افطار سے پہلے کی دعاء کا مسئلہ اور غیر مقلدین کو منہ توڑ جواب ۔
مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
غیر
مقلدین اپنی عادت کے مطابق یہ شور مچا رہے ہیں کہ افطار کی ’’دعاء اللہم لک صمت وعلی رزقک
افطرت ‘‘ حضور ﷺ سے ثابت نہیں ، اور جس حدیث میں یہ
الفاظ آئے ہیں وہ ضعیف ہے ۔
اس
مسئلہ پر تحقیق درجِ ذیل ہے :
امام أبو عبد الرحمن محمد بن فضيل بن غزوان بن جرير الضبي الكوفي
ؒ ؒ (م۱۹۵ھ)فرماتے
میں :
حدثنا
حصین ، عن أبی زھرۃ ، قال : کان النبی ﷺ إذا صام ، ثم أفطر یقول : اللہم لک صمت
، وعلی رزقک أفطرت ۔
خلاصہ
یہ کہ ابو زھرہ ؒ فرماتے ہیں کہ جب نبی ﷺ افطار کرتے تو فرماتے’’ اللہم لک صمت وعلی رزقک افطرت‘‘۔ (الدعاء للضبّی ، حدیث نمبر : ۶۶)
تنبیہ : یہ روایت مرسل ہے
اور مرسل روایت جمہور محدثین کے نزدیک حجت ہے ۔
اور
مزید امام ابوداؤد ؒ (م ۲۷۵ھ)
نے بھی یہ روایت کو اپنی سنن میں نقل کیا ہے ، اور اس کو نقل کرنے کے بعد امام ابو
داؤد ؒ نے سکوت اختیار کیا ہے۔ (سنن ابی داؤد ، حدیث /۲۳۵۸) جو
کہ غیر مقلدین کے نزدیک روایت کے معتبر ہونے کی دلیل ہے ۔ [1]
مزید
اس روایت کے شواہد بھی موجود ہیں ، جو کہ درجِ ذیل ہیں :
۱ - حضرت انس ؒ فرماتے
ہیں کہ رسول اللہ جب افطار فرماتے تو یہ پڑھتے
’’ بسم
اللہ ، اللہم لک صمت وعلی رزقک افطرت‘‘ ۔ (معجم الاوسط
للطبرانی ۷/۲۹۸۔ ضعیف )
۲ - الربيع بن خثيم ؒ
(م ۶۳ھ)
سے بھی یہی دعاء ثابت ہے۔ ( الطبقات الكبرى : ج ۶ : ص۲۲۶ ،
واسنادہ صحیح)
اور
مولانا رئیس ندوی سلفی اہل حدیث عالم لکھتے ہیں کہ :
مرسل
حدیث احناف ومالکیہ کے نزدیک مطلقاً حجت ہے ، اور دوسرے اہل علم کے نزدیک بعض شرائط
کے ساتھ حجت ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسری متصل سند سے ، خواہ ضعیف ہو مروی
ہو۔ (نمازِ جنازہ اور اس کے مسائل / ۴۶
)
معلوم
ہوا کہ خود اہل حدیث کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری متصل ضعیف روایت کی موجود
گی میں مقبول ہوتی ہے ۔ ایسی روایت کو’ مرسل معتضد‘ کہتے ہے جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک
بھی حجت ہے۔[2]
یہی وجہ ہے کہ امام الشیرازی
ؒ (۴۷۶ھ)، امام غزالی ؒ (م ۵۰۵ھ)،
امام الحافظ بغوی ؒ (م ۵۱۶ھ) اور امام النووی ؒ (م ۶۷۶ھ)
نے اس دعاء کو افطار کے وقت پڑھنے کو سنت و مستحب لکھا ہے۔ (المهذب
للشیرازی :ج ۱ : ص ۳۴۳،الوسيط في
المذهب للغزالی : ج ۲ : ص۵۳۶،
التهذيب للبغوی :ج ۳ : ص ۱۸۳،
المجموع : ج ۶ : ص ۳۶۲) شیخ محمد بن صالح
العثیمینؒ (م ۱۴۲۰ھ) بھی اس دعاء کےپڑھنے کے قائل ہے۔ (مجموع الفتاوی : ج۲۰: ص ۲۶۱)
نوٹ :
اس
دعاء میں’’ وعلیک
توکلت‘‘ کے الفاظ بھی ایک روایت میں موجود ہیں جو
کہ حضرت انس ؓ سے مروی ہے۔ (كنز العمال : ج ۸ : ص ۵۰۹)[3]
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بہتر یہ ہے کہ افطار
کے وقت صرف ’’اللہم
لک صمت وعلی رزقک افطرت‘‘ پڑھے ۔ لیکن اگر کوئی ’’اللہم لک صمت وبک آمنت وعلیک
توکلت وعلی رزقک افطرت‘‘ پڑھے تو اس کی گنجائش ہے
اور یہی محدث ملا علی قاری ؒ کا کہنا ہے ۔ (مرقاۃ
۴/۴۸۹)
غیر مقلدین کی دلیل کا حال :
بعض حضرات کہتے ہیں کہ افطار کے وقت یہ دعاء پڑھنی چاہیے
: ’’ذھب الظمأ وابتلت العروق وثبت
الاجر إن شاء اللہ ‘‘۔
الجواب : یہ دعاء دراصل افطار
کرنے کے بعد کی ہے ۔ چنانچہ خود اس روایت میں
موجود دعاء کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ دعاء افطارکرنے کے بعد کی ہے ۔
’’ذھب الظمأ وابتلت العروق وثبت
الاجر إن شاء اللہ ‘‘ پیاس بجھ گئی ، رگیں تر ہوگئیں ، اور
اجر ثابت ہوگیا ان شاء اللہ ۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ اہل حدیث مبلغ ابوزید ضمیر صاحب
کہتے ہیں کہ یہ دعاء افطار کرنے کے بعد پڑھی جائے ۔[4]
لہذا یہ دعاء اللہم لک صمت
والی دعاء کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ یہ دونوں الگ الگ وقت کی دعاء ہے اور اس دعاء کا
افطار کے بعد پڑھنا ہمارے نزدیک بھی صحیح ہے
، لیکن دونوں کو ایک وقت کی دعاء قرار دینا غلط ہے۔
[1]
ص ۵۳۔
[2] تفصیل ص : ۶۳ پر ہیں۔
[3] مگر اس کی سند نہیں ملی۔
[4] https://www.youtube.com/watch?v=P0snusJ8Wp8
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں