غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے تھے۔
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین صاحب
دہلویؒ کے حالات میں لکھاہےکہ رمضان میں صبح سے شام تک درس جاری رکھتے۔رات
بحالت قیام ۲ فعہ قرآن مجید سنتے،ایک دفعہ اول رات تراویح
میں حافظ احمد محدث اور فقیہ سے ۳ پارے ترتیل اور تجوید کے ساتھ سنتے،پھر
نماز تہجد میں اپنے پوتے حافظ عبد السلام سے ایک پارہ روزانہ سنتے۔(نتائج
تقلید : ص ۲۹،بحوالہ
رکعات تراویح ایک تحقیقی جائزہ : ص ۲۴)،اسی
طرح الشيخ
القدوة الإمام العالم المحقق الفقیہ الحافظ علي بن عبد الله أبو الحسن الزيات
الكلبي، إشبيليؒ(م۶۷۳ھ) بھی تراویح کے بعد
تہجد بڑھتے تھے جیسا کہ ان کے شاگرد الشيخ ،العمدة، العالم ،المحقق، الفاضل،ا لصالح،
المحدث، البارع، الناسك، صاحب بهجة النفوس،إمام أبو محمد بن أبي جمرةؒؒ
ؒ(م۶۹۵ھ)
نے فرمایا ہے ۔اور خد امام ابو محمد بن
أبي جمرةؒ (م۶۹۵ھ)
بھی تراویح کے بعد تہجد بڑھتے تھے جیسا کہ
ان کے شاگردامام ابن الحاج ؒ (م۷۳۷ھ) فرماتے ہیں۔(المدخل
لابن الحاج : ج۲ : ص
۲۹۱-۲۹۲) اور زبیر علی زئی صاحب کے
اصول کے مطابق امام ابن الحاج ؒ بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھنےکےقائل ہے ۔ (انوار
الطریق صفحہ ۸) اورحضرت
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (جن کو غیر مقلدین اہل حدیث قرار دیتے ہیں) حدیث
عائشہؓ کے بارمیں تحریر کرتے ہیں کہ’ حضرت عائشہؓ جس نماز کا ذکر کر رہی ہےاس
سے مراد تہجد کی نماز ہےجورمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔اس کو صلاۃ اللیل
کہتے ہے۔لیکن تراویح کی نماز اس کے علاوہ ہے کہ محدثین کرام کے عرف میں اسے قیام
رمضان کہتے ہیں‘۔(حاشیہ مالابدہ منہ: ص ۷۸) لیجئے بقول غیر مقلدین کہ
اہل حدیث عالم شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
ؒکے نزدیک بھی تراویح اور تہجد کو ’۲ ‘الگ
الگ نماز ے ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں