حافظ ابن محرز ؒ ائمہ جرح وتعدیل کی
نظر میں
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
امام
الجرح والتعدیل یحیی بن معین بن عون ؒالمتوفی ۲۳۳ھ کی مشہور کتاب معرفۃ الرجا
ل ہے جس کو ان کے شاگرد حافظ ابوالعباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز البغدادی ؒنے
ان سے روایت کی ہے ۔اور یہ حافظ ابن محرز ؒمقبول اور صدوق راوی ہیں۔
حافظ
ابوالعباس احمد بن محمد بن محرز ؒکے کچھ شیوخ :حافظ احمد بن محمد بن محرز ؒ نے بڑے
بڑے کبار محدثین سے روایت کی ہے ۔مثلا امام یحیی بن معین
ؒ(المتوفی ۲۳۳
ھ )
امام احمد بن حنبلؒ(المتوفی ۲۴۱ھ)
امام علی بن
المدینی ؒ(المتوفی ۲۳۴ھ
)
امام ابوبکر بن أبی شیبہؒ (المتوفی۲۳۵ھ)
امام محمد بن عبداللہ بن نمیر ؒ (المتوفی ۲۳۴ھ)
امام زہیر بن حرب ؒ،(المتوفی ۲۳۴ھ)
امام محمد بن
جعفر الخراسانی ؒ (المتوفی ۲۲۸ھ)وغیرہ
سے روایت فرمائی ہے ۔ دیکھئے :تاریخ بغداد جلد:۵ صفحہ :۲۸۸،معرفۃالرجال جلد:۱صفحہ :۱۲۱،معرفۃالرجال جلد؛۲صفحہ؛۲۱۴،۲۲۳،۱۷۶،۳۸ ۲۔
حافظ ابن محرز ؒ کے کچھ تلامذہ :
۱ : امام ابوالفضل جعفر بن
درستویہ ؒ
امام ابو الفضل جعفر بن درستویہ ؒامام علی
بن المدینی ؒ،محمد بن آدم ؒ ،یمان بن سعیدؒوغیرہ کے شاگرد ہیں ۔ امام حاکم ؒ
المتوفی ۴۰۵ھ آپ کو ثقہ کہتے ہیں،محدث ابن العدیمؒ
(المتوفی ۶۶۰ھ)فرماتے ہیں کہ وہ (جعفرؒ)شاعر اور فقیہ
تھے ۔امام خطیب البغدادیؒ(المتوفی ۴۶۳ھ)فرماتے
ہیں کہ جعفر بن درستویہ ؒکبار الفقہاء اور سمجھداروں میں سے ہیں۔ (توضیح المشتبہ
لابن نا صرالدین ؒ جلد :۴صفحہ:۳۲،،المحتضرین لابن ابی الد نیا رقم:۳۳۵،،بغیۃالطلب
جلد:۳صفحہ:۱۱۸۹،،مستدرک
الحاکم جلد :۲صفحہ :۶۷۶حدیث
:۴۲۳۶،،تاریخ بغدادجلد :۹
صفحہ :۴۳۵) لھذا آپؒ ثقہ ہیں،
۲:امام زکریا الساجی
ؒ (المتوفی۳۰۷ھ)مشہور
امام فقیہ اور ثقہ ہیں ۔(تقریب التہذیب رقم :۲۰۲۹) آپ ؒ بھی حافظ احمد بن محمد بن محرز ؒ کے شاگرد ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ
العسقلانی فرماتے ہیں کہ قال الساجی عن احمد بن محمد ھو ابن محرز عن القعنبی
رأیت شابا طویلا ۔ امام ساجیؒ احمد بن محمد
سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن محرز ؒ ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد ؛۱۱ صفحہ ؛۲۴۳)
اسکین :
معلوم ہوا کہ امام
ساجی ؒ کے استادوں میں احمد بن محمد ؒ ،یہ حافظ احمد بن محمد بن محرز
ؒ ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ شیخ زہیر عثمان بھی الکامل لابن عدی کے حاشیہ میں امام
ساجی ؒ کے استاد احمد بن محمد البغدادی کو حافظ ابن محرز ؒ ہی بتایا ہے ۔(الکامل
لابن عدی بتحقیق شیخ زہیر جلد :۱
صفحہ:۲۵۶)
اسکین :
لھذا
آپ بھی حافظ ابن محرز کے شاگرد ہیں۔
اعتراض :کفایت اللہ سنابلی
صا حب کاکہنا ہے کہ ابن محرزؒ مجہول ہیں۔
الجواب۔۱:یہ
اعتراض ہی مردود ہے ،کیوکہ ابن محرزؒ سے ۲،۲، راویوں نے روایت کیا ہے اور فقہاء و محدثین کا
اصول ہے کہ جس مجہول راوی سے دو یا دو سے
زیادہ راوی روایت کرلیں تو وہ مجہول نہیں رہتا بلکہ مقبول ہو جا تا ہے ۔جب حافظ
ابن محرز سے ۲،۲، لوگ روایت کر رہے ہیں تو وہ مقبول راوی ہوئے۔[1]
الجواب۔۲: اگربقول غیر مقلدین کے حافظ
ابن محرز کو مجہول مان بھی لیں تو کتاب معرفۃ الرجال یحیی بن معین ؒسے ثابت
ہے کیوں کہ محدثین کا اصول ہے کہ جس کتاب
کی نسبت اس کے مصنف کی طرف مشہور ہو کہ یہ کتاب فلاں مصنف کی ہے تو مصنف سے لیکر
ہم تک اس کی سند دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی ۔یہ شہرت اس سند کو دیکھنے سے بے نیاز
کردیتی ہے ۔یہ اصول مختلف الفاظ سے درج ذیل محدثین نے نقل فرمائے ہیں
۱:امیر المؤمنین فی
الحدیث امام ابن حجر عسقلانی (ؒالمتوفی ۸۵۲ھ)
۲:امام سخاوی ؒ (المتوفی
۹۰۲ھ
)
۳:امام سیوطی ؒ (المتوفی
۹۱۱ھ)
۴:امام شمس الدین
الکرمانیؒ (المتوفی ۷۸۶ھ)
حافظ
ابن حجرؒ کے الفاظ یہ ہیں:لأن الکتاب المشہورالغنی بشہرتہ عن اعتبار الإسناد منا إلی مصنفہ(النکت
لإبن حجر جلد :۱صفحہ:۲۴۷،الکواکب الدریہ للکرمانی جلد :۱ صفحہ :۷،فتح المغیث للسخاوی جلد
:۱صفحہ
:۶۵،تدریب
الراوی للسیوطی جلد :۱
صفحہ :۱۶۰(
نوٹ-۱:اس اصول کو کفا یت اللہ
صا حب بھی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں ۔دیکھئے انوارالبدر صفحہ ؛۸ ۶
لیکن
کیا کریں جب بات فرقہ اہل حدیث کے خلاف
آئی تو کفایت اللہ صاحب نے اپنا ہی اصول بھول کر کتاب کو غیر ثابت قرار دے دیا
،یہ موصوف کی دوغلی پالیسی کے ساتھ ساتھ علمی خیانت بھی ہے ۔
الغرض
یہ کتاب معرفۃ الرجا ل اہل علم کے درمیان مشہورو معروف ہے ،چنانچہ:
۱:امام خطیب
البغدادی ؒ المتوفی ۴۶۳ھ
اپنی کتاب تاریخ بغداد میں ۔
۲:امام ابو القاسم
ابن عساکر ؒالمتوفی ۵۷۱ھ
تاریخ دمشق میں ۔
۳:محدث کمال الدین
بن العدیم ؒالمتوفی ۶۶۰ھ
بغیۃ الطلب میں ۔
۴:امام جما ل الدین
المزی ؒ المتوفی ۷۴۲ھ
تہذیب الکمال میں ۔
۵:امام شمس الدین
الذہبی ؒ المتوفی ۷۴۸ھ
سیر اعلام النبلاء میں۔
۶:امام مغطائی
ؒالمتوفی ۷۶۲ھ
اکمال تہذیب الکمال میں ۔
۷:امام ابن
کثیر ؒ المتوفی ۷۷۴ھ البدایہ والنہایہ میں
۔
۸:امام ابن حجر
العسقلانی ؒالمتوفی ۸۵۲ھ
تہذیب التہذیب میں ۔
۹:امام بدرالدین
العینی ؒالمتوفی ۸۵۵ھ
مغا نی الاخیا ر میں ۔اور
۱۰:امام قاسم بن قطلوبغا ؒ ۸۷۹ھ کتا ب الثقات میں ۔
اور
ان کے علاوہ بہت سے حضرات نے اس کتاب کا اور اس میں موجود اقوال کا ذکر کیا ہے اور
بعض نے اپنی سند سے بھی اس کتاب سے اقوال نقل کئے ہیں ،معلو م ہوا کہ یہ کتاب
محدثین کے نزدیک بھی مشہورومعروف ہے ۔تو پھر کفایت اللہ صاحب کے اعتراض کی کیا
حقیقت باقی رہ جاتی ہے !
نوٹ۔۲:بعض محدثین نے اس کتاب
’’معرفۃ الرجال ‘‘ سے استدلال بھی کیا ہے دلیل بھی پکڑی ہے۔مثلا ۔۔
۱: حافظ ابن حجر
عسقلانیؒ المتوفی ۸۵۲ھ
جنکو زبیر علی زئی صاحب حافظ الدنیا،امیرالمؤمنین فی الحدیث ثابت کرتے ہیں(دیکھئے
نور العین) یہی حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ امام ابن معین ؒ کے قول سے دلیل پکڑتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ سفیان کی روایت میں مؤمل بن اسماعیل کی حدیث ضعیف ہے ۔(فتح الباری
جلد : ۹
صفحہ :۲۳۹)
اور
ابن حجر ؒ کا یہ فیصلہ،امام یحیی بن معین ؒ کے قول کی وجہ ہے،کیونکہ انھوں نے بھی
مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں یہی کہا ہے ،جس کا اقرار کفایت اللہ صاحب بھی کرتے
ہیں ۔(دیکھئے انوارالبدرصفحہ :۱۷۵)
امام
ابن معین ؒ کا یہ قول ان کی اسی کتاب ’’معرفۃ الرجال ‘‘میں ہی موجود ہے ،جسکو حافظ
ابن محرز ؒ نے روایت کیا ہے (دیکھئے معرفۃالرجال جلد :۱صفحہ :۱۱۴)
معلوم
ہوا کہ ابن حجرؒ کے نزدیک یہ کتاب ابن معین ؒ سے ثابت ہے تبھی تو انھوں نے ان کے
قول سے دلیل پکڑی ہے الغرض کفایت صاحب کا یہ اعتر اض اس لحاظ سے بھی باطل و مردود
ہے ۔
کفایت
اللہ صاحب کی چند اور دوغلی پالیسیاں:
چونکہ
معرفۃالرجال میں کفایت صا حب کے مسلک کے خلاف بات آئی تھی اس لئے انہوں نے اس
کتاب کے راوی پر مجہول ہونے کی جرح کرکے اسے رد کردیا ۔
۱۔۔جب ایک دوسری کتاب علل ترمذی کے
بارے میں زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ کتاب علل الکبیر امام ترمذی ؒ سے بسند
صحیح ثابت ہی نہیں ، اس کا راوی ابوحامد
مجہول الحال ہے ۔(ماہنا مہ الحدیث شمارہ :۱۰۲ صفحہ :۲۷)لیکن چونکہ اس کتاب ’’علل
ترمذی ‘‘ میں کفایت صاحب کے مسلک کی تائید میں کچھ باتیں تھیں ۔اس لئے اس کتاب کا
نقل کرنے والا راوی اگرچہ (بقول زئی صاحب کے )مجہول تھا لیکن پھر بھی کفایت صاحب
نے اپنا اصول بھلایا اور کہنے لگے :
یہ کتاب ہماری نظر میں
امام ترمذیؒ کی ہی ہے یہ ثابت ہے ہمارے ناقص علم کے مطابق اہل علم میں سے کسی نے
بھی اس کتاب کا انکار نہیں کیا ہے نیز ابو حامد التاجر کو مجہول کہنا بھی غلط ہے
۔اور کتاب کے ثبوت اور عدم ثبوت کے متعلق علامہ البانی نے جو اصول پیش کیا ہے وہی
راجح ہے ۔(یزید بن معاویہ پر الزاما ت کا جائزہ ۔صفحہ :۱۱۴)
اسکین :
افسوس
کفایت صاحب !یہ لینے کے اصول اور دینے کے
اور ایسا کیوں؟؟کیا یہی آپ کا انصاف ہے
؟کیا آپ کو ’’معرفۃ الرجال ‘‘مشہور و معروف نظر نہیں آئی ؟غرض یہ کہ کفایت صاحب
نے یہاں اپنی دوغلی پالیسی کا ثبوت دے دیا ۔
۲ : اسی طرح اہل حدیث مسلک کے زبیر علی زئی
صاحب کہتے ہیں کہ سوالا ت الآجری (ایک کتاب ہے جو)امام ابوداؤد ؒ سے ثابت نہیں
ہے ۔کیونکہ ابو عبید الآجری ؒ مجہول ہیں ۔(ماہنامہ الحدیث شمارہ :۱۰۲صفحہ ۳۷)
اسکین :
لیکن
چونکہ اس کتاب میں بھی کفا یت صاحب کو اپنے مسلک کی تائید میں کچھ باتیں نظر آئیں تو انھوں نے یہاں بھی اپنا اصو
ل بھلا کر خوشی خوشی اس کتاب کو امام ابوداؤد ؒسے ثابت مانا اور اس سے دلیل دی
بھی دی ہے ۔(انوار البدر صفحہ :۶۸)
اسکین :
۳
: کفا
یت صاحب کے مطابق ’’سوالات الآجری ‘‘کتاب کی سند ہی موجود نہیں ہے ، لیکن پھر
کفایت صاحب محض اپے مسلک کی اندھی تقلید میں اسے ثابت مان رہے ہیں ۔(انوارالبدر
صفحہ :۶۸)
اسکین :
جبکہ ہماری کتاب کی سند بھی ثابت ہے اور راوی حافظ ابن
محرز ؒ بھی مقبول ہیں ،جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
لیکن چونکہ اس کتاب میں فرقہ اہل حدیث کے خلاف بات بھی
موجود ہے ،اس لئے صرف اسی وجہ سے کفایت صاحب نے سند ہونے کے باوجود اس کتاب کو رد
کر دیا ہے ۔
قارئین ! اس طرح کے دھوکے تقلید کے نام پر غیر مقلدین
اہل حدیث فرقہ عموما عوام کو دیتے رہتے ہیں ۔اللہ تعالی ایسے دھوکے اور ایسے فرقے
سے امت کی حفاظت فرمائے ۔۔آمین !
۴ : سوالات ِآجری کے راوی
ابوعبید الآجری ؒکے بارے میں کفا یت صاحب کہتے ہیں کہ تمام اہل فن نے بالاتفاق ان
سے حجت پکڑی ہے یہ بھی ان کی ثقاہت کی دلیل ہے ۔
جبکہ
زبیر علی زئی کی تحقیق کے مطابق ابوعبید الآجری ؒ مجہول ہیں ،لیکن کفایت صاحب
کہتے ہیں کہ تمام اہل فن نے ان سے حجت پکڑی ہے ،اور یہ ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے
۔(انوارالبدر صفحہ :۶۸)
اسکین :
مگر
افسوس کفایت صاحب نے ابن محرز کے بارے اپنا اصول بھلا دیا کہ ان سے بھی تمام اہل
فن نے حجت پکڑی ہے ،اور ان کے اقوال کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ،جیسا کہ اوپر
گزر چکا ۔اور کفایت صاحب نے صاف کہدیا کہ ابن محرز ؒ مجہول راوی ہیں ۔
یہ بھی کفایت صاحب کی ایک اور دوغلی پالیسی ہے۔
اور سلفی شیخ علی بن محمد العمران لکھتے ہیں :
ابن
محرز ؒیہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے یحیی بن معین سے سوالات کئے ہیں جو معرفۃ الرجال کے
نام سے مطبوع (چَھپے )ہیں ان کے مفصل حالات معلوم نہیں لیکن ان کے سوالات
دلالت کرتے ہیں کہ انہیں حدیث کا علم ہے انہوں نے یحیی بن معین سے ۲۲۵ھ سے پہلے ملاقات کی ہے اور
ان کی وہ روایتیں جو انہوں نے یحیی بن معین سے کی ہیں خطیب نے اپنے تاریخ میں اور حافظ
نے تہذیب میں اور مغلطائی نے اکمال میں اور ذہبی نے اپنی کتابوں میں اعتماد کیا ہے
۔ (تراجم
منتخبۃ للمعلمی بتحقیق شیخ علی بن محمد
العمران : ص ۱۶۷-۱۶۸)
معلوم ہوا کہ خودکفا یت اللہ سنابلی صاحب کے اپنے علماء
کے نزدیک بھی ابن محرزؒ ثقۃ ہے۔
کچھ سوالات :اگرکفایت
صاحب کا یہی اصول ہے کہ ہر کتاب کو نقل کرنے والا راوی ثقہ ہو ،مجہول نہ ہو تو
ہماری گذارش یہ ہے کہ آپ ۔۔۔۔
۱۔
علل ترمذی
۲۔
سوالات ِآجری کو کیوں ثابت مانتے ہیں جبکہ ان کتابوں کی سندوں میں بھی
مجہول راوی ہیں ۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں کتابیں مشہور ومعروف
ہیں ،تو آپ کو معرفۃالرجا ل کا مشہور ومعروف ہونا نظر نہیں آیا ؟غرض اس کی تفصیل
ہم نے اوپر بیان کر دی ہے ،ساتھ ساتھ ابن حجرؒ کا اس کتاب سے استدلال بھی ذکر کیا
ہے ۔
الغرض
گذارش یہ ہے کہ ۔۔
۱:یہاں تو یہ دو غلی
پالیسی چھوڑ دیں اور ہماری کتاب ’’معرفۃ
الرجال بروایت ابن محرزؒ‘‘کو بھی ثابت مان لیں ۔
۲:یا ہماری کتاب کے
ساتھ ساتھ ان دونو ں کتابوں (علل ترمذی اور سوالاتِ آجری)کو بھی غیر ثابت مان لیں
۔
۱:نیز امام بخاری ؒ
المتوفی ۲۵۶ھ
کی مشہور کتاب ضعفاء صغیر کی سند کچھ یوں ہے:
أخبرنا الشیخ الإمام العالم
ابو عبداللہ محمد بن عمر بن عبدالغالب العثمانی قرائۃ علیہ
وأنا فی لیلۃ العشرین من شہررمضان سنۃ اربع عشرۃ وستمائۃ قدم علینا حلب قال
اخبرنا الشیخ ابو عبداللہ محمد بن أحمد بن عبداللہ بن
الحسین الفارانی ،انبأنا أبو علی الحسن بن احمد الحسن الحداد إجازۃ ،أنبأنا ابو نعیم
أحمد بن عبداللہ بن احمد الحافظ ،ثنا أبو أحمد محمد بن احمد بن الغطریف العبدی
الدھستانی بجرجان بسنۃ إحدی وسبعین وثلاثمائۃ قرئت علیہ فی أصلہ فأقر بہ ،قال
قرأت علی آدم بن موسی الخواری ،ثناأبوعبداللہ محمد بن اسما عیل
۔(ضعفاء صغیرللبخاری صفحہ :۹۱۰)
کتاب
ضعفاء صغیر للبخاری کی سند میں ایک راوی ’’ابو عبد اللہ
محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی ؒ
‘‘مجہول راوی ہیں ۔اب کیا
کفایت صاحب اس کتاب کا بھی انکار کریں گے ؟کیونکہ اس میں بھی ہماری کتاب کی طرح مجہول راوی موجود ہے ۔
۲:امام بخاریؒ
المتوفی ۲۵۶ھ کی دو اور مشہور
کتابیں ’’جزء قرأت خلف الامام ‘‘اور ’’جزء رفع الیدین ‘‘کی سند یہ ہے :أخبرنا الشیخ الامام العلامۃ
الحافظ المتقن بقیۃ السلف زین الدین أبو الفضل عبدالرحمن بن الحسین بن العراقی
والشیخ الامام الحافظ نور الدین علی بن أبی بکر الہیثمی بقرائتی علیہما قالا
أخبرتنا الشیخۃ الصالحۃ أم محمد ست ّ العرب بنت محمد بن علی بن احمد بن عبد
الواحد بن البخاری قالت أخبرنا جدی الشیخ فخر الدین بن البخاری قراء ۃ علیہ وأنا
حاضرۃ وإجازۃ لما یرویہ قال أخبرنا ابو حفص عمربن محمد بن معمر بن طبرزد سما
عا علیہ أخبرنا ابو غالب احمد بن الحسن بن البناء أخبرنا ابو الحسین محمد بن
أحمد بن حسنون النرسی ،أخبرنا ابو نصر
محمد بن احمد بن موسی الملا حمی ،أخبرنا ابواسحاق محمود
بن اسحاق بن محمود الخزاعی قال :أخبرنا ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بن
ابراہیم البخاریؒ۔ (جزء رفع الیدین صفحہ :۲۷مترجم زبیر علی زئی)
اس
کتاب کی سند میں بھی ایک راوی ابو اسحاق محمد بن اسحاق الخزاعی ؒہیں جو کہ مجہول
ہیں۔ان کو بھی کسی امام نے صراحۃ ثقہ نہیں کہا ہے ۔زبیر علی زئی صاحب نور العین
میں لکھتے ہیں کہ :
۱۔۔حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ نے محمود
بن اسحاق کی بیان کردہ ایک روایت کو حسن کہا ہے ۔(موافق الخبر لابن حجر جلد :۱ صفحہ :۴۱۷)
پھر
آگے لکھتے ہیں کہ راوی کی منفرد روایت کو حسن و صحیح کہنا اس راوی کی توثیق
ہوتی ہے ۔(نورالعین صفحہ :۵۲۶)
اسکین :
یاد
رہے کہ زبیر علی زئی صاحب نے اصول نقل کیا ہے ’’کہ راوی کی منفرد روایت کو حسن و صحیح کہنا اس راوی کی توثیق ہوتی ہے ‘‘ اب جس
روایت کو ابن حجرؒ نے حسن کہا ہے کیا اس روایت میں محمود بن اسحاق ؒ منفرد ہیں ؟
حافظ
ابن حجر ؒ محمود بن اسحاق ؒ کی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
ھذا حدیث حسن أخرجہ أبوداؤد ؒعن أبی الولید علی الموافقۃ واخرجہ احمد عن
عبد الصمد عن عبد الوارث عن ھمام واخرجہ ابن حبان فی صحیحہ عن أبی یعلی عن
أبی عن عبد الصمد
یہ
حدیث حسن ہے اس کی تخریج امام ابو داؤد ؒ نے ابو الولید
سے اور امام احمد ؒنے عن عبد الصمد بن عبد الوارث عن ھمام کی سند سے اور امام ابن
حبان ؒ نے اپنی صحیح میں اس روایت کی تخریج عن ابی یعلی عن ابی خثیمہ عن عبد الصمد
کی سند سے ۔(موافقۃ الخبر لابن حجر جلد :۱صفحہ ۴۱۷)
اسکین :
معلوم
ہوا کہ ابن اسحاق ؒ منفرد نہیں ہیں تو خود انہیں کے اصول کے مطابق وہ ثقہ کیسے ہوں
گے ۔اسی طرح کے دھوکے اہل حدیث فرقے کے
لوگ بیچاری عوام کو دیتے رہتے ہیں ۔
خلاصہ
کلام :
الغرض
امام بخاری ؒکی ان کتابوں کی سندوں میں مجہول راوی ہیں امید ہے کہ کفایت صاحب یہاں
پر بھی ان روایات کو مجہول کہ کر ان
کتابوں کا بھی انکار کریں گے جس طرح انھوں
نے ہماری کتاب کا انکار کیا تھا ورنہ جو جواب کفایت صاحب ان کتابوں کے بارے میں
دیں گے کہ یہ کتابیں مشہور ہیں تو وہی جواب ہمارا جواب ہوگا ابن معین ؒ کی’’ معرفۃ
الرجا ل ‘‘کے بار ے میں ۔
پس
اللہ تعالی ہمیں مسلکی تعصب سے محفوظ فرمائے ۔۔ اور حق سمجھنے اور اس کو قبول کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین!
[1] دیکھئے ص ۴۴
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں