يزيد بن رومان قال كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين
ركعة وهذا كله يشهد بأن
الرواية بإحدى عشرة ركعة وهم وغلط وأن الصحيح ثلاث وعشرون وإحدى وعشرون ركعة والله أعلم۔ یاد رہے کہ
حافظ المغرب امام ابن عبدالبرؒ (م۴۶۳ھ) کی یہ عبارت اور ہے اور کفایت اللہ
صاحب نے امام ابن عبدالبرکی جس عبارت کا جواب دیا ہے،وہ اور ہے (مسنون رکعات
تراویح: ص ۸۳) ۔لہذا اس سے دھوکا نہ کھائے۔
[4] جیسا کہ سلفی عالم ابن عثیمینؒ
نے ’’لقد‘‘ کی تفسیر فرمائے ہے۔
[5] اس پر کفایت اللہ صاحب ایک اعتراض کرتے ہے کہ لیکن( ابن یوسف ؒ نے) یہ ہرگز
نہیں کہا کہ(ابن خصیفہؒ نے) صحیح طور پرسنا ہے ۔یعنی کفایت اللہ صاحب کہنا چاہتے ہیں
کہ محمد بن یوسف ؒنے صرف اتنا کہا کہ ۲۱
والی
بات تو ابن خصیفہؒ نے حضرت سائب ؓ سےسنی ہے۔
لیکن ابن یوسف ؒ نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ابن خصیفہؒ نے ۲۱ والی بات صحیح طور
پرسنا ہے ۔اس بے تکے اعتراض کا جواب اگے آرہا
ہے۔
[6] درج ذیل محدثین نے بیس رکعات تراویح
کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔
۱ - امام نووی
ؒ (م
۶۷۶ ھ) ۔(خلاصۃ الاحکام للنووی ۱/۵۷۶ )
۲ - امام فخر
الدین الزیلعی ؒ (م ۷۴۳
ھ) ۔ (تبیین الحقائق ۱/۱۷۸)
۳ - امام تقی
الدین سبکی ؒ (م ۷۵۶ ھ ) ۔ ( شرح المنہاج للسبکی بحوالہ المصابیح ، صفحہ /۴۱)
۴ - امام ابن
الملقن ؒ (م ۸۰۴ ھ ) ۔
(البدر المنیر لابن الملقن ۴/۳۵۰)
۵ - امام ولی
الدین العراقی ؒ (م ۸۲۶ ھ) ۔ (طرح التثریب
للعراقی ۳/۹۷ )
۶ - امام بدر
الدین العینی ؒ (م ۸۵۵
ھ) ۔ ( العنایہ للعینی ۲/۵۵۱)
۷ - امام جلال
الدین سیوطی ؒ (م ۹۱۱ ھ) ۔ (المصابیح للسیوطی ، صفحہ /۲۸، ۳۰)
۸ - امام قسطلانی
ؒ (م
۹۲۳ ھ)
۔ (ارشاد الساری ۳/۴۲۶)
۹ - امام ،
شیخ الاسلام زکریا الانصاری ؒ ؒ ( م ۹۲۶ ھ ) ۔ (فتح الوھاب ، للامام زکریا الانصاری ۱/۵۸)
۱۰ - محدث ملاعلی
قاری ؒؒ (م ۱۰۱۴ ھ) ۔ (شرح النقایہ للامام ملا علی قاری ۱/۳۴۱)
۱۱ - حافظ محمد
مرتضیٰ زبیدی ؒ (م ۱۲۰۵ ھ ) ۔ (اتحاف سادات المتقین للزبیدی
۳/۴۱۵ )
۱۲ - امام نیموی ؒ (م ۱۳۲۲ ھ) ۔ (آثار السنن /۲۵۱)
بلکہ
بہت سے اہل حدیث علماء نے بھی اس کو صحیح کہا ہے ، جیسے مثلاً:
(۱) کفایت اللہ صاحب کے امیر المؤمنین فی اسماء
الرجال اورذہبی زماں شیخ یحی ٰ معلمی ؒ نے بھی اپنی کتاب قیام رمضان صفحہ ۵۷ پر صحیح کہا ہے ۔
(۲) شیخ
ابن بازؒ کے شاگرد ، سلفی عالم شیخ عبد اللہ الدویش ؒ نے اس کی سند کے تمام راویوں
کو ثقہ کہا ہے ۔ دیکھئے (تنبیہ القاری ۵ /۴۲)
(۳)سید
محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے کہا کہ اس کی سند ٹھیک ہے۔ دیکھئے (مقالات راشدیہ ۱/۱۸۴)
(۴) سلفی
عالم مصطفی العدوی نے اس حدیث کو صحیح کہا ۔ (بحث فی عدد رکعات قیام اللیل /۳۶)
(۵) مشہور
اہل حدیث عالم غلام رسول گوجرانوی نے اس کی سند کو صحیح کہا ۔ (رسالہ تراویح )
(۶) مملکت
عربیہ سعودیہ کے دار الافتاء کے ریسرچر شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری اپنی کتاب میں
(جس کا نام ہی انہوں نے رکھا ہے ’’بیس رکعت تراویح کی حدیث کو صحیح ثابت کرنا اور البانی ؒ پر ردکرنا جنہوں نے اس کو ضعیف کہا ہے ‘‘)لکھتے
ہیں: ’’ اس حدیث کو صحیح کہا ہے ، نووی نے
اپنی کتاب الخلاصہ اور مجموع میں ، اور زیلعی نے نصب الرایہ میں ان کی تصحیح کو مانا
ہے ، اور اس حدیث کو صحیح کہا ہے سبکی نے شرح المنہاج میں ، ابن العراقی نے طرح التثریب
میں ، عینی نے عمدۃ القاری میں ، سیوطی نے المصابیح فی صلاۃ التراویح میں ، علی القاری
نے شرح المؤطا میں اور نیموی نے آثار السنن میں ۔
مگر اس سب کے برخلاف البانی ؒنے تراویح کے بارے میں اپنی کتاب میں گیارہ رکعت
پر اضافہ کرنے کا انکار کیا ہے ، مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی کی تقلید میں ، اور اس
حدیث کو ضعیف کہا ہے ‘‘۔ دیکھئے (تصحیح حدیث صلاۃ التراویح عشرین رکعۃ ، ص/۷)
اس سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں :
(۱) سعودیہ
کے دارالافتاء کے ریسرچر کی تحقیق ہے کہ بیس رکعت تراویح کی حدیث صحیح ہے ۔
(۲) شیخ
البانی ؒ نے اس کو مولانا مبارک پوری صاحب ؒ کی تقلید میں ضعیف کہا ہے ۔
(۳) شیخ
البانی ؒبھی تقلید کرتے تھے ۔
یاد رہے
، یزید بن خصیفہ ؒ کی روایت
کی مطابعت موجود ہے۔ لہذا یہ روایت (صحیح
) ، مضبوط اور حجت ہے ، الحمد للہ ۔
[7] دیکھئے
ص : ۷۶
[8] اسکین کے لئے دیکھئے ص :۶۷
[9] ان کے الفاظ یہ ہیں
: فهذا النّص يشعر بأن محمد بن يوسف لم
يكن بذاك الضابط المتقن للعدد؛ ولذلك جعل إسماعيل بن أمية يراجعه ويستوثقه بقوله:
«أو واحد وعشرين» وكأنّه سمع ذلك من غيره. وفي النّص أيضاً
إشارة لطيفة وهي وثوق محمد بن يوسف بحفظ يزيد بن خصيفة حينما أحال السائلَ عليه
بقوله: «لقد سمع ذلك من السائب بن يزيد»
[10] جب اس روایت سے ابن یوسفؒ کا ۲۰ رکعت کی طرف رجوع ثابت ہو گیا تو غیر مقلدین
نے اس حدیث میں موجود’ ۲۱رکعت‘ پر دو اعتراض کئے ہیں :
اعتراض نمبر ۱ : آپ نے
۲۱ میں سے ۲۰ رکعات تراویح اور ایک
وتر مراد لی، جبکہ خود آپ کے نزدیک ایک رکعت وتر درست نہیں ۔
جواب : پہلے اعتراض کا جواب
یہ ہے کہ :
(۱) اس
حدیث سے ہمارا مقصد وتر کی ایک یا تین رکعات سے بحث کرنا نہیں ہے ، بلکہ صرف یہ ثابت
کرنا ہے کہ محمد بن یوسف جو حضرت عمر ؓ سے آٹھ رکعات تراویح کو نقل کرنے والے واحد
راوی ہیں ، انہوں ۸ سے۲۰ رکعات کی طرف رجوع
کرلیا تھا۔
(۲) حضرت
سائب ؓ (م۹۱ ھ)
سے اس حدیث میں ایک رکعت وتر منقول ہے ، لیکن اسی واقعہ سے متعلق دوسری حدیث میں ان
سے تین رکعات وتر بھی ثابت ہے ۔ دیکھئے (مصنف
عبد الرزاق ، حدیث ۷۷۲۷ و اسنادہ صحیح)
(۳) بیس
تراویح اور تین وتر کی حضرت یزید بن رومان
ؒاور محمد بن عبد الرحمن بن أبى ذئبؒ (م۱۵۹ھ)
کی روایت سے متابعت بھی ہوتی ہے ۔ (موطا مالک ، حدیث /۲۸۰،مصنف
عبد الرزاق: حدیث نمبر :۷۷۳۳) جبکہ ۲۱ رکعات نقل
کرنے والے حضرت سائب تنہا ہیں ، ان کا کوئی متابع موجود نہیں۔
(۴) حضرت
سائب ؓ کے ساتھ ساتھ دوسرے صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ سے بھی تین رکعات وتر ثابت ہیں
۔دیکھئے (مصنف عبد الرزاق،مصنف بن ابی شیبہ ،بیہقی وغیرہ)
(۵)سلف اور محدثین نے بھی ۳ رکعات کو ہی ذکر کیا ہیں نہ کہ ایک کو۔(مجموع
الفتاوی : ج۲۲ : ص ۲۷۲،ج ۲۳ : ص ۱۱۲،الکافی
لابن قدامہ : ج۱ : ص ۲۵۹،طرح التثریب
: ج۳ : ص ۹۷) لہذا ۳ رکعات وتر ہی راجح ہے۔
اعتراض نمبر ۲ :
دوسرے
اعتراض کا جواب یہ ہے کہ :
دوسری صحیح حدیث میں حضرت سائب ؓ سے بیس رکعات اور وتر کے الفاظ صاف طور پر منقول ہیں ۔ کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب ؓ بعشرین رکعۃ والوتر یعنی ہم حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ۲۰ رکعات (تراویح ) اور وتر پڑھتے تھے۔ (معرفۃ السنن للبیہقی۴/۴۲/۵۴۰۹،السنن الصغیر للبیہقی ۱/۲۹۷۔ حدیث /۸۲۱) اور خو د فرقہ اہل حدیث والوں کو اصول کے مطابق ایک حدیث دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے ۔ (زبیر علی زئی ، نور العینین ، ص۱۲۵)تو معلوم ہوا کہ ۲۱ رکعات میں ۲۰ رکعات تراویح ہے اور ایک رکعت وتر۔لہذا اعتراض باطل و مردود ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں