نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رمضان میں تہجد ضرور پڑھیں (کیونکہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں، سلفِ صالحین سے ثبوت)

 

الفرقان فی اثبات الفرق بین صلاۃ التہجد و صلاۃ التراویح فی شہر رمضان

رمضان میں تہجد ضرور پڑھیں (کیونکہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں، سلفِ صالحین سے ثبوت)

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

                رمضان کا بابرکت مہینہ ہے، اور لوگ عبادت میں اضافہ فرماتے ہیں ، جہاں لوگ تراویح ادا کرتے ہیں،وہیں آخری شب میں بیدار ہوکر تہجد کا بھی اہتمام کرتے ہیں، کیونکہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں، اس کے دلائل ملاحظہ ہوں۔

(۱)       حضرت عمر فاروقؓ (م ۲۳؁ھ) کا ارشادِ گرامی ہے:

                 حضرت امیرالمؤمنین عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں: ’’والتی ینامون عنھا أفضل من التی یقومون، یرید آخراللیل، وکان الناس یقومون أوّلہ ‘‘   وہ نماز جس سے تم سو جاتے ہو (یعنی تہجد کی نماز) وہ اس سے افضل ہے کہ جس کو تم قائم کررہے ہو (یعنی تراویح)۔    (صحیح البخاری:حدیث نمبر۲۰۱۰)

                حضرت عمرؓ تراویح کے بعد تہجد کی بھی ترغیب دے رہے ہیں، جو کہ مستقل نمازہے، اور اسی روایت کے تحت محدثین نے تراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

                (i)           امام ابو الولی سلیمان الباجی القرطبیؒ (م ۴۷۴؁ھ) حضرت عمرؓ کے اسی جملے کے تحت فرماتے ہیں کہ  ’’ الصلاۃ فی النصف الآخر أفضل منھا فی النصف الأول ‘‘    آخری آدھی رات کا قیام افضل ہے پہلی آدھی رات کے قیام سے۔    (المنتقیٰ للباجی: ج۱ ص؍۲۰۸)

                اس سے معلوم ہوا کہ آخری رات میں بھی قیام ہے ، تراویح کے علاوہ۔

                (ii)          امام ابن بطّالؒ (م۴۴۹؁ھ) آدھی رات کا قیام پہلی رات سے کیوں افضل ہے ؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’والتی (ینامون)  عنھا أفضل یعنی القیام آخر اللیل، لحدیث التنزل واستجابۃ الرب-تعالی- فی ذلک الوقت لمن دعائ ‘‘  آخری رات کا قیام (تہجد) اللہ تعالیٰ کے اس وقت نزول اور بندوں کے دعاء قبول ہونے کی وجہ سے افضل ہے۔  (شرح صحیح البخاری لابن بطالؒ: ج۴ص؍۱۴۷)

                (iii)         امام ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’قولہ: (والتی ینامون عنھا أفضل) ھذا تصریح منہ بأن الصلاۃ فی آخر اللیل أفضل من أوّلہ‘‘      حضرت عمرؓ کے اس قول میں صراحت ہے کہ آخری رات کی نماز (تہجد) افضل ہے شروع رات کی نماز (تراویح) سے۔(فتح الباری:ج ۴ص؍۲۵۳)

                (iv)         امام عینیؒ (م ۸۵۵؁ھ) بھی یہی فرماتے ہیں۔’’وفیہ تصریح أن الصلاۃ فی آخر اللیل أفضل من أولہ ‘‘  (عمدۃ القاری: ج۱۱ص؍۱۲۶)

                (v)          الشیخ الامام عبد القادر جیلانیؒ (م۵۶۱؁ھ) بھی حضرت عمرؓ کے اسی قول کی وجہ سے تراویح کے بعد تہجد پڑھنے پر استدلال فرماتے ہیں۔ ’’والروایۃ الثانیۃ: أن ذلک جائز غیر مکروہ، لکنہ یؤخرہ لما روی عمرؓ قال: تدعون فضل اللیل آخرہ الساعۃ التی تنامون أحب الیّ التی تقومون‘‘ (غنیۃ الطالبین ص؍۲۶۹)

                (vi)         امام ابن الحاجؒ (م۷۳۷؁ھ)[1] فرماتے ہیں ’’وما قالہ عمر بن الخطابؓ فانما ھو محمول علی غیرھم لا علیھم، اذ أنھم رضی اللہ عنھم جمعوا بین الفضیلتین من قیام أول اللیل وآخرہ‘‘  حضرت عمرؓ کے فرمان کے مخاطب صحابہؓ نہیں، بلکہ دوسرے لوگ ہیں کیونکہ صحابہؓ دونوں فضیلتوں کو جمع کرتے تھے، یعنی رات کے اوّل حصہ میں تراویح اور آخری حصہ میں تہجد۔   (المدخل لابن الحاج: ص۲۹۱ج؍۲)

لہٰذا حضرت عمرؓ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی ترغیب دے رہے ہیں، یعنی ان کے نزدیک تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں، اور سلفِ صالحین نے بھی یہی وضاحت فرمائی ہے، جیساکہ تفصیل گزر چکی۔

اعتراض:   کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ :  یہ (حضرت عمرؓ کا قول) اس بات کی دلیل ہے کہ عمرفاروقؓ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے ، اور پھر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا قول پیش کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حضرت عمرؓ  نے تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز قرار دیا ہے۔  (مسنون تراویح: ص؍۱۳؍۱۴)

الجواب:    کفایت اللہ سنابلی صاحب کا یہ کہنا کہ : ’’حضرت عمرؓ کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ عمر فاروقؓ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے، باطل و مردود ہے ، کیونکہ ہم نے سلفِ صالحین کے اقوال سے واضح کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک تہجد اور تراویح الگ الگ نماز ہیں، جیسا کہ تفصیل اوپر موجود ہے۔

اور رہا علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا حوالہ تو جواب عرض ہے کہ خود غیر مقلدین حضرات عموماً کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے علاوہ سارے لوگوں سے خطا ہوسکتی ہے۔

تنبیہ:  میں کہتا ہوں کہ جب سارے لوگوں سے غلطی ہوسکتی ہے ، تو پھر علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے کیوں نہیں ہوسکتی ؟

الغرض ہم کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں علامہ کشمیریؒ سے اجتہادی خطا ہوئی ہے، اور صحیح بات اس مسئلہ میں یہی ہے کہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں، جیسا کہ خود حضرت کشمیریؒ کے شیوخ حضرت شیخ الہندؓ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، اور مفتی رشید احمد گنگوہیؒ وغیرہ حضرات نے فرمائی ہے۔

چنانچہ حضرت نانوتویؒ فرماتے ہیں کہ تہجد اور چیزہے اور تراویح اور چیز ہے۔    (تصفیۃ العقائد: ص ۴) نیز اپنی ایک اور کتاب میں بھی تراویح اور تہجد کے دو الگ الگ نماز ہونے پر مدلل گفتگو فرمائی ہے، دیکھئے  (الحق الصریح: ص۳؍۴)

 مفتی رشیدا حمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں کہ: نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح دو الگ الگ نماز ہیں۔  (الرأی النجیح: ص۲) پھر آگے مفتی صاحبؒ نے ص ؍۱۰ تک تفصیلی بحث فرمائی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں۔

مزید شیخ الاسلام مولانا محمود الحسن ؒ نے بھی تہجداور تراویح کو الگ الگ قرار دیا ہے۔  (الورد الشذی: ص؍۱۰۵) لہٰذا ان اکابراہلِ سنت کی تحقیق حضرت کشمیریؒ کے قول پر مقدم ہے اور صحیح ور اجح بات یہی ہے کہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہیں۔

سوال:      اہلِ حدیث حضرات سے ہمارا سوال ہے کہ سلف میں سے کون سے فقیہ یا محدث نے حضرت عمرؓ کے اس قول سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک تہجد اور تراویح ایک ہی ہے؟  برائے مہربانی سلفِ صالحین سے بسندِ صحیح حوالہ پیش فرمائیں، ورنہ حق کو تسلیم کریں کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک تہجداور تراویح الگ الگ نماز ہے۔

(۲)      امام المحدثین امامِ بخاریؒ  ۲۵۶؁ھ) کا عمل:

                امام بخاریؒ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے وہ نمازِ تراویح پڑھاتے تھے، اور ہر رکعت میں بیس آیات پڑھتے تھے، یہاں تک کہ قرآن ختم کرتے ، پھر سحر کو (نمازِ تہجد) میں نصف سے لے کر تہائی قرآن تک پڑھتے اور تین راتوں میں ختم کرتے اور دن میں قرآن ختم کرتے (جو )افطار کے وقت ختم ہوتا تھا، اور (یعنی امامِ بخاریؒ) سحر کے وقت تیرہ رکعت (تہجد کی ) پڑھتے اور ایک رکعت وتر کی ہوتی ۔ ( تیسیر الباری: ص ۱۱ج۱)

                 ھدیۃ الساری میں  ہیں کہ ’’امام  محمد بن اسمٰعیل البخاری ؒ  جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے وہ نماز پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھتے یہاں تک کہ قرآن کو ختم کرتے پھر سحر کو نصف سے لے کر تہائی قرآن پڑھتے، اور تین راتوں میں ختم کرتے، اور دن کو ایک ختم کرتے اور افطار کے وقت ختم ہوتا ، اور کہتے تھے کہ ہر ایک ختم کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، اور سحر کے وقت تیرہ رکعت پڑھتے ایک رکعت وِتر کی ہوتی۔‘‘  ( ھدیۃ الساری لا بن حجر: ص۵۰۵)

اعتراض :    اہلِ حدیث عالم حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ :  امام بخاری ؒ سے بسندِ صحیح تراویح اور تہجد کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، ھدیۃ الساری کا حوالہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔  (تعدادِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص۱۰۶)

الجواب:     شعب الایما ن للبیہقی میں امامِ بیہقیؒ نے ھدیۃ الساری کے قول کی سند پیش فرمائی ہے :

’’ أخبرنا أبو عبد اللہ الحافظ، أخبرنی محمد بن خالد المطوعي، حدثنا مسیح بن سعید، قال (کان) محمد بن اسماعیل البخاری ۔‘‘   (شعب الایمان للبیہقی : ص۵۲۴؍۵۲۵ج ۳ِ  ، تاریخِ بغداد) اسکین  ملاحظہ فرمائے :





اور شعب الایمان کے محقق حاشیہ میں تحریر کرتے ہیں کہ اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔  لہٰذا زئی صاحب کا اعتراض باطل و مردود ہے ۔

(۳)      الامام الحافظ المحدث ابو محمد اصفہانیؒ (م۴۴۶؁ھ) کا عمل:

                امام ابو محمد اصفہانی ؒ جو کہ امامِ خطیب بغدادیؒ کے استاذ ہیں، ان کے بارے میں منقول ہے کہ ’’أدرک ابن اللبان شھر رمضان من سنۃ سبع وعشرین وأربعمأۃ وھو ببغداد، وکان یسکن درب الآجر من نھر طابق،فیصلی بالناس صلاۃ التراویح فی جمیع الشھر، وکان اذا فرغ من صلاتہ فی کل لیلۃ، لا یزال قائما فی المسجد یصلی حتی یطلع الفجر‘‘  وہ پورے رمضان میں تراویح پڑھاتے تھے، اور ہر روز جب تراویح سے فارغ ہوتے تھے تو مسجد ہی میں نمازِ تہجد پڑھتے رہتے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی تھی۔   (تاریخِ بغداد: ص۱۴۳ج۱۰)

ارشادات سلف و فقہاء و محدثین :

(۵)       امام ابن رشدؒ (م۵۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’وأن التراویح التی جمع علیھا عمر بن الخطابؓ الناس مرغب فیھا، وان کانوا اختلفوا  أی أفضل أھی أو الصلاۃ آخر اللیل؟ أعنی التی کانت صلاۃ رسول اللہ ﷺ، لکن الجمھور علی أن الصلاۃ آخر اللیل أفضل، لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام’’أفضل الصلاۃ صلاتکم فی بیوتکم الا المکتوبۃ‘‘  اور بے شک و ہ تراویح جس پر عمر بن خطابؓ نے جمع کیا اسی کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن علماء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ اوّل رات کی تراویح افضل ہے یا اخیر رات کی نماز(تہجد) افضل ہے، جو اخیرر ات میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تھی۔ جمہور کے نزدیک اخیر رات کی نماز (تہجد) افضل ہے۔  (بدایۃ المجتہد: ص۲۱۰ج ۱)

(۶)          امام ابو اسحٰق الشیرازیؒ  ۴۷۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ویقوم شھر رمضان بعشرین رکعۃ فی الجماعۃ التراویح، ویوتر بعدھا فی الجماعۃ الا ان یکون لہ تھجد، فیجعل الوتر بعدہ‘‘     رمضان کے مہینہ میں جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح پڑھے اور اس کے بعد وِتر پڑھے جماعت کے ساتھ ، اگر اس کا تہجد کا ارادہ ہو تو وِتر تہجد کے بعد پڑھے۔   (التنبیہ للشیرازی: ص۳۴ج؍۱)

یہی بات مختلف الفاظ کے ساتھ ……

(۷)       امام نوویؒ (م۶۷۶؁ھ)[2]    اور

(۸)         امام شرف الدین موسیٰ بن احمد المقدسیؒ (م۹۶۸؁ھ) [3]نے  بھی کہی ہے۔  [4]

 (۹)       امام ابن قدامہ حنبلیؒ (م۶۲۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ثم التراویح وھی عشرون رکعۃ یقوم بھا فی رمضان فی جماعۃ، ویوتر بعدھا فی الجماعۃ، فان کان لہ تھجد جعل الوتر بعدھ‘‘  پھر تراویح بیس رکعت ہے رمضان میں تراویح اور وِتر دونوں جماعت کے ساتھ پڑھے، لیکن تراویح کے بعد تہجد پڑھنے والا آدمی وِ تر تہجد کے بعد پڑھے۔   (المقنع للمقدسی: ص۵۸)

 (۱۰)     امام ابن الحاجؒ (م۷۳۷؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ثم یخرج فیصلی مع الناس ویوتر معھم  …………ثم ینام ما قدر لہ، ثم یقوم لتھجدہ فیصلی ما تیسر لہ ما بقی علیہ من اللیل‘‘  (آدمی کے لئے مناسب ہے کہ ) لوگوں کے ساتھ تراویح اور وِتر پڑھے، پھر سوجائے، اور اُٹھنے کے بعد نمازِ تہجد کے لئے کھڑا ہوجائے۔   (المدخل لابن الحاجؒ : ص۲۹۲ج؍۲)

 (۱۱)      امام ابن الملقّنؒ (م۸۰۴؁ھ) بھی تہجد اور تراویح کو دو الگ الگ نمازیں بتاتے ہیں۔[5]

(۱۲)        الاما م الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ (م۵۶۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’والروایۃ الثانیۃ: أن ذلک جائز غیر مکروہ، لکنہ یؤخرہ لما روی عمرؓ قال: تدعون فضل اللیل آخرہ الساعۃ التی تنامون أحب الیّ التی تقومون‘‘   تراویح کے بعد تہجد کے بارے میں دو قول ہے: ایک یہ کہ تراویح کے بعد کچھ نیند کر کے پھراُٹھ کر تہجد پڑھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تراویح کے بعد بغیر نیند کئے تہجد جائز ہے بلاکراہت۔ (غنیۃ الطالبین: ص۲۶۹)

الغرض جمہور فقہا ء و محدثین اور علماء کا یہی کہنا ہے کہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، اور یہ جو غیرمقلدین حضرات کہتے ہیں کہ تہجداور تراویح ایک ہی نماز ہے، اس پر ان کے پاس کوئی صاف صریح دلیل نہیں ہے، بلکہ صرف قیاس ہے جو کہ  بلا دلیل مردود ہے۔

مزید ہمارے علم کے مطابق سلفِ صالحین میں سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے صراحتاً کہا ہو کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے، اگر اہلِ حدیث حضرات کے پاس ایساکوئی حوالہ سندِ صحیح کے ساتھ ہو تو پیش کریں ، ورنہ اُن کا اپنے مسلکی تعصب کی وجہ سے حق کا انکار کرنا بے کار ہے۔

(۱۳)      اخیر میں امام ابراہیم نخعیؒ (م۹۶ھ؁) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیے:

                امام ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ ’’کان الامام یصلی بالناس فی المسجد، والمتھجدون یصلون فی نواحی المسجد لأنفسھم‘‘ کچھ لوگ امام کے ساتھ مسجد میں نماز (تراویح) پڑھ رہے تھے، اور کچھ لوگ مسجد کے ایک کونے میں تہجد پڑھ رہے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ص۲۳۴ج؍۵،  حدیث نمبر۷۸۰۹ ،صحیح سند)

نوٹ:         اس روایت میں امام اعمشؒ مدلّس ہیں، لیکن ان کی تدلیس قابلِ قبول ہے، کیونکہ وہ طبقاتِ ثانیہ کے مدلّس ہیں۔   (المدلّسین للعراقی: ص۱۰۹ج۱)۔مزید ایک اور سند میں مغیرہ بن مِقسمؒ نے امام اعمشؒ کی متابعت کر رکھی ہے۔

                ’’حدثنا أبو بکر قال: ثنا أبوالأحوص، عن مغیرۃ، عن ابراھیم قال : (کان المتھجدون یصلون فی جانب المسجد والامام یصلی بالناس فی شھررمضان۔  ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ص۲۳۳؍۲۳۴ج؍۵)

الغرض یہ روایت صحیح ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ کے زمانے میں (یعنی سلف کے زمانے میں) بھی تراویح کے علاوہ تہجد کا بھی اہتمام تھا۔

بس اللہ تعالیٰ حق کو قبول اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔  آمین


[1] جن کو علماء نے محدثِ، صالح ، فقیہ، مشہور عالم و فاضل قرار دیا ہے ۔(ذیل التقیید ج۱ص۲۵۸، الدیباج المحجّب ص۳۲۱ج؍۲، حُسن المحاضرہ للسیوطی: ج۱ص؍۴۵۹، الأعلام للزرکلی: ص۲۳ج؍۶)

[2]  امام نوویؒ  کے الفاِظ یہ ہیں ’’(فرع)  اذا استحینا الجماعۃ فی التراویح استحبت الجماعۃ أیضا فی الوتربعدھا، باتفاق الاصحاب، فان کان لہ تھجد لم یوتر معھم بل یؤخرہ الیٰ آخر اللیل‘‘۔(  المجموع للنووی: ص۱۵ج؍۱)

[3] اپؒ کو علماء نے شیخ الاسلام، امام ، علامہ ، محدث، عالم مفتی اور متقی و فقیہ قرار دیاہے، دیکھئے شذرات الذھب: ص۴۷۲ج؍۱۰، الکواکب لنجم الدین:ص۹۳ج؍۳، الاعلام للزرکلی:ص۳۲۰ج؍۷۔

[4] امام شرف الدین موسیٰ المقدسیؒ  کے الفاِظ یہ ہیں :  ’’ووقتھا بعد العشاء وسنتھا قبل الوتر الی طلوع الفجر الثانی، وفعلھا فی مسجد، وأول اللیل أفضل، ویؤتر بعدھا فی الجماعۃ بثلاث رکعات، فان کان لہ تھجد جعل الوتر بعدہ والا صلاہ ‘‘  (الاقناع للمقدسی: ص۱۴۷ج ؍۱)

[5] الفاِظ یہ ہیں : ’’وثلاث نوافل مؤکدۃ: التھجد وھو الصلاۃ باللیل وان قلّ، والضحی وأقلھا رکعتان وأکثرھا ثمان والتراویح وھی عشرون لغیر أھل المدینۃ……‘‘  (التذکرۃ لا ابن الملقّنؒ : ص۲۶ج؍۱)

 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...